Author: عارف حسین

  • دسمبر: ہجر، اداسی، یادیں اور شاعری

    دسمبر: ہجر، اداسی، یادیں اور شاعری

    کہنے کو تو دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے، لیکن اس نے جو معنی پہنے، جو مفہوم اوڑھا، اس کی تفصیل کے لیے دفتر چاہیے۔

    یخ بستہ ہوائیں، خنک شامیں اور یادیں دسمبر کا امتیاز ہیں۔ سال کا یہ آخری مہینہ نجانے کب جدائی اور ہجر کا استعارہ بنا ہو گا، کیوں‌ اسے یادوں سے جوڑا اور کب یاسیت اور افسردگی سے نتھی کیا گیا ہو گا۔

    یوں‌ تو سبھی دسمبر سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، لیکن اردو شعرا نے خاص طور پر اپنی تخلیقات میں‌ دسمبر سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

    آئیے، 2019 کے اس دسمبر کو شاعری کے قالب میں‌ دیکھتے ہیں۔

    امجد اسلام امجد کی نظم "آخری چند دن دسمبر کے” پڑھیے

    ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
    خواہشوں کے نگار خانے میں
    کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
    رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
    ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
    فون کی ڈائری کے صفحوں سے
    کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
    جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
    اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
    کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
    رینگتی بدنما لکیریں سی
    میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
    دوریاں دائرے بناتی ہیں
    دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
    مشعلیں درد کی جلاتے ہیں

    خالد شریف کے اشعار

    کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
    کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
    ذرا سی دیردسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
    یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں

    یہ شعر ملاحظہ ہو

    یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
    تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا

    اور دسمبر میں کسی امید پر ایک دستک، ایک آہٹ پر بے تاب ہو جانے والے شاعر کی یہ کیفیت دیکھیے

    دسمبر کی شبِ آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
    یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا

    جب کسی کے سامنے خود کو بکھرا ہوا اور شکستہ نہ ثابت کرنا ہو تو اس شعر کا سہارا لیا جاسکتا ہے

    مجھے کب فرق پڑتا ہے دسمبر بیت جائے تو
    اداسی میری فطرت ہے اسے موسم سے کیا لینا

    وہ دسمبر کی آخری اور نامہربان شام تھی جب عبدالرحمان واصف نے جنوری کے نام ایک پیام پڑھا، ان کی یہ نظم پڑھیے

    جنوری مبارک ہو

    ڈوبتے دسمبر کی
    ناتمام کرنوں نے
    شام کے سرہانے پر
    چند پھول رکھے ہیں
    دل نشین لہجوں کے
    دل فگار باتوں کے
    دل فریب لمحوں کے

    یہ پیام بھیجا ہے
    دل نشین چہروں کو
    دل فریب لہجوں کو
    دل نواز لوگوں کو
    زندگی مبارک ہو
    جنوری مبارک ہو
    آنے والے وقتوں کی دوستی مبارک ہو!

  • سیمنٹ فیکٹری کا ملازم عبداللہ حسین

    سیمنٹ فیکٹری کا ملازم عبداللہ حسین

    عبداللہ حسین کا نام اردو ادب میں بطور فکشن نگار ہمیشہ زندہ رہے گا۔

    اداس نسلیں اور باگھ جیسے مقبول ناولوں کے خالق 84 سال کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ ان کے تخلیقی سفر کی ابتدا اور قلم سے تعلق کی کہانی بہت دل چسپ ہے۔ یہ قصہ انھوں‌ نے ایک علمی اور ادبی محفل میں حاضرین کے سامنے یوں بیان کیا تھا۔

    مجھے پہلی ملازمت ملی اور میں کام پر گیا تو وہاں روزانہ چھے، آٹھ گھنٹے ایسے ہوتے تھے، جن میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔

    یہ بات جان لیں کہ جہاں سیمنٹ فیکٹری ہوتی ہے، وہ ایک مکمل سنگلاخ یا پہاڑی علاقہ ہوتا ہے اور ایسا ویران کہ عام طور پر درخت تک نہیں ہوتے۔ چند دن یونہی گزر گئے، پھر میں نے سوچا کہ کچھ لکھنا چاہیے، لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ کہانی لکھوں۔ کہانی شروع کی اور کہانی چلی تو چلتی چلی گئی اور مجھے لگا کہ میں نے ایک مصیبت گلے میں ڈال لی ہے، خیر میں نے سوچا کہ دیکھتے ہیں یہ کہاں تک جاتی ہے اور وہ بڑھتے بڑھتے سیکڑوں صفحوں پر پھیل گئی۔ جب اسے پڑھا اور دیکھا تو خیال ہوا کہ یہ تو ناول سا بن گیا ہے اور اچھا بھی لگ رہا ہے۔

    لاہور میں چار جاننے والوں سے بات کی تو انھوں نے کتابیں چھاپنے والے ادارے کا بتایا۔ میں نے جا کر ناول ان کو دے دیا، انھوں کہا چند ہفتوں میں بتاتے ہیں کہ چھاپیں گے یا نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چند ہفتوں بعد معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ ناول تو ٹھیک ہے اور ہم چھاپیں گے بھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی جانتا نہیں۔ اس لیے پہلے آپ کچھ کہانیاں لکھ کر دیں، ہم انھیں چھاپیں گے، اس طرح لوگ آپ کو جاننے لگیں گے اور پھر ہم اس ناول کو چھاپ دیں گے۔

    میں نے انھیں کہانی لکھ کر دی۔ یہ کہانی ‘‘ندی’’ کے نام سے ان کے رسالے سویرا میں چھپی۔ اس کے بعد میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ اور کہانی کب دینی ہے تو انھوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو اور لکھیں، نہ چاہیں تو نہ لکھیں۔ ناول کی اشاعت کے لیے جتنی پہچان چاہیے وہ تو اس ایک کہانی نے ہی آپ کو دلا دی ہے۔ اس طرح ناول چھپ گیا۔

    یہ بات تو بعد میں پتا چلی کہ جب میں انھیں ناول دیا تو انھوں نے اسے حنیف رامے، محمد سلیم الرحمٰن اور صلاح الدین کو پڑھنے کے لیے دیا اور انھوں نے رائے دی تھی کہ ناول اچھا ہے، اسے چھپنا چاہیے۔

    اپنے انگریزی ناول کے بارے میں انھوں بتایا کہ جب وہ لندن گئے اور وہاں ایک بار لے لیا تو ان لوگوں کے بارے میں لکھنے کا سوچا جو ہمارے ہاں سے غیر قانونی طور پر جاتے ہیں اور پھر وہاں چھپ کر رہتے ہیں۔

    لندن میں ان کے بار میں ایسے لوگ بھی آتے تھے جن کا ادب، آرٹ اور فلم وغیرہ سے تعلق تھا۔ انھوں نے بتایا، ایک نوجوان ڈائریکٹر، جو خاصا نام بنا چکا تھا، اس نے ایک رسالے پر میری تصویر دیکھی تو پوچھا کہ یہ تصویر کیوں چھپی ہے، میں نے اسے بتایا کہ یہ ادبی رسالہ ہے اور میں ادیب ہوں۔

    اس نے یہ سنا تو مجھ سے میری تخلیقات اور موضوعات کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میں نے بتایا کہ ان دنوں ایک ناولٹ بھی لکھ رہا ہوں۔ اس کے پوچھنے پر میں نے مختصراً کہانی بھی بتا دی۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے ایک صفحے کا سناپسس لکھوایا اور فلم ساز کے پاس لے گیا۔ اسے کہانی پسند آئی اور یوں اس پر فیچر فلم بن گئی۔

  • اردو صحافت محض صحافت نہیں، کلچر کی مظہر و ترجمان ہے

    اردو صحافت محض صحافت نہیں، کلچر کی مظہر و ترجمان ہے

    ہر زبان کی طرح اردو کے بھی بڑے نقیب اس زبان کے اخبار ہیں جس خطۂ ملک میں بھی وہ نکل رہے ہوں۔

    حیدرآباد دکن کی صحافت ایک زمانے میں بہت پست اور بالکل مبتدیوں کے درجہ کی تھی۔ راہ نمائے دکن اب دکن کا ایک معروف و مقبول روزنامہ ہے۔ سب سے پہلے اس نے اپنے نقشِ اوّل، رہبرِ دکن کے نام سے معیارِ حال کے مطابق روزنامہ نکالا اور جہاں تک مسلمانوں کی نمائندگی کا تعلق ہے، اپنی سنجیدگی، معقولیت، میانہ روی اور اسلامیت کا نقش دوسروں کے دل پر بٹھائے ہوئے ہے۔

    دوسرا قابلِ ذکر روزنامہ سیاست نظر پڑا اور اس کے مدیر و سَر دبیر عابد علی خاں سے بھی نیاز حاصل رہا۔ خاصا سنجیدہ، معقول پرچہ ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ اپنا ظریفانہ کالم خوب سنبھالے ہوئے ہے، ورنہ لوگ ظرافت اور توہین، دل آزاری اور پھکڑ پن کے درمیان فرق ہی نظر انداز کرجاتے ہیں۔

    ایک تیسرا مقبول و کثیر الاشاعت روزنامہ ملاپ کے نام سے دیکھنے میں آیا۔ یہ دلی و جالندھر کے مشہور روزنامہ ملاپ کا حیدرآبادی ایڈیشن ہے اور مسلمانوں کی دل آزاری کے بغیر کام یابی سے نکل رہا ہے۔ ایڈیٹر شری یدھ ویر ہیں۔

    جو پرچے اکثریت کے ہاتھ میں ہیں انھیں اپنے قلم کی ذمے داری کا خاص طور پر احساس رکھنا ہے، ملکی بناؤ بگاڑ دونوں بڑی حد تک انہی کے قلم کی روش سے وابستہ ہے۔

    اردو صحافت محض اردو زبان کی صحافت نہیں بلکہ اردو کلچر کی مظہر و ترجمان ہے۔ اردو محض ایک زبان کا نام نہیں اردو کلچر یا تہذیب خود ایک مستقل چیز ہے اور اس کی جِلا صرف ایک لفظ، شرافت میں مضمر ہے۔

    (ممتاز عالم اور ادبی شخصیت مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی یادیں۔ انھوں نے 1963 میں حیدر آباد دکن میں چند روز قیام کیا اور وطن واپسی پر اپنی یادیں سپردِ قلم کی تھیں۔ یہ سطور ان کے مختصر سفر نامے سے لی گئی ہیں)

  • کراچی: پبلک ٹرانسپورٹ اور روٹ پرمٹ کی کہانی!

    کراچی: پبلک ٹرانسپورٹ اور روٹ پرمٹ کی کہانی!

    سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے۔ یہ ہم سنتے آئے ہیں، لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بات کی جائے تو یہاں بسوں میں سفر کرنا اذیت ناک ہے۔

    ایک طرف تو کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی ہے۔ دوسری جانب خستہ حال بسیں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے شہریوں کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ اسی طرح سی این جی کی بندش کے دوران لوگ پریشان نظر آتے ہیں. کراچی سرکلر ریلوے، گرین لائن بس پروجیکٹ اور ایسے متعدد منصوبے یا تو اعلانات اور کاغذات تک ہی محدود ہیں یا پھر سست روی اور غفلت کی نذر ہو رہے ہیں۔

    ایک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق کراچی کی ریجنل اتھارٹی نے شہر بھر میں مختلف بسوں اور کوچز کے روٹ غیر مؤثر کر دیے ہیں۔ اس کی وجہ مقررہ روٹس پر پرمٹ تمام ہو جانا ہے۔ ایسی بسوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ جب کہ کوچز کی تعداد 50 بتائی گئی ہے۔

    کیا ہے یہ روٹ پرمٹ؟
    سادہ زبان میں کسی مسافر گاڑی کا مخصوص گزر گاہوں پر رواں دواں رہنے کا اجازت نامہ ہی روٹ پرمٹ ہے جو متعلقہ اداوں کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔ اس کی باقاعدہ فیس وصول کی جاتی ہے جو صوبائی حکومت کے خزانے میں جمع ہوتی ہے۔ یہ روٹ پرمٹ ختم ہو جائے تو ایسی پبلک ٹرانسپورٹ کے روٹ غیرمؤثر قرار دیے جاتے ہیں۔

    ماہرین کیا کہتے ہیں؟
    اس حوالے سے صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی اور غفلت کی وجہ سے جامع اور مربوط نظام نظر نہیں آتا جب کہ ماہرین کی نظر میں اس سلسلے میں باقاعدہ سروے کر کے معلومات اکٹھی کرنا ضروری ہے۔ اسی کے ذریعے ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ماہرین کے مطابق دنیا کے تمام بڑے شہروں میں معیاری سفری سہولیات کی وجہ ایک جامع اور مضبوط سسٹم ہے جس کے تحت شہر کی سڑکوں پر ذرایع نقل و حمل اور آمدورفت کے حوالے سے عوام کی مشکلات دور کرنا آسان ہوتا ہے۔

    شہریوں کی بھی سنیے!
    ٹریفک کے نظام میں بہتری، سڑکوں کو کشادہ اور ان کی حالت بہتر بنانا اور پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد بڑھانے کے علاوہ موجودہ ٹرانسپورٹروں کو قانونی تقاضے پورے کرنے پر آمادہ کرنا اور پابند بنانا ایک عام شہری کا کام تو نہیں ہے۔ حکومت اور انتظامیہ ہی اس مسئلے کو حل کرسکتی ہے، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔

    سنجیدہ و باشعور شہریوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومتِ سندھ کی عدم توجہی محض ایک تاثر نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اس سلسلے میں شہری امور کے ماہرین کوتاہیوں، خامیوں اور غفلت سے متعلق حقائق اور اعداد و شمار سامنے لاتے رہے ہیں اور میڈیا نے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔

    کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مطلوبہ اسٹاپ پر اترنے کے بعد آئینہ دیکھیں تو اپنی ہی صورت پہچانی نہیں جاتی۔ یوں لگتا ہے کہ کسی محاذِ جنگ سے واپسی ہوئی ہے۔

    طلبا اور دفاتر میں کام کرنے والوں کی اکثریت شہر میں بسوں کی کمی کے ساتھ اب گیس کی بندش کی وجہ سے پریشان ہے اور انہی حالات میں بسوں کے روٹ پرمٹ کے حوالے سے خبر بھی سامنے آگئی ہے۔ ٹریفک حکام اس حوالے سے بس مالکان کو قانونی تقاضے پورے کرنے کا پابند ضرور کریں، مگر شہریوں‌ کا کہنا ہے کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ سڑکوں سے مزید پبلک ٹرانسپورٹ غائب نہ ہو۔

  • غالب کون ہے؟

    غالب کون ہے؟

    لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
    مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

    مرزا غالب کا کلام، ان کے اشعار آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔ غالب ہر عمر اور طبقے میں یکساں مقبول ہیں اور غالب کو پڑھنے کے ساتھ ان کے کلام اور ان کی نثر کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے، نوجوان اور نئے پڑھنے والے غالب پر مباحث میں‌ دل چسپی لیتے ہیں۔

    آئیے مرزا غالب کے یومِ پیدائش پر ان کی زندگی کی کتاب کے چند اوراق الٹتے ہیں۔

    خاندان اور غالب کی نجی زندگی
    والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ یہ خاندان آگرہ کے ایک محلے میں رہتا تھا۔ 27 دسمبر1797 کو عبداللہ بیگ کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسد اللہ بیگ رکھا گیا۔

    زندگی کے چند برس ہی والد کی شفقت اور پیار نصیب ہوا۔ وہ ایک جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور یوں غالب کم عمری میں یتیم ہو گئے۔

    پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے اٹھا لی، لیکن غالب آٹھ سال کے تھے کہ چچا بھی فوت ہو گئے۔ یوں بچپن محرومیوں اور مشکلات میں کٹ گیا۔

    شادی اور پریشانیاں

    13 سال کی عمر میں اسد اللہ کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد آبائی وطن چھوڑ کر دہلی میں سکونت اختیار کرلی۔

    اب زندگی اور ضروریات کا تقاضا اور تھا۔ شادی کے بعد اخراجات اور مالی مسائل بڑھ گئے۔ مے نوشی نے بھی مشکلات سے دوچار کیا اور غالب مقروض ہو گئے۔

    مالی پریشانیوں نے مجبور کیا تو شاہی دربار میں ملازمت کی کوشش کی۔ تذکروں میں لکھا ہے کہ انھیں تاریخ لکھنے پر مامور کیا گیا۔

    بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب دیا۔ اسی کے ساتھ وظیفہ مقرر ہوا۔

    غدر اور مرزا کی پنشن
    غدر کے بعد مرزا غالب کو ایک مرتبہ پھر مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو جو پنشن ملتی تھی وہ بند ہو گئی۔ گزر بسر مشکل اور قرض خواہوں کے تقاضے بڑھ گئے۔

    1857 کے بعد نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور تک کسی طرح احوال پہنچایا تو انھوں نے سو روپے ماہ وار باندھ دیے۔ کہتے ہیں مرزا غالب یہ وظیفہ تادمِ مرگ پاتے رہے۔

    مرزا غالب اور شاعری
    ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

    یہ بات کسی قدر عجیب تو ہے کہ اسد اللہ خاں غالب جو خود فارسی کو اردو کلام پر ترجیح دیتے تھے، ان کی وجہِ شہرت اردو شاعری ہے۔ آج وہ دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں اور اردو زبان کے عظیم شاعر کہلاتے ہیں۔

    مرزا غالب کو اردو اور فارسی شاعری میں یدِطولیٰ حاصل تھا جب کہ ان کی نثر بھی کمال کی ہے۔ مرزا غالب کے خطوط اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

    غالب کی شاعری کو موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے گویا ایک جہان آباد ہے۔ وہ دنیا دار بھی ہیں، عاشق مزاج اور رندِ بلا نوش بھی۔ خدا پرست اور شاکی بھی۔ درویش اور فلسفی ہی نہیں مرزا غالب شوخی اور ظرافت میں بھی آگے ہیں۔

    غالب کی ژرف نگاہی کے ساتھ ان کی سادہ بیانی ہی ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ یہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی ہے۔

    وفات
    15 فروری 1869 کو یہ سخن وَر ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گیا تھا، مگر اس کے اعجازِ سخن کا چرچا آج بھی ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ دہلی میں‌ غالب کا مقبرہ اب ان کی ایک یادگار ہی نہیں بلکہ زندگی کے درد و غم، مصائب و آلام جھیلتے ہوئے مہربان نیند کو خوش آمدید کہنے پر مجبور انسان کی حقیقت بھی ہم پر عیاں‌ کرتا ہے.

  • 1845: ناروے کے مشہور شاعر کا خط اور لفظ اللہ

    1845: ناروے کے مشہور شاعر کا خط اور لفظ اللہ

    ہینرک ورگیلینڈ کی وجہِ شہرت تو شاعری ہے، مگر اسے بہ طور ڈراما نگار، ماہرِ لسانیات اور مؤرخ کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    ہینرک ورگیلینڈ کا وطن ناروے ہے۔ اپنے وقت کے اس باکمال شاعر اور معروف تخلیق کار نے زندگی کی صرف 37 بہاریں ہی دیکھیں۔ مختصر زندگی پانے والے ہینرک کا نام اس کی فکر اور فن کے منفرد اظہار کے باعث شہرت کے آسمان پر خوب چمکا۔ ناروے میں اس تخلیق کار کو ادبی ورثے اور جدید کلچر کے درمیان ایک پُل تصور کیا جاتا ہے۔ اس شاعر کا سن پیدائش 1808 ہے۔

    ہینرک ورگیلینڈ کے تعارف کے ساتھ اسی لکھاری سے متعلق ہم آپ کو ایک حیران کُن بات بھی بتارہے ہیں۔

    17 مئی 1845 کو ہینرک کا ایک خط اس کے والد کو ملا جس کی عبارت میں ایک جگہ لفظ ‘‘اللہ’’ بھی لکھا ہوا تھا اور وہ بھی عربی رسم الخط میں۔

    اس خط کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ناروے کے اس مشہور شاعر کے مذہبی رجحان یا کسی طرح اسلام کی جانب جھکاؤ کی بحث چھڑ گئی۔ تاہم اس وقت تک ہینرک دنیا سے جا چکا تھا۔ اس لیے کوئی اس کی وضاحت نہ کرسکا۔

    ادبی دنیا اور احباب میں اس لفظ‌ کے حوالے سے ہینرک کی زندگی اور اس کے افکار کو کھوجتے ہوئے قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں۔ پھر اس معاملے نے وقت کی گرد اوڑھ لی۔

    اس زمانے کے محققین نے ہینرک ورگیلینڈ کے دیگر مکتوبات اور مختلف مسودوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ ہمیشہ اپنے خطوط کے آخر میں God bless you لکھا کرتا تھا۔

    محققین کے مطابق دست یاب خطوط اور مسودوں میں کہیں بھی اسمِ ذات یعنی ‘‘اللہ’’ تحریر نہیں تھا۔

    ناروے کے اس عظیم تخلیق کار کا جو خط یہاں زیرِ بحث ہے، اس کی یہ سطر ہینرک کے مذہبی رجحان پر مباحث کو جنم دینے کا سبب تھی۔

    میں ایک مؤحد، اللہ کے سچے عبادت گزار کی حیثیت سے مروں گا۔

    اسکالرز اور ادبی محققین کی اکثریت اس پر متفق ہوئی کہ یہ خط مذاہب سے متعلق ہینرک کے وسیع مطالعے اور طرزِ تحریر میں انفرادیت کا عکاس ہے۔

  • پروین شاکر: ماہِ تمام میں‌ بسی ہوئی خوش بُو

    پروین شاکر: ماہِ تمام میں‌ بسی ہوئی خوش بُو

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے ساتھ 1994 تک اس نے زندگی کا سفر جاری رکھا اور جب یہ کتابِ زیست بند ہوئی تو ‘‘ماہِ تمام’’ ہمارے سامنے تھی۔

    آج پروین شاکر کی برسی ہے۔ اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں یہ نام شاید رومانوی موضوعات کی وجہ سے زیادہ مقبول ہے، لیکن ادبی دنیا میں پروین شاکر کی شاعری کو نسائی جذبات اور عصری شعور کی وجہ سے بہت سراہا گیا۔

    انھوں‌ نے کم عمری ہی میں باذوق حلقے کو اپنے کلام سے متوجہ کر لیا تھا اور ان کی شہرت آج بھی برقرار ہے۔

    وہ 26 دسمبر کو ایک ٹریفک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ ان کی عمر 42 سال تھی۔

    ہر سال پروین شاکر کی برسی کے موقع پر علم و ادب کے شائق نہ صرف انھیں یاد کرتے ہیں بلکہ ادب دوست حلقے اور مداح خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں پروین شاکر کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کا کلام پڑھا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہر سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    منشی محمد دین فوق کی تصنیف وجدانی نشتر میں اورنگ زیب عالم گیر کا ایک واقعہ ملتا ہے جو مغل دور کے حالات کی ایک جھلک ہے۔

    وہ لکھتے ہیں کہ خاندانِ مغلیہ کے نام ور حکم راں اورنگ زیب عالم گیر نے ایک مرتبہ حکم جاری کیا کہ تمام رقاص اور گانے بجانے والی عورتیں فلاں تاریخ تک نکاح کرلیں ورنہ انھیں کشتی میں بھر کر دریا بُرد کردیا جائے گا۔ بادشاہ کا حکم جاری ہوا اور منادی کی گئی تو اس زمانے کی بہت سی مغنیہ اور اس پیشے سے جڑی عورتوں نے نکاح کر لیے، مگر کئی رہ گئیں۔ یہاں تک کہ حکم کے مطابق وہ تاریخ سَر پر آگئی جب سپاہی آتے اور ایسی عورتوں کو دریا میں پھینک آتے۔

    اس زمانے کے ایک بزرگ شیخ کلیم اللہ دہلوی تھے۔ ایک طوائف پابندی سے ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتی تھی۔ آپ وظائف سے فارغ ہوتے تو وہ بزرگ کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی اور توجہ پاکر سلام کرتی اور فوراً ہی چلی جاتی۔ حکم پر عمل کرنے کی مقررہ تاریخ میں ایک روز باقی تھا۔ وہ اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سلام کرنے کے بعد عرض کی کہ خادمہ کا آخری سلام قبول کیجیے۔ اس پر شیخ نے حقیقتِ حال دریافت فرمائی۔ طوائف نے بزرگ کو متوجہ پایا تو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ نے ہدایت دی کہ حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کر لو۔
    در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ دادند
    گر تو نمی پسندی تغیر کن قضارا
    (ترجمہ: نیک نامی کے کوچے میں ہمیں نہیں جانے دیا گیا، اگر تُو یہ پسند نہیں کرتا تو قضا کو بدل دے)

    بزرگ نے اس کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ مقررہ دن دریا کی طرف جاتے ہوئے سب مل کر بلند آواز سے یہ شعر پڑھنا۔ کہتے ہیں اگلے روز جب ایسی عورتوں کو دریا کی طرف لے جایا جانے لگا تو انھوں نے یہ شعر سوز و رقت سے باآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک سماں سا بندھ گیا تھا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور راستوں پر جمع ہوگئے۔ حکم کی تعمیل کا دن تھا اور اس حوالے سے بادشاہ کو مطلع کردیا گیا تھا۔ اورنگ زیب کے ایک درباری نے یہ بات انھیں بتا دی۔

    بادشاہ اس سے متاثر ہوا اور وہی شعر پڑھتے ہوئے ان عورتوں کے دریا بُرد کیے جانے کا حکم منسوخ کردیا۔

  • کالا پانی اور اردو ادب کے مشہور زنداں‌ نامے!

    کالا پانی اور اردو ادب کے مشہور زنداں‌ نامے!

    برطانوی راج اور انگریزوں کے ہندوستان پر تسلط کے خلاف تحاریک اور قلم کے ذریعے ہندوستان کی آزادی کا پرچار کرنے کی پاداش میں اس زمانے کی کئی اہم اور نابغۂ روزگار شخصیات نے قید و بند کا بھی سامنا کیا اور اس کی روداد رقم کی۔

    اردو ادب میں اس دور میں لکھے گئے متعدد زنداں نامے مشہور ہیں۔ قید و بند کی یہ داستانیں نہ صرف دل کش اور پُرلطف ہیں بلکہ یہ سامانِ عبرت بھی ہیں۔ ایسی ہی چند مشہور اور لائقِ مطالعہ کتب کا یہ تذکرہ آپ کی توجہ اور دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    اردو ادب کا ادنیٰ قاری بھی ‘‘کالا پانی’’ سے ضرور واقف ہو گا جہاں انگریز دور کے باغیوں اور مخالفین کو سزا کے طور پر بھیج دیا جاتا تھا۔ اس موضوع پر پہلی کتاب مولانا محمد جعفر تھانیسری نے لکھی تھی۔ اس کا نام ہی کالا پانی تھا۔ یہ کتاب انھوں نے 1885 میں لکھی تھی۔ وہ فرنگی اقتدار کے خلاف لڑی گئی جنگ کا ایک اہم کردار بھی تھے۔ انھوں نے اس کتاب میں انگریز کے جبرو استبداد کی داستان رقم کی ہے اور مجاہدینِ حرّیت اور آزادی کے لیے قربانیوں کا نقشہ کھینچا ہے۔

    اس زمانے میں کالا پانی خوف ناک اور بدترین مقام کے طور پر مشہور تھا اور اسی نام سے زیادہ تر کتب مشہور ہیں۔

    ہندو مہا سبھائی لیڈر بھائی پر مانند نے بھی جزیرہ انڈمان میں قید و بند کے حالات اسی نام سے رقم کیے ہیں۔ اس کتاب میں بھی فرنگی دور کے مظالم اور ہندوستانی قیادت کی تحریک اور قربانیوں کے تذکرے پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    مولانا حسرت موہانی ایک باکمال نثر نگار، شاعر اور جید صحافی اور ہندوستان میں اس دور کا ایک متحرک نام بھی ہے جنھوں نے 1908 میں الہٰ آباد جیل میں اپنے شب و روز کی وارداتوں کو رہائی کے بعد رقم کیا۔ ان کی کتاب ‘‘مشاہداتِ زنداں’’ کے نام سے سامنے آئی۔

    مولانا محمود حسن دیو بندی کو گرفتار کر کے انگریزوں نے جزیرہ مالٹا میں قید کیا تو وہاں ان کے شاگرد مولانا حسین احمد مدنی بھی موجود تھے۔ انھوں نے‘‘سفرنامۂ اسیرِ مالٹا’’ کے عنوان سے قید کی مصیبت اور آفات کو تحریری شکل دی۔ اسے بھی اردو ادب کا اہم زنداں نامہ شمار کیا جاتا ہے۔

    زعیم الاحرار چوہدری افضل حق نے اپنی آپ بیتی ‘‘میرا افسانہ’’ کے نام سے لکھی ہے جس میں جیل سے متعلق تاثرات بھی ناقابلِ فراموش اور عبرت ناک ہیں۔ اس کے علاوہ انہی کی ایک اور کتاب ‘‘دنیا میں دوزخ’’ بھی جیل سے متعلق ہے۔

    ممتاز صحافی اور طنز نگار ابراہیم جلیس نے قیامِ پاکستان کے ابتدائی زمانے میں کراچی سینٹرل جیل میں اسیری کاٹی۔ اس کی روداد انھوں نے ‘‘جیل کے دن اور جیل کی راتیں’’ کے عنوان سے رقم کی ہے۔
    اسی طرح حمید اختر کی ‘‘کال کوٹھڑی’’ اور عنایت اللہ کی کتاب ‘‘اس بستی میں’’ اسیری کے دنوں کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔

    معروف شاعر اور لازوال گیتوں کے خالق ریاض الرحمٰن ساغر نے اسیری سے متعلق کتاب ‘‘سرکاری مہمان خانہ’’ لکھی۔

    مجلسِ احرارِ اسلام کے آغا شورش کاشمیری جنگِ آزادی کے جیالوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ زندگی کے مختلف ادوار میں پسِ زنداں رہے۔ اسی قید کی روداد ‘‘پسِ دیوار زنداں’’ کے نام سے ان کےبلاشبہ ایک وقیع اور باوقار کتاب ہے جسے پوری دل چسپی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔

    پروفیسر خورشید احمد کی کتاب ‘‘تذکرۂ زنداں’’ ایک دل چسپ اور پُر لطف کاوش ہے جو قید و بند سے متعلق ہے۔

    نعیم صدیقی کی ‘‘جیل کی ڈائری’’ دل کش اور دل آویز ہے۔

  • عبدالمجید تبُون کی حلف برداری، الجزائر اور عوام

    عبدالمجید تبُون کی حلف برداری، الجزائر اور عوام

    شمالی افریقی ملک الجزائر میں عبدالمجید تبُون نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھالیا۔

    ایک ہفتے قبل منعقدہ الیکشن میں وہ اٹھاون فی صد ووٹ حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے تھے۔ تاہم اس الیکشن میں عوامی شرکت کا تناسب صرف چالیس فی صد تھا۔ تبُون ماضی میں ملک کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ الجزائر ان دنوں عوامی احتجاج اور مظاہروں کا سامنا کر رہا ہے اور نومنتخب صدر نے عوامی تحریک کی قیادت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔

    الجزائر یا الجیریا؟
    الجزائر یعنی لام تعریف کے ساتھ شمالی افریقا کا مخصوص علاقہ ہے جہاں عربی زبان بولی جاتی ہے۔ انگریزی زبان میں اس ملک کو الجیریا کہتے ہیں۔ یہ براعظم افریقا میں سوڈان کے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔

    الجزائر کے ہم سایہ ممالک کون سے ہیں؟
    الجزائر یا الجیریا کے شمال مشرق میں تیونس، مغرب میں مراکش، جنوب مغرب میں مغربی صحارا، موریطانیا اور مالی واقع ہیں۔ اس کے جنوب مشرق کی طرف جائیں تو نائجر اور شمال میں بحیرۂ روم واقع ہے۔

    ملک کا رقبہ
    شمالی افریقا کے اس ملک کا رقبہ تقریباً 24 لاکھ مربع میل ہے۔

    الجزائر کی آبادی اور زبان
    اس ملک کی آبادی جاننے کے لیے گزشتہ مردم شماری کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ 3 کروڑ 57 لاکھ نفوس ہیں جو اس ملک کے باشندے کے طور پر خود کو شناخت کرواتے ہیں۔ یہاں کی قومی زبان عربی اور بربر ہے جب کہ مقامی باشندے فرانسیسی بھی بولتے اور سمجھتے ہیں۔

    صدر کے عہدے کی مدت
    الجزائر میں آئین کے مطابق صدر کو ملک کا سربراہ مانا جاتا ہے۔ صدر کو اس عہدے پر پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ صدر ہی ملک کے وزیرِ اعظم کا تقرر کرتا ہے۔ الجزائر میں صدر ہی وزرا کی کونسل اور ہائی سیکیورٹی کونسل کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔

    احتجاجی تحریک اور مظاہرے
    الجزائر میں ان دنوں اصلاحات کا شور ہو رہا ہے۔ عوام حکومت میں شامل سابق صدر کے حامیوں کو نکالنے اور وسیع تر اصلاحات کے لیے سڑکوں پر مظاہروں کے دوران اپنے مطالبات دہرا رہے ہیں۔ ہزاروں افراد نے موجودہ صدر سے بھی حکومت میں شامل بعض شخصیات کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔

    عوام کی جانب سے احتجاج کا یہ سلسلہ رواں سال اپریل میں شروع ہوا تھا۔ اسی عوامی تحریک کے نتیجے میں عبدالعزیز بوتفلیقہ اپنے 20 سالہ اقتدار سے محروم ہوئے تھے اور اب عوام ان کے حامیوں کی حکومت سے مکمل علیحدگی کا مطالبہ کررہے ہیں۔