Author: عارف حسین

  • ارب پتی افراد کی دولت گھٹنے لگی، انکشاف

    ارب پتی افراد کی دولت گھٹنے لگی، انکشاف

    دنیا کی امیر ترین شخصیات اور ارب پتی افراد کے نام، ہر سال ان کے اثاثوں کی مالیت، ان کے کاروبار اور مختلف اداروں کے بارے میں معلومات عالمی ذرایع ابلاغ میں نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ فہرست ہر خاص و عام کو متوجہ کرتی ہے اور ایسی رپورٹیں سب کی دل چسپی کا باعث ہوتی ہیں۔ تاہم ایک حالیہ رپورٹ نے نہ صرف عام لوگوں کی توجہ حاصل کر لی ہے بلکہ ارب پتی افراد اور مختلف کاروباری شخصیات کے لیے پریشان کُن بھی ہے۔

    جرمن میڈیا نے مختلف نیوز ایجنیسوں کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ برس دنیا بھر میں ارب پتی افراد کی دولت میں مجموعی طور پر کمی ہوئی ہے جس کا سبب امريکا اور چين کے مابین کشيدگی، غیر یقینی سیاسی صورت حال اور بازار حصص ميں بے قاعدگياں بنیں۔

    چین کے بعد امریکی ارب پتی اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ پچھلے ايک سال ميں دنيا کے امير ترین افراد کی مجموعی دولت ميں کمی کا انکشاف ‘‘يو بی ايس’’ اور ‘‘پی ڈبليو سی’’ نامی اداروں نے اپنی مشترکہ رپورٹ ميں کيا ہے۔

    ارب پتی افراد کی مجموعی دولت ميں ايک سال ميں 388 بلين ڈالر کی کمی نوٹ کی گئی اور ان کی ملکیت میں مجموعی رقوم 8,539 بلين ڈالر بنتی ہيں۔ اس حوالے سے رپورٹ کے مطابق مختلف خطوں کے لحاظ سے سب سے زيادہ کمی چين کے ارب پتی افراد کی دولت ميں نوٹ کی گئی ہے۔

    دوسرے نمبر پر امريکی ارب پتيوں کی دولت ميں اور تيسرے نمبر پر ايشيا پيسيفک خطے ميں بسنے والے ارب پتی افراد کی مجموعی دولت ميں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

    اس رپورٹ ميں يو بی ايس کے سربراہ جوزف اسٹيڈلر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 2008 کے بعد يہ پہلا موقع ہے جب جيو پاليٹکس کے سبب ارب پتی افراد کی دولت ميں کمی واقع ہوئی ہے۔

    چين سب سے زيادہ متاثرہ ملک ثابت ہوا۔ ڈالر کی قدر کے حوالے سے ديکھا جائے تو چين کے امير ترين افراد کی مجموعی دولت ميں 12.8 فی صد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود جوزف اسٹيڈلر کا کہنا ہے کہ چين ميں ہر دو سے ڈھائی دن ميں ايک نيا شخص ارب پتی افراد کی فہرست ميں شامل ہوجاتا ہے۔

  • بابا گرونانک کون تھے؟ تعارف

    بابا گرونانک کون تھے؟ تعارف

    وزیراعظم پاکستان عمران خان 9 نومبر کو کرتار پور راہداری کا افتتاح کریں گے جس میں بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ اور نوجوت سنگھ سدھو کی شمولیت بھی متوقع ہے۔

    بابا گرو نانک کے 550 ویں جنم دن پر سکھ  یاتریوں کے ساتھ اہم شخصیات کو ویزے جاری کیے گئے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کے ضلع ناروال میں کرتار پور ہی وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے پہلے گرو نے اپنی زندگی کے آخری ایام بسر کیے تھے۔ اسی مقام پر ان کی ایک سمادھی اور قبر بھی ہے جو سکھوں کے لیے مقدس ہے۔

    سکھ مت کے بانی اور پہلے گرو بابا نانک اس دنیا سے 1539 میں رخصت ہوئے تھے۔  بابا گرو نانک کی پیدائش جس علاقے میں ہوئی وہ اب ننکانہ صاحب کہلاتا ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ گرو نانک صاحب ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام کلیان چند داس اور والدہ ماتا ترپتا تھیں جب کہ وہ ان کی اکلوتی نرینہ اولاد تھے۔

    گرو نانک صاحب نے سنسکرت کے ساتھ باقاعدہ فارسی زبان بھی سیکھی ۔

    بابا گرو نانک صاحب نے خود کو ایک معلّم کے طور پر منوایا اور ان کی تعلیمات و روایات کو بہت پزیرائی اور فروغ ملا اور آج سکھ اسی کے مطابق اس مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔

    محبت اور خلق خدا سے لگاؤ کی بنیادی تعلیم کی وجہ سے  بڑی تعداد بابا گرو نانک کی پیروکار اور عقیدت مند ہے۔

  • اسموگ نے دنیا سے اپنا تعارف کب کروایا؟

    اسموگ نے دنیا سے اپنا تعارف کب کروایا؟

    موسم نے کروٹ بدل لی ہے۔ خنکی اور سرد ہوائوں نے ہمیں گرم کپڑے استعمال کرنے، موسمِ سرما کی شدت اور اس سے لاحق ہونے والی مختلف بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے تدابیر اور احتیاط برتنے کا اشارہ دے دیا ہے۔

    بالائی علاقے خاص طور پر سردی کی لپیٹ میں ہیں جس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ہم ایک مرتبہ پھر اسموگ کا شور سن رہے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو بھارتی شہر نئی دہلی اور اس کے بعد پنجاب کا شہر لاہور بھی اسموگ سے شدید متاثر ہوا تھا۔ یہ بات ہے 2017 کی جس کے بعد پاکستان میں یہ بحث بھی چھڑی کہ اسموگ کا درست اردو ترجمہ کیا ہوسکتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر کسی نے اس آلودگی کو کہرا، کسی نے کثیف دھواں اور کوئی اسے دھوئیں والی دھند کہنے پر اصرار کرتا رہا جب کہ اس حوالے رپورٹوں میں اسموگ کا لفظ ہی استعمال ہوتا رہا۔ ایک بار پھر ملک کے مختلف شہر اسموگ سے متاثر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ فضائی آلودگی کی کون سی شکل ہے اور پاکستان کے علاوہ کون سے ممالک اس سے متاثر ہیں۔

    اسموگ کا مسئلہ دنیا کے سامنے کب آیا؟

    بیسویں صدی کے آغاز میں ماہرینِ ماحولیات اور عام لوگ اس طرف متوجہ ہوئے اور معلوم ہوا کہ یہ دھند اور دھوئیں کی آمیزش ہے جو موسمِ سرما کی اجلی دھند یا کہرے سے بہت مختلف اور نہایت کثیف ہے جو انسانوں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لندن وہ پہلا شہر تھا جہاں سب سے پہلے اس قسم کی فضائی آلودگی کا لوگوں نے سامنا کیا اور اس کے لیے اسموگ کا لفظ استعمال ہوا۔

    لفظ ‘‘اسموگ’’ کہاں سے آیا؟

    نہایت کثیف اور ایک خاص قسم کی بُو کے ساتھ اس کہرے کے دوسری جانب دیکھنا ممکن نہیں رہتا جس کے بعد اسےFog (دھند) اور Smoke (دھویں) کی آمیزش مان کر اسموگ  کہا جانے لگا۔ ماہرین نے بتایا کہ فضائی آلودگی کی اس شکل میں سلفرآکسائڈ، اوزون کے علاوہ کاربن مونو آکسائڈ، نائٹروجن آکسائڈ اور دیگر عناصر شامل ہیں جو صنعتوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی صورت میں آلودگی کا سبب بنتی ہیں جب کہ اسموگ کی ایک بڑی وجہ مختلف دھاتوں، فصلوں، کوئلہ وغیرہ اور دوسری اشیا کو جلانا ہے جس سے یہ مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔

    پاکستان کے علاوہ اسموگ سے کون سے ممالک متاثر ہیں؟

    اسموگ صرف پاکستان اور دوسرے ترقی پزیر ملکوں کا مسئلہ نہیں بلکہ جدید اور ترقی یافتہ ملکوں کے مختلف شہر بھی اسموگ سے متاثر ہیں اور لوگوں میں خاص طور پر نظامِ تنفس اور جلد سے متعلق امراض کی شرح بڑھ رہی ہے۔

     کینڈا، چین، لندن، سان تیاگو، چلی، میکسیکو، ایران، لاس ایجلس، منگولیا جیسے ملک اسموگ سے متاثر ہیں۔

    اسموگ سے کس طرح بچا جائے؟

    طبی ماہرین نے اسموگ سے بچنے کے لیے شہریوں کو ہر ممکن احتیاطی تدبیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے جس میں سب سے پہلے ماسک کا استعمال یقینی بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اسموگ کے دوران غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلا جائے۔ اسموگ میں کونٹیکٹ لینس کا استعمال نہ کیا جائے۔ آنکھوں کی صفائی کے لیے معالج کی ہدایت پر ڈراپس کا استعمال کریں۔ طبی ماہرین کے مطابق شہری عینک کا استعمال کریں تاکہ اسموگ سے آنکھیں براہِ راست متاثر نہ ہوں۔

  • جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید بھائی جون کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ ضرور ہوتے تھے، مگر مجلس میں دلیل، منطق اور مثال دے کر اپنا مؤقف سب کے سامنے رکھتے۔

    علمی مباحث اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے جون ایلیا تاریخ، فلسفہ، منطق، مذاہبِ عالم، زبانوں، ثقافتوں اور مختلف ادوار کی نابغۂ روزگار شخصیات کے نظریات، سیاسی و سماجی تحریکوں کے حوالے دیتے۔

    آج نظم اور نثر پر یکساں قادر، منفرد اسلوب کے حامل اورعظیم تخلیق کار جون ایلیا کی برسی منائی جارہی ہے۔
    اس باغی اور روایت شکن شاعر نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں سبھی افراد علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن اور روشن فکر تھے۔

    آئے روز علمی و ادبی نشستیں، فکری مباحث منعقد ہوا کرتیں اور کم عمر جون ایلیا کو کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک سبھی کچھ جاننے، سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس ماحول کے پروردہ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا۔

    14 دسمبر 1931 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے جون ایلیا نظم اور نثر دونوں میں باکمال ٹھہرے۔ وہ شاعر اور ایک انشا پرداز کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اپنی باغیانہ فکر کے ساتھ اپنے منفرد لب و لہجے سے انھوں نے نہ صرف دنیائے ادب میں بلند اور نمایاں مقام و مرتبہ حاصل کیا بلکہ ہر خاص و عام میں مقبول ہو گئے۔

    شاعری کی بات کی جائے تو جون ایلیا نے روایت سے ہٹ کر اپنے محبوب سے براہِ راست کلام کیا۔ یہ قطعہ دیکھیے:

    شرم، دہشت جھجھک، پریشانی
    ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
    آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
    تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

    ایک اور شعر دیکھیے:

    کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
    تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

    یہ شعر ملاحظہ ہو:

    اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
    کاش اس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی

    جون ایلیا کی زندگی میں ان کا صرف ایک ہی مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آیا جس کا عنوان تھا، شاید۔ اس کتاب کا دیباچہ جون کی زندگی کے مختلف واقعات سے آراستہ ہے۔ اس کتاب کے ان چند صفحات نے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔

    جون ایلیا کی شاعری نے ہر عمر اور طبقے کو متاثر کیا۔ ان کا حلیہ، گفتگو اور مشاعرے پڑھنے کا انداز بھی شعروسخن کے شائقین میں بے حد مقبول ہوا۔ وہ اپنے عہد کے ایک بڑے تخلیق کار تھے، جس نے روایتی بندشوں سے غزل کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اسے ایک نئے ڈھب سے آشنا کیا۔

    محبوب سے شکوہ کرنا ہو یا رسوا، زمانے کے چلن سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہو یا کسی رویے پر چوٹ، جون ایلیا خوف زدہ نظر نہیں آتے۔ وہ بات کہنے اور بات بنانے کا ہنر بھی خوب جانتے تھے۔

    علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
    وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

    اور یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

    بہت نزدیک آتی جارہی ہو
    بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

    یہ شعر دیکھیے:

    نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
    تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

    جون ایلیا ایک شاعر، مصنف، مترجم اور فلسفی کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ اردو زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور عبرانی بھی جانتے تھے اور ان کے کلام میں ان زبانوں کے الفاظ اور تراکیب پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    جون ایلیا نے زندگی کو اپنی ہی نظر سے دیکھا، سمجھا، اور اپنے انداز سے گزارا۔ وہ کسی کی پیروی اور تقلید کے قائل نہ تھے۔ ان کا باغی طرزِ فکر، ہر شے سے بیزاری اور تلخی ان کی شخصیت کا ایک حصہ بن چکی تھی۔

    جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرار
    ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں بہ خدا نہیں کیا

    8 نومبر 2002 کو جون ایلیا اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کا ایک شعر ہے:

    ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
    دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں