یہ اس زمانے کی بات ہے جب معروف مزاح نگار پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے۔ ایک مرتبہ معروف ادیب، شاعر اور جید صحافی مولانا ظفرعلی خان تقریرکے لیے ریڈیو اسٹیشن آئے اور ریکارڈنگ کے بعد پطرس کے پاس جا بیٹھے۔
بات شروع ہوئی تو اچانک مولانا نے پوچھا۔
پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔
پطرس نے کچھ سوچا اور مولانا ظفر علی سے سوال کیا۔
مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی؟
اس پر مولانا کھٹکے ضرور مگر جواب دیا۔
یہی کوئی 75 سال.
یہ سن کر پطرس نے کہا۔
مولانا جب آپ نے اتنی عمر یہ فرق جانے بغیر گزار ہی دی ہے تو دو چار برس اور گزار لیجیے۔
Author: عارف حسین
-
آپ کی عمر کتنی ہے؟
-
کھانے کے بعد پیٹ کا درد کس خطرے کی علامت ہے؟
کچھ لوگ کھانے کے بعد پیٹ میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔ خاص طور پر بچے جس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں۔ تاہم یہ شکایت مسلسل ہو تو مستند معالج سے ضرور رجوع کرنا چاہیے۔ بچے اگر مسلسل ایسی شکایت کریں تو ان کا طبی معائنہ ضرور کروانا چاہیے۔
پیٹ کا عام درد ناقص غذا، بعض پکوان اور خوراک میں بے اعتدالی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، مگر معدے اور آنتوں کا انفیکشن اور بعض دوسرے امراض بھی اس کا سبب ہو سکتے ہیں اور اس طرف فوری توجہ دینا چاہیے۔ پیٹ کے یہ چند مسائل اکثر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
اگر آپ پیٹ کے بالائی حصے میں درد محسوس کر رہے ہوں تو اس کی وجہ معدے کی تیزابیت ہو سکتی ہے۔ یہ مرغن اور مسالے دار غذا کے استعمال کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں سینے میں جلن کے ساتھ ہلکی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ تیزابیت ختم کرنے والی عام ادویہ سے یہ مسئلہ عموماً حل ہو جاتا ہے۔ مگر تکلیف برقرار رہے تو کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
اکثر اوقات اپھارا یعنی معدے میں گیس بھر جانے سے بھی پیٹ میں تکلیف محسوس ہوتی ہے اور یہ ایک عام شکایت ہے۔ اس کا تعلق بھی ہماری غذا اور خوراک سے ہوتا ہے۔ مرغن اور چٹ پٹے کھانے یا بعض سبزیاں اور دیگر غذائی اجناس بھی اپھارے کا سبب ہوسکتی ہیں۔
پیٹ اور سینے کی جلن بھی ایک عام مسئلہ ہے اورعموماً ایسا کھانا کھانے کے بعد ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اس کی سب سے عام وجہ کھانا کھاتے میں عجلت کا مظاہرہ ہے۔ خوراک کو چبا کر کھانے کے بجائے جلدی جلدی نگلنے کی وجہ سے معدے پر بوجھ پڑتا ہے اور یہی سینے کی جلن اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ یہی کیفیت بھاری اور روغنی غذا کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں ہاضمے کی خرابی دور کرنے والی اور دافعِ جلن عام ادویہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔ تاہم یہ شکایت برقرار رہے تو علاج کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔
پیٹ میں مروڑ اکثر ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ ماہرین کے نزدیک ناقص غذاؤں کا استعمال اور اس سے ہونے والی معدے اور آنتوں کی خرابی ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
-
شیکسپیئر اینڈ کمپنی: دو شخصیات کی دل چسپ کہانی!
یہ مختصر روداد ہے ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ کی اور اُن دو کرداروں کی جنھیں آج بھی علم و ادب کی دنیا میں نہایت عزت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے آپ کو سلویا بیچ کے بارے میں بتاتے ہیں۔
سلویا بیچ امریکا سے ہجرت کے بعد پیرس آئی تھیں۔ ادب کی دلدادہ، کتاب دوست اور فنونِ لطیفہ کی شایق اس خاتون نے پیرس کے ایک قصبے میں کتابوں کی دکان کھولی۔ یہ 1919 کی بات ہے۔ سلویا بیچ نے اس بک شاپ کو انگریزی ادب اور دیگر موضوعات پر کتابوں سے بھر دیا۔ یہ دکان جلد ہی کتابوں کے رسیا اور مطالعے کے شوقین افراد کی نظروں میں آگئی۔
عام خریداروں کے ساتھ اب یہاں مختلف شاعراورادیب بھی آنے لگے جو سلویا بیچ کے مطالعے اورعلم دوستی سے بہت متاثر تھے. اکثر ان کے درمیان کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو طویل ہو جاتی. اہلِ قلم کا یوں اپنی دکان پر اکٹھا ہونا سلویا بیچ کے لیے باعثِ فخر و مسرت تھا۔ وہ دکان اتنی بڑی نہ تھی کہ وہاں نشست کی جاسکے. جگہ کم پڑ رہی تھی تب سلویا بیچ قریب ہی ایک کشادہ دکان میں منتقل ہوگئیں۔1921 میں سلویا نے اپنی نئی بک شاپ میں ایک کتب خانہ بھی کھول لیا۔ ان کی محنت اور خلوص نے اس کتاب گھر کو علم و فنون کا ایک مرکز اور اس وقت کے نابغوں کا ٹھکانہ بنا دیا تھا۔ اب یہاں نام ور ادیب، شاعر اور صحافی جمع ہوتے تھے۔ اس کتاب گھر کی شہرت دور تک پھیل گئی۔ اس کتاب گھر کو ”شیکسپیئراینڈ کمپنی“ کا نام دیا گیا جہاں پیرس کے اہم اور مقبول لکھاری جمع ہوتے اور علمی گفتگو کرتے۔ کہتے ہیں اکثر ایسا ہوتا کہ مباحث کے دوران رات گہری ہو جاتی، تب یہ قلم کار اس دکان ہی میں لمبی تان کر سو رہتے۔
ان میں خاص طور پر ارنسٹ ہیمنگوے، ازرا پاؤنڈ، گرٹروڈ اسٹین، مینا لوئے اور مین رے جیسی قدآور شخصیات کا نام لیا جاتا ہے۔ انہی احباب کے مشورے سے سلویا بیچ نے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کردیا اور اس کاروبار سے مالی فائدہ ہی نہیں خوب شہرت بھی سمیٹی۔ مشہور رائٹر جوئس کا وہ ناول بھی سلویا بیچ نے شایع کیا جو متنازع اور امریکا، برطانیہ میں اس کی خرید و فروخت پرمکمل پابندی عائد تھی۔ اس ناول کا نام یولیسس تھا۔
اسی طرح عالمی شہرت یافتہ لکھاری ارنسٹ ہیمنگوے کی تین کہانیوں اور دس نظموں پر مشتمل کتاب بھی اسی ادارے کے تحت شایع ہوئی تھی۔ تاہم 1941 میں جرمنی کے تسلط کے بعد یہ بک شاپ بند کر دی گئی۔
اب چلتے ہیں دوسرے کردار کی طرف اور اس کا آغاز ہو گا 1951 سے جب ایک اور امریکی جارج وہٹمین نے بھی ہجرت کے بعد پیرس میں سکونت اختیار کی تھی۔
جارج وہٹمین نے بھی پیرس میں اِسی طرز کی ایک بک شاپ کھولی اور رفتہ رفتہ شائقین ادب ہی نہیں اپنے وقت کے زرخیز ذہن اور خوب صورت تخلیق کاروں کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ وہٹمین اس کتاب گھر کو علم و ادب کی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا خواہش مند تھا اور اس کی یہ خواہش جلد پوری ہو گئی۔ اس بک شاپ پر اس وقت کے مؤقر اخبار اور جرائد کے مدیر، قلم کار اورناشرین بھی آنے لگے۔
ہم نے جس سلویا بیچ کا تذکرہ اوپر سطور میں کیا تھا وہ 1964 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ جارج وہٹمین ان کی خدمات سے بہت متاثر تھا۔ ایک سال جب شیکسپیئر کی برسی آئی تو جارج وہٹمین نے اپنے کتاب گھر کا نام ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ رکھنے کا اعلان کر دیا اور بتایا کہ یہ سلویا بیچ سے ان کی عقیدت کا اظہار ہے جو ایک علم دوست اور قابل شخصیت تھیں۔ یہی نہیں بلکہ وہٹمین نے اپنی بیٹی کا نام بھی سلویا بیچ رکھا جو اس کتاب گھر میں 2003 سے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتی رہی ہے۔جارج وہٹمین بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن ان کی بیٹی اس بک شاپ کو نہ صرف چلا رہی ہے بلکہ وہ اس کتب فروش خاتون اور اپنے والد کی ہر روایت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اب یہاں موجودہ دور کے معروف قلم کار آتے ہیں اور مختلف موضوعات پر علم و فکر کا اظہار کرتے ہیں۔
موجودہ کتاب گھر کی مالک سلویا بیچ نے دو سال قبل ہی ماضی کی اُس علم دوست سلویا بیچ کی زندگی اور اس زمانے کی بک شاپ کا احوال بھی ایک کتاب میں محفوظ کیا ہے۔ 400 صفحات کی اس کتاب میں ماضی کی کئی حسین یادیں تصویر کی گئی ہیں۔ علمی اور ادبی مجلسوں کا احوال اور اہم شخصیات کی تصاویر کتاب کی رونق ہیں۔ -
مارگلہ کی پہاڑیوں کے قدیم غاروں کی بابت کیا مشہور ہے؟
کہتے ہیں مغل دور میں ایک درویش شاہ اللہ دتّہ گزرے ہیں جن سے صدیوں پرانا ایک گاؤں بھی منسوب ہے۔
یہ گاؤں پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کے مشہور پہاڑی مقام مارگلہ کے دامن میں ہے جو کہ مختلف آثار اور قدیم غاروں کی وجہ سے سیاحتی مقام جانا جاتا ہے۔ ان غاروں کی بابت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا بدھ مت سے تعلق ہے۔
اس گاؤں کی وجہِ شہرت اس کا قدرتی حسن ہے جو سبزہ، بلند و بالا درخت، چشمے اور تالاب ہی نہیں بلکہ وہ غار بھی ہیں جو یقینا انسانوں نے کبھی آباد کر رکھے تھے۔ مقامی لوگ اس حوالے سے مختلف باتیں اور قصے سناتے ہیں۔ تاہم اس پر ماہرینِ آثار کو تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قدیم غاروں کے قریب ہی بزرگ کا مزار موجود ہے.
مختلف تاریخی روایات کے مطابق یہ راستہ اور اس گاؤں سے کسی زمانے میں الیگزینڈر اور شیر شاہ سوری جیسی شخصیات کا گزر ہوا۔ یہ افغانستان اور ہندوستان آنے جانے کے لیے استعمال ہونے والا راستہ بتایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مغل بادشاہوں اور دیگر نے بھی افغانستان اور ہندوستان آمدورفت کے لیے یہی راستہ اپنایا۔اس گاؤں میں پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جسے قدیم مانا جاتا ہے جب کہ گھنے اور مضبوط درخت بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کئی سو سال پرانے ہیں۔ قدرتی حسن اور تاریخی آثار کی وجہ سے یہ علاقہ قابلِ دید ہے۔
-
اناج کی وہ قسم جس سے دل کی بیماریوں اور سرطان کا خطرہ کم ہو سکتا ہے
مکئی کو ماہرینِ نباتات گھاس کی ایک قسم کہتے ہیں جس سے ہم اناج حاصل کرتے ہیں۔
اسے مختلف طریقوں سے پکایا جاتا ہے۔ یہ کھانوں میں استعمال کی جاتی ہے اور اسے جانوروں کی خوراک بھی بنایا جاتا ہے۔ یہی مکئی ایندھن کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔ کہتے ہیں مکئی میکسیکو میں دریافت ہوئی اور بعد میں دنیا کے مختلف ملکوں میں اسے اناج کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس غذائی جنس کی عمر کئی ہزار سال بتائی جاتی ہے۔
مکئی ہم بھی مختلف شکلوں میں اپنی خوراک کا حصّہ بناتے ہیں۔ ماہرینِ صحت کے مطابق یہ متعدد امراض میں مفید ہے جب کہ اس کا اعتدال میں استعمال کئی طبی مسائل سے محفوظ رکھتا ہے۔ مکئی کے دانے غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اس میں نشاستہ، فائبر، حیاتین اور معدنیات کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔
طبی محققین کے مطابق مکئی میں اینٹی آکسیڈنٹ اور نباتاتی مرکبات ہوتے ہیں جو صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ مکئی میں لوٹین اور زیاکسن تھین زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں۔ یہ کیروٹینائیڈز کہلاتے ہیں جو آنکھ کے عدسے کو دھندلے پن اور عمر کے ساتھ پٹھوں کو کم زور ہونے سے روکتے ہیں۔
معدے کے مسائل یعنی انہضام اور آنتوں کی شکایت لاحق ہو تو مکئی میں پایا جانے والا ریشہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ مکئی کا استعمال نظامِ ہضم کی سوزش سے بھی بچاتا ہے۔ طبی ماہرین بتاتے ہیں کہ اس ریشے سے متعدد امراض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے جن میں دل کی بیماریاں اور چند اقسام کے سرطان شامل ہیں۔ تاہم ذیابیطس میں مبتلا افراد کو نشاستہ دار غذاؤں کا استعمال کم کرنا چاہیے جس میں مکئی بھی شامل ہے۔
-
برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعداردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے حافظے میں یہ شعر ضرور محفوظ ہو گا، مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کے خالق آغا حشر ہیں جو برصغیر میں ڈراما نگاری کے حوالے سے مشہور ہیں۔
آغا حشر کاشمیری نے بیسویں صدی کے آغاز میں ڈراما نگاری میں وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ وہ تھیٹر کا زمانہ تھا اوراسٹیج پرفارمنس نہ صرف ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی بلکہ اس دور میں معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کو بھی تھیٹر پر خوب صورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ یہ ایک مضبوط اور مقبول میڈیم تھا جس میں آغا حشر نے طبع زاد کہانیوں کے علاوہ شیکسپئر کے متعدد ڈراموں کا ترجمہ کر کے ان سے تھیٹر کو سجایا۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ بے حد مقبول ہوئے۔
یکم اپریل 1879 کو بنارس کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے آغا حشر کی تعلیم تو واجبی تھی، لیکن تخلیقی جوہر انھیں بامِ عروج تک لے گیا۔ انھیں یوں تو ایک ڈراما نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے ان کا تذکرہ ہوتا ہے، مگر اردو ادب کے سنجیدہ قارئین ضرور انھیں شاعر کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں علامہ اقبال بھی مشاعروں میں ان کے بعد احتراماً اپنا کلام نہیں پڑھتے تھے۔ آغا حشر کا انتقال 28 اپریل 1935 کو ہوا۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔
غزل
یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں
ایک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں
او وفا نا آشنا کب تک سنوں تیرا گلہ
بے وفا کہتے ہیں تجھ کو اور شرماتا ہوں میں
آرزوؤں کا شباب اور مرگِ حسرت ہائے ہائے
جب بہار آئے گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں
حشرؔ میری شعر گوئی ہے فقط فریادِ شوق
اپنا غم دل کی زباں میں دل کو سمجھاتا ہوں میں -
اسرار الحق مجاز اور مولانا حالی کی شگفتہ بیانی
سعادت مند
مشہور شاعر اسرار الحق مجاز بلا کے مے نوش تھے۔ ایک روز کسی صاحب نے ان سے پوچھ لیا۔
’’کیوں صاحب! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر اعتراض نہیں کرتے؟‘‘
مجاز جیسے زرخیز ذہن کے مالک اور خوب صورت شاعر نے اس سوال پر ان صاحب کو ایک نظر دیکھا اور نہایت سنجیدگی سے مختصر جواب دیا۔‘‘جی نہیں۔’’ پوچھنے والا ان کے اس مختصر جواب سے مطمئن نہیں ہوا اور اس کی وجہ جاننا چاہی۔ اس کے اصرار پر مجاز نے جو کہا وہ ان کی حاضر دماغی اور ظرافت کا ثبوت ہے۔
‘‘دیکھیے، یوں تو لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے، مگر آپ سمجھ لیں کہ میرے والدین سعادت مند ہیں۔’’تن ہا
یہ اردو کے ایک لکھاری کی شادی کی تقریب کا واقعہ ہے جو اپنے وقت کی قدرآور شخصیات کے نہایت شستہ مزاح اور شگفتہ بیانی کی ایک مثال ہے۔
محمد یحییٰ تنہا کی شادی تھی۔ انھوں نے تقریب میں اپنے ادیب اور شاعر دوستوں کو بھی مدعو کیا تھا۔ ان میں مولانا حالی اور مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی جیسی قدآور شخصیات بھی شامل تھیں۔
تقریب کے بعد اپنے وقت کی ان قابل شخصیات نے ایک جگہ بیٹھ کر کچھ گفتگو کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ اصحاب بیٹھے ہی تھے کہ تنہا وہاں آگئے۔ اسماعیل میرٹھی نے انھیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے بولے۔
جناب، آپ اپنا تخلص بدل دیں، کیوں کہ اب آپ تنہا نہیں رہے۔
اس سے پہلے کہ محمد یحییٰ تنہا ان کی بات کا جواب دیتے مولانا حالیؔ بول پڑے۔
نہیں مولوی صاحب یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘تن۔۔۔ہا’’ تو دراصل یہ اب ہوئے ہیں۔ اس پر سبھی مسکرا دیے اور مولانا حالیؔ کی اس شگفتہ بیانی کا خوب چرچا ہوا۔ -
درشن متوا کی جھجک!
درشن متوا کی ایک مختصر کہانی پڑھیے.
پڑھے لکھے نوجوان کو کہیں جانا تھا۔ وہ بس کے اڈّے پر بسوں کے بورڈ پڑھتا پھر رہا تھا۔
بے وقوف کہلانے کے ڈر سے اس نے کسی سے بس کے بارے میں پوچھا نہیں، صرف گھومتا رہا۔
ایک بس سے دوسری اور دوسری سے تیسری اور چوتھی۔
ایک اَن پڑھ سا آدمی آیا، اس نے بس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا اور جھٹ سے بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی۔
پڑھا لکھا نوجوان اب بھی بسوں کے بورڈ پڑھتا ہوا وہیں چکر لگا رہا تھا۔جھجک کے عنوان سے یہ کہانی آپ کو یقینا پسند آئی ہو گی. اس کہانی کا موضوع اور بُنت بتاتی ہے کہ مصنف اپنے گرد و پیش اور ماحول سے جڑا ہوا ہے اور اس کا مشاہدہ گہرا ہے. دوسری طرف مختصر نویسی درشن متوا کی بلند تخلیقی قوت کا اظہار ہے۔
درشن متوا کا شمار پنجابی اور ہندی زبان کے ان قلم کاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے زرخیز ذہن اور قوتِ متخیلہ سے کام لے کر ان موضوعات کو برتا ہے جو ایک زمانے میں ان کے محلِ نظر تھے۔ درشن متوا نے نہ صرف کئی صفحات پر مشتمل ناول اور دیگر کہانیاں لکھیں بلکہ مختصر نویسی میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ پیشِ نظر کہانی نہ صرف ایک تعلیم یافتہ فرد اور ایک ان پڑھ کے درمیان اعتماد کے فرق اور شعور کی حالتوں کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ ایک عام رویے کی عکاس ہے۔ اس کہانی میں ایک خاص قسم کے غرور یا کسی کے اپنے پڑھے لکھے ہونے کے بے جا یا غیر ضروری فخر کو نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا گیا ہے. مصنف نے بتایا ہے کہ یہی فخر ایک موقع پر آگے بڑھنے میں یا کسی کام کو انجام دینے میں کیسے رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے اور اکثر اس کے سبب ناکامی مقدر بنتی ہے۔ یہ لفظی منظر کشی بامقصد، دل چسپ اور نہایت پُراثر ہے۔
-
کُشتی کا وہ مقابلہ جس نے بھولو پہلوان کو رستمِ پاکستان بنا دیا
17 اپریل 1949 کو جب دھوپ ڈھلی تو کراچی کے پولو گراؤنڈ میں ایک ایسا مقابلہ ہوا جو یادگار بن گیا۔
پنڈال شائقین سے بھرا ہوا تھا اور اکھاڑا پہلوانوں کا منتظر۔ یہ کُشتی کا ایک مقابلہ تھا۔ لاؤڈ اسپیکر پر بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ بھولو پہلوان اور یونس پہلوان کے درمیان دنگل شروع ہونے والا ہے۔ مہمانِ خصوصی اُس وقت کے گورنر جنرل تھے اور اکھاڑے کے فاتح کو ‘‘رستمِ پاکستان’’ کا خطاب ملنا تھا۔ بھولو اور یونس دونوں یہ اعزاز اپنے نام کرنے کے لیے بے تاب تھے۔
ملک کی تاریخ کے اس مشہور اور یادگار دنگل کا احوال اختر حسین شیخ نے اپنی کتاب ’’داستانِ شہ زوراں‘‘ میں رقم کیا ہے۔ آپ کی دل چسپی کے لیے کشتی کے مقابلے کی وہ روداد پیش ہے۔
‘‘ خواجہ ناظم الدین اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ فرائضِ منصفی میجر جنرل اکبر خان نے سرانجام دیے۔ دونوں پہلوان کچھ عرصہ قبل لاہور میں ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ لگا چکے تھے۔ یونس پہلوان کے لیے یہ مقابلہ گزشتہ داغِ شکست کو دھونے کے مترادف تھا تو بھولو کو اپنی برتری قائم رکھنا تھی۔ علاوہ ازیں رستمِ پاکستان کا معاملہ بھی تصفیہ طلب تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر دونوں شہ زوروں نے تیاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ مہمان خصوصی پانچ بجے شام کشتی گاہ میں تشریف لائے۔
رستمِ زماں گاما، رستمِ ہند امام بخش اور حمید ارحمانی نے بصد احترام استقبال کیا۔ بھولو پہلوان نے بطورِ خاص ہاتھ ملایا۔ یونس پہلوان بھی پنڈال میں موجود تھا۔ تھوڑی دیر تک خواجہ صاحب دونوں پہلوانوں سے مصروفِ گفتگو رہے اور دونوں کے ڈیل ڈول کو ستائش بھر ی نظروں سے دیکھتے رہے۔
دونوں شہ زور اکھاڑے میں اترے تو ہجوم نے تالیوں اور فلک شگاف نعروں سے استقبال کیا۔ رسومِ پہلوانی ادا کرنے کے بعد دونوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے۔ کشتی کے اٹھارہویں منٹ میں بھولو نے حریف کو صاف چت کر دیا۔ منصف نے بھولو کو فاتح قرار دے کر رستمِ پاکستان کا اعلان کیا تو تماشائیوں نے دلی مسرت کا اظہار کیا۔ خواجہ عبدالحمید انکم ٹیکس کمشنر، سائوتھ زون نے بھولو کی دستار بندی کی۔
بھولو پہلوان کو اہلِ کراچی کی جانب سے سونے کا تاج بھی پہنایا گیا تھا۔
کسی زمانے میں کسرت کو ایک صحت مند رجحان، پہلوانی کے شوق کو قابلِ فخر اور کُشتی لڑنے کو ایک فن مانا جاتا تھا۔ بھولو کا تعلق ایک ایسے ہی گھرانے سے تھا اور ان کے والد اور چچا پہلوانی اور کُشتی میں نام ور تھے۔ ان کا اصل نام منظور احمد تھا۔ وہ امرتسر کے تھے، ان کا سن پیدائش 1927 ہے۔
اپنے وقت کے اس طاقت ور انسان، شہ زور اور دنگل کے داؤ پیچ کے خوگر پہلوان کو 1985 میں موت نے پچھاڑ دیا۔ وہ مارچ کی آٹھ تاریخ تھی جب بھولو پہلوان ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے۔
-
کیا سُماق دانتوں کو کیڑا لگنے سے بچا سکتا ہے؟
مختلف جڑی بوٹیوں اور پودوں سے جہاں قدرت نے زمین کی خوب صورتی بڑھائی اور اسے آراستہ کیا ہے، وہیں یہ انسانوں کی صحت، تن درستی اور علاج معالجے میں بھی مددگار ہیں۔ طب کی دنیا میں جدید طریقہ ہائے علاج سے قبل انہی جڑی بوٹیوں اور مختلف پودوں سے انسان مختلف امراض اور بیماریوں سے نجات پاتا رہا اور ان میں انسان کی غذائی ضروریات پوری کرنے والے پودے بھی شامل ہیں جن کا پھل اور پتے کسی نہ کسی طرح ہماری خوراک کا حصّہ بنتے ہیں۔
سُماق دراصل ایک درخت کے پھل کو کہتے ہیں. یہ سرد اور سخت زمین پر پھلتا پھولتا ہے۔ سماق کا درخت زمین سے دو گز تک بلند ہوسکتا ہے۔ اس کے پتے لمبے اور سرخی مائل ہوتے ہیں جن پر رواں ہوتا ہے۔ اس کا پھول چھوٹا جب کہ پھل خوشوں میں ہوتے ہیں۔ یہ پھل مکو کے پھل کے برابر چپٹا اور مسور کے دانے کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے اوپر ایک پوست ہوتا ہے جس کا مزہ ترش ہوتا ہے۔ پھل پک جانے کی صورت میں یہ ترشی بڑھ جاتی ہے۔
طبی ماہرین نے اس کی افادیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ معدے کے لیے مفید ہے۔ معدے کی کم زوری دور کرتا ہے۔ متلی اور اسہال کو روکتا ہے۔ اس کے پیٹ سے متعلق فوائد میں آنتوں کے زخم ٹھیک کرنے یا خراش کی صورت میں اس کا استعمال شامل ہے۔ تاہم اس حوالے سے کسی مستند طبیب سے مشورہ کرنا چاہیے۔ یہ دانتوں کو کیڑے سے محفوظ رکھنے میں بھی مفید بتایا جاتا ہے۔ چوٹ لگنے کی صورت میں ورم ہو جائے تو سماق کا استعمال فائدہ دیتا ہے۔
اس کا جوشاندہ بناکر مخصوص طریقے سے سَر کے بال دھوئے جائیں تو ان میں سیاہی آجاتی ہے۔ نباتات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سماق کا درخت دنیا کے مختلف ملکوں میں ملتا ہے۔ تاہم وسطی ایشیائی ممالک، افریقا اور جنوبی امریکا میں یہ درخت زیادہ نظر آتے ہیں۔ ماہرینِ نباتات کے مطابق سُماق کا مزاج سرد و خشک ہے۔