Author: عارف حسین

  • کان کی صفائی کے وہ غلط طریقے جو بہرے پن کی بڑی وجہ ہیں

    کان کی صفائی کے وہ غلط طریقے جو بہرے پن کی بڑی وجہ ہیں

    انسانی جسم کا ایک اہم عضو کان ہے۔ یہ ہمارے سَر کا وہ حصّہ ہے جس کی مدد سے ہم سنتے ہیں۔ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں، مگر کیا یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی صفائی کا غلط طریقہ ہمیں کس طرح سننے کی صلاحیت سے محروم کر سکتا ہے۔ بہرے ہو جانے کے بعد زندگی کیسی تکلیف دہ ہو سکتی ہے اور کیا سماعت کا آلہ لگانے سے ہم پوری طرح سننے کے قابل ہو جاتے ہیں؟

    ہم سے اکثر یہ نہیں جانتے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ کانوں میں کاٹن کی سلائی، پین، پینسل کی نوک یا کاغذ کی بتی بنا کراس کی مدد سے میل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ ایسا اس وقت کرتے ہیں جب انھیں خارش یا کوئی درد محسوس ہو رہا ہو لیکن اکثر اس کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی ناخن چباتا ہے یا پھر بار بار اپنے بالوں کو سیٹ کرتا رہتا ہے۔

    ہم کانوں کے میل سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو طریقہ اپناتے ہیں اس سے سماعت کو نقصان پہنچتا ہے اور رفتہ رفتہ سماعت ختم ہوتی جاتی ہے۔

    طبی محققین کے مطابق غیرمحفوظ طریقے سے کان کی صفائی سے کان کے پردے اور چھوٹی و نازک ہڈیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں کان کے اندرونی حصے میں موجود رقیق سیال بہہ کر باہر آجاتا ہے۔ ایسے فرد کو چکر آسکتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب وہ سماعت سے محروم ہو جاتا ہے۔

    غیر محفوظ طریقے سے مراد ہیئر پن یا پین وغیرہ کی نوک سے صفائی ہے جس میں کان کی بیرونی جھلی زخمی ہوسکتی ہے اور یہ کان کے انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق کان اپنی صفائی کا انتظام خود کرتا ہے۔ تاہم اس کے بیرونی حصّے اور اوپری جلد کو دھو کر اور ملائم کپڑے سے صاف کیا جاسکتا ہے۔ محققین بتاتے ہیں کہ جب ہم کسی چیز کو چبانے کے لیے اپنے جبڑوں کو حرکت دیتے ہیں تو قدرتی طور پر گندگی یا میل کان کی نالی سے نکل کر بیرونی حصے کی طرف آجاتا ہے۔ اس کو نکالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جب یہ کان کے بیرونی حصے تک آجائے تو صاف کپڑے کے ٹکڑے کو گیلا کر کے اسے نکالا جاسکتا ہے۔

    کاٹن کی سلائی سے کان کی صفائی ایک عام بات ہے اس سے مخصوص مواد کان کے اندر کی طرف لوٹ سکتا ہے اور وہاں جاکر انفیکشن کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ سلائی بھی کان کے پردے اور چھوٹی ہڈیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    ایک خاص مقدار میں کان میں پانی ڈال کر بھی میل صاف کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے بعد کان کو اچھی طرح خشک کرنا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر اس میں انفیکشن پیدا ہو سکتا ہے۔ روانہ کان کی صفائی کے لیے پانی ڈالنا بھی خطرناک ہے۔ ایسا صفائی کی ضرورت محسوس کرنے پر کیا جانا چاہیے۔

  • دورۂ پاکستان: کیا ملکہ میسکسیما کو پھول بہت پسند ہیں؟

    دورۂ پاکستان: کیا ملکہ میسکسیما کو پھول بہت پسند ہیں؟

    نیدر لینڈز کی ملکہ ہمارے ملک میں ہیں۔ یہ ان کا پاکستان کا دوسرا دورہ ہے۔ میکسیما اس بار اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ بن کر یہاں آئی ہیں۔ ان کا یہ دورہ عالمی ادارے کے تحت ترقی میں اجتماعی معاونت کے پروگرام کی ایک کڑی ہے۔

    یہ تو وہ باتیں اور معلومات ہیں جو آج سارا دن مختلف ذرایع ابلاغ نے آپ تک پہنچائی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری رہے گا، مگر ہم آپ کو کچھ خاص اور سب سے الگ بتانے جا رہے ہیں۔

    ملکہ اپنے دورۂ پاکستان میں سرکاری اور نجی شعبوں کی متعدد نمایاں شخصیات سے ملاقات کریں گی۔ بتایا گیا ہے کہ ملکہ میکسیما اسٹیٹ بینک کے مائیکرو پیمنٹ گیٹ وے پروگرام کی افتتاحی تقریب کی مہمان بھی ہوں گی۔ یہ پروگرام مجموعی مالی تعاون کے فروغ، چھوٹی ادائیگیوں کی لاگت کم کرنے اور  ڈیجیٹل لین دین میں اضافے کی غرض سے شروع کیا گیا ہے۔

    نیدر لینڈز کی ملکہ تو ابھی تین روز تک ہمارے ہی ملک میں رہیں گی اور خصوصی نمائندہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔ کیوں نہ ہم اُن کے وطن کی سیر کر آئیں!

    نیدر لینڈز جسے اکثریت ہالینڈ بھی کہتی اور لکھتی ہے، یورپ میں واقع ہے۔ یہ خطہ پھولوں کی سرزمین کہلاتا ہے۔ کئی دہائی پہلے کا یہ سفر نامہ ملکہ کی آمد کے ساتھ ہی گویا پھر تازہ ہو گیاہے۔ یہ سطور ممتاز احمد خاں جیسے خوب صورت لکھاری اور صحافی کے قلم کی نوک سے نکلی ہیں جو آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

    ہالینڈ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی جو چیز سب سے زیادہ آپ کو متاثر کرتی ہے وہ ہے اس ملک کی شادابی، پانی کی فراوانی اور غیر معمولی صفائی ستھرائی۔

    سارا ملک ایک باغ معلوم ہوتا ہے۔ چاروں طرف گل و گل زار کا سا سماں ہے۔ شہر اور بن میں کوئی فرق نہیں۔ صفائی، سلیقے اور دل آویزی میں دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کو کوشاں ہیں۔

    اس ملک کا کونا کونا دیکھنے کا اتفاق ہوا، لیکن چپّا بھر زمین بھی گندگی سے آلودہ نہ دیکھی۔ یا سبزہ ہے یا پھول پھلواری۔

    صفائی اور پھولوں کے یہ لوگ شیدائی ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں جو پھولوں سے خالی ہو۔ مزدوروں کے فلیٹ بھی ہمارے بنگلوں سے بہتر ہیں۔ اہلِ ہالینڈ نے پھولوں سے اپنی شیفتگی کو باقاعدہ صنعت کی شکل دے دی ہے۔ بہار میں چاروں طرف پھولوں سے لدے ہوئے کھیت دکھائی دیتے ہیں جن میں گلِ لالہ کی سیکڑوں نئی اقسام پیدا کی گئی ہیں جو رنگ، رعنائی قد اور عمر میں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ کئی ہزار ٹن پھول یہاں سے غیر ممالک کو بھیجے جاتے ہیں۔

  • سلیم رضا اور مشہور  نعتیہ کلام شاہِ مدینہ یثرب کے والی!

    سلیم رضا اور مشہور نعتیہ کلام شاہِ مدینہ یثرب کے والی!

    پاکستان میں گائیکی کے افق کا وہ ستارہ جو آج سے 36 برس پہلے ڈوب گیا تھا، وہ دل رُبا آواز جو ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی تھی، اسے مداح، فلم انڈسٹری اور سُر و ساز کی دنیا میں آج برسی کے موقع پر پھر یاد کیا جارہا ہے۔ یہ سلیم رضا کا تذکرہ ہے۔ اس پسِ پردہ گائیک کی آڈیو اور ویڈیو ٹیپ میں محفوظ وہ مرھر آواز ہمارے ذہنوں میں آج پھر تازہ ہو گئی ہے۔

    50 اور 60 کی دہائی میں سلیم رضا کا نام شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہا تھا۔ یہ گیت آپ کی یادوں میں آج بھی ضرور محفوظ ہوں گے۔

    اے دل کسی کی یاد میں، ہوتا ہے بے قرار کیوں۔۔
    جانِ بہاراں رشکِ چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن
    کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا

    سلیم رضا نے 4 مارچ، 1932 کو امرتسر کے ایک مسیحی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوا تو لاہور کو سکونت کے لیے منتخب کیا جہاں سلیم رضا نے ریڈیو پاکستان سے گائیکی کے سفر کا آغاز کیا اور پھر فلم انڈسٹری تک چلے آئے۔ ان کی گائیکی اور رومانٹک گیتوں کا ذکر تو بہت ہوتا ہے، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اسی گلوکار کی آواز میں ایک حمد اور نعت بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ یہ خوب صورت حمدیہ شاعری دیکھیے۔

    کر ساری خطائیں معاف میری تیرے در پہ میں آن گرا
    تُو سارے جہاں کا مالک ہے میرا کون ہے تیرے سوا

    اس حمد کے خالق مشہور شاعر قتیل شفائی ہیں۔ اس کی طرز تصدق حسین نے ترتیب دی تھی جب کہ سلیم رضا نے اسے اپنی پُر سوز آواز میں ریکارڈ کروایا تھا۔

    اردو زبان کے نام ور گیت نگار تنویر نقوی کی یہ نعت کس نے نہیں سنی ہو گی اور کون ہے جس کے لبوں نے ان اشعار کے ذریعے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار نہ کیا ہو؟

    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ یثرب کے والی
    سارے نبی تیرے در کے سوالی
    جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
    آباد عالم تیرے کرم سے
    باقی ہر اک شے، نقشِ خیالی
    تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے
    نیلے فلک کی چادر تنی ہے
    تُو اگر نہ ہوتا، دنیا تھی خالی
    سارے نبی تیرے دَر کے سوالی
    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ۔۔۔۔۔

    اس نعتیہ کلام کو دَف کی تال پر موسیقار حسن لطیف نے کمپوز کیا تھا اور سلیم رضا و ہم نوا نے ریکارڈ کرایا تھا۔

  • اپنے بچوں‌ کی تصویریں‌ بیچنے والے ہالی وڈ کے مشہور ترین فن کار

    اپنے بچوں‌ کی تصویریں‌ بیچنے والے ہالی وڈ کے مشہور ترین فن کار

    شوبزنس انڈسٹری کے مشہور ترین نام اور چمکتے دمکتے ستارے تو ایک طرف دنیا بھر میں فلم اور پرفارمنس آرٹ کے مختلف شعبوں سے وابستہ کم معروف فن کار بھی اشتہارات میں کام کرنے اور کسی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کے لیے کمپنیوں سے بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔

    اسی طرح شہرت کے آسمان کی بلندیوں پر محوِ پرواز آرٹسٹوں کی ہر سرگرمی، ان سے متعلق کوئی نیا انکشاف یا ان کے ساتھ پیش آنے والا کوئی بھی واقعہ ایک بڑی خبر کے طور پر نشر ہوتا ہے۔

    ہالی وڈ کی بات کی جائے تو دنیا بھر میں موجود سنیما کے شائقین اس انڈسٹری سے وابستہ فن کاروں کی نجی زندگی اور ان کے معمولات سے گویا ہر پَل آگاہ رہنا چاہتے ہیں۔ مداح خاص طور پر اپنے محبوب اداکاروں اور گلوکاروں کی خانگی زندگی سے جڑے واقعات میں گہری دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    اگر یہ کہا جائے تو تعجب کیسا کہ پرستاروں کی دل چسپی کا سلسلہ صرف ان فن کاروں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ان کے اہلِ خانہ کی بھی شادی سے لے کر موت تک ہر واقعے اور سرگرمی کے بارے میں جاننے کی جستجو کرتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ ہالی وڈ کے نام ور آرٹسٹوں کی گھریلو زندگی یا ان کی کسی نجی تقریب کی کوئی تصویر یا کسی واقعے کی ویڈیو اگر کسی کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس کا زبردست مالی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ آرٹسٹ بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کی نجی زندگی کی کوئی تصویری جھلک یا ویڈیو میڈیا کے لیے کیا معنی رکھتی ہے اور اسی لیے وہ خود ہی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہاں ہم ان ایکٹریسز کا ذکر کررہے ہیں جنھوں نے اپنے گھر میں ننھے مہمان کی آمد کے بعد ان کی تصاویر مختلف اخبار اور رسائل کو دے کر ان سے کروڑوں روپے وصول کیے۔

    امریکا کی مشہور گلوکارہ جینیفر لوپیز نے 2008 میں اپنے جڑواں بچوں ڈیوڈ اور ایمی کی پہلی تصویر پیپلز میگزین کو تقریباً 38 کروڑ روپے میں فروخت کی تھی۔
    ہالی وڈ کی معروف جوڑی انجلینا جولی اور بریڈ پٹ کے گھر 2008 میں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی۔ انجلینا جولی نے ان بچوں کی پہلی تصویر پیپلز میگزین کو تقریبا 90 کروڑ روپے میں فروخت کی تھی۔
    عالمی شہرت یافتہ اداکارہ جیسیکا البا نے اوکے میگزین سے اپنی بچی کی تصویر شایع کرنے کا معاوضہ لیا تھا۔ جیسیکا البا اور کیش وارن کے ہاں 2008 میں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام انہوں نے نرمیری وارن رکھا۔ اس جوڑے نے اپنی بچی کی پہلی تصویر کی قیمت 9 کروڑ روپے وصول کی۔
    ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ اور سنگر کرسٹینا آگیولیرا کے بیٹے کا نام میکس لیرون بریٹمین ہے جس کی پیدائش کے بعد پہلی تصویر پیپلز میگزین میں شایع ہوئی۔ اس تصویر کے لیے کرسٹینا کو 9 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔
    ہالی وڈ کا ایک اور مشہور نام اینا نکول اسمتھ ہے جس نے بیٹی کا نام ڈینیلین برک ہیڈ رکھا. پیدائش کے بعد اس بچی کی پہلی تصویر اوکے میگزین میں شایع ہوئی جس کے لیے اینا نکول کو 12 کروڑ روپے ادا کیے گئے تھے.

  • آنکھوں کے امراض کی چند بنیادی وجوہات

    آنکھوں کے امراض کی چند بنیادی وجوہات

    آنکھیں ہمارے وجود کا انمول حصّہ اور بینائی عظیم نعمت ہے۔

    انسانی جسم کا یہ نازک اور نہایت حساس عضو کسی حادثے کے نتیجے میں‌، ہماری غفلت یا بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کم زور اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے. ضعفِ بصر کے علاوہ بعض صورتوں‌ میں‌ ہم بینائی سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے آنکھوں سے متعلق کسی بھی قسم کی پیچیدگی کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ آنکھوں کے بعض امراض فوری طبی معائنہ اور علاج چاہتے ہیں جب کہ معمولی اور عام شکایت کی صورت میں بھی آنکھوں کا باقاعدہ طبی معائنہ کروانا ہی بہتر ہوتا ہے، کیوں کہ ذرا سی غفلت سے تاریکی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔

    آنکھ کے امراض کا سبب متعدد قسم کی جسمانی کم زوریاں اور وہ کمی ہو سکتی ہیں جس سے آنکھوں کی طاقت اور بینائی متاثر ہوتی ہے جس میں ناقص غذا اور جسم کا ضروری غذائی اجزا سے محروم ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ حادثات کی وجہ سے نقصان جیسے سر یا آنکھ پر ضرب یا شدید چوٹ لگنے سے بھی بلواسطہ یا براہِ راست اس عضو کو نقصان پہنچے اور یہ بینائی کو متاثر کرے۔ ہماری کھوپڑی یا سَر کی پشت اور دماغ پر ضرب بھی آنکھوں کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ فضائی آلودگی سے بھی آنکھیں متاثر ہوتی ہیں۔

    آنکھوں کے مختلف مسائل کی ایک دوسری وجہ عمر کا بڑھنا ہے جس کے سبب پیدا ہونے والی شکایات سے مکمل طور پر نجات حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان میں بہت زیادہ روشنی اور آنکھوں کے آگے اکثر کالے دھبے ابھر آنے کی شکایت عام ہے۔ یہ مسئلہ عموماً پچاس سال کی عمر کے افراد کو لاحق ہوتا ہے۔ تاہم ایسے دس میں سے نو افراد مزید کسی پیچیدگی کا شکار نہیں ہوتے۔ تاہم کئی ایسے امراض اور پیچیدگیاں بھی ہیں جو پاکستان میں امراضِ چشم میں اضافے کا سبب ہیں۔

    ان میں آلودگی کی وجہ سے آنکھ کی سوزش اور اس پر توجہ نہ دینے کی صورت میں رفتہ رفتہ بینائی سے محرومی، آنکھوں میں درد رہنا، مسلسل خارش، ذیابیطس کی وجہ سے آنکھ کے پردے کو ہونے والا نقصان اور بینائی کا متاثر ہونا، سفید اور کالا موتیا جیسے امراض جو اندھے پن کی بڑی وجہ ہیں۔

    ماہرینِ امراضِ چشم کے مطابق روانہ آنکھوں کو صاف پانی سے دھونا چاہیے۔ موجودہ دور میں جہاں برقی آلات اور اسکرینوں کا استعمال بڑھ گیا ہے، وہیں بعض لوگوں کا تیز روشنی، شعلوں یا ایسے گرد و غبار میں خاصا وقت گزرتا ہے جس میں دھاتی اور ریتیلے ذرات شامل ہوں۔ ایسے افراد آنکھوں کے مختلف مسائل، طبی پیچیدگیوں اور امراض کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔

    ویلڈر، مختلف بھٹیوں پر کام کرنے والے، دھاتی صنعت سے وابستہ افراد یا کھلے میدانوں میں دھوپ اور گرد و غبار میں رہنے والے جن کی آنکھیں عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ انھیں باقاعدگی سے اپنی آنکھوں کا معائنہ کروانا چاہیے جب کہ کسی بھی قسم کی چبھن، جلن، آنکھوں سے پانی بہنے کی شکایت اور کم نظر آنے، دھندلا دکھائی دینے یا بصارت کے عمل کے دوران ارد گرد مختلف دھبے یا دائرے نظر آنے پر طبی معائنہ کروانا چاہیے۔

    اسی طرح اپنی غذا اور خوراک میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے آنکھ کے خلیات کو تقویت اور اس کی ضرورت کے مطابق طاقت بخشتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسکرین، کتاب سے مخصوص فاصلہ رکھنا، مناسب و ضروری روشنی میں لکھنا، پڑھنا اور آنکھوں کی صفائی کے ساتھ ان کو آرام دینے سے عام شکایات سے بچا جاسکتا ہے۔

  • ٹائیفائیڈ: ویکسین کی تیاری اور طبی جانچ کا طریقہ کیا ہے؟

    ٹائیفائیڈ: ویکسین کی تیاری اور طبی جانچ کا طریقہ کیا ہے؟

    پاکستان میں ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کی نئی ویکسین متعارف کروائی گئی ہے۔ ملک میں 30 نومبر تک انسدادِ ٹائیفائیڈ مہم جاری رہے گی جس میں 9 ماہ سے 15 سال تک کے بچوں کو اس بیماری سے بچاؤ کی ویکسین دی جائے گی۔

    اس ویکسین کی تیاری، اس کی طبی جانچ کے طریقے اور انسانی جسم پر ویکسین کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں یہ جاننا ضروری ہے۔

    ویکسین کیا ہوتی ہے؟
    ویکسین ایک طبی مصنوع ہے جو کسی بیماری سے انسانی جسم کی حفاظت کے لیے تیار کی جاتی ہے اور اس کی مخصوص مقدار جسم میں داخل کی جاتی ہے۔ کسی بھی دوا کی طرح اس کے جسم پر ضمنی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

    چوں کہ یہ انتہائی محفوظ، معیاری اور طبی جانچ کے کڑے مراحل سے گزری ہوتی ہے اس لیے ویکسینیشن کے ضمنی اثرات بہت معمولی ہوتے ہیں۔ اس میں درد، سوجن یا جلد پر سرخی ظاہر ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض ویکسین بخار اور خارش کا سبب بھی بنتی ہیں۔

    طبی ماہرین کب ویکسین کی تیاری کی طرف متوجہ ہوئے؟
    مختلف وائرس اور خاص قسم کی بیماریوں سے حفاظت کے لیے 19 ویں صدی کے آخر میں ماہرین نے ویکسین کا تجربہ کیا۔ یہ امراض چیچک، ریبیز، ہیضہ اور ٹائیفائیڈ تھے جن پر طبی تحقیق اور ماہرین نے تجربات کے بعد ویکسین تیار کی۔ تاہم ان کی تیاری کے لیے زیادہ محفوظ اور معیاری طریقہ موجود نہ تھا۔ اس لیے دوا کی اس شکل کے ضمنی اثرات بھی سامنے آئے اور خطرناک ثابت ہوئے۔ تاہم جدید دور میں طبی سائنس نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ویکسین انتہائی محفوظ ہوں اور ان کا استعمال بھی زیادہ محفوظ اور مؤثر ہو۔

    عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تحت بین الاقوامی سطح پر اس قسم کی حیاتیاتی مصنوعات کی نگرانی اور اس حوالے سے سفارشات کی جاتی ہیں۔

    ویکسین کی جانچ کا سادہ طریقہ کیا ہوتا ہے؟
    ویکسین کی جانچ عام طور پر ایک معیاری اور باقاعدہ طریقے سے کی جاتی ہے۔ اس کے لیے لیبارٹری آلات اور جانوروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تحقیق اور جانچ سال سے زائد عرصہ تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔

  • جب جڑی بوٹی نے مسلمان ماہرَ نباتات کو زندگی سے محروم کر دیا!

    جب جڑی بوٹی نے مسلمان ماہرَ نباتات کو زندگی سے محروم کر دیا!

    صدیوں پہلے علم و فنون کے مختلف شعبوں میں تحقیق اور اس کے ذریعے کائنات اور حیات کے بھید پانے کی کوشش اور اپنے علمی و تحقیقی کام سے متعلق مشاہدات اور تجربات کو رقم کرنے والوں میں مسلمان شخصیات بھی شامل ہیں۔

    نباتات یعنی زمین پر پودوں، جڑی بوٹیوں پر تحقیق اور مشاہدات کے ذریعے ان کے خواص، اثرات، فوائد اور امراض میں نافع ہونے کی معلومات رقم کرنے والا ایک نام ضیاء الدّین ابنِ بیطار ہے۔ وہ طبی سائنس میں ایک ماہرِ نباتات کے طور پر مشہور ہیں۔ اسپین ان کا وطن تھا، مگر علم و طب کے شعبے میں دل چسپی ان سے دور دراز کا سفر کرواتی رہی۔ ان کی عمر کا بڑا حصہ گھوم پھر کر پودوں اور جڑی بوٹیوں پر تحقیق میں گزرا۔ انھوں نے اپنے سفر میں جن جڑی بوٹیوں کے خواص اور ان کے فوائد جانے وہ ایک کتاب میں جمع کر دیے۔ دنیا اس کتاب کو ‘‘جامع المفردات’’ کے نام سے جانتی ہے جس میں 14 سو جڑی بوٹیوں پر ان کی تحقیق اور مشاہدات موجود ہیں۔ اس کتاب کی شعبۂ طب میں اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔

    ابنِ بیطار 1197 میں پیدا ہوئے۔ حیوانات اور نباتات میں دل چسپی اور طب کا شوق یوں پروان چڑھا کہ ان کے والد جانوروں کے امراض کا علم رکھتے اور ان کے علاج کے لیے مشہور تھے۔ یہ لفظ بیطار اسی طرف نسبت کرتا ہے۔ یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی حیوانات کا طبیب ہیں۔

    ابنِ بیطار نے اس زمانے کے رواج کے مطابق ابتدائی اور عربی کی تعلیم مکمل کرکے حکمت پڑھی اور اپنی لگن اور دل چسپی سے وہ قابلیت اپنے اندر پیدا کی کہ اس زمانے میں انھیں امام اور شیخ کہا جانے لگا۔ ان کے علم اور دانش نے عوام ہی نہیں خواص کو بھی ان کا معتقد بنا دیا تھا۔ کہتے ہیں یہ ماہرِ نباتیات دس برس تک شاہ دمشق کے دربار سے وابستہ رہا۔ تاہم بادشاہ کے انتقال کے بعد مصر ہجرت کر گئے تھے اور وہاں بھی طبیب خاص کے طور پر کام کیا۔

    پیڑ پودوں اور جڑی بوٹیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کا شوق انھیں بیس برس کی عمر میں مصر، یونان، اور ایشیائے کوچک کے جنگلوں اور پہاڑوں تک لے گیا۔ اس زمانے میں ابو العباس ایک مشہور ماہرِ نباتات تھے جن سے ابنِ بیطار نے استفادہ کیا۔ والد سے بھی انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا تھا۔

    اسی طرح دیگر یونانی طبیب اور حکما کی کتب نے بھی ان کے نباتات سے متعلق علم میں اضافہ اور شوق و جستجو کو مہمیز دی۔ ان کی دو کتب جڑی بوٹیوں اور دواؤں سے متعلق ہیں جو بہت مشہور ہیں۔ ابنِ بیطار کی موت کی وجہ ایک ایسی جڑی بوٹی بنی جسے انھوں نے ایک تجربے کی غرض سے آزمایا تھا۔ تاہم وہ زہریلی ثابت ہوئی اور 1248 میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ دمشق میں انتقال کے بعد وہیں ان کی تدفین کردی گئی۔ اسپین اور دنیا کے مختلف شہروں‌ میں‌ یادگار کے طور پر ان کے مجسمے نصب کیے گئے ہیں.

  • 1978 کی یادیں: قومی کتب خانہ اور اسلام آباد کی مخلتف جامعات کی لائبریریاں

    1978 کی یادیں: قومی کتب خانہ اور اسلام آباد کی مخلتف جامعات کی لائبریریاں

    ایک زمانہ تھا جب علم و ادب کے مراکز اور کتب خانے آباد ہوا کرتے تھے۔ لائبریریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔

    ملک کے مختلف علاقوں میں موجود کتب خانوں‌ سے طالب علم اور مطالعہ کے شوقین استفادہ کرتے اور ان کی رونق بحال رکھتے۔ تاہم بعد کے ادوار میں علم و فنون اور سرکاری سطح پر کتب خانوں کی سرپرستی کا سلسلہ ختم ہوتا چلا گیا۔ یوں کئی اہم لائبریریاں اور بلدیہ کے ماتحت کتب خانے ویران ہو گئے۔

    الحاج محمد زبیر کی ایک کتاب اسلامی کتب خانے اس حوالے سے اہم کاوش ہے جو 1978 میں شایع ہوئی تھی۔ اس کتاب کی ورق گردانی کے دوران قومی کتب خانہ اسلام آباد اور اسی شہر کی چند دیگر لائبریریوں پر چند سطر پارے نظر سے گزرے۔ ان کا خلاصہ آپ کی نذر ہے۔ مصنف لکھتے ہیں۔

    قومی کتب خانہ اسلام آباد کی عمر گو زیادہ نہیں ہے، لیکن اس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اس کا شمار پاکستان کے عظیم کتب خانوں میں ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہاں اردو، عربی اور انگریزی زبان میں کتابوں کی تعداد 39 ہزار تھی۔ عربی زبان میں اتنا اچھا ذخیرہ پاکستان کے کم کتب خانوں میں ملے گا۔

    اس کے علاوہ اسلام آباد کی درس گاہوں کے کتب خانوں میں یہاں کی یونیورسٹی لائبریری کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ اس میں سال بہ سال جملہ علم و فنون کی کتابوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان کے نام ور دانش ور پیر حسام الدین کا بیش قیمت ذخیرۂ کتب شامل ہو جانے سے اس لائبریری کی قدر و قیمت میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔

    سینٹرل اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کتب خانہ بھی نہایت عالی شان ہے۔ اس میں علومِ اسلامی پر ایسا ذخیرہ ہے جو کسی اور لائبریری میں نہیں۔ کتب خانہ گنج بخش کی بات کی جائے تو مرکزِ تحقیقات فارسی، ایران و پاکستان کا وہ عظیم کتب خانہ ہے جو حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ کے نام پر قائم ہے۔

    یہاں بارہ ہزار مطبوعات اور آٹھ ہزار مخطوطات جمع ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ اسلام آباد ہر قسم کے کتب خانوں سے معمور ہے۔ یہاں وفاقی اسمبلی اور سیکریٹریٹ وغیرہ کے دفاتر اور سفارت خانوں کے علاوہ یونیورسٹیاں اور بہت سے تعلیمی و سماجی ادارے بھی ہیں جن سے منسلک کتب خانے بڑے نایاب اور اعلیٰ شمار کیے جاتے ہیں۔

  • سید سلیمان ندویؒ: مشہور عالمِ دین اور اہم کتب کے مصنف کا تذکرہ

    سید سلیمان ندویؒ: مشہور عالمِ دین اور اہم کتب کے مصنف کا تذکرہ

    برصغیر میں علم و فضل، تدبر اور اپنی بصیرت میں ممتاز و یگانہ شخصیات میں سید سلیمان ندویؒ کا نام سرِ فہرست ہے۔ یہی ہیں بلکہ عالمِ اسلام میں سید سلیمان ندویؒ کو ان کی مذہبی فکر، دینی خدمات اور قابلیت کی وجہ سے نہایت عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ ایک اتفاق ہے کہ آج 22 نومبر کو دنیا کے افق پر نمودار ہونے والا یہ آفتاب اس مٹی کو علم و حکمت کی کرنوں سے ضیا بار کر کے اسی روز ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا. اردو ادب کے نام ور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور قابلِ قدر کتابوں کے مصنف کا ایک بڑا کارنامہ سیرتُ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کاشانۂ علم و فضل ان کا احسان مند رہے گا۔

    ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی تھے جنھوں نے سیرت کی پہلی دو جلدیں لکھیں، مگر زندگی نے وفا نہ کی اور 1914 کو ان کے انتقال کے بعد باقی چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس میں تحقیق اور مہارت کی ضرورت تھی جسے بلاشبہہ انھوں نے خوبی سے نبھایا۔ دارُالمصنفین، اعظم گڑھ کا قیام عمل میں لائے اور ایک ماہ نامہ معارف کے نام سے شروع کیا۔

    صوبہ بہار کے ایک گاؤں میں 1884 کو پیدا ہونے والے سید سلیمان ندوی نے 1901 میں دارالعلوم ندوۃ العلما میں داخلہ لیا جہان انھیں علامہ شبلی نعمانی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ ایک قابل اور نہایت شفیق استاد کی صحبت نے ان کی شخصیت کی تعمیر اور صلاحیتوں کو اجالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ استاد کی وفات کے بعد وہ ان کے قائم کردہ ادارے ندوۃ المصنّفین سے وابستہ ہو گئے اور اسی دوران سیرتُ النبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد سلیمان ندوی نے جون 1950 میں پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ہجرت کے بعد وطنِ عزیز کے لیے آپ نے جو کارنامہ انجام دیا وہ پاکستان کے دستور کا اسلامی خطوط پر ڈھالنا تھا۔ اس حوالے سے مختلف مکاتبِ فکر کے علما کے ساتھ مل کر آپ نے دستور کے راہ نما اصول مرتب کیے۔ پاکستان آمد کے بعد سید سلیمان ندوی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور 1953 میں کراچی میں وفات پائی۔

    آپ کی نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی تھی۔ ان کی تدفین اسلامیہ کالج کے احاطے میں کی گئی۔ ان کی تصانیف میں عرب و ہند کے تعلقات، یادِ رفتگاں، سیرِ افغانستان، حیاتِ شبلی وغیرہ شامل ہیں۔

  • اسلم پرویز: پاکستانی فلموں کا وہ ہیرو جسے ٹریفک حادثے نے ہم سے چھین لیا

    اسلم پرویز: پاکستانی فلموں کا وہ ہیرو جسے ٹریفک حادثے نے ہم سے چھین لیا

    اسلم پرویز نے فلم انڈسٹری کے لیے ہیرو اور ولن ہر روپ میں کمال اداکاری کی۔ ان کا فنی سفر 1950 سے شروع ہوا۔ پہلی فلم ‘‘قاتل’’ تھی جس میں شائقین سے ان کا تعارف ایک ہیرو کے طور پر ہوا۔

    اسلم پرویز کو اس وقت کے نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا نے اس فلم کے لیے آغا جی اے گل سے ملوایا تھا۔ اس فلم ساز نے نئے چہرے کو آزمایا اور کام یابی ان کا مقدر بنی۔ اسلم پرویز نے اس دور کی معروف ہیروئنوں کے ساتھ اداکاری کی اور شہرت و مقبولیت کا سفر طے کیا۔

    21 نومبر 1984 کو اس اداکار کی زندگی کا چراغ بجھ گیا۔ وہ ایک حادثے کا شکار ہونے کے بعد چند روز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے اور پھر آنکھیں موند لیں۔ اسلم پرویز ایک فلم کی شوٹنگ کے بعد اپنے ساتھی فن کار اقبال حسن کے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے کہ ایک ویگن سے حادثہ ہو گیا۔ اس حادثے نے دونوں فن کاروں کو زندگی سے محروم کر دیا۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے ابتدائی دور کا یہ باکمال اداکار بہ طور ہیرو فلم پاٹے خان، کوئل، شیخ چلی، چھومنتر، نیند اور عشق پر زور نہیں میں نظر آیا جب کہ بعد کے زمانے میں انھوں نے سلور اسکرین پر ولن کے رول کیے اور اس میں بھی خود کو منوایا۔ تین سو سے زائد فلمیں کرنے والے اسلم پرویز کو ورسٹائل اداکار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔