Author: عارف حسین

  • مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی کو کون ‘‘منی’’ کے نام سے پکارتا تھا؟

    مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی کو کون ‘‘منی’’ کے نام سے پکارتا تھا؟

    کیفی اعظمی کا نام رومان پرور  شاعر کے طور پر ہی نہیں لیا جاتا بلکہ ان کی تخلیقات سے ان کے انسان دوست اور انقلابی نظریات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو ادب کے دامن کو اپنی فکر اور مختلف اصنافِ سخن میں شعری اظہار سے مالا مال کیا۔ عالمی شہرت یافتہ اداکارہ شبانہ اعظمی انہی کی بیٹی ہیں۔

    شبانہ اعظمی کا نام آرٹ فلموں کے ذریعے خود کو  منوانے والوں میں ممتاز ہے۔ وہ ایک باکمال اداکارہ  ہی نہیں بلکہ اپنے سیاسی و سماجی نظریات اور افکار کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی ہیں۔

    ان کے والد اور اردو زبان کے مشہور و معروف شاعر کیفی اعظمی انھیں ‘‘منی’’ کہتے تھے۔ دنیا بھر میں اپنے فن کی وجہ سے شہرت یافتہ یہ اداکارہ آج بھی گھر بھر کے لیے ‘‘منی’’ ہے۔ شبانہ اعظمی شبانہ اعظمی اپنے گھر کے ماحول اور اپنی پرورش کے حوالے سے بتاتی ہیں۔

    ‘‘میری پرورش جس ماحول میں  ہوئی وہاں ہر طرف اشتراکیت اور کارل مارکس کی باتیں ہوتی تھیں۔ والدین ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ بچپن ہی سے گھر ادیبوں، شعرا اور دانش وروں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا جس نے میرے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ میں روایتی عورت کے مقابلے میں سماج کو الگ انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ادب اور پرفارمنگ آرٹ میں دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور پھر میں نے اپنے کیریر کا آغاز بھی اداکاری سے کیا۔ ابو کے لیے میں ہمیشہ ‘‘منی’’ رہی۔ وہ اسی پیار بھرے نام سے مجھے پکارتے تھے۔ آج بھی مجھے ان کی یاد بہت ستاتی ہے۔ میں نے ہمیشہ انھیں کاغذ قلم کے ساتھ ٹیبل پر جھکا ہوا پایا۔ مجھے کم عمری میں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے والد کا کام کیا ہے۔ کچھ شعور آیا تو جانا کہ وہ ایک شاعر ہیں اور فلمی صنعت میں ان کا بہت نام اور مقام ہے۔’’

    شبانہ اعظمی کی چند مشہور  فلمیں شطرنج کے کھلاڑی،  سوامی، منڈی،  فقیرا، پرورش، امر اکبر انتھونی ہیں۔ شبانہ اعظمی نے ہندی سنیما اور آرٹ فلموں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی فلموں کے لیے بھی اداکاری کی اور کام یاب رہیں۔ متعدد ایوارڈز اپنے نام کرنے والی شبانہ اعظمی کی شادی معروف گیت نگار جاوید اختر سے ہوئی۔

  • پی ٹی وی پر کام حاصل کرنے کے لیے سفارش کروانے والے شفیع محمد

    پی ٹی وی پر کام حاصل کرنے کے لیے سفارش کروانے والے شفیع محمد

    شفیع  محمد یہ اعتراف کرتے تھے کہ ٹیلی ویژن پر کام حاصل کرنے کے لیے انھوں نے  سفارش  کا سہارا لیا تھا۔

    انکساری اور عاجزی شفیع محمد کی شخصیت کا ایک خوب صورت حوالہ ہے. پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہرے دور کا یہ باکمال اداکار آج سے 12 برس پہلے اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا تھا۔ اس خوب صورت فن کار کی زندگی اور فن کی چند لفظی جھلکیاں پیش ہیں۔

    بلند فشارِ خون، ذیابیطس جیسی بیماری کے علاوہ شفیع محمد کو جگر کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ انتقال سے قبل انھوں نے سینے میں شدید درد کی شکایت کی، مگر اسپتال منتقل کیے جانے سے پہلے ہی روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا اور شفیع محمد اپنے گھر پر دم توڑا۔

    شفیع محمد نے 1949 میں سندھ کے شہر کنڈیارو کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی اور پھر سندھ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی ڈگری لی۔ شفیع محمد نے گھر بسایا اور اس جوڑے کو قدرت نے ایک بیٹے اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ 17 نومبر 2007 کو جہاں شفیع محمد کی اچانک موت پر سوگواروں میں بیوہ اور یہ پانچ بچے شامل تھے، وہیں ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری سمیت ان کے لاکھوں مداحوں کی آنکھیں بھی نم تھیں۔

    شفیع شاہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن بھی لڑا تھا۔ یہ 2002 کی بات ہے جب کراچی کے ایک حلقۂ انتخاب سے انھیں قومی اسمبلی کی نشست پر مقابلے میں اتارا گیا۔ تاہم سیاست کے میدان میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    شفیع شاہ کا فنی سفر ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری تک پھیلا ہوا ہے۔ حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن پر صدا کار کی حیثیت سے قدم رکھنے کے بعد نوجوان شفیع شاہ نے ٹیلی ویژن پر اداکار کی حیثیت سے کام کرنے کی خواہش محسوس کی تو جانے کیوں سفارش کا سہارا لیا۔ اس ضمن میں اداکار محمد علی کا نام لیا جاتا ہے کہ انھوں ریڈیو کے اس صدا کار کو ٹیلی ویژن پر قسمت آزمائی کا موقع دینے کے لیے اس دور کے چند بڑے پروڈیوسروں اور لکھاریوں سے بات کی تھی۔ ان میں نصرت ٹھاکر اور قنبر علی شاہ بھی شامل تھے۔ دراصل شفیع شاہ ان دنوں لاہور میں تھے اور ریڈیو پر قسمت آزمانے پہنچے تھے۔ تاہم اس حوالے سے انھیں کچھ خاص کام یابی نہیں ملی تھی۔

    الیکشن کا زمانہ تھا جب شفیع محمد نے لاہور سے مایوس ہو کر واپسی کا فیصلہ کیا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 1977 میں ٹی وی اسٹیشن پر ایک خاکے کی ریہرسل دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کے ایک منظر میں حکیم کی دکان پر کوئی مریض دوا لینے آتا ہے۔ اس منظر میں جب ایک اداکار دوا کے نام کی درست طریقے سے ادائی میں ناکام رہا تو شفیع محمد نے کہا کہ وہ کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ موقع ملا اور شفیع نے چند کوششوں کے بعد تین منٹ کا یہ مزاحیہ خاکہ مکمل کروا دیا۔ یہ قصہ معروف صحافی اور لکھاری عارف وقار نے بیان کیا تھا جو خود بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن سے اداکار محمد علی نے شفیع شاہ کی سفارش کی تھی۔

    اس پہلی اور مختصر ترین پرفارمنس کے بعد شفیع محمد نے چھوٹی اسکرین پر کئی لازوال کردار نبھائے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی شبہہ نہیں۔ برزخ میں پرنس کے کردار کے لیے شفیع محمد کو پروڈیوسر اقبال انصاری نے رضامند کیا۔ وہ کردار شفیع محمد نے نہایت خوب صورتی سے نبھایا اور پھر پی ٹی وی کے ساتھ 80 کی دہائی میں نجی پروڈکشن ہاؤس کے تحت بھی شفیع محمد کو بہ طور اداکار ملک بھر میں پہچان ملی۔

    چاند گرہن اپنے وقت کا مقبول ترین ڈراما تھا جو شفیع محمد کے کیریر میں سنگِ میل ثابت ہوا اور اس کے بعد وہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ مرکزی کرداروں سے کیریکٹر رول نبھانے تک شفیع شاہ نے مکالموں کی ادائی، چہرے کے تاثرات اور اداکاری کے دیگر لوازمات کو نہایت خوبی سے نبھایا۔ کہتے ہیں وہ گھسے پٹے مکالمات کو بھی نہایت خوبی اور کمال سے ادا کرتے اور اسے ناظرین کے لیے کم از کم قابلِ قبول بنا دیتے۔ خوب صورت مکالموں میں تو جیسے شفیع محمد کی زبان پر آنے کے بعد جان ہی پڑ جاتی اور وہ یادگار بن جاتے۔ شفیع کی آواز میں ایک خاص مٹھاس، کشش اور ٹھہراؤ تھا جسے وہ اپنے مکالموں کے ساتھ نہایت خوبی سے برت کر انھیں دل نشیں بنا دیتے۔

    فلم کی بات کی جائے تو شفیع محمد وہاں اپنے جوہر کے ساتھ آگے نہ بڑھ سکے۔ ٹیلی ویژن کا اسکرپٹ اور چھوٹی اسکرین پر کام کرنے کا طریقہ بہت مختلف تھا۔ یہی شاید ان کے مشکل رہا ہو۔ وہ تلاش، روبی، ایسا بھی ہوتا ہے، بیوی ہو تو ایسی اور سلاخیں نامی فلموں میں نظر آئے۔ اردو کے علاوہ سندھی ڈراموں میں بھی شفیع محمد نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    ان کے چند مشہور ڈراموں میں چاند گرہن، آنچ، جنگل، دیواریں شام ہیں۔ پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازے جانے والے فن کار کو پی ٹی وی نے بھی کارکردگی کا اعتراف میں متعدد ایوارڈوں سے نوازا۔

  • مسلمانوں کی تعمیر کردہ یادگاروں‌ پر مودی سرکار پلنے لگی

    مسلمانوں کی تعمیر کردہ یادگاروں‌ پر مودی سرکار پلنے لگی

    ہندوستان پر مسلمانوں کے دورِ حکومت میں کئی عمارتیں تعمیر کی گئیں، جن میں محلات، مقابر و قلعے اور دوسری یادگاریں شامل ہیں جو آج بھی اس عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتی ہیں۔ تقسیم کے بعد جہاں کئی قدیم اور تاریخی عمارتوں کو بھارتی سرکار کی سرپرستی میں لے لیا گیا، وہیں یہ عظیم یادگاریں اور ان کے آثار بھارتی سرکار کے لیے نعمت ثابت ہوئے اور عوام و دیگر ملکوں سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہونے کے سبب محصول و آمدن کا ذریعہ ہیں۔

    بھارت میں اقلیتوں اور موجودہ حالات میں خاص طور پر مسلمانوں کے جان و مال کو شدید خطرہ ہے اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ بھارتی حکومت جنونی اور انتہا پسند ہندوؤں کے آگے بے بس ہے۔ ایک جانب ہندوتوا کا نعرہ بلند کیا جارہا ہے اور دوسری طرف بھارت کے مختلف شہروں میں انتظامیہ مسلم حکم رانوں کے دور کی یادگاروں سے حاصل ہونے والی بھاری رقم کھا رہی ہے۔

    یہاں ہم ان 5 یادگاروں کا تذکرہ کر رہے ہیں جو مسلمان حکم رانوں نے تعمیر کروائی تھیں۔ یہ فنِ تعمیر کا شاہ کار اور افسانوی شہرت کا حامل تاج محل، آگرہ فورٹ، قطب مینار، فتح پور سکری اور ریڈ فورٹ ہیں۔

    قطب مینار کی تعمیر دہلی کے حکم راں اور دیگر عمارتیں مغلوں کے دور کی یادگار ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں صرف انہی مسلم دور کی تعمیرات سے بھارتی حکومت نے 146.05 کروڑ کمائے جو دیگر تاریخی عمارات اور یادگاروں کی مجموعی آمدن سے زیادہ ہے۔

  • 1857: جب کتب خانے برباد ہوئے!

    1857: جب کتب خانے برباد ہوئے!

    انقلابات و حوادثِ زمانہ کے ہاتھوں علم و فضل اور تہذیب و تمدن کے مراکز بھی ایسے برباد ہوئے کہ زمانہ اس پر روتا ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ صدیاں گریہ کریں تب بھی تلافی کہاں ممکن۔ ہم کتب خانوں کی بات کررہے ہیں جن کا دامن دنیا بھر کے انمول موتیوں سے بھرا ہوا تھا۔ تشنگانِ علم آتے اور سیراب ہوتے۔

    تاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوگا کہ جس طرح دنیا بھر میں اور قرطبہ، بغداد، قاہرہ و دیگر سلطنتوں کے زوال کے ساتھ ہی بادشاہوں اور صاحبانِ علم کی خصوصی سرپرستی اور مالی معاونت سے اذہان و قلوب کو منور کرنے والے کتب خانے ویران ہوگئے، اسی طرح لوٹ مار کے بعد ان میں اکثر برباد کر دیے گئے۔ توڑ پھوڑ کے ساتھ کتب خانوں کو جلا دیا گیا اور سپاہِ مخالف نے زیرِ قبضہ علاقوں کو روشنی سے محروم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کچھ کمی نہ کی۔

    مغل اور دیگر مسلم ریاستوں کے والی و امرا کی سرپرستی میں کئی کتب خانے ہندوستان میں بھی موجود تھے جو کسی جنگ کے دوران ہی برباد نہیں ہوئے بلکہ لوٹ مار کی بھی نذر ہوئے۔ یہاں ایسے چند واقعات کا تذکرہ اہلِ علم و فن کو رنجیدہ کر دے گا۔

    1739 میں نادر شاہ کے حملے میں دہلی کے کئی کتب خانے برباد ہوئے۔ افواج نے فقط مال و دولت ہی نہیں سمیٹا بلکہ کتب خانوں سے قدیم نسخے اور نوادر بھی لوٹ کر لے گئیں۔

    1757 میں ابدالی نے ہندوستان پر لشکر کشی کی تو دہلی کا علمی خزانہ برباد ہوا۔ کہتے ہیں غلام قادر روہیلے نے قرآنی نسخے اور نادر کتابیں تک شاہی کتب خانے سے سمیٹ لی تھیں۔

    یہ تو اس زمانے کے بادشاہوں کی لڑائیوں اور جنگوں کے دوران ہونے والی لوٹ مار تھی، مگر 1857 میں یعنی ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران بھی کئی نایاب قلمی نسخے، نوادر اور اہم موضوعات پر کتب برباد ہو گئیں اور عوام نے کتب خانوں میں لوٹ مار کی۔
    کتب خانوں کی بربادی اور لوٹ مار کا نقشہ شمس العلما مولوی ذکا اللہ نے یوں کھینچا ہے۔

    ‘‘کتب خانے لٹنے شروع ہوئے۔ لٹیرے عربی، فارسی اردو وغیرہ کی کتابوں کے گٹھر باندھ کر کتب فروشوں، مولویوں اور طالب علموں کے پاس بیچنے لے گئے۔ بعض طلبا بھی جو کتابوں کے شائق تھے، اچھی اچھی کتابیں لے گئے۔ لوگوں نے کتابوں کے اچھے اچھے پٹے اتار لیے کہ جلد سازوں کے ہاتھ بیچیں گے اور باقی کو پھاڑ کر پھینک دیا۔’’

    اس وقت مغلوں کے علاوہ سلطان ٹیپو وغیرہ کے کتب خانوں کی بہت سی کتب انگلینڈ بھیج دی گئیں۔ یہ کتابیں وہاں کے کتب خانوں میں سجائی گئیں۔

    علامہ اقبال انہی کتابوں کو جب یورپ میں دیکھا تو کہا۔

    مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
    جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

  • ناک کی جھلی میں سوزش

    ناک کی جھلی میں سوزش

    موسمی تبدیلیاں، فضائی آلودگی یا گردوغبار کی وجہ سے لاحق ہونے والی نزلے کی شکایت سے عموماً چند روز میں نجات مل جاتی ہے، لیکن بعض لوگ نزلے کے دائمی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں جسے عام طور پر ‘‘کیرا’’ کہتے ہیں۔

    یہ اصل میں ناک کی جھلی کی سوزش کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے متاثرہ فرد کو مختلف تکالیف اور الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ کیرا میں مبتلا کوئی بھی شخص اکثر  جسم  میں ہلکے درد، سستی اور  غنودگی کی شکایت کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سر کا بھاری پن بھی اسے بے چین  رکھتا ہے۔ موسم یا کسی وجہ سے اگر اس طبی کیفیت میں شدت آجائے تو آنکھوں میں سرخی ظاہر ہونے لگتی ہے اور ناک سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔

    طبی تحقیق بتاتی ہے کہ  سردی  ہی نہیں تیز دھوپ اور آب و ہوا کی تبدیلی سے بھی نزلے کی شکایت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد گرد و غبار اور فضا میں موجود مختلف کثافتیں بھی ہمارے نظامِ تنفس کو متاثر کرتی ہیں اور اس کا آغاز نزلے کی صورت میں ہوتا ہے۔ ماہرین کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ناک کو متأثر کرنے  والا وائرس  اصل میں  سرد ماحول میں پھلتا پھولتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگی کو ہم زکام کہتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سرد ماحول میں انسان کا مدافعتی نظامکم  زور  پڑ جاتا ہے اور ناک میں داخل ہونے والے وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔ تاہم موسمی اثرات کے علاوہ مختلف اشیا کی وجہ سے الرجی کی شکایت بھی نزلے کا باعث بنتی ہے اور یہ دائمی مسئلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

    دائمی نزلے میں مبتلا افراد کی آواز بھرائی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور انھیں بار بار ناک سے رطوبت صاف کرنا پڑتی ہے۔ اس نزلے کو طبی سائنس نے Chronic Rhinitis کا نام دیا ہے جسے ہم سادہ زبان میں ناک کی جھلی میں سوزش کہہ سکتے ہیں۔

    اس طبی مسئلے کے شکار افراد کو  اکثر بلغم رہتا  ہے اور  چھینکیں آتی ہیں جس کے ساتھ مریض کو ناک میں سرسراہٹ یا خارش محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسے مریض بے چینی سے ناک مسلتے نظر آتے ہیں۔ دائمی نزلے کی وجہ سے متاثرہ  فرد کے بال بھی جھڑنے لگتے ہیں اور کم عمری میں سفید بھی ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس نزلے کا اثر بینائی اور  یادداشت پر بھی پڑسکتا ہے۔ ایسے مریضوں کو کسی ماہر اور مستند معالج سے سال میں کم از کم دو بار اپنا طبی معائنہ ضرور کروانا چاہیے۔

  • سردیوں میں‌ جلد خشک کیوں‌ ہوجاتی ہے؟‌

    سردیوں میں‌ جلد خشک کیوں‌ ہوجاتی ہے؟‌

    موسمِ سرما میں جلد کا خشک اور بے جان پڑ جانا، جسم پر خارش، ہاتھوں اور پیروں کی جلد کا پھٹنا عام بات ہے۔

    ماہرینِ صحت کے مطابق اس کی بنیادی وجہ جسم میں پانی کی مقدار کم ہونا ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ سردیوں میں ہمیں پیاس اُس قدر شدت سے محسوس نہیں ہوتی جس طرح گرمیوں میں کوئی بھی انسان پانی کی طلب محسوس کرتا ہے۔

    سردیوں میں پانی کے کم استعمال کی وجہ سے جلد بے رونق اور خشک ہونے لگتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ سردیوں میں قدرتی طور پر ہمارے جسم کو پانی کی ضرورت کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ فضا میں نمی اور خنکی ہوتی ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم میں پانی کی کمی کے ساتھ خشک اور سرد ہوائیں بھی ہماری جلد پر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس موسم میں سبھی کو جلد کے عمومی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جلد کو بے رونق اور پھٹنے سے بچانے کے لیے معیاری لوشن اور جلد کی حفاظت کے لیے بازار میں دست یاب دیگر مصنوعات استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    اس کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ جسمانی ضرورت کے مطابق پانی پییں اور سرد ہوائیں سے خود کو بچانے کا انتظام کریں۔ ماہرینِ صحت کے مطابق جلد کے عمومی مسائل جیسے خشک ہو جانا، انگلیوں کی کھال کی مخصوص تہ کا اترنا، جسم پر کبھی کبھار خارش اور پیروں کے پھٹنے کی صورت میں عام لوشن اور آزمودہ گھریلو ٹوٹکے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ مگر جب جلد پر کوئی خاص علامت، نشان اور دھبہ دیکھیں یا مسلسل خارش ہو تو مستند اور ماہر معالج سے فوری رجوع کریں جو یہ بتا سکتا ہے کہ یہ عام موسمی شکایت ہے یا جلد کی کوئی بیماری ہے جس کا باقاعدہ علاج کروانا چاہیے۔

  • ڈرامے کے ایک کردار کی موت جو دردناک حقیقت بن گئی!

    ڈرامے کے ایک کردار کی موت جو دردناک حقیقت بن گئی!

    یہ ایک درد ناک واقعہ ہے، ایک ایسی حقیقت جس کا تعلق ایک ڈرامے سے ہے۔ یہ ایک زندگی کے الم ناک انجام کی داستان ہے جس نے شیکسپیر کے مشہورِ زمانہ اور شاہ کار ڈارمے ہملٹ کے بطن سے جنم لیا۔ ہم اسے حیرت انگیز اتفاق کہہ سکتے ہیں۔

    مشہور مصور ہولمین ہنٹس نے شیکسپیر کے ڈرامے کے ایک منظر میں رنگ بھرنے کا سوچا اور اس کے لیے مسز روزیٹی کو منتخب کیا۔ یہ خاتون مصور کے حلقۂ احباب میں سے تھی۔ ہولمین ہنٹس کو ہملٹ کا وہ منظر کینوس پر منتقل کرنا تھا جس کا ایک کردار اوفیلیا تھی جس کی موت ایک حوض میں ڈوبنے سے واقع ہوئی تھی۔

    ہولمین ہنٹس نے اپنے اسٹوڈیو میں ایک بڑے ٹب کا انتظام کیا جس میں پانی بھر کر اس کے نیچے آگ روشن کر دی جاتی تھی تاکہ پانی گرم رہے اور ماڈل کو پانی میں رہنے کی وجہ سے انگلینڈ کا سرد ترین اور یخ بستہ موسم کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ مسز روزیٹی اپنے گھر سے اوفیلیا کا سوانگ بھر کر آتی اور اس ٹب میں مصور کی ہدایات کے مطابق لیٹ جاتی۔ ہولمین تصویر کشی شروع کرتا اور یونہی متعدد دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

    ایک روز معمول کے مطابق مسز روزیٹی کی آمد ہوئی اور وہ پانی سے بھرے ہوئے ٹب میں لیٹ گئی۔ بدقسمتی سے ہولمین ہنٹس اس روز ٹب کے نیچے آگ جلانا بھول گیا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے آگ جلائی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ماڈل کو پانی میں لیٹتے ہوئے کوئی کچھ محسوس نہ ہوا۔

    کہتے ہیں کہ کسی وجہ سے آگ بجھ گئی تھی اور دونوں ہی اس بات سے بے خبر رہے۔ مصور نے منظر کینوس پر اتارنا شروع کیا اور اس میں اتنا منہمک رہا کہ اسے کسی بات کا احساس نہ ہو سکا۔ مسز روزیٹی کی موت واقع ہو چکی تھی۔ جاڑے کا موسم اور پانی نے اس ماڈل کے بدن کو گویا منجمد کر دیا۔ وہ نمونیہ کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئی. شیکسپیر کے ڈرامے میں اوفیلیا نے بھی زندگی کی بازی ہار دی تھی۔

  • پشاور سے لنڈی کوتل تک چلنے والی سفاری ریل گاڑی

    پشاور سے لنڈی کوتل تک چلنے والی سفاری ریل گاڑی

    خیبر پختونخوا کے پشاور ریلوے اسٹیشن سے ملک کے مختلف علاقوں کے مسافر ریل گاڑیوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں جب کہ 1947 سے 1982 تک ہر اتوار کو ایک ریل گاڑی لنڈی کوتل تک جاتی تھی۔

    پشاور سے لنڈی کوتل تک یہ ریلوے ٹریک انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اندر سے گزرتا تھا  جس کے لیے  ریلوے کو  دو  تین  روز  قبل ایئر پورٹ حکام  سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ بعد میں یہ ٹریک بند کر دیا گیا۔ سفاری ریل گاڑی کا ٹریک پچاس کلو میٹر طویل بتایا جاتا ہے۔ اس سفاری ریل گاڑی کا سلسلہ جو پشاور سے لنڈی کوتل تک سفر کی سہولت دیتی تھی، 2007 میں مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ ان راستوں میں کئی پُل اور چھوٹے چھوٹے پلیٹ فارم یا مختلف نشانیاں برطانوی راج کی یادگار کہے جاسکتے ہیں۔

    پشاور سے لنڈی کوتل تک سفر کے دوران آپ کو  اُس دور کے تعمیر کردہ 92 چھوٹے بڑے پُل دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر  اب بھی درست حالت میں ہیں۔ ان پلوں کے نیچے سے روزانہ کئی چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ یہ تمام مقامات پہاڑی اور پتھریلے ہیں اور اکثر یہ راستے نئے مسافروں کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ کئی مقامات پر ریل گاڑی پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی تو عجیب نظارہ ہوتا۔ سفاری ٹرین کے مسافر اور اس زمانے میں سیاحت کی غرض سے آنے والوں کے لیے وہ مناظر خاص کشش کا باعث بنتے۔ کہتے ہیں اس ٹرین کے ذریعے ان علاقوں تک جانے میں غیر ملکی سیاح خاص دل چسپی رکھتے تھے۔ اسی سفاری ٹرین میں ہائی کمیشن آف یورپ کا 15 رکنی وفد بھی سیر کر چکا ہے۔

    یہاں کئی مقامات پر  پہاڑی  سرنگیں بنائی گئیں جن کی تعداد 34 ہے جن میں سے بیش تر کے دہانے لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ ان کی کوئی دیکھ بھال نہیں کی گئی جس کے بعد اب یہ سرنگیں اور اس ٹریک پر پرانے زمانے کی تعمیرات یعنی پُل وغیرہ اب صرف اجڑی ہوئی یادگار ہیں۔ تاہم بہت پرانی اور چند دہائیوں قبل ان مقامات کی کھینچی گئی تصاویر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

  • عقیلہ برلاس کیانی: سائنس اور تحقیق کے میدان کا ایک روشن حوالہ

    عقیلہ برلاس کیانی: سائنس اور تحقیق کے میدان کا ایک روشن حوالہ

    سائنس اور تحقیق کا شعبہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فعال و سرگرم خواتین سے محروم ہی کہا جائے گا کہ ہمارے یہاں سماجی سائنس ہو یا اس کے دیگر شعبے خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ ملک میں خواتین نے فزکس، کیمسٹری جیسے مضامین اور دوسرے سائنسی علوم میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں قدم نہیں رکھا، مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ہمارے ہاں تسنیم زہرا حسین کو پاکستان کی پہلی سائنس داں مانا جاتا ہے جب کہ عقیلہ برلاس کیانی، عذرا قریشی نے بھی مختلف سائنسی علوم اور تحقیقی شعبوں میں مقام بنایا۔

    ہم بات کر رہے ہیں عقیلہ برلاس کیانی کی جو جامعہ کراچی کی ایک محسن اور نہایت قابل خاتون تھیں۔ 1921 میںٰ پیدا ہونے والی عقیلہ کیانی کے والد کا نام مرزا شاکر حسین برلاس تھا جو وکالت کے پیسے سے وابستہ تھے۔ عقیلہ کیانی کی والدہ کا نام بی بی محمودہ بیگم تھا۔

    عقیلہ کیانی نے سوشیالوجی کے مضمون میں سند حاصل کر کے جامعہ کراچی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان کا تعلیمی کیریر بہت متاثر کن ہے ۔ انھوں نے 1943 میں آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔ اے اور بی۔ ٹی کی ڈگریاں حاصل کی تھیں، مگر مزید پڑھنے کا شوق اور سیکھنے کی لگن تھی اور 1949 میں لندن یونیورسٹی سے تعلیم کے مضمون میں ایم۔ اے کیا۔ یہ تعلیمی سلسلہ یہاں نہ رکا اور 1953 میں انھوں نے امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے عمرانیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی جس کے دو سال بعد امریکا ہی سے ڈاکٹریٹ کیا۔

    تدریس کے ساتھ خود کو تحقیقی کاموں میں مصروف رکھا اور پھر کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے سوشل ورک کے مضمون میں ایم۔ اے کیا۔ امریکا سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد عقیلہ کیانی پاکستان آکر جامعہ کراچی کے سوشیالوجی کے شعبے کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ انھوں نے نصاب کی تیاری اور تحقیقی سرگرمیوں کے حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان کا نام سوشیالوجی، خصوصا دیہاتی زندگی اور علم البشریات کے حوالے سے بھی متعبر جانا جاتا ہے۔

    کراچی یونیورسٹی میں عقیلہ کیانی سوشیالوجی کے شعبے میں چیئرپرسن رہیں۔ وہ صرف ایک استاد ہی نہیں تھیں بلکہ اپنے مضامین اور شعبوں کی فعال ترین شخصیت تھیں اور یہی وجہ ہے کہ مقامی اورغیر ملکی سطح پر سیمینارز اور لیکچرز میں شریک ہوتیں۔

    لندن میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار کلچرل ریسرچ نے سماجی تبدیلیوں اور ثقافت کے موضوع پر اُن کے کام کو نہ صرف سراہا بلکہ انھیں اپنا فیلو مقرر کیا۔ عقیلہ کیانی کا علمی اور تحقیقی کام معتبر اور نہایت وقیع جریدوں میں شایع ہوا۔ ان کا اہم کام سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں سے متعلق تھا جس میں انھوں نے خاص طور پر دیہات کے حوالے سے معاشرت کو سمجھنے کی کوشش کی۔

    انھوں نے عمرِ عزیز کے آخری ایّام کینیڈا میں گزارے۔ نہایت قابل، باصلاحیت استاد اور جامعہ کراچی کی محسن 2012 میں مارچ کے مہینے میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

  • سَر پر لگنے والی شدید چوٹ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے

    سَر پر لگنے والی شدید چوٹ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے

    مختلف بیماریوں اور طبی پیچیدگیوں کے علاوہ زندگی میں چھوٹے بڑے حادثات کے نتیجے میں ہماری ذہنی اور جسمانی کارکردگی متأثر ہوسکتی ہے یا یہ کسی بھی قسم کا حادثہ  عمر بھر کی معذوری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    خاص طور پر سَر پر لگنے والی ضرب یا کوئی شدید چوٹ ہماری زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ سڑک پر حادثہ، اچا نک سر کے بَل گرجانا، کھیل کود کے دوران بھی ہمارے سَر پر چوٹ لگ سکتی ہے۔

    سَر انسانی جسم کا ایک بہت حساس حصّہ ہے، جو بالوں سے ڈھکا ہوتا ہے جس کے نیچے ایک موٹی کھال اور سخت ہڈی موجود ہوتی ہے۔ جسے ہم کھوپڑی کہتے ہیں جس میں قدرت نے ہمارا دماغ محفوظ رکھا ہے، لیکن سَر پر شدید ضرب لگنے کی صورت میں کھوپڑی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور بعض صورتوں میں دماغ کو زبردست نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے زندگی خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے۔

    اسی لیے طبی ماہرین خاص طور پور سطحِ زمین سے اونچائی پر کام کرنے والوں، کھلاڑیوں اور مزدور پیشہ افراد کو اپنے کاموں کے دوران تمام حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ سر پر چوٹ لگنے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

    اکثر معمولی نوعیت کی چوٹ کے بعد بھی ہمیں سَر میں درد محسوس ہوسکتا ہے۔ سَر پر خراش یا زخم کی صورت میں متأثرہ جگہ پر سوجن دکھائی دے گی۔ یاد رکھیے سَر پر معمولی زخم لگنے سے بھی زیادہ مقدار میں خون بہہ سکتا ہے۔

    سَر پر لگنے والی چوٹ کو اس وقت انتہائی خطرناک اور باعثِ تشویش سمجھا جاتا ہے، جب اس کی وجہ سے دماغ اور متعلقہ ٹشوز کو نقصان پہنچا ہو۔ ایسی صورت میں مستند اور ماہر معالج سے رجوع کرنا ضروری ہے۔