Author: عارف حسین

  • حسین شہید سہروردی: شخصیت و خدمات پر ایک نظر

    حسین شہید سہروردی: شخصیت و خدمات پر ایک نظر

    عراق کے شہر سہرورد سے ہجرت کے بعد مغربی بنگال کو اپنا مستقر بنانے والے خاندان کی جن شخصیات نے علم و فنون سے لے کر سیاست کے میدان تک اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا ان میں ایک حسین شہید سہروردی بھی ہیں۔

    ان کا خاندان سلسلۂ تصوّف کے عظیم بزرگ شہاب الدّین سہروردی کے خاندان سے نسبت کی وجہ سے خود کو ‘‘سہروردی’’ کہلواتا تھا۔

    مختصر عرصے کے لیے حسین شہید سہروردی پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے. آج اس مدبّر اور فہیم سیاست داں کی برسی ہے۔ ان کی زندگی اور سیاسی سفر پر چند سطور پیشِ خدمت ہیں۔

    حسین شہید سہروردی کا خاندان علم و فنون کا شیدا اور تعلیم یافتہ گھرانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ حسین شہید سہروردی 1892 میں پیدا ہوئے۔

    ان کا گھرانا بنگال کے مدنا پور میں آباد تھا۔ ان کے والد کا نام زاہد سہروردی تھا جن کو بہت عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ کولکتہ، ہائی کورٹ کے جج تھے۔ عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو پر عبور رکھتے تھے۔ والدہ کا نام خجستہ اختر بانو تھا جو ادب سے گہرا شغف رکھتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اُردو زبان کے اوّلین ناول نگاروں میں سے ایک ہیں اور اس زمانے میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ حسین شہید سہروردی کے بڑے بھائی کا نام حسن شاہد سہروردی تھا اور یہ بھی علم و فنون کے شائق اور قابل شخص تھے۔

    اس ماحول کے پروردہ حسین شہید سہروردی نے تقسیم سے قبل سماجی حالات میں بہتری لانے کی کوششیں کیں اور سیاست میں حصّہ لینا شروع کیا تھا. پاکستان کی تحریکِ آزادی میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔ 1956 سے 1957 تک پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے حسین شہید سہروردی کو سیاسی اختلافات اور دباؤ بڑھنے پر یہ منصب چھوڑنا پڑا۔ اس دور میں‌ آئین تشکیل دینے کے حوالے سے بھی حسین شہید سہروردی کو یاد رکھا جائے گا. ان کا انتقال 1963 میں لبنان میں قیام کے دوران ہوا۔

  • عمران خان کو کرکٹ ٹیم کی قیادت سونپنے والے میری میکس کون تھے؟

    عمران خان کو کرکٹ ٹیم کی قیادت سونپنے والے میری میکس کون تھے؟

    مقصود احمد دنیائے کرکٹ میں پاکستان کے ایک آل راؤنڈر اور پاکستان کے ٹیسٹ کرکٹر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔

    ملکی اخبار اور رسائل میں کرکٹ کے کھیل سے متعلق ان کے دل چسپ اور معلوماتی مضامین بھی شایع ہوا کرتے تھے۔ پنڈال میں بیٹھ کر میدان میں ہونے والے کرکٹ میچ پر نہایت اہم اور مفید تبصرے کرنا ہوں یا اس کھیل کی باریکیوں، کھلاڑیوں کی کم زوری اور میچ کے دوران کی جانے والی غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہو، مقصود احمد نے ہر ذمہ داری خوبی سے نبھائی۔

    اسی کھلاڑی کو میری میکس سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ان کی عرفیت تھی.

    باصلاحیت مقصود احمد کو 1981 میں پاکستان کی قومی سلیکشن ٹیم کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد جب ان کے سامنے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے کپتان کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو انھوں نے یہ ذمہ داری عمران خان کو سونپی جنھوں نے ورلڈ کپ جیت کر پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ آج کرکٹ کے میدان کا یہ شہ سوار سیاست کے محاذ پر سرگرم ہے۔

    پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور ملک کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان کو 1982 میں قومی کرکٹ ٹیم کی قیادت سنبھالنے کا موقع دینے والے مقصود احمد کا شمار دنیا کے ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جن کا ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ سے زیادہ انفرادی اسکور 99 رنز ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور پاکستانی کھلاڑی عاصم کمال بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔

  • ماحولیاتی تبدیلیاں:عالمی کانفرنس 13 دسمبر تک جاری رہے گی

    ماحولیاتی تبدیلیاں:عالمی کانفرنس 13 دسمبر تک جاری رہے گی

    میڈرڈ: موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین اور اس پر سانس لیتی ہر نوع کی مخلوق کو اپنی زندگی اور بقا کے حوالے سے سنگین اور شدید نوعیت کے خطروں کا سامنا ہے۔

    پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ماحول کو خطرات اور آلودگی بڑھ رہی ہے۔ سن 2018 کے گلوبل کلائمٹ رسک انڈيکس ميں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست ميں شامل کیا گیا تھا جو موسمی تبديليوں سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔

    اسپین کے شہر میڈرڈ میں منعقدہ موسمی تبدیلیوں سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے مذاکرات 13 دسمبر تک جاری رہیں گے۔ اس کانفرنس میں دو سو کے قریب ممالک شریک ہورہے ہیں۔

    کانفرنس کے آغاز سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے بڑھتی ہوئی حدت کے ماحول پر تباہ کن اثرات سے دنیا کو خبردار کیا اور اس کے حل کے لیے کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس کانفرنس میں سن 2015 ميں پيرس ميں طے پانے والے ماحولیاتی معاہدے کے چند پیچیدہ امور کو حتمی شکل دی جائے گی۔

    اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ موسمياتی تبديليوں کے اثرات سے بچنے کے ليے عالمی سطح پر کی گئی اب تک کی کوششيں ناکافی ہيں۔

  • جب جوشؔ نے غزل سن کر اُگال دان اٹھایا!

    جب جوشؔ نے غزل سن کر اُگال دان اٹھایا!

    اردو زبان و ادب کے سنجیدہ قارئین میں جوش ملیح آبادی جیسے قادرُالکلام شاعر اپنی شخصیت کے بعض پہلوؤں اور ادبی تنازعات کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔ تاہم اس دور کے نوجوان شعرا اور لکھاریوں کے لیے جوش سے ملاقات گویا سعادت اور ان کے سامنے اپنی کوئی تخلیق رکھنا یا غزل سنانا کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا تھا۔

    علی احمد قمر بھی آفتابِ سخن سے ملاقات کی خواہش شدید رکھتے تھے جو ایک روز پوری ہوئی اور خوش قسمتی سے انھیں اپنی غزل سنانے کا موقع بھی ملا۔ علی احمد قمر لکھتے ہیں۔

    ‘‘ممتاز محقق، نقاد اور شاعر پروفیسر مجتبیٰ حُسین مرحوم نے میری اور رسا چغتائی صاحب کے اولین شعری مجموعوں، ’زخم گل‘ اور ’ریختہ‘ کے دیباچے تحریر فرمائے تھے۔ میں 1976 میں کوئٹہ سینٹر میں نشریات کے شعبے سے وابستہ تھا اور پروفیسر صاحب بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ میں شعبۂ اُردو کے صدر نشیں تھے۔ اسلام آباد واپس آیا تو جوش صاحب کے مشہور مصرع؛ وہ حبس ہے کہ لُو کی دُعا مانگتے ہیں لوگ، کی زمین میں ایک غزل کہہ کر پروفیسر صاحب کو کوئٹہ ارسال کی۔

    پروفیسر صاحب نے فون پر فرمایا کہ وہ اگلے روز کی پرواز سے اسلام آباد آرہے ہیں، میں انہیں شام چار بجے ایئر پورٹ سے لے لوں جہاں سے ہم جوش صاحب کے ہاں ملاقات کے لیے جائیں گے۔ اگلے روز ہم جوش صاحب کے ہاں جا پہنچے۔ کچھ اعلیٰ افسران اور شعرا، ادبا پہلے سے موجود تھے۔ پروفیسر صاحب نے موقع پاتے ہی جوش صاحب سے میرا تعارف کرایا اور جوش صاحب کی زمین میں کہی گئی غزل کی فرمائش کر دی۔

    جوش صاحب متوجہ ہوئے تو پروفیسر صاحب نے مجھے غزل سنانے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے مزاج سے واقف تھا۔ ڈرتے ڈرتے غزل سُنا دی۔ حاضرین نے دو ایک اشعار پر داد دی، لیکن جوش صاحب حسبِ عادت خاموش رہے اور اُگال دان میں پیک تھوک دی۔

    پروفیسر صاحب نے مجھ سے کہا، بیٹا جوش نے اسی طرح پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ میں نے جوش صاحب کے پاؤں پکڑ لیے۔ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ میں نے اتنے عظیم شاعر کی غزل کے مصرع پر اپنی غزل اُنہی کو سناکر کتنی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ وہ غزل ضیاء الحق کے مارشل لا کے پس منظر میں کہی تھی۔ اس کے چند اشعار پیش ہیں۔
    دن میں سیاہ شب کی دعا مانگتے ہیں لوگ
    اپنے کیے کی خود ہی سزا مانگتے ہیں لوگ
    یہ سوچتے نہیں کہ شجر خشک کیوں ہوا
    لیکن اُسی سے سایہ گھنا مانگتے ہیں لوگ
    ہر شام انتظار سا رہتا ہے ابر کا
    محبوس بستیوں میں ہوا مانگتے ہیں لوگ
    تازہ ہوا کی یوں تو کبھی فکر بھی نہ کی
    بیمار ہیں تو کیسے شفا مانگتے ہیں لوگ
    قامت میں اپنی سوچ سے بڑھتے نہیں قمر
    سایہ پر اپنے قد سے بڑا مانگتے ہیں لوگ

  • پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کی 35 ویں‌ برسی آج منائی جارہی ہے

    پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کی 35 ویں‌ برسی آج منائی جارہی ہے

    استاد دامن کا تذکرہ ہو تو جہاں ان کی سادہ بود وباش اور بے نیازی کی بات کی جاتی ہے، وہیں جرأتِ اظہار اور حق گوئی کی بھی مثال دی جاتی ہے۔ اس کثیرالمطالعہ اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تخلیق کار کو پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اول کا شاعر کہا جاتا ہے۔

    استاد دامن کا حافظہ قوی اور فی البدیہہ اشعار کہنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ ان کی شاعری عوامی جذبات کی ترجمان اور جذبۂ حبُ الوطنی سے آراستہ ہے۔ مصلحت سے پاک، کسی بھی قسم کے خوف سے آزاد اور عوامی لہجہ استاد دامن کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جس طرح اردو میں فیض و جالب نے جبر اور ناانصافی کے خلاف نظمیں‌ کہیں اور لوگوں میں‌ شعور بیدار کیا، اسی طرح استاد دامن نے سیاسی جلسوں، عوامی اجتماعات میں پنجابی زبان میں اپنے کلام کے ذریعے استحصالی ٹولے اور مفاد پرستوں کو بے نقاب کیا۔

    آج پنجابی ادب کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔ استاد دامن کو دنیا سے رخصت ہوئے 35 برس بیت چکے ہیں، مگر ناانصافی، عدم مساوات اور جبر کے خلاف ان کے ترانے، نظمیں آج بھی گویا زندہ ہیں۔ پنجابی کے علاوہ استاد دامن اردو، ہندی اور دیگر زبانوں سے واقف تھے۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ زندگی بھر سادگی اور حق گوئی کی مثال بنے رہے۔ صلے اور ستائش کی تمنا سے آزاد اور سچائی کا ساتھ دینے والے اس شاعر کا سن پیدائش 1910 ہے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں استاد دامن کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ استاد دامن نے بھی معاش کے لیے یہی کام کیا اور باوقار انداز سے زندگی گزاری۔

    استاد دامن نے پنجابی شاعری اور فن پر گرفت رکھنے کے سبب اہلِ علم نے انھیں استاد تسلیم کیا اور پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے۔ وہ 3 دسمبر 1984 کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

  • صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    وادیِ سوات ایک پُرفضا اور سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ یہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا مسکن اور ثقافت کے لحاظ سے کئی رنگ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

    صدیوں پہلے بھی یہاں مختلف فنون اور ہنر میں لوگ باکمال اور قابلِ ذکر رہے ہیں۔ قدیم دور کا انسان پتھروں اور لکڑیوں کے کام میں ماہر تھا اور اس نے نقاشی، کندہ کاری میں لازوال اور یادگار کام کیا۔

    سوات کے لوگ کندہ کاری کے ہنر کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں پہچان رکھتے ہیں۔ کندہ کاری وہ ہنر ہے جسے سوات میں 1300 عیسوی سے بیسویں صدی تک ہنرمندوں نے گویا حرزِ جاں بنائے رکھا۔ یہاں گندھارا آرٹ اور لکڑی پر کندہ کاری کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔

    ہم آپ کو سوات کے ایک گاؤں سپل بانڈئی کی اس مسجد کے بارے میں بتا رہے ہیں جو تین سو سال قدیم ہے۔ اس مسجد کے در و بام کو جس خلوص اور محبت سے مقامی ہنر مندوں کے ہاتھوں نے سجایا تھا، اُسی طرح وہاں کے مسلمانوں نے اپنی مذہبی عقیدت اور سجدوں سے اسے بسایا تھا۔ مگر پھر گردشِ زمانہ اور ہماری عدم توجہی نے اس تاریخی ورثے کو دھندلا دیا۔

    سپل بانڈئی وادیِ سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے چند کلومیٹر دور واقع ہے جہاں یہ مسجد قائم کی گئی تھی۔ سرسبز و شاداب پہاڑی پر واقع اس گاؤں کو جانے کب بسایا گیا، لیکن محققین کا خیال ہے کہ اسے محمود غزنوی کی افغان فوج میں شامل لوگوں نے آباد کیا تھا۔

    یہ تین سو سالہ تاریخی مسجد اب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک قدیم اور دوسرا موجودہ دور میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ستون اور چھت سواتی کاری گری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ماہرینِ آثار کے مطابق اس مسجد کی تزئین و آرائش میں جس لکڑی سے کام لیا گیا ہے وہ ‘‘دیار’’ کی ہے۔ تاہم پوری مسجد میں مختلف درختوں کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ محرابوں کی بات کی جائے تو اس دور میں ہنرمندوں نے اسے تین مختلف اقسام کی لکڑیوں سے جاذبیت بخشی ہے۔ اس میں کالے رنگ کی خاص لکڑی بھی شامل ہے جو اس علاقے میں نہیں پائی جاتی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے دوسرے علاقوں سے بھی لکڑی منگوائی گئی تھی۔ دیار کے علاوہ عمارت میں چیڑ کی لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔

    اگر صرف مسجد میں‌ استعمال کی گئی لکڑی کی بات کی جائے تو تین سو سے زائد سال بعد بھی وہ بہتر حالت میں ہے اور ستون نہایت مضبوط ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسجد کا پرانا طرزِ تعمیر سوات کے علاوہ کسی اور علاقے میں نہیں دیکھا گیا.

  • بیٹی کا اپنی والدہ کے نام ایک خط (طنز و مزاح)

    بیٹی کا اپنی والدہ کے نام ایک خط (طنز و مزاح)

    مری پیاری امی، مری جان امی!

    بعد ادائے ادب کے عرض یہ ہے کہ یہاں ہر طرح سے خیریت ہے اور خیر و عافیت آپ کی خداوند کریم سے نیک مطلوب ہے۔ صورتِ احوال یہ ہے کہ یہاں سب خیریت سے ہیں۔ والا نامہ آپ کا صادر ہوا۔ دل کو از حد خوشی ہوئی۔ چچا جان کے خسر صاحب کے انتقالِ پُر ملال کی خبر سن کر دل کو از حد قلق ہوا۔ جب سے یہ خبر سنی ہے چچی جان دھاروں رو رہی ہیں۔ خلیفہ جی یہ سناؤنی لے کر پہنچے تو کسی سے اتنا نہ ہوا کہ ان کی دعوت ہی کر دیتا۔ میں نے سوچا کہ اگر ذرا سی الکسی ہو گئی تو خاندان بھر میں تھڑی تھڑی ہو جائے گی۔ فوراً خادمہ کو لے کر باورچی خانے پہنچی۔ اس نے جھپاک جھپاک آٹا گوندھا، لیکن سالن قدرے تیز آنچ پر پک گئے، چناں چہ پھل پھلواری سے خلیفہ جی کی تواضع کی۔ بہت خوش ہوا۔

    تائی صاحبہ نے خوان بھجوا کر حاتم کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے روز ناشتے پر بھی بلوایا۔ اوچھے کے ہوئے تیتر باہر باندھوں کت بھیتر۔ تائی صاحبہ بھی ہمیشہ اسی طرح کرتی رہتی ہیں، رنگ میں بھنگ ڈال دیتی ہیں۔

    الفت بیا آئی تھیں۔ تائی صاحبہ کا فرمانا ہے کہ یہ بچپن سے بہری ہیں۔ بہری وہری کچھ نہیں۔ وہ فقط سنتی نہیں ہیں۔ کیا مجال جو آگے سے کوئی ایک لفظ بول جائے۔

    گو دل نہیں چاہ رہا تھا، لیکن آپ کے ارشاد کے مطابق ہم سب ممانی جان سے ملنے گئے۔ وہاں پہنچے تو سارا کنبہ کہیں گیا ہوا تھا، چناں چہ چڑیا گھر دیکھنے چلے گئے۔ ایک نیا جانور آیا ہے، زیبرا کہلاتا ہے۔ بالکل گدھے کا اسپورٹس ماڈل معلوم ہوتا ہے۔ اچھا ہی ہوا کہ دیکھ لیا ورنہ ممانی جان کی طعن آمیز گفتگو سننی پڑتی۔

    پڑھائی زوروں سے ہو رہی ہے۔ پچھلے ہفتے ہمارے کالج میں مس سید آئی تھیں جنھیں ولایت سے کئی ڈگریاں ملی ہیں۔ بڑی قابل عورت ہیں۔ انہوں نے ‘‘مشرقی عورت اور پردہ’’ پر لیکچر دیا۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ مس سید نے شنائل کا ہلکا گلابی جوڑا پہن رکھا تھا۔ قمیص پر کلیوں کے سادہ نقش اچھے لگ رہے تھے۔ گلے میں گہرا سرخ پھول نہایت خوب صورتی سے ٹانکا گیا تھا۔ شیفون کے آبی دوپٹے کا کام مجھے بڑا پسند آیا۔ بیضوی بوٹے جوڑوں میں کاڑھے ہوئے تھے۔ ہر دوسری قطار کلیوں کی تھی۔

    ہر چوتھی قطار میں دو پھول کے بعد ایک کلی کم ہو جاتی تھی۔ دوپٹے کا پلو سادہ تھا، لیکن بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ مس سید نے بھاری سینڈل کی جگہ لفٹی پہن رکھی تھی۔ کانوں میں ایک ایک نگ کے ہلکے پھلکے آویزے تھے۔ تراشیدہ بال بڑی استادی سے پرم کیے ہوئے تھے۔ جب آئیں تو کوٹی کی خوش بُو سے سب کچھ معطر ہو گیا۔ لیکن مجھے ان کی شکل پسند نہیں آئی۔ ایک آنکھ دوسری سے کچھ چھوٹی ہے۔ مسکراتی ہیں تو دانت برے معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے بھی عمر رسیدہ ہیں۔ ہوں گی ہم لڑکیوں سے کم از کم پانچ سال بڑی۔ ان کا لیکچر نہایت مقبول ہوا۔

    آپ یہ سن کر پھولی نہ سمائیں گی کہ آپ کی پیاری بیٹی امورِ خانہ داری پر کتاب لکھ رہی ہے۔ مجھے بڑا غصہ آتا تھا جب لوگوں کو یہ کہتے سنتی تھی کہ پڑھی لکھی لڑکیاں گھر کا کام کاج نہیں کر سکتیں چنانچہ میں نے آزمودہ ترکیبیں لکھی ہیں۔ جو ملک کے مشہور زنانہ رسالوں میں چھپیں گی۔ نمونے کے طور پر چند ترکیبیں نقل کرتی ہوں۔
    (معروف مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی کتاب مسکراہٹیں سے لیا گیا)

  • جب فیض‌ کی گاڑی ایک گھر کی دیوار سے جا ٹکرائی!

    جب فیض‌ کی گاڑی ایک گھر کی دیوار سے جا ٹکرائی!

    فیض کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جن کے انقلابی ترانے اور نظمیں آج بھی مقبول ہیں۔

    اپنی فکر اور نظریے کی وجہ سے فیض‌ ہر خاص و عام میں یکساں‌ مقبول ہیں۔ فیض کی زندگی میں بھی ان کے چاہنے والے بے شمار تھے اور آج بھی ان کے فن اور شخصیت کے پرستار ہر سال ان کی یاد میں‌ فیض میلہ سجاتے اور دوسری تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ کسی کو فیض کی شخصیت میں کشش محسوس ہوتی ہے تو کوئی ان کی نظموں کا اسیر ہے۔ کسی کو ان کی انسان دوستی سے پیار ہے تو کوئی غزلوں کا دیوانہ ہے.

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کے فن اور شخصیت کے علاوہ ان کی زندگی کے کئی اہم اور بعض دل چسپ پہلو بھی مختلف کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ واقعہ جو ہم آپ کے لیے پیش کر رہے ہیں، فیض احمد فیض کی شخصیت کا ایک شگفتہ اور خوش گوار پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    ایک رات فیض خیام سنیما، کراچی کی سڑک سے اپنے گھر لوٹ رہے تھے یا تو ان کی آنکھوں میں نیند ہوگی یا اس وقت ان پر کوئی شعر نازل ہورہا ہوگا۔ ان کی موٹر کی رفتار اچانک تیز ہوگئی، عین اسی وقت ایک طرف سے ایک گدھا گاڑی فراٹے بھرتی نمودار ہوئی، فیض کو فوراً تصفیہ کرنا تھا کہ اپنی موٹر گدھا گاڑی سے ٹکرائیں یا کسی گھر کی دیوار سے؟

    گدھے کو بچانے کی خاطر فیض نے موٹر دیوار سے ٹکرا دی، دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہوگیا، اہل خانہ کو معلوم ہوا کہ یہ فیض احمد فیض ہیں تو وہ اپنی دیوار گرنے سے بہت خوش ہوئے کہ کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔ دوسرے دن انھوں نے فیض کو کھانے پر مدعو کیا، کلام سنا اور کہا.

    جی تو یہ چاہتا ہے کہ یہ دیوار اسی طرح رہنے دیں کیوں کہ اسے فیض کی موٹر سے ٹکر کھانے کا شرف حاصل ہوا ہے مگر بدنما معلوم ہوگی، اس لیے آپ کی تشریف آوری کی خوشی میں ہم خود یہ دیوار بنوالیں گے آپ زحمت نہ کریں۔

  • 2 دسمبر کو ایسا کیا ہوا جس نے تاریخ رقم کر دی!

    2 دسمبر کو ایسا کیا ہوا جس نے تاریخ رقم کر دی!

    یہ 2 دسمبر 1988 کی بات ہے جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب ایک خاتون نے سنبھالا۔ دنیا انھیں بے نظیر بھٹو کے نام سے جانتی ہے۔

    ملک میں نومبر کے مہینے میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا جس میں کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت سے کام یاب نہیں ہوسکی تھی۔ اقتدار کی منتقلی ایک اہم ترین مرحلہ تھا اور سیاسی جماعتوں اور اتحادوں میں جوڑ توڑ جاری تھا جب کہ اس عہدے پر نام زدگی کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا تھا۔

    اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت سازی کی دعوت دی۔ پیپلز پارٹی کی قائد نے 2 دسمبر کو نمازِ جمعہ کے بعد وزیرِاعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا اور یوں اس منصب پر فائز ہونے والی پہلی پاکستانی خاتون بنیں۔

    ایوانِ صدر میں حلف برداری کی تقریب میں بیگم نصرت بھٹو، آصف زرداری، صنم بھٹو، ٹکا خان، ولی خان، نواب زادہ نصراللہ خان، مسلح افواج کے سربراہ، مختلف ممالک کے سفارت کار اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو کی یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل سکی۔ صرف ایک سال 8 ماہ بعد ان کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کے ذریعے اسمبلیاں برخاست کر دی تھیں۔

  • سردیاں: دل کے مریضوں کے لیے خطرہ؟

    سردیاں: دل کے مریضوں کے لیے خطرہ؟

    موسمِ سرما میں عام بیماریوں اور سرد ہواؤں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے ساتھ بعض دوسرے امراض میں بھی شدت آسکتی ہے۔ جیسے دمے کے مریضوں کو اس موسم میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں، اسی طرح عارضۂ قلب کے مریضوں میں بھی سینے اور دل میں درد کی شکایت بڑھ سکتی ہے جس کی مختلف وجوہ ہیں۔

    سردیوں میں خون کی نالیاں کسی حد تک سکڑ سکتی ہیں یا تنگ ہو جاتی ہیں جس کے نتیجے میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے۔ اس موسم میں خون کی نالیوں میں کھانوں کی چکنائی بھی گردش میں رکاوٹ ڈالتی ہے اور دل کو مناسب مقدار نہیں پہنچتی جس کی وجہ سے اس عضو کو زیادہ طاقت سے اپنا کام کرنا پڑتا ہے اور یہی وہ مسئلہ ہے جو کسی بھی مریض کو درد اور طبی پیچیدگی سے دوچار کر سکتا ہے۔

    سردیوں میں عارضۂ قلب میں مبتلا افراد کو سب سے پہلے اپنی غذا کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ آرام کرتے ہوئے یا سو کر اٹھنے پر سینے اور دل میں درد کا احساس اور اس تکلیف کو آدھے گھنٹے سے زائد برقرار رہنا، اسی طرح گھبراہٹ محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ پیروں کا سُن ہو جانا، اچانک بہت زیادہ پسینا آنا اور بے چینی کے ساتھ نیند اور غنودگی محسوس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ موسم کے زیرِ اثر ہیں اور کھانے پینے سمیت دیگر حوالوں سے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

    دل میں درد یا سینے کی تکلیف کو کبھی نظر انداز نہ کریں اور اسے محض موسم کا اثر سمجھ کر نہ ٹالیں۔ اپنے معالج سے اس کی ہدایات کے مطابق رابطہ کریں اور دواؤں کے ساتھ پرہیز کا خیال رکھیں۔ عارضۂ قلب میں مبتلا افراد کو سردیوں کے موسم میں بہت اپنی غذا اور خوراک پر توجہ دینے کے ساتھ تمام وہ تدابیر اختیار کرنا چاہییں جن سے دل کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔