Author: عارف حسین

  • ماگوئنڈا ناؤ قتلِ عام: وکلا اور 32 صحافیوں کے قاتلوں کو عمر قید کی سزا

    ماگوئنڈا ناؤ قتلِ عام: وکلا اور 32 صحافیوں کے قاتلوں کو عمر قید کی سزا

    دنیا بھر میں سیاسی اختلافات اور قبائلی تنازعات میں انسانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا ہے۔
    ایسا ہی ایک واقعہ فلپائن میں‌ پیش آیا تھا جسے دنیا ‘‘ماگوئنڈا ناؤ قتلِ عام’’ کے نام سے جانتی ہے. یہ اپنی نوعیت کا بدترین سیاسی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ 2009 میں‌ فلپائن کے دارالحکومت منیلا سے لگ بھگ ہزار کلو میٹر دور ایک شہر میں پیش آیا تھا۔ جب وہاں کے ایک بااثر سیاسی خاندان امپاتوان کے حریف قبیلے نے الیکشن کے نتائج کو چیلنج کیا تو انھیں موت کا سامنا کرنا پڑا۔

    یہ فلپائن کے ایک قصبے کے میئر انڈال امپاتوان جونیئر کی قیادت میں ہونے والا قتلِ عام تھا۔ انڈال کے مسلح ساتھیوں نے امپاتون خاندان کے سیاسی حریف اسماعیل منگو داداتو کا سات گاڑیوں پر مشتمل قافلہ روکا اور ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں 58 انسانی جانیں ضایع ہوئی تھیں۔ اسماعیل منگو داداتو کے ساتھ اس روز ان کے حامی وکلا، رشتے دار اور 32 صحافی بھی تھے۔

    عدالت نے اس حوالے سے الزامات ثابت ہونے پر امپاتوان خاندان کی ملزم شخصیات اور دیگر کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ تاہم اس خاندان نے سزا کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرنے کی بات کی ہے۔

    فلپائن میں امپاتوان خاندان کی شخصیات عام طور پر بلامقابلہ منتخب ہوتی رہی ہیں اور انھیں نہایت بااثر سمجھا جاتا ہے۔ 2009 میں قتلِ عام کا یہ بدترین واقعہ دنیا بھر میں میڈیا پر زیرِ بحث آیا تھا۔

  • تعصب یا حبُ الوطنی؟

    تعصب یا حبُ الوطنی؟

    بینجمن بریٹن کو دنیا کا مشہور موسیقار اور لازوال دھنوں کا خالق کہا جاتا ہے۔

    موسیقی اس کا عشق اور اس فن سے اسے محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تخلیق کردہ دھنیں لوگوں کے دلوں میں اتر گئیں اور یادگار ٹھیریں، لیکن اس باکمال آرٹسٹ اور ماہر موسیقار نے وہ دن بھی دیکھا جب اس کی متعدد کاوشیں مسترد کردی گئیں اور ستم یہ ہے کہ وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ اس حوالے سے دریافت کرنے پر تسلی بخش جواب بھی نہیں‌ دیا گیا اور یہ موسیقار آخری سانس تک اس کا سبب نہ جان سکا۔

    یہ 1957 کی بات ہے جب ملکۂ برطانیہ نے ملائیشیا کی آزادی کے پروانے پر اپنی مہر ثبت کی۔ اگست کا مہینہ گویا سَر پر تھا۔ قوم پہلا جشنِ آزادی منانے کے لیے بے تاب تھی۔ کیلنڈر پر جون کی تاریخیں تیزی سے بدل رہی تھیں، مگر نو آزاد ریاست کی حکومت اب تک قومی جھنڈے اور ترانے کا فیصلہ نہیں کرسکی تھی اور اس سلسلے میں فکرمند تھی۔

    بینجمن بریٹن دنیائے موسیقی کا وہ نام تھا جسے اس حوالے سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ حکومت نے اس سے رابطہ کیا اور اس نے جلد ہی ایک دُھن سرکاری نمائندے کے سامنے رکھ دی، مگر اسے سندِ قبولیت نہ ملی۔ اس کا سبب نہیں بتایا گیا بلکہ حکام کی خاموشی حد درجہ پُراسرار معلوم ہو رہی تھی۔ بعد میں بینجمن بریٹن سے مزید دھنیں طلب کی گئیں جو اس نے مکمل کر کے حکام کو تھما دیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ ملائیشیا کا ملّی نغمہ اس کے ایک ہم عصر کی دھن سے آراستہ ہے۔

    یہ راز 1976 میں بریٹن کی موت کے بعد کھلا جب ایک برطانوی محقق نے ملّی نغموں کی تاریخ مرتب کی. معلوم ہوا کہ ملائیشیا کے حکام نے اس موسیقار کی اوّلین دھن کو قومی ترانے کے لیے ناموزوں قرار دے کر متعدد مقامی گیتوں کے ‘‘ٹیپ’’ تھما دیے اور ہدایت کی کہ ایسی دُھن ترتیب دے جو ان سے مماثلت رکھتی ہو۔

    ماہر موسیقار نے یومِ آزادی سے ایک ہفتہ قبل اپنی ترتیب دی ہوئی چند دھنیں حکومتی نمائندے کے سپرد کردیں اور مطمئن ہو گیا، لیکن یومِ آزادی پر پڑھے گئے ترانے کی دھن ایک فرانسیسی موسیقار کی ترتیب دی ہوئی تھی۔ وہ حیران تھا کہ ایسا کیوں‌ ہوا مگر وہ زندگی بھر اس کی اصل وجہ نہیں‌ جان سکا۔

    محققین کے نزدیک اس کا سبب بریٹن کی برطانوی شہریت تھی۔ غالباً حکومت کو بعد میں یہ خیال آیا کہ بینجمن اسی ملک کا باشندہ ہے جس کی غلامی سے وہ ابھی آزاد ہوئے ہیں اور اسی برطانیہ کے ایک موسیقار سے ترانے کی دھن بنوانا کسی بھی وقت موضوعِ بحث بن سکتا ہے۔ قوم شاید اسے قبول نہ کرے اور یوں‌ عجلت میں‌ ایک فرانسیسی موسیقار کی خدمات حاصل کر کے قومی ترانے کی دھن بنوائی گئی۔ (تلخیص و ترجمہ: عارف عزیز)

  • جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    شمسُ العلما مولانا نذیر احمد کی نسبت ایک ناواقف آدمی نے ان (سرسیّد) کے سامنے گویا شکایت کرتے ہوئے کہا کہ باوجود مقدور ہونے کے انہوں نے قومی تعلیم میں کچھ مدد نہیں دی۔

    سر سید نے بدمزہ ہو کر ان کے چندوں کی تفصیل بیان کی جو وہ ابتدا سے مدرسے کو دیتے رہے اور جو مقبولیت اور رونق ان کے لیکچروں سے ایجوکیشنل کانفرنس کو ہوئی، اس کا ذکر کر کے کہا۔ یہ شخص ہماری قوم کے لیے باعثِ فخر ہے، اس کی نسبت پھر ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا۔

    الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کی کوششوں کے حوالے سے ایک اور واقعہ رقم کیا ہے۔

    دوستوں کے علاوہ اجنبی اور انجان آدمی، جن سے کچھ وصولی کی امید ہوتی تھی، شاید پہلی ایک آدھ ملاقات میں ان کی باری نہ آتی ہو، ورنہ اکثر صاحبِ سلامت ہوتے ہی سوال ڈالا جاتا تھا اور اس میں کچھ مسلمان ہونے ہی کی تخصیص نہ تھی، بلکہ انگریزوں سے بھی بعض اوقات یہی برتاؤ ہوتا تھا۔

    ایک بار سر سید نے ایک اجنبی مسافر انگریز سے، جو ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا تھا، چندہ طلب کیا۔ اس نے بہت روکھے پن سے جواب دیا۔ آپ کو اس کام کے لیے صرف اپنی قوم سے مانگنا چاہیے۔ سر سید نے کہا۔
    بے شک ہمیں قوم کی پست ہمتی سے غیروں کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑتا ہے، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یہ انسٹیٹیوشن بغیر انگریزوں کی اعانت کے قائم ہو گیا تو ان کے لیے اس سے زیادہ ذلت کی بات نہ ہو گی کہ ہندوستان کی حکومت سے بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں، مگر ہندوستانیوں کی بھلائی کے کاموں میں مطلق شریک نہیں ہوتے۔
    وہ انگریز یہ سن کر شرمندہ ہوا اور بیس روپے سر سیّد کو بطور چندہ دے دیا۔

  • 1920: نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    1920: نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک تاریخی حیثیت کی حامل درس گاہ ہے جس کی بنیاد انگریز دور میں اس وقت کی نہایت قابل، باصلاحیت شخصیات اور جذبۂ حریت سے سرشار علما اور بیدار مغز راہ نماؤں نے رکھی تھی۔ یہ صرف مسلمان قیادت نہ تھی بلکہ گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسی شخصیات نے بھی اس میں اپنا حصّہ ڈالا تھا۔

    یہ یونیورسٹی 1920 کی یادگار ہے جسے علی گڑھ میں قیام کے صرف پانچ برس بعد یعنی 1925 میں دہلی منتقل کر دیا گیا۔ تقسیم کے بعد ہندوستانی سرکار نے اسے قانونی طور پر یونیورسٹی کا درجہ دے کر مل کی بڑی درس گاہوں میں شمار کیا۔

    علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھنے والوں میں مولانا محمود حسن دیوبندی، محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبد المجید خواجہ اور ذاکر حسین کے نام سرِفہرست ہیں جو اپنے وقت کی انتہائی قابل شخصیات اور آزادی کے متوالے شمار ہوتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام اس زمانے میں تحریکِ حریت کو آگے بڑھانے کے سلسلے کی ایک کڑی بھی تھا۔ یہ ادارہ اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ یہاں سے نکل کر عصری علوم میں یگانہ اور اسلامی ذہن و فکر کی حامل شخصیات معاشرے کا حصّہ بنیں۔

    اس موقع پر مسلمان اور ہندو راہ نما بھی انگریز سرکار کی مخالفت میں اکٹھے تھے۔ اس درس گاہ کو انگریز سرکار کی امداد سے دور رکھ کر ایسی فضا کو پروان چڑھانا تھا جس میں ہندوستان کی آزادی کا جوش اور ولولہ محسوس ہو اور ساتھ ہی عصری تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت بھی کی جاسکے۔ ان راہ نماؤں کا مقصد یہ تھاکہ نوجوان سیاسی و سماجی طور پر مستحکم ہوں اور اپنے وطن کو آزادی کے بعد ترقی و خوش حالی کے راستے پر لے جاسکیں۔

    دہلی منتقلی کے بعد حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری جیسی بے لوث اور علم دوست ہستیوں نے اس کا وقار بلند کیا اور اسے تن آور درخت بنانے کے لیے اپنا وقت دیا۔ اس جامعہ کو گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسی شخصیات کا تعاون اور ان کی حمایت بھی حاصل تھی۔

    22 نومبر 1920 کو حکیم اجمل خان اس درس گاہ کے پہلے چانسلر منتخب کیے گئے جب کہ مسلمانوں کے عظیم لیڈر اور حریت پسند راہ نما محمد علی جوہر کو وائس چانسلر کا عہدہ سونپا گیا تھا۔

    تاریخی حوالوں کے مطابق گاندھی جی نے شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے یہ عہدہ قبول کرنے کی درخواست کی تھی، مگر انھوں نے انکار کر دیا تھا۔

    شہریت کے ترمیمی قانون کے بعد بھارت میں حکومتی اقدام کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور پولیس کی جانب سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر تشدد اور گرفتاریوں کی خبریں دنیا بھر میں بھارت کی رسوائی کا سبب بن رہی ہیں۔ بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ اور خصوصا مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ریاستی سطح پر اس کی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

  • گُل جی، سیماب صفت آرٹسٹ، جسے دستِ قاتل نے ہم سے چھین لیا!

    گُل جی، سیماب صفت آرٹسٹ، جسے دستِ قاتل نے ہم سے چھین لیا!

    رنگ اداس، مُو قلم نڈھال اور کینوس افسردہ ہے۔ آج گُل جی کی برسی ہے۔

    چاہنے والوں نے خانۂ دل میں اس باکمال مصور کی بہت سی تصویریں سجالی ہیں جو اپنی پینٹگز سے آرٹ گیلریاں سجایا کرتا تھا اور آرٹ کے قدر دانوں، مصوری کے شائقین سے اپنے فن کی داد پاتا تھا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور اسماعیل گل جی 16 دسمبر 2017 کو ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے تھے۔

    پشاور کے امین اسماعیل کا سنِ پیدائش 1926 ہے، جسے دنیا بھر میں گُل جی کے نام سے شہرت ملی۔ لارنس کالج، مری کے بعد سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی بھیجے گئے اور بعد میں اسی شعبے میں اعلیٰ تعلیم امریکا سے مکمل کی۔ وہ کولمبیا یونیورسٹی اور ہارورڈ میں زیرِ تعلیم رہے۔

    گل جی نے پیشہ ورانہ سفر میں تجریدی آرٹ اور اسلامی خطاطی کے حوالے سے دنیا بھر میں شناخت بنائی اور شہرت حاصل کی۔ امریکا میں حصولِ تعلیم کے دوران مصوری کا آغاز کیا۔ گل جی کی تصاویر کی نمائش پہلی بار 1950 میں ہوئی۔ اگلے دس برسوں میں انھوں نے تجریدی مصور کی حیثیت سے پہچان بنانا شروع کی اور خاص طور پر اسلامی خطاطی کے میدان میں تخلیقات سامنے لائے۔

    اسلامی خطاطی کے نمونوں نے انھیں اپنے ہم عصر آرٹسٹوں میں ممتاز کیا۔ تاہم تجریدی اور تصویری فن پاروں کے ساتھ ان کا کام مختلف رجحانات کے زیرِ اثر رہا اور یہی وجہ ہے کہ آئل پینٹ کے ساتھ انھوں نے اپنے فن پاروں میں غیر روایتی اشیا سے بھی مدد لی ہے۔ گل جی کے فن پاروں میں شیشہ، سونے اور چاندی کے ورق بھی استعمال ہوئے ہیں جو ان کے کمال اور اسلوب کا نمونہ ہیں۔

    گل جی نے پورٹریٹ بھی بنائے جن میں کئی اہم اور نام ور شخصیات کے پورٹریٹ شامل ہیں۔ تجریدی مصورری اور امپریشن کے ساتھ انھوں نے مجسمہ سازی میں بھی منفرد کام کیا۔ فائن آرٹ کی دنیا میں انھیں ہمہ جہت آرٹسٹ کہا جاتا ہے جس نے اپنے فن کو روایت اور ندرت کے امتزاج سے آراستہ کیا۔

    گل جی جیسے سیماب صفت آرٹسٹ کو طبعی موت نصیب نہ ہوئی۔ انھیں کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر قتل کردیا گیا تھا۔

  • بندہ کام میں‌ چیتا ہے!

    بندہ کام میں‌ چیتا ہے!

    ہم جس حیوان کا ذکر یہاں کر رہے ہیں، اس کا تعلق بلی کے خاندان سے ہے۔ یہ جانور لمحوں میں شکار تک پہنچ کر اسے دبوچ لیتا ہے۔

    ہم پاکستانی اس کی تیز رفتاری سے اتنے متأثر ہیں کہ جب کسی شعبے کی شخصیت کے کام اور پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کرنا اور اس کی غیرمعمولی کارکردگی کی مثال دینا ہو تو اس درندے کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ جملہ اس حوالے سے یقینا آپ کی الجھن دور کر دے گا۔

    جناب، میں جو بندہ لایا ہوں اسے کمپنی میں ایک موقع ضرور دیں۔ تھوڑا گپ باز ہے سَر، مگر اپنے کام میں ‘‘چیتا’’ ہے!

    چیتے کی سب سے بڑی خوبی اس کی رفتاری ہے۔ آپ میں سے اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ چیتا شیر کی طرح دہاڑ نہیں پاتا بلکہ یہ جانور غراتا ہے اور بلیوں کی طرح آوازیں نکالتا ہے۔

    چیتے کو رات کے وقت دیکھنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ ماہرینِ جنگلی حیات کے مطابق چیتا زیادہ تر صبح کی روشنی میں یا دوپہر کے بعد شکار کرتے ہیں۔

    بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ جانور درختوں پر بھی آسانی سے نہیں چڑھ پاتا
    چیتے کا سَر اور پاؤں چھوٹے جب کہ ان کی کھال موٹی ہوتی ہے۔
    افریقی اور ایشیائی چیتوں کی جسمانی ساخت میں کچھ فرق ہوتا ہے جب کہ ان کی بعض عادات بھی مختلف ہیں۔
    افریقی چیتوں پر کئی سال پہلے ایک تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا تھا کہ چیتے کے 100 بچوں میں سے صرف پانچ ہی بڑے ہونے تک زندہ رہتے ہیں۔
    جنگل کے دوسرے جانور جن میں ببون، لگڑ بگھے اور مختلف بڑے پرندے شامل ہیں، موقع پاتے ہی چیتے کے بچوں کا شکار کرلیتے ہیں۔
    ماہرین کے مطابق دوڑتے ہوئے یہ جانور سات میٹر تک لمبی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ یعنی 23 فٹ لمبی چھلانگ جس میں اسے صرف تین سیکنڈ لگتے ہیں اور یہ حیرت انگیز ہے۔

  • کتھک رقص: اعضا کی شاعری کا خوب صورت انداز

    کتھک رقص: اعضا کی شاعری کا خوب صورت انداز

    فنونِ لطیفہ میں موسیقی، سُر تال اور گائیکی کے مختلف انداز کے ساتھ رقص بھی جذبات کے اظہار کی نہایت لطیف اور خوب صورت شکل ہے۔

    رقص جسمانی حرکات و سکنات کی ایک پُراثر، نہایت مرصع صورت اور تفریحَ طبع کا اعلیٰ ذریعہ ہے. کلاسیکی رقص کی بات کی جائے تو اسے اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے۔ اہلِ فن کے نزدیک رقص دماغ اور جسم کی موزوں‌ اور مترنم ہم آہنگی کا نام ہے جسے دنیا کی ہر تہذیب نے اپنایا اور اسے فروغ دیا۔

    کہیں اس رقص کے ذریعے دیوتاؤں کو خوش کیا جاتا ہے تو کبھی یہ روح کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ کہیں اسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے تو کہیں یہ محض تفریح اور دل کے بہلانے کا سامان کرتا ہے۔

    برصغیر میں کلاسیکی رقص کی ابتدا مندروں میں ہوئی، جہاں دیوی دیوتاؤں کی خوش نودی حاصل کرنے اور کہانیاں بیان کرنے کے لیے بدن بولی کا سہارا لیا گیا اور چہرے کے تاثرات سے کتھا بیان کی گئی۔ یہاں کے کلاسیکی رقص کی آٹھ بڑی اقسام بھرت ناٹیم، اوڈیسی، مانی پوری، کتھا کلی، موہِنی اٹَم، ستریہ وغیرہ ہیں جن میں سے کتھک رقص کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    کتھک کا لفظ سنسکرت کے ‘‘کتھا’’ سے نکلا ہے، اور نام سے ظاہر ہے کہ یہ واقعات اور داستانوں مجمع کے سامنے پیش کرنے کے لیے کیا جانے والا رقص ہے۔ اس کے ذریعے زیادہ تر رزمیہ داستانوں کو بیان کیا جاتا تھا اور ہر دور میں اس کے نت نئے رنگ اور انداز سامنے آئے۔ بعد میں اسے مہارت سے تحریر بھی کیا گیا اور سیکھنے والوں نے کتاب کے ذریعے اس رقص کی تعلیم لی اور مشق کر کے کمال حاصل کیا۔

    سندھ میں تہذیبی آثار سے برآمد مجسموں میں رقص کرتے ہوئے مرد اور عورتیں بھی نظر آتی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رقص اور ناچ گانا صدیوں پہلے بھی اسی طرح‌ مقبول تھا۔ مغلوں کے دور میں رقص اور خاص طور پر کتھک کی سرپرستی کی گئی. تاریخ بتاتی ہے کہ کتھک کے ماہر دربار میں حاضر رہے۔ انھیں شاہانَ وقت کی جانب سے وظائف اور تحائف دیے جاتے اور ان کے فن کو سراہا جاتا رہا۔ مغل دربار کی زینت بننے کے بعد کتھک کو ترقی اور تبدیلی کے ساتھ نئی حرکات و سکنات اور معنوی خصوصیات سے مزین کیا گیا۔ اس طرح کتھک رقص کا دامن خوش رنگ ہوتا گیا۔ نواب سید واجد علی شاہ نہ صرف اس فن کے بہت بڑے قدر داں تھے بلکہ خود بھی اس فن میں کامل تھے۔ ان کے زمانے میں اس رقص میں کئی بنیادی اضافے بھی کیے گئے۔ کتھک رقص کی کئی اصطلاحات اور بنیادی نظام انہی کی دل چسپی سے نکھرا۔

    تقسیم کے بعد کتھک رقص میں کامل کہلانے والے مہاراج غلام حسین پاکستان آ گئے تھے اور 1999 تک یہاں اس فن کو زندہ رکھے رہے۔ مہاراج غلام حسین کی ایک ہونہار شاگرد ناہید صدیقی تھیں۔ ضیا دور میں ادب اور آرٹ کے مختلف شعبوں میں پابندیوں کی وجہ سے کتھک رقص کے کئی ماہر ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ آج بھی رقص اور کتھک کے حوالے سے لکھی گئی کتب میں ان کا نام محفوظ ہے۔

  • ہوائی جہاز کے موجد رائٹ برادران سائنس دشمن پادری کے بیٹے تھے!

    ہوائی جہاز کے موجد رائٹ برادران سائنس دشمن پادری کے بیٹے تھے!

    امریکا میں ایک پادری نے اپنے خطبے کے دوران کہا تھا کہ ‘‘لوگو! آج کا انسان سائنس میں ترقی کی آخری حدیں چُھو چکا ہے۔ لہٰذا اب کسی نئی ایجاد کا امکان باقی نہیں رہا۔ اب اگر سائنسی ترقی کے نام پر کچھ خرچ کیا گیا تو وہ سراسر اسراف ہوگا۔’’

    کہتے ہیں کہ یہ پادری اکثر درس دیتے ہوئے یہ بات دہراتا کہ خدا نے اڑنے کی صلاحیت پرندوں کے علاوہ محض فرشتوں کو ودیعت فرمائی ہے جو کہ بالکل درست بات ہے۔

    پادری کا نام رائٹ تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسی پادری کے دو بیٹوں نے سائنسی ایجادات میں نام اور مقام حاصل کیا اور حیرت انگیز بات یہ کہ وہ ہوائی جہاز کے موجد شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ دونوں رائٹ برادران کے نام سے مشہور ہیں۔

    ان دونوں بھائیوں نے ہوائی جہاز کے تجربے کیے تھے۔ بڑا ولبر رائٹ اور چھوٹا آرویل رائٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ دونوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ وہ سائیکلوں کا کاروبار کرتے تھے اور اسی دوران ایجاد و اختراع میں دل چسپی پیدا ہوئی اور انھوں نے ہوا کے دباؤ وغیرہ کے متعلق معلومات حاصل کر کے ایک ہوائی جہاز بنایا جس کی طاقت چار سلنڈر، بارہ ہارس پاور کا انجن تھا۔

    17 دسمبر 1903 کو انھوں نے اپنے ہوائی جہاز کے تجربے کے دوران چار پروازیں کیں جن میں سب سے اونچی اڑان 852 فٹ تھی۔ امریکی حکومت نے ان کی حوصلہ افزائی کی فوج میں ہوا بازی کا اسکول کھول کر اس میں آرویل کو استاد مقرر کیا۔

  • خود کُشی کی چوتھی کوشش میں‌ کام یاب سلویا کی درد ناک کہانی!

    خود کُشی کی چوتھی کوشش میں‌ کام یاب سلویا کی درد ناک کہانی!

    کچھ لوگوں کا کہنا تھاکہ سلویا نے خود کُشی نہیں کی تھی، اور اس کی موت ایک حادثے کے سبب ہوئی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کیوں مقفل کیا تھا؟ وہ تو اس کی عادی نہیں تھی۔

    یہی نہیں بلکہ اس درد ناک موت کو خود کُشی ماننے کے سوا کوئی راستہ یوں بھی نہیں بچتا تھا کہ سلویا پہلے بھی تین مرتبہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرچکی تھی۔ وہ ذہنی مرض کا شکار رہی تھی اور ماہرِ نفسیات سے علاج بھی کروایا تھا، مگر ڈپریشن سے مکمل نجات نہیں مل سکی تھی اور فقط 30 سال کی عمر میں موت کو گلے لگا لیا۔

    سلویا پلاتھ نے ایک منفرد شاعرہ اور باکمال ادیب کی حیثیت سے کم عمری میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ وہ امریکا میں 27 اکتوبر 1932 کو پیدا ہوئی۔ والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور مناظر میں کشش محسوس کرتی تھی۔ زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اس نے اپنے اندر ایک شاعرہ دریافت کرلی۔ 18 سال کی عمر میں ایک مقامی اخبار میں اس کی پہلی نظم شایع ہوئی۔ بعد کے برسوں میں نثر کی طرف متوجہ ہوئی اور آغاز بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ پھر ایک ناول The Bell Jar بھی لکھ ڈالا جو اس کی شہرت کا سبب بنا۔

    کہتے ہیں کہ اس ناول کے چند ابواب سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960 میں شایع ہوا۔ دیگر شعری مجموعے سلویا کی الم ناک موت کے بعد کے برسوں میں شایع ہوئے۔ اس امریکی تخلیق کار کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعدازمرگ اسے پلٹزر پرائز دیا گیا۔

    سلویا پلاتھ کی نجی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ مشہور برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوگس سے شادی اور دو بچوں کی ماں بننے کے بعد جب یہ رفاقت تلخیوں کی نذر ہوکر ختم ہوئی تو حساس طبع اور زود رنج سلویا خود کو سمیٹ نہ پائی۔ خیال ہے کہ ماضی کی تکلیف دہ یادوں نے اسے موت کو گلے لگانے پر اکسایا ہوگا۔ یہ 1963 کی بات ہے جب وہ ایک روز مردہ پائی گئی۔

  • فانی بدایونی: وکالت کے پیشے سے بیزار شاعر کی کہانی!

    فانی بدایونی: وکالت کے پیشے سے بیزار شاعر کی کہانی!

    شوکت علی خاں نے 1879 میں بدایوں کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ عربی اور فارسی سیکھنے کے دوران شعروادب سے لگاؤ ہو گیا اور خود بھی شاعری کرنے لگے۔ اس دنیا میں فانیؔ کے تخلص سے شہرت پائی۔

    فانی نے بی اے کرنے کے بعد ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اور والد کے اصرار پر وکالت شروع کی، لیکن اس پیشے سے کوئی دل چسپی نہ تھی، اس لیے بیزار ہو کر گھر بیٹھ گئے۔

    والد کا انتقال ہوا تو غربت اور تنگ دستی نے آ گھیرا. اسی زمانے میں‌ حیدرآباد دکن سے بلاوا آیا تو وہاں چلے گئے اور محکمہ تعلیم میں ملازم ہوئے۔ ان کا انتقال 1941ء میں ہوا۔

    اردو ادب کے نام ور شعرا اور نقادوں نے فانیؔ بدایونی کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ان کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
    زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
    ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مَر جانے کا
    تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
    آؤ دیکھو نا تماشا مِرے غم خانے کا
    ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
    لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا
    ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
    کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا
    کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانی
    آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا
    ہر نَفس عمرِ گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
    زندگی نام ہے مَر مَر کے جیے جانے کا