Author: عارف حسین

  • مالی آسودگی کی خواہش نے ناول نگار ماریو پوزو کے تخیل کو جرم کی دنیا میں پہنچا دیا!

    مالی آسودگی کی خواہش نے ناول نگار ماریو پوزو کے تخیل کو جرم کی دنیا میں پہنچا دیا!

    ادبی دنیا کے ناقدین کا خیال ہے کہ ماریو پوزو(Mario puzo) کا تذکرہ کیے بغیر گزشتہ دہائیوں کا ادبی منظر نامہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور شارٹ اسٹوری رائٹر ماریو پوزو کا جرم اور اس تاریک دنیا پر مبنی ایک ناول ‘دی گاڈ فادر’ بہت مقبول ہوا جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ ماریو پوزو 2 جولائی 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ماریو پوزو کے حالاتِ زندگی، ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالیں تو وہ ایک بہترین ناول نگار ہی نہیں مختصر کہانی نویس اور اسکرین رائٹر بھی تھے اور باکمال ادیب کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ماریو پوزو کے آباء و اجداد کا تعلق اٹلی سے تھا، لیکن ان کا تعلق جس کنبے سے تھا، وہ امریکہ میں مقیم تھا۔ یہاں نیویارک کے شہر مین ہٹن میں ماریو پوزو 15 اکتوبر 1920ء میں میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معمولی گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نیویارک ہی سے گریجویشن کیا اور جب دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو انھوں‌ نے امریکی فضائیہ میں‌ شمولیت اختیار کر لی لیکن معلوم ہوا کہ ماریو پوزو کی نظر کمزور ہے۔ ان کے لیے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں اسامی نکالی گئی اور وہاں تبادلہ کر دیا گیا۔ ماریو پوزو مطالعہ کا شوق رکھتے تھے اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کرچکے تھے۔ یہ سلسلہ دورانِ ملازمت ان کے افسانوں اور کہانیوں‌ کی شکل میں جاری رہا اور رفتہ رفتہ ماریو پوزو قارئین اور ادبی دنیا میں پہچان بنانے لگے۔

    1950ء میں نوجوان ماریو پوزو کا پہلا افسانہ شایع ہوا۔ بعد کے برسوں‌ میں ماریو پوزو نے شارٹ اسٹوریز کے ساتھ ناول نگاری بھی شروع کردی اور پھر وہ جرائم پیشہ گروہوں اور مافیا پر اپنی کہانیوں‌ کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ماریو پوزو نے گیارہ ناول لکھے جن میں سب سے زیادہ مقبول ناول گاڈ فادر ہے۔ اسی ناول نے عالمی ادب میں ماریو پوزو کو شناخت دی۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مبنی فلم کو تین اکیڈمی ایوارڈ بھی ملے۔ ماریو پوزو نے بحیثیت مدیر بھی کام کیا اور مضمون نگار کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ اس امریکی ادیب کے افسانوں اور ناولوں نے قارئین کو بہت متاثر کیا۔ خاص طور پر وہ جس طرح مافیا کے دھندوں اور تاریک دنیا کی کہانیاں‌ لکھتے تھے، ان میں وہ اپنے تخیل اور قوّتِ مشاہدہ سے بڑا رنگ بھر دیتے ہیں۔ ماریو پوزو کا نام آج بھی عالمی ادب میں ان کے قلم کے اسی وصف کی بدولت زندہ ہے۔

    ناول دی گاڈ فادر پر مبنی فلم کی بات کریں تو اس میں‌ مافیا کے سربراہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) کو مصنّف نے ایک جہاں دیدہ شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ نیویارک شہر کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں مافیا کے مختلف خاندان علاقہ اور غیرقانونی کاروبار کی دنیا میں اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران گاڈ فادر یعنی کورلیون فیملی بحران کا شکار ہوجاتی ہے اور اس میں قیادت کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مصنّف کا کمال یہ ہے کہ اس نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنے کرداروں کی ذہنی کشمکش اور ان کے رویے کو‌ بیان کیا ہے اور یہی تفصیل اس کہانی کو مؤثر اور دل چسپ بناتی ہے۔ ناول کے کردار دنیاوی فہم و فراست اور ذہانت سے مالا مال ہیں لیکن مصنّف کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنے کرداروں کو فلسفہ بگھارے بغیر حکیمانہ انداز میں‌ مکالمہ کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔ اس ناول پر مبنی فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا تھے اور اس میں مارلن برانڈو نے بھی کردار ادا کیا۔ ناول کے کئی فقرے بھی مشہور ہوئے تھے۔ یہ فلم 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    ایک زمانہ میں ماریو پوزو مالی مسائل کا شکار تھے اور مقروض ہوچکے تھے، جب کہ ان کو اپنی تخلیقات کی اشاعت سے مالی نفع نہیں‌ مل رہا تھا۔ تب انھوں‌ نے گاڈ فادر لکھنا شروع کیا اور حیران کن طور پر اس نے ماریو پازو کو شہرت اور مالی آسودگی بھی دی۔ اس ناول کا متعدد زبانوں‌ میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

    ناول میں ماریو پوزو کے بیٹے کا ایک مضمون بھی شامل ہے جو لائقِ مطالعہ ہے۔ ان کے فرزند نے لکھا کہ والد کے دو ناول ناقدین نے تو پسند کیے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ناول گاڈ فادر لکھنا شروع کر دیا، جب بچّے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ اس پر بچّے ہنستے اور مزید شور کرنے لگتے۔ پھر سب نے دیکھا کہ گاڈ فادر واقعی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوّے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور ایک اہم بات یہ بھی کہ اسے نیویارک ٹائمز جیسے جریدے نے بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں 67 ہفتے تک شامل رکھا۔

  • محمد نجم الغنی خاں:‌ ایک نہایت قابل اور علمی و ادبی شخصیت

    محمد نجم الغنی خاں:‌ ایک نہایت قابل اور علمی و ادبی شخصیت

    یہ اس نادرِ روزگار کا تذکرہ ہے جن کو برصغیر پاک و ہند میں میں ایک محقق و مؤرخ، شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف کی حیثیت سے شہرت ملی۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کے لیے بڑا علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا جس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں محمد نجمُ الغنی خاں رام پوری کی جو آج ہی کے دن 1941ء میں اس دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    محمد نجم الغنی خاں ایک علمی و ادبی شخصیت کے طور پر ہی نہیں پہچانے جاتے بلکہ وہ طبِ یونانی کے ماہر اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی مناسبت سے اکثر انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی لکھا گیا ہے۔

    مولوی نجم الغنی خاں ریاست رام پور کے ایک علمی اور دینی گھرانے میں 8 اکتوبر 1859ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سر بر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں بھی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔ والد نے رام پور سے نکل کر ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو یہیں نجم الغنی خاں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بھی آغاز ہوا۔ 23 برس کے ہوئے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رام پور چلے آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ سند پائی۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد (دکن) بھی گئے جہاں علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ تاریخ سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخ لکھی۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں اور علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کا کلام دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔ حکمت اور طبابت کا پیشہ ان کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا اور اس شعبہ میں اپنے علم اور تجربات و مشاہدات کو انھوں نے کتابی شکل میں پیش کیا۔ ان کی کتابیں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ کے نام سے شایع ہوئیں۔ محمد نجم الغنی خاں نجمی کی دیگر کتب میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض)، مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔

  • بیبرس: عالمِ اسلام کا ہیرو جس نے منگولوں کو معرکۂ عین جالوت میں شکست سے دوچار کیا

    بیبرس: عالمِ اسلام کا ہیرو جس نے منگولوں کو معرکۂ عین جالوت میں شکست سے دوچار کیا

    تاریخ کے کئی واقعات ایسے ہیں‌ جن کے بعد دنیا کی عظیم سلطنتوں کا نقشہ بدل گیا اور کئی تخت الٹ گئے۔ ان واقعات نے یکایک تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ جنگِ عین جالوت انہی میں سے ایک ہے جس میں طاقت اور فتوحات کے نشے میں دھت منگولوں نے رکن الدّین بیبرس کے ہاتھوں بدترین شکست کھائی اور سقوطِ‌ بغداد کے نتیجے میں انتشار اور مشکلات کا شکار ہونے والے مسلمانوں کو بڑی طاقت اور راحت نصیب ہوئی۔

    ستمبر 1260ء میں اسلامی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش دن وہ تھا جب عین جالوت کے مقام پر سرکش اور ظالم منگول حکم راں نے جنگ میں مسلمان سپاہ سالار بیبرس اور اس کے لشکر کے ہاتھوں شکست کھائی۔ یہ عالمِ اسلام کے لیے سقوطِ بغداد کے ڈھائی برس بعد ہونے والا وہ معرکہ تھا جس نے مسلمانوں کو بڑی تقویت اور راحت پہنچائی۔ چین اور روسی سلطنت کے ساتھ دوسرے سرد علاقے اور موجودہ وسط ایشیائی ریاستوں کے علاوہ آدھے سے زیادہ افغانستان اور ایران، سارا عراق اور ترکی و شام کا بڑا رقبہ منگول سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔ کچھ مسلمان حکم راں باجگزار تھے اور کچھ اپنی شناخت کھو بیٹھے تھے۔ ایک مصر تھا جہاں حکم رانی مملوکوں کی تھی۔ مصر کا سلطان سیف الدّین قطز اور افواج کا سپہ سالار رکن الدّین بیبرس تھا۔
    تقریباً ساری مسلم حکومتوں کو وحشی اور سفاک منگول برباد کر چکے تھے اور پھر ہلاکو خان نے اپنا ایک وفد مصر بھیجا جس نے حاکمِ مصر کو ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا کہا۔ لیکن اسے قطز نے ہلاک کر کے سَر قاہرہ شہر کے دروازے پر لٹکا دیا۔ ہلاکو نے فلسطین کے شہر سیدون پر قبضہ کیا اور وہیں اپنی فوج کو اکٹھا کرلیا۔ مملوک افواج نے بھی مصر سے نکل کر سیدون کا رخ کیا۔ جنگ کا سارا نقشہ رکن الدین بیبرس نے ترتیب دیا۔ یہ ایک حکمتِ‌ عملی پر مشتمل تھا اور دونوں افواج کا آمنا سامنا عین جالوت کے مقام پر ہوا۔ اس معرکۂ عین جالوت میں منگولوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں کے کئی مقبوضہ جات ان کو واپس مل گئے۔

    جنگِ عین جالوت نے بیبرس کو مسلمانوں‌ کا ہیرو بنا دیا، اور زیادہ تر اس جنگ پر بات کی جاتی ہے، لیکن اس سپاہ سالار کا ایک اور کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا اور صلیبی لشکر کو شکست دینا بھی ہے۔ بیبرس 1277ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ انھیں معرکۂ عین جالوت کے بعد میں مصر و شام کا تخت دیا گیا تھا۔ بیبرس کے حالاتِ زندگی اور کئی واقعات محققین کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں یا ان میں‌ اختلاف ہے، لیکن دست یاب معلومات کے مطابق 1223 میں اس نے خوارزم شاہ کے ایک درباری کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس کا نام البند قداری تھا اور وہ رکن الدّین بیبرس مشہور ہوا۔ وقت نے اسے غلام بنا کر مختلف ہاتھوں میں فروخت کے بعد مصر کے بازار تک پہنچایا۔ وہ ایک غلام کے طور پر یہاں ایک نیک خصلت خاتون کے گھر آگیا۔ خاتون نے اپنے مرحوم بیٹے کے نام پر اسے بیبرس پکارنا شروع کردیا اور اپنا بیٹا بنا لیا۔ اسی عورت کا ایک بھائی مصر کے سلطان کے دربار سے منسلک تھا جو غلام بیبرس کو اپنے ساتھ دربار میں لے گیا اور کسی طرح اسے سلطان کی کفالت نصیب ہوگئی۔ وہاں اسے رہائش اور کھانا پینا ہی نہیں‌ بہترین تربیت اور اس زمانے کے رائج ہنر اور حربی علوم بھی سکھائے گئے۔ بیبرس نے اپنی ذہانت اور لگن سے خود کو بہترین سپاہی اور بعد میں‌ فوج کی قیادت کا اہل بھی ثابت کیا۔

    مؤرخین کے مطابق وہ مصری افواج کے ان کمان داروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ بعد میں بیبرس مملوک سلطنت کا ایک نام ور حکم ران بنا اور 1260ء سے 1277ء تک مصر اور شام پر حکومت کی۔ وہ نسلاً ایک قپچاق ترک تھا جسے غلام بنا کر فروخت کر دیا گیا تھا۔

    عین جالوت کی جنگ میں تاتاریوں کی شکست کی خبر شام اور فلسطین اور دنیا بھر میں منگول مقبوضات میں پھیل گئی جس نے مسلمانوں کو حوصلہ دیا اور وہ منگول حاکموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور تاتاریوں کا مقابلہ کر کے اپنے شہر واپس لینے شروع کر دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شام اور فلسطین کے اکثر مقبوضات منگول تسلط سے آزاد ہوگئے۔ یوں عین جالوت کے میدان میں‌ رکن الدّین بیبرس نے گویا منگول آندھی کو ہمیشہ کے لیے زمین کی گہرائیوں‌ میں قید کر دیا۔ بعد میں سیف الدین قطز اپنے وعدے یا اس معاہدے سے مکر گیا جو اس نے بیبرس کے ساتھ جنگ سے قبل کیا تھا اور اس طرح ان کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی اور معرکۂ عین جالوت کے چند دنوں بعد پُراسرار طور پر سلطان قطز کا قتل ہوگیا۔ اس وقت چوں کہ رکن الدّین بیبرس وہاں کے مسلمانوں کی نظر میں‌ دلیر اور ہیرو تھا، اس لیے امرا نے متفقہ طور پر اسے سلطانِ مصر تسلیم کر لیا۔

    ایک انگریز مصنّف ہیریلڈیم نے لکھا ہے کہ بیبرس متعدد زبانیں‌ جانتا تھا اور بعض‌ مؤرخین کے مطابق وہ بھیس بدل کر فوج اور عوام کے انتظامات اور حالات پر نظر رکھتا تھا۔ بیبرس کو دمشق کے المکتبۃُ الظّاہریہ میں‌ دفن کیا گیا۔

  • تم بھی حیوان ہو!

    تم بھی حیوان ہو!

    عیدالضحیٰ کے موقع پر خاص طور پر بچّے اور نوجوان گلی محلّے میں قربانی کے جانور ٹہلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ شغل ہے جس میں بکرے یا گائے کو ہونے والی تکلیف کی پروا اور بھوک پیاس کا خیال کیے بغیر اکثر منچلے انھیں دوڑنے پر مجبور کرتے ہیں، یہی نہیں بلکہ ان بے زبانوں کو طرح طرح‌ سے تنگ کیا جاتا ہے۔ اور یہ سب ناسمجھ بچّے ہی نہیں کرتے بلکہ اکثر بڑے اور بظاہر سمجھ دار لوگ بھی جانوروں سے نامناسب سلوک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    قربانی کے جانور ہوں‌ یا پالتو چوپائے اور پرند، مال مویشی یا پھر آوارہ کتّے اور بلیاں، بدقسمتی سے ہم ان کے ساتھ اکثر تکلیف دہ اور نامناسب رویہ اپناتے ہیں اور بعض واقعات ایسے ہیں‌ جن میں‌ انسانوں کی جانب سے ان بے زبانوں‌ پر ظلم اور زیادتی کی انتہا ہوگئی۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ایک اونٹ کی ٹانگ قطع کر دینے کے واقعے کا چرچا ہو رہا ہے۔ یہ واقعہ سانگھڑ کے ایک علاقہ میں پیش آیا جس کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عوامی ردعمل پر پولیس مقدمہ درج کرنے پر مجبور ہوئی۔ یہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بے زبان پر یہ ظلم ایک مقامی وڈیرے نے کیا ہے۔ مقامی لوگوں کا مؤقف جاننے کے بعد بعض میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا کہ 13 جون کو ’منگلی پولیس تھانے کی حدود میں ایک وڈیرے نے کھیت میں کھڑی فصل کھانے پر اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی جس کے بعد اونٹ کے مالک نے کٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ ویڈیو بنوائی اور اس ظلم کی طرف سب کو متوجہ کیا، وائرل ہوگئی اور ایس ایس پی سانگھڑ اعجاز احمد شیخ نے واقعے کا نوٹس لیا۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد پولیس تفتیش کررہی ہے جب کہ صوبائی حکومت نے اونٹ کی دیکھ بھال اور مصنوعی ٹانگ لگوانے کا اعلان کیا ہے۔

    صرف دو دہائیوں کی بات کریں تو پاکستان میں یہ پہلا دردناک واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی معمولی رنجش، لڑائی جھگڑے کا بدلہ چکانے، یا کھیت میں گھس کر فصل کو نقصان پہنچانے پر اشتعال میں آکر دوسرے کے مال مویشیوں، پالتو جانوروں پر تشدد ہی نہیں کیا گیا بلکہ انھیں مار دیا گیا اور یہ معاملہ تھانے تک بھی پہنچا۔ اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کے واقعے کو چند ہی روز گزرے تھے کہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں گدھے پر تشدد کا واقعہ سامنے آگیا جس کے نتیجے میں بار برداری کے کام آنے والے اس بے زبان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم گدھا گاڑی چلاتا ہے جس کے گدھے کی دوسری گاڑی میں جتے ہوئے گدھے سے لڑائی ہوگئی اور مالک نے دوسری گاڑی کے گدھے پر ڈنڈے برسا دیے جس سے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

    بے زبانوں پر ظلم ڈھانے کے انہی واقعات کے بعد وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے سرکاری اور نجی پرائمری اسکولوں میں جانوروں کی اہمیت، اور ان کی فلاح سے متعلق نصاب میں مضمون متعارف کروایا تھا تاکہ ابتدائی عمر ہی سے بچّوں میں ان بے زبانوں سے اچھے سلوک کا شعور پیدا کیا جاسکے۔ نصاب کے ذریعے اس حوالے سے ذہن سازی کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جب کہ عید قرباں پر والدین خاص طور پر اپنے بچّوں میں جانوروں سے اچھا سلوک کرنے کا شعور اجاگر کر سکتے ہیں اور انھیں یہ سمجھا سکتے ہیں کہ ان بے زبانوں کی بھوک پیاس یا تکلیف اور درد کا خیال اسی طرح‌ رکھنا چاہیے جیسا کہ ہم ایک دوسرے کا رکھتے ہیں۔

    پاکستان میں جانوروں سے متعلق قوانین کی بات کی جائے تو آج بھی یہاں نو آبادیاتی دور کے قوانین رائج ہیں جنھیں پریوینشن آف کروئلٹی ٹو اینیملز ایکٹ 1890ء کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے جانوروں کے ساتھ سلوک اور ان کے تحفظ کے لیے عالمی انڈیکس میں پاکستان درجہ بندی کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے۔

    یہاں ہم جمشید نسروانجی سے جڑا ہوا ایک واقعہ آپ کو سناتے چلیں‌ جنھیں بابائے کراچی کہا جاتا تھا۔ وہ ایک ایسے باشعور اور رحم دل انسان بھی تھے جنھوں نے کراچی کے شہریوں‌ کے لیے ہی نہیں‌ بلکہ جانوروں کے تحفظ اور فلاح کے کام بھی انجام دیے۔ یہ واقعہ معروف ادیب علی محمد راشدی نے اپنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 1930 کے آس پاس مَیں بندر روڈ سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔

    جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔

    دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

    یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی نظر میں انسان ہی نہیں جانور بھی جو ہمارے کام آتے ہیں اور بہت مددگار ہیں، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں اور ان کے ساتھ ہم دردی اور انصاف سے پیش آنا چاہیے۔

    کچھ عرصہ قبل کراچی کی ایک عدالت نے بلّی کی ہلاکت میں ملوث ایک خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا جسے جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے اس پر جامع قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ واقعہ کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 8 میں پیش آیا تھا جب سڑک پار کرنے والی ایک بلّی کار کی ٹکر سے شدید زخمی ہو گئی تھی، اور خاتون ڈرائیور نے موقع پر موجود شہری کی جانب سے بلّی کا علاج کرانے کے مطالبہ کو فضول تصور کرتے ہوئے انکار کردیا تھا۔ زخمی بلّی کچھ دیر بعد ہلاک ہوگئی تھی اور پولیس کے مقدمہ درج نہ کرنے پر شہری فائق احمد جاگیرانی عدالت پہنچ گئے تھے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات کے تحت کسی بھی جانور کو نقصان پہنچانے والے کے خلاف جرمانے اور قید کی سزائیں مقرر ہیں۔ فائق احمد جاگیرانی کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ خاتون ڈرائیور سے اگر کوئی قابلِ تعزیر جرم سرزد ہوا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

    ہمارے معاشرے میں جانوروں کے ساتھ ناروا سلوک ایک عام بات ہے اور ان پڑھ شہری ہی نہیں‌ پڑھے لکھے اور اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ لوگ بھی راہ چلتے ہوئے کسی آوارہ یا پالتو جانور کو تنگ کرنے، پتھر مارنے یا انسانی خطا اور زیادتی کے نتیجے میں اس کے زخمی ہوجانے یا ہلاکت کو اہمیت نہیں دیتے۔ باربرداری کے جانوروں سے بدسلوکی تو شاید ہم روز ہی دیکھتے ہیں، لیکن اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر بچّوں کو کم عمری ہی میں یہ بتایا اور سکھایا جائے کہ ہر بے زبان چوپائے اور پرند وغیرہ خواہ وہ آپ کے گھر میں ہوں یا وہ آوارہ جو گلی محلّوں میں پھرتے ہیں، ہماری طرح جان دار ہیں‌ اور درد یا تکلیف محسوس کرتے ہیں تو بچّوں میں ان سے انس اور لگاؤ بھی پیدا ہوگا اور قوی امکان ہے کہ وہ بڑے ہو کر کسی بھی موقع پر جانوروں کو تنگ کرنے یا تکلیف دینے سے گریز کریں‌ گے اور دوسروں کو بھی اس کا شعور دیں گے۔

    جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کے تحفظ کے لیے کوششوں کرنے والی تنظیموں اور باشعور افراد کا کہنا ہے کہ بے زبانوں سے متعلق واضح قوانین کے ساتھ ساتھ لوگوں میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہماری طرح تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں اور مار‌ پیٹ یا کسی بھی قسم کے تشدد پر وہی تڑپ اور اذیت محسوس کرتے ہیں جیسا کہ انسانوں کو ہوتی ہے۔ باشعور شہری سمجھتے ہیں کہ جانوروں کو غلطی سے یا جان بوجھ کر مارنے یا تکلیف پہنچانے پر بھی سخت جرمانہ یا کوئی اور سزا مقرر کی جائے تو ایسے واقعات میں بڑی حد تک کمی ہوگی۔

    اسلام میں بھی جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ دینی تعلیمات پر نظر ڈالیں‌ تو جانوروں کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کے چارے، دانے، غذا اور پانی کا خیال رکھا جائے۔ یہ مال مویشی ہوں یا پالتو جانور اور پرندے ان کی خوراک کے ساتھ انھیں موسموں کی سختی سے بچانے کا انتظام کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، جہاں ایک اونٹ بندھا ہوا تھا۔ اونٹ نے نے بلبلاتے ہوئے ایک کرب ناک آواز نکالی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تو رسولِ خدا اس کے قریب تشریف لے گئے اور شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری آگے آیا اور بولا۔ ’’یہ میرا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا، ’’اس بے زبان جانور کے بارے میں اللہ سے ڈر، جسے اللہ نے تیرے اختیار میں دے رکھا ہے، یہ اونٹ اپنے آنسوؤں اور اپنی آواز کے ذریعے مجھ سے تیری شکایت کر رہا ہے۔‘‘ حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ’’ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ اس نے ایک بلّی کو قید کر کے رکھا ہوا تھا، وہ اسے غذا دیتی اور نہ اس کو آزاد کرتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی۔‘‘(بخاری)

  • ’منٹو طبعی موت نہیں مرا!‘

    ’منٹو طبعی موت نہیں مرا!‘

    منٹو کی موت ایک بڑا سانحہ تھی۔ کئی لکھنے والے دل برداشتہ ہوئے تھے۔

    ایک تعزیتی جلسے میں حمید اختر نے کہا تھا، ’وہ طبعی موت نہیں مرا۔ اسے مار ڈالا گیا ہے۔ اسے مارنے والوں میں سب سے زیادہ ہاتھ اسے کے دوستوں کا ہے۔ اچھے اور برے دونوں قسم کے دوستوں کا۔ برے دوستوں نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس کی دشمنی کے لیے اس کے ساتھ مل کر اسے برباد کرتے رہے اور اچھے دوستوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر کے اسے مار ڈالا ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

    سب جانتے ہیں کہ منٹو کی ناگہانی موت کے لیے شراب ذمے دار ہے۔ لیکن اس کے دوست حمید اختر کا خیال کچھ اور تھا۔

    ’اس کی زندگی میں جہاں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔ آسائش کی محرومیاں، محبت کی محرومیاں، محبوبہ کی محرومی، اچھے مکان کی محرومی اور ضروریات زندگی سے محرومی، کہاں کہاں یہ محرومی راستہ روک کر کھڑی رہتی ہے۔ سنگدل، بے مہر اور ظالمانہ محرومی سے ٹکر مار کر انسان شراب نہیں پیے گا تو کیا کرے گا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ منٹو اور منٹو کی طرح کے دوسرے لاکھوں لوگ اچھی شراب سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس سے کسک اور بڑھتی ہے اور نتیجہ جو ہوتا ہے، وہ ظاہر ہی ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

  • یومِ وفات:‌ امیر اللہ تسلیم کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    یومِ وفات:‌ امیر اللہ تسلیم کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    تسلیم، اردو زبان کے ان شعراء میں سے ہیں جن کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے زمانے میں تسلیم نے نہ صرف اپنے کلام کی بدولت نام پایا بلکہ وہ ایک وضع دار، مشرقی روایات کے دلدادہ اور رکھ رکھاؤ والے انسان مشہور تھے جن کی زندگی عسرت اور تنگی میں بسر ہوئی۔

    تسلیم نے لکھنوی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اگرچہ ان کے حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں‌، لیکن سنہ پیدائش 1819ء بتایا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شعر و سخن کا چرچا تھا۔ لکھنؤ میں ادنیٰ سے اعلیٰ تک ہر کوئی باذوق اور ادب کا شائق۔ اس ماحول میں‌ تسلیم بھی تہذیب کا مرقع اور دین دار شخصیت کے طور پر مشہور ہوئے۔ عربی اور فارسی کی کتابیں‌ انھوں‌ نے اپنے والد اور بھائی سے گھر پر پڑھی تھیں۔

    تسلیم کی زندگی بڑی مشکل تھی۔ مالی مسائل اور تکالفی ان کا مقدر بنی رہیں، لیکن افلاس اور تنگ دستی کے باوجود صبر شکر ان کا وظیفہ رہا۔ ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ کبھی امیر اللہ تسلیم کو کسی شاگرد نے بیزاری سے بات کرتے اور کسی کو جھڑکتے نہیں‌ دیکھا۔ وہ ہمیشہ مخاطب کی دل جوئی کرتے اور شاگردوں کو وقت اور توجہ دیتے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد تسلیم نے دوسری شادی کی تھی۔ نماز روزے کے پابند تھے اور دینی امور کا بہت خیال رکھتے تھے۔

    احمد حسین ان کا نام رکھا گیا تھا، لیکن امیر اللہ کے نام سے مشہور ہوئے اور شاعری میں تسلیم تخلّص اختیار کیا۔ منگلیسی، فیض آباد کا نواحی علاقہ تھا جہاں وہ پیدا ہوئے۔ تسلیم نے شاعری کے ساتھ فنِ خوش نویسی میں کمال حاصل کیا۔ وہ فنِ‌ خوش نویسی میں‌ استاد مشہور تھے۔ اصغر علی نسیم کے شاگرد ہوگئے جو اپنے دور کے ایک استاد شاعر گزرے ہیں۔ تسلیم کے والد محمد علی شاہ کے عہد میں فوج میں ملازم تھے۔ انھوں نے اپنی پیرانہ سالی میں درخواست کی تھی کہ ان کی جگہ بیٹے احمد حسین یعنی تسلیمؔ کو رکھ لیا جائے اور یہ درخواست قبول کرلی گئی۔ سو، تسلیم ایک پلٹن میں شامل ہوئے جسے واجد علی شاہ کے عہد میں ایک واقعے کے بعد ختم کر دیا گیا۔ تسلیم فارغ کیے جانے کے بعد شعرائے شاہی کے زمرے میں داخل ہو کر 30 روپیہ ماہوار پانے لگے۔ گزر بسر کا یہ سلسلہ زوالِ سلطنت کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔

    تسلیم نے رام پور کا رخ کیا تاکہ وہاں‌ انھیں کوئی ملازمت مل جائے اور زندگی کی گاڑی کھینچ سکیں۔ لیکن نامراد لکھنؤ لوٹ آئے۔ یہاں انھوں‌ نے نول کشور کے مطبع میں نوکری کی کوشش کی اور کام یاب ہوئے۔ بعد میں نواب علی خاں نے ریاست کا انتظام سنبھالا تو تسلیم کو رام پور طلب کرلیا جہاں وہ ڈپٹی انسپکٹر، مدارس مقرر ہوئے۔ تسلیم کو ازراہِ قدر دانی آخری وقت تک پینشن ملتی رہی۔

    فنِ شاعری میں‌ ان کے استاد نسیم دہلوی تھے۔ تسلیم کو اپنے استاد سے بہت عقیدت اور لگاؤ رہا اور ان کی بڑی عزّت کرتے تھے۔ ان کے فیوض و برکات کا تذکرہ بھی تسلیم نے بہت شدّت سے کیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ نسیم نے خواب دیکھا کہ وہ کسی عمیق کنویں سے پانی بھر رہے ہیں اور ڈول اس قدر گراں ہے کہ کھینچا نہیں‌ جاتا، تب انھوں نے اپنے شاگرد تسلیم کو پکارا کہ تم جا کر اس کو کھینچ لو۔ تسلیم آگے بڑھے اور ڈول کھینچ لیا۔ اس پر ان کے استاد نسیم دہلوی نے کہا کہ یہ کنواں‌ اس دشوار فن سے تعلق رکھتا ہے۔

    امیر اللہ تسلیم 28 مئی 1911ء کو لکھنؤ میں وفات پاگئے تھے۔ ان کے تین دیوان اور متعدد مثنویاں یادگار ہیں۔ مولانا حسرت موہانی انہی کے ایک مشہور اور قابل شاگرد تھے۔

  • خورشید بانو: فلمی دنیا کا بھولا بسرا نام

    خورشید بانو: فلمی دنیا کا بھولا بسرا نام

    تقسیمِ ہند سے قبل جب ناطق فلموں کا دور آیا تو اس زمانے میں کئی نئے فن کار انڈسٹری میں‌ متعارف ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان کے فلمی مراکز کلکتہ، بمبئی اور لاہور میں کئی شان دار فلمیں‌ کیں اور جس وقت انھیں اپنے شعبے میں شہرت اور مقبولیت مل رہی تھی تو ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ خورشید بانو انہی میں سے ایک ہیں‌ جو ہندوستانی سنیما کی ایک گلوکارہ اور اداکارہ تھیں جو ہجرت کرکے پاکستان آگئی تھیں۔

    تقسیم سے قبل خورشید بانو نے 1930ء سے 1940ء تک ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے کام کیا تھا۔ انھیں صرف خورشید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خورشید نے بطور گلوکارہ اپنی شناخت بنانے کے دوران کچھ فلموں‌ میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے، فلمی ریکارڈ کے مطابق لیلٰی مجنوں خورشید کی پہلی فلم تھی۔ غیرمنقسم ہندوستان میں خورشید بانو نے تیس سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ ان کو شہرت فلم تان سین سے ملی تھی جو 1943ء میں ریلیز ہوئی اور جس میں خورشید بانو نے کندن لال سہگل جیسے نام ور گلوکار اور اداکار کے ساتھ کام کیا۔ اس فلم کے کئی گانے بہت مشہور ہوئے اور یہ انہی دونوں فن کاروں‌ کی آواز میں‌ تھے۔

    خورشید پنجاب کے ضلع قصور کے ایک دیہاتی گھرانے میں‌ پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام ارشاد بیگم تھا۔ خورشید بانو نے فلم کے لیے گلوکاری کا آغاز کیا تو سب سے پہلی فلم لیلٰی مجنوں تھی۔ اس کے بعد اگلے دس سال میں ان کی فلمیں مفلس عاشق، نقلی ڈاکٹر، مرزا صاحباں، کمیا گر، ایمان فروش اور ستارہ تھیں۔ تاہم خورشید بانو کو قابل ذکر کام یابی ان فلموں کی بدولت نہ مل سکی۔ 1931ء سے 1942ء کے دوران انھوں نے کلکتہ اور لاہور کے اسٹوڈیوز کی بنائی ہوئی فلموں میں کام کیا۔ ان کے عروج کا آغاز بمبئی منتقل ہونے کے بعد ہوا۔ تان سین وہ فلم تھی جس نے باکمال گلوکاروں کے ساتھ خورشید بانو کو ان کے فن کی داد دلوائی۔ پاکستان آنے سے قبل خورشید بانو نے ہندوستان میں‌ آخری فلم پپیہا رے کی تھی جو 1948ء کی ایک ہٹ فلم تھی۔

    اسی برس خورشید اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔ انھوں‌ نے کراچی میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد 1956ء میں دو فلموں فن کار اور منڈی میں کام کیا۔ منڈی وہ فلم تھی جس میں‌ خورشید بانو کی آواز اور موسیقار رفیق غزنوی کی دھنوں کو بہت سراہا گیا لیکن فلم باکس آفس پر کام یاب نہیں ہو سکی۔ ان کی دوسری فلم بھی بدقسمتی سے ناکام ثابت ہوئی۔

    خورشید بانو نے دو شادیاں‌ کی تھیں۔ ماضی کی یہ فن کار 18 اپریل 2001ء میں‌ انتقال کرگئی تھیں۔

  • تین افسوس ناک واقعات اور سوشل میڈیا

    تین افسوس ناک واقعات اور سوشل میڈیا

    یہ چند تازہ اور حقیقی واقعات ہیں جواب قصّہ بن کر ہر زبان پر جاری ہیں۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پہلے یہ واقعات ’’خبر‘‘ بنے اور پھر متعلقہ اداروں نے اس پر ’’ایکشن‘‘ بھی لیا۔

    ایک واقعہ بہاول نگر کے پولیس اسٹیشن کا ہے، دوسرا بہاولپور کے ایک علاقے کا، تیسرا کراچی ایئر پورٹ پر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوا۔

    بہاول نگر والے واقعے پر خاموشی ہی بھلی! یوں‌ بھی وائرل ویڈیو کے تعاقب میں جو انکشافات ہوئے ہیں، اس نے ایک فریق کی مظلومیت کا تأثر زائل کردیا ہے۔ اس پر اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ سوشل میڈیا پر رائے عامّہ سے فریقین کو سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔ عسکری ادارے کے جوانوں کی جانب سے وردی پوش پولیس اہل کاروں پر تشدد عوام کی نظروں میں یقیناً‌ ان کا وقار اور احترام مجروح کرتا ہے۔ اداروں کو اپنی حدود کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

    ہم چلتے ہیں اُن تین دیگر واقعات کی طرف جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ عمومی طور پر ہماری نگراں ہے۔ یہ سب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے مرہونِ منت ہے جس میں سیکیوریٹی کیمروں کے علاوہ موبائل فونز بھی شامل ہیں۔ اب کوئی بھی مشکوک یا غلط حرکت، جرم یا سرِ راہ ہماری کوئی نیکی بھی ریکارڈ ہوجاتی ہے اور سوشل میڈیا کی زینت بھی بن سکتی ہے۔ اس بنیاد پر ہم ’’سزا یا جزا‘‘ پا سکتے ہیں۔ گویا موبائل فونز اور سوشل میڈیا کے دور میں کسی جرم کو چھپانا کچھ مشکل ضرور ہو گیا ہے۔

    جب بھی کسی قسم کی ناانصافی، زیادتی پر مبنی واقعے یا صریح جرم کی ویڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو جہاں فوری طور پر عوام کا شدید ردّعمل سامنے آیا، وہیں وہ واقعہ ملکی ذرایع ابلاغ کا حصّہ بنا اور قانون کی نظروں میں بھی آگیا۔

    اس کی تازہ مثال کراچی سے فیصل آباد جانے والی ملّت ایکسپریس کی مسافر مریم بی بی پر پولیس اہل کار کے تشدد کی ویڈیو اور موت کا معاملہ ہے۔ اس تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس اہل کار کو گرفتار کر لیا گیا، لیکن خاتون اب اس دنیا میں نہیں رہی اور اس کی موت معمّہ بنی ہوئی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عورت کے جسم پر کئی گہرے زخموں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی موت خود کشی ہے، حادثہ یا قتل۔ یہ وردی کی طاقت کا نشّہ تھا یا ’’برے ارادے‘‘ کی تکمیل میں ناکامی کا غصّہ اور اشتعال جس نے اسے پہلے ایک ناتواں پر ہاتھ اٹھانے پر مجبور کیا اور بعد میں اس عورت کی لاش ملی۔ مریم بی بی کے اہلِ خانہ کا دعویٰ ہے کہ اسے سات اپریل کو چلتی ریل گاڑی سے دھکا دیا گیاتھا اور یہ معاملہ قتل کا ہے۔ ان کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ ریل گاڑی کا پولیس کانسٹیبل مریم سے راستے میں ’’چھیڑ خانی‘‘ کر رہا تھا۔

    ایک اور ویڈیو کراچی ایئرپورٹ کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہوائی اڈے کے بین الاقوامی پرواز سے آنے والوں کے لیے مخصوص دروازے پر ایک کم سن بچّی بیرونِ ملک سے آنے والے والد کو دیکھتے ہی اس کی جانب لپکتی ہے۔ لیکن وہاں موجود اے ایس ایف کا گیٹ انچارج اسے بالوں سے پکڑ کر پیچھے دھکیل دیتا ہے اور معصوم بچّی فرش پر گر جاتی ہے۔ یہ واقعہ 10 مارچ کا ہے جس کا ذمہ دار شاید وردی کے گھمنڈ میں مبتلا تھا۔ جذبات سے عاری یہ اہل کار معصوم بچّی سے یہ سلوک کرتے ہوئے بالکل ایک مشین یا روبوٹ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ واقعہ کی ویڈیو آنے کے بعد عوامی ردّعمل سامنے آیا اور تب سبحان نامی اہل کار کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی۔

    چند ماہ قبل لاہور کے شہر اچھرہ میں ایک خاتون پولیس افسر کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جو مشتعل ہجوم سے اُس عورت کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں جس پر اس کے لباس کی وجہ سے توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس واقعے میں بھی ہم ایک باوردی پولیس افسر کو دیکھتے ہیں لیکن یہ اُن دو واقعات کے ذمہ دار پولیس اہل کاروں سے یکسر مختلف ہیں۔ ریل گاڑی اور ایئرپورٹ پر وردی پوش سفاکیت، ظلم اور بدسلوکی کی مثال بنے جب کہ خاتون پولیس افسر نے ذہانت اور فرض شناسی کی مثال قائم کی۔

    پاکستان میں اکثریت موبائل فون اور انٹرنیٹ سے استفادہ کر رہی ہے۔ ان میں‌ نیم خواندہ بلکہ ناخواندہ افراد بھی شامل ہیں جو سوشل میڈیا کے اس برق رفتار اور مثبت کردار کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس کی مثال یہ واقعات ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے۔ بلاشبہ رائے عامّہ کی تشکیل میں سوشل میڈیا کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کوئی بھی فرد معاشرتی اور حکومتی سطح پر کمال و نقص کی نشان دہی کرتے ہوئے کسی پلیٹ فارم پر مثبت اور تعمیری بحث کا آغاز کرتا ہے۔ لیکن اسی طاقت کو منفی سوچ کے حامل لوگ اور مفاد پرست بھی استعمال کررہے ہیں جن کا راستہ قانون اور متعلقہ ادارے روک سکتے ہیں۔

  • کلاسیکی موسیقی میں پہچان بنانے والے اسد امانت علی خان کا تذکرہ

    کلاسیکی موسیقی میں پہچان بنانے والے اسد امانت علی خان کا تذکرہ

    دس برس کی عمر میں اسد امانت علی خان نے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ وہ پٹیالیہ گھرانے کے فرد اور استاد امانت علی خان کے فرزند تھے۔ اسد امانت علی نے 1970ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد ساز اور آواز کی دنیا سے ناتا جوڑا اور بعد کے برسوں‌ میں لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ آج پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کے اس نام ور فن کار کی برسی ہے۔

    اسد امانت علی نے اپنے والد کے گائے ہوئے مشہور گیت اور غزلیں انہی کے انداز میں اس طرح پیش کیں کہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اسد امانت علی مشہور ہوگئے۔ اس گلوکار کی وجہِ شہرت ‘عمراں لنگھیاں‘ کے علاوہ گھر واپس جب آؤ گے۔۔۔ جیسا کلام بنا۔ اسد امانت علی نے کئی پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اسد امانت علی خان پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا ایک بڑا نام تھا۔ وہ 8 اپریل 2007ء کو لندن میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ انھوں نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور ان کی جوڑی کو کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کے شائقین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ ان فن کاروں نے پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کو ایک نئے انداز سے متعارف کروایا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی۔

    اسد امانت علی خان کے والد کی آواز میں انشا جی اٹھو اب کوچ کرو ایک مقبول ترین غزل تھی اور اسی کلام کو ان کے بیٹے نے دوبارہ گایا اور بہت داد و تحسین سمیٹی۔ اسد امانت علی خان کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت اور غزلیں گانے میں خاص مہارت رکھتے تھے جب کہ ان کی سریلی آواز میں کئی فلمی گانے بھی ریکارڈ ہوئے۔ انھوں نے فلم سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ اور دیگر فلموں کے لیے گیت گائے۔ 2006ء میں اسد امانت علی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی ریاستوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اسی دور کے ایک بادشاہ پر قدرت مہربان ہوئی اور اس کے ایک عقل مند وزیر اور بہادر سپاہ سالار کی بدولت اس کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔

    اس بادشاہ کے پڑوسی ممالک پہلے ہی اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور اس کے مطیع و تابع فرمان تھے۔ وہاں اسی بادشاہ کے نام کا سکّہ چلتا تھا۔ بادشاہ نے ان کی فوجی قوّت اور وسائل کو بھی اپنے مفاد میں‌ استعمال کیا اور دور تک پھیلے ہوئے کئی ممالک پر حملہ کرکے انھیں بھی فتح کرلیا تھا۔ لیکن اتنی بڑے رقبے پر حکومت کرنے کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہورہی تھی۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بھی مبتلا ہوچکا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ دنیا پر حکم رانی اس کا حق ہے۔ ہر قوم کو اس کی بادشاہی قبول کرلینی چاہیے۔

    یہ بادشاہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ہر سال ایک ملک فتح کرتا۔ وہ مفتوح علاقوں میں اپنے نام کا سکّہ جاری کرکے وہاں اپنی قوم سے کوئی حاکم مقرر کردیتا اور اس وہاں کے لوگوں پر اپنا قانون لاگو کرکے نظام چلانے لگتا۔ لیکن ان مسلسل فتوحات کے بعد اسے عجیب سا اضطراب اور بے چینی رہنے لگی تھی۔ یہ دراصل وہ حرص تھی جس نے اس کی راتوں‌ کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا تھا۔ وہ راتوں کو اٹھ کر نئی مہمات کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی۔ لیکن چند ہفتوں بعد قاصد خبر لے کر آیا کہ بادشاہ کی فوج کو ناکامی ہوئی ہے اور دشمن اس پر غالب آگیا ہے۔ کئی سال کے دوران مسلسل فتوحات نے بادشاہ کا دماغ خراب کردیا تھا۔ وہ شکست کا لفظ گویا فراموش کر بیٹھا تھا۔ اس نے یہ سنا تو غضب ناک ہوگیا۔ اس نے مزید لشکر تیّار کرکے خود اس ملک کی جانب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ تیزی سے صحرا، پہاڑ، دریا عبور کرتا ہوا اس ملک کی سرحد پر پہنچا جہاں اس کا بھیجا ہوا لشکر ناکام ہوگیا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور مخالف بادشاہ کی فوج جس کا ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی دے رہے تھے، انھوں نے ایک مرتبہ پھر حملہ آوروں کو ڈھیر کردیا اور بادشاہ کو نامراد لوٹنا پڑا۔ یہ شکست اس سے ہضم نہیں ہورہی تھی۔

    اس ناکام فوجی مہم سے واپسی پر بادشاہ بہت رنجیدہ اور پریشان تھا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی سے باتیں کررہا تھا جس نے کہا کہ وہ ایک بزرگ کو جانتی ہے جس کی دعا سے وہ دوبارہ میدانِ‌ جنگ میں کام یاب ہوسکتا ہے۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں‌ طلب کیا۔ مگر بزرگ نے آنے سے انکار کردیا اور کہلوا بھیجا کہ جسے کام ہے وہ مجھ سے میری کٹیا میں‌ آکر خود ملے۔ قاصد نے بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بتائی تو بادشاہ برہم ہوگیا۔ مگر اس کی بیوی نے سمجھایا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے۔

    ایک روز بادشاہ اپنے چند مصاحبوں کو لے کر فقیر کی کٹیا پر حاضر ہوگیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔ بزرگ نے اس کی بات سنی اور کہا کہ میں تجھے حکومت اور قومیں فتح کرنے کا کوئی گُر تو نہیں بتا سکتا، مگر ایک ایسی بات ضرور تجھ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں جس میں سراسر تیری فلاح اور بھلائی ہے۔ بادشاہ کو غصّہ تو بہت آیا مگر اس پر فقیر کی بے نیازی اور رعب قائم ہوچکا تھا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو بزرگ نے کہا، "اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے! تجھے چاہیے کہ جو مل گیا ہے اس پر اکتفا کر اور اگر دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے تو جو کچھ تیری ضرورت سے زائد ہے اسے تقسیم کر دے۔

    یہ کہہ کر بزرگ نے بادشاہ کو کٹیا سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور بادشاہ محل لوٹ گیا۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ یہ بے اطمینانی اور اضطراب اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب وہ حرص چھوڑ دے اور خواہشات کو ترک کرکے قانع ہوجائے۔