Author: عارف حسین

  • مولانا محمد علی جوہر اور ہندو رانی!

    مولانا محمد علی جوہر اور ہندو رانی!

    شملہ میں ایک کانفرنس ہو رہی تھی جس میں مولانا محمد علی جوہر بھی شریک تھے۔

    گفتگو اردو زبان ہی میں ہو رہی تھی۔ کسی موضوع پر وہاں بحث شروع ہوگئی اور الجھاؤ پیدا ہو گیا۔ جوشِ خطابت میں مولانا انگریزی زبان میں دلائل دینے لگے اور سب کو لاجواب کر دیا۔

    اس مجلس میں ایک ہندو رانی بھی موجود تھی۔ اس نے مخصوص وضع قطع والے ایک مولانا کو جب اتنی شستہ انگریزی بولتے سنا تو ششدر رہ گئی۔ اس سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھی:
    ”مولانا آپ نے اتنی اچھی انگریزی کہاں سے سیکھی؟“
    مولانا نے جواب دیا۔
    ”میں نے انگریزی ایک بہت ہی چھوٹے سے قصبے میں سیکھی ہے۔“
    ہندو رانی نے استفسار کیا تو مولانا شگفتگی سے بولے: ”آکسفورڈ میں۔

  • افسانوی شہرت کے حامل بابا علاؤ الدین کا تذکرہ

    افسانوی شہرت کے حامل بابا علاؤ الدین کا تذکرہ

    بابا علاؤ الدین افسانوی شہرت کی حامل ہیں۔ ایک دور تھا جب دنیا بھر میں ان کے فن کا چرچا ہوا اور وہ موسیقی کے استاد مانے گئے۔ انھیں سُروں کا ماہر اور راگنیوں کا بہترین شناسا کہا جاتا تھا۔

    کم عمری میں ہی علاؤ الدین کو موسیقی اور سازوں میں دل چسپی پیدا ہو گئی تھی۔ گیتوں، راگ راگنیوں اور سازوں میں یہ دل چسپی اور شوق چند برس بعد جنون میں ڈھل گیا۔

    نوجوانی میں انھوں نے سُر اور ساز سے ایسا ناتا جوڑا کہ پھر تمام عمر اسی کے نام کر دی۔ اپنے ہنر میں یکتا اور منفرد علاؤ الدین کو دنیائے موسیقی نے ‘‘استاد’’ تسلیم کیا۔ شاگردوں اور عقیدت مندوں میں جلد ہی بابا علاؤ الدین کے نام سے مشہور ہوگئے۔

    انھوں نے وہ افسانوی شہرت حاصل کی کہ عام لوگ ہی نہیں اپنے وقت کی مشہور اور نام وَر شخصیات راجا، سلاطینِ وقت، امرا و درباری ان سے ملاقات کی خواہش مند رہے اور اسے اپنے لیے اعزاز سمجھا۔

    اس عظیم موسیقار نے 1862 میں بھارت کے شہر تریپورہ میں آنکھ کھولی۔ موسیقی کے اَسرار و رموز سیکھنے کے لیے سُر اور سنگیت کی دنیا کے نام وروں کے پاس بیٹھے اور ان کے علم سے بھرپور استفادہ کیا۔ بابا علاؤ الدین نے طویل عمر پائی۔ ان کا انتقال 1972ء میں 110 سال کی عمر میں ہوا۔

    برصغیر کا روایتی ساز ’سرود‘ بابا علاؤ الدین کا پسندیدہ تھا۔ اس فن میں انھوں نے جہاں اپنے وقت کے نام ور مسلمان موسیقاروں سے استفادہ کیا، وہیں متعدد ہندو گائیک اور سازندوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ مشہور ہے کہ مشرقی بنگال کے ایک لوک گائیک گوپال کرشن بھٹاچاریہ کی شاگری اختیار کرنے کے لیے علاؤ الدین نے نہ صرف خود کو ہندو ظاہر کیا بلکہ اپنا نام بھی تارا سنہا رکھ لیا تھا۔

    استاد علاؤ الدین خان نے مختلف ساز، خصوصاً سرود نوازی کے علاوہ فلموں کے لیے موسیقی بھی ترتیب دی۔ کئی راگ ان کی تخلیق بتائے جاتے ہیں۔ کومل بھیم پلاسی، کومل ماروا، دُرگیشوری، نٹ کھماج، میگھ بہار اور جونپوری توڑی بابا علاؤ الدین کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہیں۔

    بابا علاؤ الدین کے کئی ساز، ان کی نادر تصاویر، کتب، تحائف اور دیگر یادگار اشیا بنگلہ دیش کے سنگیت آنگن نامی میوزیم میں محفوظ کی گئی تھیں، جسے ایک ہنگامے کے دوران مشتعل طلبا نے آگ لگا دی جس کے نتیجے میں بیش قیمت خزانہ خاکستر ہو گیا، لیکن ان کا فن آج بھی زندہ ہے اور ان کی یادیں موسیقی سے محبت کرنے والوں کے دلوں پر نقش ہیں۔

    بابا علاؤ الدین کے شاگردوں نے بھی اس فن میں اپنے استاد کا نام روشن کیا اور دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے شہرت سمیٹی۔ ان میں پنڈت روی شنکر، استاد علی اکبر خان، پنڈت نخل بینرجی، وسنت رائے، پنا لال گھوش، شرن رانی اور جوتن بھٹاچاریہ شامل ہیں۔

  • جرمن نواب کا انگریزوں‌ سے انوکھا انتقام

    جرمن نواب کا انگریزوں‌ سے انوکھا انتقام

    جرمن ہمیشہ سے ایک خاص احساسِ برتری میں مبتلا رہے ہیں۔ انھیں اقوامِ عالم میں خود پر سب سے زیادہ فخر کرنے والی قوم سمجھا جاتا ہے جس کی مختلف وجوہ اور اسباب ہیں۔ تاہم جو واقعہ آپ پڑھنے جارہے ہیں، اس سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جرمن ذہین ہوتے ہیں۔

    یہ کئی دہائیوں پہلے کی بات ہے جب ڈربن کے نواح میں ایک نئی بستی تعمیر کی جارہی تھی۔ علاقے کا ایک نواب یہاں بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی زمین کا مالک تھا۔ وہ جرمن باشندہ تھا جب کہ اس علاقے میں انگریز خاصی تعداد میں بستے تھے۔ بستی کی تعمیر کے ساتھ اس کی مختلف گلیوں اور سڑکوں کا نام بھی رکھنا تھا۔

    یہ اختیار نواب کو دیا گیا۔ اس شخص نے جرمن زبان میں پیچیدہ نام رکھنے شروع کر دیے۔ اس پر متعلقہ افراد نے سمجھایا کہ یہ انگریزوں کی آبادی ہے، اس لیے ان کی خوشی کو مقدم رکھنا چاہیے۔ لوگوں کا کہنا تھاکہ انگریزی نام زیادہ مناسب رہیں گے۔ نواب نے کچھ دن کی مہلت طلب کی اور پھر نئے ناموں کی ایک فہرست سب کے سامنے رکھ دی۔ سبھی خوش ہوگئے کیوں کہ یہ سب حقیقی انگریزی نام تھے۔

    کئی سال بعد بستی کے ایک مکین کو سڑکوں کے ناموں سے کچھ شناسائی کا احساس ہوا۔ اس کے جذبۂ تجسس نے اسے تحقیق پر اُکسایا۔ تب یہ عقدہ کھلا کہ اس جرمن نواب نے بیش تر سڑکوں کو برطانوی بحریہ کے ان جنگی جہازوں کا نام دیا گیا تھا جنھیں دوسری جنگِ عظیم میں جرمنوں نے غرق کیا تھا۔

  • فلسفی نے زندگی کی حقیقت بتا دی!

    فلسفی نے زندگی کی حقیقت بتا دی!

    تاریخ کے اوراق الٹیں تو جہاں ہمیں بادشاہوں، سلاطین و امرا کے طرزِ حکم رانی، جنگوں اور خوں ریز معرکوں کی بابت حقائق، واقعات، حکایات اور طرح طرح کی داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں وہیں بعض بادشاہوں کے زندگی کے حالات اور دل چسپ واقعات ایسے بھی ہیں جو آج بھی ہمارے لیے عبرت آمیز اور سبق آموز ہیں۔

    اسی طرح صدیوں پہلے کی حکایات، کسی دانا و حکیم کی باتیں بھی ہمارے لیے زندگی میں راہ نما ثابت ہوتی ہیں۔ یوں تو ہم نے کئی حکایات پڑھ رکھی ہیں جنھوں نے ہمیں زندگی اور گزر بسر سے متعلق روشن اور اجلے اصولوں سے نہ صرف آشنا کیا بلکہ آج بھی ان کی اہمیت برقرار ہے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ یہ قصّے اور حکایات ہماری اخلاقی تربیت اور کردار سازی کا ذریعہ ہیں۔

    تاریخ کا ایک کردار عمرولیث بھی ہے جسے ہم سب ایک حکم راں کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ عمرولیث اور اس زمانے کے ایک دانا کا یہ واقعہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔
    کسی فلسفی نے عمرولیث کو ایک عرضی کے ذریعے ایک مسئلے سے آگاہ کیا اور داد رسی چاہی۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق فلسفی نے عرضی کے آغاز میں شاہِ وقت کے لیے دعائیہ انداز میں لکھا کہ وہ طویل عمر پائیں، ہزاروں برس زندہ رہیں۔ کہتے ہیں عمرولیث ایک بدمزاج اور تندخو شخص تھا۔

    اس نے کاتب سے جواب لکھوایا کہ دانا لوگ ناممکن باتیں نہیں لکھا کرتے۔ تم نے عرضی کی ابتدا میں میرے لیے ہزاروں برس زندہ رہنے کی دعا کی ہے۔ میرا ہزاروں برس زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ عرضی کے باقی مندرجات کا بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔
    فلسفی اپنے فریاد نامے کا یہ حشر دیکھ کے عمرولیث کے پاس پہنچا اور بولا: ‘‘امیر اپنے فرمودات کے جواب کی اجازت دیں تو سائل کچھ عرض کرے۔’’

    اس نے بات کرنے کی اجازت دی تو فلسفی نے کہا: ‘‘انسان کی زندگی صرف جسمی نہیں ہے بلکہ ان نیکیوں سے بھی عبارت ہے جو انسان کے گزر جانے کے بعد بھی سلامت رہتی ہیں۔ نیکی کے بغیر زندگی زندگی نہیں، موت سے بدتر ہے۔

    عمرولیث کو یہ جواب بہت پسند آیا اور اس نے فلسفی کو شاد کام واپس کیا۔

  • ابرار ترمذی: مصوری، فوٹو گرافی اور موسیقی کا شیدائی

    ابرار ترمذی: مصوری، فوٹو گرافی اور موسیقی کا شیدائی

    ابرار ترمذی کا خاندانی نام سید ابرار حسین شاہ تھا، لیکن وہ اپنے دوستوں اور آشناؤں میں ابرار شاہ کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔

    چوں کہ اسے لکھنے لکھانے اور شاعری کا بھی شوق تھا، اس لیے اپنے فن پاروں اور تحریروں میں ابرار ترمذی کا نام استعمال کرتا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب وہ برطانیہ آیا تو شروع میں ابرار پاکستانی بھی کہلاتا تھا، لیکن بعد میں ابرار ترمذی یا ابرار شاہ سے ہی پہچانا جاتا تھا۔ معروف صحافی اور ادیب شفیع عقیل کی کتاب سے اس مصور کے بارے میں یہ تحریر آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

    ابرار ترمذی 1938 میں پیدا ہوا۔ ساہیوال سے بی اے کیا۔ پھر وہ لاہور آگیا اور پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس کے شعبے میں داخلہ لے لیا جہاں سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ یہاں اس کے ہم جماعتوں میں آج کے مشہور مصور عبدالرحیم ناگوری بھی شامل تھے۔ اس کے بعد لاہور ہی میں انجینئرنگ یونیورسٹی سے گرافک ڈیزائننگ کی تربیت حاصل کی۔

    1964ء میں جب لاہور میں کُل پاکستان آرٹس نمائش کا انعقاد ہوا تو ابرار نے مجسمہ سازی میں انعام حاصل کیا اور نام ور مصور عبدالرحمٰن چغتائی کے ہاتھوں وصول کیا۔ اس نے یونیورسٹی میں ڈرائنگ، مجسمہ سازی اور اناٹومی کی خصوصیت سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اس کے اساتذہ میں اینا مولکا احمد، مس حفیظ قاضی، خالد اقبال اور کولن ڈپوڈ جیسی شخصیات شامل تھیں۔

    ابرار ترمذی نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے گھروالوں کی خواہش تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بنے یا پھر کسی اعلیٰ سرکاری عہدے پر پہنچے، لیکن اسے بچپن ہی سے آرٹ، فوٹو گرافی اور موسیقی سے دل چسپی تھی۔ اس لیے اس نے والدین کی تمنا کے برعکس اپنے شوق ہی کو پیشہ بنانے کا ارادہ کیا۔ وہ آرٹ کے ساتھ ساتھ استاد محمد حسین سے موسیقی کا درس بھی لیتا رہا، لیکن موسیقی کو ذریعہئ اظہار نہ بنایا۔

    اس کے لیے اس نے مصوری کا انتخاب کیا تھا اور فوٹو گرافی شوق کے ساتھ ساتھ آمدنی کا ذریعہ بھی بنتی رہی۔ تاہم اس نے موسیقی کو بالکل ترک نہیں کیا۔ اس کا چسکا بھی ایسا لگا ہوا تھا کہ زندگی کے ساتھ چل رہا تھا۔ اس طرح دیکھیں تو وہ مصوری، موسیقی اور فوٹو گرافی سے بیک وقت وابستہ تھا۔ اس کا کہنا تھا، اگر انسان کو موسیقی کے رموز سے آگاہی حاصل ہوجائے تو اس میں اس کے دکھوں اور خوشیوں کے اظہار کا ویسا ہی سلسلہ ملتا ہے جیسا بصری فنون میں ہے۔

    آرٹ کی تعلیم و تربیت سے فارغ ہونے کے بعد وہ دل میں ارادہ کیے ہوئے تھا کہ مغربی دنیا میں جائے گا تاکہ یورپ کے جن فن کاروں کا کام کتابوں میں دیکھا تھا ان کے فن پارے اصل صورت میں دیکھ سکے۔ وہاں کے میوزیم دیکھنے کی تمنا تھی، مگر ابھی اس کے لیے وسائل میسر نہ تھے۔ پھر یہ تھا کہ وہ اپنے بعض دوستوں کے رویے سے بھی دل برداشتہ ہو رہا تھا اس لیے کوشش میں تھا کہ کسی طرح بیرون ملک جائے۔ آخر کار اسے یہ موقع بھی مل ہی گیا۔ چناں چہ ابرار ترمذی 1968ء میں برطانیہ پہنچ گیا۔

    اگرچہ اس وقت ہوائی سفر کے کرائے اتنے زیادہ نہیں تھے۔ تاہم اس کے مالی حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ اس نے جوں توں کرکے ٹکٹ کا انتظام کیا اور لندن روانہ ہوگیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں اپنے معاشرے کے تضاد سے بھاگا تھا اور اپنے خوابوں کا پیچھا کرتے ہوئے زندگی کی تعمیر کی جستجو میں انگلستان پہنچ گیا۔ جب میں یہاں آیا تو میرے سامنے قطعی طور پر کوئی معاشی یا فنی منصوبے نہیں تھے۔ بس یوں تھا کہ ماحول کی گھٹن سے نکلا جائے اور سبزہ زاروں کی تازہ ہوا میں آزادی سے سانس لیا جائے۔

    ابرار سب سے پہلے مانچسٹر پہنچا جہاں اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور کچھ عرصے تک مزید فن کی تعلیم و تربیت حاصل کرتا رہا۔ مانچسٹر میں قیام تو کرلیا تھا، لیکن وہاں رہنے اور زندگی گزارنے کے لیے اخراجات کا وسیلہ کوئی نہ تھا۔ اس موقعے پراس کا فوٹو گرافی کا شوق کام آیا۔

    اس نے ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے کر اس میں رہائش اختیار کرلی اور اسی کو اپنا اسٹوڈیو بنالیا۔ اسٹوڈیو قائم کرنے کے بعد اس نے پاکستانیوں اور ہندوستان کے لوگوں کی چھوٹی موٹی تقریبات کی فوٹو گرافی شروع کردی۔ شروع میں کچھ مشکل پیش آئی، لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ کام چل نکلا۔

  • طالب اور موہنی نے کنوئیں میں کود کر جان دے دی!

    طالب اور موہنی نے کنوئیں میں کود کر جان دے دی!

    تاریخ میں طالب اور موہنی نامی دو کرداروں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جن کے عشق کی داستان کو اردو ادب میں‌ بھی جگہ دی گئی ہے. ایک دکھنی شاعر سید محمد والہؔ موسوی نے اس قصے کو نظم کیا ہے۔ اس مثنوی کا ایک نسخہ انڈیا آفس لندن میں محفوظ ہے اور ایک ادارۂ ادبیات اُردو کے کتب خانہ میں دست یاب ہے۔

    سید محمد والہ، سید محمد باقر خراسانی کے فرزند تھے۔ عالم شباب میں لاہور اور وہاں سے دہلی آئے۔ 1724 میں دہلی سے نظام الملک آصف جاہ کے ساتھ دکن چلے آئے۔ مختلف عہدوں اور ذمہ داریوں پر مامور رہے۔ ان کی وفات 1769 میں ہوئی۔ فارسی کے صاحبِ دیوان تھے۔ سید محی الدین قادری زورؔ نے مثنوی طالب و موہنی کے علاوہ ان کی دس دیگر تصانیف کی نشان دہی کی ہے۔

    والہؔ جس زمانے میں دکن میں وارد ہوئے ابنِ نشاطی کی مثنوی پھولبن کا بڑا شہرہ تھا۔ یہ مثنوی انھیں پسند نہ آئی اور اسی کے جواب میں انھوں نے طالب و موہنی کا قصہ نظم کیا۔ مشہور ادیب، محقق اور نقاد گوپی چند نارنگ نے ان کا ذکر اپنی کتاب ‘‘ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں’’ میں کیا ہے۔

    اورنگ آباد اور احمد نگر کے جنوب میں موجودہ عثمان آباد کے قریب قلعہ پرینڈہ ایک تاریخی مقام ہے۔ وہاں ایک بوڑھے برہمن نے والہ کو طالب اور موہنی کی داستانِ عشق سنائی۔ والہ کے دل پر اس کا گہرا اثر ہوا اور انھوں نے اسے مثنوی میں بیان کر دیا۔ یہ قصّہ کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔

    طالب نامی ایک مسلمان نوجوان نے مہاجن کی لڑکی موہنی کو پنگھٹ پر پانی بھرتے دیکھا اور اس پر شیدا و مفتوں ہوگیا۔ اس نے موہنی کا تعاقب کیا اور گھر دیکھ لیا۔ کہتے ہیں کہ وہ مہاجن کے گھر کے سامنے ہی بیٹھا رہتا۔ سب کو اس کی حالت کا علم ہو چکا تھا۔ طالب نے کھانا پینا بند کردیا اور ہر طرف اس کے عشق و جنون کا چرچا ہونے لگا۔ کھانا پینا بند کرنے سے اس کی حالت غیر ہونے لگی تو مہاجن ڈر گیا کہ خون ناحق اس کے سَر نہ جائے، اس نے طالب کو کھانا پیش کیا، مگر اس نے انکار کردیا۔ آخر لوگوں کے کہنے سننے پر مہاجن نے موہنی کے ہاتھ کھانا بھیجا جو طالب نے قبول کرلیا۔

    بات بڑھتے بڑھتے شہر کے منصف تک پہنچی، مگر وہ بھی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ آخر مہاجن نے ایک چال چلی اور خبر اُڑائی کہ موہنی بیمار ہے۔ کچھ روز بعد مشہور کردیا کہ موہنی مر گئی ہے اور اس کا جنازہ اٹھایا گیا۔

    طالب پر قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔ وہ ماتم کرتا ہوا جنازے میں شریک تھا۔ موہنی کے عزیز و اقربا نے اس پر لعنت ملامت کی کہ تیری محبوب مَر گئی ہے اور تُو زندہ ہے۔ کون کہتا ہے کہ تُو عاشقِ صادق ہے۔ یہ جنازہ اور ایسی باتیں طے شدہ اور فرضی تھیں۔ والہؔ نے اسی قصّے کو نظم کیا ہے جسے اس دور کی زبان میں‌ کچھ اس طرح‌ باندھا گیا۔

    او طالب عاشقِ صاحب وفا تھا
    عشق میں روزِ اوّل سُوں فدا تھا
    یہ طعنہ جب سُنا غیرت میں آیا
    وہ ڈولی سُوں اپس کا مُکھ پھرایا
    دنیا کا میں اتا پانی پیوں حیف
    مَرے موہنی اور اس بن میں جیوں حیف
    نظر آیا تمام آفاق کالا
    اپس کو بے دھڑک پائیں میں ڈالا
    گرا اور جیو دیا سَر نیں اُچایا
    فنا مشتاق یک غوطہ نہ کھایا

    کہتے ہیں موہنی بھی طالب کا اپنے لیے یہ جنون دیکھ کر اسے دل دے بیٹھی تھی کہ ایسا سچا پیار کرنے والا کون ہوتا ہے۔ اسے جب اپنے فرضی جنازے کے بعد طالب کے کنوئیں میں کود کر مر جانے کی خبر ہوئی تو وہ بھی اسی کنوئیں میں کود گئی اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ روایت ہے کہ انھیں ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔

  • دنیا کی چند زہریلی اور خطرناک مکڑیاں

    دنیا کی چند زہریلی اور خطرناک مکڑیاں

    مکڑی ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جس کی دنیا بھر میں بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں۔ جسامت میں مختلف اور لاتعداد رنگوں میں پایا جانے والا یہ کیڑا بے ضرر بھی ہوتا ہے مگر اس کی کئی اقسام نہایت زہریلی ہیں۔

    عام طور پر ہمارے گھروں میں یہ مکڑیاں دیواروں اور کونوں میں اپنا جالا بن کر اس میں رہتی ہیں۔ اپنا یہ گھر مکڑیاں لعابِ دہن سے تیار کرتی ہیں۔

    ماہرینِ حشرات کے مطابق اس کی ان گنت اقسام ہیں جو اپنی جسامت، ساخت  اور صلاحیتوں کے اعتبار سے الگ الگ ہیں۔ ان میں سے بعض مکمل طور پر ویرانوں میں رہنا پسند کرتی ہیں جب کہ اکثر مکڑیاں انسانوں کے درمیان اپنی جگہ پر رہنے کے ساتھ کسی بھی جنگل، ویران جگہ پر جالے بنا کر بھی رہتی ہیں۔

    مکڑی پر تحقیق کرنے کے بعد ماہرین نے لکھا ہے کہ ان کی بعض اقسام نہایت زہریلی ہیں۔ ان کے کاٹنے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض مکڑیوں کے کاٹنے سے جسم پر شدید خارش، دھبے بننے کے علاوہ درد کا احساس ہو سکتا ہے جب کہ اس کی وجہ سے ہونے والے زخم میں مواد بھر جاتا ہے جس سے متاثر ہ جگہ سڑ سکتی ہے۔ جنگل میں پائی جانے والی مکڑی کی بعض اقسام کے کاٹنے سے بخار اور بے ہوشی بھی طاری ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی انسان کو زہریلی مکڑی کے کاٹنے کے بعد متلی، قے کی شکایت کے ساتھ جسم میں شدید درد کا احساس ہو سکتا ہے۔

    محققین اور جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق بلاج برنا، بنکا، مورتر، جالنی وغیرہ مکڑیوں کی وہ قسم ہیں جو نہایت زہریلی اور مہلک ہیں۔

  • اسرائیلیوں کے ہم درد ٹرمپ کا سیاسی انجام کیا ہو گا؟

    اسرائیلیوں کے ہم درد ٹرمپ کا سیاسی انجام کیا ہو گا؟

    امریکی کانگریس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کررہی ہے۔ اس سلسلے میں پہلی سماعت 4 دسمبر کو ہو گی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ کس الزام کے تحت کیا جارہا ہے۔ مواخذے کی کارروائی کا طریقۂ کار اور ماضی میں کن امریکی صدور کو اس کا سامنا کرنا پڑا تھا، چند سطور میں جانیے۔

    امریکی صدر پر کیا الزام ہے؟
    ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے یوکرین کے صدر کو سابق امریکی نائب صدر اور صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے بیٹے کے خلاف مبینہ کرپشن کے الزامات کی تحقیقات شروع کروانے پر مجبور کرنے کے لیے یوکرین کی فوجی امداد روک لی تھی۔

    مواخذے کی کارروائی میں کون سا نکتہ اہمیت رکھتا ہے؟
    سماعت کے دوران یہ دیکھا جائے گا کہ کیا امریکی صدر نے مبینہ کرپشن کی تحقیقات شروع نہ کرنے پر یوکرین کو امداد روکنے کی دھمکی دی تھی یا نہیں۔

    مواخذہ کیا ہے؟
    اس کا سادہ سا مطلب صدر کے خلاف الزامات کو کانگریس کے سامنے لانا ہے جس کے بعد ہی صدر کے خلاف مقدمے کی کارروائی ممکن ہوتی ہے۔

    امریکی آئین کیا کہتا ہے؟
    امریکی آئین میں ملک کے صدر کو بغاوت، رشوت ستانی کے علاوہ کسی بڑے جرم یا ان کے کسی عمل کی سزا دینے لیے یہ راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ کارروائی ایوانِ نمائندگان سے شروع ہوتی ہے جس کی منظوری سادہ اکثریت دیتی ہے۔ تاہم مقدمہ سینیٹ میں چلتا ہے۔ اس مرحلے پر صدر کی اس کے عہدے سے برطرفی کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

    امریکی تاریخ میں کن صدور کو مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا؟
    سیاسی داؤ پیچ اور اختلافات کی بنیاد پر مواخذے کی بات تو مختلف صدور کے حوالے سے کی جاتی رہی ہے مگر اب تک دو ہی امریکی صدور کا مواخذہ ہوا ہے۔

    بل کلنٹن امریکا کے 42 ویں صدر تھے جن پر الزامات میں انصاف کا راستے میں رکاوٹ بننا، مونیکا لیونسکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں جھوٹ بولنا شامل تھا۔ یہ 1998 کی بات ہے جب صدر کے خلاف مواخذے کے لیے رائے شماری ہوئی۔ 1999 میں سماعت کے بعد یہ معاملہ سینیٹ میں گیا تھا۔

    دوسرے صدر اینڈریو جانسن تھے جو امریکا کے 17 ویں سربراہ تھے۔ 1868 میں انھیں اپنے خلاف مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کارروائی ان کی جانب سے اپنے ایک وزیر ایڈون سینٹن کو عہدے سے ہٹانے کے بعد عمل میں آئی۔

  • سفید موتیا: پاکستان میں‌ اندھے پن کی بڑی وجہ

    سفید موتیا: پاکستان میں‌ اندھے پن کی بڑی وجہ

    امراضِ چشم میں موتیا بند پاکستان میں اندھے پن کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسے عام طور پر سفید موتیا کہا جاتا ہے۔ اس مرض میں ہماری آنکھ کے اندر موجود عدسے پر ایک پردہ نمودار ہو جاتا ہے جس سے دیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے اور ایسا فرد دھندلے پن کی شکایت کرتا ہے۔

    ماہرینِ طب کے مطابق اس بیماری کے پھیلنے کی رفتار تو سست ہوتی ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ نظر کا یہ دھندلا پن تکلیف دہ ثابت ہونے لگتا ہے۔ تب ماہر معالج مریض‌ کو سرجری کروانے کا مشورہ دیتا ہے۔ ماہرینِ امراضِ چشم کہتے ہیں کہ یہ سرجری مکمل طور پر محفوظ اور مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس علاج سے ایسے مریضوں کی اکثریت بینائی سے محروم ہونے سے بچ جاتی ہے۔

    آنکھ کے اس مرض کی عام علامات یہ ہو سکتی ہیں


    • دھندلا پن اور کم دکھائی دینا
    • رات کو دیکھنے میں دشواری کا سامنا
    • آنکھوں کی حساسیت میں اضافہ
    • روشنی کا پھیلنا یا برقی قمقموں کے گرد ہالہ اور دائرے دکھائی دینا
    • اکثر ایک ہی آنکھ سے دہرا نظر آنا
    • روشنی اور کسی چمکتی ہوئی چیز کو درست طریقے سے دیکھنے میں مشکل پیش آنا
    • مطالعہ کرتے ہوئے زیادہ روشنی کی ضرورت محسوس کرنا
  • ریڈیو پاکستان کا مونو گرام اور محمد یوسف دہلوی

    ریڈیو پاکستان کا مونو گرام اور محمد یوسف دہلوی

    خطاطی اور خوش نویسی نہ صرف ایک فن ہے بلکہ خاص طور پر اسلامی خطاطی کو نہایت متبرک اور باعثِ اجر و ثواب سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس فن کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں طغریٰ اور عام خطاطی شامل ہے جس میں ہمارے ملک میں کئی شخصیات نے نام و مقام بنایا۔ ان میں سے ایک محمد یوسف دہلوی بھی ہیں جو نہایت خوش ذوق اور قابل خطاط مانے جاتے ہیں۔

    ان کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی خطاط تھے جنھوں نے 1932 میں غلافِ کعبہ پر خطاطی کا شرف حاصل کیا۔ یوسف دہلوی نے انہی سے ذوقِ خوش نویسی سمیٹا تھا۔ وہ مختلف خوش نویسوں اور اپنے دور کے باکمال خطاطوں کے فن پاروں کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہے اور اس فن میں اپنی اختراع اور اجتہادی صلاحیتوں کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے ایک نیا طرز متعارف کروایا جسے دہلوی طرزِ نستعلیق کہا جاتا ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے اس وقت کے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے اصرار اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر اپنے فنِ خطاطی کے نقوش چھوڑے۔ بعد ازاں پاکستان ہجرت کی اور ایک بار پھر یہاں سکوں پر لفظ حکومتِ پاکستان نہایت خوب صورت انداز میں تحریر کیا۔

    آپ نے ریڈیو پاکستان کا مونو گرام دیکھا ہو گا جس پر قرآنی آیت، قُولُوالِلنَّاسِ حُسناً تحریر ہے؟ یہ بھی محمد یوسف دہلوی کے کمالِ فن کا نمونہ ہے۔ 11 مارچ 1977 کو ایک ٹریفک حادثے میں یوسف دہلوی زندگی کی بازی ہار گئے.