Author: عارف حسین

  • احمد شاہ ابدالی: تاریخی حقائق، بھارتی فلم اور ناقدین

    احمد شاہ ابدالی: تاریخی حقائق، بھارتی فلم اور ناقدین

    بالی ووڈ فلم ‘‘پانی پت’’ نے سنیما کے اہم ناقدین اور سنجیدہ شائقین کو شدید مایوس کیا ہے۔

    احمد شاہ ابدالی کا فلمی کردار واضح کرتا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری مخصوص طبقے کو خوش کرنے کے لیے تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت پر قائم ہے۔ پانی پت کے اہم تاریخی معرکے اور اس کے مرکزی کردار کی غلط انداز سے پیش کاری بھارتی فلم انڈسٹری کی غیرسنجیدگی اور جانب داری کے ساتھ مخصوص ذہنیت کی عکاس بھی ہے۔

    حملے کی اصل وجہ
    احمد شاہ ابدالی کے حملے کی اصل وجہ ہندو مرہٹوں کی جانب سے مسجد میں مورتی رکھنے کا اعلان تھا۔
    احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں پانی پت کی جنگ میں شکست سے مرہٹوں کی طاقت اور زور تو ٹوٹا مگر مغل بادشاہ آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھے۔

    مرہٹوں کی برصغیر میں فتوحات جاری تھیں۔ دہلی اور قرب و جوار پر حملہ اور اس کے بعد لاہور سے اٹک تک فتوحات نے مرہٹوں کا حوصلہ بڑھا دیا۔ مغل کم زور اور مرہٹوں کے روپ میں ہندو طاقت ور ہوئے تو دہلی کی شاہی مسجد میں مورتی رکھنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مسلمان حاکموں اور علما نے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دیتے ہوئے مالی وعسکری مدد کا یقین دلایا۔

    افغان حکم راں احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کے خلاف اس دعوت کو قبول کیا اور اپنے لشکر کے ساتھ یہاں پہنچا اور پانی پت کی تیسری جنگ میں لاکھوں ہندو مرہٹوں کو شکست دے کر ہندوستان میں مسلم اقتدار کو سنبھالا دیا۔

    احمد شاہ ابدالی پر الزامات
    احمد شاہ ابدالی کے بارے میں متعصب تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ وہ اپنی ریاست کو وسعت دینا چاہتا تھا اور ملک و ہوس کا پجاری تھا۔ تاہم مستند اور معتبر تاریخ بتاتی ہے کہ ابدالی افغانستان میں اپنی بادشاہت تک محدود رہا اور طاقت و فوج رکھنے کے باوجود لشکر کشی نہ کی۔ جب ہندو مرہٹوں کی جانب سے جامع مسجد میں مہا دیو کا بت نصب کرنے کا اعلان کیا گیا اور اس سے مرہٹوں کے خلاف لڑائی کی درخواست کی گئی تو احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کا رخ کیا۔

    تاریخ کے صفحات یہ بھی بتاتے ہیں کہ مرہٹوں کو شکست دینے کے بعد ابدالی واپس وطن لوٹ گیا اور بعض حوالوں میں ملتا ہے کہ یہ حملہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کے لیے بڑا سہارا ثابت ہوا مگر مغلوں کے زوال کا سلسلہ نہ تھم سکا۔

    احمد شاہ ابدالی پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ نادر شاہ کے قتل کے بعد قندھار جاتے ہوئے اس کے شاہی مہر اور کوہِ نور ہیرا اس کے ہاتھ سے اتار لیا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہیرا اس کے پوتے کی تحویل میں تھا جس نے اسے احمد شاہ ابدالی کو سونپا تھا۔

    ہندوستانی مؤرخ کی سچائی
    مشہور ہندوستانی مؤرخ ڈنگا سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کی پوری زندگی ملک کی بہتری میں صرف ہوئی اور وہ افغان ہی نہیں خطے کے دیگر مسلمانوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔

    احمد شاہ ابدالی کا مقبرہ قندھار میں ہے۔ بعض تذکروں میں لکھا ہے کہ ابدالی کرشماتی شخصیت کا حامل تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے اس دور میں قبیلوں کے مابین کئی جھگڑوں کو اپنے تدبر اور فہم سے نمٹایا اور ایک مضبوط ملک کی بنیاد رکھی۔

  • پانی پت: احمد شاہ ابدالی اور بالی ووڈ کا تعصب

    پانی پت: احمد شاہ ابدالی اور بالی ووڈ کا تعصب

    فلم کے بارے میں ناقدین کیا کہتے ہیں؟
    بالی ووڈ نے مرہٹوں اور احمد شاہ ابدالی کی افواج کے درمیان جنگ کو ‘‘پانی پت’’ کے نام سے بڑے پردے پر پیش کیا ہے جس میں حقائق کو مسخ اور تاریخ کو نظر انداز کرنے کی بدترین روایت برقرار رکھی ہے۔

    تاریخ اور فلم کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ اس فلم میں افغانستان کے حکم راں احمد شاہ ابدالی کے کردار کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کردار سنجے دت نے نبھایا ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ فلم ہر لحاظ سے کم زور اور حقیقت سے دور ہے۔

    1761، پانی پت کا میدان اور دو حکم راں
    افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی اور مرہٹہ سلطنت کے راجا سداشو راؤ بھاؤ کی افواج اور ان کے اتحادیوں کے درمیان 1761 میں پانی پت کے میدان میں جنگ لڑی گئی۔

    پانی پت ہندوستان میں دلی کے شمال میں واقع ہے جہاں ان دو حکم رانوں کی افواج کے درمیان یہ جنگ پانی پت کی تیسری بڑی لڑائی کے طور پر مشہور ہے۔ یہی وہ جنگ ہے جس میں ہندو مرہٹوں کو ابدالی افواج کے ہاتھوں شکستِ فاش ہوئی اور وہ دوبارہ طاقت حاصل نہ کرسکے۔ تاریخ کے مطابق اس لڑائی کا آغاز 14 نومبر کی صبح ہوا تھا۔

    احمد شاہ ابدالی: تعارف اور انتخاب کی کہانی
    کہتے ہیں احمد شاہ ابدالی کی پیدائش ملتان کی ہے جسے افغان امیر نادر شاہ کے قتل کے بعد معززین نے نیا حکم راں چنا تھا۔

    بعض تاریخی کتب میں تحریر ہے کہ اس انتخاب کے لیے جرگہ ہوا تھا۔ یہ جرگہ شیر سرخ بابا کے مزار پر منعقد ہوا تھا جس میں احمد شاہ ابدالی کو بادشاہ تسلیم کیا گیا۔ احمد شاہ نوجوان اور اس وقت نادر شاہ کی فوج کا کمانڈر تھا۔
    احمد شاہ ابدالی نے اقتدار میں آکر قبائلی جھگڑے ختم کروائے اور ملک کو مضبوط کرتے ہوئے ریاست کی بنیاد رکھی۔

    ابدالی ریاست مغربی ایران سے لے کر ہندوستان کے شہروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ حکم راں نہ صرف ایک مضبوط افغان ریاست کے قیام میں کام یاب رہا بلکہ اس دور میں مرہٹوں کی فوجی طاقت سے مرعوب ہوئے بغیر شجاعت اور بہادری سے ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔

  • ٹیپ ریکارڈر نے اصلیت ظاہر کردی، گریمی ایوارڈ یافتہ گلوکار جعلی نکلے!

    ٹیپ ریکارڈر نے اصلیت ظاہر کردی، گریمی ایوارڈ یافتہ گلوکار جعلی نکلے!

    1980 میں پاپ میوزک کے شائقین کے سامنے ملی وینلی سے متعارف ہوئے۔

    یہ جرمنی کے دو آرٹسٹوں Rob Pilatus اور Fab Morvan کا میوزیکل بینڈ تھا۔ قسمت کی دیوی ان پر ایسی مہربان ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگے۔ انھوں نے اس زمانے میں صرف پاپ میوزک کے شیدا نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ موسیقی اور گائیکی کے اہم ناقدین کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
    1988 میں جب گریمی ایوارڈ کا مرحلہ آیا تو نئے آرٹسٹ کے زمرے میں اس میوزک بینڈ کو بھی شامل کیا گیا اور یہ گریمی ایوارڈ لے اڑا۔ یہ ان دونوں آرٹسٹوں کی بڑی اور اہم کام یابی تھی۔ یوں ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور مداحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔

    یہ دونوں جب اسٹیج پر آتے تو پرستاروں کی جانب سے داد و تحسین کا وہ شور اٹھتا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ یہ آرٹسٹ شائقین کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے تھک جاتے اور بڑی مشکل سے ان کی واپسی ہوتی۔

    ایک روز عجیب بات ہوئی۔ یہ شہرت، مقبولیت، عزت اور مقام سب برباد ہو گیا!

    ہوا کچھ یوں کہ انگلینڈ کے ایک لائیو شو میں یہ دونوں آرٹسٹ اسٹیج پر نہایت پُرجوش انداز میں اپنا آئٹم پرفارم کررہے۔ حاضرین کا جوش بھی دیدنی تھا، مگر اچانک ہی ٹیپ ریکارڈ نے ان نام نہاد پاپ سنگرز کا ساتھ چھوڑ دیا۔ آڈیو ٹیپ پھنس گئی تھی جب کہ وہ لائیو شو تھا!

    اس روز شائقین جب کی سماعتوں سے گیت کا ایک ہی بول بار بار ٹکرایا تو معلوم ہوا کہ ان کے پسندیدہ آرٹسٹ فقط اپنے ہونٹوں کو جنبش دے رہے تھے اور یقیناً کہیں کوئی ٹیپ چل رہا تھا۔ ریکارڈر میں موجود ٹیپ، گیت کے اسی بول Girl, you know it’s true پر اٹکا ہوا تھا۔ ان دونوں پاپ سنگرز نے حالات کی نزاکت کو بھانپ کر وہاں سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا اور اسٹیج سے اتر کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔

    بعد میں اس واقعے کا خوب چرچا ہوا اور اخبارات کے مطابق دونوں نوجوان شائقین کو دھوکا دیتے رہے اور اپنے ٹیپ ریکارڈز کی بدولت خوب دولت کمائی۔ وہ نہایت چالاکی اور مہارت سے کسی مقامی گلوکار کی آواز پر صرف پرفارمنس دیتے تھے۔ اگر اس روز آڈیو ٹیپ نہ پھنستی تو یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہتا۔ بعد میں ان دونوں کے خلاف دھوکا دہی اور جعل سازی کا مقدمہ درج کیا گیا۔

  • برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    فلم انڈسٹری میں درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع دیے جانے کے باوجود طلعت محمود شائقین کو متأثر نہ کرسکے.

    انھوں‌ نے فلم سازوں کو بھی مایوس کیا، مگر اس میدان میں نامراد اور ناکام طلعت محمود آج بھی سُر اور آواز کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ گلوکار کی حیثیت سے مشہور طلعت محمود کو اس وقت کے نام ور فلم ساز اے آر کاردان نے اداکاری کے میدان میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا۔

    برصغیر میں پسِ پردہ گائیکی کے حوالے سے طلعت محمود کا نام شہرت کی بلندیوں پر تھا جب انھوں نے فلم راج لکشمی سائن کی۔ یہ 1945 کی بات ہے۔ وہ بڑے پردے پر ہیرو کے روپ میں نظر آئے۔ اس وقت ممبئی کی فلم نگری میں طلعت محمود کے اس فیصلے کا تو بہت شور ہوا، لیکن بڑے پردے پر اداکار کے روپ میں انہیں پزیرائی نہ ملی۔ پہلی فلم کی ناکامی کے باوجود طلعت محمود کو بڑے بینر تلے مزید فلموں میں رول دیے گئے، لیکن ہر بار ناکامی ان کا مقدر بنی۔

    لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر وہ فلمیں ہیں جن میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    فلم نگری بہ حیثیت گلوکار ان کی شہرت کا آغاز آرزو نامی فلم کے گیت ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ سے ہوا۔ فلم داغ کے لیے انہوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت گائے اور اپنے فن کو منوایا۔

    طلعت محمود کے والد آل انڈیا ریڈیو پر نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ لکھنؤ کے طلعت کو بچپن ہی سے گانے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری کے بڑے ناموں اور گائیکوں نے ان کے کمال فن کا اعتراف کیا۔

    1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا تھا۔ بعد میں گلوکاری کے میدان میں کام یابیاں ان کا مقدر بنتی چلی گئیں۔ تاہم اداکاری کے میدان میں بری طرح ناکام رہے۔

  • فروٹ سلاد اور جوس تیار کرنے کی انوکھی تراکیب!

    فروٹ سلاد اور جوس تیار کرنے کی انوکھی تراکیب!

    مجھے بڑا غصہ آتا تھا جب لوگوں کو یہ کہتے سنتی تھی کہ پڑھی لکھی لڑکیاں گھر کا کام کاج نہیں کرسکتیں۔ چناں چہ میں نے آزمودہ ترکیبیں لکھی ہیں جو ملک کے مشہور زنانہ رسالوں میں چھپیں گی۔ نمونے کے طور پر چند ترکیبیں نقل کرتی ہوں۔

    لذیذ آرنج اسکواش تیار کرنا
    آرنج اسکواش کی بوتل لو۔ یہ دیکھ لو کہ بوتل آرنج اسکواش ہی کی ہے کسی اور چیز کی تو نہیں، ورنہ نتائج خاطر خواہ برآمد نہ ہوں گے۔ دوسری ضروری بات یہ ہے کہ مہمانوں اور گلاسوں کی تعداد ایک ہونی چاہیے۔ گلاسوں کو پہلے صابن سے دھلوا لینا اشد ضروری ہے۔ بعد ازیں اسکواش کو بڑی حفاظت سے گلاس میں انڈیلو اور پانی کی موزوں مقدار کا اضافہ کرو۔ مرکب کو چمچے سے تقریباً نصف منٹ ہلائیں۔ نہایت روح افزا آرنج اسکواش تیار ہو گا۔ موسم کے مطابق برف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے (لیکن برف کو صابن سے دھلوا لینا نہایت ضروری ہے)

    مزیدار فروٹ سلاد
    مہمانوں کے یک لخت آ جانے پر ایک ملازم کو جلدی سے بازار بھیج کر کچھ بالائی اور ایک ٹین پھلوں کا منگاؤ۔ اس کے آنے سے قبل ایک بڑی قاب کو صابن سے دھلوا لینا چاہیے۔ بعض اوقات فروٹ سلاد میں اور طرح کی خوش بُو آنے لگتی ہے۔ اب ٹین کھولنے کا اوزار لے کر ٹین کا ڈھکنا کھولنا شروع کرو اور خیال رکھو کہ انگلی نہ کٹنے پائے۔ بہتر ہو گا کہ ٹین اور اوزار نوکر کو دے دو۔ اب پھلوں کو ڈبے سے نکال کر حفاظت سے قاب میں ڈالو اور بالائی کی ہلکی ہلکی تہ جما لو۔ نہایت مزے دار اور مفرح فروٹ سلاد تیار ہے۔ نوش جان کیجیے۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی کتاب مسکراہٹیں سے ایک نثر پارہ. پکوان کی یہ تراکیب ان کے ایک شگفتہ خط سے لی گئی ہیں جو ایک لڑکی کی جانب سے اپنی ماں کو لکھا گیا)

  • یومِ پیدائش: ناصر کاظمی کی چند باتیں اور ایک مشہور غزل!

    یومِ پیدائش: ناصر کاظمی کی چند باتیں اور ایک مشہور غزل!

    مختصر بحور، منفرد استعاروں سے مزین غزلیں ناصر کاظمی کی پہچان ہیں۔ ان کے سادہ مگر دل نشیں اسلوب نے انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ برصغیر کے اس مقبول شاعر کا آج یومِ پیدائش ہے۔

    8 دسمبر 1925 کو ناصر کاظمی نے امبالہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد مستقل قیام کے لیے لاہور کا انتخاب کیا۔ یہاں ناصر کے مشاہدات، غمِ دوراں اور وارداتِ قلبی نے انھیں شاعری پر آمادہ رکھا۔ ناصر نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی اور ان کے مضامین کتابی صورت میں شایع ہوئے۔ وہ ادبی پرچوں کی مجلس کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور سے وابستہ رہے۔

    ان کا پہلا مجموعۂ سخن ‘‘برگِ نے’’ تھا جسے ادبی حلقوں نے بہت سراہا اور ان کی شاعری عوام میں بے حد مقبول ہوئی۔ دیگر شعری مجموعوں میں ‘‘پہلی بارش، نشاطِ خواب، سُر کی چھایا’’ شامل ہیں۔

    ناصر کاظمی یہ ایک مشہور غزل آپ کے ذوق کی نذر کی جارہی ہے۔

    غزل
    نئے کپڑے بدل کر  جاؤں کہاں اور  بال بناؤں کس کے لیے
    وہ  شخص تو  شہر  ہی چھوڑ  گیا  میں باہر  جاؤں کس کے لیے

    جس دھوپ کی دل میں  ٹھنڈک تھی وہ دھوپ  اسی کے ساتھ گئی
    ان  جلتی بلتی گلیوں  میں  اب  خاک اڑاؤں  کس  کے لیے

    اب شہر  میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
    ایوانِ  غزل  میں  لفظوں کے گلدان   سجاؤں  کس  کے لیے

    وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
    اب  ایسے  ویسے لوگوں کے  میں ناز  اٹھاؤں کس کے لیے

    مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
    ان خالی  کمروں  میں ناصرؔ  اب   شمع  جلاؤں کس کے لیے

  • روشن فکر اور اجلے کردار والا وہ سیاہ فام آج کے دن ہم سے بچھڑ گیا تھا!

    روشن فکر اور اجلے کردار والا وہ سیاہ فام آج کے دن ہم سے بچھڑ گیا تھا!

    وہ روشن اور اجلے کردار کا مالک تھا۔ مساوات اور امن کا داعی تھا۔ دنیا کو تعصب اور نفرت سے پاک کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے ہر محاذ پر ڈٹ گیا۔

    اس مقصد کے لیے اس نے صعوبتیں جھیلیں، جوانی کو اسیری کی نذر کر دیا، اس امید کے ساتھ کہ دن نکلے گا اور نسل پرستی، غلامی کے بازوئے بے رحم سے قوم آزاد ہو گی۔ تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اس نے اپنے افکار کی شمع جلائے رکھی اور وہ وقت بھی آیا جس کے لیے جدوجہد اور انتظار میں اس نے اپنی عمر گزار دی تھی۔

    یہ نیلسن منڈیلا کا تذکرہ ہے جو جنوبی افریقا کے پہلے جمہوری اور سیاہ فام صدر تھے۔ 1994 سے 1999 تک اس عہدے پر فائز رہنے والا یہ عظیم راہ نما اور مدبر پانچ دسمبر کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔

    نیلسن منڈیلا کے لیے اقتدار اور اختیار حاصل کرنے کے باوجود اپنے خواب کی تکمیل آسان تو ثابت نہیں ہوئی۔ تاہم وہ حکومت میں رہ کر جنوبی افریقا کو نسل پرستی سے آزاد کروانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ اس سے قبل نسلی امتیاز کے خلاف مہمات کے دوران کئی بار گرفتار ہوئے۔ ریاست کا تختہ الٹنے کی سازش میں 27 سال قیدِ تنہائی کاٹی اور 1990 میں انھیں رہائی نصیب ہوئی۔

    طویل جدوجہد اور سختیاں برداشت کرنے کے بعد انھیں زبردست عوامی حمایت کے ساتھ اقتدار ملا تھا۔ نیلسن منڈیلا صرف جنوبی افریقا کے عوام کے مقبول ترین لیڈر نہیں تھے بلکہ انھیں دنیا بھر میں باضمیر اور کلمۂ حق بلند کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا نے نیلسن منڈیا کی نسلی امتیاز کے خاتمے کی کوششوں، امن اور مساوات کے لیے جدوجہد کو تسلیم کیا اور نوبیل انعام ان کے نام کیا۔

    نیلسن منڈیلا کا سنِ پیدائش 1918 ہے۔ وہ جنوبی افریقا کے ایک دیہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ افریقا میں قبائل اور برادری نظام خاصا مستحکم ہے۔ نیلسن منڈیلا مديبا قبیلے کے فرد تھے۔ وہ دس سال کے تھے جب ان کے والد کی وفات ہوئی اور وہ قبیلے کے سربراہ کی نگرانی میں پلے بڑھے۔

    خوش مزاج اور نرم خُو نیلسن منڈیلا کے کردار کی خوش بُو، ان کے افکار کی روشنی آج بھی دنیا کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ان کی شخصیت کا سحر شاید کبھی نہ ٹوٹ سکے۔

    نیلسن منڈیلا کی زندگی کی کہانی، انسانوں کے لیے عظیم جدوجہد کی داستان یقیناً کئی نسلوں کے لیے راہ نما ثابت ہو گی اور دنیا کی نئی قیادت کے لیے درست سمت کا تعین کرے گی۔

  • ایک روشن دن کا خوش گوار لمحہ جو یادگار بن گیا

    ایک روشن دن کا خوش گوار لمحہ جو یادگار بن گیا

    1960 کے اوائل کی ایک سہانی صبح.

    طلوعَ آفتاب کے بعد وہ وقت جب ہر شے سورج کی روشنی سے نہا رہی تھی، دن اترا رہا تھا. یہ فطرت کی صناعی اور کمال تھا.

    اُسی روز ایک گھر کی چھت تلے دو وجود بھی لمحہ بھر کو روشنی میں‌ نہائے. یہ کیمرے کی روشنی تھی جو انسان کی ایجاد ہے.

    کلک کی ایک آواز کے ساتھ پھیلنے والی روشنی نے دو بہنوں کا پیار اس مشین میں گویا قید کر لیا. ان کی زندگی کا خوب صورت لمحہ تصویر ہوا جسے ایک یادگار کی صورت ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں.

    آپ دیکھ سکتے ہیں‌ کہ سُروں کی دیوی لتا منگیشکر کسی گیت کے بولوں اور دُھن میں الجھی ہوئی ہیں جب کہ ان کی بہن اور میٹھی آواز کی مالک آشا بھوسلے ان کے گیسو سنوار رہی ہیں۔

    چند ہفتے قبل ممبئی سے خبر آئی تھی کہ لتا منگیشکر سینے میں تکلیف کی شکایت کے بعد اسپتال میں داخل ہیں اور ان کی حالت خطرے میں‌ ہے. بعد میں‌ معلوم ہوا کہ سُروں‌ کی ملکہ کو وائرل انفیکشن کے باعث سینے میں‌ درد محسوس ہورہا تھا جس پر طبی معائنے کی غرض سے انھیں اسپتال لایا گیا تھا.

  • دنیا کے امیر اور مصروف ترین شخص کے یومیہ پانچ گھنٹے کس کام میں صَرف ہو رہے ہیں؟

    دنیا کے امیر اور مصروف ترین شخص کے یومیہ پانچ گھنٹے کس کام میں صَرف ہو رہے ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ وارن بفٹ جو روزانہ کئی کمپنیوں کے مالی اور دیگر انتہائی اہم نوعیت کے معاملات کے ذمہ دار ہیں اور ان کمپنیوں کا نفع و نقصان ان کے کسی بھی فیصلے سے جڑا ہوا ہے، دن کے پانچ سے چھے گھنٹے کس کام میں‌ صَرف کرتے ہیں؟

    وارن بفٹ کا شمار دنیا کی امیر ترین شخصیات اور مشہور سرمایہ کاروں میں ہوتا ہے۔ وہ سب سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے مالک اور امریکا کی متعدد قابلِ ذکر اور اہم کمپنیوں کے سربراہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں بھی ان کا نام شامل ہے۔

    وارن بفٹ کو کتب بینی کا شوق نہیں بلکہ وہ جنون کی حد تک مطالعے کے عادی ہیں۔ وارن بفٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ روزانہ پانچ سے چھے گھنٹے تک مختلف مؤقر اخبارات، کتب اور رسائل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وارن کہتے ہیں کہ ان کی عادت آخری سانس تک برقرار رہے گی۔

    کیا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ دن کے آٹھ گھنٹے دفتر کو دے کر اپنے گھر لوٹ آنے والا عام آدمی بھی اکثر بہت سے اہم کام نہیں نمٹا پاتا اور وقت کی کمی کا شکوہ کرتا ہے۔ وارن بفٹ کی زندگی اور ان کے شب و روز پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گاکہ کسی بھی شوق کو پورا کرنے یا کام کو انجام دینے کے لیے لگن، محنت اور جنون زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

  • پطرس بخاری: وفات کے 45 سال بعد ہلالِ امتیاز پانے والے مزاح نگار

    پطرس بخاری: وفات کے 45 سال بعد ہلالِ امتیاز پانے والے مزاح نگار

    اردو ادب میں طنز و مزاح کا دفتر کھلے اور پروفیسر احمد شاہ بخاری کا نام نہ لیا جائے، یہ ممکن نہیں۔ انھیں ہم پطرس بخاری کے قلمی نام سے جانتے ہیں۔

    پطرس بخاری اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت تھے۔ مزاح نگاری ان کا وہ حوالہ جس سے دنیا بھر میں بسنے والے شائقینِ ادب واقف ہیں لیکن وہ ایک جید صحافی، ماہرِ تعلیم، نقّاد اور صدا کار بھی تھے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے احمد شاہ نے اردو کے علاوہ فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس حاصل کی اور تعلیمی مراحل طے کیے۔ کالج کے زمانے میں ہی معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز کیا۔

    کیمبرج پہنچے تو انگریزی زبان کے ادب سے گہری شناسائی ہوئی۔ غیر ملکی ادب میں دل چسپی لی اور تراجم بھی کیے۔ خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں تھے۔ پانچ دسمبر کو اچانک کمرے میں ٹہلتے ہوئے بے ہوش ہو گئے اور ان کی زندگی کا سفر بھی تمام ہوگیا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ سطور پڑھیے۔
    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے جیسے عام جانور کے بارے میں لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے پطرس بخاری کو ان کی وفات کے پینتالیس سال بعد ہلالِ امتیاز سے نوازا۔