Author: عارف حسین

  • پہلوانی اور فنِ کشتی: اکھاڑے میں اترنے والے چند مشہور پہلوانوں کا تذکرہ

    پہلوانی اور فنِ کشتی: اکھاڑے میں اترنے والے چند مشہور پہلوانوں کا تذکرہ

    پہلوانوں کا اکھاڑے میں اترنا اور کشتی لڑنا وہ یاد بن چکا ہے جسے بس لفظوں اور تصویروں کا قیدی ہی سمجھیے۔

    آج نوجوان اپنے ہاتھوں میں اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ اٹھائے ہوئے ہیں اور یہی گویا ان کی کسرت ہے۔ ان کا اکھاڑا سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہیں۔ یقیناً وقت بدل چکا ہے۔

    کشتی کبھی ایک مقبول اور باوقار کھیل سمجھا جاتا تھا۔ یہ صرف ایک کھیل نہیں تھا بلکہ اس کی جڑیں ہماری ثقافت میں گہری ہیں۔ کسرت اور کشتی جسمانی صحت ہی نہیں ذہنی اور روحانی تربیت کا ذریعہ بھی تھا۔ ایک مفید اور خوب صورت مشغلہ جس نے پاکستان کو کئی نام ور کھلاڑی دیے جنھوں نے دنیا بھر میں اس کھیل کے حوالے سے پاکستان کا نام بلند کیا۔

    اکھاڑے اور دنگل میں جب حریف آمنے سامنے ہوتے اور فتح کا اعلان ہوتا تو ان کے مابین مثالی نظم و ضبط، اصولوں اور سماجی قدروں کی پاس داری کے ساتھ روایتی گرم جوشی کا شان دار مظاہرہ دیکھنے کو ملتا۔ آج ہمارے ملک میں پہلوانی کا فن اور کشتی کا کھیل زوال پذیر ہے۔ نوجوان کسرت و کشتی کا شوق نہیں رکھتے، مگر جسمانی فٹنس کی غرض سے باڈی بلڈنگ کلب ضرور جاتے ہیں۔

    پہلوانی کا شوق، اکھاڑے کی کشش کے ساتھ کشتی کا جنون ہمارے یہاں کبھی اعزازات سمیٹنے کا سبب بنا تھا۔ یہ ایک قدیم فن ہے جو مختلف شکلوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں رائج رہا ہے۔ برصغیر میں اس کھیل کے حوالے سے کئی نام آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں۔ پاکستان کی بات کی جائے تو پہلوانی اور کشتی کے کھیل میں کئی اعزازات ہمارے حصّے میں آئے۔ آج ہم ماضی کے چند مشہور پہلوانوں کے نام آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔

    شاید آپ نے کبھی بھولو پہلوان کا نام سنا ہو یا گاما پہلوان کا تذکرہ پڑھا ہو۔ اسی طرح ناصر عرف بھولو، زبیر جھارا، گوگا پہلوان، امام بخش پہلوان اور غلام محمد عرف گاما پہلوان وہ نام ہیں جنھوں نے تن سازی کے حوالے خوب محنت کی، خوراک اور کسرت پر توجہ دی اور جب اکھاڑے میں اترے اور دنگل کیا تو اس کھیل کے فاتح ٹھیرے۔ یہ قدیم، علاقائی اور روایتی کھیل اب پاکستان کی پہچان نہیں رہا۔ تاہم چند شہروں میں انفرادی حیثیت میں اب بھی کشتی لڑنے اور پہلوانی کرنے کا شوق پورا کیا جاتا ہے۔

  • حیات اللہ انصاری: صحافت، ادب اور سیاست تک کام یاب سفر کی مختصر کہانی

    حیات اللہ انصاری: صحافت، ادب اور سیاست تک کام یاب سفر کی مختصر کہانی

    کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی جیسے لکھاریوں کے زمانے میں حیات اللہ انصاری نے ادبی فضا کو اپنے افسانے ‘‘بڈھا سود خور’’ سے جھنجھوڑا۔

    یہ اس قلم کار کے حقیقت پسند اور انسان دوست ہونے کا ثبوت تھا۔ یہ کہانی روایتی ڈگر سے ہٹ کر تھی جو حیات اللہ انصاری کی پہلی مطبوعہ تخلیق تھی۔ یہ بات ہے 1930 کی۔ بعد کا دور جس حیات اللہ انصاری کا ہے، اس کا تعارف کچھ یوں ہے۔

    حیات اللہ انصاری افسانہ نویس، ناول نگار، ناقد اور جید صحافی کی حثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ مختصر کہانی اور افسانہ نگاری میں کمال رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں ان کو ایک ماہرِ تعلیم ہی نہیں بلکہ تحریکِ اردو کا متحرک کارکن بھی کہا جاتا ہے۔ حیات اللہ انصاری کے ہم عصروں میں کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی کے علاوہ جو لکھاری قابلِ ذکر تھے ان میں مجنوں گورکھ پوری اور نیاز فتح پوری کا نام بھی افسانوی ادب کے حوالے سے ابھر رہا تھا۔

    ‘‘بڈھا سود خور’’ میں اس دور کی سماجی اور سیاسی صورتِ حال کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ بعد کے زمانے میں بھی ان کی جو تخلیقات قارئین تک پہنچیں ان میں حقیقت پسندی اور انسان دوستی حاوی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ حیات اللہ انصاری کے افسانوں میں انسانیت کی توقیر، زندگی کی قدر و قیمت اور حقیقت پسندی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ وہ مختصر افسانے لکھنے والوں میں اہم مانے جاتے ہیں۔

    حیات اللہ انصاری نے اپنے مختصر افسانوں میں اپنے اسلوب اور طرزِ بیان سے قارئین اور ناقدین سبھی کو متاثر کیا۔ خوب صورت اور دل نشیں طرزِ تحریر کے ساتھ بلند خیالی اور مقصد ان کی کہانیوں کو مقبول بناتا ہے۔

    حیات اللہ انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘بھرے بازار میں’’ کے نام سے 1935 میں شایع ہوا۔ دوسرا ‘‘انوکھی مصیبت’’ اور تیسرا ‘‘شکستہ کنگورے’’ کے عنوان سے شایع ہوا۔ 1991 میں دہلی سے ‘‘ٹھکانہ’’ کی اشاعت ہوئی جو ان کی چوتھی کتاب تھی۔ ‘‘ لہو کے پھول’’ ان کا وہ ناول تھا جس کا موضوع ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد تھا۔ یہ پانچ جلدوں پر مشتمل ناول تھا جس پر بھارت میں ڈراما بھی بنایا گیا۔

    لکھنؤ ان کا وطن تھا۔ 1912 میں پیدا ہوئے اور اس دور کے رواج کے مطابق تعلیم کے لیے مدرسے بھیجے گئے۔ بعد میں علی گڑھ سے بی اے کی سند لی۔ لکھنے کی طرف مائل ہوئے تو ترقی پسند تحریک سے جڑے مگر سیاسی نظریہ انھیں کانگریس کے پلیٹ فارم پر لے گیا اور وہ سیاست داں کے طور پر بھی متحرک نظر آئے۔

    1999 ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔ دہلی میں اس باکمال افسانہ نگار اور کہنہ مشق صحافی نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

  • ٹیپو سلطان کا یومِ پیدائش: اس مجاہد کی سونے کی انگوٹھی اور تلوار کہاں ہے؟

    ٹیپو سلطان کا یومِ پیدائش: اس مجاہد کی سونے کی انگوٹھی اور تلوار کہاں ہے؟

    ریاست میسور کے حکم راں سلطان فتح علی کو ٹیپو سلطان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    ٹیپو سلطان ہندوستان کی جنگِ آزادی کے عظیم مجاہد اور انگریزوں کے بڑے مخالفین میں سے ایک تھے۔ فنونِ سپہ گری میں ماہر ٹیپو سلطان کو ایک مدبر اور بہترین منتظم بھی کہا جاتا ہے جس نے اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق پر توجہ دی اور اپنی فوج کے ساتھ ہر محاذ پر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ اس حکم راں کے نوادر اور اس کے زیرِ استعمال اشیا سے متعلق معلومات آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

    اس حکم راں کی ریاست دنیا بھر میں سلطنتِ خداداد کے نام سے پہچانی جاتی تھی جس کی نشانی شیر تھا۔
    ٹیپو سلطان کا یہ قول مشہور ہے؛ ‘‘شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔’’
    ٹیپو سلطان کی ہر تلوار کا دستہ بیش قیمت جواہر سے مرصع ہوتا تھا۔
    2015 میں شہید ٹیپو کی ایسی ہی ایک تلوار 21 کروڑ روپے میں نیلام ہوئی۔ اس تلوار پر شیر بھی بنا ہوا ہے۔
    میسور کے اس فرماں روا اور مجاہد کی خالص سونے سے تیار کی گئی ایک انگوٹھی 2014 میں نیلام کی گئی۔

    یہ انگوٹھی 41 گرام وزنی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیپو کی شہادت کے بعد اسے ایک انگریز فوجی افسر نے انگلی سے اتار لیا تھا۔
    دل چسپ بات یہ ہے کہ انگوٹھی ایک لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ پر نیلام ہوئی اور یہ بولی ماہرین کی توقع سے دس گنا زائد تھی۔
    لندن کے ایک میوزیم میں ٹیپو کا اسلحہ بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس میں وہ راکٹ شامل ہیں جو انگریزوں پر حملے میں استعمال ہوئے۔ اس کے علاوہ بندوقیں اور ایک توپ بھی میوزیم کے عجائبات میں شامل ہے۔

  • پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    عبدالمجید قریشی کے اردو ادب میں مقام اور ان کی خدمات کے ساتھ ان کا تعارف پڑھنے سے پہلے انہی کے قلم سے نکلا یہ دل چسپ واقعہ پڑھیے۔ یہ ان کی مقبول تصنیف ‘‘ کتابیں ہیں چمن اپنا’’ سے نقل کیا گیا ہے۔

    شرارت سبھی بچے کرتے ہیں۔ میرے بچے بھی۔ گھر کی مختلف چیزیں گاہ بہ گاہ ان کی شرارتوں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں، لیکن جہاں تک میری کتابوں کا تعلق ہے وہ بھی انھیں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    بچھلے دنوں ایک دل چسپ واقعہ رونما ہوا۔ میں کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ قریب ہی میز پر رکھی ہوئی کتاب نیچے گر گئی۔ میں نے اپنے بچے سے کہا کہ اسے اٹھا کر میز پر رکھ دو۔

    بچہ دوڑ کر باہر نکل گیا۔ مجھے اس کی اس حرکت پر بڑا غصہ آیا۔ میں نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا کہاں جارہے ہو۔ بچے نے کہا، ‘‘ابھی آیا۔’’

    دو چار منٹ بعد لڑکا واپس آگیا۔ وہ اپنے ہاتھ دھو کر آیا تھا اور تولیے سے پونچھ رہا تھا۔

    میں نے دریافت کیا یہ کیا معاملہ ہے۔ کہنے لگا۔

    ‘‘میرے ہاتھ صاف نہیں تھے۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ نئی کتاب میلی نہ ہو جائے۔ اس لیے ہاتھ دھو کر آیا ہوں، اب اٹھاتا ہوں۔’’ اس نے بڑی آہستگی سے کتاب کو اٹھا کر میز پر رکھ دیا۔

    ایک اور موقعے پر جب میں ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ میرا دوسرا بچہ آیا۔ میرے پاس کھڑے ہو کر کتاب کو دیکھا اور چلا گیا۔ کچھ دیر بعد آیا تو دونوں ہاتھوں پر صاف ستھرا تولیا پھیلایا ہوا تھا۔ کہنے لگا۔

    ‘‘تھوڑی دیر کے لیے یہ کتاب مجھے دے دیجیے، تولیے پر رکھ کے دیکھوں گا، میلا نہ ہونے دوں گا۔’’

    عبدالمجید قریشی 1921 میں پیدا ہوئے۔ وطن مشرقی پنجاب تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور محکمۂ ڈاک میں ملازم ہوئے۔ مطالعے کے رسیا اور کتاب اندوز مشہور تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ مختلف موضوعات اور خاص طور پر فنونِ لطیفہ سے متعلق رسائل سے سجا رہا۔

    خود بھی نثر نگار تھے اور نہایت لطیف و دل کش اسلوب کے حامل تھے۔ ان کے مضامین اس دور کے معیاری رسائل اور اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ وہ تین کتابوں کے مصنف ہیں جو ان کی زندگی میں شایع ہوئیں۔ سوانح عمری، آپ بیتی اور واقعات نگاری سے خاص شغف تھا۔ 2010 اس دنیا میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ ان کی عمرِ عزیز کے آخری ایّام ملتان میں گزرے۔

  • جب میر تقی میر نے صمصمام الدّولہ کی تصحیح کی

    جب میر تقی میر نے صمصمام الدّولہ کی تصحیح کی

    صمصام الدّولہ کا اصل نام خواجہ عاصم تھا اور وہ قمر الدّین خاں آصف جاہ اوّل کے دربار سے وابستہ تھے۔ شاعرانہ ذوق بلند اور زبان و بیان نہایت فصیح و شستہ۔ خود بھی فارسی میں کلام کہتے تھے۔

    ایک روز ان کے ایک عزیز نے میر تقی میر سے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میر محمد علی متّقی کے صاحب زادے ہیں۔ میر متّقی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور ان کا مختصر احوال بھی گوش گزار کر دیا۔ صمصام الدّولہ نے انھیں دیکھا اور بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے مجھ پر احسانات تھے۔ لہٰذا، میں میر کے لیے ایک روپیا وظیفہ مقرّر کرتا ہوں۔

    یہ سن کر میر تقی میر نے کہا کہ حضور اس سلسلے میں تحریری حُکم جاری فرما دیں تاکہ کوئی اعتراض نہ کر سکے۔ صمصام الدّولہ نے اس کے جواب میں کہا کہ ‘‘قلم دان کا وقت نہیں ہے۔

    ’’ اس پر میر تقی میر نے تبسّم کیا۔ صمصام الدّولہ سے رہا نہ گیا اور انھوں نے تبسّم کی وجہ دریافت کی۔

    میر نے جواب میں کہا کہ اس کا سبب میرا آپ کی بات دو وجوہ سے نہ سمجھ پانا ہے۔ اوّل یہ کہ اگر آپ یہ فرماتے کہ قلم دان بردار اس وقت حاضر نہیں ہے، تو بات درست تھی۔ دوم یہ کہ آپ فرماتے کہ یہ دست خط کا وقت نہیں ہے، تب بھی درست ہوتا۔ تاہم یہ کہنا کہ وقتِ قلم دان نیست (قلم دان کا وقت نہیں ہے) کچھ انوکھی بات ہے۔ میر نے مزید کہا کہ قلم دان لکڑی کا ہونے کے باعث وقت سے واقف نہیں ہے۔ یہ سن کر صمصام الدّولہ نے خوشی کا اظہار کیا اور میر کی ذہانت کا اعتراف کیا۔

    نواب صاحب سے ملاقات کے وقت ان کے ایک جملے کی تصحیح کے ساتھ میر نے زبان و بیان پر اپنی گرفت کا اظہار کر کے گویا یہ ثابت کیا کہ وہ جس کا وظیفہ مقرر کرچکے ہیں، اس عنایت کے لائق بھی ہے اور کوئی معمولی شخص نہیں ہے۔

    اردو شاعری میں میر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میر تقی میر 1722 میں پیدا ہوئے۔ آگرہ میں ان کے والد علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ کم عمری میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے تھے۔ کہتے ہیں یہیں سے میر کی زندگی میں مصائب و آلام کا سلسلہ شروع ہوا۔ نواب صاحب اور میر کی ملاقات کے اس دل چسپ تذکرے کے ساتھ اس عظیم شاعر کی ایک غزل بھی آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    ہستی اپنی حباب کی سی ہے
    یہ نمائش سراب کی سی ہے
    نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے
    پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
    بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
    حالت اب اضطراب کی سی ہے
    میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
    اسی خانہ خراب کی سی ہے
    میر ان نیم باز آنکھوں میں
    ساری مستی شراب کی سی ہے

  • عراق میں موجود ایک مقدس ٹیلے اور پانی کے چشمے کی حقیقت

    عراق میں موجود ایک مقدس ٹیلے اور پانی کے چشمے کی حقیقت

    موصل میں حضرت یونس علیہ السلام سے منسوب ایک ٹیلہ اور اس کے نزدیک ایک چشمہ ہے۔ کہتے ہیں اس ٹیلے پر ان کی قوم اکٹھی ہوئی تھی اور طہارت کے لیے قریبی چشمے کا رخ کیا تھا۔

    نینوا میں بسی اس قوم میں بت پرستی اور برائیاں عام تھیں۔ یونس علیہ السلام نے انھیں ایمان لانے کی ہدایت کی، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے جب انھیں عذاب کی وعید سنائی اور جب اس قوم پر یہ ظاہر ہوا کہ واقعی کوئی عذاب آنے والا ہے تو انھوں نے توبہ کی اور حضرت یونس علیہ السلام پر ایمان لانے کا اقرار کیا، لیکن اس وقت تک وہ بستی چھوڑ کر جا چکے تھے۔

    حضرت یونس علیہ السلام، ان کی قوم اور عذاب کا ذکر قرآن کی ایک سورت میں کیا گیا ہے۔ نینوا کی اس قدیم وادی اور وہاں بسنے والی قوم کا تاریخی کتب میں بھی جا بجا تذکرہ ملتا ہے اور اس حوالے سے مصنفین نے کئی روایات اور واقعات نقل کیے ہیں۔ تاہم ان میں اختلاف بھی ہے۔

    اسی نینوا کے قریبی علاقے میں ایک ٹیلے اور پانی کے ایسے چشمے سے متعلق روایات بھی تاریخ و ثقافت اور مذہب کے موضوعات میں دل چسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں جو یونس علیہ السلام سے منسوب ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ قوم خود پر عذاب کو ٹالنے کے لیے دعا کرنے اس ٹیلے کے گرد اکٹھی ہوئی تھی اور پھر قریبی چشمے کے پانی سے غسل کرکے پاکی حاصل کی تھی۔

    بعد میں اس ٹیلے اور چشمے کی زیارت کے لیے لوگ وہاں جاتے رہے۔ قرآن میں اس قوم کی سرکشی اور عذاب کے آثار کے بعد توبہ کرنے پر عذاب روک لینے کا بیان موجود ہے۔

    طبرانی شریف کی روایت ہے کہ نینوا پر جب عذاب کے آثار ظاہر ہوئے تو اس وقت تک یونس علیہ السلام نافرمان ہونے کے سبب قوم کو چھوڑ کر علاقے سے نکل چکے تھے۔ لوگوں نے جب عذاب کے آثار دیکھے تو انھیں بہت تلاش کیا، مگر ناکام رہے اور واپس آکر خوب گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ کی جس کے سبب ان کا عذاب اٹھا لیا گیا۔

    ٹیلے اور اس چشمے کا ذکر مشہور مؤرخ اور سیاح ابنِ بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں کیا ہے اور اس کے مطابق یہ دونوں نشانیاں موصل شہر کے نزدیک علاقے میں ہیں۔

  • صدیوں پہلے لکھے گئے ناول جو سائنسی ایجادات کا سبب بنے

    صدیوں پہلے لکھے گئے ناول جو سائنسی ایجادات کا سبب بنے

    انسان ہمیشہ سے پُرتجسس رہا ہے۔ ان دیکھے اجسام، عجیب و غریب، ماورائے عقل، پوشیدہ اور دست رس سے دور کوئی دنیا اور اشیا اسے متوجہ کر لیتی ہیں۔ جب انسان نے غور و فکر کی عادت اپنائی، شعور اور آگاہی کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنے تخیل کو مہمیز دی تو ایسا ادب تخلیق کیا جو صدیوں بعد سائنسی اختراعات و ایجادات کی بنیاد بنا۔

    ہم ان نام ور اور باکمال ناول نگاروں کا آپ سے تعارف کروا رہے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقات میں صدیوں پہلے زمین اور انسانوں سے متعلق جن ماورائی، غیر حقیقی اور حیرت انگیز تصورات پیش کیے اور آج سائنس نھیں حقیقت کا روپ دے چکی ہے۔ وہ تصورات اب ہمارے سامنے ہیں اور انسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہی ادیبوں اور دانش وروں کی بدولت نئی دُنیاؤں کی تلاش اور ایجادات کا سفر بھی شروع ہوا۔

    From the earth to the moon
    لگ بھگ تین صدیوں پہلے جولز ورنے کی یہ تخلیق منظرِ عام پر آئی تو پڑھنے والے اسے محض ایک ناول سمجھ کر لطف اندوز ہوئے۔ اس ناول میں ایک ایسے خلائی جہاز کا تصوّر پیش کیا گیا تھا جو ایک طاقت وَر توپ سے داغے جانے کے بعد چاند کے مدار میں پہنچ جاتا ہے۔ مصنف نے حیران کن اور دل چسپ انداز میں اسے چاند کے گرد چکر لگاتا ہوا بتایا۔ یہ اس دور میں خلافِ عقل اور ناقابل فہم ضرور رہا ہو گا مگر اسے پڑھنے والوں نے بے حد پسند کیا۔ کہانی میں مدار سے اس اسپیس شپ کی زمین پر واپسی کی لفظی صورت گری کی گئی تھی۔ آج انسان خلا نوردی اور کہکشاؤں کا کھوج لگانے کے ساتھ چاند پر بھی پہنچ چکا ہے۔

    Twenty thousand leagues under the sea
    اسی ناول نگار کے تخیل نے ایک ایسے سیّارچے کی کہانی بھی بُنی جو خلا کے اسرار دریافت کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس قلم کار کا یہ ناول شاہ کار مانا جاتا ہے جس میں اس نے ایک آب دوز کا تصوّر پیش کیا تھا جو سمندر کی گہرائی میں پہنچ کر سَر بستہ رازوں سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یہ ناولز بیسٹ سیلر ثابت ہوئے اور متعدد یورپی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔ صدیوں پہلے ایک انسان کے تخیل کی اڑان کتابی صورت میں ملکوں ملکوں قارئین تک پہنچی اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ دیو قامت سمندری جہاز اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس آب دوزیں سمندر کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔

    First man in the moon
    ایک اور سائنس فکشن رائٹر ایچ جی ویلز ہے جس نے فلکیات کو اپنا موضوع بنایا۔ یہ وہ ناول ہے جسے پڑھ کر انسان کے پہلے خلائی مشن کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کس طرح ایک ادیب کے ذہن نے مستقبل کی صورت گری کی ہو گی۔ سترھویں صدی عیسوی میں اس فکشن نگار نے اپنے ناول میں انسان کو چاند پر اتارا تھا اور بیسویں صدی میں اس کہانی نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔

    Journey to the center of the earth
    اسی فکشن نگار نے اپنی اختراعی صلاحیت اور قلم کی طاقت سے ایک اور ناول کاغذ پر منتقل کیا جس میں انسانوں کو ڈائنو سار کے دور میں دکھایا۔ اس ناول نے قدیم زمانے کے قوی الجثہ حیوان سے متعلق انسانوں کو مزید تحقیق پر اکسایا اور ڈائنو سار کے ڈھانچوں کی دریافتوں کے ساتھ ان پر باقاعدہ ریسرچ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول بھی سائنسی میدان میں ترقی کا سبب بنا۔

  • منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    تقسیمِ ہند کے اعلان اور بٹوارے کے بعد ہجرت کرنے والوں پر جو قیامتیں گزریں، اسے اس دور میں خاص طور پر ادیبوں نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔ پاک و ہند کے نام ور مصنفین نے ہجرت کرتے انسانوں کا دکھ اور اس راستے میں انسانیت کی پامالی کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔

    ہم اردو افسانے کے ایک معتبر نام سعادت حسن منٹو کی وہ کہانیاں آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جو مختصر نویسی میں مصنف کے کمال کی نظیر ہیں اور ظلم و ناانصافی کے اس ماحول کی عکاس ہیں۔ یہ کہانیاں منٹو کے مجموعہ ‘‘سیاہ حاشیے’’ سے لی گئی ہیں۔

    دعوتِ عمل
    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔
    صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا
    ‘‘ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے’’

    خبردار
    بلوائی مالکِ مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔
    کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔
    ‘‘تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’

    پیش بندی
    پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی، فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔
    دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی، سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کردیا گیا۔
    تیسرا کیس رات کے بارہ بجے لانڈری کے پاس ہوا۔
    جب انسپکٹر نے سپاہی کو اس نئی جگہ پہرہ دینے کا حکم دیا تو اس نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔
    ‘‘ مجھے وہاں کھڑا کیجیے جہاں نئی واردات ہونے والی ہے۔’’

  • جتنے کھاؤ اتنے سال محفوظ رہو، جڑی بوٹی کا پھول کس بیماری سے محفوظ رکھتا ہے؟

    جتنے کھاؤ اتنے سال محفوظ رہو، جڑی بوٹی کا پھول کس بیماری سے محفوظ رکھتا ہے؟

    مختلف نباتات اور جڑی بوٹیاں نہ صرف انسان کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں بلکہ صدیوں سے مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے بھی استعمال ہورہی ہیں۔ گل منڈی بھی ایک مشہور جڑی بوٹی ہے جس کے بارے میں اطبا کی تحقیق اور تجربات کے ساتھ اس کے بارے میں ایک نہایت دل چسپ اور ناقابلِ یقین بات بھی ہم آپ کو بتا رہے ہیں۔

    سب سے پہلے تو گل منڈی کے بارے میں جان لیں۔ اس کا پودا زمین پر پھیلا ہوا ہوتا ہے جب کہ پتّے چھوٹے ہوتے ہیں جن پر رواں ہوتا ہے۔ دیکھنے میں یہ پودینے کے پتّوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اس کا پھول سبز گلابی مائل اور گول ہوتا ہے۔ اکثر علاقوں میں اسے گھنڈی بھی کہتے ہیں۔

    گل منڈی کے پھول خون صاف کرنے والی ادویہ میں استعمال ہوتے ہیں۔ اطبا کے مطابق خون صاف کرنے میں اس جڑی بوٹی کا کوئی ثانی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے دل، دماغ اور حافظے کو فائدہ ہوتا ہے۔ یہ جڑی بوٹی بینائی کے لیے بھی مفید بتائی جاتی ہے۔

    اس جڑی بوٹی سے متعلق مشہور ہے کہ اس کا ایک پھول صبح نہار منہ نگل لیا جائے تو آشوبِ چشم سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ بات آپ کے لیے تعجب کا باعث ضرور ہو گی کہ اس کا ایک پھول صرف ایک سال تک ہی اس مرض سے بچا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جتنی تعداد میں کوئی شخص یہ پھول نگلے گا، اتنے ہی وہ برس آشوب چشم سے محفوظ رہے گا۔ یعنی دس پھول نگلنے کی صورت میں 10 سال تک آشوبِ چشم سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر سالم پھول نہ نگلنا چاہیں، تو اس کے پھولوں کو سایہ دار جگہ پر رکھ کر خشک کر لیا جائے اور اس کے ہم وزن سونف ملا کر کُوٹ لیں۔ پھر اس میں اسی توازن سے شکر ملا کر سفوف کو کسی شیشی میں محفوظ کر لیں۔ اس سفوف کا ایک چمچ روزانہ صُبح دودھ کے ساتھ استعمال کریں جو بصارت کے لیے مفید ہے۔
    ماہرینِ طب بتاتے ہیں کہ گل منڈی کا استعمال پھوڑے پھنسیوں، خارش، داد، چنبل اور فسادِ خون کے نتیجے میں لاحق ہونے والے عوارض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ اس جڑی بوٹی کے حوالے سے ایک جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس میں ایک ایسا کیمیائی جزو پایا جاتا ہے، جو وَرم میں فائدہ دیتا ہے۔

  • حق و انصاف کے ساتھ  کفالت کرنے والی برگزیدہ ہستی کون تھی؟

    حق و انصاف کے ساتھ کفالت کرنے والی برگزیدہ ہستی کون تھی؟

    اسلامی تعلیمات کے مطابق صبر کرنے اور نیک اعمال کرنے والوں کے لیے بہت اجروثواب رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر خاص کرم فرماتا ہے جو صبر کرتے ہیں اور مشکل وقت میں بھی اپنے خالق کا شکر ادا کرتے ہیں۔

    قرآن میں مذکور صبرِ ایوب اور پھر اللہ کے انعام و اکرام سے متعلق آیات ہمارے لیے راہ نما اور سراسر ہدایت ہیں۔ قرآن میں دو مقامات پر ہمیں حضرت ذوالکفل علیہ السّلام کا ذکر بھی ملتا ہے۔

    حضرت ذوالکفل علیہ السّلام کو اس کتابِ مقدس میں ایک جگہ صبر کرنے والوں میں شمار کیا گیا ہے اور ان پر رحمت اور انعام کا تذکرہ ملتا ہے۔ قرآن میں ایک اور مقام پر انھیں نیک بندہ کہا گیا ہے۔ تاہم حضرت ذوالکفل کے کہیں مبعوث کیے جانے کا ذکر نہیں ملتا۔

    بعض مفسرین نے حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا نام، ‘‘بشر’’ اور ‘‘ذوالکفل’’ کو ان کا لقب بتایا ہے۔ تاہم مفسرین کی اس حوالے سے آرا مختلف ہیں۔ بعض کے نزدیک وہ ایک نبی گزرے ہیں اور بعض نے انھیں برگزیدہ بندہ اور ولی لکھا ہے۔

    لغات دیکھیے تو ذوالکفل کا لفظی ترجمہ نصیب والے ملے گا جب کہ بعض جگہ حق و انصاف کے ساتھ کفالت کرنے والا بھی لکھا گیا ہے۔

    امام طبریؒ نے حضرت ذوالکفل کی عمر مبارک 75 سال بتائی ہے جب کہ بعض روایات میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 95 برس کی عمر پائی۔ اسی طرح ان کے مزارِ مبارک کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔

    کچھ روایات کے مطابق شام کے دارالحکومت دمشق میں جبلِ قاسیون وہ مقام ہے جہاں حضرت ذوالکفل مدفون ہیں۔ یہیں ان کا مزار بنایا گیا جہاں زائرین آتے رہتے ہیں۔ تاہم عراق سمیت کئی اور مقامات کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ذوالکفل علیہ السلام وہاں آرام فرما رہے ہیں۔ متعدد مقامات پر موجود مزارات اس برگزیدہ ہستی سے منسوب ہیں۔