Author: عارف حسین

  • محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    آج اردو کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کی برسی ہے۔ محمد خالد اختر ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ساری زندگی شہرت اور ستائش سے بے نیاز اور اپنے کام میں مگن رہے۔ بطور مزاح نگار انھیں قارئین نے بہت پسند کیا اور ان کے اسلوبِ نگارش نے ہم عصر اہلِ قلم شخصیات کو بھی متاثر کیا۔

    محمد خالد اختر نے افسانہ اور ناول لکھنے کے ساتھ سفرنامے بھی تحریر کیے اور تراجم بھی کیے۔ چاکیواڑہ میں وصال ان کا ایک مشہور ناول ہے۔

    اردو زبان کے اس منفرد مزاح نگار اور صاحبِ طرز ادیب کا انتقال 2 فروری 2002ء کو کراچی میں ہوا۔ محمد خالد اختر نے زندگی کی 90 بہاریں دیکھیں۔

    اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور مشہور مزاح نگار ابنِ انشاء نے خالد اختر کے اسلوب اور طرزِ تحریر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    مشہور انشاء پرداز اور ممتاز عربی داں محمد کاظم نے شاید اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔“

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ان کے ہر قاری کو متأثر کیا۔ شہرۂ آفاق شاعر اور نثر نگار فیض احمد فیض نے اسے اردو کا اہم ناول کہا تھا اور مشہور ہے کہ انھوں نے اس ناول پر فلم بنانے کا ارادہ بھی کیا تھا۔

    23 جنوری 1920ء کو محمد خالد اختر نے پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں ہوئی اور بعد میں صادق ایجرٹن کالج میں داخل ہوئے جہاں سے 1938ء میں بی اے کیا۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں محمد خالد اختر پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوگئے اور اسی کالج میں انھیں احمد ندیم قاسمی کا قرب بھی نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ 1945ء میں محمد خالد اختر انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید تعلیم کے حصول کی خاطر لندن چلے گئے۔ وہاں سے 1948ء میں وطن واپس آئے اور یہاں ان کی ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے ہوا۔ وہ 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور چند نظمیں بھی کہیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    اردو کے اس نام ور ادب کی مزاح پر مبنی پہلی تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے افسانہ و ناول، سفرناموں کے علاوہ کئی علمی و ادبی مضامین اور شخصی بھی رقم ہوئے اور انھیں پسند کیا گیا۔ محمد خالد اختر کا ناول بیس سو گیارہ کے عنوان سے 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا تھا۔ پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں اور بعد میں افسانے کی کتاب کھویا ہوا افق شایع ہوئی جسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستان ٹیلی وژن نے ان کی شگفتہ کہانیوں کے سلسلے ’چچا عبدالباقی‘ کی ڈرامائی تشکیل بھی پیش کی۔ محمد خالد اختر نے اندلس کے معروف سیاح ابنِ جُبیر کے سفرنامہ کی تلخیص اور ترجمہ بھی کیا جو 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے محمد خالد اختر سے متعلق ایک یادگار محفل کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • نور محمد لاشاری: دل نواز شخصیت، باکمال اداکار

    نور محمد لاشاری: دل نواز شخصیت، باکمال اداکار

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اور منجھے ہوئے اداکاروں میں سے ایک نور محمد لاشاری آج ہم میں نہیں، لیکن ان کا شیریں لہجہ، محبّت بھرا انداز اور وہ کردار انھیں زندہ رکھے ہوئے ہیں جو پی ٹی وی کے ڈراموں‌ میں لاشاری صاحب نے نبھائے۔ یکم فروری 1997ء کو نور محمد لاشاری انتقال کرگئے تھے۔

    نور محمد لاشاری بھان سعید آباد کے مقام کوٹ لاشاری کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے محکمہ تعلیم سے وابستگی اختیار کرلی اور تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔

    نور محمد لاشاری نے استاد بخاری کی ناٹک منڈلی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اسٹیج ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد انھیں طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے وابستہ رہنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے صدا کاری کے میدان میں‌ خود کو منوایا اور سامعین میں مقبول ہوئے۔

    ملک میں ٹیلی ویژن کا دور شروع ہوا تو پی ٹی وی کے کراچی اسٹیشن کے لیے انھوں نے ہفتہ وار سندھی ڈرامے ناٹک رنگ سے اداکاری کا آغاز کیا۔ نور محمد لاشاری نے متعدد اردو اور سندھی ڈراموں میں‌ لازوال کردار نبھائے اور ناظرین میں مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ لگ بھگ دو درجن سندھی اور اردو فلموں میں بھی کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کا مکالموں کی ادائیگی کا مخصوص انداز، لب و لہجہ اور ایک خاص ٹھہراؤ ان کے کرداروں‌ میں‌ ایسی جان ڈال دیتا تھا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا۔

    جنگل، دیواریں، چھوٹی سی دنیا، چاند گرہن، دشت اور ماروی جیسے پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں نور محمد لاشاری نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ 1993ء میں انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار نور محمد لاشاری سے متعلق ہم لیاقت راجپر کے ایک کالم سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو مرحوم کی شخصیت ہمارے سامنے لاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ریڈیو پر لاشاری صاحب کی زیادہ دوستی نیوز کاسٹر کامران بھٹی اور رشید صابر مرحوم سے تھی جس کا گھر ریڈیو پاکستان کراچی کے قریب واقع تھا۔

    اس سے ملنے کے لیے لاشاری اکثر جایا کرتے تھے اور فلیٹ کے نیچے ففٹی سی سی موٹر سائیکل کھڑی کر کے سب سے پہلے صابر کو آواز دیتے۔ اگر وہ ہوتا تو پھر اس سے چائے کی فرمائش کرتے۔

    ایک مرتبہ لاشاری صاحب ایک کلو جلیبی لے آئے اور اسے پلیٹ میں رکھ کر کھا گئے۔ پھر کہا کہ انھیں چائے کی پیالی دی جائے جو چینی کے بغیر ہو، کیوں کہ انھیں شوگر ہے۔

    ان کی زندگی کا ایک سچا واقعہ جو وہ خود سناتے تھے کہ ایک مرتبہ کسی فلم کا ایک سین حقیقت میں بدل رہا تھا اور وہ مرتے مرتے بچے۔ انھیں پھانسی دی جارہی تھی۔

    جب سین ریکارڈ ہونے لگا تو پھندے کو روکنے والی رسی کھل گئی اور پھندا لاشاری صاحب کے گلے میں آنا شروع ہوا۔ ان کی سانس رک رہی تھی اور ڈائریکٹر اور دوسرا عملہ تالیاں بجا رہا تھا کہ کیا پرفارمنس دی ہے، مگر جب ان کی حالت خراب ہوتی دیکھی تو بھاگے اور انھیں اٹھایا۔ وہ کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے۔

    لاشاری جب جنگل شاہی میں ٹیچر تھے تو ایک ٹھیکے دار کے پاس منشی کا کام بھی کرتے تھے۔ مچھلی کے اس ٹھیکے دار کے پاس کام کرنے سے انھیں مچھیروں سے ملنا پڑتا تھا اور پھر سیہون کے قریب منچھر جھیل جا کر مچھیروں سے ملتے تھے۔ ان کا مچھلی کا شکار، رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا، ان کے طور طریقے، رسم و رواج سب دیکھ چکے تھے جو مچھیرے کا کردار ادا کرنے میں بڑے کام آئے۔

    یہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ لاشاری فوج میں بھی گئے تھے جہاں سے بھاگ آنے پر تھوڑی سزا پانے کے بعد انھیں معاف کر دیا گیا تھا۔

    نور محمد لاشاری کو منگھو پیر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • خلیفہ عبدالحکیم: علم کا بحرِ بیکراں

    خلیفہ عبدالحکیم: علم کا بحرِ بیکراں

    ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم علم و ادب اور فلسفہ کے میدان کی ایک ممتاز شخصیت تھے جو سخن گو بھی تھے اور سخن فہم بھی۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ظرافتِ طبع اور بذلہ سنجی بھی مشہور ہے۔ آج خلیفہ عبدالحکیم کی برسی ہے۔

    پاکستان سے تعلق رکھنے والے خلیفہ عبدالحکیم کو فلسفی، شاعر، نقّاد، محقّق، مترجم کے علاوہ ماہرِ اقبالیات کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی کئی تصانیف اقبال شناسی میں اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ 12 جولائی 1894ء کو لاہور میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد پشمینے کا کاروبار کرتے تھے۔ خلیفہ عبدالحکیم نے لاہور سے 1911ء میں میٹرک کرنے کے بعد علی گڑھ سے ایف۔ اے کیا۔ پھر وہ دہلی آگئے اور سینٹ اسٹیفن کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں سے 1917ء میں ایم۔ اے کر کے لاہور لوٹے اور تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے لاء کالج سے ایل ایل۔ بی کی ڈگری حاصل کی لیکن باقاعدہ وکالت نہیں کی۔ اگست 1919ء میں علامہ اقبال کی سفارش پر حیدر آباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے۔ 1922ء میں جرمنی گئے اور 1925ء میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پی ایچ۔ ڈی کرنے کے بعد وہ حیدرآباد دکن واپس آئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر اور صدرِ شعبہ مقرر ہوگئے۔ 1943ء میں امر سنگھ کالج سرینگر کے پرنسپل ہو کر کشمیر چلے گئے جہاں بعد میں ناظمِ تعلیمات بھی مقرر کیے گئے۔ 1947ء میں مستعفی ہو کر واپس حیدر آباد آگئے جہاں انہیں ڈین آف آرٹس فیکلٹی مقرر کیا گیا۔

    حیدرآباد دکن پر ہندوستان کے قبضہ کے بعد 1949ء میں وہ لاہور آگئے۔ فروری 1950ء میں ڈاکٹر صاحب کی کوششوں سے لاہور میں ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ قائم ہوا تو انھیں اس کا پہلا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا۔

    خلیفہ صاحب نے پاکستان آنے کے بعد جہاں علمی و ادبی مشاغل اور تصنیف و تالیف کا کام کیا وہیں قومی اور بین الا قوامی مذاکروں میں بھی شامل ہوتے رہے اور وہاں انھوں نے اسلامی فکر اور فکرِ اقبال کا پرچار کیا۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی لکھا بہت خوب اور معنی خیز انداز میں اپنے مؤقف کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ اقبال ڈے پر ان کے ایک مقالہ کا عنوان تھا، ”اقبال عاشقی کا گناہ گار نہ تھا۔” یہ مقالہ سینٹ ہال میں پڑھا گیا اور لوگ خلیفہ کی معنی آفرینی اور زورِ کلام سے خوب متاثر ہوئے۔ امریکہ اور ایران میں “اسلام میں تصورِ قانون” کے موضوع پر خطبہ اور پہلی بار ایران میں فارسی زبان میں تقریر میں بھی اسلامی فکر اور اقبال کے نظریے کو پیش کیا جس کی بہت تعریف کی گئی۔

    خلیفہ عبدالحکیم کی شخصیت ہمہ جہت پہلوؤں سے آراستہ تھی۔ انھوں نے جہاں اقبالیات کو اپنا موضوع تحریر بنایا ہے وہاں اردو اور مغربی ادیبوں کو بھی سراہا ہے۔ تنقید بھی لکھی اور تراجم بھی کیے۔ ان کا اپنا انداز بیان اور اسلوب منفرد اور غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ان کا شمار اہم اقبال شناسوں میں ہوتا ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم نے نہ صرف اقبالیات پر اہم کام کیا ہے بلکہ رومؔی اور غالؔب شناسی پر بھی تصانیف تحریر کیں۔ وہ 30 جنوری 1959ء کو حرکتِ قلب بند ہونے سے وفات پا گئے تھے۔ وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    خلیفہ عبدالحکیم کی چند مشہور تصانیف میں نفسیات وارداتِ روحانی، داستانِ دانش، تشبہاتِ رومی، اسلام کی بنیادی حقیقتیں، تلخیصِ خطبات اقبال، افکار غالب، حکمت رومی اور فکر اقبال شامل ہیں۔

  • عام الیکشن: ماضی کے چند مشہور سیاسی اتحاد

    عام الیکشن: ماضی کے چند مشہور سیاسی اتحاد

    پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل اُسی وقت شروع ہوگیا تھا جب آزادی کے بعد پاکستان لگ بھگ دس برس کا ہوچکا تھا۔

    دوسری طرف وطنِ عزیز کے عوام نے گزشتہ برسوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے وہ ”اتحاد“ بھی دیکھے ہیں جو عام انتخابات سے قبل تشکیل پاتے ہیں اور پھر ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ مختلف نظریات و خیالات کی حامل جماعتوں کی یہ اتحادی سیاست انتخابی اکھاڑے کے لیے ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ کے نام پر بھی ”گنجائش“ نکالتی رہی ہے۔

    پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات کے حوالے سے سیاسی اجتماعات اور امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ اس مناسبت سے ہم یہاں ماضی کے چند بڑے سیاسی اتحادوں کا ذکر کر رہے ہیں۔

    جگتو فرنٹ 1954
    متحدہ پاکستان میں 1954 سے اتحاد کی سیاست نے جنم لیا تھا۔اس وقت کے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت سے شکایت رہی کہ انہیں برابر کا شہری اورسیاسی عمل اور جمہوریت میں حصہ دار تسلیم نہیں کیا جاتابلکہ اس کے برعکس ان پر یک طرفہ فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف مشرقی پاکستان نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور 1954 میں ”جگتو فرنٹ“ کے نام سے پہلا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ اس میں عوامی لیگ، کراشک سرامک پارٹی، نظام اسلامی پارٹی اور گنا تنتری دل شامل تھیں۔ جگتو فرنٹ میں شامل مولوی فضل حق نے اس پلیٹ فارم سے اپنے مطالبات سامنے رکھے تھے،جن میں مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

    جگتو فرنٹ نے 1954 کے صوبائی انتخابات میں زبردست کام یابی حاصل کی اور حکومت بنانے میں کام یاب ہوا۔ لیکن قلیل مدت میں جگتو فرنٹ کی حکومت کو غیرجمہوری حربوں سے ختم کردیا گیا اور حکومت ختم ہونے کے بعد جگتو فرنٹ میں الزامات اور شکایات کا وہ شور اٹھا جس نے اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔

    قومی جمہوری محاذ (این۔ ڈی۔ ایف)
    1958 میں وطن عزیز پر پہلے فوجی آمر خودساختہ فیلڈمارشل جنرل محمد ایوب خان قابض ہوکر ملک کی سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ اپنے دور اقتدار کو طول دینے کے لیے انہوں نے اپنی مرضی کی جمہوریت کو پنپنے دیا اور بنیادی جمہوریت کے نام سے اپنا نظام پیش کیا۔ پہلے مارشل لا کے چار سال بعد 1962 میں فوجی آمریت کے خلاف سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے ”قومی جمہوری محاذ“ کے نام سے سیاسی اتحادبنانے کا اعلان 6 اکتوبر 1962 کو کیا۔ قومی جمہوری محاذ میں سردار بہادر، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، ممتاز دولتانہ، غلام علی تالپور اور یوسف خٹک جیسے سیاست داں شامل ہوئے۔ اس اتحاد کا مقصد اور مطالبہ آمریت کی رخصتی اور جمہوریت کی بحالی تھا۔ قومی جمہوری محاذ بھی اپنی سیاسی جدوجہد کے ثمرات سے محروم رہا اور 1963 میں اتحاد کے روح رواں حسین شہید سہروردی کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔

    مشترکہ حزب اختلاف اتحاد
    ایوبی آمریت کے خلاف 1964 میں ”مشترکہ حزب اختلاف اتحاد“ وجود میں آیا۔ 21 جولائی 1964 میں سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی قیام گاہ پر اس اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس اتحاد میں عوامی لیگ، نظام اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی اور کونسل مسلم لیگ شامل تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی بھی اس موقع پر شریک تھی۔ اس اتحاد نے آمریت کے خلاف اور محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں انتخابی مہم چلائی۔ لیکن جنرل ایوب خان جیت گئے اور فاطمہ جناح کوشکست ہوئی۔ صدارتی انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیاتو اس اتحاد نے 15 نشستیں جب کہ ایوب خان کی مسلم لیگ 120 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی یہ اتحاد خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکا اور یہ انتخابی اتحادآپس کے اختلافات کے باعث تحلیل ہوگیا۔

    پاکستان جمہوری اتحاد
    ملک میں تیسرا سیاسی اتحاد 1967 میں بنایا گیا اور یہ بھی جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف تھا۔اس میں قومی جمہوری محاذ، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ 1969 میں صدر ایوب کے خلاف تحریک عروج پر تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس تحریک میں پاکستان جمہوری اتحاد نے ”جمہوری مجلس عمل“ کا نام اپنا لیا جس میں 8 سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ حالا ت ابتر ہوگئے اور آخر کار جنرل ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا، لیکن یحییٰ خان ملک پر قابض ہوگیا او راس کے بعد جمہوری مجلس عمل تتر بتر ہوگئی۔

    متحدہ جمہوری محاذ
    1970 کے عام انتخابات کا انعقاد جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ”متحدہ جمہوری محاذ“ کا قیام عمل میں آیا۔ متحدہ جمہوری محاذ میں پاکستان جمہوری پارٹی، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام شامل تھیں۔ 23 مارچ1973 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اس اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پرفائرنگ کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں 17 افرادجاں بحق ہوئے۔متحدہ جمہوری محاذ نے سول نافرمانی کا اعلان کیاجوناکام رہی۔ بعدازاں متحدہ جمہوری محاذ منقسم ہوگیا۔

    پاکستان قومی اتحاد
    1977 میں پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیاجو9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھا۔اس میں مسلم لیگ (پگاراصاحب)، جماعت اسلامی، تحریک استقلال، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ہزاروی)، جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود)، این ڈی پی، خاکسار تحریک، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم کانفرنس شامل تھیں۔ اس و قت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ میں عام انتخابات کا اعلان کیا تھا جس سے قبل جنوری میں پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیاگیا۔ اس اتحاد نے ایک انتخابی نشان پر الیکشن میں امیدوار کھڑے کیے لیکن کوئی نمایاں کام یابی حاصل نہ کرسکا۔ پاکستان قومی اتحاد نے ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعدآمرانہ حکومت میں شامل ہوکر اپنا وجود کھو دیا۔

    تحریکِ‌ بحالیِ جمہوریت (‌ایم آر ڈی)
    6 فروری 1981 کو ایم آرڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کے نام سے نیا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ ایک مرتبہ پھر نظریاتی طور پر یکسر جدا جماعتیں جن کی تعداد نو تھی، اس اتحاد میں شامل ہوئیں۔ان میں تحریک استقلال، پاکستان ری پبلکن پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، این ڈی پی، جمعیت علمائے پاکستان، مسلم لیگ، مسلم کانفرنس، نیشنل لبریشن فرنٹ اور مزدور کسان پارٹی شامل تھیں۔ پھر جمعیت علمائے اسلام نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی اور 1984 میں عوامی تحریک بھی ایم آرڈی کا حصہ بنی۔ 1988 میں انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایم آرڈی میں پھوٹ پڑگئی اور اس کا خاتمہ ہوگیا۔

    کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی
    بابائے سیاست کے لقب سے مشہور ہونے والے نواب زادہ نصراللہ خان نے مذکورہ سیاسی اتحاد، پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ اس اتحاد میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔ 1990 میں بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد یہ اتحاد بھی منتشر ہوگیا۔

    اس کے علاوہ بھی ماضی میں کئی بڑے چھوٹے سیاسی اور انتخابی اتحاد تشکیل دیے جاتے رہے ہیں۔ اس میں 1998 میں پاکستان عوامی اتحاد، 1999میں نواز حکومت کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا قیام جب کہ 2000 میں مشرف کی آمریت کے خلاف ”اتحاد برائے بحالی جمہوریت“ (اے۔آر۔ ڈی) وجود میں آیا تھا۔ 2002 متحدہ مجلس عمل تشکیل پایا تھاجس میں مذہبی جماعتیں شامل تھیں اور بعد میں متحدہ مجلس عمل سیاسی اتحاد سے انتخابی اتحاد میں تبدیل ہوگیاتھا۔نیشنل الائنس 2002 میں تشکیل دیا گیا جو جنرل پرویز مشرف کی حامی جماعتوں پر مشتمل تھا۔

  • جیتے گا بھئی جیتے گا…(چند مقبول انتخابی نعرے)

    جیتے گا بھئی جیتے گا…(چند مقبول انتخابی نعرے)

    انتخابی مہم کے دوران جہاں عوام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی زبانی ان کا منشور اور اپنے حق میں مختلف وعدے سنتے ہیں، وہیں ان جلسوں میں نت نئے نعرے بھی عوام کے کانوں میں پڑتے ہیں۔ انتخابات سے قبل گلی کوچوں کی دیواروں پر بھی یہی نعرے دکھائی دیتے ہیں۔

    آٹھ فروری کو پاکستانی شہری عام انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے اور الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر نئی حکومت قائم ہو گی۔ ملک بھر میں سیاسی جلسے اور امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ عوام کے مسائل، مشکلات اور مطالبات آج بھی لگ بھگ وہی ہیں جنھیں حل کرنے کا وعدہ اور یقین دہانیاں یہ سیاسی جماعتیں ماضی میں بھی انتخابات کے موقع پر کرواتی رہی ہیں۔ گزشتہ کئی برس کے دوران عوام کے ان "بہی خواہوں” نے بلاشبہ ایک کام بڑی ‘درد مندی’ سے کیا اور وہ ہے عوام کے حق میں قانون سازی اور اداروں کی سطح پر عوام کے مفاد میں اصلاحات۔

    مختلف ادوارِ حکومت میں قانون سازی اور اصلاحات کا مقصد شہریوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانا، سہولیات کی فراہمی کا عمل تیز کرنا اور اسے مؤثر بنانا، سرکاری اداروں میں ہر سطح پر عملے کی کارکردگی بہتر بناتے ہوئے رشوت ستانی اور بدعنوانی کا راستہ مسدود کرنا، اداروں میں خرچ اور آمدن میں شفافیت کو یقینی بنانا اور ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق دینا رہا ہے۔ لیکن یہ امر تعجب خیز بھی ہے اور عوام کے ساتھ ایک مذاق بھی کہ آج کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی ان قوانین اور اصلاحات کے وسیعُ البنیاد مؤثر اور قابلِ ذکر نتائج سامنے نہیں آسکے۔

    یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب سیاست داں، جاگیر دار اور مراعات یافتہ طبقہ اس فرسودہ نظام کو لپیٹ کر حقیقی معنوں میں‌ ملک اور عوام کی ترقی و خوش حالی چاہیں گے۔

    عام انتخابات سے قبل آج پھر سیاست دانوں کی دھواں دھار تقریروں اور کارکنوں کے نعروں نے پاکستان کے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی ہے۔ ماضی میں بھی انتخابی جلسوں میں ایسے ہی نعرے گونجتے رہے ہیں اور ان میں سے چند نعرے بہت مقبول ہوئے تھے۔ یہ تحریر انہی مقبول سیاسی نعروں کے بارے میں ہے۔

    پاکستان میں عام انتخابات پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سب سے پہلے مارچ 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوئے، جس کے بعد دسمبر 1951ء میں سرحد کی اسمبلی کے لیے نمائندوں کا انتخاب کیا گیا۔ دو سال بعد مئی 1953ء میں سندھ اسمبلی معرضِ وجود میں آئی۔ پھر 1954ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ تاہم اس وقت انتخابات میں ووٹنگ کی شرح اور معیار خاصا پست رہا تھا۔ ایک نئے ملک کی حیثیت سے اس وقت کئی انتظامی مسائل اور رکاوٹیں‌ بھی تھیں۔ تاہم انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اکثر حلقوں نے اسے غیر شفاف قرار دیا تھا۔ ان انتخابات کے لیے ”جھرلو“ کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی جو دھاندلی اور جعل سازی کے معنوں میں مستعمل ہے۔ 1954ء میں پاکستان کی دوسری قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی لیکن 1958ء میں اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے سیاسی بساط لپیٹ کر ملک میں پہلا مارشل لا لگا دیا۔ ایوب خان نے 1965ء میں صدارتی انتخابات کرائے، جس میں صدر کا انتخاب ان کے دیے ہوئے بنیادی جمہوری نظام (بی ڈی سسٹم) کے نمائندوں نے کیا۔ 2 جنوری 1965ء کو ان انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے مابین انتخابی معرکہ ہوا اور تاریخ بتاتی ہے کہ فاطمہ جناح کو دھونس اور دھاندلی کی مدد سے شکست دی گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین اور ایوب خان کا انتخابی نشان پھول تھا۔ اس مناسبت سے بڑے شہروں اور قصبات کی دیواروں پر یہ شعر نعرے کی صورت میں لکھا دکھائی دیتا تھا، ”ایک شمع جلی جل جانے کو، ایک پھول کِھلا مرجھانے کو۔“

    دوسری طرف ایوب خان کی حمایت میں پوسٹر پر جو نعرہ درج تھا، وہ تھا، ”ملّت کا محبوب…. ایّوب ایّوب۔“ یہیں سے سیاسی جلسوں میں کارکنوں اور انتخابی مہمّات کے دوران عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے نعرے بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے۔

    1970ء کے انتخابات کو مبصرین نے غیرجانب دار قرار دیا تھا۔ اس کے لیے انتخابی مہم کے دوران کئی منفرد اور پُرکشش نعرے سامنے آئے جن میں ایک سیاسی نعرہ پیپلز پارٹی نے دیا جو آج بھی گونج رہا ہے۔ یہ نعرہ ہے ”روٹی، کپڑا اور مکان۔“ اسی طرح پیپلز پارٹی میں پنجاب کی تنظیم کے صدر شیخ محمد رشید جنھیں اس وقت بابائے سوشلزم بھی کہا جاتا تھا، انھوں نے ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یہ نعرہ بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب جھکاؤ رکھنے والوں میں بہت مقبول ہوا تھا۔ اسی انتخابی مہم میں ذوالفقار علی بھٹو نے ”طاقت کا سرچشمہ عوام“ کا جذباتی نعرہ دے کر بھی لوگوں کی توجہ حاصل کی تھی۔

    70 کے ان انتخاب میں بہت سی ایسی نظمیں بھی عوامی جلسوں اور کارکنوں کے اجتماعات میں پڑھی جاتی تھیں جن کے اشعار یا مصرع نعروں کی صورت میں مجمع میں بلند ہوتے اور ماحول کو گرما دیتے۔ اُس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ایک نئی جماعت کے طور پر ابھر رہی تھی۔ پارٹی کے بانی لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو نے عوام سے انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لیے امدادی رقم کی اپیل بھی کی تھی۔ یہ اپیل بھی نعرے کی شکل میں کی گئی اور عوام کو اس طرح‌ متوجہ کیا گیا، ”بھٹو کو ووٹ دو، پی پی کو نوٹ دو“۔

    جماعتِ اسلامی کے کارکن اپنے سیاسی مخالفین کو اس طرح للکارتے تھے، ”لاؤ ترازو، تول کے دیکھو، ساڈا پلہ بھاری ہے۔ “ 1970ء ہی کے الیکشن میں علاّمہ شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان انتخابی نشان ”چابی“ پر دنگل میں اتری تھی۔ جے یو پی کے کارکن اس نشان کی مناسب سے یہ نعرہ لگاتے تھے، ”چابی، جنّت کا تالا کھولے گی“۔

    بعد میں 1977ء کے انتخابات کا شور ہوا تو اس وقت نو جماعتوں نے ”پاکستان قومی اتحاد“ کے نام سے جڑنے کے بعد انتخابی مہم شروع کی۔ ان کا انتخابی نشان ”ہَل“تھا، اور جلسوں میں ”ہل نے مچا دی ہلچل ہلچل“ کا نعرہ گونجنے لگا۔ جولائی 1977ء میں ضیاءُ الحق کے مارشل لا اور بھٹو کی پھانسی کے بعد آج تک ہر الیکشن میں پیپلز پارٹی کا ایک مقبول نعرہ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب آمریت کے خلاف میدان میں تھیں اور انتخابی اکھاڑے میں اتریں تب ان کے جلسوں میں نعرہ بھی سنا گیا، بھٹو کی تصویر، بے نظیر بے نظیر۔

    اُدھر ضیاءُ الحق کے "مداح” بھی کم نہیں تھے۔ صدارتی ریفرنڈم کے زمانے میں ضیاءُ الحق کی حمایت میں جلسوں میں ”مردِ مومن مردِ حق، ضیاءُ الحق ضیاءُ الحق“ کا نعرہ بہت مقبول تھا۔ ملک بھر میں گلی کوچوں کی دیواریں اس مدح سرائی کا "بار” اٹھائے ہوئے تھیں۔ ضیاء دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنان نہ جھکنے والی بے نظیر، نہ بکنے والی بے نظیر کے نعرے لگاتے تھے۔ ضیاءُ الحق کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد 1988ء میں عام انتخابات کرائے گئے تو بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ اس سے قبل بے نظیر جب ضیا دور میں لاہور آئی تھیں تو ”بے نظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے اور جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا“ جیسے نعرے کارکنوں کی زبان پر ہوتے تھے۔ اس سے دو سال قبل وجود میں آنے والے اسلامی جمہوری اتحاد نے 1990 کے الیکشن میں سائیکل کے انتخابی نشان کے ساتھ یہ نعرہ لگایا تھا، ”اپنی قسمت آپ بنائیں سائیکل پر مہر لگائیں۔“ نواز شریف کے کارکنوں کا نعرہ تھا،”میاں نے مچا دی ہلچل۔‘ آئی جے آ ئی کے نو جماعتوں والے اتحاد نے اپنے انتخابی نشان سائیکل کی مناسبت سے عوام کو ایک نعرہ ”نو ستارے سائیکل نشان، جیوے جیوے پاکستان“ دیا تھا۔

    2002ء میں عام انتخابات ہوئے اور پرویز مشرف ملک کے صدر بنے تو عوام نے ایک نیا نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان“ سنا۔ آج یہ نعرہ ملکی سالمیت اور بقا کے حوالے سے کسی نہایت اہم اور بڑے فیصلے کے بعد الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ حکم رانوں کی زبان سے ادا ہوتا رہتا ہے۔

    پیپلز پارٹی نے 2008ء کے عام انتخابات میں ”علم، روشنی، سب کو کام۔ اور وہی پرانا مگر نہایت مقبول نعرہ اضافہ کے ساتھ یعنی ”روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان“ لگایا تھا۔ اس الیکشن میں نواز شریف کے انتخابی نشان شیر کی مناسبت سے سب سے مقبول نعرہ ”دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا“ تھا۔ اس وقت کے مقبول نعروں میں قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں بھی تھا، اس کے بعد جب آصف علی زرداری نے بحیثیت صدر پاکستان حلف اٹھایا تو عوام نے”ایک زرداری سب پر بھاری“ کا دل چسپ نعرہ بھی سنا۔

    کراچی اور شہری سندھ میں مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہونے والی جماعت نے انتخابی مہمات میں وہ نعرے نہیں لگائے جو ہر زبان اور قومیت کے لوگوں کو فوری اپنی جانب کھینچ لیتے، لیکن قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے، ہم نہ ہوں ہمارے بعد الطاف الطاف اور حق کی کھلی کتاب الطاف، الطاف متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کے مقبول نعرے رہے۔

    1990ء اور 2002ء کے الیکشن میں طاہر القادری کی جماعت ”پاکستان عوامی تحریک“ کا نعرہ ”جرأت و بہادری طاہر القادری“ تھا، اور بعد میں ان کی جانب سے نعرہ ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ لگایا گیا۔ پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا مقبول نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان‘ ہی رہا۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے ”انصاف، انسانیت، خود داری“ کے علاوہ ”تبدیلی کا نشان عمران خان“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔

  • کندن لال سہگل کا تذکرہ جن کی دل سوز آواز میں کئی فلمی نغمات مقبول ہوئے

    کندن لال سہگل کا تذکرہ جن کی دل سوز آواز میں کئی فلمی نغمات مقبول ہوئے

    متحدہ ہندوستان میں‌ جب فلمی صنعت کا مرکز کولکتہ ہوا کرتا تھا، اس وقت کندن لال سہگل کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول تھے۔ فلم بینوں‌ نے انھیں بطور گلوکار ہی نہیں‌ سنا بلکہ وہ انھیں اداکاری کرتے ہوئے بھی دیکھا اور اس روپ میں بھی پسند کیا۔

    سہگل کی دل سوز آواز نے انھیں ہندوستان بھر میں شہرت دی۔ لوگ انھیں سننا چاہتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ موسیقی اور گلوکاری میں کوئی کندن لال سہگل کا استاد نہیں‌ رہا بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔

    انھیں فلمی صنعت میں کے ایل سہگل کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ گلوکار سہگل رندِ بلا نوش بھی تھے اور شراب نوشی کی لت نے انھیں زیادہ عرصہ جینے نہیں‌ دیا۔ وہ 1947ء میں آج ہی کے دن جگر کے عارضے کے سبب دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ سہگل نے زندگی کی صرف 42 بہاریں دیکھیں، اور نوجوانی ہی میں‌ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔

    کندن لال سہگل نے 1904ء میں اس قوت کے جمّوں کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد امر چند سہگل تحصیل دار تھے اور مہاراجہ جموں و کشمیر کے ملازم تھے۔ والد کو اپنے بیٹے کے گانے کا شوق قطعاً پسند نہیں تھا، لیکن والدہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ ان کا نام کیسر دیوی تھا جو خود بھجن اور لوک گیت گایا کرتی تھیں۔ ماں بیٹا اکثر گھنٹوں بیٹھ کر گیت گاتے اور مناجات پڑھتے۔ سہگل کی عمر دس سال تھی جب ایک تہوار کے موقع پر انھوں نے رام لیلا میں سیتا جی کا رول ادا کیا۔ برسوں بعد کندن لال سہگل کلکتہ کے نیو تھیٹر سے وابستہ ہوگئے اور خود کو "سیگل کشمیری” کے نام سے متعارف کروایا۔ انھوں نے اپنے کام کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ تھیٹر میں اپنا نام بھی سہگل کے بجائے سیگل بتاتے تھے۔

    یہ 1938ء کی بات ہے جب سہگل نے جالندھر میں مقیم اپنی ماں کو رقم منی آرڈر کی۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ بیٹا فن کار بن گیا ہے۔ بعد میں وہ کلکتہ اور بمبئی میں گلوکار کے طور پر مشہور ہوگئے اور انھیں ایک اداکار کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    کے۔ ایل۔ سہگل نے موسیقی کی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، لیکن جمّوں ہی کے صوفی پیر سلمان یوسف کے سامنے اکثر ریاض کرتے تھے۔ کہتے ہیں سہگل نے وصیت کی تھی کہ ان کی ارتھی اٹھاتے ہوئے یہ گانا بجایا جائے جس کے بول تھے: جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

    سہگل کی شادی آشا رانی سے ہوئی جو ہماچل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی باسی تھیں۔ ان کی زندگی کا ایک قصّہ مشہور ہے کہ سہگل صاحب کی نئی فلم چنڈی داس ریلیز ہوئی تو ان دنوں وہ نئے نئے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ ایک روز سہگل اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ فلم دیکھنے آئے۔ وہاں ان کے پرستاروں نے انھیں پہچان لیا اور لوگ ان سے ملنے آتے رہے۔ اس لیے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔

    اس فلم میں بطور اداکار سہگل صاحب کی شادی کا منظر بھی تھا۔ جب پردے پر یہ سین دکھایا جا رہا تھا تو سہگل صاحب اپنی نشست پر موجود نہیں تھے اور ان کی بیوی کو یہ منظر حقیقی محسوس ہوا۔ سہگل صاحب بعد میں‌ آشا رانی کو مشکل سے یہ سمجھانے میں کام یاب ہوئے کہ وہ فلم تھی، اور اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔ اہلیہ کو یقین دلانے کی غرض سے وہ انھیں اسٹوڈیو بھی لے گئے جہاں‌ اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ سہگل صاحب کی نواسی پرمندر چوپڑا کی زبانی مشہور ہوا۔ انھیں یہ بات آشا رانی نے بتائی تھی جو ان کی نانی اور سہگل صاحب کی بیوی تھیں۔

    کندن لال سہگل نے کلکتہ میں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں سیلز مین کی نوکری بھی کی تھی۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوئی اور انھوں نے سہگل کی آواز کو بہت پسند کیا۔ بعد میں انھیں نیو تھیٹر کے ساتھ بطور گلوکار وابستہ ہونے کی پیشکش کی اور وہ اچھے معاوضے پر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔

    نیو تھیٹر میں منجھے ہوئے فن کاروں اور موسیقاروں نے سہگل کے فن کو نکھارنے میں مدد دی۔ انہی موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر سہگل نے وہ نغمے گائے جو ہندوستان بھر میں‌ ان کی پہچان بنے۔ ان میں‌ فلم دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہی، اور ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے شامل ہیں۔

    نیو تھیٹر کی فلموں کے لیے انھوں نے اداکاری بھی کی اور رفتہ رفتہ شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ انھوں نے اس زمانے کی مشہور بنگالی فلم دیو داس میں ایک معمولی کردار ادا کیا تھا اور گانے بھی گائے تھے، لیکن جب یہی فلم ہندی میں بنائی گئی تو کندن لال سہگل نے دیو داس کا مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں وہ بمبئی چلے گئے اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوئے جہاں متعدد کام یاب فلمیں ان کے حصّے میں‌ آئیں۔

    سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ انھیں غالب سے والہانہ شغف تھا اور غالب کو بہت دل سے گایا۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947ء میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔ سہگل نے جالندھر میں‌ وفات پائی۔

  • بیگم انیس قدوائی اور ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘

    بیگم انیس قدوائی اور ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘

    یہ بیگم انیس قدوائی کا مختصر تعارف اور ان کی اُس خود نوشت کی تحریری جھلک ہے جو ایک طرف تو متحدہ ہندوستان کے حالات اور بٹوارے کی کرب انگیز کہانیاں سناتی ہے اور دوسری طرف اسے پڑھ کر ہم اس زمانے کی کئی نمایاں شخصیات اور ان کے کارناموں سے بھی واقف ہوسکتے ہیں۔

    کتاب کی مصنّف بیگم انیس قدوائی نے اس آپ بیتی میں ایک جگہ لکھا ہے۔

    "1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔”

    بیگم انیس قدوائی گاندھی اور ان کی فکر سے بہت متاثر تھیں۔ گاندھی بھی ان کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ انیس کے شوہر کی بٹوارے کے موقع پر ہلاکت کے بعد گاندھی جی نے دل گرفتہ اور مایوس انیس قدوائی کے نام اپنے خط میں لکھا: "تمہارا درد اتنا وزنی ہے کہ اس کو سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے، یہ درد بانٹنا مشکل ہے لیکن تم تو انیس ہو، تم ان کیمپوں میں جاؤ، جہاں ایسے ہی مایوس دلوں کی بھیڑ لگی ہے۔ جاؤ اور انہیں دلاسہ دو۔ کیوں کہ تم ہی ایسا کرسکتی ہو۔”

    انیس قدوائی نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ ایک باشعور عورت، علم و ادب کی شوقین خاتون ہی نہیں رہیں، بلکہ ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی شہرت پائی، ایک ایسی خاتون جس نے بلا تفریقِ مذہب و ملّت بٹوارے کے موقع پر فسادات سے متاثرہ خاندانوں کو سنبھالا اور ان کی باقی ماندہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ بن پڑا، وہ کیا۔

    اگر ہندوستان میں ادبی دنیا پر نظر ڈالیں تو انیسویں صدی میں خواتین نے جہاں ناول، افسانہ، مختلف موضوعات پر تحریریں‌ لکھ کر نام و مقام بنایا وہیں آپ بیتیاں بھی سامنے آئیں اور ان میں ہم متحدہ ہندوستان کے حالات، دلّی کی بربادی کا قصّہ، آزادی کی جدوجہد اور تقسیمِ ہند کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل پڑھ سکتے ہیں۔ بیگم انیس قدوائی کی خود نوشت نے بھی قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ ان کی یہ آپ بیتی ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی اور بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس میں انیس قدوائی نے اپنے فلاحی کاموں اور اس دوران ہونے والے تجربات کے ساتھ ہندوستان کی تاریخی اور سماجی تصویر بھی پیش کی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا گیا۔ یہ خود نوشت ایک ذاتی ڈائری کی طرح ہے جس میں 1947 میں آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات اور اس کے کچھ سال بعد کا احاطہ کیا گیا ہے۔

    ادیب اور سماجی کارکن انیس قدوائی بارہ بنکی کے مشہور نیشنلسٹ قدوائی خاندان کی فرد تھیں۔ وہ بھارت میں 1956 سے 1968 تک راجیہ سبھا کی رکن بھی رہیں۔ ان کے والد وکیل تھے اور معروف اخبار ’کامریڈ‘ اور ’نیو ایرا‘ میں مزاحیہ کالم بھی لکھتے تھے۔

    بیگم قدوائی 1902ء میں پیدا ہوئیں اور 1982ء تک حیات رہیں۔ ان کے خاوند کا نام شفیع احمد قدوائی تھا اور ان کے بھائی اُس وقت کے وزیرِ قانون رفیع احمد قدوائی تھے۔ خاوند کے فسادات میں مارے جانے کے بعد بیگم صاحبہ لاوارث بچّوں کو تحفظ دینے اور ان کی دیکھ بھال کے اداروں کے قیام کے لیے کوشاں رہیں۔

    یہ خود نوشت اردو نثر کی کسی بھی مصنّفہ کی سواںح اور تاریخ کی کتاب کے مقابلے میں اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ اسے ایک باہمّت، بلند حوصلہ عورت نے رقم کیا جس کا گھر بٹوارے نے چاٹ لیا تھا، لیکن اس نے اپنی زندگی کو بامقصد اور تعمیری انداز سے گزارا اور اپنے غم و اندوہ کو ایک مثبت طاقت میں تبدیل کر دیا۔

    انیس قدوائی کی اس خود نوشت میں ان کی نثر پُر زور اور شگفتہ ہے۔ وہ اپنا طرزِ تحریر خوب صورت اشعار سے اس طرح سجاتی ہیں کہ اکثر مقامات پر ان کی نثر میں اشعار کی وجہ سے معنی خیزی پیدا ہوگئی ہے۔

    اس کتاب کے پیش لفظ میں انیس قدوائی لکھتی ہیں۔ "انیسویں صدی کا صعوبت، افلاس اور افراتفری سے بھرپور دور اپنی دکھ بھری کہانیوں کی بدولت جہاں تاریخ کا جزو بنا، وہیں اس مردم خیز زمانے نے ایسی ایسی شخصیتیں بھی ہندوستان کو تفویض کیں جنہوں نے تاریخ، صحافت، علم، سیاست اور شعر و ادب کی دنیا کو بھی مالا مال کر دیا۔”

    اپنی کتاب کے مندرجات سے متعلق وہ لکھتی ہیں، "اگلے صفحات میں آپ جن قابلِ قدر ہستیوں سے روشناس ہوں گے، وہ سب انیسویں صدی کی پیداوار اور بیسویں صدی کی تاریخ ساز شخصیتیں تھیں۔ ان کی علمی قابلیت، اخلاقی کردار، تدبر، خوش ذوقی، دنیا سے محبت بھرا لگاؤ اور دینی خوش عقیدگی موجودہ دور میں شاید عجیب معلوم ہو، لیکن وہ اس وقت ہمیں آئیڈیل، موزوں اور خالص ہندوستانی پیداوار کی حیثیت سے بہت محبوب تھے۔”

    وہ مزید رقم طراز ہیں، "لکھنے کا کوئی مقصد ہونا چاہیے، لیکن ماضی کو دہراتے وقت اکثر مقصد نگاہ سے اوجھل ہو کر صرف خاکہ یا افسانہ رہ جاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قارئین اس میں سے اپنی پسند کی یا ضرورت کی کوئی بات چن لیں۔ صفحاتِ کاغذ پر اجاگر ہونے والوں کی خاک مٹی میں مل چکی۔ بس یہ اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ویرانے دیوانوں کا تختۂ مشق نہ بن جائیں۔ بقول صفیؔ لکھنوی

    آج دیوانہ اڑاتا ہے جو ویرانے کی خاک
    کل اڑائے گا یونہی ویرانہ دیوانے کی خاک

    اس لیے اس خاک کو سمیٹ، عزت و احترام کے ساتھ نذرِ گلستاں کر رہی ہوں۔”

    بیگم انیس قدوائی نے اپنی اس خودنوشت میں ایک مقام پر لکھا، "1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔ اقبال کا شعر پڑھا تو بہت مرتبہ تھا مگر اس کے صحیح معنیٰ سمجھ میں آنے کا شاید یہی وقت مقرر تھا اور میں قائل ہو گئی کہ واقعی؎

    نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

    دہلی میں لاکھوں آدمی دیکھے مگر ان میں اور ہندوستان کے اس قدیم مایہ ناز انسان میں کوئی مناسبت نہ تھی۔ یہ ایک نیا دور تھا جس میں ہماری شجاعت اور سورمائی بچہ کو قتل کر کے بھی اتنی ہی مطمئن اور خوش ہو سکتی تھی جتنا کہ کسی بڑے دشمن کو ختم کر کے ہوتی۔ مسلمان بے تحاشا بھاگ کر کسی کونے میں چھپ کر اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتا تھا جیسے کوئی میدان مار کر آیا ہو۔ ایک دوسرا کسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر خوشی سے ناچ جاتا تھا کہ وہ پورا سپاہی بن گیا ہے۔ ملیح چہروں والے نوجوان لڑکے کالج اور اسکولوں کو چھوڑ کر دیا سلائی، مٹی کا تیل، اینٹیں اور چاقو اکٹھا کرنا تحصیل علم سے زیادہ ضروری سمجھتے تھے۔ اور پھر

    گھر جلا سامنے اور ہم سے بجھایا نہ گیا

    یہ تھا سینتالیس، اڑتالیس کا ہندوستان جس کی تصویر میں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ پڑھنے والے لطف اندوز ہوں بلکہ اس لیے کہ:

    تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
    گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

    اسی کتاب میں انیس قدوائی نے اپنے شوہر سے خط کتابت کا بتایا ہے جو تقسیم کے موقع پر دوسرے شہر میں مقیم تھے، وہاں وہ کیا کررہے تھے اور جب فسادات پھوٹے تو ان پر کیا بیتی یہ سب اس کتاب میں بتایا ہے۔ یہ کتاب اپنے طرزِ تحریر کے سبب ایک تصویری کہانی بن گئی ہے جس میں کرب ہے، کڑے وقت میں انسانی رویّوں کی منظر کشی ہے اور بہت کچھ جسے پڑھ کر دل بھر آئے۔

    انیس قدوائی کو طنز و مزاح اور انشائیہ نگاری سے دل چسپی اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھی۔ "آزادی کی چھاؤں میں” کے علاوہ ان کی تصنیف "نظرے خوش گزرے” اور "اب جن کے دیکھنے کو” کے نام سے شایع ہوئیں۔ آخرالذّکر ان کے تحریر کردہ 13 دل چسپ اور یادگار خاکوں کا مجموعہ” ہے۔

  • ابراہیم اشک: بولی وڈ کا معروف گیت نگار

    ابراہیم اشک: بولی وڈ کا معروف گیت نگار

    ابراہیم اشک کو بولی وڈ فلم کہو نہ پیار سے بطور گیت نگار بے مثال شہرت ملی۔ اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور ابراہیم اشک کا نام بولی وڈ میں ہر طرف گونجنے لگا۔ ابراہیم اشک کا بطور نغمہ نگار سفر بھی اسی فلم کی بدولت آگے بڑھا۔

    ابراہیم اشک بھارت کے ان شاعروں اور اہلِ‌ قلم شخصیات میں‌ شامل تھے جو اردو اور ہندی دونوں زبانو‌ں میں‌ لکھتے رہے۔ 16 جنوری 2022ء کو ابراہیم اشک ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    شاعری کے ساتھ ابراہیم اشک کہانی اور ٹی وی ڈراموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھتے تھے۔ صحافت ان کا پیشہ رہا اور انھوں نے بھارت کے متعدد اردو اخبارات میں کام کیا۔

    ابراہیم اشک اپنی موت سے پہلے ہفتہ بھر علالت کے باعث ممبئی کے نواح میں ایک اسپتال میں علاج کی غرض سے داخل رہے۔ ابراہیم اشک کرونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے۔

    ابراہیم اشک جن کا اصل نام ابراہیم خاں غوری تھا، وہ معروف بھارتی شعرا میں سے ایک تھے۔ ابراہیم اشک نے متعدد شعری اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں غزل اور نظم کے علاوہ دوہے اور گیت شامل ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں الہام اور آگہی قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم اشک نے شاعری کے علاوہ ادبی تنقید بھی لکھی۔ اقبال اور غالب پر ان کی کتابیں ان کی ثروت مند تنقیدی فکر کا ثبوت ہیں۔

    اجین، مدھیہ پردیش میں 20 جولائی 1951ء کو ابراہیم اشک نے آنکھ کھولی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم اجین میں ہی مکمل ہوئی، بعد میں ابراہیم اشک نے ہندی ادبیات میں ایم اے کیا۔

    اردو شاعری کا آغاز کیا تو ابراہیم غوری نے اپنا تخلّص اشک اختیار کیا۔ بولی وڈ کی فلموں کہو نہ پیار ہے، کوئی مل گیا، جانشین، اعتبار، آپ مجھے اچھے لگنے لگے، کوئی میرے دل سے پوچھے کے گیتوں‌ نے ابراہیم اشک کو شہرت اور مقام دیا۔ ان کے نغمات فلمی صنعت کے معروف گلوکاروں کی آواز میں آج بھی سنے جاتے ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: چاند نگر کے انشاء جی کی باتیں

    یومِ‌ وفات: چاند نگر کے انشاء جی کی باتیں

    "بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے، ابنِ انشاء کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے۔” آج کئی ادبی جہات کے حامل اور چاند نگر کے مالک ابنِ انشاء کی برسی ہے۔

    ابنِ انشاء کے لیے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کے قلم کے لیے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والی کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ اردو طنز و مزاح کے سرخیل سمجھے جانے والے مشتاق احمد یوسفی ہیں۔

    اردو نظم اور نثر پر حاوی ہوجانے والے ابنِ‌ انشاء نے شاعری، مزاحیہ نثر، سنجیدہ مضامین، کالم، سفر نامے لکھے اور غیرملکی ادب سے تراجم بھی کیے۔ ابن انشاء ایک بلند پایہ کالم نگار، مصنّف، مترجم، مزاح نگار اور شاعر تھے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کی ہر تحریر ان کے منفرد اسلوب اور موضوع کی وجہ سے بہت مقبول ہوئی۔ انشاء جی کے قارئین اور مداحوں کی بڑی تعداد ادبی رسائل، اخبار اور کتابیں‌ ان کی تحریر پڑھنے کے لیے خریدا کرتی تھی۔ شاعری کے علاوہ سفر ناموں، تراجم اور مختلف مضامین پر ان کی تصنیف اور تالیف کردہ کتب اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر انور سدید نے سفرناموں پر مبنی اپنی ایک کتاب میں انشاء جی کے اسلوب اور طرزِ بیان پر لکھا ہے، ’’چلتے ہو تو چین چلیے ‘‘،’’دنیا گول ہے‘‘،’’ابن بطوطہ کے تعاقب میں ‘‘اور”آوارہ گرد کی ڈائری‘‘میں ابن انشا ایک ایسے بنجارے کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو گرد و پیش پر بیگانہ روی سے نظر ڈالتا ہے لیکن در حقیقت اس کی آنکھ اشیاء کے باطن کو ٹٹولتی ہے اور ہمیں ان کے ماضی اور حال سے آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔

    ابن انشا کی شخصیت میں سرشار کے سیلانی اور میر امن کے درویش دونوں کی خصوصیات جمع تھیں، چنانچہ ان کے شوق کی کمی بھی نہیں تھی، اور وحشت کا توڑا بھی نہیں تھا۔ فقط سبب کی حاجت ہوتی تھی۔ اور یہ سبب کتابی دنیا کی کوئی غیر ملکی کانفرنس مدت مدید کا وقفہ ڈالے بغیر پیدا کر دیتی تھی۔ ابن انشا کے بیشتر سفر سرکاری نوعیت کی کانفرنسوں کی بدولت ہی ظہور میں آئے اور سفروں کا حال اخباری ضرورتوں کے لیے لکھا گیا۔

    ابن انشا کی منفرد خوبی ملکی اور غیر ملکی عادات کے درمیان موازانہ، رواں تبصرہ اور قول محال کی بوالعجبی ہے۔

    ابن انشا نے اپنے سفر ناموں میں عام قاری کی دلچسپی کے لئے معلوماتی مواد فراہم کرنے تاریخی واقعات بیان کرنے اور شخصیات کی سوانح نگاری کا فریضہ ادا کرنے کی کاوش بھی کی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید مزید لکھتے ہیں، انشا کے طنز میں فطری نفاست ہے اور اس کا مزاج غیر جذباتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جملوں کے بین السطور معانی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

    ابنِ انشاء کو سرطان کے مرض نے ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ وہ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے جہاں 11 جنوری 1978ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ابنِ انشاء کی میّت کراچی لائی گئی اور اسی شہر میں پاپوش کے قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔

    ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ وہ 15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا اور بعد میں باتیں انشاء جی کا قلمی نام اپنا لیا۔ وہ روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی اور بعد میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    شاعر اور ادیب ابنِ انشا کا پہلا مجموعۂ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا۔ اس کے بعد ان کے شعری مجموعے ’’اس بستی کے ایک کوچے‘‘ میں اور ’’دلِ وحشی‘‘ کے نام سے سامنے آئے۔ ابنِ انشاء نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ شاعری اور نثر دونوں‌ میں انھوں‌ نے بچّوں کی دل چسپی اور ذہنی سطح‌ کے مطابق ان کی تربیت اور فکری راہ نمائی کی۔ متعدد کتب کا اردو ترجمہ کیا اور خوب صورت سفرنامے لکھے جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔ ان میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔ مرحوم کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصّہ ایک کنوارے کا بہت مقبول ہوئیں۔ ابنِ انشاء کے خطوط بھی ان کے اسلوب اور دل چسپ انداز کے سبب ادبی حلقوں اور ان کے قارئین میں مقبول ہوئے۔ یہ خطوط کتابی شکل میں موجود ہیں۔

    ابنِ انشاء نے شاعری تو اسکول کے زمانے سے ہی شروع کردی تھی لیکن اصل نکھار اس وقت آیا جب تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور آئے، لاہور اس زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ تھا اور ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی، ادبی مباحث، مشاعرے، ادبی مجالس اور مختلف تنظیموں کے ہفتہ وار اجلاس میں تخلیقات پر بات کی جاتی تھی جس میں شرکت نے انشاء کے ادبی رجحانات اور ان کے افکار پر بھی اثر ڈالا۔ ابنِ‌ انشاء ملکی ادب کے ساتھ عالمی سطح پر شہرت رکھنے والے تخلیق کاروں کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے رہے اور سیکھنے سکھانے کا سفر جاری رکھا۔

    ابنِ انشا کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع ہے:

    کل چودھویں‌ کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
    کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا

    اس غزل کو پاکستان اور بھارت کے کئی گلوکاروں نے گایا اور ان کی یہ غزل بھی مشہور ہوئی۔

    انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

    اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی
    جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

    شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
    کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

    اس حُسن کے سچّے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
    جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

    اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
    یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

    اُس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
    اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

    جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے
    دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

    ابنِ انشا نے محض 51 برس کی عمر میں‌ یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ اپنے ہم عصر تخلیق کاروں اور باذوق حلقوں‌ میں‌ بھی مقبول تھے۔ انھوں نے اپنے ہم عصر تخلیق کاروں اور مختلف علمی و ادبی شخصیات کی زندگی کے بعض واقعات بھی تحریر کیے جو پُرلطف بھی ہیں اور کسی شخصیت کی کم زوریوں یا خوبیوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح ابنِ‌ انشاء پر بھی ان کے ہم عصروں نے مضامین لکھے۔ ہم ممتاز مفتی کی کتاب اور اوکھے لوگ سے ابنِ انشا کے ایک عشق کا قصّہ یہاں نقل کر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔

    جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

    مواقع تو ملے، مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

    اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

    محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

    دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

    ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔ میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

    انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا، شہرت دی، زندگی دی!‘‘ انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

    اب انشاء جی کے قلم سے نکلی ایک تحریر بھی پڑھ لیجیے۔ یہ شگفتہ تحریر اردو کے اس بے مثال تخلیق کار کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ابنِ‌ انشاء لکھتے ہیں:

    ایک روز فیض صاحب نے صبح صبح مجھے آن پکڑا۔

    کہا: ” ایک کام سے آیا ہوں۔ ایک تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یورپ میں آج کل آرٹ کے کیا رجحانات ہیں۔ اور آرٹ پیپر کیا چیز ہوتی ہے؟ دوسرے میں واٹر کلر اور آئل پینٹنگ کا فرق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھمری اور دادرا کا فرق بھی چند لفظوں میں بیان کر دیں تو اچھا ہے۔”

    میں نے چائے پیتے پیتے سب کچھ عرض کر دیا۔ اٹھتے اٹھتے پوچھنے لگے۔ "ایک اور سوال ہے۔ غالب کس زمانے کا شاعر تھا اور کس زبان میں لکھتا تھا؟” وہ بھی میں نے بتایا۔ اس کے کئی ماہ بعد تک ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر ہوگئے ہیں۔ غالباً اس نوکری کے انٹرویو میں اس قسم کے سوال پوچھے جاتے ہوں گے۔

  • 2023ء:‌ ادبی سرگرمیاں، کتب میلے اور قابلِ ذکر اعزازات

    2023ء:‌ ادبی سرگرمیاں، کتب میلے اور قابلِ ذکر اعزازات

    دنیا کی ہر زبان کے فروغ، اس زبان میں ادب کی ترویج اور اشاعت کا بڑا ذریعہ چھوٹے بڑے ادبی اجتماعات اور میلے ہوتے ہیں، اور جہاں یہ تقاریب فروغِ زبان و ادب میں کردار ادا کرتے ہیں، وہیں اہل قلم شخصیات شرکاء کی توجہ اُن مسائل کی جانب مبذول کرواتے ہیں جن کا اکثر براہِ راست عوام یا معاشرے سے تعلق ہوتا ہے۔

    2023ء میں عالمی سطح پر اور پاکستان میں بھی زبان و ادب کے فروغ اور قلم کاروں کی پذیرائی کے لیے تقاریب منعقد کی گئیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں علمی و ادبی نشستوں اور کتب میلوں کا ایک سلسلہ دیکھنے میں آرہا ہے جو خوش آئند بات ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ اس تسلسل میں کہیں کتاب اور قاری کے کم زور پڑتے تعلق کو بھی سہارا ملا ہے۔

    اس سال دنیا اور پاکستان میں زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوششوں اور اہلِ قلم کی پذیرائی کے لیے منعقد کی گئیں چند اہم اور قابلِ ذکر تقاریب پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    ادب کا نوبیل انعام
    ادب کا نوبیل انعام اس سال ناروے کے جون فوس کو دیا گیا۔ وہ معروف ڈراما نگار ہیں اور ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے ڈرامے دنیا میں سب سے زیادہ پیش کیے گئے ہیں۔ عموما جون فوس کا موازنہ ایک اور نوبیل انعام یافتہ ڈراما نگار سیموئیل بیکٹ سے کیا جاتا ہے کیونکہ ان کا کام مختصر اور سلیس زبان پر مبنی ہے جو منفرد انداز سے اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔ جون فوس 64 سال کے ہیں۔

    اکتوبر کے مہینے میں ادب کے زمرے میں اس معتبر انعام کا اعلان کرتے ہوئے سویڈش اکیڈمی نے کہا کہ جون فوس کو ان کے منفرد ڈراموں اور نثر کے لیے نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے جن کے ڈراموں اور نثر نے بے آوازوں کو آواز دی ہے کیونکہ ان کی تحریر دراصل مواد کے بجائے ایک طرز ہے، جس میں وہ بیان کیا جاتا ہے جو نہیں کہا گیا ہو۔

    نوبیل انعام پانے والے جون فوس نے کہا کہ ’میں پرجوش اور مشکور ہوں، میں اس کو ادب کے لیے انعام سمجھتا ہوں جس کا اولین اور بنیادی مقصد بھی ادب ہے‘۔ نارویجن نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے جون فوس نے کہا کہ وہ حیران بھی ہیں اور نہیں بھی، کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے ان کا نام نوبیل انعام کی فہرست میں شامل کیا جاتا رہا تھا۔

    جون فوس کے سب سے زیادہ مشہور ڈراموں میں 1989 میں لکھا گیا ’باتھ ہاؤس‘ اور 1995 میں لکھا گیا ڈراما ’میلان چولی‘ (ون اینڈ ٹو) شامل ہیں۔

    جون فوسی ایک ایسے خاندان میں بڑے ہوئے جو عیسائیت میں لوتھرانزم کی سخت شکل کی پیروی کرتا تھا لیکن وہ ایک بینڈ سے منسلک ہوگئے اور روایت کے ساتھ مذہبی عقائد سے بھی انحراف کیا۔ لیکن 2013 میں وہ کیتھولک عقیدے کے پیروکارہوگئے۔ وہ 29 ستمبر 1959 کو ناروے کے مغربی ساحل پر واقع شہر ہاگسنڈ میں پیدا ہوئے۔ فوس نے تقریباً 40 ڈراموں کے علاوہ ناول، مختصر کہانیاں، بچوں کی کتابیں، شاعری اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ وہ رئیلزم تحریک کے مقبول ادیب اور ناروے میں کلاسیک ڈرامہ نگار کی حیثیت سے جانے والے لکھاری ہنریک ابسن کے بعد دوسرے اہم ڈرامہ نگار ہیں جن کے لکھے گئے ڈرامے سب سے زیادہ اسٹیج کیے جا چکے ہیں۔

    جون فوس ادب کا مطالعہ اور تخلیقی سوچ کے ساتھ سماج و روایات کو مخلتف انداز سے دیکھتے تھے اور 1983 میں انھوں نے پہلا ناول ’ریڈ، بلیک‘ لکھ کر ادبی دنیا میں خود کو متعارف کروایا۔ ان کی نیم سوانح پر مبنی حالیہ کتاب ’سیپٹالوجی‘ کی انفرادیت فل اسٹاپ کے بغیر اس کے ایک ہزار 250 صفحات ہیں۔ ان کی اس کتاب کی تیسری جلد 2022 میں ہونے والے انٹرنیشنل بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ ہوئی تھی۔ جون فوسی کے ایک ڈرامے ’اینڈ وی ول نیور بی پارٹڈ‘ کو 1994 میں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی تھی۔ ان کے ادبی کام کو 50 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

    بکر پرائز
    بات کریں بکر پرائز کی تو 2023ء میں نومبر کی 26 تاریخ کو پال لنچ نے یہ انعام وصول کیا۔ 46 سالہ پال لنچ کو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں منعقدہ تقریب میں بکر انعام دیا گیا۔ امسال بکر پرائز کے لیے مجموعی طور پر چھ ناول نگاروں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، جن میں سے پال لنچ (Paul Lynch) اس کے حق دار قرار پائے۔

    پال لنچ یہ باوقار ادبی انعام جیتنے والے پانچویں آئرش مصنف ہیں۔ ان سے قبل یہ انعام چار آئرش مصنفین جیت چکے ہیں۔

    پال لنچ کو بکر پرائز کے ساتھ 50 ہزار برطانوی پاؤنڈ نقد رقم بھی دی گئی۔ آئرش مصنف کو Prophet Song پر یہ انعام دیا گیا ہے۔ یہ تخیلاتی ناول ہے جس میں ڈبلن شہر میں مستقبل کے آئرلینڈ میں ایک ایسے ماحول میں لکھا گیا ہے، جو مطلق العنانی سے عبارت ہے اور جس کا بنیادی خیال چار بچوں کی ایک ایسی ماں کی مسلسل جدوجہد ہے، جو اپنے خاندان کو آمرانہ اور خود پسندانہ نظام حکومت سے بچانا چاہتی ہے۔ یہ پال لنچ کا پانچواں ناول ہے۔ بکر پرائز کا سلسلہ 1968ء میں شروع ہوا تھا اور فکشن کا یہ انعام انگریزی زبان میں اس کتاب پر دیا جاتا ہے جو برطانیہ میں شائع ہوئی ہو۔

    انٹرنیشنل بکر پرائز
    انٹرنیشنل بکر پرائز کے فاتحین دی شیلٹر کے مصنف اور اس کی مترجم تھیں اور انھیں مئی 2023ء میں یہ انعام دیا گیا۔ انگیلا روڈل نے مصنف گورگی گوسبودینوو کے ناول کا ترجمہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ 2016ء میں انٹرنیشنل بکر پرائز کے ضوابط میں چند بنیادی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ یہ ایوارڈ سالانہ اور مجموعی کام کے بجائے ایک کتاب تک محدود کر دیا گیا۔ اب ضروری تھا کہ کتاب کی اصل زبان انگریزی نہ ہو، بلکہ یہ کسی بھی دوسری زبان سے انگریزی میں منتقل شدہ ہو، جس کی اشاعت برطانیہ یا آئرلینڈ میں ہوئی ہو۔

    پلٹزر پرائز
    پلٹزر پرائز صحافت، ادب، تھیٹر اور موسیقی کے شعبوں میں ایک باوقار امریکی ایوارڈ ہے۔ تاریخ، سوانح عمری، شاعری، عمومی نان فکشن اور فکشن کے زمرے میں آٹھ مئی کو پلٹزر پرائز کے لیے انیس کتابوں میں دو فاتحین بنے۔

    پلٹزر پرائز کمیٹی نے تھیٹر کے لیے لکھنے پر انعام کیلیفورنیا میں مقیم ایرانی نژاد امریکی خاتون سناز توسی کے نام کیا۔ سناز توسی نے اپنے ایک شو کے لیے پلٹزر پرائز جیتا۔

    سناز تونسی کیلیفورنیا میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والدین ایران سے امریکہ آئے تھے۔ سناز توسی کو ’انگلش‘ کے لیے ڈرامے کی صنف میں 2023 کا پلٹزر پرائز دیا گیا۔ ایران کے شہر کرج میں انگریزی زبان کی ایک کلاس پر مرتب کیا گیا یہ ڈراما 2009 کی گرین موومنٹ تک کے مہینوں میں ایرانیوں کی امنگوں اور مایوسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔

    16 ویں عالمی اردو کانفرنس
    اس سال تیس نومبر کو عالمی اردو کانفرنس کا آغاز ہوا جو تین دسمبر تک جاری رہی۔ کراچی آرٹس کونسل میں منعقدہ اس کانفرنس میں علم و ادب سے شغف رکھنے والوں اور اردو زبان کے متوالوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ یہ اس کانفرنس کا سولھواں سال تھا۔ عالمی اردو کانفرنس کا تسلسل سے انعقاد اب شہر قائد کی پہچان بن چکا ہے اور یہ کانفرنس ملک بھر میں منعقد کیے جانے والے دیگر ادبی میلوں اور تقاریب میں سب سے اہم اور نمایاں ہے۔

    اس مرتبہ کانفرنس میں مندوبین اور شرکا کی تعداد پہلے کے مقابلے میں زیادہ رہی۔ مشاہیرِ ادب، ان کی تخلیقات اور رفتگاں کا تذکرہ، اردو ناول، افسانہ، تنقید اور شاعری پر اہم اور قابلِ توجہ سیشن ہوئے۔ ان سیشنز میں فکشن اور شاعری کے علاوہ غیرافسانوی ادب بھی موضوع بنا۔ مشاہیرِ ادب میں قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور فیض، میرا جی، فہمیدہ ریاض بھی زیر بحث آئے۔

    اردو کانفرنس میں حسبِ روایت کتابوں کی تقریبِ رونمائی بھی ہوئی۔ یہ مجموعی طور پر 17 کتابیں تھیں جن میں مکمل سیشن کے تحت جاوید صدیقی کے خاکوں کا مجموعہ ’اجالے‘، بھارتی صحافی سعید نقوی کے ڈرامے ’مسلمان لاپتا ہوگئے‘ کا ترجمہ اور سینیئر صحافی سلیم صافی کی کتاب ’ڈرٹی وار‘ متشہر ہوئی۔

    اردو زبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی علاقائی زبانوں کی تخلیقات بھی اس عالمی کانفرنس میں سامنے آئیں اور ان زبانوں کی اہل قلم شخصیات کا فن و تخلیق موضوعِ بحث بنا۔ نیلم احمد بشیر کی کتاب ’مور بلیندا‘ بھی تقریب میں سامنے آئی۔ بلوچی زبان و ادب، سندھی اور سرائیکی زبان کا ادب بھی زیرِ بحث آیا۔ کانفرنس کے اہم ترین سیشنوں میں ممتاز قلم کاروں اور ادیبوں سے شرکاء نے ملاقات کی۔ ان میں مستنصر حسین تارڑ، عارفہ سیدہ زہرہ، مرزا اطہر بیگ اور بشریٰ انصاری و دیگر شامل ہیں۔ اس کانفرنس کے سبھی سیشنز کو شرکاء کی توجہ اور اہل قلم کو بھرپور پذیرائی ملی۔

    فکشن کی بات کریں تو مستنصر حسین تارڑ اور مرزا اطہر بیگ کے سیشن اہم تھے۔ کانفرنس میں گلزار اور انور مقصود کے درمیان آن لائن مکالمہ بھی ہونا تھا مگر سب انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ اس کا سبب کیا رہا، اس پر قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں۔

    عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز بھی 15 سیشن منقعد کئے گئے جس میں معروف ادیب، شاعر اور اسکالرز نے مختلف موضوعات پر بات کی۔

    فرینکفرٹ کا عالمی کتب میلہ
    فرینکفرٹ (اے ایف پی) کا عالمی کتب میلہ اس سال اسرائیل اور حماس جنگ کی وجہ سے متنازع ہوگیا۔ جرمنی میں منعقدہ میلے میں اس سال فلسطینی مصنفہ کو ایوارڈ دینے کی تقریب ملتوی کرنے کے اعلان پر اعلیٰ پائے کے مصنفین نے انتظامیہ پر کڑی تنقید کی جب کہ کئی عرب اشاعتی گروپ اس کتاب میلے سے الگ ہوگئے۔ جرمنی کا یہ سالانہ میلہ دنیا کی سب سے بڑی اشاعتی تجارتی تقریب ہوتی ہے، جہاں کتابوں کی صنعت کے بڑے ناشر اور مصنفین جمع ہوتے ہیں۔ منتظمین نے کتب میلے میں اسرائیلی مؤقف اور آواز کو اہمیت دینے اور فلسطینی مصنفہ عدانیہ شبلی کو جرمن ایوارڈ نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ ان کو اس سے قبل یہ اعزاز دینے کا فیصلہ 1949 میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ریپ اور قتل کے حقیقی واقعات پر مبنی ان کی کتاب ’’اے مائنر ڈیٹیل‘‘ کے لیے کیا گیا تھا۔ امسالہ فرینکفرٹ بک فیئر کا افتتاح بدھ 18 اکتوبر کو ہوا۔ تاہم فرینکفرٹ بک فیئر کے ڈائریکٹر کے اسرائیل سے اظہار یکجہتی کے بیانات اور جانب دارانہ فیصلے کے جواب میں مسلم اکثریتی ممالک کی متعدد اشاعتی تنظیمیں اس میلے میں شریک نہیں تھیں۔ اس بار عالمی کتاب میلے کا خصوصی مہمان ملک سلووینیا تھا۔ ہر سال فرینکفرٹ کسی نہ کسی ملک یا خطے کو اپنا اعزازی مہمان چنتا ہے۔

    لاہور میں فیض میلہ
    لاہور میں ساتواں تین روزہ فیض فیسٹیول 17 سے 19 فروری تک جاری رہا جس میں بھارتی شاعر، نغمہ نگار اور فلم ساز جاوید اختر نے شرکت کی جہاں ان کی گفتگو نے ایک تنازع کھڑا کردیا۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے انھیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جاوید اختر نے اپنے سیشن کے دوران پاک بھارت ثقافتی تعلقات، دونوں ممالک میں علاقائی زبانوں کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے دہشت گردی کے ایک واقعے اور ان ممالک کے مابین کشیدگی پر بات کی تھی۔ ان کی جانب سے الزام تراشی نے میلے کے منتظمین کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔

    فیض میلے میں مختلف موضوعات پر سیشنز منعقد ہوئے۔ اس میلے میں علمی و ادبی شخصیات اور فن کاروں کے علاوہ مختلف سیاست دان بھی شریک ہوئے اور فیض صاحب کے فن، ان کے خیالات اور شخصیت پر بات کی۔

    کراچی کے ایکسپو سینٹر میں سجائی گئیں کتابیں
    پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں امسال بھی پبلشرز اور بک سیلرز ایسوسی ایشن کے تحت عالمی کتب میلہ سجایا گیا۔ 18 واں کتب میلہ 14 دسمبر سے 18 دسمبر تک جاری رہا۔ کراچی انٹرنیشنل بک فیئر 2023 میں پاکستان، ترکی، سنگاپور، چین، ملائیشیا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات سمیت 17 ممالک کے تقریباً 40 اداروں کی کتابیں دستیاب تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس مرتبہ سالانہ بک فیئر میں چار لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔

    چند دیگر ادبی تقاریب اور کتب میلے
    کراچی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام17 سے 19 فروری تک لٹریچر فیسٹیول جاری رہا جس کی افتتاحی تقریب میں معروف سماجی شخصیت اور ایس آئی یو ٹی کے بانی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے تعاون سے الحمرا آرٹس کونسل میں تین روزہ پاکستان لٹریچر میلہ 2023 (پی ایل ایف) منعقد کیا گیا تھا جس میں مختلف فکری نشستوں کے ساتھ ادب اور فنونِ لطفیہ کو زیرِ بحث لایا گیا۔ اس میلے میں کتابوں کی رونمائی کے ساتھ ساتھ موسیقی کے پروگراموں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

    صحافی عاصمہ شیرازی کی کتاب ‘کہانی بڑے گھر کی’ اس ادبی میلے میں رونمائی کے لیے پیش کی گئی۔ یہ ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں ‘اردو فکشن میں نیا کیا’ ایک اہم موضوع تھا۔ اس کے علاوہ اکیسویں صدی کے تہذیبی چیلنج، پاکستان اور فکر اقبال کے موضوع پر بھی گفتگو کی گئی۔ 10 فروری کو اس میلے کا آغاز ہوا تھا۔

    یکم مارچ سے پانچ تاریخ تک لاہور کے ایکسپو سینٹر میں بین الاقوامی کتاب میلہ سجایا گیا۔ اس کے علاوہ 10 واں تین روزہ لاہور لٹریری فیسٹیول بھی ادب سے محبت کرنے والوں کی شرکت سے یادگار بن گیا۔ الحمرا آرٹ کونسل میں مختلف سیشنز میں ادیب و شاعر، فن کار اور علم دوست شخصیات کے علاوہ ادب سے شغف رکھنے والوں نے فکری و علمی مباحث اور کتابوں کی رونمائی میں دل چسپی لی۔

    اس سال بھی مختلف ادبی تنظیموں کے زیراہتمام اور انفرادی طور پر کتابوں کی رونمائی کے علاوہ سال بھر تنقیدی نشستوں اور مشاعروں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔