Author: عارف حسین

  • اِسّے ساگاوا: ایک ‘مشہور’ قاتل!

    اِسّے ساگاوا: ایک ‘مشہور’ قاتل!

    یہ کائنات ایک حیرت کدہ ہے، اور ہماری یہ دنیا خانۂ عجائب۔ اس دنیا میں کئی نیک نام ہو گزرے جن کی مثالیں‌ آج بھی دی جاتی ہیں اور نجانے کتنے ایسے ہیں جو بدنامِ زمانہ مگر افسانوی شہرت کے حامل ہیں۔ اِسّے ساگاوا ایک ایسا جاپانی شہری تھا جسے اُس کی کسی شخصی خوبی، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر نہیں پہچانا جاتا بلکہ وہ ایک سفاک قاتل اور جنونی تھا۔

    یہ 1981ء کا واقعہ ہے جب اِسّے ساگاوا نے رینے ہارٹویلٹ نامی ایک نوجوان ولندیزی عورت کو اپنے اپارٹمنٹ میں قتل کر کے اس کا گوشت کھایا۔ شہرۂ آفاق شہر پیرس میں ایک لڑکی کا لرزہ خیز قتل سب سے بڑی اسٹوری بن گیا۔

    اسّے ساگاوا کو گرفتار کر لیا گیا۔ قتل کی اس واردات اور اسّے ساگاوا کی گرفتاری کو اس زمانے میں اخبارات میں نمایاں جگہ دی گئی، ساتھ ہی جاپانی عوام کی مجرم اور اس کے ‘جرم’ میں دل چسپی بڑھ گئی۔ رہائی کے یہی بدنامی ساگاوا کے لیے روزگار کا ذریعہ بنی۔ اس تفصیل سے پہلے اسّے ساگاوا کے حالاتِ زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    ساگاوا نے جاپان کے ایک شہر کوبے میں دولت مند والدین کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تھی۔ 26 اپریل 1949 کو پیدا ہونے والے اسّے ساگاوا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے جسم کی لمبائی اتنی تھی کہ وہ ایک بالغ انسان کی ہتھیلی میں سما سکتا تھا۔

    وہ خوش قسمت تھا کہ اس کے والدین مال دار تھے۔ انھوں نے اپنی اولاد کو ہر آسائش اور سہولت دی اور ساگاوا نے بھرپور زندگی گزاری۔ مگر وہ سمجھتا تھا کہ دوسرے بچوں کی طرح خوب صورت بلکہ قبول صورت بھی نہیں ہے۔ اس کا احساسِ محرومی وقت کے ساتھ شدید ہوتا گیا۔ لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کس ذہنی خلفشار سے گزر رہا ہے۔ والدین نے اس کی تعلیم و تربیت کا بڑا اہتمام کیا۔ 1977 میں نوجوان اسّے ساگاوا کو پیرس بھیج دیا گیا کہ وہ سوربون اکادمی سے ادبیات میں پی ایچ ڈی کرے۔

    پیرس میں تعلیمی مراحل طے کرنے والے اسّے ساگاوا نے 11 جون 1981 کو ولندیزی لڑکی رینے ہارٹویلٹ کو اپنے اپارٹمنٹ پر مدعو کیا۔ اس نے لڑکی کو بتایا تھا کہ وہ اس سے نصابی ضرورت کے لیے جرمن شاعری کا ترجمہ کروانا چاہتا ہے۔ ہارٹویلٹ اس کے اپارٹمنٹ پہنچ گئی۔ وہ اس کی ساتھی طالبہ تھی۔ ساگاوا نے اس لڑکی کو شاعری پڑھنے کو دی۔ کچھ دیر بعد وہ بہانے سے اٹھا اور اپنی رائفل نکال لایا۔ اسّے ساگاوا نے لڑکی پر پشت سے گولی داغ دی جو اس کے سَر میں گھس گئی۔ ہارٹویلٹ موت کے سفر پر روانہ ہوگئی۔

    ساگاوا زیادہ دیر تک آزاد نہ رہ سکا اور گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اپنے جرم کی جو تفصیل بتائی وہ اسے ایک خبطی اور جنونی ظاہر کرتی ہے۔ ساگاوا نے کہا کہ ہارٹویلٹ صحت مند اور حسین تھی اور اسی لیے اسے اپنا شکار بنایا۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں خاصیتیں اس میں موجود نہ تھیں اور وہ خود کو غیرمتاثر کن شخصیت کا مالک سمجھتا تھا۔ ساگاوا نے کہا کہ وہ ایک ‘کم زور، بدصورت اور ناکافی’ آدمی ہے۔ پولیس نے جب یہ پوچھا کہ قتل کے بعد اس نے لڑکی کا گوشت کیوں کھایا تو اس سفاک قاتل نے بتایا کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ لڑکی کی ماہیت کو اس کا بدن جذب کر لے گا اور اس طرح ساگاوا کی شخصیت نکھر سکتی ہے۔

    پولیس کے سامنے ساگاوا نے کہا کہ گولی چلانے کے بعد اُسے بہت صدمہ ہوا، جس کے سبب وہ بے ہوش ہو گیا۔ مگر بیدار ہونے پر اسے پھر اس خیال نے جکڑ لیا کہ اپنے منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ ایک خوش گوار زندگی شروع کرسکتا ہے۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا۔ ساگاوا نے اعتراف کیا کہ اس نے لاش کے ساتھ جنسی فعل بھی انجام دیا اور پھر اس کا گوشت کھایا۔

    دو دن بعد ساگاوا نے لاش کو ایک دور دراز علاقے میں موجود جھیل میں پھینکنے کی کوشش کی، مگر وہاں کسی نے اسے دیکھ لیا اور مشکوک سمجھ کر پولیس کو رپورٹ کر دی۔ ساگاوا کو فرانسیسی پولیس نے جلد ہی گرفتار کرلیا اور مجرم کے اپارٹمنٹ کی تلاشی کے دوران مقتولہ کے کچھ جسمانی اعضا بھی انھیں فریج سے مل گئے۔

    ساگاوا کو قانونی طور پر پاگل قرار دیا گیا اور اسے مقدمے کے لیے نااہل تصور کرکے منصف کے حکم پر غیر معینہ مدت تک پاگل خانے میں داخل کردیا گیا۔ یہ ایک قسم کی نظر بندی تھی۔ اس زمانے میں ساگاوا سے پاگل خانے میں اِنُوہیکو یوموتو نامی جاپانی مصنّف نے ملاقات کی اور اس کی کہانی اور جرم کی تفصیلات جاپان میں شائع کروائیں۔ اس اسٹوری نے ساگاوا کو جاپان بھر میں مشہور کر دیا۔ ادھر فرانسیسی حکومت نے ساگاوا کو جاپان کے سپرد کر دیا۔ جاپان پہنچنے پر ساگاوا کو اسپتال میں داخل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اُسے صحیح الدّماغ قرار دیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جنسی کج روی کے سبب ساگاوا نے لڑکی کو قتل کیا تھا۔ اس بات کو اس لیے بھی درست تسلیم کیا گیا کہ ساگاوا فرانس میں گرفتاری کے بعد یہ بتا چکا تھا کہ وہ اکثر جسم فروش عورتوں کو اپنے اپارٹمنٹ پر لاتا تھا اور ان میں سے چند عورتوں کو قتل کرنے کا ارادہ بھی کیا مگر ہمت نہ کرسکا۔

    ساگاوا کو جاپان میں اس کی شہرت نے اکثر تقاریب میں بطور مہمان مقرر شرکت کا موقع دیا۔ وہ قلم کار بن گیا۔ اس نے کئی مضامین لکھے۔ وہ لیکچر دینے لگا جس پر جاپان میں اسے شدید تنقید بھی برداشت کرنا پڑی۔ لوگ یہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے کہ ایک جنونی اور قاتل شخص کو اس درجہ اہمیت دی جارہی ہے۔ اسّے ساگاوا نومبر 2022 میں چل بسا۔ اس کے ماں باپ 2005 میں وفات پاگئے تھے۔

    12 اگست 1986 کو ساگاوا نے فرانس کے پاگل خانے میں اپنی روانگی کا اندراج کیا تھا۔ اس کے بعد جاپان پہنچ کر وہ ایک نہایت بدنام مگر افسانوی شہرت کا حامل شخص بن گیا۔ لوگ اس پر لعن طعن کرتے تھے مگر ساگاوا نے ہر بار اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کیا اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    ساگاوا نے ایک ناول بھی لکھا اور ادیب کے طور پر اپنی زندگی شروع کی۔ اس نے اپنے جرم کے بارے میں متعدد کتابیں لکھیں اور دیگر کئی موضوعات پر اس کے مضامین بھی جرائد کی زینت بنے۔ بعد میں اس نے آدم خوری کے موضوع پر بننے والی فلم میں اداکاری بھی کی اور پھر چند فحش فلموں میں بھی کام کیا۔ ساگاوا اپنے انٹرویوز میں اپنے جرم پر پچھتاوے کا اظہار کرتا رہا۔ لیکن اسے آج بھی مطعون کیا جاتا ہے اور لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔

  • 2023: باکس آفس پر کام یابیاں سمیٹنے والی ہالی ووڈ کی فلمیں‌

    2023: باکس آفس پر کام یابیاں سمیٹنے والی ہالی ووڈ کی فلمیں‌

    سنیما کی جادوئی دنیا میں کسی فلم کی کام یابی کا درجہ اور کمائی کی انتہا باکس آفس کے ذریعے معلوم کی جاتی ہے۔ سنہ 2023ء میں جہاں کئی بڑے ناموں کے باوجود ہالی ووڈ کی فلموں نے شائقین کو مایوس کیا اور باکس آفس پر بھی امتیازی پوزیشن نہیں پاسکیں، وہیں بعض فلموں نے زبردست کام یابیاں اپنے نام کی ہیں۔

    آج بڑے پردے پر فلم سازی اور پیش کاری کا انداز ہی نہیں‌ تفریح کے ذرایع بھی بدل گئے ہیں، اور ہالی ووڈ بھی نئے رجحانات اپنا رہا ہے۔ یہاں ہم ہالی ووڈ کی اُن چند فلموں‌ کا تذکرہ کررہے ہیں جن کی وجہ سے سنیما کی رونق بڑھ گئی اور بزنس کے اعتبار سے ان فلموں نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ مستند ویب سائٹ ‘باکس آفس’ موجو پر کام یابی کے اعتبار سے سرِ فہرست فلم ‘ باربی’ رہی جس نے ریلیز کے ساتھ ہی 2023 کے سب سے بڑے اوپننگ بزنس کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل رواں برس ریلیز ہونے والی فلم ‘دی سپر ماریو برادرز’ نے اوپننگ پر ریکارڈ بزنس کیا تھا۔ سپر ماریو برادرز مووی سب سے ہٹ اینیمیٹڈ فلم بن کر سامنے آئی۔ ان کے علاوہ دیگر فلموں نے زبردست بزنس کے ساتھ شائقین کو خوب محظوظ بھی کیا۔

    رواں سال باکس آفس پر کام یاب ہونے والی ہالی ووڈ کی چند فلموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    باربی
    یہ ایک میوزیکل کامیڈی فلم ہے جس میں اداکارہ مارگو روبی اور اداکار رائن گوزلنگ کو شائقین نے بہت پسند کیا اور یہ اس سال کی سب سے کام یاب فلم بن گئی۔

    باربی کو دنیا بھر میں‌ بچّے ہی نہیں‌ بڑے بھی پسند کرتے ہیں۔ اسی کردار پر مبنی یہ فلم ایک ایسی گڑیا کے بارے میں ہے جو اپنی دنیا سے نکل کر اصل دنیا کا سفر کرتی ہے اور وہاں اسے اپنے لیے جگہ کی تلاش ہے۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد دنیا بھر میں باربی ڈولز کی فروخت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ باکس آفس کی مستند ویب سائٹ ‘باکس آفس’ موجو کے مطابق باربی نے دنیا بھر سے ایک ارب 44 کروڑ ڈالرز سے زائد کا بزنس کیا ہے جو اس سال کسی بھی فلم کا سب سے زیادہ بزنس ہے۔

    دی سپر ماریو برادرز مووی
    ایک ارب 36 کروڑ ڈالرز سے زائد کا بزنس کرنے والی اس فلم کا باکس آفس پر دوسرا نمبر ہے۔ گیمنگ کونسول ننٹینڈو کے مقبول ترین ویڈیو گیم ‘سپر ماریو برادرز’ پر بننے والی اس فلم کو دنیا بھر میں شائقین نے پسند کیا۔

    اس فلم کی کہانی ماریو نامی پلمبر کے گرد گھومتی ہے جو اپنے بھائی کے ساتھ ایک شہزادی کو آزاد کرانے کے لیے نکلتا ہے۔ کرس پریٹ، جیک بلیک اور سیٹھ روجن نے فلم کے کرداروں کو اپنی آواز دی ہے اور شائقین کی توجہ اور دل چسپی حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں۔

    اوپن ہائمر
    اس فلم کے ہدایت کار کرسٹوفر نولن ہیں اور اس سال باکس آفس پر اس فلم نے بزنس کے اعتبار سے تیسرا نمبر حاصل کیا ہے۔ فلم نے دنیا بھر سے 95 کروڑ ڈالرز سے زائد کا بزنس کیا۔ یہ ایٹم بم کے خالق کے نام پر بنائی گئی فلم ہے جس میں کلین مرفی نے جے رابرٹ اوپن ہائمر کا کردار نبھایا ہے۔

    فلم میں ان حالات و واقعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں امریکہ نے ایٹم بم بنانا ضروری سمجھا۔ فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ایٹم بم بنانے کے بعد اس کے موجد میں کیا تبدیلیاں آئیں اور وہ حکومت کے عتاب کا بھی نشانہ بنا۔

    گارڈیئنز آف دی گیلکسی والیوم 3
    ہدایت کار جیمز گن کی اس فلم نے باکس آفس پر 84 کروڑ 55 لاکھ ڈالرز کمائے ہیں۔ فلم میں اسٹار لارڈ اور اس کے ساتھیوں کا سامنا ایک ایسے حریف سے ہوتا ہے جو دنیا کا فاتح بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ فلم میں کامیڈی کے ساتھ ساتھ ایکشن کا بھی تڑکا لگایا گیا ہے۔

    فاسٹ ایکس
    یہ مشہورِ زمان ہ فاسٹ اینڈ دی فیوریس سیزیز کی دسویں فلم باکس آفس پر دنیا بھر سے 70 کروڑ 47 لاکھ سے زائد ڈالرز کمانے کے ساتھ شائقین کی دل چسپی کا مرکز بھی بنی۔ فلم اسٹار کاسٹ پر مشتمل تھی جس میں مرکزی کردار ون ڈیزل نے ادا کیا تھا جس کے پیچھے ایک ایسا شخص پڑ جاتا ہے جو اپنے باپ کی موت کا ذمے دار ڈومینیک اور اس کے ساتھیوں کو سمجھتا ہے۔ اس فلم میں حیران کن اسٹنٹس پیش کیے گئے ہیں۔

    اسپائیڈر مین: اکروس دی اسپائیڈر ورس
    چند سال قبل جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اینیمیٹڈ فلم ‘اسپائیڈر مین ان ٹو دی اسپائیڈر ورس’ نے شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا اور اس سال اسی سیریز کی یہ دوسری فلم ریلیز ہوئی جس نے دنیا بھر میں 69 کروڑ پانچ لاکھ ڈالرز سے زائد کا بزنس کیا۔ اس فلم کی کہانی بھی مائلز مورالیس نامی نوجوان کے گرد گھومتی ہے جس کی دوسری دنیا کی تمام اسپائیڈر مخلوق مخالف ہوجاتی ہے۔ تاہم مائلز مورالیس اپنے ہم خیال اور اسپائیڈر فرینڈرز کی مدد سے مشکلات سے نکلتا چلا جاتا ہے۔

    دی لٹل مرمیڈ
    والٹ ڈزنی اسٹوڈیو کی فلم دی لٹل مرمیڈ نے دنیا سے تقریباً 57 کروڑ ڈالرز کمائے ہیں۔ اس میوزیکل رومانوی فلم کی کہانی ایریل نامی ایک ایسی جل پری کے گرد گھومتی ہے جس نے کبھی انسانوں کو نہیں دیکھا تھا اور جب پانی میں رہنے والی یہ مخلوق انسانوں کی دنیا میں آتی ہے تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    مشن امپاسبل: ڈیڈ ریکننگ پارٹ ون
    مشہور اداکار اور پروڈیوسر ٹام کروز کی اس فلم نے باکس آفس کے مطابق تقریباً 56 کروڑ 75 لاکھ ڈالرز کمائے ہیں۔ فلم کی کہانی امپاسبل مشن فورس نامی ایک تنطیم کے گرد گھومتی ہے جس کا کام دنیا بھر میں امن قائم کرنا اور کسی بھی ایک ملک کی دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کو روکنا ہے۔

    رواں‌ برس انڈیانا جونز کی واپسی اور مشہورِ زمانہ سپہ سالار نپولین پر بننے والی فلم باکس آفس پر ناکام ہوئی۔ اسی طرح یہ سال سپر ہیروز کے لیے بھی زیادہ اچھا نہیں رہا جس کی مثال شیزام، کیپٹن مارول اور دی فلیش ہیں۔

  • دنیا کی کہانی!

    دنیا کی کہانی!

    دنیا کی کہانی ایک عجیب داستان ہے کہ جس کی زبانی بیان ہو، اُسی کے مطلب کی ہو جاتی ہے۔ وہ بہت لمبی ہے اور بہت چھوٹی بھی، بہت سیدھی سادی اور بہت الجھی ہوئی بھی۔

    وہ ہمیں دلاسا بھی دیتی ہے اور اداس بھی کرتی ہے، لبھاتی بھی ہے اور ڈراتی بھی ہے۔ وہ ان کہانیوں کی طرح ہے جنہیں بچے ضد کر کے رات کو سونے سے پہلے سنتے ہیں اور سنتے سنتے سو جاتے ہیں۔

    وہ کہیں سے شروع نہیں ہوتی اور کہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس میں جو سچی باتیں ہیں وہ کہانی معلوم ہوتی ہیں اور بہت سی باتیں جنہیں ہم سچ سمجھتے ہیں، جی بہلانے کے قصے ہیں۔ وہ ہم میں سے ہر ایک کی آپ بیتی بھی ہو سکتی ہے اور ایک تماشا بھی کہ جس میں آدمی کی صورت کی بس ایک جھلک سی دکھائی دیتی ہے، ایسی کہ ہم کہہ نہیں سکتے کہ اسے دیکھا یا نہیں دیکھا۔

    تو میں اس کہانی کو، جس کا سرا کہیں نہیں ملتا، کہاں سے شروع کروں؟اس وقت سے جب دنیا پیدا ہوئی؟ یعنی کب سے؟ بچّوں کو تو ہم سمجھا دیتے ہیں کہ اس دنیا کو خدا نے بنایا۔ کب بنایا؟ کیسے بنایا؟ کیوں بنایا؟ یہ ہم نہیں بتاتے، اس لیے کہ ہم خود جانتے نہیں۔ لیکن ہر زمانے میں عقل مند لوگ اپنی لاعلمی کو چھپانے اور کم سمجھ والوں کی تسکین کے لیے کوئی نہ کوئی دل چسپ کہانی سنا دیتے ہیں، سنسار کے بھیدوں پر کوئی ایسا خوب صورت پردہ ڈال دیتے ہیں کہ ہم پردے کو دیکھتے رہ جائیں اور یہ پوچھنا بھول جائیں کہ اس کے پیچھے کچھ ہے بھی یا نہیں۔

    آج کل کے عالم کہتے ہیں کہ ہماری دنیا پہلے ایک آگ کا گولا تھی، اس آگ کا نہیں جو ہمارے گھروں میں جلتی ہے، اس آگ کا بھی نہیں جو ہمارے دلوں کو گرم رکھتی ہے اور کبھی کبھی جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ یہ ایک اور ہی آگ تھی جو بن جلائے جلی اور بن بجھائے بجھ گئی۔

    شاید یہ وہ چیز تھی جسے ہم بجلی کہتے ہیں، شاید نہیں تھی۔ لیکن کبھی نہ کبھی دنیا آگ کا گولا تھی ضرور، کیونکہ ہمیں ایسے ہی لاکھوں اور کروڑوں آگ کے گولے آسمان میں چکر کھاتے دکھائی دیتے ہیں اور ہماری زمین پر اب بھی آتش فشاں پہاڑ جب چاہتے ہیں دہکتی آگ اگل دیتے ہیں یا زمین کے اندر سے کھولتے پانی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔ دوسرے آگ کے گولے جو دنیا سے بہت بڑے اور بہت زیادہ پرانے ہیں، اب تک آگ ہی آگ ہیں۔ دنیا میں یہ آگ، پانی اور زمین کیوں بن گئی، یہ ہمیں نہیں معلوم، بس ہماری قسمت میں کچھ یہی لکھا تھا۔

    ہاں، تو پھر ایک وقت آیا جب دنیا سرد پڑ گئی، بھاپ اور دوسری گیسیں پانی ہو گئیں، جو زیادہ ٹھوس حصہ تھا وہ چٹان بن گیا۔ یہ سب ہوا کب؟ آج کل کے عالِم زمین کی ساخت سے، چٹانوں اور دھاتوں سے کچھ حساب لگا سکتے ہیں۔ لیکن یہ حساب سنکھ دس سنکھ برس کے بھی آگے نکل جاتا ہے اور ہم ایسے ہیں کہ کل پرسوں کی بات بھی بس یونہی سی یاد رکھتے ہیں۔ بیچارے آدمی کی کھوپڑی میں سائنس کا یہ حساب سما نہیں سکتا، اور جب سما نہیں سکتا تو اسے یہ حساب بتانے سے فائدہ کیا؟

    لیکن عقل مندی بھی ایک چیز ہے اور شاید یہ بھی ایک طرح کا علم ہے کہ جس میں آدمی کہہ سکے کہ میں جانتا ہوں مگر سمجھتا نہیں، اس لیے کہ میری سمجھ چھوٹی ہے اور علم بہت بڑا۔ میں اپنے چلّو سے اس سمندر کو ناپ نہیں سکتا تو نہ سہی، پر میں جانتا تو ہوں کہ اس میں کتنے چلّو پانی ہے اور کوئی میرے حساب کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ سائنس کا حساب بالکل چوکس ہے، فرق نکلا تو کروڑ دس کروڑ کا ہوگا اور ہو کوئی بات نہیں۔ لیکن کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ ایسا حساب کتاب کرنے والوں سے وہ لوگ زیادہ سمجھتے اور زیادہ جانتے ہیں جن کا یہ ایمان ہے کہ اس دنیا جہان کو خدا نے بنایا اور اس کا ہر ذرہ اس کی قدرت کا کرشمہ ہے اور اب تو وہ سائنسداں بھی جو اپنے علم کو ایک ڈھکوسلا نہیں بنانا چاہتے، کہتے ہیں کہ ہمارا حساب کا طریقہ ایک خاص حد کے آگے کام نہیں دیتا، ہم اپنے علم سے نہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ سورج، چاند، تارے اور ہماری یہ دنیا خود بخود پیدا ہو گئی نہ یہ کہ اسے کسی نے پیدا کیا۔

    دنیا جب سرد پڑ گئی تھی تو کہیں سے سمندر کی تہ میں زندگی کا بیج پہنچ گیا۔ وہاں وہ پھٹا اور پھلا پھولا۔ لاکھوں کروڑوں برس میں طرح طرح کے بھیس بدلے، آہستہ آہستہ یعنی وہی لاکھوں کروڑوں برس میں اس نے پودوں اور کیڑوں کی صورت میں خشکی کی طرف قدم بڑھایا۔ پانی کے بغیر، یعنی سانس لے کر زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا کی۔ پودے اونچے ہونے لگے اور سر اٹھا کر آسمان کی طرف لپکے۔ جو کیڑے تھے وہ مچھلی بن کر تیرے، اتھلے پانی میں پاؤں کے بل چلنے لگے۔ خشک زمین پر رینگنا شروع کیا، ہوا میں پرند بن کر اڑے، چو پاؤں کا روپ لے کر دوڑنے پھرنے لگے۔

    کہتے ہیں کہ اتھلے پانی اور خشکی میں زندگی نے جو یہ ابتدائی شکلیں پائیں وہ بڑی بھیانک تھیں۔ چالیس پچاس فٹ لمبے مگرمچھ، بیس بیس ہاتھ اونچے ہاتھی، کسی جانورکی گردن اتنی لمبی کہ ہوا میں اڑتے پرندوں کو پکڑ لے، کسی کا منہ اتنا بڑا کہ آج کل کی گائے بھینس کو نگل جائے اور ڈکار نہ لے۔ ایک جانور کی ہڈیاں ملی ہیں جو منہ سے دُم کے سرے تک سو فٹ سے زیادہ لمبا ہوگا۔

    ان جانوروں کو جو نام دیے گئے ہیں وہ بھی ایسے ہی بھیانک ہیں۔ برنٹوسورس (BRONTO SAURUS)، اکتھیوسورس (ICHTHYO SAURUS)، میگیلوسورس (MEGALO SARUS) وغیرہ۔ لیکن دنیا کو شاید اپنی یہ اولاد پسند نہ تھی، یا یہ جانور بڑھتے بڑھتے ایسے بے ڈول ہو گئے کہ زندہ رہنا دشوار ہو گیا۔ بہرحال وہ غائب ہو گئے اور جب تک آج کل کے سائنسدانوں کوان کی ہڈیاں نہیں ملیں کسی کو پتا بھی نہ تھا کہ ایک زمانے میں ایسے دیو اور اژدہے ہماری دنیا میں آباد تھے۔

    خشکی پر ان بڑے جانوروں کے بعد جو نئے نمونے نظر آئے وہ تھے تو ایسے ہی ڈراؤنے مگر ان میں آج کل کے جانوروں کی طرح یہ صفت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو شروع میں دودھ پلاکر پالتے تھے۔ ایسے جانور شاید اس لیے کہ وہ غولو ں میں رہتے تھے، ماں باپ کو اولاد سے محبت تھی اور وہ اپنے بچوں کی حفاظت کرتے تھے، پہلی قسم کے جانوروں سے زیادہ سخت جان نکلے اور دنیا کی مصیبتوں کو جھیل لے گئے۔ پھر بھی ان کی بہت سی قسمیں مر مٹیں، جو باقی بچیں ان کے بھی جسموں میں ایسی تبدیلیاں ہوتی رہیں کہ وہ موسم کی سختیوں کو زیادہ اچھی طرح برداشت کر سکیں اور دوسرے جانوروں سے اپنی جان بھی بچا سکیں۔

    اسی طرح ترقی کرتے کرتے جانوروں کی ایک قسم نے ایسی شکل پائی ہوگی جو آدمیوں کی شکل سے کچھ ملتی ہو گی۔ جانوروں کی اس قسم کو آسانی کے لیے ہم مانس کہہ سکتے ہیں۔ ان بن مانسوں نے چار پیروں کی جگہ دو پیروں سے چلنا سیکھا اور اگلے دو پیروں سے پکڑنے، اٹھانے اور پھینکنے کا کام لینے لگے۔ قدرت نے ان کی مدد کی اور ان کے اگلے دو پیر پنجوں کی طرح ہو گئے۔ ان کی زبان بھی کچھ کھل گئی اور وہ دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ ہوشیار ہو گئے۔

    یہ سب ہزاروں برس میں ہوا اور پھر کہتے ہیں کہ دنیا کی آب وہوا بدلی، وہ ایسی ٹھنڈی پڑی کہ اس کا بہت سا حصہ برفستان ہو گیا اور برف کے کھسکتے اور پھسلتے پہاڑوں نے سب کچھ اپنے تلے روند ڈالا۔ پھر گرمی آہستہ آہستہ بڑھی۔ برفستان پگھل کر سمندر ہو گئے اور زندگی پھر ابھری اور پھیلی، اس طرح چار مرتبہ ہوا اور اس وقت زمین میں کئی سو گز نیچے تک ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہ انہیں گرمی اور سردی کے پھیروں کی داستاں سناتا ہے۔ اس زمانے میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بن مانسوں کا برا حال ہوا ہوگا۔ ان میں سے بعض کی ایک دو ہڈیاں برف کے نیچے اور جانوروں کی ہڈیوں کے ساتھ دفن ہو گئیں اور اب زمین کے اندر بہت دور پر ملی ہیں، جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کتنے کروڑ یا لاکھ برس پہلے آباد تھے اور ان کے زمانے میں زمین کی صورت کیا تھی۔

    لیکن انہوں نے اسی دوران میں شاید دو چار باتیں سیکھ لی تھیں جو بہت کام کی تھیں۔ کہیں جنگلوں کو جلتے دیکھ کر انہوں نے پتا لگا لیا تھا کہ آگ کیسے جلاتے ہیں اور پھر وہ اپنی کھوہوں اور غاروں میں آگ جلاکر تاپنے لگے اور اس میں جانوروں کا گوشت اور شاید چند پھلوں اور جڑوں کو بھوننے لگے۔ وہ پتھروں کو گھس کر ان سے پھونکنے چھیلنے اور کاٹنے بھی لگے اور اس نے ان کی زندگی کو کچھ اور آسان کر دیا۔ آج کل کا علم ہمیں بتاتا ہے کہ ہم انہی بن مانسوں کی اولاد ہیں اور جیسے جانور ترقی کرتے کرتے بن مانس ہوئے تھے ویسے ہی بن مانس آدمی ہو گئے۔

    لیکن آج کل کا علم ان بن مانسوں کی کسی ایک قسم سے ہمارا رشتہ نہیں جوڑتا۔ ہیں تو ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے لیکن ہم جس خاص نمونے پر بنے ہیں اس کی پہلی مثالیں ابھی تک نہیں ملی ہیں۔ جاوا میں ایک جگہ پر ایک کھوپڑی کے اوپر کا حصہ، تھوڑے سے دانت، اور جبڑے کی ہڈی ملی ہے، یہ ایک ایسے جانور کی ہڈیاں معلوم ہوتی ہیں جس کا بھیجا بندر کے بھیجے سے کچھ بڑا تھا۔ یعنی اس کی عقل بندروں سے کچھ زیادہ تھی جو دو پیروں پر کھڑا ہو سکتا تھا اور دوڑ سکتا تھا اور اس لیے وہ اپنے ہاتھوں سے کام لے سکتا تھا۔

    جرمنی کے ایک شہر ہائیڈل برگ کے قریب اسی (۸۰) فٹ کی گہرائی پر جبڑے کی ایک ہڈی ملی اور بنانے والوں نے اس پر غور کرتے کرتے ایک جانور بنایا ہے، جو اس جانور کے مقابلے میں جس کی ہڈیاں جاوامیں ملی ہیں، آدمی سے زیادہ ملتا ہے۔ مگر نہیں آدمی یہ بھی نہیں۔ بس اس کے دانت ایسے ہیں جن کی مثال جانوروں میں نہیں پائی جاتی، وہ کسی طرح کے آدمی ہی کے ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انگلستان کے ضلع سسکن میں ایک کھوپڑی کے ریزے اور ٹکرے اور جبڑے کی ہڈی اتفاق سے ہاتھ لگی ہے۔ اس کی مدد سے بھی ایک شکل بنائی گئی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آدمی کی یا بندر کی، اس لیے کہ شکل بنانے والے خود فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔ بہرحال وہ ایک طرح کے بن مانس کی شکل ہے، آدمی سے اس کا کتنے قریب کا دور کا رشتہ تھا، اس کاہم ٹھیک سے اندازہ نہیں کر سکتے۔

    ہڈیوں سے آدمی بنانے کا جو یہ فن ہے، اس کے عالم کہتے ہیں کہ ہم جیسا کہ چاہئے تلاش بھی نہیں کر سکے ہیں۔ ابھی تک صرف یورپ اور امریکہ میں لوگوں کواس مسئلے سے دل چسپی ہوئی ہے۔ یہ دنیا کے ایسے حصے ہیں جہاں ہمیشہ سے سردی زیادہ رہی ہے اور شروع میں آدمی کو ایسی جگہ زندگی بسر کرنے میں بے انتہا دشواریاں ہوئی ہوں گی۔ تلاش کرنے کی جگہیں اصل میں جنوبی اور جنوب مغربی ایشیا، افریقہ، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ ہیں اور یہاں ابھی بہت کم کام ہوا ہے، یا بالکل ہی نہیں۔ یہاں اگر کافی شوق اور محنت سے کھوج کی جائے تو ہمیں ضرور ایسے آثار ملیں گے جن سے ہمارے علم کی کمی پوری ہو جائے گی اور آدمی اور جانور کا رشتہ ثابت اور مضبوط ہو جائے گا۔

    اب ایک بڑی مشکل بحث یہ ہے کہ عالم جو آدمی کو بن مانس کا سگا بتاتے ہیں اور وہ مذہب جو آدمی کو آدم کی اولاد ٹھہراتے ہیں اور آدمی کی کہانی اس وقت سے شروع کرتے ہیں جب حضرت آدمؑ جنت سے نکالے گئے، یہ دونوں ایک ہی بات اپنے اپنے طریقے سے کہتے ہیں یا مختلف باتیں، جن میں سے ایک غلط اور ایک صحیح ہے۔ میرے خیال میں حجّت کرنے کی نوبت نہ آئے گی، اگر ہم سمجھ لیں کہ مذہب علم کی ایک الگ اور اعلی قسم ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کے ذریعہ اور ہیں اور اس کا مقصد اور۔

    مذہب کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کس جانور کی ہڈیاں کیسی ہوتی ہیں اور اگر وہ اس گہرائی پر اور اس تہ میں ملیں تو اتنے زمانے کی ہیں اور اس کے اوپر ملیں تو اتنی پرانی۔

    مذہب میں وقت کوئی چیز نہیں، جو کچھ ہے زندگی ہے۔ مذہب کی نگاہ زمین پر نہیں ہوتی، آسمان پر ہوتی ہے، آدمی کے جسم پر نہیں ہوتی، اس کے دل پر ہوتی ہے۔ مذہب کے لیے مطلب کی بات وہ ہوتی ہے جو آدمی کو بہتر بنائے، اس کے لیے سچ وہی ہے جو سچائی کا حوصلہ پیدا کرے۔ دراصل سچے علم اور سچے مذہب کا اختلاف نہیں ہوتا، اختلاف تو ایک طرف وہ لوگ پیدا کرتے ہیں جو بغیر علم حاصل کیے مذہبی رہنما بننا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ جو مذہب کی اصلیت کو سمجھے بغیر اپنے علم کو اس کے مقابلے پر کھڑا کر دیتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ ہم ان کے جھگڑوں میں پڑے تو ہماری سمجھ میں بھی کچھ نہ آئےگا۔

    اب سات آٹھ دس ہزار برس پہلے تک دنیا کی کہانی جو سائنس ہمیں سناتی ہے، ہماری کہانی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس وقت ہمارے جیسے انسان جنہیں نیکی اور بدی کا علم تھا، پیدا نہیں ہوئے تھے۔ قدرت نے کس طرح کروڑوں برس میں بناتے بناتے آدمی کی شکل بنائی، اس کا بھی ہماری آپ بیتی سے کوئی تعلق نہیں کہ ہماری آپ بیتی تو تبھی سے شروع ہو سکتی ہے جب سے ہم نے اپنے آپ کو پہچانا۔ یہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی برادری کو ایک قدیمی انسان کی اولاد بتانا زیادہ صحیح ہے یا اسے بیسیوں ایک دوسرے سے بیر رکھنے والی نسلوں میں تقسیم کرنا، فقط اس ضد میں کہ اس قدیمی انسان کی نہ کہیں ہڈیاں ملی ہیں اور نہ کسی پتھر پر اس کا نام کھدا ہوا ملاہے۔ سائنس یقین کے ساتھ نہیں بتلا سکتی کہ آدمیوں کی پہلی نسل کون تھی، اور کہاں تھی، تو پھر سائنس سے یہ کیوں پوچھیں کہ حضرت آدمؑ کوئی بزرگ تھے بھی یا نہیں۔

    (ہندوستان کے معروف اسکالر، ماہرِ تعلیم اور ادیب محمد مجیب کے قلم سے)

  • جون ایلیا: جھگڑا مول لے لینے کا خوگر شاعر

    جون ایلیا: جھگڑا مول لے لینے کا خوگر شاعر

    جون ایلیا اپنے مزاج کے شاعر تھے۔ اذیت اور آزار کے آدمی! بلاشبہ اردو نظم اور نثر میں ان کے لہجے کا انفراد، ندرتِ بیان اور انداز انھیں ہم عصر شعراء میں ممتاز اور ہر خاص و عام میں مقبول بناتا ہے۔ آج جون ایلیا کی برسی ہے۔

    اردو شاعری کو منفرد لب و لہجہ اور آہنگ عطا کرنے والے جون ایلیا حسن پرست اور وصالِ یار کے مشتاق تو نظر آتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ زندگی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور جب یہ بیزاری اُن پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میر جیسا دماغ اُن کو شاید نہیں تھا، لیکن غالب جیسی انا ضرور اُن میں‌ تھی۔ جون ایلیا کہتے ہیں،

    حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
    ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

    جون ایلیا کا انشائیہ پڑھیے

    ان کی نظم سزا کا یہ بند ملاحظہ کیجیے

    میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
    میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
    اپنی متاعِ ناز لٹا کر مرے لیے
    بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

    جون ایلیا الفت و کلفت، روٹھنے منانے تک نہیں‌ محدود نہیں رہتے بلکہ ان کی خود پسندی اور انا انھیں دُشنام طرازی تک لے جاتی ہے۔

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    جون ایلیا کی ایک تحریر پڑھیے

    اردو کا یہ مقبول شاعر 2002ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ جون ایلیا ایک شاعر، فلسفی، انشائیہ نگار تھے جو اردو کے علاوہ عربی، فارسی زبانیں بھی جانتے تھے۔ وہ زبان و بیان کی باریکیوں اور املا انشا کا بہت خیال رکھتے تھے۔

    ان کے بارے میں ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہی تھے، لیکن اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل و منطق اور تاریخی حوالہ جات سامنے رکھتے۔ تاریخ و فلسفہ، مذہب اور ثقافتی موضوعات پر ان کی خوب نظر تھی۔

    جون ایلیا امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جس میں‌ سبھی لوگ علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن کے مالک اور روشن خیال تھے۔ جون ایلیا کا سنہ پیدائش 14 دسمبر 1931ء ہے، ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے۔ جون ایلیا کے بھائی سید محمد تقی دانش وَر اور فلسفی مشہور تھے جب کہ رئیس امروہوی اردو کے بڑے شاعر تھے۔ ان کے گھر میں علمی و ادبی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ جون ایلیا ایسے ماحول کے پروردہ تھے جس میں کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک انھیں بہت کچھ جاننے، سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا اور نثر میں‌ بھی اظہارِ خیال کرنے لگے۔

    جون ایلیا کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں جب کہ شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے شایع ہوئے۔

    حکومتِ پاکستان نے جون ایلیا کو سنہ 2000ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے لہجے کی بیباکی، اشعار میں برجستگی اور خاص طور پر شاعری میں محبوب سے اُن کی بے تکلفی نے انھیں نئی نسل کا مقبول ترین شاعر بنا دیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں‌ کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے اور جون ایلیا کو سننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے۔

  • ن م راشد: اردو نظم کا بڑا شاعر

    ن م راشد: اردو نظم کا بڑا شاعر

    ازل سے فطرتِ آزاد ہی تھی آوارہ
    یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

    ن م راشد نے جہانِ سخن میں شوق کو اپنا راہ نما کیا۔ اگر یہ شاعر کسی کو راہ بَر مان کر اس کا ہاتھ تھام لیتا، کسی کی پیروی کرتا تو شاید اردو نظم کی سیج پر روایت سے انحراف کے ایسے پھول بھی نہ کھلتے جن کی خوش بُو چمن زارِ سخن میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور یہ پھول آج بھی لہک لہک کر انسان دوستی، محبّت، وفا اور خلوص کے ترانے سنا رہے ہیں۔ ن م راشد کی شاعری جذبات کی دل آویز کھنک کے ساتھ انسانوں کے دُکھوں اور مصائب کا ادراک کرواتی ہے۔ ان کی نظمیں فرسودہ نظام کو مسترد کرتی ہیں۔ راشد کے تخیل کی یہ آوارگی، خود آگاہی کا وسیلہ بنی اور اس کے طفیل اردو شاعری متنوع اور غیر روایتی موضوعات پر شان دار نظمیں ملیں۔ راشد کی شاعری نرم اور سادہ نہیں بلکہ کھردرے جذبات کی عکاس ہے۔

    آج اردو کے اس جدّت طراز اور روایت شکن شاعر کا یومِ وفات ہے۔ 9 اکتوبر 1975ء میں‌ ن م راشد نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ والد ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ دادا ایک بڑے معالج تھے اور اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ ن م راشد کے والد بھی شاعری کے دلدادہ تھے۔ راشد کے والد خود شعر کم کہتے تھے لیکن ان کی بدولت راشد کو اردو فارسی کے بڑے شاعروں کے کلام سے آگاہی ہوئی۔ راشد اسکول کے زمانہ میں انگریزی کے شاعروں سے بھی متاثر ہوئے اور انھوں نے ملٹن، ورڈسورتھ اور لانگ فیلو کی بعض نظموں کے ترجمے کیے اور اسکول کی ادبی محفلوں میں پڑھ کر انعام کے حقدار بنے۔

    راشد کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق ہو گیا۔ راشد، یکم اگست 1910ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے جن کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ ان کا تعلق ایک خوش حال گھرانے سے تھا۔ راشد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کئی اہم عہدوں‌ پر فائز رہے۔ انھوں نے انگریزی، فلسفہ، تاریخ اور فارسی بھی پڑھی۔ انگریزی میں متعدد مضامین بھی لکھے جو رسائل اور اخبار کی زینت بنے جب کہ شاعری میں جداگانہ شناخت بنائی اور ہم عصروں‌ میں‌ جدید نظم گو شاعر کے طور پر امتیاز حاصل کیا۔

    ادبی تذکروں اور سوانح میں‌ لکھا ہے کہ راشد کا خاصا وقت شیخوپورہ اور ملتان میں گزرا۔ یہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر مختلف ادبی اور تعلیمی رسائل کی ادارت کا بھی موقع ملا۔ وہ کمشنر آفس، ملتان میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ اور اِسی عرصے میں چند ناولوں اور مختلف موضوعات پر کتب کا اردو ترجمہ کیا۔ ملازمت کے سلسلے میں‌ جب ایران میں قیام کا موقع ملا تو راشد نے اہم شعراء کی درجنوں نظموں کا اردو ترجمہ کیا۔ بعد میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے اور ترقی پاکر ڈائریکٹر آف پروگرامز ہوگئے۔

    راشد نے متحدہ ہندوستان کے برطانوی قانون کے مطابق مختلف امتحانات پاس کرنے کے بعد فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اور اس دوران بیرونِ ملک بھی تعینات رہے اور وہاں کی سیاسی، سماجی زندگی اور تہذیب و شعور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ فوج سے رخصت لے کر وہ دوبارہ ریڈیو لکھنؤ سے منسلک ہوگئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد راشد نے ریڈیو پاکستان پشاور سے تعلق جوڑ لیا۔ وہ اقوام متحدہ میں بھی شامل ہوئے اور نیویارک، جکارتہ، کراچی اور تہران میں اقوام متحدہ کے شعبۂ اطلاعات میں خدمات انجام دی تھیں،1961 میں ان کی شادی ہوئی لیکن بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی۔راشد نوجوانی میں خاکسار تحریک سے بہت متاثر تھے اور اِس سے وابستہ بھی رہے۔ وہ اکثر تقاریب میں خاکسار وردی اور ہاتھ میں بیلچہ اٹھائے شریک نظر آتے تھے۔

    آزاد نظم میں ہیئت، تیکنیک کے منفرد اور قابلِ ذکر تجربات نے راشد کو جدید نظم کا معمار ثابت کیا۔ اِن کی شاعری تجریدی اور علامتی تجربات سے مزین ہے جو شاعر کے منفرد اسلوب اور پُراثر طرزِ بیان کے سبب بہت مقبول ہوئی۔

    روایت میں جدیدیت کا رنگ بھرنے والے اس شاعر نے معاشرے اور افراد کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور فکر و نظر کے نئے زاویے دیے۔ انھوں‌ نے نظام اور اپنے معاشرے پر ایسا طنز کیا کہ شاعر کو نامُراد اور جنس نگار تک کہا گیا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ دشنام طرازی بجائے خود فرسودہ اور پست ذہنیت کا نتیجہ تھی۔ البتہ راشد کے بارے میں‌ یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ وہ ایک تیز طرار انسان تھے اور لابنگ کے علاوہ اپنی بعض حرکتوں‌ کی وجہ سے اکثر شخصیات ان سے ناخوش تھے اور دور رہنا پسند کرتی تھیں۔ لیکن دوسری طرف راشد ایک بااصول شخص بھی بتائے جاتے ہیں، مظفر علی سیّد نے اس بارے میں‌ اپنی کتاب میں‌ دل چسپ واقعہ لکھا ہے: "جب میں ایران میں قیام کے دوران اُن سے ملنے گیا تو انہوں نے پوچھا کہ جدید ایرانی شاعروں کے مجموعے آپ نے خرید لیے ہیں؟ میں نے کہا کہ کچھ خرید لیے ہیں اور کچھ کی تلاش ہے۔ کہنے لگے ’میں آپ کو یہاں کی شاعری کے کچھ مجموعے دکھاتا ہے جو اتفاق سے میرے پاس ڈپلیکیٹ ہوگئے ہیں۔ ان میں ایک ایک آپ رکھ لیجیے جو آپ کے پاس موجود نہ ہوں۔ میں آپ سے صرف آدھی قیمت لوں گا۔‘ ذرا کی ذرا میں دم بخود ہو کے رہ گیا لیکن پھر یہ سوچ کے چل پڑا کہ مجھے مزید مجموعے درکار تو ہوں گے ہی اور آدھی قیمت پر کیا برے ہیں۔ ہمارے دانش ور دوست شاید اسے بُرا سمجھیں مگر اِن لوگوں کے عمل میں ایک آدھ نمائشی فیاضی کے بعد جو مفت خورا پن شروع ہوتا ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ راشد جیسے با اصول آدمی دنیا میں بہت کم ہوں گے لیکن اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اصول پسندی کو بڑی سہولت سے نبھا جاتے تھے۔ انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی کہ یہ میرا اصول ہے اور میں اِس سے سرِمُو انحراف نہیں کر سکتا۔‘

    بطور شاعر راشد نے نئے افکار کے حامل، اِرتقا اور جدت سے ہم آہنگ اور باعمل افراد پر مشتمل معاشرہ تشکیل دینے کی بات کی۔ اِن کا زیادہ تر کلام رجائیت اور خوش کن خیالات سے دور ہے، لیکن بغور مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی یہ نظمیں گھٹن اور حبس زدہ ماحول سے نکلنے اور صبحِ نو کی جوت جگاتی ہیں، جس پر ن م راشد کو ابہام کا شاعر کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی گئی۔ راشد کی علامتی شاعری کو محض لفاظی کہا گیا، لیکن ن م راشد نے اپنی شاعری کے ذریعے تشکیک زدہ معاشرے کو نئے رجحانات اور افکار سے آشنا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    اِن کی شاعری میں کسی کہانی کی طرح وہ کردار بھی ملتے ہیں جو معاشرے کے مکر و فریب اور اخلاقی پستی کو عیاں‌ کرتے ہیں۔ یہ کردار ان کی نظم اندھا کباڑی اور حسن کوزہ گر میں دیکھے جاسکتے ہیں:

    "خواب لے لو… خواب‘‘

    صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا
    خواب اصلی ہیں کہ نقلی…
    یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے اِن سے بڑھ کر
    خواب داں کوئی نہ ہو!
    مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب
    مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
    اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ
    دیکھنا یہ مفت کہتا ہے
    کوئی دھوکا نہ ہو!
    ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
    گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
    یا پگھل جائیں یہ خواب
    بھک سے اڑ جائیں کہیں
    یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب
    جی نہیں کس کام کے؟
    ایسے کباڑی کے یہ خواب
    ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!

    ن م راشد ایک داستان گو تھے جنھیں وہ کسی کردار کے ساتھ نظم کے سانچے میں‌ ڈھال کر خوب صورتی پیش کرتے رہے۔ ’حسن کوزہ گر‘ اِن کی ایک شاہکار نظم ہے۔ اِس کا یہ بند دیکھیے:

    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
    تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر
    وہی کوزہ گر جس کے کوزے
    تھے ہر کاخ و کو اور ہرشہر و قریہ کی نازش
    تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
    تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں اِن اپنے مہجور کوزوں کی جانب
    گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
    معیشت کے اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب
    کہ میں اس گل و لا سے، اِس رنگ و روغن
    سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
    دلوں کے خرابے ہوں روشن!

    یہ نظم ایک ایسے فن کار کا المیہ ہے جو اب کوزہ گری کے فن سے محروم ہوگیا ہے اور دوبارہ اس پر قدرت حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے لیے وہ ایک نگاہِ ناز کا طلب گار ہے۔

    کرداروں کے ذریعے تخاطب کے ساتھ راشد "میں” کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ اِس کی مثال اِن کی نظم ‘رقص’، ‘خود کشی’ اور ‘انتقام’ ہیں۔

    راشد کی پہلی نظم انسپکٹر اور مکھیاں تھی جو طنز و مزاح کے پیرائے میں لکھی گئی تھی۔ مشہور ہے کہ ایک روز انسپکٹر آف اسکولز اس اسکول کا معائنہ کرنے آیا جس میں‌ ن م راشد بھی پڑھتے تھے اور وہاں‌ مکھیاں اُس کے سَر پر بھنبھاتی رہیں۔ راشد کے تخیل نے اِس منظر کو نظم میں سمیٹ لیا۔ نو عمر راشد اس وقت "گلاب” تخلّص کرتے تھے۔ چند برس گزرے تو شعور اور سنجیدگی نے انھیں یہ تخلّص ترک کرنے پر مجبور کردیا، اور اُس وقت کے غیر معروف رسائل میں اصل نام سے ان کا کلام شائع ہوتا رہا۔ بعد میں‌ وہ ادبی دنیا میں‌ ن م راشد مشہور ہوگئے۔

    ن م راشد کا شمار اردو مقبول شعرا میں نہیں کیا جاتا جس کی وجہ راشد کی شاعری میں مختلف اجزا کا امتزاج ہے جس کو سمجھنا اور جذب کرنا قاری کے لیے سہل نہیں۔ راشد سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں‌ روایتی طرزِ فکر، جذباتیت، جوشِ خطابت اور زورِ تقریر نے بے عملی کو بڑھاوا دیا ہے، اور اِس کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ لیکن ان کی فکر اور آہنگ اُس دور کے قاری اور ناقد دونوں کے لیے اجنبی اور نامانوس تھا، راشد کا لب و لہجہ اور غیر روایتی تیکنیک اُس دور میں جب کہ نظم کا سانچہ بہت سیدھا تھا، ان پر تنقید کی بڑی وجہ تھی۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ جب انیسویں‌ صدی میں خالق اور مخلوق، احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے ادب کا سہارا لیا جارہا تھا تو راشد نے ان مسائل کو ایک مختلف ہیئت اور تکینک کے ساتھ پابند کیا اور بڑی جرأت سے ایسے موضوعات کو بھی نظموں‌ میں‌ پیش کیا جنھیں‌ قبول کرنے میں عام آدمی کے ساتھ مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو بھی بڑا تأمل ہوا۔ مذہب کے بارے میں‌‌ خود راشد کی رائے ایسی تھی کہ اس پر بات نہیں‌ کی جاسکتی۔

    راشد کے دور میں جنگوں اور اُس کے نتیجے میں انسانوں کی بدحالی کے بعد سرمایہ داری کا عفریت بھی لوگوں کو نگلنے کے لیے تیّار تھا۔ بغاوت اور انقلابی امنگوں کے ساتھ ادب میں خدا، اُس کے وجود اور کائنات کے مسائل پر مباحث جنم لے رہے تھے جب کہ انسان پرستی اور انسانوں کے جملہ مسائل کو ادب میں اہمیت دی جانے لگی تھی۔ اِس کا ن م راشد نے گہرا اثر لیا اور اپنی شاعری میں جگہ دی۔

    نظم مکافات کا یہ بند ایک اضطراب، افسوس اور زندگی کی کشمکش کو بیان کر رہا ہے:

    رہی ہے حضرت یزداں سے دوستی میری
    رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا
    گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری
    دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا
    کسی پہ روح نمایاں نہ ہوسکی میری
    رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا
    دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
    وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انہیں
    زبان شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
    کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انہیں
    خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کی
    کبھی کیا نہ جوانی سے بہریاب انہیں
    یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
    کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا
    اذیتوں سے بھری ہے ہر ایک بیداری
    مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا
    الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی
    فشار ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا
    مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا
    پیام مرگ جوانی تھا اجتناب مرا

    راشد کی نظمیں، انسانی نفسیات پر اُن کی گہری نظر اور مشاہدے کی مثال ہیں۔ تیل کی کمپنیوں کا قومی تحویل میں جانا، جمہوریت کی بساط لپیٹے جانا، حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی سازشیں، نسل پرستی کو فروغ دینا، سرمایہ داری، عرب دنیا کی بدحالی اور بے بسی کی جھلک ن م راشد شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کے شعری مجموعے ‘ماورا’، ‘ایران میں اجنبی’، اور ‘لا=انسان’ اُن کی زندگی میں شائع ہوئے، لیکن ایک کتاب بعنوان گمان کا ممکن راشد کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئی تھی۔ ان کے متعدد تنقیدی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوئے تھے لیکن کتابی شکل میں بہم نہیں ہوئے۔

    راشد کے دوسرے شوق گھڑ سواری، شطرنج، کشتی رانی تھے۔ شراب نوشی نے انھیں‌ دل کے عارضہ میں مبتلا کردیا تھا۔ راشد مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے تھے۔ ن م راشد نے برطانیہ میں‌ وفات پائی، کہتے ہیں‌ کہ راشد ایک وصیت چھوڑ گئے تھے کہ ان کے بے روح‌ جسم کو نذرِ آتش کیا جائے۔

  • پاکستان اور معیشت کے غارت گر

    پاکستان اور معیشت کے غارت گر

    یہ 2004ء کی بات ہے جب جان پرکنز کی کتاب Confessions of an Economic Hitman شایع ہوئی اور اس کتاب نے تہلکہ مچا دیا۔ یہ کتاب جس موضوع کا احاطہ کرتی ہے، اس کا ہر پاکستانی سے براہِ راست تعلق ہے۔ یہ کتاب دراصل عالمی مالیاتی اداروں‌ کے عفریت پر لکھی گئی ہے۔

    بتاتے چلیں کہ اس کتاب کے پاکستان میں متعدد اور مختلف نام سے تراجم دست یاب ہیں۔ ان میں ’’اقتصادی غارت گر‘‘ کے نام سے ترجمہ صفوت علی قدوائی کا ہے جو اس کے قارئین پر بہت کچھ منکشف کرتا ہے۔ مترجم نے اس کے ابتدائیہ میں لکھا ہے، ’’پاکستانی حکمران معیشت کے استحکام اور کشکول توڑنے کے جتنے بھی دعوے کریں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری معیشت صارفین کی ایسی منڈی بن چکی ہے جہاں ہر چیز بکاؤ ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پرتعیش گاڑیوں سے لے کر مہنگے سامانِ آسائش تک زندگی کی ہر ضروری اور غیر ضروری چیز ادھار پر دستیاب ہے۔ پوری قوم قرضے کے جال میں پھنس گئی ہے اور ہم اپنی آزادی اور خودمختاری عرصہ ہوا ان بین الاقوامی اداروں کے پاس گروی رکھ چکے ہیں۔

    جان پرکنز کی کتاب کا موضوع تیسری دنیا میں عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور مالی امداد کرنے والی مختلف تنظیموں کا وہ جال ہے کہ جس میں آج پاکستان اور اس جیسے کئی ممالک جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ کتاب اکنامک ‘ہٹ مین’ یعنی معاشی قاتل کی ایک اصطلاح بھی سامنے لاتی ہے۔ جان پرکنز بھی کبھی امریکہ کی طرف سے اکنامک ‘ہٹ مین’ رہا تھا۔

    آج پاکستانی روپے کی بے قدری اور ڈالر کی اونچی اڑان سے ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے، اس میں‌ غریب اور متوسط طبقہ صرف یہی سوچ رہا ہے کہ جسم و جاں رشتہ کیسے برقرار رکھا جائے۔ دوسری طرف سیاست دان ہیں‌، اشرافیہ اور وہ لوگ ہیں‌ جو ہر قسم کے وسائل پر قابض اور بااختیار بھی ہیں۔ انھوں نے دھن دولت جمع کرنے کے ذرایع اور تمام اسباب کو اپنی مٹھی میں رکھا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تجوریاں بھرتی چلی جارہی ہیں، دوسری طرف عوام ہیں جو نان شبینہ کو محتاج ہوئے جاتے ہیں۔

    عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں‌ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں غربت بڑھ کر 39.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے، اور مزید سوا کروڑ افراد غربت کے شکنجے میں‌ آگئے ہیں‌۔ یہ رپورٹ چند روز قبل ہی سامنے آئی ہے۔ لیکن اسی ملک کے سیاست داں، سرکاری عہدے دار اور مراعات یافتہ طبقہ کے عیش و عشرت کا ہی کہنا۔ معمولی کٹوتی پر بڑی سی اقامت گاہ جس میں بجلی کے کئی یونٹ مفت، بڑی بڑی گاڑیاں اور ان کے لیے پیٹرول گویا ان کا حق ہے۔ اس کے بعد بالخصوص سرکاری اداروں میں مالی بدعنوانی اور رشوت ستانی ایک الگ باب ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جس میں‌ اقتدار کی باریاں لینے والی بڑی جماعتوں کے ‘پیشہ ور’ سیاست داں اپنے ووٹروں کو یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ ان کو قرضوں کی دلدل سے کب اور کیسے نکالیں گے۔ البتہ، اقتدار میں‌ آکر سابق حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کا ڈھول بڑے زور سے پیٹا جاتا ہے، اور اسی شور میں یہ اعلان کر دیا جاتا ہے کہ معیشت کو پٹری پر ڈالنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینا ہوگا۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ عوام پر محصولات کی مد میں مزید بوجھ اٹھانا ہوگا۔ اس کے بعد بجلی، گیس اور پیٹرول سمیت ہر قسم کا ایندھن اور کئی دوسری اشیاء پر ٹیکس عائد کر دیا جاتا ہے۔

    ماہرینِ معیشت کہتے ہیں کہ ”آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں کو فکر صرف قرضوں کی واپسی کی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں روپے کی قدر کم کرنا پڑتی ہے۔ منافع بخش اداروں کو بیچنا پڑتا ہے۔ پیٹرول، ڈیزل مہنگا اور شرح سود کو بڑھانا پڑتا ہے۔ نتیجہ اس کا معیشت کو بھی نقصان اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔‘‘

    معیشت کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ قرض سے جان چھڑانا اور اس مسئلے کو حل کرنا آسان نہیں لیکن اگر ہم مالیاتی اداروں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، ہمیں ٹھوس اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ مقامی صنعت کاروں کو مضبوط کیا جائے، سرمایہ دار اور طبقۂ امراء کو مخصوص ٹیکس دینے پر آمادہ کیا جائے، لگژری مصنوعات کی درآمدات بند، سرکاری خزانے پر شاہانہ طرزِ‌ زندگی اور بھاری مراعات کا خاتمہ کرکے ہی اس میں کام یابی ممکن ہے۔‘‘

    اعلیٰ سرکاری عہدے داروں کو سہولیات اور مراعات کی ایک جھلک پچھلے ہفتے ہی دیکھی گئی جب صوبۂ پنجاب کے ایک ضلعی منصب دار نے ایکس (ٹویٹر) پر ویڈیو لگائی کہ ’نئی سرکاری گاڑی ملی گئی۔ شکر گزار ہوں۔‘ اس ویڈیو میں کالے رنگ کی ایک نئی ڈبل کیبن گاڑی دیکھی جا سکتی ہے جس کی چھت پر نیلی بتّی لگی ہوئی ہے۔ یہ ویڈیو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی صرف ایک تحصیل پیر محل کے اسسٹنٹ کمشنر کے ذاتی اکاؤنٹ پر نشر ہوئی تھی جس پر پاکستانی صارفین کی جانب کڑی تنقید کی گئی اور یہ ویڈیو ہٹا لی گئیں۔ جب ایک ڈیڑھ کروڑ یونہی خرچ کیے جارہے ہوں اور وہ بھی اسسٹنٹ کمشنر پر تو اس سے بڑے عہدے دار کیا کچھ نہیں سمیٹ رہے ہوں گے؟

    پچھلے دنوں بجلی کے مفت یونٹس پر بھی سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام نے اشرافیہ اور سرکاری افسران کی بے حسی اور عیاشیوں پر خوب برہمی اور شدید غم و غصّے کا اظہار کیا تھا۔ اور بظاہر عوام کے نگراں ‘خیرخواہوں‌’ نے اس کا نوٹس بھی لیا، لیکن آگے کیا ہوا؟ یہ پوچھنے اور جاننے میں اب شاید عوام کو بھی دل چسپی نہیں‌ رہی۔ بیچارے عوام پوچھیں بھی تو کس سے کہ حکم راں اور سرکاری افسر ان کو جواب دہ تھوڑا ہی ہیں۔

    ہمارا ایک بڑا مسئلہ کرپشن (لوٹ کھسوٹ) بھی ہے۔ بددیانتی، خیانت اور عوام کا مال ہڑپ کر جانے کی یہ عادت سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کو ایسی پڑی ہے کہ وہ کسی طور اسے چھوڑنے کو تیّار نہیں‌۔ حال تو یہ ہے کہ اگر ملک میں لوٹ کھسوٹ کی شفاف اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر تحقیقات کرائی جائے تو ہمارے یہ سب ‘خیر خواہ اور خادم’ قانون کے مطابق جیل بھیجے جائیں۔ ہمارے مروجہ نظام میں کرپشن کے سرایت کرجانے سے کی وجہ سے آج مالی وسائل کا بہت بڑا حصّہ مفاد پرست گروہوں اور بااثر افراد کی جیب میں جارہا ہے۔ پھر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ صرف مالی معاملات میں بدعنوانی ہی کرپشن نہیں ہے بلکہ اس کے بے شمار روپ ہیں جس میں خسارہ ملک اور قوم کے حصّے میں‌ آتا ہے۔

    عالمی مالیاتی اداروں کا قرض لوٹانے کے علاوہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ بھی قومی ایجنڈے کا حصّہ اور ہماری اوّلین ترجیح ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری اداروں کے مالیاتی امور، تمام معاہدوں، ٹھیکوں اور مخصوص بجٹ میں شفافیت کا اہتمام کیا جائے۔ اداروں کا کمپیوٹرائز ریکارڈ مرتب کیا جائے اور کسی بھی شہری کو اس کا جاننے کا حق استعمال کرنے دیا جائے۔

  • سلیم احمد:‌ ایک خوب صورت شاعر اور نقّاد

    سلیم احمد:‌ ایک خوب صورت شاعر اور نقّاد

    اردو ادب میں سلیم احمد کی ایک منفرد شخصیت کے مالک، بڑے نکتہ بیں گزرے ہیں جو اپنی قوت مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی بدولت ادب میں نمایاں ہوئے۔ سلیم احمد بہ یک وقت شاعر، نقّاد، ڈرامہ اور کالم نگار بھی تھے اور انھیں ادبی مفکر بھی کہا جاتا ہے۔

    سلیم احمد کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ یکم ستمبر 1983ء کو چمنستانِ‌ ادب کا یہ پھول بادِ صرصر کی نذر ہوگیا تھا۔ سلیم احمد بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنی تنقید میں‌ مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا جس پر ان کو اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں:

    سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان پر اعتراضات کیے گئے اور ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    سلیم احمد ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی اور اس پر انھیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    سلیم احمد کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہُوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    ان کا ایک مشہور شعر ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک شاید دنیا کا وہ واحد مصنّف ہے جس نے اپنے ناولوں میں کئی کردار روشناس کرائے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا نام اپنے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے۔ اس کی یہ خواہش پوری ہوئی اور اُسے فرانسیسی ادب کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج بالزاک کا یومِ وفات ہے۔

    اپنی زندگی کے تجربات، سماجی رویّوں اور تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کرتے ہوئے بالزاک کے اندر لکھنے کا شوق پیدا ہوا جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور بالزاک نے ایک حقیقت نگار کے طور پر قلم تھام لیا۔ وہ اُن اہلِ قلم میں سے ایک تھا جنھوں‌ نے یورپی ادب میں حقیقت پسندی کو رواج دیا اور اسی وصف کی بناء پر بالزاک کو فرانس میں بہت پسند کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کے زورِ‌ قلم نے اپنے وقت کے مشاہیر کو اپنی جانب متوجہ کیا جن میں چارلس ڈکنز، ایملی زولا، گستاف فلابیر، ہینری جیمس کے نام شامل ہیں جب کہ فرانس کے عظیم فلم ساز فرانسوا تروفو اور فلم ڈائریکٹر و ناقد ژاک ریوت بالزاک سے بہت متأثر تھے۔ بالزاک کی تخلیقات کو فلمی پردے کے لیے ڈھالا گیا اور اس کی بدولت ادب اور فلم کی دنیا میں بالزاک کے پیش رو بھی اس سے بہت متأثر نظر آئے۔

    ہنری ڈی بالزاک نے 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد بالزاک نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی۔ بالزاک شروع ہی سے صحّت کے مسائل سے دوچار رہا اور ممکن ہے اسی باعث وہ حساس اور مضطرب ہوگیا اور اپنے انہی مسائل کے ساتھ وہ مطالعے کا عادی بنا اور پھر لکھنے کا آغاز کر دیا۔ بالزاک نے کہانیاں، ناول اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے جنھیں قارئین نے بے حد سراہا۔

    وکیل کے پاس اپنی ملازمت کے دوران بالزاک مسلسل لکھتا رہا۔ معاش کی فکر اور روزگار کی تلاش اسے پبلشنگ اور پرنٹنگ کے کام کی طرف بھی لے گئی، لیکن مالی آسودگی بالزاک کا مقدر نہیں‌ بنی۔ تب، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قلم کی مزدوری کرے گا اور نام و مقام بنائے گا۔ اس نے یہی کیا اور قسمت نے بالزاک کا ساتھ نبھایا۔

    یہاں ہم بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو مختلف ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ بالزاک کی بہن کی شادی تھی اور ایک روز جب تمام رشتے دار گھر میں موجود تھے، بالزاک نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ پڑھ کر سنانے لگا۔ پورا ڈرامہ سنانے کے بعد بالزاک نے جب داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کے اس تبصرے کو اہمیت نہ دی اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ دن دن بھی آیا جب فرانس اور بعد میں‌ بالزاک کو دنیا بھر میں ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت ملی۔

    اس فرانسیسی مصنّف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نوٹ بک اور پنسل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ، اور مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کی اہم سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کرنا چاہتا تھا اور جہاں بھی جاتا، بالخصوص فرانس کے مختلف علاقوں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا تھا، فرصت ملنے پر وہ ان مشاہدات کے مطابق کردار اور ان پر کہانیاں تخلیق کرتا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا تھا اور اپنے ناول یا ڈرامے میں انہی درختوں کے درمیان اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتیں۔

    بالزاک نے ٹھان لی تھی کہ ہر سال کم از کم دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے ضرور لکھے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ فرانس کے مصنّف نے کئی شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، اور 97 ناول لکھے۔ بوڑھا گوریو بالزاک کا وہ مقبول ناول ہے جس کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی اپنے کزن کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہنری ڈی بالزاک نے یہ ناول انقلابِ فرانس کے بعد اس معاشرے میں‌ جنم لینے والے نئے رحجانات کے پس منظر میں تخلیق کیا ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے جب کہ جزئیات نگاری کی وجہ سے بھی اسے بہت سراہا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک کی ایک انفرادیت اس کے لمبے فقرے ہیں اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل موجود ہوتی ہے۔ بالزاک کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور اپنے احباب سے کہتا تھاکہ میں‌ قلم سے وہ کام لوں گا کہ لوگ مجھے فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ بالزاک نے اپنے زورِ قلم کو منوایا اور فرانسیسی معاشرے کا گویا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اس تخلیق کردہ کردار آج بھی فرانس ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    بالزاک کا ایک ادبی کارنامہ اور وجہِ شہرت وہ تخلیقات ہیں‌ جو بعنوان ہیومن کامیڈین شایع ہوئیں۔ اس میں بالزاک نے فرانس کے ہر شعبہ ہائے حیات اور ہر مقام سے کردار منتخب کرکے کہانیاں تخلیق کیں، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔

    بالزاک نے 18 اگست 1850ء کو پیرس میں وفات پائی، اسے دنیا سے گزرے ایک صدی اور کئی دہائیاں بیت چکی ہیں، لیکن ایک حقیقت نگار کے طور پر آج بھی اس کا نام زندہ ہے۔

  • مولوی عبدالحق اور فلم ”ہماری زبان”

    مولوی عبدالحق اور فلم ”ہماری زبان”

    مولوی عبدالحق کی خدمات کے بارے میں ممتاز فکشن نگار کرشن چندر نے کہا تھاکہ "جو کام مہاتما گاندھی نے ہندوستان کے لیے اور قائدِ اعظم نے پاکستان کے لیے کیا وہی کام مولوی عبدالحق نے اردو کے لیے کیا ہے۔” مولوی عبدالحق ماہرِ لسانیات، محقق اور ادیب تھے جنھیں بابائے اردو بھی کہتے ہیں۔ آج مولوی عبدالحق کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بابائے اردو کے لقب سے مشہور مولوی عبدالحق نے 20 اپریل 1870 کو متحدہ ہندوستان کے ایک ضلع میرٹھ کے قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور 1894 میں عبدالحق نے علی گڑھ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی۔ یہ وہی علی گڑھ تھا جس میں انھیں سَر سید احمد خان جیسے عالی مرتبت کا قرب نصیب ہوا اور مولوی عبدالحق نے اُن کے افکار اور نظریات کا گہرا اثر لیا۔ علم و ادب میں مولوی صاحب کی دل چسپی اور انہماک اس قدر بڑھا کہ جس کے باعث مرفہ الحال ریاست دکن کے فرماں روا میر عثمان علی خان نے اردو کی تعلیم و فروغ، زبان و ادب کی ترویج اور اشاعت سے متعلق ذمہ داریاں سونپتے ہوئے خطیر رقم بھی ان علمی و ادبی کاموں کے لیے ان کو دی۔

    1895ء میں مولوی صاحب کو حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت ملی اور وہ استاد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور بعد میں صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد بھیج دیے گئے۔ اس ملازمت کو ترک کرکے عثمانیہ کالج، اورنگ آباد کے پرنسپل ہوئے اور 1930ء میں اس عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

    فارسی اور اُردو ادب کے علاوہ انھیں تاریخ و فلسفہ میں گہری دل چسپی نے مطالعہ کی طرف راغب کیا اور عبدالحق کی کتابوں سے گہری دوستی ہوگئی جس نے وقت کے ساتھ انھیں غور و فکر کا عادی بنایا اور وہ نثر و نظم کو بحیثیت نقاد اور محقق پرکھنے لگے۔
    اس کے ساتھ مولوی صاحب نے خود بھی لکھنا شروع کردیا اور انھیں املا انشاء اور زبان و بیان پر عبور کی بدولت ماہرِ لسانیات کے طور پر پہچان ملی۔ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے یوں تو متعدد علمی اور ادبی کارنامے گنوائے جاسکتے ہیں، لیکن اردو زبان کے لیے ان کی علمی اور تحقیقی کاوشوں کی وجہ سے انھیں‌ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    ان کے ایک مضمون سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے جس میں وہ مطالعہ اور مفید اور معلوماتی کتب کے بارے میں لکھتے ہیں، پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے، لیکن پڑھنے پڑھنے میں فرق ہے اور کتاب کتاب میں فرق ہے۔

    اس تحریر میں آگے چل کر وہ لکھتے ہیں، بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضول ہی نہیں مضر بھی ہے۔ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اسی قدر ہم ایک بامعنیٰ مطالعہ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ ملٹن نے ایک جگہ کہا ہے ’’اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھوٹنا۔‘‘ جس سے اس کی مراد یہ ہے کہ فضول اور معمولی کتابوں کے پڑھنے میں عزیز وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھوٹنا ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں وہ ہمارے لیے مردہ ہے۔

    مولوی عبدالحق نے اردو میں تنقید و مقدمہ نگاری کے علاوہ مختلف تصانیف، تالیفات پر تبصرہ اور جائزہ لینے کے فن کو ایک نیا ڈھنگ عطا کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بابائے اردو نے انجمن ترقیِ اردو کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے ایک فعال ترین تنظیم اور علمی ادارہ بنایا اور اس انجمن کے تحت لسانیات اور جدید علوم سے متعلق کتابوں کی اشاعت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اسی انجمن کی تحریک اور کوششوں کی بدولت اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لا کالج قائم کیے گئے۔

    مولوی عبدالحق نے نظام میر عثمان علی خان کی ذاتی دل چسپی سے قائم کردہ جامعہ عثمانیہ جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا، کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں اور اردو لغت، فنون و سائنسی اصطلاحات کے اردو تراجم کا ایک بڑا اثاثہ ہمارے لیے چھوڑ گئے۔

    یہاں ہم ایک دل چسپ بات اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ مولومی صاحب نے ایک فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کراچی میں بننے والی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کا نام ”ہماری زبان” تھا۔ اس میں چند مناظر بہ طور اداکار مولوی عبدالحق نے بھی عکس بند کروائے تھے۔ اس وقت بھی ان کا نام زبان و ادب کے حوالے سے نہایت معتبر اور مشہور تھا۔ لوگ ان کی بڑی عزّت کرتے تھے اور اس موضوعاتی فلم کے تشہیری بورڈ پر بطور اداکار ان کا نام شامل ہونا عام لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ یہ ڈاکیومینٹری طرز کی فلم تھی جو یہ فلم 10 جون 1955ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم میں‌ اردو سے متعلق یہ نغمہ شامل تھا:

    ہماری زبان اردو، قومی زبان اردو
    اونچا رہے گا ہر دَم نام و نشان اردو

    بابائے اردو کی تصانیف، تالیف کردہ کتب میں چند ہم عصر(شخصی خاکے)، مخزنِ شعرا، اردو صرف و نحو، افکارِ حالی، سر سید احمد خان، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ بہت اہم ہیں‌۔

    16 اگست 1961 کو کراچی میں وفات پانے والے مولوی عبدالحق کو وفاقی اردو یونیورسٹی کے عبد الحق کیمپس کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • تقسیمِ ہند، جِلا وطن اور ہاؤسنگ سوسائٹی…

    تقسیمِ ہند، جِلا وطن اور ہاؤسنگ سوسائٹی…

    ہندوستان کی تاریخ میں تقسیم کا سال خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ سنہ 1947ء میں ہندوستان کو غلامی کی زنجیر سے رہائی میسر تو آئی تھی مگر ساتھ ہی تقسیمِ ہند کے واقعات نے ایک عجیب سوگوار فضا قائم کر دی تھی۔ عالم یہ تھا کہ انسان نیک و بد کی تمیز بھول بیٹھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبحِ آزادی اپنے دامن میں خون خرابہ، فسادات، مذہبی منافرت اور انسانیت سوز واقعات لے کر آئی تھی۔

    تقسیمِ ہند کا واقعہ بجائے خود ایک عظیم سانحہ تھا، ساتھ ہی اس کا شدید رد عمل فسادات کی صورت میں سامنے آیا اور قتل و غارت گری کی وہ داستان رقم ہوئی جن سے تاریخ کے اوراق چھلنی ہیں۔

    ایک قوم کے لوگ دوسری قوم کے لوگوں کی عزّت اور خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔ مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ یہی مختلف ملّت و مذہب کے لوگ صدیوں سے اکٹھے بھی رہے تھے اور ان میں‌ تعلقِ‌ خاطر، ہر طرح کا میل جول اور خلوص و معاونت کا سلسلہ رہا تھا۔ جب تقسیم کا اعلان ہوا تو ایک طرف ہندوستان میں بسے مسلمان اپنا گھر بار اپنے پیاروں کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر رہے تھے، اور دوسری جانب پاکستان سے ہندو اور سکھ ہندوستان کا رخ کر رہے تھے۔

    ایسے واقعات اور بدترین حالات کا اثر انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا جن میں اردو ادب بھی شامل ہے۔ نظم ہو یا نثر، ناول یا افسانے، تقسیم و فسادات پر لکھنے کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ ہمارے ادیب اس پُرخوں داستان کو نہ صرف قلم بند کر رہے تھے بلکہ اپنی تحریروں سے ذہن سازی بھی کررہے تھے۔ نفرت کو پاٹنے، اور حقیقت کو مان کر مل جل کر رہنے کا پیغام دے رہے تھے جن میں کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری، قرۃُ العین حیدر، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی وغیرہ اور بھی کئی نام ہیں۔

    ’’تقسیمِ ہند کا المیہ‘‘ بیان کرتے افسانوں میں ایک "جلا وطن” بھی تھا جو قرۃُ العین حیدر کے قلم سے نکلا تھا اور اس میں انھوں نے ٹوٹتے بکھرتے خاندان کی تصویر پیش کی ہے۔ آج یومِ‌ آزادی کی مناسبت سے اس افسانے کا سرسری جائزہ پیش ہے جو بتاتا ہے کہ تقسیم نے محض ملک کا بٹوارہ نہیں کیا تھا۔ رشتوں کا بھی بٹوارہ کر دیا تھا۔ ایک گھر کے باپ بیٹا الگ الگ ملکوں کا حصّہ بن گئے تھے۔ ایک بیمار اور مجبور باپ جو نہ ملک کا بٹوارہ چاہتا تھا نہ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان میں بسنا چاہتا تھا۔ مگر اس کا بیٹا نہ صرف پاکستان ہجرت کر گیا بلکہ پاکستانی فوج میں میجر بھی ہو گیا تھا۔ ایسے میں ان کے اپنے ہی وطن میں ان کی حیثیت مشکوک ہو گئی تھی۔ ایک تو اولاد کی جدائی کا غم، اس پر سے ان کے وطن بھارت میں پولیس کی آئے دن کی تفتیش۔ دوسری کشمکش اس خاندان کی یہ دکھائی ہے کہ ان کی بیٹی کو بھی پاکستان جانا تھا جو کہ تقسیم کے وقت اپنے والد کی علالت کے سبب انہی کے پاس رہ گئی اور اب والد کی پریشانی دیکھ کر رنجیدہ تھی۔

    اس افسانے کی یہ سطور پڑھیے، ’سارا جون پورعمر بھر سے واقف ہے کہ بابا کتنے بڑے نیشنلشٹ تھے۔ تب بھی پولیس پیچھا نہیں چھوڑتی۔ سارے حکام اور پولیس والے جن کے سنگ جنم بھر کا ساتھ کا اٹھنا بیٹھنا تھا، وہی اب جان کے لاگو ہیں, کل ہی عجائب سنگھ چوہان نے جو عمر بھر سے روزانہ بابا کے پاس بیٹھ کر شعر و شاعری کرتا تھا دو بار دوڑ بھجوا کر خانہ تلاشی لی۔‘‘

    تقسیم نے عجیب حالت کر دی تھی۔ ایک تو زندہ لوگوں سے زندگی بھر کے لیے بچھڑ جانے کا غم، دوسری جانب معاشی مسائل منھ کھولے کھڑے تھے۔ مگر کشوری کے لیے ملازمت بھی ایسے ماحول میں آسان نہ تھی۔ کیوں کہ ان دنوں شرنارتھیوں کو ملازمت کے معاملے میں ترجیح دی جارہی تھی اور اسے صاف کہہ دیا گیا کہ آپ تو شائد کسی مجبوری کی وجہ سے یہاں رکی ہوئی ہیں، موقع ملتے ہی آپ بھی پاکستان چلی جائیے گا۔

    ہاؤسنگ سوسائٹی بھی فکشن نگار قرۃُ العین حیدر کا ایک زبردست افسانہ ہے جو تقسیم و ہجرت سے متعلق ہے۔ کئی واقعات و حادثات کو سمیٹے مختلف کرداروں پر مبنی یہ افسانہ بالآخر تقسیم کے دور میں پہنچتا ہے۔ مشترکہ ہندوستان کی تقسیم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے خاندانی جاہ و حشمت کے مالکان کو عرش سے فرش پر لا پٹخا تھا۔ انہی میں سے ایک کلکٹر صاحب کا خاندان بھی تھا۔ وہ کلکٹر صاحب جہاں دعوتِ طعام میں روسی برتن استعمال کیا کرتے تھے اور ان بلوری پیالیوں میں جن کے پانی میں سرخ گلاب کی پنکھڑیاں تیر رہی ہوتی تھیں، کھانے کے بعد انگلیاں ڈبو کر معطر کی جاتی تھیں، آج سرحد پار کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اکلوتے بیٹے سلمان کا کوئی پتہ نہ تھا۔ کلکٹر صاحب خود مفلوج ہو چکے تھے اور لاڑکانہ کے کسی علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ ناز و نعم سے پلی بڑھی چھوٹی بٹیا جو سرخ جوتیوں اور فر کا کوٹ پہنے ریشمی چھتری کے سائے میں جس کے موٹھ چاندی کے بنے ہوئے تھے مہاوت اور خدمت گار کی نگرانی میں ’’جمبو‘‘ کی سواری کیا کرتی تھیں۔ جن کی زندگی پر لوگ رشک کیا کرتے تھے آج وہی چھوٹی بٹیا زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لئے معمولی جاب پر گزارہ کرنے پر مجبور تھیں۔

    یہ اور اس موضوع پر کئی دوسرے افسانے تقسیمِ ہند اور ہجرت کے موقع پر فسادات کی اور اس سے جنم لیتے انسانی المیوں کی چبھن لیے ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر آج بھی آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے۔