Author: عارف حسین

  • لوک داستانوں کے مشہور کرداروں کا تعلق کن شہروں سے تھا؟

    لوک داستانوں کے مشہور کرداروں کا تعلق کن شہروں سے تھا؟

    پاکستان کی لوک داستانوں کے ان چند کرداروں کا نام اور ان سے منسوب داستانیں آپ نے بھی سنی اور پڑھی ہوں گی۔ سسی، ماروی، شیریں اور لیلیٰ جیسے نام نہ صرف ہمارے ہاں عام ہیں بلکہ تاریخ اور ثقافت پر مبنی کتب میں ان افسانوی کرداروں کو مختلف روایات کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ ادب کی بات کی جائے تو نظم و نثر میں بھی لوک داستانوں اوران کے افسانوی کرداروں کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر ڈرامے بھی بنائے گئے جن کو بہت مقبولیت ملی۔

    ان لوک داستانوں کے مرکزی کرداروں کا تعلق کن علاقوں سے تھا، یہ جاننا آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    تاریخ و ثقافت کے مختلف حوالوں اور شاعری میں آپ نے سسی کا ذکر ضرور سنا اور پڑھا ہوگا۔ یہ سندھ اور بلوچستان کی مشہور لوک داستان کا کردار ہے۔ روایت ہے کہ سسی پنوں کی محبت میں جب وہ موڑ آیا جہاں جدائی مقدر بن گئی تو ایک نئی داستان رقم ہوئی۔ سسی اپنے محبوب کی تلاش میں نکل پڑی اور اس راستے میں اس نے سختیوں اور کئی مشکلات کا سامنا کیا۔

    ایک اور مشہور لوک داستان کا کردار ماروی بھی آپ کے ذہن میں ہو گا۔ اس افسانوی کردار کا تعلق سندھ کے صحرائے تھر سے ہے۔ راویات کے مطابق عمر ماروی کی کہانی جس طرح بیان کی جاتی ہے اس میں ماروی کو اپنی مٹی سے پیار اور اس کی پاک دامنی کے باعث یاد کیا جاتا ہے۔

    شیریں اور فرہاد کا نام تو سبھی نے سنا ہے۔ ان دونوں کرداروں سے ایک داستان منسوب ہے، جس پر نثر اور نظم دونوں کی مختلف اصناف میں نہایت خوب صورت انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس افسانوی داستان کے کردار شیریں کا تعلق بلوچستان کے ضلع آواران بتایا جاتا ہے۔

  • وہ ممالک جہاں آتش زدگی کے باعث اموات کی شرح کم ہے

    وہ ممالک جہاں آتش زدگی کے باعث اموات کی شرح کم ہے

    آتش زدگی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہلاکتیں ترقی پزیر ملکوں میں عام ہیں جس کی مختلف وجوہ ہیں۔ غیر ذمہ داری اور انسانی خطا کی وجہ سے کسی عمارت میں آگ لگنے کے علاوہ کئی واقعات کا سبب شارٹ سرکٹ، گیس یا تیل کا اخراج وغیرہ ہوسکتے ہیں جس کے بعد آگ بھڑکنے سے انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ تاہم پاکستان جیسے ملکوں میں ایسے حادثات اور ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے میں مشکلات پیش آتی ہیں اور ہلاکتوں کی شرح زیادہ ہے۔ اکثر حادثے کی جگہ بروقت فائر بریگیڈ کا نہ پہنچنا جانی و مالی نقصان میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

    دنیا بھر میں آتش زدگی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن ترقی یافتہ ممالک میں حفاظتی اقدامات اور انسانی جانیں بچانے کے لیے فوری اور مؤثر کارروائی کی وجہ سے نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ ہم آپ کو ان چند ملکوں کے بارے میں بتا رہے ہیں جو اس حوالے سے سب سے کم متاثر ہوتے ہیں۔

    آتش زدگی کے واقعات اور اس میں انسانی جانوں کے ضیاع سے متعلق اعداد و شمار میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم ایک عام جائزے کے مطابق فن لینڈ میں ہر دس لاکھ کی آبادی میں سے سالانہ 18 ہلاکتیں آتش زدگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یونان، ہنگری اور جاپان کا نمبر فن لینڈ کے بعد آتا ہے۔ جاپان میں ہر دس لاکھ کی آبادی میں سے 16 افراد آتش زدگی کے واقعات میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

    دنیا کے سب سے زیادہ مطمئن اور خوش رہنے والے ناروے کے باسی ہیں۔ وہاں آگ لگنے کے واقعات میں سالانہ 14، ڈنمار ک میں 13 ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

    امریکا میں ہر دس لاکھ کی آبادی میں آتش زدگی کے نتیجے میں موت کا شکار ہو جانے والوں کی تعداد 12 ہے۔ اس کے بعد سویڈن، کینیڈا اور فرانس کا نمبر ہے جہاں ہر دس لاکھ کی آبادی میں سے آتش زدگی کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والوں کی تعداد 10 بتائی جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ میں 8 افراد جب کہ برطانیہ، جرمنی، اسپین، آسٹریلیا، اٹلی میں یہ تعداد مزید کم ہے۔

  • فرانس میں تاریخی فراڈ کرنے والا رابرٹ ملر کون تھا؟

    فرانس میں تاریخی فراڈ کرنے والا رابرٹ ملر کون تھا؟

    کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دلوں میں نہیں، صرف کتابوں اور تذکروں تک محدود رہتے ہیں۔ رابرٹ ملر ایک ایسا ہی نام ہے کہ جب بھی لگ بھگ ایک صدی پرانے ایفل ٹاور کی بات کی جائے گی، اس کا نام بھی کسی کے لبوں پر آسکتا ہے۔

    رابرٹ ملر ایک بدنامِ زمانہ شخص اور جعل ساز تھا۔ وہ دھوکا دہی اور فراڈ کے ذریعے دولت سمیٹنے میں گویا ماہر تھا۔
    ایفل ٹاور سے متعلق اس کے فراڈ کو جان کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ دھوکا دہی کی وارداتوں کے لیے رابرٹ نے مختلف نام اپنائے اور کئی سوانگ بھرے۔ وہ اپنے جعلی نام وکٹر لسٹنگ سے زیادہ مشہور ہوا۔

    ایفل ٹاور سے متعلق دنیا کے بڑے فراڈ کے بارے میں جاننے سے پہلے اس جعل ساز رابرٹ ملر کی نجی زندگی کا مختصر احوال پڑھ لیجیے۔

    رابرٹ ملر کا وطن چیکو سلواکیا تھا۔ اس کی تاریخِ پیدائش 1890ء بتائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں رابرٹ ایک ذہین اور پُراعتماد بچہ تھا۔ اس کی ایک خاصیت بَروقت فیصلہ کرنا تھا۔ وہ متعدد زبانیں جانتا تھا اور یہ بھی اس کی ایک قابلیت تھی جس نے اسے جعل سازی اور دھوکا دہی میں بہت مدد دی۔ وہ نہایت آسانی سے لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتا تھا۔

    اس نے ایک ٹھگ کے طور پر لوگوں کو ان کی نقدی اور قیمتی اشیا ہی سے محروم نہیں کیا بلکہ پیرس کے مشہورِ زمانہ ایفل ٹاور کو بھی بیچ ڈالا۔

    فرانس کی یہ تاریخی یادگار لوہے کا ایک بلند مینار ہے جو خوشبوؤں کے شہر پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے۔ ایفل ٹاور کی تعمیر میں لوہا اور اسٹیل استعمال کیا گیا ہے جن کا مجموعی وزن 7,300 ٹن ہے۔ ایک موقع پر انتظامیہ نے اس یادگار کو منہدم کرکے اس کا ملبا فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن جلد ہی یہ ارادہ بدل گیا۔ انتظامیہ کی جانب سے انہدام اور تنسیخ کی تشہیر تو کی گئی، مگر چند کاروباری منسوخی کے اعلان سے بے خبر رہے۔

    رابرٹ ملر 1925ء میں امریکا میں فراڈ کے بعد گرفتاری سے بچنے کے لیے فرانس آیا جہاں ایک صبح اخبار میں ایفل ٹاور کے حوالے سے ایک خبر اس کی نظر سے گزری اور رابرٹ کا شیطانی دماغ متحرک ہو گیا۔ اس نے ایک منصوبہ ترتیب دیا اور سرکاری عہدے دار کی حیثیت سے لوہے کی خریدوفروخت کے چھے بڑے تاجروں کو ایک جعلی سرکاری لیٹر پر لکھ بھیجا کہ وہ ایفل ٹاور کا ملبا اٹھانے کے لیے رابطہ کریں۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی کہ انتظامیہ اس معاملے کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے جس کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔

    چند تاجروں نے جوابی خط میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو رابرٹ خود کو سرکاری عہدے دار ظاہر کرتے ہوئے اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں ان سے ملا اور فرضی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت اس معاملے کو خفیہ رکھنا ہے۔ آخر لوہے کا ایک تاجر ایفل ٹاور کا ملبا خریدنے پر رضامند ہو گیا۔

    ایک سرکاری کاغذ پر معاہدے کی تفصیلات لکھی گئیں اور انتظامیہ کی جانب سے رابرٹ ملر اور خریدار نے دستخط کر دیے۔ وہ خریدار اس بات سے بے خبر تھا کہ جس سرکاری کاغذ پر اس نے دستخط کیے ہیں، وہ بھی جعلی ہے اور اس کے سامنے موجود عہدے دار درحقیقت ایک جعل ساز ہے۔ خریدار نے معاہدے کے تحت ایک بھاری رقم رابرٹ کے حوالے کر دی۔

    اس تاجر کو دھوکا دینے میں‌ کام یابی اور اس سے رقم حاصل کرتے ہی رابرٹ ملر ٹرین کے ذریعے آسٹریا روانہ ہو گیا۔

  • کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے!

    کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے!

    اردو ادب میں خاکہ نگاری باقاعدہ صنف کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ دراصل کسی شخصیت کی لفظی تصویر ہوتی ہے جس میں خاکہ نویس اس کی زندگی سے متعلق اہم اور مخصوص حالات و واقعات بیان کرتا ہے۔ اس کا حلیہ، حرکات و سکنات، عادات و اطوار، اس کے ظاہری و باطنی اوصاف اور طرزِ گفتگو کو اپنے مشاہدات کی گرہ لگا کر اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

    اس فن میں باکمال نثر نگار یوں قلم اٹھاتا ہے کہ کسی کی جیتی جاگتی، چلتی پھرتی تصویر قاری کے سامنے آجاتی ہے۔ اردو ادب کے سنجیدہ قارئین نے مختلف نثر نگاروں کے تحریر کردہ مشہور اور اہم شخصیات کے خاکے پڑھے ہوں گے، لیکن یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ کیا نام ور اور مشہور شخصیات ہی کا خاکہ لکھا جاسکتا ہے؟

    ہمارے ہاں زیادہ تر خاکہ نویسوں نے فنونِ لطیفہ سے وابستہ معروف شخصیات اور دیگر شعبوں کے اہم ناموں کو ہی اس فن میں سمیٹا ہے، مگر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ‘‘نور خان’’ جیسے ایک عام انسان کو جو حیدرآباد دکن کے ایک باغ کا مالی تھا، اپنے خاکوں کی مشہور کتاب ‘‘چند ہم عصر’’ نہایت خوب صورتی سے ہمارے لیے مثال بنا کر پیش کیا ہے۔

    اس خاکے کی ابتدائی سطور جہاں اس فن سے متعلق بابائے اردو کے خیالات سے آگاہی دیتی ہیں، وہیں خاکہ نگاروں کے لیے اس فن میں راہ نما بھی ہیں۔

    مولوی عبدالحق نے لکھا ہے کہ لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں۔ نام ور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرتے ہیں۔ میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں، اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں، امیروں اور بڑے لوگوں کے ہی حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہوسکتی ہے۔

    مولوی عبدالحق کے اس خاکے کا عنوان‘‘ گدڑی کا لال، نور خان’’ ہے جس کی چند جھلکیاں آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہیں۔
    یوں محنت سے کام تو اور بھی کرتے لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں۔ سچائی، بات کی اور معاملے کی، ان کی سرشت میں تھی اور خواہ جان ہی پر کیوں نہ بن جائے، وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ اسی میں انہیں نقصان بھی اٹھانے پڑے مگر وہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کرلیتے تھے۔

    مستعد ایسے تھے کہ اچھے اچھے جوان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ دن ہو، رات ہو، ہر وقت کام کرنے کو تیار۔ اکثر دولت آباد سے پیدل آتے جاتے تھے۔ کسی کام کو کہیے تو ایسی خوشی سے کرتے تھے کہ کوئی اپنا کام بھی اس قدر خوشی سے نہ کرتا ہوگا۔

    دوستی کے بڑے پکے اور بڑے وضع دار تھے، چونکہ ادنی اعلیٰ سب ان کی عزت کرتے تھے اس لیے ان کے غریب دوستوں سے بہت سے کام نکلتے تھے۔
    خود دار ایسے کہ کسی سے ایک پیسے کے روادار نہ ہوتے تھے۔ مجھ سے انہیں خاص انس تھا، میں کوئی چیز دیتا تھا تو کبھی انکار نہ کرتے تھے، بلکہ کبھی کبھی خود فرمائش کرتے تھے، مٹھاس کے بے حد شائق تھے۔ ان کا قول تھا کہ اگر کسی کو کھانے کو میٹھا ملے تو نمکین کیوں کھائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نمکین کھانا مجبوری سے کھاتا ہوں، مجھ میں اگر استطاعت ہو تو ہمیشہ مٹھاس ہی کھایا کروں اور نمکین کو ہاتھ نہ لگاؤں۔

    وہ حساب کے کھرے، بات کے کھرے، اور دل کے کھرے تھے۔ مہرو وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے۔ ایسے نیک نفس، ہم درد، مرنج و مرنجان اور وضع دار لوگ کہاں ہوتے ہیں۔ ان کے بڑھاپے پر لوگوں کو رشک آتا تھا اور ان کی مستعدی دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔

    مجھے وہ اکثر یاد آتے ہیں اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے۔ اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا اچھا آدمی تھا۔ قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں۔ کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے!

  • گوگل کروم سست رفتار ویب سائٹس کی نشان دہی کرے گا

    گوگل کروم سست رفتار ویب سائٹس کی نشان دہی کرے گا

    اگر آپ ویب براؤزنگ کے لیے گوگل کروم استعمال کرتے ہیں تو ایک خوش خبری آپ کی منتظر ہے۔

    یہ ویب براؤز اب اپنے صارف کو سست رفتار ویب سائٹ کے بارے میں آگاہ کر دے گا جس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہ فیچر کسی بھی صارف کو بتائے گا کہ اس کی مطلوبہ ویب سائٹ کا پیج لوڈ ہونے میں وقت لے سکتا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوگل، مخصوص ٹیکنالوجی کی مدد سے براؤزر میں لوڈ کی جانے والی ویب سائٹ کی رفتار جاننے کے بعد یہ معلومات صارف تک پہنچائے گی۔

    گوگل کی جانب سے کسی بھی ویب سائٹ کے سست رفتار ہونے کی نشان دہی کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے گا کہ یہ عمومی مسئلہ ہے یا اس عمل میں کوئی رکاوٹ حائل ہے۔ یہ معلومات مخصوص بار پر صارف کے لیے ظاہر ہو ں گی۔

    گوگل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ویب براؤزنگ کے دوران صارف کو مختلف رکاوٹوں اور خاص طور پر کسی ویب سائٹ کے لوڈ ہونے کی رفتار کی نشان دہی کے لیے ماہرین کی ٹیم کام کررہی ہے اور جلد یہ فیچر متعارف کروا دیا جائے گا۔

    ویب براؤزر کے صارف کو اس حوالے سے نشان دہی کی غرض سے سادہ ٹیکسٹ پیغام کے علاوہ مخصوص بار میں رنگ کی تبدیلی کے ذریعے اس بات سے بھی آگاہ کیا جائے گا کہ اس کی مطلوبہ ویب سائٹ عمومی طور پر سست رفتار کے مسئلے کا سامنا کرتی ہے۔

  • پیار بھرے دو شرمیلے نین کے خالق: خواجہ پرویز

    پیار بھرے دو شرمیلے نین کے خالق: خواجہ پرویز

    اکثر فرصت کے لمحات میں جب ہم ماضی کی یادوں سے بہلنے لگتے ہیں یا اکیلے پن اور تنہائی کا احساس ستاتا ہے تو کوئی گیت گنگنانے اور موسیقی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ کبھی آپ پر بھی ایسی کیفیت ضرور طاری ہوئی ہو گی جب آپ کے لبوں پر بے اختیار کوئی گیت، کوئی شعر گویا بول اٹھا ہو۔

    پیار بھرے دو شرمیلے نین جیسا خوب صورت گیت آپ سبھی نے سنا ہو گا اور کبھی گنگنایا بھی ہو گا۔ کیا آپ اس گیت کے خالق کا نام جانتے ہیں؟

    ان کا نام خواجہ پرویز ہے جو صرف اسی مقبولِ عام گیت کے خالق نہیں بلکہ انھوں نے اردو اور پنجابی زبان میں سیکڑوں نغمے تخلیق کیے جو ان کی شہرت کا سبب بنے۔ معروف نغمہ نگار خواجہ پرویز کی فلمی شاعری کو اپنے وقت کے نام ور گائیکوں نے اپنی آواز دی اور وہ سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    اس خوب صورت گیت نگار کا اصل نام خواجہ غلام محی الدین تھا جب کہ پرویز تخلص۔ تاہم فلمی دنیا میں انھیں خواجہ پرویز کے نام سے شہرت ملی۔

    ان کے لکھے ہوئے دیگر مشہور گیتوں میں سے چند یہ ہیں۔
    ‘‘تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں’’ اپنے وقت کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔

    ‘‘تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں’’ فلم آنسو کا وہ گانا تھا جو بے حد مقبول ہوا۔

    ‘‘کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا’’ اُس زمانے کا ایک مقبول گانا تھا جس کی دھن ماسٹر عنایت نے بنائی تھی۔

    خواجہ پرویز کا لکھا ہوا گیت ‘‘پیار بھرے دو شرمیلے نین’’ فلم چاہت میں شامل تھا۔

  • جامعہ کراچی میں اساتذہ اور طلبہ نے عطارد کے سورج کے سامنے سے گزرنے کا مشاہدہ کیا

    جامعہ کراچی میں اساتذہ اور طلبہ نے عطارد کے سورج کے سامنے سے گزرنے کا مشاہدہ کیا

    کراچی: جامعہ کراچی کی فلکیاتی رصد گاہ میں موجود اساتذہ، طلبہ اور  دیگر افراد نے آج نظامِ شمسی کے سیارہ عطارد  کے سورج کے سامنے سے گزرنے کا نظارہ کیا۔ اب یہ منظر 2032 میں دیکھنے کو ملے گا۔

    سورج کے سامنے سے عطارد کے گزرنے کا یہ منظر  جامعہ کراچی میں حال ہی میں نصب کی جانے والی 16 انچ میڈ ٹیلی اسکوپ کی مدد سے دیکھا گیا۔

    جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلینٹری اسٹروفزکس (اسپا) کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید تنویر اقبال کے مطابق عطارد کا ٹرانزٹ پاکستانی وقت کے مطابق 5 بج کر 34 منٹ پر شروع ہوا اور  سورج کے عین وسط میں 5 بج کر 44 منٹ پر  پہنچا جب کہ غروبِ آفتاب پانچ بج کر 46 منٹ تھا۔

    واضح رہے کہ عطارد کا سورج کے گرد ایک چکر 88 زمینی دنوں کے برابر  ہوتا ہے اور  جب سیارہ عطارد اور  زمین سورج کے ساتھ ایک سیدھ میں آجاتے ہیں تو  ایسا منظر  دیکھنے کو ملتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نظارہ ایک صدی کے دوران 13 سے 14 بار کیا جاسکتا ہے۔

  • ماہیا: پنجاب کی مقبول ترین صنفِ سخن

    ماہیا: پنجاب کی مقبول ترین صنفِ سخن

    اردو اور مقامی زبانوں میں بھی تخلیق ہونے والا ادب یوں تو ہمارے تمدن، تہذیب اور ثقافت کو اجاگر کرتا ہے، مگر لوک ادب میں اس کا خاص رنگ جھلکتا ہے۔

    لوک ادب میں کسی بھی علاقائی رہن سہن، تہذیب و تمدن اور ثقافت کی نہایت خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ اسی میں شاعری بھی شامل ہے جس کی مختلف اصناف داستانوں، افسانوی شخصیات کے تذکروں سے آراستہ ہیں۔ ماہیا ایک ایسی ہی صنف ہے جسے ہم سرزمین پنجاب کے مقبول ترین عوامی گیت کہہ سکتے ہیں۔ اس صنفِ سخن کا تعلق لوک روایات سے ہے۔

    ماہیا، دراصل ماہی سے تشکیل پایا ہے۔ اردو زبان میں ماہی سے مراد محبوب ہے۔ تاہم بعض محققین کے نزدیک یہ لفظ بھینس چرانے والے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور بعد میں مجازاً پیارے اور محبوب کے لیے بولا جانے لگا۔ مقامی شعرا نے پنجاب کے حسن، محبت کی داستانوں اور انسانی جذبات کو اس صنفِ سخن میں نہایت خوب صورتی سے سمیٹا ہے۔

    ماہیا وہ کلام ہے جس میں تین مصرعوں میں شاعر اپنی بات کہتا ہے۔ اس صنف کا پہلا اور تیسرا مصرع ہم وزن جب کہ درمیانی مصرع کے دو حروف پہلے اور آخری مصرع کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ پنجاب کی اس مقبول صنف نے اردو زبان اور شعرا کو بھی متاثر کیا اور فلموں اور ریڈیو میں اردو ماہیے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بنیادی طور پر گائی جانے والی صنف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے دُھن، ردھم اور آوازوں کو اہمیت دی گئی۔

    ماہیے میں خطۂ پنجاب کی خوب صورتی، دل کشی، یہاں کی تہذیب و اقدار اور ثقافت کو مدنظر رکھا گیا، مگر اردو شعرا نے بھی اس طرف توجہ دی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو زبان کے تخلیق کاروں نے اسے مقامی ادب سے نکال کراس کی اہمیت بڑھا دی۔ اردو زبان میں اسی طرح تین مصرعوں کی ہائیکو اور ثلاثی جیسی اصناف بھی موجود ہیں جن کے شعری لوازم جدا ہیں۔

    ماہیے کے حوالے سے اردو شعرا کا نام لیا جائے تو قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی سے پہلے ہمت رائے شرما اور قتیل شفائی کے ماہیے فلموں میں گائے گئے۔ اس حوالے اختر شیرانی، چراغ حسن حسرت جیسے مشہور شعرا کا نام بھی لیا جاتا ہے۔

    ماہیا پنجاب کی مقبول صنفِ سخن ہے اور ادبی محافل اور خاص تقاریب میں ضرور سنے جاتے ہیں اور سب ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں پنجاب کے دیہات کی خوب صورت زندگی اور دل رُبا داستانوں سے لازوال کرداروں کو سمیٹا گیا ہے۔ اردو زبان میں اس صنفِ سخن میں یہ مشہور گیت پیشِ خدمت ہے۔

    ساون میں پڑے جھولے
    تم بھول گئے ہم کو
    ہم تم کو نہیں بھولے

  • جرمن شہری ماہانہ آمدن سے بچت نہیں‌ کر پا رہے، تحقیقی جائزہ

    جرمن شہری ماہانہ آمدن سے بچت نہیں‌ کر پا رہے، تحقیقی جائزہ

    دنیا کا ہر انسان جو اپنی ملازمت یا کاروبار سے جو رقم کماتا ہے اس کا ایک بڑا حصّہ اپنے کھانے پینے اور دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ بھی کرتا ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات تو نہیں۔ تاہم جرمنی کے شہری بڑھاپے میں غربت اور تنگ دستی کا خطرہ محسوس کررہے ہیں کیوں کہ وہ اپنی ماہانہ آمدن میں سے بچت نہیں کر پارہے۔

    ایک تحقیقی جائزے کے مطابق جرمنی میں ایک چوتھائی شہریوں کی جیب مہینے کے آخر میں خالی ہوتی ہے۔ ملک کے اٹھائیس فی صد عوام ایک مہینے کے پچاس یورو سے زیادہ نہیں بچا پاتے اور بڑھاپے کے لیے فکرمند نظر آتے ہیں۔

    رواں برس جون میں اس تحقیقی جائزے کے بعد ‘‘یو گوو’’ اور ‘‘سوئس لائف’’ نے بتایا کہ اٹھائیس فی صد جرمن شہری ایک مہینے میں زیادہ سے زیادہ پچاس یورو کی بچت کرپاتے ہیں۔

    اس جائزے میں دو ہزار سے زائد جرمن شہریوں سے ان کے اخراجات کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تھے اور اس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 36 فی صد جرمن شہریوں کو خدشہ ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھاپے میں اپنا خرچہ نہیں اٹھا پائیں گے۔

    اس کی وجوہات میں رہائش سرِ فہرست ہے۔ جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہریوں کی اکثریت کا بڑا خرچہ رہائش ہے اور قریب ہر تیسرے شہری کو اپنی ماہانہ آمدن کا 30 فی صد کرائے اور رہائش سے متعلق دیگر اخراجات پر صرف کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے نمبر پر اشیائے خورونوش اور پھر ٹرانسپورٹ پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔

    بزرگ شہریوں سے اس سلسلے میں بات چیت سے معلوم ہوا کہ مجموعی آمدن سے وہ بمشکل خوراک، انشورنش اور دیگر ضروری بل ادا کر پاتے ہیں اور ان کی پنشن بہت کم ہے۔ بڑھتے ہوئے اخراجات کے سبب یہ خدشہ بھی ہے کہ مزید شہری ریٹائر ہونے کے بعد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ تاہم حکومت کی جانب سے معمر افراد کا مالی بوجھ کم کرنے کے لیے منصوبے کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور مجوزہ منصوبہ 2021 سے نافذ العمل ہو گا۔

  • ابنِ بطوطہ: مسجدِ نبوی اور منبرِ رسولﷺ کی زیارت کا احوال

    ابنِ بطوطہ: مسجدِ نبوی اور منبرِ رسولﷺ کی زیارت کا احوال

    ابن بطوطہ سے کون واقف نہیں۔ اس سیاح اور مؤرخ نے 1304 عیسوی میں مراکش کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس دور کے دستور کے مطابق لکھنا پڑھنا سیکھا اور بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ خاص طور پر تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کی۔

    سیر و سیاحت کے شوق کے باعث ابنِ بطوطہ نے صرف 22 برس کی عمر میں گھر چھوڑ دیا اور حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے دنیا کے مختلف ملکوں میں قیام اور سیاحت کا شوق پورا کیا۔

    آج جشنِ ولادتِ رسولﷺ منایا جارہا ہے۔ اسی مناسبت سے ابو عبداللہ محمد المعروف ابن بطوطہ کے سفر نامے سے حجِ بیتُ اللہ اور مدینہ میں ان کی حاضری کا مختصر احوال پیش ہے۔

    ابنِ بطوطہ نے مسجدِ نبوی اور روضۂ رسولﷺ کے پاکیزہ و منور، معطر و روشن نظاروں اور مقدس مقامات کی بابت لکھا:

    مسجدِ معظم مستطیل ہے اور اس کے چہار اطراف سے سنگین فرش گھومتے ہوئے ہیں۔ اس کے وسط میں ایک صحن ہے جس پر کنکریاں اور ریت بچھی ہوئی ہے۔ مسجد کے گرد ایک سنگین فرش کا گھوما ہوا راستہ ہے جس کا پتھر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور روضۂ اقدس قبلہ کی طرف مسجدِ مکرم کے مشرقی جانب سے ملا ہوا ہے۔

    روضے کی شکل ایسی نادر کہ اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ پتھروں کا جڑاؤ نہایت نادر و پاکیزہ اور مصفا و شگفتہ ہے۔ امتددادِ زمانہ کے باوجود اس کے استحکام میں فرق نہیں آیا ہے۔

    یہیں لوگ عرضِ سلام کے لیے روئے مبارک کی طرف رخ کرکے اور پشت بہ قبلہ ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔

    منبر مبارک کا ذکر کرتے ہوئے ابنِ بطوطہ نے لکھا:

    منبر نبویﷺ کی تین سیڑھیاں تھیں جس میں سب سے اوپری پر سرورِکونین تشریف فرما ہوتے اور پائے مبارک وسط کی سیڑھی پر رکھتے۔

    مسجدِ نبویﷺ کے خادمین اور مؤذن خوش لباس اور پاکیزہ صورت ہیں۔ ان سب کے اعلیٰ نگراں کو شیخ الخدام کہا جاتا ہے۔ ان کے لیے مصر اور شام سے وظائف ملتے ہیں۔