Author: عارف حسین

  • اے شاہ: اپنے دور کے ایک مقبول مزاحیہ اداکار کے عروج و زوال کی کہانی

    اے شاہ: اپنے دور کے ایک مقبول مزاحیہ اداکار کے عروج و زوال کی کہانی

    فارسی کی کہاوت ہے ہَر کمالے را زوال اور اس عبرت سرا میں عروج و زوال کی ان گنت داستانیں، بلندی اور پستی کی بے شمار کہانیاں ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ اگر بات کریں‌ فلم انڈسٹری کی تو کئی پری چہرہ آئے گئے اور ان کا پُرشباب دور نہایت شان دار طریقے سے تمام ہوا، لیکن ان میں‌ چند ایسے ستارے بھی تھے جنھیں یا تو زمانہ سازی نہ آئی یا پھر وہ وقت کی ستم ظریفی کا نشانہ بنے۔ اے شاہ شکار پوری بھی ایسا ہی نام ہے جنھیں فراموش کردیا گیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فلمی دنیا کے ابتدائی دس، پندرہ برسوں میں تین مزاحیہ اداکاروں نے خوب نام کمایا اور یہ وہ کامیڈین تھے جنھیں فلموں کی کام یابی کی ضمانت تصوّر کیا جاتا تھا۔ انہی میں‌ سے ایک اے شاہ شکار پوری تھے۔ ان کی فلمی دنیا میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلمی پوسٹروں پر ان کی تصویر نمایاں اور نام جلی حروف میں‌ لکھا جاتا تھا۔ اپنے دور کے یہ مقبول کامیڈین اپنے زمانۂ عروج میں‌ لاہور کے ایک شان دار مکان میں رہا کرتے تھے، لیکن آخری عمر میں‌ وہ کرائے دار کے طور پر ایک تنگ کوٹھڑی میں‌ رہنے پر مجبور تھے۔

    اے شاہ شکار پوری کے ابتدائی حالاتِ زندگی کا علم تو بہت کم ہی کسی کو ہوسکا، لیکن کوئی کہتا ہے کہ وہ 1906ء میں پنجاب کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے تھے اور بعض سوانحی خاکوں لکھا ہے کہ وہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور 1910ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    ان کا اصل نام عبدُاللّطیف شاہ تھا اور فلمی دنیا میں انھیں اے شاہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ان کے نام کے ساتھ "شکار پوری” کیوں لکھا گیا، اس بارے میں کہتے ہیں‌ کہ 1947ء میں "مسٹر شکار پوری” ریلیز ہوئی تھی اور اس میں اے شاہ کا نام بطور اداکار، ہدایت کار اور نغمہ نگار شامل تھا، ٹائٹل رول بھی اے شاہ نے نبھایا تھا۔ غالباً اسی فلم کے بعد شکار پوری ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔ اسی سے یہ مغالطہ پیدا ہوا کہ وہ سندھ کے مشہور شہر شکار پور کے باسی تھے۔

    وہ اتنے مقبول کامیڈین تھے کہ درجنوں فلموں کی کہانیاں ان کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھوائی گئیں، اور اے شاہ نے ان میں‌ ٹائٹل رولز کیے۔ پھر وہ وقت آیا جب کوئی پروڈیوسر، ڈائریکٹر اے شاہ کو فلم میں سائن نہیں کرتا تھا، اور وہ مکمل طور پر نظر انداز کردیے گئے، کیوں کہ وقت بدل چکا تھا اور لہری، رنگیلا، منور ظریف کا شہرہ تھا اور انہی کے نام پر فلمیں کام یاب ہونے لگی تھیں۔

    اے شاہ شکار پوری کی بیوی ان پڑھ اور عام سی گھریلو عورت تھیں جن کے بطن سے انھیں بیٹے کی مسرّت نصیب ہوئی تھی۔ جب اے شاہ کو فلموں میں کام ملنا بالکل بند ہوگیا تو ان کے اکلوتے بیٹے امانت نے مزنگ بازار کے چھور پر جہاں سمن آباد کا پہلا گول چکر آتا ہے، پتنگوں کی دکان کھول لی۔ اے شاہ بھی دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے نظر آتے۔ یہی دکان ان کی روزی روٹی کا اکلوتا ذریعہ تھی۔ وہ لاہور کے علاقے سمن آباد کا شان دار مکان چھوڑ چکے تھے اور اب نواں مزنگ میں ڈیڑھ مرلے کے ایک کھولی ٹائپ مکان میں رہنے لگے تھے۔ یہ گھر کیا تھا، ایک ڈبہ نما کمرہ تھا جس میں‌ ایک چارپائی رکھنے کے بعد دو تین آدمیوں کے بیٹھنے کی بمشکل گنجائش نکل آتی تھی۔

    اے شاہ نے منفی اور ولن ٹائپ کے سنجیدہ سماجی کرداروں کو مزاحیہ انداز میں‌ بخوبی نبھایا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اداکاری اور فلم سازی کے انھوں نے نغمہ نگاری بھی کی۔ ان کا تخلّص عاجز تھا۔ اے شاہ کے فلمی سفر کا آغاز تقسیمِ ہند سے قبل 1934ء میں ریلیز ہونے والی فلم فدائے توحید سے ہوا تھا۔ انھوں نے اُس دور میں متعدد فلموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ پاکستان میں اے شاہ کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم نوکر تھی جو 1955ء کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اسی سال کی ایک فلم حقیقت بھی تھی جس میں وہ پہلی اور آخری بار فلم ساز، ہدایت کار، نغمہ نگار اور اداکار کے طور پر نظر آئے لیکن کام یاب نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد انھوں‌ نے درجنوں‌ فلموں‌ میں‌ بطور اداکار کام کیا۔ 1963ء اور 1966ء میں انھوں‌ نے سماجی موضوعات پر بنائی گئی فلموں چاچا خوامخواہ اور چغل خور میں ٹائٹل رول کیے۔اے شاہ کی اپنی ایک فلم منشی سب رنگ بھی تھی جو ریلیز نہیں ہو سکی تھی۔

    فلمی دنیا سے متعلق مضامین کے مطابق اے شاہ کی آخری پنجابی فلم اک نکاح ہور سہی تھی اور یہ بات 1982ء کی ہے۔ بطور کامیڈین ان کی یادگار پاکستانی فلموں‌ میں‌ حمیدہ، نوکر، سلمیٰ، موج میلہ، چوڑیاں، ڈاچی، نائلہ، جی دار، لاڈو، جند جان شامل ہیں۔

    وہ پچاس کی دہائی کے وسط تک بھارت میں رہے اور پھر ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اے شاہ شکار پوری نے فلم ”بابل” میں دلیپ کمار کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔

    پاکستانی فلموں‌ کے اس کام یاب مزاحیہ اداکار نے 21 دسمبر 1991ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔

  • مدن موہن: ایک عظیم موسیقار

    مدن موہن: ایک عظیم موسیقار

    مدن موہن کو برصغیر میں ایک ایسے موسیقار کی حیثیت سے شہرت ملی جن کا ہر گیت یادگار ثابت ہوا اور انھوں نے اپنے فنی سفر میں‌ بڑا نام و مرتبہ پایا۔ وہ بالی وڈ کے عظیم موسیقار کہلائے۔ فلمی موسیقی کے حوالے سے آج بھی ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ مدن موہن 1975ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    مدن موہن کا وطن عراق تھا جہاں انھوں نے 25 جون 1924ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد یہاں‌ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں‌ مقیم تھے۔ وہ عراق میں‌ ایک محکمہ میں اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ان کا نام رائے بہادر چنی لال کوہلی تھا۔ وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر آبائی شہر چکوال آگئے جو اب پاکستان کا حصّہ ہے۔ چکوال کے موتی بازار میں مدن موہن کے دادا کا بڑا گھر تھا اور کہتے ہیں‌ کہ وہ اپنے وقت کے ایک جانے مانے حکیم تھے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر علاقے میں یوگ آشرم مشہور ہوگیا تھا۔ چنی لال آبائی علاقے میں لوٹنے کے کچھ عرصہ بعد کاروبار کی غرض سے ممبئی چلے گئےاور مدن موہن کو چکوال میں‌ ان کے دادا کے پاس چھوڑ دیا۔ مدن موہن نے لاہور میں‌ ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے کلاسیکی موسیقی کی تھوڑی بہت تربیت بھی حاصل کی۔ لیکن باقاعدہ یہ فن کسی سے نہیں‌ سیکھا۔ پھر یہ گھرانا ممبئی منتقل ہوگیا اور وہاں‌ مدن موہن نے سینٹ میری اسکول میں داخلہ لیا۔ اس کے ساتھ وہ ریڈیو پر موسیقی اور بچّوں‌ کے پروگراموں میں‌ جانے لگے اور وہیں ان کا فنِ موسیقی کا شوق صحیح معنوں میں‌ پروان چڑھا۔ ممبئی شہر اپنی فلمی صنعت اور نگار خانوں کے لیے شہرت رکھتا تھا اور اس زمانے میں وہاں‌ فلم ساز، اداکار اور بڑے بڑے موسیقار مصروف نظر آتے تھے۔ ریڈیو پر بھی کئی بڑے گلوکار اور موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ مدن موہن یہاں اپنا شوق پورا کرتے۔ انھیں برٹش آرمی میں کمیشن مل گیا لیکن دوسری جنگِ‌ عظیم کے بعد وہ نوکری چھوڑ کر ریڈیو سے پروگرام اسسٹنٹ کے طور پر منسلک ہوگئے۔ وہ اپنے موسیقی کے شوق کی تکمیل اور اس فن میں اپنی صلاحیتوں‌ کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مدن موہن کی والدہ شاعری اور موسیقی کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں اور مدن موہن کو بھی انہی کو دیکھ کر یہ شوق ہوا تھا۔

    آل انڈیا ریڈیو پر ان کی شناسائی جن عظیم موسیقاروں اور بڑے گلوکاروں سے ہوئی ان میں استاد فیاض علی، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر، طلعت محمود کے نام شامل ہیں مدن موہن گلوکاری کے بڑے شوقین تھے اور چند مشہور شعرا کا کلام گانے کے بعد انھوں نے بطور موسیقار فلم انڈسٹری کے لیے کام شروع کردیا۔ 1948ء میں انھوں نے فلم شہید کے لیے گانا ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا اور اس کے بعد ایک فلم بطور معاون موسیقار کی۔

    بالی وڈ میں‌ مدن موہن کو پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں ملی جب انھوں نے فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم نے انھیں انڈسٹری میں نام دیا۔ اس زمانے میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا ہر طرف شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” بہت مقبول ہوا جسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ مدن موہن کی اگلی کام یاب فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر نغمات ریکارڈ کروائے۔

    فلم کے موسیقار کی حیثیت سے مدن موہن نے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں جنھیں آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ موسیقار مدن موہن چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور بعد از مرگ انھیں "آئیفا ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ پچاس کے اواخر میں‌ اپنی کام یابیوں کا آغاز کرنے والے مدن موہن نے اگلی تین دہائیوں میں بطور موسیقار اپنا عروج دیکھا۔

    یہ وہ چند یادگار فلمی گیت ہیں جن کی موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی۔

    نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…
    آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے
    لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…
    وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی
    یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے…

  • عیّاش اور فضول خرچ نازنین بیگم جو آخر عمر میں‌ پاگل ہوگئی تھی

    عیّاش اور فضول خرچ نازنین بیگم جو آخر عمر میں‌ پاگل ہوگئی تھی

    متحدہ ہندوستان میں فلم سازی کی ابتدا اور ناطق فلموں کے آغاز کے بعد اس زمانے کے روزناموں اور جرائد میں فلموں اور فن کاروں سے متعلق تفریحی و معلوماتی مضامین کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو بہت مقبول ہوئے۔ یہاں ہم ایک اداکارہ کی عیّاشی، فضول خرچی کی عادت اور اس کے بدترین انجام کا قصّہ نقل کررہے ہیں جو بظاہر مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ اداکارہ کا نام تھا نازنین بیگم اور ان سے متعلق یہ قصّہ فلمی دنیا کی معلومات پر مشتمل کتاب سے لیا گیا ہے۔

    برِصغیر میں فلموں کے ابتدائی دور کے بارے میں مختلف رسائل و جرائد سے نقل کردہ معلومات کو کتابی شکل دینے والوں میں الف انصاری بھی شامل ہیں۔ اپنے وقت کے مقبول ترین اداکاروں کے بعض غیرمصدقہ واقعات اور ان سے متعلق غیر مستند باتیں سستی شہرت اور مالی فائدے کے پیشِ نظر بھی قلم کاروں نے اپنے مضامین میں شامل کی ہیں اور یہی سنی سنائی باتیں اور افواہوں تحقیق کیے بغیر کتابوں کا حصّہ بنا دی گئیں۔ لیکن اداکارہ نازنین بیگم کی عیّاشی اور فضول خرچی کا قصّہ الف انصاری کی کتاب "فلمی معلومات” میں شامل ہے اور وہ ایک ذمہ دار قلم کار رہے ہیں۔ الف انصاری نے ادب، فلم اور اسپورٹس کے موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں۔ وہ اپنی کتاب "فلمی معلومات” سے متعلق لکھتے ہیں کہ 1980ء سے اس کتاب کی ترتیب کے سلسلے میں بے شمار فلمی اخبارات، جرائد اور رسائل کی ورق گردانی کے دوران جو معلومات حاصل ہوتی رہیں، میں انہیں نوٹ کرتا رہا اور یوں برسوں کی تحقیق کے بعد یہ کتاب منظرِ عام پر آسکی۔

    اداکارہ نازنین بیگم کے بارے میں الف انصاری کی کتاب میں لکھا ہے: نازنین بیگم بہت دولت مند ہیروئن تھیں۔ وہ ہیروں سے جڑی رسٹ واچ (گھڑی) اپنی ایڑی کے سینڈل پر باندھے رکھتی تھیں۔ جب کوئی ان سے پوچھتا کہ کیا وقت ہوا ہے تو وہ بڑی شان سے اپنا سینڈل اس کے قریب لے جاتیں۔

    اداکارہ نازنین جب بہت مقبول ہوئیں اور دولت قدم چومنے لگی تو وہ ہزار کے نوٹ کو لپیٹ کر اس میں‌ تمباکو بھر کر سگریٹ بناتی تھیں اور دن بھر میں‌ تقریباً ایک درجن سگریٹ پی جاتی تھیں۔ لیکن ایک دن وہ صرف ایک رات میں اپنی ساری دولت جوئے میں ہار گئی۔ آخر عمر میں‌ پاگل ہو کر مری۔

    واضح رہے کہ برصغیر میں‌ اوّلین بولتی فلم "عالم آرا” کے بعد دھڑا دھڑ فلمیں بننے لگی تھیں۔ اسی دور میں‌ نازنین بیگم نے بھی بطور اداکارہ قسمت آزمائی تھی۔ نازنین بیگم کی بطور اداکارہ پہلی فلم "میڈم فیشن” یکم جنوری 1936 کو ریلیز کی گئی تھی۔

    نازنین بیگم اس دور کے ایک امیر خاندان کی چشم و چراغ تھی۔ جدّن بائی ہندوستان میں سنیما کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک تھیں۔ وہ گلوکار، موسیقار، رقاص اور اداکار کے طور پر ہی مشہور نہیں‌ تھیں بلکہ ان کا نام ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر بھی فلمی تاریخ کا حصّہ ہے۔ میڈم فیشن جدّن بائی ہی کی فلم تھی جس میں نازنین کو کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ یہ جذباتی رومانوی فلم تھی جس کی کہانی ایک رحم دل اور نیک صفت لڑکی کے گرد گھومتی ہے۔ وہ لڑکی اپنے خوابوں‌ کی تکمیل کے لیے محنت اور لگن سے آگے بڑھتی ہے، لیکن اس دوران اسے کئی مشکلات اور رکاوٹوں‌ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ ایک شخص کی محبّت میں‌ گرفتار ہو جاتی ہے جو اس کی ہمّت بندھاتا ہے اور ہر موقع پر اس کا ساتھ دیتا ہے، لیکن بدقسمتی آڑے آجاتی ہے اور وہ لڑکی پھر بدترین موڑ پر آکھڑی ہوتی ہے۔ اس لڑکی کا نام لکشمی تھا۔

  • مصروفیتیں مغربی، عادتیں بدستور مشرقی!

    مصروفیتیں مغربی، عادتیں بدستور مشرقی!

    عبد المجید سالک اردو زبان کے بڑے ادیب، شاعر، جیّد صحافی اور کالم نویس تھے جو اپنے دور کے مقبول اخبار ’زمیندار‘ کے مدیر رہے، تہذیبِ نسواں‌ اور پھول جیسے معتبر رسائل کی ادارت کی۔ سالک صاحب ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ ان کی نثر طنز و مزاح کے گلشن کا ایسا سدا بہار پھول ہے جس کی خوشبو آج بھی فکرِ انسان کو معطر رکھے ہوئے ہے۔ شوخی ان کا مزاج ہے اور ندرتِ خیال ان کے ذہن کی رفعت کا ثبوت۔

    یہاں ہم عبدالمجید سالک کی بذلہ سنجی اور اپنے کام سے لگاؤ کی ایک مثال انہی کے اُس کالم سے پیش کررہے ہیں جو روزنامہ "انقلاب” میں "افکار و حوادث” کے نام سے سالک صاحب لکھا کرتے تھے۔ ان کا یہ کالم ہر خاص و عام میں‌ بہت مقبول تھا۔ عبدالمجید سالک اپنے اُن ملاقاتیوں سے بہت بیزار تھے جو ان کا وقت برباد کرتے اور گپیں ہانکنے کے لیے ان کے دفتر آجایا کرتے تھے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:

    "ہندوستان عجب بدقسمت ملک ہے۔ اس کی مصروفیتیں تو روز بروز مغربی ہوتی چلی جا رہی ہیں لیکن عادتیں بدستور مشرقی ہیں۔ ہندوستانیوں نے اخبار نویسی مغرب سے سیکھی لیکن اخبار نویس کی مصروفیات کا اندازہ لگانے میں ہمیشہ مشرقیت کا ثبوت دیا۔ مدیر "افکار” بارہا لکھ چکا ہے کہ میں بے حد مصروف رہتا ہوں اس لئے ملاقات کرنے والے حضرات میری مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر اپنی عادات میں اصلاح فرمائیں تاکہ مجھے مروّت کے مشرقی اصول کو خیرباد نہ کہنا پڑے لیکن ملاقاتی حضرات بدستور بے تکلفی پر عمل پیرا ہیں اور ایک دن آنے والا ہے جب مدیر "افکار” ہر شخص سے صاف کہہ دیا کرے گا کہ اب آپ تشریف لے جائیے۔”

    "ان ملاقاتی حضرات میں مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم تو ان زیرک و فہیم حضرات کی ہے جو کسی ضروری کام کے بغیر کبھی تشریف نہیں لاتے اور جب آتے ہیں فی الفور کام کی بات کہہ کر اس کا شافی جواب پا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسے مہربانوں کی تعداد روز افزوں فرمائے۔”

    "دوسری قسم ایسے حضرات کی ہے جو یوں تو کسی ضروری کام ہی کے سلسلے میں تشریف لاتے ہیں لیکن نہایت طویل مزاج پرسی اور ادھر ادھر کی غیر متعلق باتیں کرنے کے بعد حرفِ مطلب زبان پر لاتے ہیں۔ خاکسار فوراً ان کی بات کا جواب دے دیتا ہے، اس امید پر کہ شاید اس جواب کے بعد مخلصی کی صورت نکل آئے لیکن وہ حضرات جواب سننے کے بعد مطمئن ہو کر اور بھی زیادہ پاؤں پھیلا دیتے ہیں اور نہایت فراغت کے ساتھ دنیا جہان کے قصے، ادھر ادھر کی باتیں، واقعات پر تبصرہ اور حالات پر رائے زنی شروع کر دیتے ہیں اور خاکسار دل ہی دل میں اپنے وقت کے خون ہو جانے کا ماتم کرتا رہتا ہے۔”

    "تیسری قسم بے انتہا تکلیف دہ ہے۔ ان حضرات کی تشریف آوری کا کوئی قطعی مقصد نہیں ہوتا۔ محض "نیاز حاصل کرنے” کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ حالانکہ اکثر حالت میں خاکسار کو ان کی خدمت میں اس سے پیشتر پچیس دفعہ نیاز حاصل کرنے کا شرف نصیب ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر "حصول نیاز” کی مدّت مختصر ہو تو خیر اسے بھی برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ حضرات نہایت ڈٹ کر بیٹھتے ہیں اور اس وقت اٹھتے ہیں جب ان کا اٹھنا میرے لئے بالکل مفید نہیں رہتا۔”

    "خاکسار دن کے وقت تحریر کا کام نہیں کرتا کیونکہ تنہائی اور یک سوئی دن کے وقت بالکل مفقود ہوتی ہے۔ گرمی ہو یا جاڑا، بہار ہو یا خزاں، ہر روز رات کے دو بجے تک کام کرنا پڑتا ہے چونکہ اس وقت کوئی خلل انداز نہیں ہوتا اس لئے کام بہ سہولت ختم ہو جاتا ہے لیکن ایک چوتھی قسم کے خطرات ہیں جو خاکسار کے وقت پر شب خون مارنے سے بھی باز نہیں آتے۔”

    "ایک صاحب کا ذکر ہے، آپ پچھلے دنوں رات کے بارہ بجے تشریف لے آئے۔ خاکسار نے متعجب ہو کر پوچھا: "حضرت اس وقت کہاں ؟” فرمانے لگے: "سینما دیکھ کر آیا تھا۔ سڑک پر آپ کے لیمپ کی روشنی دیکھی، جی میں کہا، چلو سالک صاحب سے تھوڑی دیر گپیں ہانکیں۔”

    "لاحول ولا قوة الا باللہ۔ گپوں کے لئے کتنا موزوں وقت تلاش کیا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ نہایت مری ہوئی آواز سے کہا: "تشریف لے آئیے۔”

    "آپ آکر بیٹھ گئے کچھ بات شروع کرنے والے ہی تھے کہ خاکسار نے چپ سادھ لی اور لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ وہ خدا جانے کیا کچھ فرماتے رہے، کوئی لفظ خاکسار کی سمجھ میں آیا، کوئی نہ آیا، لیکن ایک مقررہ وقفہ سے "ہوں ہوں” برابر کرتا رہا تاکہ بالکل ہی بے مروّتی اور بدتمیزی ظاہر نہ ہو۔ اگر خاکسار کی جگہ کوئی اور شخص اور ان حضرت کی جگہ خاکسار ہوتا تو دوسرے شخص کو اس قدر مصروف دیکھ کر اور اس کی بے معنی ہوں "ہوں ہوں” سن کر پانچ منٹ بھی بیٹھنا گوارا نہ کرتا لیکن حضرتِ ممدوح کامل ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے اور جب تشریف لے گئے تو پانوں کی تھالی اور سگریٹ کی ڈبیا خاکسار کے دل کے طرح ویران پڑی تھی۔”

    "دوسرے دن ایک مجلس میں ان حضرت سے ہمارا سامنا ہو گیا۔ آپ بے تکلفی سے فرمانے لگے: "رات تو آپ بے انتہا مصروف تھے۔” ایک بذلہ سنج دوست پاس کھڑے تھے، کہنے لگے: "جی ہاں عمر بھر میں سالک پر ایک ہی مصروفیت کی رات آئی ہے اور وہ شبِِ گزشتہ تھی۔” وہ حضرت کھسیانے ہو کر ہنسنے لگے۔ خاکسار نے موقع پا کر نہایت متانت سے منہ بنا کر کہا کہ: "مجھے کبھی غصہ نہیں آتا لیکن جو شخص رات کے وقت میرے کام میں خلل انداز ہو، اسے جان سے مار دینے کو جی چاہتا ہے۔ کیا کروں میری یہ خواہش بالکل اضطراری ہے۔ مجھے تو اس پر قابو نہیں لیکن احباب کو ضرور احتیاط کرنی چاہیے۔”

    "وہ حضرت نہایت غور سے میری بات سنتے رہے پھر چپ چاپ ایک طرف چل دیے اور آج تک رات کے وقت کبھی تشریف نہیں لائے۔ جان کتنی عزیز شے ہے۔”

    اردو کے اس ممتاز ادیب اور شاعر نے لاہور میں وفات پائی اور اسی شہر کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • طلعت محمود: ایک کام یاب گلوکار اور ناکام فلمی ہیرو

    طلعت محمود: ایک کام یاب گلوکار اور ناکام فلمی ہیرو

    طلعت محمود نے ابتدا میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ لکھنؤ میں ریڈیو جیسے اُس زمانے کے مقبول میڈیم کو بنایا اور سامعین میں مقبول ہونے لگے، لیکن پھر اپنے فن کے قدر دانوں اور خیر خواہوں کے مشورے پر بمبئی کی فلم نگری میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ طلعت محمود بمبئی کی فلمی دنیا کے آسمان پر بطور گلوکار چمکے اور خوب چمکے۔

    طلعت محمود کو ہندی سنیما کے لیے گلوکاری کے ساتھ درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع بھی ملا، لیکن اس میدان میں وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ البتہ ساز و آواز کی دنیا میں‌ طلعت محمود کو وہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی جو بہت کم گلوکاروں کا مقدر بنی ہے۔ آج بھی ان کے گائے ہوئے فلمی نغمات بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ بالی وڈ کی فلموں کے لیے کئی گیتوں کو اپنی آواز میں امر کر دینے والے طلعت محمود کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 9 مئی 1998ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    لکھنؤ طلعت محمود کا شہر تھا جہاں انھوں نے 24 فروری 1924ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ طلعت محمود نے بھی اپنے والد کا اثر لیا اور چھوٹی عمر میں نعتیں پڑھنا شروع کردیں۔ 1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر ان کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کیا گیا۔ یہ ان کے فنی سفر کا آغاز تھا اور 1944 میں جب انھیں ایک غیر فلمی گیت گانے کا موقع ملا جس کے بول تھے، ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ گیت ان کی وجہِ شہرت بن جائے گا۔ طلعت محمود کو ہندوستان بھر میں اس گیت کی بدولت شہرت حاصل ہوئی۔

    وہ ہندوستان کے ایک ایسے مسلمان خاندان کے فرد تھے جس میں فلمیں اور اس کے لیے گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا تھا، سو طلعت محمود کو بھی ابتدا میں اپنے گھر اور خاندان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انھوں نے کسی طرح گھر والوں کو رضامند کرلیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ طلعت محمود شکل و صورت کے اچھے تھے اور اسی لیے انھیں بطور ہیرو بھی فلموں میں سائن کیا گیا، لیکن وہ اس میدان میں کام یاب نہ ہوسکے۔ فلم لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان اداکاراؤں میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    بھارتی فلم انڈسٹری میں بہ طور گلوکار اُن کی پہچان بننے والا نغمہ فلم آرزو کا ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ تھا۔ ایک اور کام یاب فلم داغ کے لیے انھوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اپنی فلمی زندگی میں طلعت محمود نے سب سے زیادہ گانے دلیپ کمار کی فلموں کے لیے ہی گائے: جیسے شامِ غم کی قسم یا حسن والوں کو، اور یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    طلعت محمود نے اکثر المیہ گانے گائے ہیں، اور اسی لیے ان کو دکھ اور کرب کا ترجمان کہا جاتا ہے۔ گلوکار طلعت محمود کو بھارت میں فلم فیئر ایوارڈ کے علاوہ حکومت کی جانب سے پدما بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

  • فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں‌ میں سلطان محمد ثانی کا امتیاز فتحِ قسطنطنیہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں انھیں‌ وہ عزّت، احترام اور مقام و مرتبہ دیا جو بہت کم سلاطین کو نصیب ہوا ہے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔ محمد فاتح کو نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ تاریخِ عالم میں بھی ایسے حکم راں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس کی فتح کے ساتھ ہی صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آج سلطان محمد فاتح کا یومِ وفات ہے۔

    فتحِ قسطنطنیہ وہ خواب تھا جس کے لیے مسلمانوں کو سات سو سال انتظار کرنا پڑا اور اس عرصہ میں متعدد فوجی مہمّات اور لشکر کشی کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں‌ سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس فتح نے جہاں ترکوں‌ کی سلطنت اور اقتدار کو توقیر اور وسعت بخشی وہیں‌ 1480ء برس تک قائم رہنے والا اقتدار زوال پذیر ہوگیا۔ یہ فتح مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نہایت گہرے اثرات کی حامل تھی جس میں‌ ایک طرف مسلمانوں‌ میں‌ خوشی اور دوسری طرف صلیبیوں‌ کو بڑا صدمہ پہنچا۔

    سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ سلطان صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا۔ 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہونے والے محمد ثانی نے نوجوانی میں‌ سلطنت سنبھالی اور عثمانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے محض 21 سال کی عمر میں‌ 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جسے آج استنبول کہا جاتا ہے۔ عثمانی فوج کا کئی روزہ محاصرہ اور گولہ باری کے بعد اس فتح کو اُس وقت شہر میں موجود اطالوی طبیب نکولو باربیرو نے یوں‌ بیان کیا کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    اس روز فتح کے بعد جب سلطان محمد شہر میں‌ داخل ہوئے تو وہ سفید گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا لشکر مع وزراء اور عمائد سب سے بڑے گرجا آیا صوفیہ پہنچا جہاں سلطان نے صدر دروازے پر اتر کر ایک مٹھی خاک اپنی پگڑی پر ڈالی اور بعد میں اسے مسجد میں‌ تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد عثمانی سلطنت اپنے بامِ عروج پر پہنچی اور ترکوں نے اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف حصّوں پر حکومت کی۔

    محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور تربیت حاصل کی۔ 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا بھر میں عظمت اور امتیاز عطا کیا۔

    اناطولیہ اور پھر قسطنطنیہ کی فتوحات کے بعد اسے اپنا دارُ الحکومت قرار دے کر محمد ثانی نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ شکست بھی ہوئی، لیکن ان کے دور میں‌ عثمانی سلطنت کا رقبہ خاصا وسیع ہوگیا تھا۔

    محمد ثانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علم و ہنر کے قائل اور علما و ہنر مندوں کے سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلاتفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔

    محمد ثانی کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک اور مثالی سلوک کیا گیا۔ اس دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔

  • وہ مشہور کھیل جس کے قواعد و ضوابط کراچی میں‌ وضع کیے گئے!

    وہ مشہور کھیل جس کے قواعد و ضوابط کراچی میں‌ وضع کیے گئے!

    یہ تذکرہ ہے پروفیسر حشمت اللہ لودھی کا جو شہر کراچی کو دنیا کے ایک مقبول کھیل کا ‘وطن’ بتاتے ہیں۔ پاکستان بالخصوص کراچی کے باسیوں جن میں اس کھیل کے شیدائی بھی شامل ہیں، ان کے لیے یہ تحریر دل چسپ ہی نہیں معلوماتی بھی ثابت ہوگی۔

    پروفیسر صاحب ایک علمی شخصیت، ماہرِ تعلیم اور کھلاڑی تھے جو معلوماتِ عامّہ سے متعلق تصنیف و تالیف میں‌ مشغول رہے۔ یہی مشغلہ ان کی قابلِ ذکر پہچان بھی بنا۔ حشمت اللہ لودھی 2019ء میں آج ہی کے دن انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کی عمر 90 برس تھی۔ وہ لکھنؤ میں 1929ء کو پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد کراچی آئے جہاں شعبۂ تعلیم کے لیے خدمات انجام دینے کے ساتھ بالخصوص نوجوانوں اور طلبہ میں معلوماتِ عامّہ کے فروغ کے لیے کتب تصنیف کیں۔ سائنس کے موضوع اور معلوماتِ عامّہ پر ان کے ترتیب دیے ہوئے متعدد پروگرام ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے۔ یہاں ہم ان کی ایک کتاب سے بیڈمنٹن کے کھیل سے متعلق دل چسپ اور معلوماتی پارے نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "آج دنیا میں جتنے بھی کھیل عالمی سطح پر کھیلے جارہے ہیں، تقریباً ان سب کی ابتدا مغرب ہی سے ہوئی، لیکن چند کھیل ایسے بھی ہیں جنھوں نے مشرق میں جنم لیا ہے۔ ہاکی اور پولو کا آغاز ایران سے ہوا ہے۔ بیڈمنٹن کے بارے میں مختلف مؤرخین کی مختلف آراء ہیں۔ چند تاریخ دانوں نے بیڈمنٹن کو دنیا کے قدیم ترین کھیلوں میں سے ایک کھیل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کھیل آج سے دو ہزار سال قبل چین اور ایشیا کے دوسرے حصوں میں کھیلا جاتا تھا۔ چند محققین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ بیڈمنٹن بچوں کے اس کھیل کی جدید شکل ہے جسے یورپ میں بیٹل ڈور اور شٹل کاک کہا جاتا تھا۔

    تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی ملتا ہے کہ بیڈمنٹن سے ملتا جلتا ایک کھیل برصغیر میں بھی کھیلا جاتا تھا جسے لوگ پونا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کھیل کا نام بمبئی کے قریب واقع ایک شہر پونا سے منسوب کر دیا گیا ہو، تاہم ان آراء کے پیشِ نظر یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ بیڈمنٹن کی ابتدا برصغیر ہی سے ہوئی اور یہ کھیل یہاں سے شروع ہو کر مغرب میں پہنچا اور وہاں سے نئی شکل اختیار کر کے دنیا کے دوسرے ممالک میں کھیلا جانے لگا۔

    بیڈمنٹن کے ابتدائی مراحل نہ صرف برصغیر میں تشکیل دیے گئے بلکہ پاکستان کے سب بڑے تجارتی شہر کراچی میں انجام پائے۔ ابھی برصغیر پر انگریزوں کی حکومت کا ابتدائی دور تھا کہ برصغیر میں مقیم چند انگریز فوجیوں نے اس کھیل کو پسند کیا اور جب وہ اپنی مدّتِ ملازمت ختم کر کے اپنے وطن انگلستان پہنچے تو یہی کھیل ان کی دل چسپی اور دل بستگی کا مرکز بن گیا۔ اور بالآخر انگلستان کے جنوب مغرب میں واقع گلوسٹر شائر نامی کاؤنٹی کے ایک گاؤں بیڈمنٹن سے نئی آب و تاب لے کر ایسا ابھرا کہ تمام عالم پر چھا گیا۔ واضح رہے کہ 1974 میں برطانیہ کی مختلف کاؤنٹیوں کی نئی حد بندی کے بعد اب اس گاؤں کو ایک نئی کاؤنٹی ایون میں شامل کر دیا گیا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ غالباً 1870 کی ایک شامل ڈیوک آف بیو فورٹ نے ایک شان دار دعوت کا اہتمام کیا۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے طرح طرح کے کھانے پکوائے گئے اور انھیں نت نئے انداز سے پیش کیا گیا۔ تقریب کو یادگار بنانے کے لیے ایک ایسے کھیل کا بھی اہتمام کیا گیا جو اکثر مہمانوں کے لیے نیا یہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس وقت تک بیڈمنٹن اپنی کئی شکلوں سے کھیلا جاتا رہا تھا، لیکن اسے باقاعدہ ایک کھیل کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔

    ڈیوک آف بیوفورٹ کی رہائش گاہ کا مرکزی ہال خواتین اور حضرات سے بھرا ہوا تھا۔ ہال کے درمیان ایک ڈوری لگا دی گئی تھی اور مہمانوں کو یکے بعد دیگرے ریکٹس دے کر کھیل میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا۔ حاضرین نے اس کھیل میں جو ان کے لیے بالکل نیا تھا، بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور سب کے سب اس قدر محظوظ ہوئے کہ وہ دل چسپ شام ان کی زندگی کا ایک یادگار حصّہ بن گئی۔

    بیڈمنٹن نامی گاؤں میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں شامل ایک مہمان جب اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے انگلستان سے کراچی پہنچا تو اس کی روح اس وقت تک ان لمحات اور کیفیات سے سرشار تھی جو ڈیوک آف بیوفورٹ کے محل میں اس نے گزارے تھے۔ نوجوان نے اس یاد کو تازہ کرنے کے لیے اس نئے کھیل کا باقاعدہ اہتمام کیا۔ یہ اہتمام کراچی کے ایک ایسے ہال میں کیا گیا جو اپنی چوڑائی کے اعتبار سے موجودہ بیڈمنٹن کورٹ کے برابر تھا، اس ہال میں داخل ہونے کے لیے دو دروازے ہال کے درمیان میں اور اندر کی طرف کھلتے تھے۔ اس ہال کے اندر بیڈمنٹن کا کورٹ Hour Glass کی شکل کا بنایا گیا۔ یعنی اس کا درمیانی حصّہ جس میں‌ جال لگایا گیا تھا، نسبتاً کم چوڑا تھا جب کہ کورٹ کی چوڑائی پیچھے کی جانب بتدریج زیادہ ہوگئی تھی۔ یہ بتانا تو بہت مشکل ہے کہ یہ کراچی کا کون سا ہال تھا، جس میں یہ کھیل کھیلا گیا، لیکن بعد از تحقیق پتا چلا ہے کہ یہ واقعہ 1877ء کے لگ بھگ ظہور پذیر ہوا تھا۔

    کراچی کو صرف یہی اعزاز حاصل نہیں‌ کہ بیڈمنٹن کا پہلا باقاعدہ میچ یہاں کھیلا گیا بلکہ اس کھیل کے قواعد و ضوابط بھی پہلی بار 1877 میں کراچی ہی میں‌ وضع کیے گئے۔ اس کے سولہ سال بعد 1893 میں انگلستان میں بیڈمنٹن ایسوسی ایشین آف انگلینڈ کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے نے کراچی میں تشکیل دیے گئے قواعد اور قوانین کو ازسرِ نو مرتب کیا۔

    چراغ سے چراغ جلتا ہے کہ مصداق ایسا ہی کچھ بیڈمنٹن کے سلسلے میں پیش آیا۔ بیڈمنٹن کا دیسی کھیل برصغیر سے انگلستان پہنچا اور انگلستان ہی سے بدیسی روپ اختیار کر کے ایک بار پھر برصغیر میں رواج پایا۔”

    پروفیسر صاحب اس مضمون میں مزید لکھتے ہیں:

    پہلی جنگِ عظیم کے بعد یہ کھیل دنیا میں اس قدر مقبول ہوا کہ اس کے فروغ کے لیے ایک عالمی ادارے کی ضرورت شدّت سے محسوس کی جانے لگی۔ 1934ء میں اس کا عالمی ادارہ انٹرنیشنل بیڈمنٹن فیڈریشن قائم کیا گیا۔

  • گرمیوں کی ایک رات

    منشی برکت علی عشاء کی نماز پڑھ کر چہل قدمی کرتے ہوئے امین آباد پارک تک چلے آئے۔

    گرمیوں کی رات، ہوا بند تھی۔ شربت کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے پاس لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ لونڈے چیخ چیخ کر اخبار بیچ رہے تھے، بیلے کے ہار والے ہر بھلے مانس کے پیچھے ہار لے کر لپکتے۔ چوراہے پر تانگہ اور یکہ والوں کی لگاتار پکار جاری تھی۔

    ’’چوک! ایک سواری چوک! میاں چوک پہنچا دوں!‘‘

    ’’اے حضور کوئی تانگہ وانگہ چاہیے؟‘‘

    ’’ہار بیلے کے! گجرے موتیے کے!‘‘

    ’’کیا ملائی کی برف ہے۔‘‘

    منشی جی نے ایک ہار خریدا، شربت پیا اور پان کھا کر پارک کے اندر داخل ہوئے۔ بنچوں پر بالکل جگہ نہ تھی۔ لوگ نیچے گھاس پر لیٹے ہوئے تھے۔ چند بے سُرے گانے کے شوقین ادھر ادھر شور مچا رہے تھے، بعض آدمی چپ بیٹھے دھوتیاں کھسکا کر بڑے اطمینان سے اپنی ٹانگیں اور رانیں کھجانے میں مشغول تھے۔ اسی دوران میں وہ مچھروں پر بھی جھپٹ جھپٹ کر حملے کرتے جاتے تھے۔

    منشی جی چونکہ پا جامہ پوش آدمی تھے انھیں اس بد تمیزی پر بہت غصہ آیا۔ اپنے جی میں انھوں نے کہا کہ ان کم بختوں کو کبھی تمیز نہ آئے گی، اتنے میں ایک بنچ پر سے کسی نے انھیں پکارا۔

    ’’منشی برکت علی!‘‘

    منشی جی مڑے۔ ’’اخاہ لالہ جی آپ ہیں، کہیے مزاج تو اچھے ہیں!‘‘

    منشی جی جس دفتر میں نوکر تھے لالہ جی اس کے ہیڈ کلرک تھے۔ منشی جی ان کے ماتحت تھے۔ لالہ جی نے جوتے اتار دیے تھے اور بنچ کے بیچوں بیچ پیر اٹھا کر اپنا بھاری بھرکم جسم لیے بیٹھے تھے۔ وہ اپنی توند پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے جاتے اور اپنے ساتھیوں سے جو بنچ کے دونوں کونوں پر ادب سے بیٹھے ہوئے تھے چیخ چیخ کر باتیں کر رہے تھے۔ منشی جی کو جاتے دیکھ کر انھوں نے انھیں بھی پکار لیا۔ منشی جی لالہ صاحب کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔

    لالہ جی ہنس کے بولے، ’’کہو منشی برکت علی، یہ ہار وار خریدے ہیں کیا، ارادے کیا ہیں؟‘‘ اور یہ کہہ کر زور سے قہقہہ لگا کر اپنے دونوں ساتھیوں کی طرف داد طلب کرنے کو دیکھا۔ انھوں نے بھی لالہ جی کا منشا دیکھ کر ہنسنا شروع کیا۔

    منشی جی بھی روکھی پھیکی ہنسی ہنسے، ’’جی ارادے کیا ہیں، ہم تو آپ جانیے غریب آدمی ٹھہرے، گرمی کے مارے دم نہیں لیا جاتا، راتوں کی نیند حرام ہو گئی، یہ ہار لے لیا شاید دو گھڑی آنکھ لگ جائے۔‘‘

    لالہ جی نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہنسے، ’’شوقین آدمی ہو منشی‘‘ کیوں نہ ہو!‘‘ اور یہ کہہ کر پھر اپنے ساتھیوں سے گفتگو میں مشغول ہو گئے۔

    منشی جی نے موقع غنیمت جان کر کہا، ’’اچھا لالہ جی چلتے ہیں، آداب عرض ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر آگے بڑھے۔ دل ہی دل میں کہتے تھے کہ دن بھر کی گھس گھس کے بعد یہ لالہ کمبخت سر پڑا۔ پوچھتا ہے ارادے کیا ہیں! ہم کوئی رئیس تعلق دار ہیں کہیں کے کہ رات کو بیٹھ کر مجرا سنیں اور کوٹھوں کی سیر کریں، جیب میں کبھی چونی سے زیادہ ہو بھی سہی، بیوی، بچے، ساٹھ روپیہ مہینہ، اوپر سے آدمی کا کچھ ٹھیک نہیں، آج نہ جانے کیا تھا جو ایک روپیہ مل گیا۔ یہ دیہاتی اہل معاملہ کمبخت روز بروز چالاک ہوتے جاتے ہیں۔ گھنٹوں کی جھک جھک کے بعد جیب سے ٹکا نکالتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ غلام خرید لیا، سیدھے بات نہیں کرتے۔ کمینہ نیچے درجے کے لوگ ان کا سر پھر گیا ہے۔ آفت ہم بیچارے شریف سفید پوشوں کی ہے۔ ایک طرف تو نیچے درجے کے لوگوں کے مزاج نہیں ملتے، دوسری طرف بڑے صاحب اور سرکار کی سختی بڑھتی جاتی ہے۔ ابھی دو مہینے پہلے کا ذکر ہے، بنارس کے ضلع میں دو محرر بیچارے رشوت ستانی کے جرم میں برخواست کر دیے گئے۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے غریب بیچارہ پستا ہے، بڑے افسر کا بہت ہوا تو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ ہو گیا۔

    ’’منشی جی صاحب۔‘‘ کسی نے بازو سے پکارا۔ جمن چپراسی کی آواز۔

    منشی جی نے کہا، ’’اخاہ تم ہو جمن۔‘‘

    مگر منشی جی چلتے رہے رکے نہیں۔ پارک سے مڑ کر نظیر آباد میں پہنچ گئے۔ جمن ساتھ ساتھ ہو لیا۔ دبلے پتلے، پستہ قد، مخمل کی کشتی نما ٹوپی پہنے، ہار ہاتھ میں لیے، آگے آگے منشی جی اور ان سے قدم دو قدم پیچھے چپراسی جمن۔

    منشی جی نے سوچنا شروع کیا کہ آخر اس وقت جمن کا میرے ساتھ ساتھ چلنے میں کیا مقصد کیا ہے۔

    ’’کہو بھئی جمن، کیا حال ہے۔ ابھی پارک میں ہڈ کلارک صاحب سے ملاقات ہوئی تھی وہ بھی گرمی کی شکایت کرتے تھے۔‘‘

    ’’اجی منشی جی کیا عرض کروں، ایک گرمی صرف تھوڑی ہے مارے ڈالتی ہے، ساڑھے چار پانچ بجے دفتر سے چھٹی ملی۔ اس کے بعد سیدھے وہاں سے بڑے صاحب کے ہاں گھر پر حاضری دینی پڑی۔ اب جا کر وہاں سے چھٹکارا ہوا تو گھر جا رہا ہوں، آپ جانیے کہ دس بجے صبح سے رات کے آٹھ بجے تک دوڑ دھوپ رہتی ہے، کچہری کے بعد تین دفعہ دوڑ دوڑ کر بازار جانا پڑا۔ برف، ترکاری، پھل سب خرید کے لاؤ اور اوپر سے ڈانٹ الگ پڑتی ہے، آج داموں میں ٹکا زیادہ کیوں ہے اور یہ پھل سڑے کیوں ہیں۔ آج جو آم خرید کے لے گیا تھا وہ بیگم صاحب کو پسند نہیں آئے، واپسی کا حکم ہوا۔ میں نے کہا حضور! اب رات کو بھلا یہ واپس کیسے ہوں گے، تو جواب ملا ہم کچھ نہیں جانتے کوڑا تھوڑی خریدنا ہے۔ سو حضور یہ روپیہ کے آم گلے پڑے، آم والے کے ہاں گیا تو ایک تُو تُو میں میں کرنی پڑی، روپیہ آم بارہ آنے میں واپس ہوئے، چونی کو چوٹ پڑی مہینہ کا ختم، اور گھر میں حضور قسم لے لیجیے جو سوکھی روٹی بھی کھانے کو ہو۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں اور کون سا منہ لے کر جورو کے سامنے جاؤں۔‘‘

    منشی جی گھرائے آخر جمن کا منشا اس ساری داستان کے بیان کرنے سے کیا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ غریب تکلیف اٹھاتے ہیں اور بھوکے مرتے ہیں۔ مگر منشی جی کا اس میں کیا قصور؟ ان کی زندگی خود کون بہت آرام سے کٹتی ہے، منشی جی کا ہاتھ بے ارادہ اپنی جیب کی طرف گیا۔ وہ روپیہ جو آج انھیں اوپر سے ملا تھا صحیح سلامت جیب میں موجود تھا۔

    ’’ٹھیک کہتے ہو میاں جمن، آج کل کے زمانے میں غریبوں کی مرن جسے دیکھو یہی رونا روتا ہے، کچھ گھر میں کھانے کو نہیں۔ سچ پوچھو تو سارے آثار بتاتے ہیں کہ قیامت قریب ہے۔ دنیا بھر کے جعلیے تو چین سے مزے اڑاتے ہیں اور جو بیچارے اللہ کے نیک بندے ہیں انھیں ہر قسم کی مصیبت اور تکلیف برداشت کرنی ہوتی ہے۔ ‘‘

    جمن چپ چاپ منشی جی کی باتیں سنتا ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ منشی جی یہ سب کہتے تو جاتے تھے مگر ان کی گھبراہٹ بھی بڑھتی جاتی تھی۔ معلوم نہیں ان کی باتوں کا جمن پر کیا اثر ہو رہا تھا۔

    ’’کل جمعہ کی نماز کے بعد مولانا صاحب نے آثارِ قیامت پر وعظ فرمایا، میاں جمن سچ کہتا ہوں، جس جس نے سنا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ بھائی دراصل یہ ہم سب کی سیاہ کاریوں کا نتیجہ ہے، خدا کی طرف سے جو کچھ عذاب ہم پر نازل ہو وہ کم ہے۔ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں؟ اس سے کم قصور پر اللہ نے بنی اسرائیل پر جو جو مصیبیں نازل کیں ان کا خیال کر کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر وہ تو تم جانتے ہی ہوگے۔‘‘

    جمن بولا، ’’ہم غریب آدمی منشی جی، بھلا یہ سب علم کی باتیں کیا جانیں، قیامت کے بارے میں تو میں نے سنا ہے مگر حضور آخر یہ بنی اسرائیل بیچارے کون تھے۔‘‘

    اس سوال کو سن کر منشی جی کو ذرا سکون ہوا۔ خیر غربت اور فاقے سے گزر کر اب قیامت اور بنی اسرائیل تک گفتگو کا سلسلہ پہنچ گیا تھا۔ منشی جی خود کافی طور پر اس قبیلے کی تاریخ سے واقف نہ تھے مگر ان مضمونوں پر گھنٹوں باتیں کر سکتے تھے۔

    ’’ایں! واہ میاں جمن واہ، تم اپنے کو مسلمان کہتے ہو اور یہ نہیں جانتے کہ بنی اسرائیل کس چڑیا کا نام ہے۔ میاں سارا کلام پاک بنی اسرائیل کے ذکر سے تو بھرا پڑا ہے۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کا نام بھی تم نے سنا ہے؟‘‘

    ’’جی کیا فرمایا آپ نے؟ کلیم اللہ؟‘‘

    ’’ارے بھئی حضر ت موسیٰ۔ مو۔۔۔ سا۔‘‘

    ’’موسا۔۔۔ وہی تو نہیں جن پر بجلی گری تھی؟‘‘

    منشی جی زور سے ٹھٹھا مار کر ہنسے۔ اب انھیں بالکل اطمینان ہو گیا۔ چلتے چلتے وہ قیصر باغ کے چوراہے تک بھی آ پہنچے تھے۔ یہاں پر تو ضرور ہی اس بھوکے چپراسی کا ساتھ چھوٹے گا۔ رات کو اطمینان سے جب کوئی کھانا کھا کر نماز پڑھ کر، دم بھر کی دل بستگی کے لیے چہل قدمی کو نکلے، تو ایک غریب بھوکے انسان کا ساتھ ساتھ ہو جانا، جس سے پہلے کی واقفیت بھی ہو، کوئی خوش گوار بات نہیں۔ مگر میاں جی آخر کرتے کیا؟ جمن کو کتّے کی طرح دھتکار تو سکتے نہ تھے کیوں کہ ایک تو کچہری میں روز کا سامنا، دوسرے وہ نیچے درجے کا آدمی ٹھہرا، کیا ٹھیک، کوئی بدتمیزی کر بیٹھے تو سرِ بازار خواہ مخواہ کو اپنی بنی بنائی عزت میں بٹہ لگے۔ بہتر یہی تھا کہ اب اس چوراہے پر پہنچ کر دوسری راہ لی جائے اور یوں اس چھٹکارا ہو۔

    ’’خیر، بنی اسرائیل اور موسیٰ کا ذکر میں تم سے پھر کبھی پوری طرح کروں گا، اس وقت تو ذرا مجھے ادھر کام سے جانا ہے۔ سلام میاں جمن۔‘‘

    یہ کہہ کر منشی جی قیصر باغ کے سینما کی طرف بڑھے۔ منشی جی کو یوں تیز قدم جاتے دیکھ کر پہلے تو جمن ایک لمحہ کے لیے اپنی جگہ پر کھڑا کا کھڑا رہ گیا، اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ آخر کرے تو کیا کرے۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اس کی آنکھیں ایک بے معنی طور پر ادھر ادھر مڑیں۔ تیز بجلی کی روشنی، فوّارہ، سینما کے اشتہار، ہوٹل، دکانیں، موڑ، تانگے، یکے اور سب کے اوپر تاریک آسمان اور جھلملاتے ہوئے ستارے غرض خدا کی ساری بستی۔

    دوسرے لمحہ میں جمن منشی جی کی طرف لپکا۔ وہ اب کھڑے سینما کے اشتہار دیکھ رہے تھے اور بے حد خوش تھے کہ جمن سے جان چھوٹی۔

    جمن نے ان کے قریب پہنچ کر کہا، ’’منشی جی!‘‘

    منشی جی کا کلیجہ دھک سے ہو گیا۔ ساری مذہبی گفتگو، ساری قیامت کی باتیں، سب بیکار گئیں۔ منشی جی نے جمن کو کچھ جواب نہیں دیا۔

    جمن نے کہا، ’’منشی جی اگر آپ اس وقت مجھے ایک روپیہ قرض دے سکتے ہوں تو میں ہمیشہ…‘‘

    منشی جی مڑے، ’’میاں جمن میں جانتا ہوں کہ تم اس وقت تنگی میں ہو مگر تم تو خود جانتے ہو کہ میرا اپنا کیا حال ہے۔ روپیہ تو روپیہ ایک پیسہ تک میں تمہیں نہیں دے سکتا، اگر میرے پاس ہوتا تو بھلا تم سے چھپانا تھوڑا ہی تھا، تمہارے کہنے کی بھی ضرورت نہ ہوتی پہلے ہی جو کچھ ہوتا تمہیں دے دیتا۔‘‘

    باوجود اس کے جمن نے اصرار شروع کیا، ’’منشی جی! قسم لے لیجیے میں ضرور آپ کو تنخواہ ملتے ہی واپس کر دوں گا، سچ کہتا ہوں حضور اس وقت کوئی میری مدد کرنے والا نہیں۔‘‘

    منشی جی اس جھک جھک سے بہت گھبراتے تھے۔ انکار چاہے وہ سچا ہی کیوں نہ ہو تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے تو وہ شروع سے چاہتے تھے کہ یہاں تک نوبت ہی نہ آئے۔

    اتنے میں سینما ختم ہوا اور تماشائی اندر سے نکلے۔ ’’ارے میاں برکت، بھئی تم کہاں؟‘‘ کسی نے پہلو سے پکارا۔

    منشی جی جمن کی طرف سے ادھر مڑے۔ ایک صاحب موٹے تازے، تیس پینتیس برس کے۔ انگھرکھا اور دوپلی ٹوپی پہنے، پان کھائے، سگریٹ پیتے ہوئے منشی جی کے سامنے کھڑے تھے۔

    منشی جی نے کہا، ’’اخاہ تم ہو! برسوں کے بعد ملاقات ہوئی، تم نے لکھنؤ تو چھوڑ ہی دیا؟ مگر بھائی کیا معلوم آتے بھی ہوگے تو ہم غریبوں سے کیوں ملنے لگے!‘‘

    یہ منشی جی کے پرانے کالج کے ساتھی تھے۔ روپے، پیسے والے رئیس آدمی، وہ بولے،

    ’’خیر یہ سب باتیں تو چھوڑو، میں دو دن کے لیے یہاں آیا ہوں، ذرا لکھنؤ میں تفریح کے لیے چلو، اس وقت میرے ساتھ چلو تمہیں وہ مجرا سنواؤں کہ عمر بھر یاد کرو، میری موٹر موجود ہے، اب زیادہ مت سوچو، بس چلے چلو، سنا ہے تم نے کبھی نور جہاں کا گانا؟ اہا ہا ہا کیا گاتی ہے، کیا بتاتی ہے، کیا ناچتی ہے، وہ ادا، وہ پھبن، اس کی کمر کی لچک، اس کے پاؤں کے گھنگھرو کی جھنکار! میرے مکان پر، کھلے صحن میں، تاروں کی چھاؤں میں، محفل ہوگی۔ بھیروی سن کر جلسہ برخاست ہوگا۔ بس اب زیادہ نہ سوچو، چلے ہی چلو۔ کل اتوار ہے۔ بیوی! بیگم صاحبہ کی جوتیوں کا ڈر ہے، اگر ایسا ہی عورت کی غلامی کرنا تھی تو شادی کیوں کی؟ چلو بھی میاں! لطف رہے گا، روٹھی بیگم کو منانے میں بھی تو مزہ ہے۔‘‘

    پرانا دوست، موٹر کی سواری، گانا ناچ، جنت نگاہ، فردوس گوش منشی جی لپک کر موٹر میں سوار ہو لیے۔ جمن کی طرف ان کا خیال بھی نہ گیا۔ جب موٹر چلنے لگی تو انھوں نے دیکھا کہ وہ وہاں اسی طرح چپ کھڑا ہے۔

    (اس کہانی کے مصنّف ترقی پسند ادیب سجاد ظہیر نام ور فکشن رائٹر اور افسانہ نگار ہیں، انھوں نے اپنی کہانی میں ہندوستانی سماج کی ناہمواری کی بہت باریکی سے عکاسی کی ہے۔ یہ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے دو افراد کی محرومیوں اور بناوٹی زندگی اور دہرے کردار کو سامنے لاتی ہے۔)

  • سائنس کا ایک کرشمہ

    کلیم الدّین احمد اردو زبان و ادب کی ایک مشہور مگر مشاہیر اور ہم عصروں میں متنازع بھی تھے جنھوں نے تنقید لکھی، شاعری کی اور مختلف موضوعات اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اردو کی ہر چیز کو انگریزی کے مخصوص چشمے سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ اردو ادب میں کوئی چیز کام کی نظر نہیں آتی۔ کبھی وہ غزل جیسی مقبول اور ہر دور میں‌ لائقِ ستائش اور معتبر صنف کو نیم وحشی کہہ کر مسترد کرتے ہیں تو کبھی لکھتے ہیں کہ اردو میں‌ تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ الغرض کلیم الدّین احمد اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے ہمیشہ متنازع رہے۔ انھوں نے فنونِ لطیفہ، ثقافت اور اصنافِ‌ ادب کو جس طرح دیکھا اور سمجھا، اسے رقم کر دیا اور اپنی مخالفت کی پروا نہ کی۔

    کلیم الدّین احمد 1908ء میں‌ پیدا ہوئے تھے اور اسّی کی دہائی کے آغاز تک بقیدِ‌ حیات رہے۔ انھوں نے وہ دور دیکھا جب ہندوستان میں‌ ریڈیو تیزی سے مقبول ہوا اور معلومات کی فراہمی اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا۔ آج کے دور میں‌ ریڈیو سیٹ تو گھروں‌ میں‌ رہا ہی نہیں اور ٹیلی ویژن کی اہمیت بھی موبائل فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر دن گھٹ رہی ہے، لیکن دہائیوں‌ پہلے لوگ ریڈیو کو کیسی جادوئی اور نہایت اثرانگیز ایجاد تصور کرتے تھے اور ہندوستان میں اس کی کیا اہمیت تھی، یہ بتانے کے لیے کلیم الدّین احمد کے مضمون سے چند پارے حاضرِ‌ خدمت ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ریڈیو بھی سائنس کا ایک کرشمہ ہے اور دوسری سائنٹفک ایجادوں کی طرح ہم اس کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں اور غیرناقدانہ طور پر اس کی تعریف میں رطبُ اللّسان ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس چیزوں کی ایجاد کرتا ہے، لیکن ان چیزوں سے کام لینا ہمارا کام ہے۔”

    "سائنس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ جن چیزوں کا ہمیں کبھی وہم و گمان بھی نہ تھا وہ واقعہ بنی ہوئی ہیں۔ جو باتیں ہم خیالی داستانوں میں پڑھا یا سنا کرتے تھے وہ اب خیالی نہیں رہیں، زندہ حقیقت کی طرح چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔”

    "داستانوں میں ہم جادو کے گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا میں اڑتے پھرتے تھے، آج نئے نئے قسم کے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر ہم دور دراز کا سفر قلیل مدت میں طے کر سکتے ہیں۔ زمین اور سمندر میں سفر کر سکتے ہیں۔ دور کی خبریں سن سکتے ہیں۔ دور کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ غرض بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں جن کے تصور سے پہلے ہمارے دل کی تسکین ہوتی تھی۔ یہ چیزیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی۔ اور ان کی اچھائی اور برائی استعمال پر منحصر ہے۔”

    "ہوائی جہاز کو لیجیے۔ اس سے کتنی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ خط کتابت اور سفر کی آسانی ہے۔ اسی سے مسٹر چرچل کی بیماری میں ضروری دوائیں جلد سے جلد پہنچائی جا سکتی ہیں، لیکن آج یہی ایک ایسے وسیع پیمانہ پر، جس کے تصور سے دل دھڑکنے لگتا ہے، قتل و خون، تباہی و بربادی، انسان کی خوف ناک مصیبتوں کا آلہ بنا ہوا ہے۔ سائنس نے ہوائی جہاز تو ایجاد کر دیا لیکن اس سے اچھا یا برا کام لینا تو انسان پر منحصر ہے۔ سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتا اور نہ بتاسکتا ہے کہ ہم اس ایجاد سے کیا مصرف لیں۔ سائنس کو انسانی قدروں سے کوئی خاص سروکار نہیں۔ اس کی ایجادوں کی مدد سے انسانیت ترقی کر سکتی ہے اور انہی سے انسانیت تباہ و برباد بھی ہو سکتی ہے۔”

    "آج کے خونیں مناظر کے تصور سے دل بے اختیار ہو کر کہہ اٹھتا ہے کاش سائنس نے یہ ترقیاں نہ کی ہوتیں۔ پھر انسانیت کو اس خون کے غسل سے سابقہ نہ پڑتا۔ سائنس کی ترقی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ پہلے سالہا سال کی جنگ میں جتنی جانیں تلف ہوتی تھیں اس قدر آج ایک روز میں ضائع ہو سکتی ہیں۔ توپیں، بم کے گولے، ٹینک، آبدوز کشتیاں، زہریلی گیس، مہلک امراض کے جراثیم، غرض ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت خودکشی پر آمادہ ہے اور اس جرم میں سائنس اس کا معین و مددگار ہے۔”

    "ظاہر ہے کہ کسی چیز کی صرف اس لیے کہ وہ سائنس کی حیرت انگیز ایجاد ہے، ہم بے سوچے سمجھے تعریف نہیں کر سکتے۔ اس قسم کی تعریف ہماری بے صبری کی دلیل ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ سائنس کی کسی ایجاد سے ناجائز مصرف لینے کا ذمہ دار انسان ہے سائنس نہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس تو ہمیں قتل و غارت کی تلقین نہیں کرتا، انسان کو خود کشی پر نہیں ابھارتا، اس لیے سائنس موردِ الزام نہیں۔ یہ بات ایک حد تک صحیح ہے لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ سائنس پر سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ انسانی بہبود کے لیے عالمِ وجود میں آیا اور اسے مقصد کو کبھی نہ بھولنا چاہیے۔ سائنس تباہی و بربادی کے سامان مہیا کر کے علیحدگی اختیار نہیں کرسکتا اور یہ کہہ کر الزام سے بری نہیں ہو سکتا کہ چیزیں تو ایجاد ہو گئیں، اب ان سے کام لینا میرا کام نہیں۔ سائنس اور سائنس داں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ایجاد کی ہوئی چیزوں کو انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سائنس کو اپنے مقام سے واقف ہونا چاہیے۔ اگر یہ اپنے حد سے نہ بڑھے، اپنی خامیوں اور حدود سے واقف ہو اور خدائی کا دعویٰ نہ کرے تو بہت سے الزام جو اس پر عائد ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہے گا۔”

    "غرض ریڈیو یا سائنس کی کوئی دوسری ایجاد اپنی جگہ پر اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ اس ریڈیو سے بہت سے اچھے کام لیے جا سکتے ہیں۔ جلد ضروری خبریں بھیجی جاسکتی ہیں۔ ضرورت کے وقت مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ ایسی جگہوں میں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر واقع ہوئی ہیں، براہ راست ربط قائم رکھا جا سکتا ہے۔ دوری کا مسئلہ ریڈیو اور ہوائی جہاز کی وجہ سے حل ہو گیا ہے، دنیا مختصر اور سمٹی ہوئی ہو گئی ہے۔ سماجی اور بین الاقوامی تعلقات میں آسانیاں ہیں اور مختلف کلچر ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ سب آپس میں مل رہے ہیں اور مل کر ایک اعلیٰ انسانیت کا نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہ سب سہی لیکن اسی ریڈیو سے ناجائز مصرف لیا جا سکتا ہے۔ غلط خبریں نشر کی جا سکتی ہیں۔ جنگ میں اس سے اسی قدر مہلک کام لیا جا سکتا ہے جتنا بری و بحری اور ہوائی فوجوں سے۔ اسی سے انسان کے ذہن کوغلام بنایا جا سکتا ہے، اس کی روح کو جراثیم کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ان باتوں پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے اور جو چیز رائج ہو جاتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔”

    "ریڈیو کا رواج مغربی ملکوں میں عام ہے اور اب ہندوستان میں بھی عام ہو چکا ہے۔ مختلف ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے ہیں اور صبح سے رات تک پروگرام جاری رہتا ہے جیسے سنیما کا رواج عام ہے اور اسے عموماً زندگی کی ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سنیما کی اچھائی برائی کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اسے تفریح کا ایک اچھا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ سنیما اور کلچر میں کیا تعلق ہے، اس مسئلہ پر ہم سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح اخباروں کا مسئلہ ہے۔ اخباری اشتہاروں کا مسئلہ ہے۔ بازاری رسالوں، افسانوں اور ناولوں کا مسئلہ ہے۔ غرض ایسے کتنے مسائل ہیں جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ یہ چیزیں انسانیت کی ذہنی خودکشی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ ہم ہیں کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔”

    "ہاں تو ریڈیو کا مسئلہ کوئی الگ مسئلہ نہیں لیکن اتنی فرصت نہیں کہ ان سب مسئلوں پر ایک نظر ڈالی جائے اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ریڈیو نے اخباروں، اشتہاروں، تصویروں، بازاری رسالوں اور افسانوں کو گویا اپنی وسیع آغوش میں لے لیا ہے۔ اس لیے جو کچھ ریڈیو کے بارے میں کہا جائے وہ اور چیزوں پر بھی منطبق ہوگا۔”

  • ہندوستان کی مرفّہُ الحال ریاست حیدرآباد دکن اور سلطانُ‌ العلوم

    ہندوستان کی مرفّہُ الحال ریاست حیدرآباد دکن دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ رقبہ اور آبادی کی حامل تھی جس کے حکم راں میر عثمان علی خان اپنی ثروت مندی میں ممتاز اور رفاہیتِ‌ عباد کے کاموں کے لیے مشہور تھے۔

    برطانوی راج کے خاتمے پر تمام آزاد ریاستیں پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہو گئی تھیں، لیکن دکن جو مغلوں کے دورِ آخر ہی سے ہندوستان میں‌ خودمختار اور خوش حال ریاست سمجھی جاتی تھی، آخری نظام نے اس کی خود مختار حیثیت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس سلطنتِ آصفیہ پر بھارت نے بزورِ طاقت قبضہ کرلیا اور میر عثمان علی خان اپنی ہی ریاست کے راج پرمکھ بنا دیے گئے۔

    دکن کے نظام میر عثمان علی خان اس زمانے میں‌ دنیا کے چند امیر ترین افراد میں‌ شمار ہوتے تھے۔ تقسیم کے بعد نظام نے خطیر رقم پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے دکن سے یہاں منتقل کی تھی۔ اسی ریاست میں‌ تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور بانیِ پاکستان کے اہم رفیق بہادر یار جنگ نے پرورش پائی اور آگے چل کر شعلہ بیاں مقرر اور زبردست خطیب مشہور ہوئے۔ نواب بہار یار جنگ تحریکِ‌ آزادیٔ ہندوستان کے سپاہی بھی تھے، جن کی ایک تقریر سلطنتِ آصفیہ کی خودمختاری کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اس میں انھوں نے دنیا کے کئی ممالک سے دکن کا موازنہ کیا ہے جو بہت معلومات افزا ہے۔

    یہاں ہم بہادر یار جنگ کی تقریر سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی اور خاص طور پر تاریخ کے طالبِ علموں کی معلومات میں اضافہ کریں‌ گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "کسی سلطنت و مملکت کا جب ہم دوسری سلطنت یا مملکت سے مقابلہ کرتے ہیں تو اس تقابل میں چند ہی چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ رقبہ مملکت، آبادی، رقبہ آبادی کے لحاظ سے فی مربع میل آبادی کا تناسب، آمدنی، اور اس کے ذرائع و امکانات، تعلیم و شائستگی وغیرہ۔ اور اب بیسویں صدی میں فوجی و جنگی طاقت سب سے زیادہ قابلِ لحاظ چیز بن گئی ہے۔”

    "دنیا کے جغرافیہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس وقت جو ممالک دنیا کی بساط پر سب سے اہم مہروں کا پارٹ ادا کررہے ہیں ان میں بھی اکثروں سے حیدرآباد امتیازاتِ خاص رکھتا ہے۔ جب ہم کسی ملک کی عظمت و بزرگی کا تخیل کرنے لگتے ہیں تو سب سے پہلا اور اہم سوال جو کسی شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ اس کے رقبہ و حکومت کا خیال ہے، آج بھی سلطنتِ برطانیہ کی عظمت سب سے پہلے اس خیال سے پیدا کی جاتی ہے کہ اس کی حدودِ مملکت سے کہیں آفتاب کی روشنی دور نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں بعض ایسے بھی آزاد اور خود مختار ممالک ہیں جن میں سے بعض کا رقبہ حیدرآباد کے کسی صوبے کے برابر بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ آزادی اور خود مختاری کے ان تمام لوازم سے بہرہ اندوز ہیں جو ایک بڑی سے بڑی آزاد سلطنت رکھتی ہے۔ مثلاً یونان کا رقبہ انچاس ہزار مربع میل ہے۔ بلغاریہ کا چالیس ہزار میل، پرتگال کا پینتیس ہزار پانسو، البانیہ کا بیس ہزار، ڈنمارک کا پندرہ ہزار، ہالینڈ کا بارہ ہزار سات سو، بلجیم گیارہ ہزار مربع میل ہے اور ان سب کے مقابلے میں حیدرآباد کا رقبہ اپنی موجودہ حالت میں بیاسی ہزار چھ سو اٹھانوے مربع میل ہے۔ گویا جن آزاد بادشاہوں اور جمہوریتوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے بعض سے دگنا بعض سے چار گنا اور بعض سے چھ بلکہ سات گنا زیادہ ہے۔ لیکن اگر حیدرآباد کے اس موجودہ رقبے میں آپ برار و شمالی سرکار کے رقبے کو بھی شامل کر لیں جو بلاشبہ اور جائز طور پر مملکت حیدرآباد کا ایک جزو ہے تو بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس کا رقبہ مملکتِ یورپ کی درجۂ اوّل کی سلطنتوں، انگلستان، جرمنی، فرانس، اٹلی اور ہسپانیہ سے زیادہ نہیں تو ان کے برابر ضرور ہوجائے گا۔”

    دوسری اہم وجہِ امتیاز جو ایک مملکت کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی حکومت کے زیرِ سایہ کتنے نفوس انسانی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بعض ایسے ملک بھی دنیا کے نقشے پر ملیں گے جن کا رقبہ اس براعظم کے اس کنارے سے اُس کنارے تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن آبادی اس میں ویسی ہی ملے گی جیسے ایک صحرائے لق و دق میں سبزہ و گیاہ کا نشان، آبادی کی کمی اور زیادتی کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں۔ اراضی کے بڑے حصے کا بنجر صحرا پہاڑ، اور اسی طرح دوسرے اسباب کی بنا پر ناقابلِ کاشت ہونا۔ مملکتوں کا غلط نظام حکومت اور رعایا کا اس سے مطمئن نہ ہونا، کہیں اقتصادی اور معاشی حالت کی خرابی وغیرہ۔”

    "حیدرآباد کی آبادی گزشتہ مردم شماری کی رو سے بلا شمول صوبہ برار و شمالی سرکار ایک کروڑ چوالیس لاکھ چھتیس ہزار ایک سو پچاس ہے۔ اگر اس کو رقبۂ مملکت پر تقسیم کیا جائے تو فی مربع میل 175 نفوس کا اوسط آتا ہے۔ برخلاف اس کے دنیا میں بہت سے ایسے خود مختار اور آزاد ممالک ملیں گے جن کی آبادی کو حیدرآباد کی آبادی سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اس تناسبِ آبادی کی قرارداد میں ہم ان ممالک کو نظر انداز کرتے ہیں جن کے رقبہ سے متعلق اوپر بحث ہوئی۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ ان کی آبادی بھی رقبہ کے تناسب سے کم ہوگی اور ہے۔ مثلاً یونان جس کی آبادی صرف ستّر لاکھ ہے اور فی مربع میل اس کی آبادی کا اوسط (67) نفوس ہے۔ بلغاریہ جس کی آبادی صرف پچیس لاکھ ہے اور فی مربع میل (137) نفوس ہے۔ البانیہ کی آبادی دس لاکھ اور فی مربع میل (50) نفوس ہے۔ پرتگال کی آبادی چھپن لاکھ اور فی مربع میل (100) نفوس ہے۔”

    "مذکورہ بالا ممالک کی آبادی کے اعداد و شمار پر غور کرتے ہوئے یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ یورپ کے وہ ممالک ہیں جو کہ زرخیزی کے اعتبار سے مشہور اور ہر قسم کے اقتصادی اور معاشی تفوق سے سرفراز ہیں۔ اور ان میں سے اکثروں کی اپنی بندرگاہیں ہیں۔ زراعت، تجارت ، صنعت ، کسبِ معاش کے بیسیوں ذرائع ان کو حاصل ہیں اور ان کا طریقہ حکومت بھی ترقی یافتہ کہاجاسکتا ہے جو باوجود اس کے حیدرآباد کی آبادی اور رقبے کے ساتھ کسی تناسب میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔”

    "اب چند ان ممالک پر بھی نظر ڈالیے جو گورقبہ اراضی حیدرآباد سے دو چند اور بعض صورتوں میں چہار چند رکھتے ہیں لیکن آبادی میں حیدرآباد کے ساتھ ان کو کوئی نسبت نہیں دی جاسکتی۔ مثلاً شہنشاہیتِ ایران جس کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا آٹھ گنا زیادہ ہے یعنی چھے لاکھ تیس ہزار مربع میل لیکن آبادی حیدرآباد سے کم یعنی صرف ایک کروڑ ہے۔ آبادی کا تناسب فی مربع میل صرف (16) نفوس پر مشتمل ہے۔ حکومتِ نجد و حجاز کا رقبہ گو حیدرآباد سے بارہ گنا زیادہ یعنی دس لاکھ مربع میل ہے لیکن آبادی صرف پندرہ لاکھ اور تناسب (ڈیڑھ) کس فی مربع میل ہے۔ عراق کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا دو گنا زیادہ یعنی ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔ لیکن آبادی صرف تیس لاکھ اور تناسب بیس کس فی مربع میل ہے۔ مصر کا رقبہ حیدرآباد سے چار گنا زیادہ یعنی تین لاکھ ترسٹھ ہزار دو سو میل لیکن آبادی تقریباً برابر یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ اور تناسب آبادی (38) ایشائی ترکی کا رقبہ تقریبا پانچ گنا زیادہ یعنی چار لاکھ مربع میل لیکن آبادی حیدرآباد سے کم یعنی صرف ایک کروڑ بیس لاکھ ہے اور تناسب صرف (30)۔ افغانستان کا رقبہ بھی تقریباً تین گنا زیادہ یعنی دو لاکھ پینتالیس ہزار مربع میل ہے۔ لیکن آبادی نصف سے بھی کم یعنی ترسٹھ لاکھ اسی ہزار اور تناسب صرف (26)۔ اب اندازہ کیجیے۔”

    "حیدرآباد اپنی آبادی کے اعتبار سے نہ صرف یورپ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں بلجیم، ہالینڈ، البانیہ، یونان، پرتگال، ڈنمارک، بلغاریہ وغیرہ سے بڑھ کر ہے بلکہ ایشیا کی بڑی بڑی سلطنتوں ایران، ترکیہ، مصر، نجد و حجاز، عراق، افغانستان اور نیپال وغیرہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور تمام تقابلِ برار کو شامل کیے بغیر ہے جو مملکتِ آصفیہ کا ایک زرخیز اور آباد صوبہ ہے۔ اگر اس کو شامل کر لیا جائے تو شاید یورپ کی بڑی بڑی سلطنتیں بھی حیدرآباد کا آبادی کے معاملے میں مقابلہ نہ کرسکیں۔”

    "آپ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ایشیا کے بعض ممالک جو اپنے رقبے میں زیادتی پر ناز کرسکتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔ ان کے رقبۂ مملکت کا بیشتر حصّہ غیر آباد، ویران اور سنسان ہے۔ اگر کوئی شخص ویرانوں، کھنڈروں اور غیر آباد مقاموں میں کھڑا ہو کر رابنسن کروسو کی طرح صدا بلند کرسکتا ہے اور دنیا اس کو ایک باعظمت و جبروت بادشاہ مان سکتی ہے تو پھر غیر آباد ممالک بھی بیشک حیدرآباد کے مقابلے میں اپنا تفوق جتاسکتے ہیں لیکن اگر مملکت کے لیے آبادی شرط ہے اور وہ حیدرآباد کی مناسبت سے ان کے یہاں کچھ بھی نہیں تو ان کو حیدرآباد کے تفوق کو ماننا پڑے گا۔ برخلاف ان ممالک کے جہاں میلوں تک رقبۂ اراضی صحرا یا پہاڑوں کی شکل میں بیکار ہے۔”

    دکن سے متعلق تقریر کے معلومات افزا اقتباسات کے بعد اس ریاست کے آخری نظام میر عثمان علی خان کے بارے میں جان لیں کہ انھوں نے برصغیر کی اسلامی درس گاہوں، جدید تعلیمی اور سماجی اداروں کی ہر طرح سے سرپرستی اور مالی امداد کی۔ اسی سبب انھیں سلطانُ العلوم بھی کہا جاتا تھا۔ حیدر آباد دکن کے اس درویش اور سخی حکم راں نے دین و ملّت کے لیے بھی اپنے خزانوں کا منہ کھول کر رکھ دیا اور ایک عاشقِ‌ رسول کی حیثیت سے اور اپنی آخرت کا سامان کرنے کے لیے میر عثمان علی خان نے خطیر رقم سے مسجدِ نبوی اور خانۂ کعبہ میں کاموں کے علاوہ وہاں جنریٹر اور بجلی کی فراہمی کے منصوبے کو انجام تک پہنچایا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن میں ایک ہوٹل، بلڈنگ مدینہ مینشن بنائی اور ایک ٹرسٹ بنایا، جس کی آمدنی مکّہ، مدینہ میں‌ کاموں اور حاجیوں کے اخراجات پورے کرنے پر صرف کی جاتی تھی۔

    میر عثمان علی خان نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کو 20 کروڑ روپے عطیہ دیا تھا، جس سے نئی مملکت کے اخراجات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔