Author: عارف حسین

  • وارن ہیسٹنگز: وہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا!

    پروانۂ تجارت حاصل کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے جس طرح ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کر کے کروڑوں لوگوں پر راج کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں‌ ملتی۔ کمپنی نے فوج کی مدد سے ایک قوم کو غلام بنا لیا تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوگئی اور بظاہر اقتدار مقامی حکم رانوں کے ہاتھ میں تھا، مگر آمدن و محصول سے برطانیہ مستفید ہو رہا تھا۔

    ہندوستان کے مشرقی صوبوں میں ٹیکس وصول کرنے اور انتظامی معاملات چلانے کا معاہدہ کرنے والے انگریزوں نے خود کو ہندوستان کے عوام کا خیر خواہ اور ان کی فلاح و بہبود کا خواہاں‌ ثابت کرنے کے لیے یہاں سڑکیں، پُل، سرائے تعمیر کروائے، درس گاہیں اور مدارس قائم کیے جہاں عربی بھی سکھائی جاتی تھی، اور ہندوستان کو ریل کا ذریعۂ سفر بھی دیا، لیکن اس ملک کی آزادی ختم ہو چکی تھی اور صوبوں کا انتظام انگریز منتظمین چلا رہے تھے۔

    یہاں ہم وارن ہیسٹنگز (Warren Hastings) جو گورنر جنرل بنگال تھا، کے بارے میں‌ مولوی ذکاءُ اللہ کے مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جس میں وہ اس انگریز صوبہ دار کے سیاسی تدبّر، فہم و فراست اور بحیثیت منتظم اس کی خوبیوں کے معترف ہیں، لیکن کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سنہ 1773ء سے بدعنوانی کے الزام میں اپنے مواخذے کی کارروائی تک یہ انگریز افسرِ اعلیٰ عوام کو اپنے حُسنِ‌ انتظام کا یقین دلاتے ہوئے انگریزوں کو ان کا محسن بتانے کے لیے پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ مؤرخین نے اسے ذہین اور چالاک بھی لکھا ہے۔

    مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ کو مولوی ذکاءُ‌ اللہ نے سلطنتِ انگلیشیہ کے نام سے مضامین کو بہم کیا ہے۔ وہ مؤرخ اور مترجم مشہور تھے جن کے کئی مضامین یادگار ہیں۔

    وارن ہیسٹنگز کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
    شاید ہی کوئی دوسرا مدبّر و منتظمِ ملکی ایسا گزرا ہو کہ جس کی تفضیح اور ہجو اس مبالغہ سے اور تعریف اس شد و مد سے ہوئی ہو اور اس کی ساری زندگی کے افعال اور اعمال کی تحقیقات ایسی شہادتِ تحریری سے ہوئی ہو۔ مگر اس کی نسبت لکھنے والے طرف دار اور متعصب تھے۔

    اگر نظرِ انصاف سے دیکھیے تو اس کی یہ بھلائیاں اور برائیاں معلوم ہوں گی جو ہم نیچے لکھتے ہیں۔ اس کی فطانت اور فراست و ذہانت کے سب دوست دشمن قائل ہیں۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا کہ وہ بیدار مغز اور ہوشیار دل ایسا تھا کہ امورِ خطیر اور معاملاتِ عظیم کے انصرام اور سر انجام کرنے کی اس میں قابلیت اور لیاقت تھی۔ برسوں تک اس نے ایک سلطنتِ بزرگ اور مملکتِ عظیم کا نظم و نسق کیا۔ سوائے ذہین اور قابل ہونے کے وہ محنت شعار اور جفاکش پرلے درجہ کا تھا۔ کاہلی اس سے کروڑوں کوس دور رہتی تھی۔

    اس کے جانشین جو ہوئے ان میں دو چار قابلیت اور لیاقت میں تو ہم پلہ ہوئے مگر محنت مشقت و کار گزاری میں اس سے کہیں ہلکے تھے۔ یہی پہلا عالی دماغ تھا۔ جس نے یہ سوچا کہ انگریزی گورنمنٹ سب سے علیحدہ رہ کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اور ہندوستانی رئیسوں سے آمیزش اور سازش کرے۔ یہی باب فتح و نصرت کی کنجی ہے۔ یہی وہ روشن عقل تھا کہ اس شاہراہ پر انگریزی گورنمنٹ کو رستہ دکھایا۔ جس پر چلنے سے وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گئی۔ گو یہ خیالات اس وقت انگلستان میں عام نہ تھے مگر بری بھلی طرح سے تجربہ ہو کر آخر کار وہی صحیح ثابت ہو گئے۔

    اس نے انگریزی صوبوں کے حسنِ انتظام میں اپنی عقل و ذہن کو بہت خرچ کیا۔ انقلابوں کے طوفان نے سارے ملک میں اندھیر مچا رکھا تھا۔ کسی سلطنت کا چراغ روشن نہ تھا۔ شمعِ افسردہ کی طرح سب میں دھواں نکل رہا تھا۔ مالی اور دیوانی عدالتوں کا بہت برا حال تھا۔ وہ نام کی عدالتیں تھیں۔ حقیقت میں اس کے طفیل وہ ظلم و ستم ہوتے تھے کہ قلم لکھ نہیں سکتا۔

    غرض سارے زمانے کی عافیت تنگ تھی۔ اس نے ان سب عدالتوں کی اصلاح کی۔ گو ان کو ان کے درجۂ کمال تک نہیں پہنچایا اور نہ ان کو اچھا بنایا۔ مگر وہ ایک بنیاد اس کی ایسی ڈال گیا کہ پھر اس پر اوروں کو ردے لگا کر عمارت بنانی آسان ہو گئی۔ کوئی حکومت کا کارخانہ ایسا نہ تھا کہ جس کی طرف اس نے توجہ نہ کی ہو اور ان میں بہت سی مفید باتوں کا موجد نہ ہو۔

    اس نے اپنی سرکار کی ہوا خواہی اور خیر اندیشی میں بھی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ مگر اس میں اس نے اخلاق کی نیکی پر خیال نہیں کیا۔ جس وقت سرکار نے روپیہ مانگا۔ تو اس کے سر انجام کرنے میں کسی بات کا آگا پیچھا نہیں سوچا۔ از راہِ ظلم و تعدی جو دولت کا سامان کیا اہلِ انگلستان نے اس کو سر بے سامانی سمجھا۔ اس کی طبیعت کا خمیر ایسا تھا کہ وہ عدالت اور صداقت کو ضرورت کے وقت کچھ چیز نہیں سمجھتا تھا اور مروت و فتوت کو انسانیت میں داخل نہیں جانتا تھا۔ "گر ضرورت بود روا باشند” پر عمل تھا۔ وہ خود رائی کے سبب بر خود غلط اتنا تھا کہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ ہر کام اس کا ایک راز سر بستہ اور سر پوشیدہ تھا۔ کسی کام کی اصل و حقیقت کھلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ گو اس کے ظاہر ہو جانے سے نقصان نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہر کام کو بڑے پیچ پاچ سے کرتا تھا۔ غرض اس میں جو خوبیاں تھیں، وہ تحسین کے قابل تھیں اور جو برائیاں تھیں وہ نفریں کے لائق۔

    یوں سمجھنا چاہیے کہ رعایا پروری۔ سپاہ کی دلداری۔ لوگوں کو اپنا کر لینا۔ رفاہیتِ عباد اور معموریٔ بلاد کا خیال یہ سب خوبیاں اس میں ایسی تھیں کہ وہ ایک طوطیِ خوش رنگ کی طرح خوش نما معلوم ہوتی تھیں۔ مگر اپنی سرکار کی نمک شناسی کے سبب سے اس کی گنجینہ آزمائی، دولت افزائی ایسی ایک بلّی اس میں تھی کہ وہ اس طوطیِ خوش رنگ کو نوچے کھاتی تھی۔ مگر اس بلّی کے بھنبھوڑنے کے لیے اس کے پاس ایک کتّا بھی موجود تھا، جو اس کی خود پرستی و خود رائی تھی۔

    غرض یہ فضائل اور رذائل اس میں کام کر رہے تھے جو ایک بڑے بند مکان میں طوطی اور بلّی اور کتّا کام کریں۔ ہیسٹنگز صاحب کی سب سے زیادہ تعریف اس بات میں تھی کہ اس نے سارے کارخانوں اور کاموں کے لیے خود ہی مقدمات کو ترتیب دیا اور اس بات کو سر انجام کیا۔ جب وہ ولایت سے ہندوستان آیا تو طفلِ مکتب تھا۔ نوکری ملی تو تجارت کے کارخانے میں۔ کبھی اس کو اہلِ علم اور منتظمانِ ملکی کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی۔ جتنے اس کے یہاں جلیس و انیس تھے، ان میں کوئی اس سے زیادہ صاحبِ لیاقت نہ تھا کہ اپنی لیاقت کو بڑھاتا بلکہ اس کو خود استاد بن کر سب کو لیاقت کا سبق پڑھانا پڑا۔ وہ سب کا راہ نما تھا اور اس کا راہ نما فقط اس کی عقل و دانش کا نور تھا۔

  • 2022: علم و ادب سے متعلق سرگرمیوں کا احوال اور اہلِ قلم کا تذکرہ

    اس سال علم و ادب کی دنیا میں جہاں کتابوں کی اشاعت، تقاریب کا سلسلہ جاری رہا وہیں ادبی میلے بھی سجائے گئے، اور اہلِ قلم نے متاثر کن تخلیقات پر ایوارڈ اپنے نام کرکے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی۔

    آئیے، دنیا بھر میں زبان و ادب کے فروغ کی کاوشوں اور اہلِ قلم کی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    ادب کا نوبیل انعام
    شروع کرتے ہیں ادب کے نوبیل انعام سے جس کی فاتح کا نام 6 اکتوبر کو سامنے آیا۔ اس سال نوبیل کی قطار میں کینیا کے نگوگی وا تھیونگو، کینیڈا کی شاعرہ این کارسن، فرانس کے مائیکل ہولی بیک شامل تھے، اس ادیب نے 1998 کے اپنے ناول ‘ایٹمائزڈ’ پر عالمی سطح پر پہچان حاصل کی تھی۔ اسی فہرست میں فرانسیسی مصنفہ اینی ارنو (Annie Ernaux) بھی شامل تھیں۔ وہ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب کے طفیل نوبیل انعام کی دوڑ میں شامل ہوئی تھیں۔ یہ وہ سوانحی تصنیف ہے جس میں خاتون کی حیثیت سے اینی ارنو نے سماجی عدم مساوات کی جھلک پیش کی ہے۔ اکیڈمی نے انھیں نوبیل انعام کا حق دار قرار دیا اور ان کی کتاب ’’جرات اور کلینیکل تیز رفتاری‘‘ کو سراہا۔ اس سال کی نوبیل انعام یافتہ اینی ارنو کی عمر 82 برس ہے۔

    سویڈش اکیڈمی نے اس انعام کے لیے مصنفہ کے انتخاب کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارنو مسلسل اور مختلف زاویوں سے ایک ایسی زندگی کا جائزہ لیتی ہیں جس میں صنف، زبان اور طبقے کے حوالے سے سخت تفاوت پایا جاتا ہے۔

    وہ 22 ناولوں کی مصنف ہیں۔ ان کے ناول طبقات سماج اور صنف کے ذاتی تجربے پر مبنی ہیں۔ اینی ارنو ادب کا نوبل انعام جیتنے والی پہلی فرانسیسی خاتون ہیں جنھوں نے ایک انٹرویو کے دوران اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا:’’میں بہت حیران ہوں، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک مصنفہ کے طور پر اس اعزاز سے نوازا جائے گا۔‘‘

    اینی ارنو کا پہلا ناول’’لیس آرموائرس وائڈز‘‘1974 میں شائع ہواتھا۔ 2008 میں ان کی دنیا بھر میں پہچان جس ناول کے سبب بنی وہ تھا ’’لیس اینیس۔‘‘ 2017 میں اس کا ترجمہ شائع ہوا تھا۔

    ارنو کا ایک ناول سنہ 2000 میں شائع ہوا تھا جس کا نام’ہیپننگ‘ تھا۔ یہ 1960ء کی دہائی میں فرانس میں اسقاط حمل کو غیر قانونی قراردینے اور اس دوران مصنفہ کے اسقاط حمل کے ایک تجربے پر مبنی ہے۔ اس پر بنائی گئی فلم نے 2021 میں وینس فلمی میلے میں انعام جیتا تھا۔

    شمالی فرانس کے نارمنڈی کے ایک دیہی علاقے میں اینی ارنو نے 1940 میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد ایک اسٹور اور کیفے کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی تصانیف میں بتایا کہ کس طرح اپنے محنت کش طبقے کے پس منظر کے ساتھ وہ فرانسیسی طبقاتی ںظام کے ضابطوں اور عادات کو اپنانے کے لیے جدوجہد کرتی ہوئی بڑی ہوئیں۔

    فکشن کا بکر پرائز
    فکشن کی دنیا میں ‘بکر پرائز’ ایک معتبر انعام ہے جو رواں برس سری لنکن ادیب کے نام ہوا۔ شیہان کرونا تیلاکا کو ان کے سیاسی طنزیہ ناول بعنوان ’مالی المیدا کے سات چاند‘ پر یہ انعام دیا گیا۔ یہ سری لنکا کی طویل خانہ جنگی کے موضوع پر تصنیف کردہ ہے۔

    17 اکتوبر کی شام لندن میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں بکر پرائز وصول کرتے ہوئے مصنف نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کا یہ ناول سری لنکا میں بھی پڑھا جائے گا، ”ایک ایسا ملک جو اپنی کہانیوں سے سیکھتا بھی ہے۔‘‘

    یہ ناول سری لنکا میں 1990ء کی دہائی کے حالات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسے فوٹو گرافر کے بارے میں ہے، جو ملک میں جاری خانہ جنگی کے دوران ایک صبح جاگتا ہے تو مر چکا ہوتا ہے۔ 47 سالہ شیہان کرونا تیلاکا یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے دوسرے سری لنکن ہیں، اس سے پہلے 1992 میں سری لنکن ادیب مائیکل اونداجے کو ان کی تصنیف ‘دی انگلش پیشنٹ’ پر بکر پرائز دیا گیا تھا۔

    بکر پرائز کی جیوری کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کرونا تیلاکا کا یہ ناول ایک ”مابعد الطبیعیاتی تھرلر ہے، جو بعد از حیات کی تاریکی کا اس طرح احاطہ کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف تخلیقی ادب کی مختلف اقسام کی حدود بلکہ زندگی اور موت، جسم اور روح حتیٰ کہ مشرق و مغرب کے درمیان سرحدیں بھی تحلیل ہوتی جاتی ہیں۔‘‘

    کرونا تیلاکا کی یہ کتاب برطانیہ کے Sort of Books نامی ایک آزاد اشاعتی ادارے نے شائع کی ہے۔ شیہان کرونا تیلاکا 1975ء میں جنوب مغربی سری لنکا کے شہر گالے میں پیدا ہوئے۔ دارالحکومت کولمبو میں رہتے ہوئے انھوں نے قلم کار کی حیثیت سے کئی بین الاقوامی جرائد اور رسائل کے لیے لکھا۔ انھیں بین الاقوامی سطح پر 2011ء میں ان کے ناول ‘چائنا مین‘ کی وجہ سے شہرت ملی تھی۔

    2022ء میں بکر پرائز کے لیے جن دیگر ادیبوں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، ان میں برطانیہ کے ایلن گارنر، زمبابوے کی نووائلٹ بولاوائیو اور امریکی مصنف پیرسیوال ایویرٹ بھی شامل تھے۔

    بکر پرائز کا سلسلہ 1968ء میں شروع ہوا تھا اور فکشن کا یہ انعام انگریزی زبان میں اس کتاب پر دیا جاتا ہے جو برطانیہ میں شائع ہوئی ہو۔ انعام یافتہ کتاب کے مصنّف کو 50 ہزار پاؤنڈ کی رقم دی جاتی ہے۔

    عالمی بکر پرائز
    اس برس انٹرنیشنل بکر پرائز کی فاتح بھارتی ادیبہ گیتانجلی شری رہیں۔ انھیں ہندی زبان میں لکھے گئے ناول ‘ریت سمادھی‘ پر یہ انعام دیا گیا ہے۔ اس اعزاز کے لیے گیتانجلی شری سمیت پانچ مصنفین کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا اور وہ سب کی سب خواتین تھیں۔ انٹرنیشنل بکر پرائز ایسی ادبی تخلیقات پر دیا جاتا ہے، جن کے انگریزی زبان سمیت بین الاقوامی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہوں۔ ‘ریت سمادھی‘ ہندی زبان کا پہلا ناول ہے جس کا ترجمہ ناول کو اس انعام کی تیار کی گئی فہرست تک لے آیا۔ ڈیزی راک ویل وہ مترجم ہیں جنھوں نے ریت سمادھی کو انگریزی میں ‘ٹومب آف سینڈز‘ کے نام سے منتقل کیا۔

    2016ء میں انٹرنیشنل بکر پرائز کے ضوابط میں چند بنیادی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ یہ ایوارڈ سالانہ اور مجموعی کام کے بجائے ایک کتاب تک محدود کر دیا گیا۔ اب ضروری تھا کہ کتاب کی اصل زبان انگریزی نہ ہو، بلکہ یہ کسی بھی دوسری زبان سے انگریزی میں منتقل شدہ ہو، جس کی اشاعت برطانیہ یا آئرلینڈ میں ہوئی ہو۔

    گیتانجلی شری کا ناول ریت سمادھی سات سے آٹھ سال تک کی طویل محنت اور مسلسل لگن کا نتیجہ ہے جو ہندی میں پہلی بار 2018 میں سامنے آیا۔ مصنفہ کی شہرت ادبی ہنگاموں سے نسبتاً الگ تھلگ رہنے والی خاتون کی ہے اور قبل ازیں ان کا ایک ناول مائی کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

    ناول ایک 80 سالہ عورت کی کہانی ہے، جو اپنے خاوند کی موت کے بعد زندگی سے بیزار نظر آتی ہے۔ اپنے انٹرویو میں گیتانجلی شری نے کہا، ”ہمارے ارد گرد ایسے بے شمار بوڑھے افراد موجود ہوتے ہیں، جو بظاہر ایک کونے میں بیٹھ کر موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول، ”ایسے کسی انسان کی بیزاری نے میرے اندر تجسس بیدار کیا کہ آیا یہ بیزاری کسی نئی وابستگی کا پیش خیمہ تو نہیں۔‘‘ گیتانجلی شری کا ناول ریت سمادھی مقامی ثقافت کے مٹتے نقوش کو صفحات میں قید کرنے کی لازوال کوشش ہے جس کی چمک نے بین الاقوامی سطح پر اپنی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔

    بھارتی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی 65 سالہ گیتانجلی شری اب تک پانچ ناول اور کئی افسانے تحریر کر چکی ہیں لیکن ادبی منظر نامے پر ان کی بھرپور انٹری ‘مائی‘ سے ہوئی۔ یہ ناول بھی ہندوستان کے مٹتے ہوئے مقامی رنگوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک خاموش طبع اور سر جھکا کر جینے والی ایک گھریلو خاتون ہے۔ مائی کے دو بچے سبودھ اور سونینا نئی نسل کا روپ اور روایتی ہندو گھرانے میں بغاوت کی آواز ہیں، جو مائی میں خاندانی بندشوں کے خلاف کوئی شعلہ بیدار نہیں کر سکتیں۔ بشیر عنوان نے ناول کو مائی کے نام سے اردو کے قالب میں اس وقت ڈھالا تھا جب گیتانجلی کو یہ نام و مقام نہیں ملا تھا۔

    پلٹزر پرائز
    فکشن کے پلٹزر پرائز کے لیے جوشوا کوہن کا نام دس مئی 2022ء کو فاتح کے طور پر سامنے آیا تھا۔ اس ایوارڈ کا آغاز 1911 میں انتقال کرنے والے اخبار پبلشر جوزف پلٹزر کی وصیت پر 1917 میں شروع ہوا تھا۔ جوزف پلٹزر نے کولمبیا یونیورسٹی میں جرنلزم اسکول شروع کرنے اور پلٹزر ایوارڈ کے لیے اپنی زندگی میں ہی رقم مختص کر دی تھی۔

    ویمنز پرائز کا تذکرہ
    اس سال ویمنز پرائز کے لیے اپریل میں ناموں کی مختصر فہرست سامنے آئی تھی اور 15 جون کو فکشن کے لیے امریکی مصنف اور فلم ساز کو اس کا حق دار قرار دیا گیا۔ یہ مصنّف کا چوتھا ناول ہے جسے لندن میں‌ منعقدہ تقریب میں‌ ایوارڈ دیا گیا۔

    فرینکفرٹ کا کتب میلہ
    جرمنی کا مشہور کتب میلہ فرینکفرٹ شہر میں 19 اکتوبر سے 23 اکتوبر تک جاری رہا اور اس سال بھی دنیا بھر سے علم و ادب کی ممتاز شخصیات اور معروف ناشروں کی شرکت کے ساتھ میلے کے آخری روز کتابی صنعت کے امن انعام کا اعلان بھی کیا گیا، یہ انعام یوکرین کے ادیب کو دیا گیا۔

    15 ویں عالمی اردو کانفرنس
    کراچی کی عالمی اردو کانفرنس میں اس سال بھی حسبِ روایت علم و ادب، تہذیب و ثقافت اور فنون لطیفہ کی مختلف جہتوں پر نشستیں برپا ہوئیں اور مذاکرے کے دوران مختلف موضوعات پر اہل علم و فن نے سیر حاصل گفتگو کی۔

    15 ویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز کراچی میں یکم دسمبر کو ہوا تھا جو چار روز تک جاری رہی۔ حسبِ روایت صدر آرٹس کونسل آف پاکستان احمد شاہ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جس کے بعد افتتاحی اجلاس شروع ہوا۔ ملک بھر سے مایہ ناز اہلِ قلم اور فن کار اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ مہمانِ خصوصی وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ تھے۔

    کانفرنس کے پہلے روز ناصر عباس نیّر، ایلکس بیلم (آغا خان یونیورسٹی، لندن) نے مقالے پیش کیے۔ اقبال اور قوم کے موضوع پر سہیل عمر، نعمان الحق نے گفتگو کی۔

    رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو کے عنوان سے‘‘ اردو کا شاہکار ادب کی پڑھنت ضیاء محی الدّین نے کی۔ دوسرے دن اردو کا نظامِ عروض۔ ضروری غیر ضروری کے موضوع پر آفتاب مضطر، ایاز محمود، تسنیم حسن، رخسانہ صبا نے گفتگو کی۔ اکیسویں صدی میں اردو فکشن (ناول، افسانہ، کہانی) پر بات ہوئی تو صدارت اسد محمد خاں اور زاہدہ حنا کر رہے تھے۔ اصغر ندیم سید نے اکیسویں صدی میں اردو ناول کے موضوعات، فرحت پروین نے داستان سے افسانے تک جب کہ اختر رضا سلیمی نے اردو ناول کے اسلوب اور تیکنیک کے تجربات پر بات کی اور اکیسویں صدی کا اردو افسانہ کے عنوان سے حمید شاہد نے اظہار خیال کیا۔ افسانے کا موضوعاتی تنوع اخلاق احمد اور اردو فکشن کے امتیازات پر محمد حفیظ خان نے بات کی۔

    اکیسویں صدی میں تقدیسی ادب پر مذاکرے کی صدارت افتخار عارف اور عالیہ امام کررہے تھے۔ اس میں اکیسویں صدی کی اردو نعت کا اسلوبی جائزہ عزیز احسن نے پیش کیا۔ اکیسویں صدی کی اردو حمد پر فراست رضوی، نعتیہ مسدس کی نئی جہت (خیال آفاقی کے مجموعے ” یا سیدی” کے تناظر میں) پر محمد طاہر قریشی رضوان حسین نے بات کی۔

    کانفرنس کے تیسرے روز اکیسویں صدی میں اردو شاعری کی مختلف اصناف پر بات ہوئی جب کہ بچوں کا ادب بھی ایک اہم موضوع تھا۔ پاکستان۔ تعلیم کی صورتحال کے موضوع پر شرکائے گفتگو سردار علی شاہ، شہناز وزیر علی، انجم ہالائی و دیگر تھے۔ اکیسویں صدی میں فنون کی صورتحال (ریڈیو،تھیٹر، ٹی وی،فلم، موسیقی) کے موضوع پر بھی اظہار خیال کیا گیا۔

    ااس کانفرنس میں 14 کتابوں کی تقریب رونمائی میں تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی کی کتاب بڑے گھر کی کہانی بھی شامل تھی، نشست میں حامد میر اور سہیل وڑائچ نے بند کمروں کی سیاست پر بات کی۔ پاکستان آج اور کل کے موضوع پر حامد میر نے ملک کی جڑوں میں پوشیدہ مسائل اُجاگر کیے۔

    عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز ادیب شوکت صدیقی کے سو سال، مشتاق احمد یوسفی کی بے باک مزاح نگاری پر بات ہوئی۔ اس مرتبہ کانفرنس کے لیے انگریزی زبان میں دعوت نامہ علمی اور ادبی حلقوں میں تنقید کا باعث بنا تھا جس پر بعد میں توجہ دی گئی تھی اور اسی بات کو اختتامی سیشن کے دوران گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ قرارداد میں یہ بات شامل کی جانی چاہیے کہ عالمی اردو کانفرنس کا دعوت نامہ اردو میں ہو۔ اختتامی اجلاس کے مہمانِ خصوصی گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری تھے۔

    یادِ رفتگاں کے عنوان کے تحت اس کانفرنس کے دوران شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، امداد حسینی، فاروق قیصر (انکل سرگم) کی شخصیت اور فن پر بات ہوئی۔

    کتابوں‌ کی دنیا اور ادبی میلے
    اس سال ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ کا پنجابی ناول ’میں بھناں دِلّی دے کِنگرے‘ منظرِ عام پر آیا جو برطانوی راج کے مخالف اور انقلابی بھگت سنگھ کی زندگی پر مبنی ہے۔ رواں برس کی انٹرنیشنل بکر پرائز کی فاتح گیتانجلی شری کا انعام یافتہ ناول بھی اسی سال اردو میں‌ ترجمہ ہو کر قارئین تک پہنچ گیا۔ معروف براڈ کاسٹر، ادیب اور مترجم انور سن رائے نے اس ناول کو اردو زبان میں منتقل کیا ہے۔

    اس سال مئی کے مہینے میں آرٹس کونسل کراچی میں "Conversations with my father” کی تقریبِ رونمائی بھی ہوئی، یہ فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی کی کتاب ہے جو رواں برس سامنے آئی۔

    کراچی میں عالمی کتب میلہ 8 دسمبر سے 12 دسمبر تک جاری رہا۔ یہ 17 واں کتب میلہ تھا جو کراچی کی روشن اور توانا شناخت بن چکا ہے، اس میلے میں ہر سال زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے عام افراد کے علاوہ علم و ادب سے وابستہ شخصیات اور نام ور لوگ شریک ہوتے ہیں اور کتاب دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے علم و فنون کے فروغ کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ میلے کا مقصد کتب بینی کو فروغ دینا اور اس پلیٹ فارم پر ملکی و غیر ملکی ناشروں اور تقسیم کاروں اکٹھا کرنا بھی ہے۔

    کراچی لٹریچر فیسٹول رواں برس مارچ میں منعقد ہوا۔ یہ چار تا چھے مارچ جاری رہنے والا 13 واں ادبی میلہ تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے تحت تین روزہ میلے میں فن و ادب سے جڑے موضوعات پر اہم مذاکرے ہوئے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے علاوہ کئی اہم شخصیات کراچی لٹریچر فیسٹیول میں نظر آئیں جب کہ غیرملکی مندوبین کی بڑی تعداد بھی اس میلے میں شریک تھی۔

    اس برس نومبر کے وسط میں‌ دو روزہ میلہ ملتان لٹریری فیسٹیول کے زیرِ اہتمام منعقد کیا گیا جس میں اہلِ قلم اور اردو زبان و ادب کے پڑھنے والوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

    اسی طرح فیصل آباد آرٹس کونسل میں بھی نواں لٹریری فیسٹیول منعقد ہوا جب کہ کراچی میں‌ ادبی میلے کا چوتھا سلسلہ 26 سے 27 نومبر تک جاری رہا۔ یہ میلہ فریئر ہال میں سجایا گیا تھا۔

  • ’خواتین و حضرات! ہم نے انہیں دھر لیا ہے!‘

    ’خواتین و حضرات! ہم نے انہیں دھر لیا ہے!‘

    عراق میں امریکی انتظامیہ کے سربراہ پال بریمر نے ایک پریس کانفرنس میں‌ صدام حسین کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا اور اس دوران انھوں نے کہا تھا، ’خواتین و حضرات! ہم نے انہیں دھر لیا ہے۔‘

    بریمر نے اس پریس کانفرنس میں اسے عراق کی تاریخ کا ایک ’عظیم دن‘ بھی قرار دیا تھا۔

    صدام حسین کی گرفتاری کے اگلے روز 14 دسمبر 2003ء کو یہ پریس کانفرنس کی گئی تھی جس میں گرفتاری کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بڑی کام یابی بتایا گیا اور اس کا جشن بھی منایا گیا، لیکن بعد کے برسوں میں عراق جنگ کو بش انتظامیہ کی غلطی اور ‘منہگی مہم جوئی’ کہہ کر اس جنگ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ عراق میں امریکی افواج کے داخلے کے بعد مفرور صدام حسین کو آج ہی کے دن ان کے آبائی شہر تکریت کے ایک مقام پر تہ خانے سے گرفتار کیا گیا تھا، وہ کئی روز سے اس جگہ چھپے ہوئے تھے۔

    بعد میں صدام حسین پر عراقی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی دے دی گئی۔

    حملے کی بنیادی وجہ تو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے وہ ہتھیار تھے جس نے بالخصوص نائن الیون کے بعد عراق کو ‘سرکش ریاست’ اور اس کے سربراہ صدام حسین کو عالمی امن کے لیے ‘خطرہ’ بنا دیا تھا۔ لیکن جنگ کی آگ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور ان ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

    دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، دانش ور اور عراق کے عوام بھی ‘سپر پاورز’ کی طرف دیکھتے رہے کہ صدام کی گرفتاری کے بعد وہ کب عراق میں خطرناک ہتھیاروں تک پہنچیں‌ گے اور انھیں ‘عالمی امن’ کی خاطر تلف کردیا جائے گا، لیکن ایسا کوئی اعلان نہیں‌ کیا گیا۔

    یادش بخیر، ایران میں اسلامی انقلاب اور امریکا مخالف اقتدار کے بعد جب صدام حسین نے سنہ 1980ء میں ایران کے ساتھ جنگ چھیڑی تھی تو کون جانتا تھا کہ یہ لڑائی آٹھ سال تک جاری رہے گی اور دس لاکھ انسان اس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ ضرور کہا جانے لگا تھا کہ صدام حسین کو امریکا کی خاموش حمایت حاصل ہے اور جنگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ کئی برس بعد اسی صدام حسین کو امریکا نے تخت سے اتار کر تختۂ دار پر پہنچا دیا۔

    صدر بش کی حکومت میں اس کارروائی کو دنیا نے اخلاقی طور پر درست تسلیم نہیں کیا بلکہ امریکا اور برطانیہ میں ہی اس کے خلاف زبردست مظاہرے نہیں کیے گئے بلکہ دنیا بھر میں‌ بش انتظامیہ کی زور دار مخالفت ہوئی۔ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ امریکا میں صدر بش کی صدارتی انتخابات میں کام یابی کے بعد ہی عراق میں تبدیلیٔ حکومت کی باتیں عام ہونے لگی تھیں۔

    امریکی صدر بش اور ان کے بڑے اتحادی برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی حکومت کا دعوٰی تھا کہ صدام حسین وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حاصل کر رہے ہیں جو خطّے میں مغربی مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسی بنیاد پر 2003ء میں اتحادی فوج نے عراق پر حملہ کر دیا۔

    رواں برس مئی میں اس وقت دل چسپ صورتِ‌ حال پیدا ہوگئی جب سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش روس اور یوکرین جنگ پر گفتگو کررہے تھے کہ ان کی زبان پھسل گئی اور وہ عراق پر امریکی حملے کو ’غیر مصنفانہ، بلاجواز اور وحشیانہ حملہ‘ قرار دے بیٹھے۔ میڈیا کے مطابق وہ روانی میں کہہ گئے کہ ’یہ روس میں مؤثر احتسابی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہے اور عراق پر مکمل طور پر غیر منصفانہ، بلاجواز اور وحشیانہ حملہ کرنا ایک شخص کا فیصلہ ہے۔‘ تاہم سابق صدر کو فوراً غلطی کا احساس ہوگیا اور اپنے جملے کی تصحیح کرتے ہوئے بولے، ’میرا مطلب یوکرین تھا۔‘

    عراق میں امریکا کا یہ آپریشن 2011ء تک جاری رہا۔ اس حملے میں‌ اور بعد کے برسوں میں عراق میں جھڑپوں اور مسلح گروہوں کی کارروائیوں میں ہزاروں عام شہری قتل ہوئے۔ امریکا دنیا کو نائن الیون کی سازش میں عراق کے کردار اور اپنے ملک میں کارروائی سے اس کے تعلق پر بھی دنیا کو مطمئن نہیں کرسکا۔

    صدام حسین کی بات کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ وہ عراق کے طویل عرصے تک مطلق العنان حکم راں رہے اور نہایت ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ صدام حسین کا غیرمصالحانہ طرزِ حکومت بھی عراق کو دنیا میں نمایاں کرتا رہا۔ جوانی میں صدام حسین بعث پارٹی سے وابستہ ہوگئے تھے اور 1956ء میں جنرل عبدالکریم قاسم کے خلاف ایک ناکام بغاوت میں بھی حصّہ لیا۔ انھوں‌ نے اپنے دورِ‌ حکومت میں ایران کے ساتھ جنگ چھیڑی اور بعد میں‌ کویت پر حملہ کیا۔

    عراق کے صدر پر عائد کردہ الزامات اور ان کے جرائم کی فہرست میں کردوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کرنا بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں‌ اور ملک میں‌ اپنے مخالفین پر تشدد اور انھیں موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے بھی وہ مشہور رہے۔

    دسمبر ہی میں‌ صدام حسین کو تختۂ دار پر کھینچا گیا تھا اور اس کے بعد سابق امریکی صدر جارج بش کو یہ کہنا پڑا کہ عراق حملہ غلطی تھی اور سب کچھ حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔

    عراق میں امن وامان کی صورتِ حال اب بھی بہتر نہیں‌ ہے اور سیاسی جماعتیں کم زور اور بٹی ہوئی ہیں جب کہ انتہا پسند اور مختلف مسلح گروہ بھی مرکزی حکومت کے لیے مسئلہ بنے رہتے ہیں۔

    امریکا نے عراق پر 2003ء میں حملہ کیا تھا، مارچ کی ایک صبح بغداد پر بم باری کے بعد امریکی صدر بش نے دنیا کے سامنے عراق پر حملے کا اعلان کیا تھا۔ امریکا کو اس کارروائی پر حلیف ممالک کا دباؤ بھی تھا، جب کہ جرمنی اور فرانس نے عراق پر فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔

    عراقی صدر کی گرفتاری کے ساتھ ہی عالمی میڈیا نے دکھایا کہ عراق میں‌ مختلف مقامات پر صدام حسین کی تصاویر کو پھاڑا جارہا ہے اور عوام ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ان بڑے بڑے مجسموں کو ڈھا رہے ہیں۔

    چند تصاویر میں امریکی فوجیوں کو بھی صدام حسین کے مجسمے میں ان کے چہرے پر امریکی پرچم لپیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

  • نرگس نظر کی مصیبت

    نرگس نظر کی مصیبت

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب، انشا پرداز خواجہ حسن نظامی نے غدر، مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور ان کے خاندان پر ٹوٹنے والی افتاد کو اپنی تحریروں میں نہایت دل سوز انداز میں‌ جگہ دی ہے۔

    ہندوستان کے آخری بادشاہ کی پوتی نرگس نظر پر انگریزوں‌ کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد کیا بیتی اور انھوں نے کیسے سخت اور کٹھن حالات میں زندگی گزاری، یہ سب خواجہ صاحب کے اس مضمون میں پڑھا جاسکتا ہے۔

    قلعہ کی آخری رات
    جس رات بہادر شاہ بادشاہ لال قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے میں گئے اور یقین ہوگیا کہ صبح انگریز دہلی کو مفتوح کر لیں گے تو نرگس نظر چپ چاپ جل محل کے کنارے پر کھڑی چاندنی کو دیکھ رہی تھیں۔ ان کا عکس تالاب میں پڑ رہا تھا اور ان پر اپنی دید کا ایک عجیب عالمِ محویت طاری تھا۔

    یکایک ان کے باپ میرزا شاہ رخ اندر آئے اور انہوں نے کہا، ’’نرگس بیٹا! میں ابا حضرت (بہادر شاہ) کے ہمراہ جانا چاہتا ہوں۔ تم ابھی چلو گی یا سواری کا بندوبست کروں، صبح آجانا۔‘‘

    نرگس نظر نے کہا، ’’ابا جان! آپ بھی ابھی نہ جائیے۔ پچھلی رات میرے ساتھ چلیے گا۔ میں دادا حضرت کے ساتھ جانا مناسب نہیں سمجھتی۔ انگریز فوج انہی کی تلاش کرے گی اور جو لوگ ان کے ساتھ ہوں گے، وہ سب مجرم سمجھے جائیں گے۔ اس لیے ہمایوں کے مقبرے میں دادا حضرت کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں ہے۔ غازی نگر (غازی آباد) میں چلیے۔ وہاں میری انا کا گھر ہے اور سنا ہے بہت اچھی محفوظ جگہ ہے۔ گمنامی اختیار کر کے چلنا چاہیے۔ جب یہ بلا دور ہو جائے گی پھر یہاں آجائیں گے۔‘‘

    میرزا نے کہا، ’’اچھا جیسی تمہاری رائے ہو۔ غازی نگر جانے کے لیے رتھوں کا بندوبست کرتا ہوں، تمہارے ساتھ کون کون جائے گا۔‘‘ نرگس نظر نے جواب دیا، ’’کوئی نہیں، صرف میں اکیلی چلوں گی، کیونکہ نوکروں کا ساتھ رکھنا بھی نامناسب ہے اور نوکر ساتھ جانے کے لیے تیار بھی نہیں معلوم ہوتے۔‘‘ میرزا یہ سن کر باہر چلے گئے اور نرگس نظر پھر ماہتاب اور عالم آب کو دیکھنے لگیں۔

    کچھ دیر کے بعد نرگس نظر نے نوکر عورتوں کو آواز دی مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ معلوم ہوا سب بھاگ گئے اور نرگس نظر سارے جل محل میں اکیلی ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نرگس نظر نے حاکمانہ آواز دی اور جواب میں کوئی بھی نہ بولا۔ نرگس نظر گھبرا کر محل کے اندر گئیں۔ شمعیں روشن تھیں، مگر کوئی آدمی موجود نہ تھا۔ نرگس نظر کو اندر ڈر لگا اور وہ پھر صحن میں آ گئیں۔ قلعہ میں جگہ جگہ سے لوگوں کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چاروں طرف سے گھروں کے رہنے والے نکل نکل کر جا رہے ہیں۔ نرگس نظر نے بہت دیر باپ کی راہ دیکھی مگر وہ نہ آئے اور نرگس نظر گھبرا کر رونے لگیں۔

    رات کے دو بجے ایک خواجہ سرا محل میں آیا اور اس نے کہا، ’’صاحب عالم نے فرمایا ہے کہ انگریز جاسوس میری تلاش میں قلعہ کے اندر اور باہر چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ میں تمہارے ساتھ غازی نگر نہیں جاسکتا۔ سواری کا انتظام کر دیا ہے۔ تم خواجہ سرا کے ساتھ چلی جاؤ اور میں بھیس بدل کر کہیں اور چلا جاتا ہوں۔‘‘ نرگس نظر نے گھبرا کر کہا، ’’آخر کہاں جانے کا ارادہ ہے؟‘‘ خواجہ سرا بولا، ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ نرگس نظر نے حاکمانہ لہجے میں کہا، ’’جا یہ معلوم کر کے آ کہ ابا حضرت کہاں جانے والے ہیں۔ وہ لباس بدل کر میرے ساتھ غازی نگر کیوں نہیں چلتے؟‘‘

    خواجہ سرا فوراً واپس گیا اور نرگس نظر صحن میں ٹہلتی رہی۔ کچھ دیر کے بعد خواجہ سرا واپس آیا اور اس نے کہا، ’’ابا حضرت سائیس کے کپڑے پہن کر قلعہ کے باہر چلے گئے اور کوئی نہیں جانتا کہ کہاں چلے گئے۔ آپ کی سواری کے لیے رتھ تیار ہے۔‘‘ نرگس نظر کو رونا آ گیا اور ان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے نہایت بے کسی اور بے بسی کی حالت میں ہچکیاں لے کر آنسو بہائے۔ انہوں نے جواہرات اور زیورات کا صندوقچہ اور چند ضروری کپڑے ساتھ لیے جن کو خواجہ سرا نے اٹھا لیا اور جل محل سے نکلیں اور سوار ہونے سے پہلے مڑ کر جل محل اور اس کی آرائش کو بہت دیر تک کھڑے ہو کر دیکھا۔ پھر کہا، ’’خبر نہیں تجھ کو پھر دیکھنا نصیب ہوگا یا آج تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو رہا ہے۔‘‘

    رات کے تین بج چکے تھے۔ نرگس نظر رتھ میں بیٹھی غازی نگر (غازی آبادی) کی طرف جارہی تھیں۔ صبح آٹھ بجے غازی آباد پہنچ گئیں۔ راستے میں ان کو بہت لوگ آتے جاتے ملے، مگر کسی نے ان کے رتھ کی مزاحمت نہیں کی۔ غازی آباد میں نرگس نظر کی انّا کا گھر مشہور تھا۔ جوں ہی نرگس نظر انّا کے گھر کے سامنے رتھ سے اتریں، انّا دوڑتی ہوئی گھر کے باہر آگئی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے شہزادی کی بلائیں لیں اور اندر لے جا کر بٹھایا اور اپنی حیثیت سے زیادہ خاطر مدارات کی۔

    مصیبت
    نرگس نظر دو تین روز انّا کے گھر میں آرام سے رہیں۔ یکایک خبر مشہور ہوئی کہ بادشاہ گرفتار ہوگئے اور کئی شہزادے قتل کر دیے گئے اور فوج غازی آبا د کو لوٹنے آرہی ہے۔ نرگس نظر نے جواہرات کا صندوقچہ انّا سے کہہ کر زمین میں دفن کرا دیا اور مصیبت کی گھڑی کا انتظار کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر میں سکھ فوج غازی آباد میں داخل ہوئی اور اس نے باغیوں کی تلاش شروع کی۔ مخبروں نے کہا، ’’بادشاہ کی پوتی اپنی انّا کے گھر میں موجود ہے۔‘‘ دو سکھ سردار چار سپاہیوں کے ساتھ انّا کے گھر میں آئے اور انہوں نے سب گھر والوں کو پکڑ لیا۔ نرگس نظر کوٹھری میں چھپ گئی تھیں۔ ان کو بھی کواڑ توڑ کر باہر نکالا گیا اور بے پردہ سامنے کھڑا کیا گیا۔ سردار نے پوچھا، ’’کیا تم بہادر شاہ کی پوتی ہو؟‘‘ نرگس نظر نے کہا، ’’میں ایک آدمی کی بیٹی ہوں۔ بادشاہ کی اولاد ہوتی تو اس غربت زدہ گھر میں کیوں آتی۔ اگر خدا نے بادشاہ کی پوتی بنایا ہوتا تو تم اس طرح بے پردہ مجھ کو سامنے کھڑا نہ کرتے۔ تم ہندوستانی ہو، تم کو شرم نہیں آتی کہ اپنے ملک کی عورتوں پر ظلم کرتے ہو۔

    سردار نے کہا، ’’ہم نے کیا ظلم کیا؟ ہم تو یہ دریافت کرتے ہیں کہ تم کون ہو؟ ہم نے سنا ہے کہ تم بہادر شاہ کی پوتی ہو اور تمہارے باپ نے بہت سے انگریزوں اور ان کی عورتوں اور بچّوں کو قلعہ کے اندر قتل کیا تھا۔‘‘ نرگس نظر نے کہا، ’’جو کرتا ہے وہی بھرتا ہے۔ اگر میرے باپ نے ایسا کیا ہوگا تو ان سے پوچھو۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں نے کسی کو نہیں مارا۔‘‘ یہ سن کر دوسرا نوجوان سکھ سردار بولا، ’’ہاں تم تو آنکھوں سے قتل کرتی ہو۔ تم کو تلواروں اور ہتھیاروں سے مارنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    نرگس نظر نے نہایت جرأت کے ساتھ جواب دیا، حالانکہ اس کی زندگی میں غیر مردوں سے بات کرنے کا یہ پہلا موقع تھا، ’’خاموش رہو۔ بادشاہوں سے ایسی بے تمیزی کے ساتھ بات نہیں کرتے۔ تمہاری زبان گدی کے پیچھے سے نکال لی جائے گی۔‘‘ نوجوان یہ سن کر بگڑا اور اس نے آگے بڑھ کر نرگس نظر کے بال پکڑ لیے اور ان کو روز سے جھٹکا دیا۔ بوڑھے سکھ سردار نے نوجوان سردار کو روکا اور کہا، ’’عورت کےساتھ ایسی زیادتی کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘ نوجوان سردار نے یہ بات سن کر بال چھوڑ دیے۔

    کرایہ کی بیل گاڑی منگوائی گئی اور اس میں نرگس نظر کو سوار کیا گیا۔ انّا اور اس کے گھر والے بھی سب قید ہو کر پیدل ساتھ چلے۔ نرگس نظر سے پوچھا گیا، ’’تمہارا زیور اور روپیہ پیسہ کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’میں خود ہی زیور ہوں اور خود ہی سمجھنے والوں کے لیے جواہر اور دولت ہوں، میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔‘‘ یہ سن کر دونوں سردار خاموش ہوگئے اور بہلی کو دہلی کی طرف لے چلے۔

    ہینڈن ندی کے پاس گاؤں کے جاٹوں اور گوجروں نے سکھ فوج والوں پر بندوقیں چلائیں اور دیر تک ان کی آپس میں لڑائی ہوتی رہی۔ سکھ تھوڑے تھے اور گاؤں والے زیادہ تھے۔ سکھ سب مارے گئے اور گاؤں والے قیدیوں کو اپنے ساتھ گاؤں میں لے گئے۔

    گنواروں نے نرگس نظر کے جسم پر جو دو چار قیمتی زیور تھے، ان کو اتار لیا اور قیمتی کپڑے بھی اتروا لیے اور کسی چماری کا پھٹا ہوا لہنگا اور پھٹا ہوا کرتہ اور میلا دوپٹہ پہننے کو دے دیا۔ نرگس نظر نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا اور مجبوراً تن ڈھانپنے کو یہ کپڑے پہنے۔ تھوڑی دیر میں پاس کے گاؤں کے چند مسلمان گنوار آئے اور ان کے نمبر دار نے نرگس نظر کو گوجروں سے خرید لیا اور اپنے گاؤں میں لے گیا۔ یہ لوگ ذات کے رانگڑ تھے اور کچھ لوگ تگا قوم کے مسلمان تھے۔ نمبر دار نے اپنے لڑکے کا پیغام دیا کہ تیری شادی اس کے ساتھ کر دیں۔ یہ بڈھا آدمی تھا۔ اس کا لڑکا اگرچہ گنوار تھا، لیکن صورت شکل کا اچھا تھا۔ نرگس نظر نے ہاں کر لی اور گاؤں کے قاضی نے اس کا نکاح پڑھا دیا اور نرگس نظر تین چار مہینے نمبر دار کے گھر میں نئی دلہن بنی آرام سے بسر اوقات کرتی رہیں۔

    دوسری مصیبت
    انگریزوں کا قبضہ پوری طرح ہوگیا تھا اور ان کے جاسوس جگہ جگہ خبریں لیتے ہوئے پھر رہے تھے۔ کسی جاسوس نے دہلی کے حاکم کو خبر دی کہ میرزا باغی دستیاب نہیں ہوئے، مگر ان کی بیٹی فلاں گاؤں میں نمبردار کے گھر میں موجود ہے۔ انگریز حاکم نے اس گاؤں میں پولیس کو بھیجا۔ میرٹھ کی پولیس نے آکر گاؤں کا محاصرہ کر لیا اور نرگس نظر اور ان کے خاوند اور سسر کو گرفتار کر کے دہلی میں لایا گیا۔ حاکم نے نرگس نظر سے میرزا کے متعلق بہت سوالات کیے، مگر جب کوئی مفید مطلب جواب نہ ملا تو حکم دیا کہ نمبر دار اور اس کا بیٹا باغی معلوم ہوتے ہیں اور ان دونوں نے ایک باغی کی بیٹی کو پناہ دی ہے۔ اس واسطے ان دونوں کو جیل بھیج دیا جائے اور یہ عورت دہلی میں کسی مسلمان کے حوالے کر دی جائے۔

    چنانچہ نمبر دار اور اس کا بیٹا دس دس سال کے لیے جیل بھیج دیے گئے اور نرگس نظر سے پوچھا گیا کہ وہ کس کے ہاں رہنا چاہتی ہے۔ شہزادی نے جواب دیا اگر میرے خاندان کے آدمی دہلی میں ہوں تو ان کے پاس بھیج دیا جائے۔ معلوم ہوا تیموریہ خاندان کے لوگ ابھی تک یا تو رو پوش ہیں یا جنگلوں اور دیہات میں مقیم ہیں۔ دہلی شہر میں ابھی کوئی نہیں آیا۔ اس واسطے نرگس نظر ایک فوجی مسلمان سپاہی کے حوالے کر دی گئیں جو ان کو اپنے گھر میں لے گیا۔ اس سپاہی کی بیوی موجود تھی۔

    اس نے دیکھا کہ ایک قبول صورت جوان عورت گھر میں آئی ہے تو اس نے ایک دو ہتٹر اپنے خاوند کے مارا اور نرگس نظر کو بھی دھکا دے کر گھر سے باہر نکال دیا اور یہ پہلا موقع تھا کہ نرگس نظر کو کسی نے دھکا دیا۔ سپاہی گھر کے باہر آیا اور نرگس نظر کو ساتھ لے کر اپنے ایک دوست کے ہاں لے گیا۔ وہ بڑی عمر کے ایک مسلمان تھے اور گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ انہوں نے شہزادی کا حال سنا تو رونے لگے اور بہت محبت کے ساتھ اپنے گھر میں جگہ دی اور نرگس نظر ایک رات آرام سے اس گھر میں رہیں۔

    دوسری رات کو نرگس نظر سوتی تھیں کہ چند آدمیوں نے ان کا منہ اپنے ہاتھوں سے بند کیا اور اٹھا کر کہیں لے گئے۔ نرگس نظر نے ہر چند ہاتھ پاؤں مارے، مگر انہوں نے ایسا مضبوط پکڑا تھا کہ یہ جنبش نہ کر سکیں۔ وہ لوگ اسی گاؤں کے رہنے والے تھے جہاں کے نمبر دار کے بیٹے سے نرگس نظر کا نکاح ہوا تھا، مگر وہ دہلی کے قریب ایک گاؤں میں لے گئے اور وہاں ایک چھپر میں ٹھہرایا اور ایک چارپائی سونے کے لیے دے دی۔ یہ گاؤں بھی تگا مسلمانوں کا تھا۔

    نرگس نظر جس گھر میں رہتی تھیں، وہ نمبر دار کا گھر تھا اور نمبر دار بہت نیک چلن آدمی تھا۔ تین چار سال تک نرگس نظر اس گھر میں رہیں۔ وہ سارے گھر کا کام کرتی تھیں، لیکن گوبر تھاپنا اور دودھ دوہنا ان کو نہ آتا تھا۔ چار سال کے بعد ان کا خاوند رہا ہو گیا اور وقت سے پہلے گورنمنٹ نے اس کو رہائی دے دی اور وہ نرگس نظر کو اس گاؤں سے اپنے گھر لے گیا، جہاں ساری عمر انہوں نے گزار دی اور ان کے کئی بچّے ہوئے اور 1911ء میں نرگس نظر کا انتقال ہو گیا۔

  • اورسن ویلز: ایک جھوٹ سے غیر ذمہ دارانہ طرزِ‌عمل تک

    اورسن ویلز: ایک جھوٹ سے غیر ذمہ دارانہ طرزِ‌عمل تک

    دنیا کے ہر باصلاحیت فن کار اور تخلیقی کام کرنے والے کو عالمی سطح‌ شہرت یا ملک گیر پہچان نہیں مل پاتی بلکہ کئی دہائیوں‌ کی ریاضت کے بعد بھی انھیں صرف اپنے شعبے کی ایک نمایاں شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں، لیکن بہت سے فن کاروں کے درمیان جب کوئی تخلیق کار اپنا عمدہ یا اوسط اور معمولی درجے کا کام نہایت مہارت سے انجام دے کر دوسروں کے سامنے منفرد انداز سے پیش کرے تو اپنے ہم عصروں میں ممتاز بھی ہوتا ہے اور دنیا بھر میں‌ پہچان بھی پاتا ہے۔ جارج اورسن ویلز ایسا ہی ایک فن کار ہے۔

    بیسویں صدی میں جارج اورسن ویلز (George Orson Welles) نے گمنامی کو پیچھے دھکیل کر بے مثال شہرت سمیٹی۔ اس وقت وہ صرف 23 برس کا تھا۔ جارج اورسن ویلز کو دنیا بیسویں صدی کا بااثر فلم ساز مانتی ہے۔

    مئی، 1915ء میں‌ امریکا کی ریاست وسکونسن کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے جارج اورسن ویلز کو عام طور پر اورسن ویلز کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے جو زندگی کی ستّر بہاریں‌ دیکھنے کے بعد 10 اکتوبر 1985ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    فن اور آرٹ کی دنیا سے اورسن ویلز نے کیسے ناتا جوڑا، یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔ اس نے ایک جھوٹ کا سہارا لے کر اداکاری کے لیے آڈیشن دیا اور ایک اسٹیج پلے میں‌ کردار نبھانے میں کام یاب ہوگیا، اگرچہ وہ ایک معمولی نوعیت کا کردار تھا۔

    اپنے والد کی موت کے بعد وراثت کے ایک‌ حصّہ سے کچھ رقم پانے کے بعد اورسن ویلز نے یورپ کا سفر کیا تھا۔ وہ آئرلینڈ میں تھا جہاں‌ ایک روز کچھ سوچ کر ڈبلن میں ‘گیٹ تھیٹر’ کے دفتر میں داخل ہوگیا اور وہاں کے منیجر کے سامنے دعویٰ کیا کہ وہ براڈ وے اسٹار ہے اور ان کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے۔ منیجر سمجھ گیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، اس کے باوجود اورسن ویلز کا آڈیشن لیا۔ قسمت اس نوجوان لڑکے پر مہربان تھی اور اس نے اپنے پُرجوش انداز اور اعتماد سے منیجر کو متاثر کرلیا۔ یوں تھیٹر کی دنیا میں اورسن ویلز کا سفر شروع ہوا۔

    اورسن ویلز کو ریڈیو، تھیٹر اور فلم کے ہدایت کار، پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر ہی نہیں‌ اداکار کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے، لیکن اس کا امتیازی وصف اور وجہِ شہرت وہ انفرادیت ہے جس کا اظہار اس نے اپنے تخلیقی جوہر اور اختراع سازی کی صلاحیت کے ساتھ کیا۔ اور اس کی مثال اورسن ویلز کی فلم ’سٹیزن کین‘ (Citizen Kane) ہے۔ اس فلم کو ایک اثاثہ اور فلمی تاریخ کا اہم کارنامہ کہا جاتا ہے۔

    اورسن ویلز 24 سال کا تھا جب اس کی تصویر مشہورِ زمانہ ٹائم میگزین کے سرورق پر شائع ہوئی۔ اس کا سبب وہ حیرت انگیز کام تھا جو اس نے ریڈیو کے لیے سر انجام دیا تھا۔

    تھیٹر اور اسٹیج کی دنیا اورسن ویلز کو ریڈیو تک لے گئی تھی جو اُس زمانے کا ایک مقبول میڈیم تھا۔ وہ ریڈیو پروڈیوسر تھا جب اس نے مشہور ادیب ایچ جی ویلز کے ناول ’وار آف دی ورلڈز‘ کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ریڈیو پر پیش کیا۔

    قارئین! آج 30 اکتوبر ہے اور 1938ء میں اسی روز امریکا میں اکثر شہروں اور مختلف مقامات پر افراتفری اور بھگدڑ دیکھی گئی تھی۔ لوگ اچانک خوف زدہ ہو کر اور شدید پریشانی کے عالم اپنے گھروں‌ کی طرف یا کسی محفوظ مقام کی تلاش میں‌ تھے۔ ان میں‌ اکثریت ریڈیو کے سامعین کی تھی جن کو ایک پروگرام کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ مریخ کی مخلوق نے زمین پر حملہ کر دیا ہے۔ ایک رپورٹر اس افتاد کا آنکھوں دیکھا حال براہِ راست بتا رہا تھا۔

    یہ سب ریڈیو پروڈیوسر اورسن ویلز کا کیا دھرا تھا! اس نے ایچ جی ویلز کے ناول کو ریڈیو پر اس طرح‌ پیش کیا کہ سامعین نے اسے حقیقت تصوّر کر لیا اور رپورٹر کی زبانی جو باتیں ان تک پہنچ رہی تھیں، انھیں مان کر بدحواس اور سراسیمہ ہوگئے۔ یوں ایک ریڈیو پروڈیوسر کے طور پر اورسن ویلز کو امریکا بھر میں شہرت ملی، لیکن حقیقت سامنے آنے کے بعد ان پر تنقید بھی کی گئی اور انھیں غیر ذمہ دار بھی کہا گیا۔

    اس واقعے کے کئی برس بعد اورسن ویلز نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ سنسنی خیزی کے قائل نہیں ہیں اور ریڈیو پروگرام میں انھوں‌ نے جو کچھ کیا، اس کا ایک مقصد یہ دکھانا تھا کہ امریکا کے عوام کس طرح ہر بات پر اندھا دھند یقین کر لیتے ہیں اور کیسے آسانی سے افراتفری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    اپنے مذکورہ کارنامے کے تین برس بعد ہی اورسن ویلز نے فلم ’سٹیزن کین‘ بنائی تھی جسے ناقدین کی اکثریت نے بہت سراہا اور اسے اہم کام قرار دیا تھا۔

    اورسن ویلز نے ریڈیو، اسٹیج اور فلم کی دنیا میں اپنے منفرد کام کی بدولت کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ ہالی وڈ اور امریکا کے بڑے اور مشہور پروڈکشن ہاؤسز کے لیے کام کرنے والے اس فن کار کو انڈسٹری کے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کا وسیع تجربہ تھا۔ اورسن ویلز کا انتقال دل کا دورہ پڑنے کے سبب ہوا تھا۔

    اورسن ویلز نے کئی مشہور ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی، متعدد اسٹیج پلے اور فلموں کا اسکرپٹ بھی تحریر کیا اور ہدایت کار کے طور پر بھی ان میں اپنی مہارت سے رنگ بھرے۔

    اس ضمن میں بطور مثال یہ چند نام قابلِ‌ ذکر ہیں۔ Touch of Evil سے آغاز کریں‌ تو یہ 1958ء میں اورسن ویلز کے قلم سے نکلی تھی اور وہ اس کے ہدایت کار بھی تھے۔ 1942ء میں شائقین نے The Magnificent Ambersons دیکھی جس کے مصنّف، ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی اورسن ویلز تھے۔ 1947ء میں وہ The Lady from Shanghai کے ہدایت کار کی حیثیت سے سامنے آئے اور 1962ء میں‌ اورسن ویلز The Trial کے ہدایت کار بنے جو ممتاز ناول اور افسانہ نگار فرانز کافکا کی ایک کہانی پر مبنی تھی، اسے اورسن ویلز نے اسکرین کے لیے ڈھالا تھا۔ اورسن ویلز کی نظر میں یہ ان کے فنی کیریئر کا سب سے بہترین کام تھا۔

  • محسنِ اردو جنھیں ان کی کتاب نے ‘رُسوا’ کیا!

    محسنِ اردو جنھیں ان کی کتاب نے ‘رُسوا’ کیا!

    غالب کو شعروں‌ کے انتخاب نے رُسوا کیا تھا، لیکن گیان چند جین کو ان کی آخری تصنیف نے۔ یہ "ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب” کے عنوان سے شایع ہونے والی کتاب تھی جو متنازع ٹھیری۔ انھوں نے اپنی اس کتاب سے سرحد کے دونوں پار بسنے والے اردو داں طبقے، ادبی حلقے اور بالخصوص مسلمانوں کو خود سے متنفر کر دیا۔

    گیان چند جین کی کتاب پڑھنے کے بعد بعض ادبا اور شعرا نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اس میں زبان و بیان کی کئی غلطیاں ہیں‌، جن کا صدور گیان چند جیسے بڑے قلم کار سے محال ہے۔ اس کا مکمل متن غالباً ان کی نظروں سے نہیں‌ گزرا، ورنہ ایسی لغو باتیں اور زبان و ادب اور مسلمانوں سے متعلق یہ سب کچھ کتاب میں شامل نہ ہوتا۔ مگر یہ خیال کسی قدر بھی درست معلوم نہیں‌ ہوتا۔ ہاں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ مصنّف کو ان کی پیرانہ سالی نے اس ‘قلمی سہو’ پر آمادہ کر لیا ہو گا۔ اس کے باوجود مصںّف کی اس تلخ نوائی کو نظر انداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ ہر چند کہ گیان چند جین نے اپنی کتاب کے اوّلین اوراق میں اپنے ‘کیے’ کو چند سطور میں‌ ‘جامۂ جواز’ بھی پہنایا ہے، لیکن ان کے الفاظ اہلِ اردو اور ادبا و شعرا کی اکثریت کی تشفی نہیں کرسکے۔ انھوں نے جو جواز پیش کیا، اسے غالب کے اس شعر سے سمجھیے:

    رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
    آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

    گیان چند جین کی کتاب اپنے ابواب کی صورت میں دل آزار اور مباحث کے سبب متنازع فیہ ضرور ہے جس کا اردو ادب کی نہایت قابل اور ممتاز شخصیت شمسُ الرّحمٰن فاروقی نے ‘پوسٹ مارٹم’ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ہمارے نام ور دوست، بزرگ محقّق، مؤرخِ ادب، شاعر اور بزعمِ خود ماہرِ لسانیات پروفیسر گیان چند جین نے تاحیات اردو زبان و ادب کی تدریس اور خدمت کی ہے۔ ان کی کئی کتابوں کے بارے میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں ان کی جگہ مدّتِ مدید تک قائم رہے گی۔ تصنیف و تعلیم کے اس محترم اشرافی پیشے سے انہوں نے نام اور عزّت بھی خوب کمائی ہے۔ اب وہ عمر کی آخری منزلیں طے کر رہے ہیں اور انہیں شاید یہ خیال آرہا ہے کہ ساری عمر اردو پڑھ پڑھا کر انہوں نے کوئی گناہ کیا ہے اور اب اس کا پرائشچت یوں کیا جانا چاہیے کہ اردو کو، اور اس کے بولنے والوں کو، لسانی تنگ نظری، سماجی استحصال، سیاسی علیحدگی پسندگی اور بالآخر پاکستان نوازی کے جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔”

    شمسُ الرّحمٰن فاروقی نے اس کتاب کے عنوان پر تنقید کے بعد لکھا ہے، "یہ کتاب اردو ہندی تنازع پر نہیں، بلکہ ہندو مسلم افتراق کو ہوا دینے اور ابنائے وطن کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے کے لیے لکھی گئی ہے۔”

    آئیے گیان چند کی زندگی کے اوراق الٹتے ہیں۔ ان کا تعلق بھارت سے تھا۔ انھوں‌ نے اگست کے مہینے میں کیلیفورنیا، امریکا میں وفات پائی۔ ان کی عمر 85 سال تھی۔ گیان چند برصغیر پاک و ہند کے معروف نقّاد، محقق، مؤرخ اور ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کا وطن سیوہارہ، ضلع بجنور، یوپی ہے جہاں انھوں نے 1923ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کا مذہبی اعتقاد جین مت پر تھا اور وہ اگروال تھے۔ والد کا نام بحال سنگھ تھا، اور والدہ پاروتی سناتن تھیں۔ گیان چند جین کے مطابق ان کے پَردادا فارسی کے عالم تھے اور شاعر بھی تھے جن کے فارسی مخطوطات بھی گیان چند جین کے گھر میں محفوظ ہیں۔

    انھوں نے لکھا ہے کہ مسلم قدرت اسکول سوہارا سے آٹھویں درجے کا امتحان پاس کرنے کے بعد مراد آباد سے 1939ء میں ہائی اسکول کیا۔ گورنمنٹ انٹر کالج، مراد آباد سے 1941ء میں انٹر کیا۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے 1943ء میں بی اے پاس کیا۔ ایم اے کے بعد اردو داستانیں کے موضوع پر ڈی فل کی ڈگری لی اور 1956ء میں آگرہ یونیورسٹی میں ڈی لٹ میں داخلہ لیا اور 1960ء میں سند یافتہ ہوئے۔ لسانیات کی تعلیم بھی مکمل کی۔

    گیان چند جین نے ارملا نامی لڑکی کو اپنا شریکِ‌ حیات بنایا اور 1953ء میں سہارن پور میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ ان کا دھرم بھی سناتن تھا۔ اس سے قبل 1950ء میں گیان چند حمیدیہ کالج بھوپال میں اردو کے مدرّس مقرر ہوئے تھے اور بعد میں اسی کالج میں پروفیسر ہوگئے۔ بعد میں‌ گورنمنٹ ڈگری کالج میسور کے پرنسپل بنے۔ 1965ء میں جموں کشمیر یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے گیارہ سال ملازمت کی اور اس کے بعد 1976ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر و صدر شعبۂ اردو ہوگئے۔

    گیان چند جین کے ادبی سفر کی بات کریں‌ تو وہ ایک ادیب اور محقق کی حیثیت سے مسلسل کام کرتے رہے اور بے حد فعال اور متحرک رہے۔ انہوں نے داستان اور مثنوی پر بطور خاص کام کیا ہے اور یہ متعلقہ کتابیں اردو زبان میں‌ بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ لسانیات سے ان کا شغف گہرا رہا اور تاریخِ ادب سے بھی خوب دل چسپی رہی۔

    ’’اردو کی نثری داستانیں‘‘، ڈی لٹ کا مقالہ ’’اردو مثنوی شمالی ہند میں‘‘، ’’تفسیرِ غالب‘‘ جو غالب کے قلم زد کلام کی شرح ہے اور ایک دوسری کتاب ’’رموزِ غالب‘‘ گیان چند جین کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ تحقیق و تنقید کا ایک مجموعہ ’’حقائق‘‘ ،’’ذکر و فکر‘‘ اور ایک ضخیم کتاب ’’عام لسانیات‘‘ بھی گیان چند جین کی اہم اور قابلِ تذکرہ تصنیف ہے۔ گیان چند جین نے کئی مضامین سپردِ قلم کیے اور علم و تحقیق کے میدان میں اپنی انتھک محنت، اردو زبان سے متعلق اپنی فکر اور سعی کو ثابت کیا ہے۔ وہ ادبی دنیا میں‌ اپنے موضوعات اور تصانیف کی وجہ سے بڑی اہمیت رکھتے تھے۔

    اگر گیان چند جین کی ادبی حیثیت اور مرتبے کو ان کی متنازع کتاب "ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب” کے بعد دیکھیں‌ تو اس میں‌ ان کی شخصیت ماند پڑ گئی اور ان پر کڑی تنقید کی گئی جب کہ وفات کے بعد پاکستانی اخبارات اور رسائل میں ان کی یاد میں‌ کوئی وقیع تحریر شائع نہیں ہوئی۔ عارف وقار نے بی بی سی اردو کے لیے اپنے مختصر مضمون میں‌ لکھا، اہلِ اردو کے لیے گیان چند کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے پہلی مرتبہ جدید لسانیاتی اُصولوں کے مطابق اُردو زبان کا تجزیہ کیا۔

    سن پچاس کی دہائی تک اُردو لسانیات کا کُل اثاثہ محی الدین زور کا ایک تحقیقی مقالہ تھا۔ منشی احمد دین، عبدالقادر سروری اور وحید الدّین سلیم نے اردو الفاظ کی تحقیق میں کچھ کام کیا تھا لیکن اِن مضامین کی پہنچ وہیں تک تھی جہاں تک انیسویں صدی میں مارفالوجی کا عِلم پہنچ سکا تھا۔

    بیسویں صدی کے دوران علمِ لسانیات کی مختلف شاخوں میں ہونے والی تحقیق تک رسائی حاصل کرنا اور پھر اس کی روشنی میں اردو کے صوتی، صرفی اور نحوی ڈھانچے کا جائزہ لینا ایک ایسا بھاری پتھر تھا جسے احترام سے چُوم کر پیچھے ہٹ جانے والے تو بہت تھے، لیکن اُسے اٹھانے کی ہمّت گیان چند جین جیسا پُرعزم شخص ہی کر سکا۔

    ‘اردو کا فراموش کردہ محسن: گیان چند’ کے عنوان سے اپنے مضمون میں‌ عارف وقار مزید لکھتے ہیں: گیان چند کے لسانیات کی طرف مائل ہونے کی داستان بھی دل چسپ ہے، کیونکہ اردو ادب سے اُن کی شناسائی شاعری کے ذریعے ہوئی تھی۔

    1923 میں ضلع بجنور کے ایک قصبے میں پیدا ہونے والے گیان چند نے چودہ برس کی عمر میں خود بھی غزل کہنی شروع کر دی تھی۔

    کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہو کر انھوں نے حمیدیہ کالج بھوپال میں درس و تدریس کا کام شروع کیا اور کچھ عرصے بعد شعبۂ اردو کے صدر بن گئے۔

    1956 میں جب اِس کالج میں ایم ۔ اے اردو کی کلاسیں شروع ہوئیں تو نصاب میں ایک پرچہ لسانیات کا بھی تھا۔ اس وقت اردو میں توضیحی لسانیات پر کوئی مبسوط اور جامع تحریر موجود نہیں تھی جب کہ انگریزی میں بلوم فیلڈ کی کلاسیکی کتاب کے علاوہ گلیزن جونیئر کی معرکہ آرا کتاب بھی 1953 میں منظرِ عام پر آچکی تھی۔

    واضح رہے کہ سنسکرت تدریس کی قدیم روایت کے پس منظر میں ہندی زبان، قواعد و لسانیات کے مضامین سے مالا مال تھی اور جدید لسانیاتی تحقیق کو بھی اپنے دامن میں فراخ دِلی سے جگہ دے رہی تھی۔ لسانیات پر بھولا ناتھ تیواڑی کی ہندی کتاب دیکھ کر گیان چند کا دِل چاہا کہ اس پائے کی ایک کتاب اردو میں بھی ہونی چاہیے، چنانچہ انھوں نے قلم سنبھالا اور لکھنے میں جُٹ گئے۔

    یہ 1962 کا زمانہ تھا۔ تین برس بعد ان کا تبادلہ جمّوں میں ہو گیا۔ وہاں جاکر لسانیات پر مزید کتابیں پڑھیں تو انھیں احساس ہوا کہ بھوپال میں لکھے ہوئے مضامین تو کسی طفلِ مکتب کی شوقیہ تحریریں تھیں، چنانچہ تحقیق کا کام نئے سرے سے شروع کیا اور اس نئی تفتیش کے دوران انھوں نے محسوس کیا کہ علمِ صوتیات ایک ایسی سائنس ہے جو کتابوں کی مدد سے سمجھ میں نہیں آسکتی چنانچہ انھوں نے لسانیات کے ایک سمر اسکول میں داخلہ لے لیا اور اردو آوازوں کے اتار چڑھاؤ کا عملی طور پر مشاہدہ کیا۔ تاہم اردو لسانیات پر ایک کتاب مرتب کرنے کا خواب 1975 تک شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، لیکن جب کتاب چھپ کر سامنے آئی تو چودہ برس کی محنت شاقہ سپھل ہوگئی۔ عام لسانیات نامی اس کتاب کو ترقیٔ اردو بیورو نئی دہلی نے شائع کیا تھا۔

    یہ پہلا موقع تھا کہ انسانی زبان کی عمومی خصوصیات اور زبان کے تاریخی ارتقاء کے ساتھ ساتھ لسانیات کی مختلف شاخوں مثلاً لسانی فردیات، لسانی عتیقیات، نسلی لسانیات، علاقائی لسانیات، سماجی لسانیات، نفسیاتی لسانیات، اعدادی لسانیات اور ریاضیاتی لسانیات جیسے ادق تکنیکی موضوعات پر اردو میں خامہ فرسائی کی گئی۔

    کتاب کے آخری باب میں علمِ زبان کے مطالعے کی تاریخ، قدیم ہند میں لسانیات، مغرب میں لسانیاتی مطالعے، یورپ میں ہندوستانی زبانوں کے مطالعے اور بیسویں صدی میں لسانیات کے مختلف مدرسہ ہائے فکر پر جو مضامین تحریر کیے گئے وہ لسانیات کے طلباء کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک عام قاری کےلیے بھی انتہائی دل چسپ مطالعے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    32 برس پہلے اپنی کتاب کا دیباچہ لکھتے ہوئے آنجہانی گیان چند نے کہا تھا:
    ’اردو میں اس موضوع پر روز روز کتابیں نہیں لکھی جائیں گی۔ اگر کبھی دوسرے ایڈیشن کی نوبت آئی تو نقشِ ثانی کو بہتر کرسکوں گا۔‘

    آنجہانی گیان چند کی اس کتاب کے کئی باب میں جہاں‌ اردو زبان کی مخالفت اور لعن طعن ملے گا، وہیں مصنّف نے مسلمان مشاہیرِ ادب کو ہندو ادبا و شعرا سے بغض و عناد رکھنے والا بھی بتایا ہے اور اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے کہیں کوئی واقعہ بیان کیا ہے تو کہیں تحریروں سے حسد اور کینہ پروری کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

    گیان چند تو اس دارِ فانی کو چھوڑ گئے ہیں، لیکن ان کی کتاب کا قلمی نسخہ بھی بازار میں‌ دست یاب ہو گا اور انٹرنیٹ پر تو یہ کتاب محفوظ ہی ہے جسے پڑھ کر اردو زبان کا مبتدی یا ادب کا طالبِ علم خود مصنّف کی اردو زبان و ادب کے لیے خدمات اور ان کے کام سے متعلق الجھن کا شکار ضرور ہوگا۔

    گیان چند نے اسی زبان اور اس زبان میں‌ تخلیق ہونے والے ادب پر اپنے تحقیقی اور تنقیدی کام کی بدولت نہ صرف نام و مقام بنایا بلکہ متعدد اعزاز بھی اپنے نام کیے۔ اردو زبان و ادب کے اس محسن نے آخری عمر جانب داری سے کام لیتے ہوئے لسانی اور ادبی تحقیق کے نام پر اتنی بھونڈی اور ہلکی باتیں کیوں‌ کیں؟ یہ تو کوئی نہیں بتا سکتا، لیکن ان کے زاویۂ فکر و نظر کے اس تغیّر اور ان کی تھیوریز کا مدلّل جواب تاریخی اور لسانی تناظر میں دینے کی ضرورت ہے۔

    اردو زبان و ادب کی ممتاز ہستیوں اور معروف شخصیات نے اس کتاب کو جین صاحب کے بڑھاپے اور اس کے سبب لاحق امراض کا نتیجہ بتاتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کتاب میں ایسی باتیں‌ لکھ دیں جن کا اس موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ سیدھے سادے الفاظ میں‌ "ایک بھاشا دو لکھاوٹ، دو ادب” کو مصنّف کے بڑھاپے کی خطا بھی کہہ دیا گیا، لیکن کیا گیان چند جین کی اس ‘بھول’ کو اردو ادب کی تاریخ‌ فراموش کرسکے گی؟

  • باغِ داد، نوشیروانِ عادل اور بغداد

    باغِ داد، نوشیروانِ عادل اور بغداد

    آج سے کئی سو سال قبل دجلہ کے کنارے آباد ہونے والوں نے اپنی بستی کو اپنے معبود سے منسوب کیا تھا۔ ’’بغ‘‘ ان کے ایک بُت کا نام تھا اور فارسی میں’’داد‘‘ کا ایک معنیٰ ’’عطیہ‘‘ ہے۔ اس سے مراد بغ کا تحفہ یا اس کی عطا تھی اور یقیناً یہ نام اُس معبود سے عقیدت اور احسان مندی کا مظہر تھا۔ تاہم بعض مؤرخین نے اسی بستی کو’’باغِ داد‘‘ لکھا ہے اور کہا جاتا ہے کہ بعد میں‌ یہی ’’بغداد‘‘ ہو گیا۔

    ظفر سیّد نے اپنے ایک مضمون میں بغداد کا تعارف یوں‌ کروایا ہے:
    ’’دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد بغداد، الف لیلہ کی شہرزاد کا شہر، خلیفہ ہارون الرّشید اور مامون کے قائم کردہ دارُالترجمہ کا شہر تھا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں مترجموں کو کتابیں تول کر سونا بطور معاوضہ دیا جاتا تھا۔ یہ دلکشا مسجدوں، وسیع کتب خانوں، عالی شان محلّات، سرسبز باغات، لبا لب بازاروں، علم افروز مدرسوں اور پرتعیش حماموں کا شہر تھا۔‘‘

    آج کا بغداد عراق کا دارُالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ ماضی میں خلافتِ عباسیہ کا مرکز تھا۔ ظفر سیّد لکھتے ہیں:
    ’’بغداد کی بنیاد مستعصم باللہ کے جد ابوجعفر بن المنصور نے سنہ 762 میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب رکھی تھی۔ صرف چند عشروں کے اندر اندر یہ بستی دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین شہروں میں شامل ہو گئی۔ ہندوستان سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر علمی سرگرمیوں سے معمور ہو گیا۔‘‘

    وہ لکھتے ہیں:
    ’’دارالترجمہ بیت الحکمہ میں یونانی، لاطینی، سنسکرت، سریانی اور دوسری زبانوں سے کتابیں ترجمہ ہونے لگیں۔ یہی کتابیں صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور انھوں نے یورپ کی نشاۃ الثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔ الجبرا، ایلگوردم، الکیمی، زینتھ، الکوحل وغیرہ جیسے درجنوں الفاظ بغداد کے اسی سنہرے دور کی دین ہیں۔‘‘

    اس زمانے میں‌ دنیا کے کئی ممالک کے درمیان بغداد کی اہمیت بالخصوص عالمِ‌ اسلام میں اس کی امتیازی حیثیت پر غیر مسلم مؤرخین نے بھی اپنی کتابوں‌ میں طویل باب باندھے ہیں۔ خاص طور پر منگولوں کے ہاتھوں اس شہر کی بربادی کا نقشہ کھینچا ہے اور تاتاری فوج کے بغداد شہر میں داخل ہو کر قتلِ عام کا دل سوز احوال بھی رقم کیا ہے۔

    نام ور ادیب عظیم بیگ چغتائی زوالِ‌ بغداد کے عنوان سے اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں:

    ’’تین روز تک کشت و خون جاری رہا اور تمام گلی کوچوں میں خون کے نالے بہتے رہے اور دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ ہو گیا۔ محلاّت، مساجد اور روضہ جات، سنہری گنبدوں کی وجہ سے جلا کر خاک کر دیے گئے۔ شفا خانوں میں مریض، کالجوں میں طالبِ علم اور استاد تہِ تیغ کر دیے گئے۔ مقبروں میں شیخوں اور اماموں کی لاشیں جلا کر خاک کر دی گئیں۔ کتابیں یا تو آگ میں پھینک دی گئیں اور یا دجلہ میں ڈبو دی گئیں۔ اس طرح سے ہزاروں برس کے اکٹھے کیے ہوئے علمی خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے گئے اور یہ قوم کی قوم ہمیشہ کے لیے برباد کر دی گئی۔‘‘

    اُمّ البلاد بغداد کو عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے دورِ حکومت میں ہلاکو خان نے تاراج کیا تھا۔

    یہاں ہم اُس قدیم بستی یا آٹھویں صدی عیسوی کے شہر کے نام کو موضوع بنائیں یا اس کی وجہِ تسمیہ جاننا چاہیں تو ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی جیسے عظیم محقّق اور کئی زبانوں‌ کے عالم کے ایک نہایت معلومات افزا مضمون سے مدد لی جاسکتی ہے۔ وہ اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں:

    ’’ایران اور ہندوستان میں عام طور پر یقین کیا جاتا ہے کہ بغداد نوشیروان عادل کا باغ تھا جہاں بیٹھ کر وہ مظلوموں کی داد رسی کیا کرتا تھا۔ لوگ اس باغ کو باغِ داد کہنے لگے اور پھر کثرتِ استعمال سے اضافت کا کسرہ گر گیا اور فکِّ اضافت کے ساتھ ساتھ باغ کا الف بھی جاتا رہا۔ اس طرح باغِ داد سے بغداد ہوگیا۔ فارسی کے فرہنگ نویسوں نے بھی اسے مان لیا۔‘‘

    ڈاکٹر صاحب کی کتاب مقالاتِ صدیقی میں‌ لکھا ہے، ’’یہاں سب سے پہلے سوال اٹھتا ہے کہ کیا تاریخ کی رُو سے یہ صحیح ہے کہ نوشیروان ایک باغ میں بیٹھ کر مظلوموں کی فریاد سنا کرتا تھا اور اگر ایسا تھا تو وہ باغ کیا اسی جگہ تھا جہاں آگے چل کے منصور کا پایۂ تخت آباد ہوا؟ ایران کے بادشاہوں کا حال فارسی میں سب سے زیادہ فردوسی کے شاہ نامے میں ملتا ہے۔ شاہ نامے کو ہم صحیح معنوں میں تاریخ نہیں کہہ سکتے، اس لیے کہ جو روایتیں ایران میں مشہور تھیں اور فردوسی کو پہنچی اس نے نظم کر دیں۔ ان کی چھان بین کرنے کا کوئی سامان اس کے پاس نہ تھا، نہ ہی ایک شاعر کو اس کی ایسی کچھ ضرورت تھی۔ پھر بھی یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ جو کچھ فردوسی نے لکھا ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے اور توجہ کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے اُس کے شاہ نامے پر بھی ایک نظر ڈال لینا چاہیے۔ شاہ نامے میں بغداد کا ذکر کئی جگہ آیا ہے۔ ان میں سے چار جگہ نوشیروان سے پہلے کے بادشاہوں کے حال میں ہے۔ اسی بارے میں آگے انھوں‌ نے لکھا ہے، کیخسرو(بادشاہ) نوشیروان سے تو کیا دارا اور سکندر سے بھی سیکڑوں برس پہلے ہوا ہے۔ اس لیے ماننا پڑے گا کہ فردوسی کے نزدیک نوشیروان کے باغِ داد سے بہت پہلے بغداد موجود تھا۔ البتہ یہاں ایک گنجائش ہے کہ شہر ملک کو بھی کہتے ہیں جیسے شہر ایران اور شہر توران خود شاہ نامے میں بہت آیا ہے۔ اور شہر یار اور شہر بدر کے لفظوں میں اس کے معنی دیس ہیں نگر نہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ فردوسی کا مطلب شہرِ بغداد سے وہ ملک یا خطّہ ہے جہاں اس کے زمانے میں بغداد آباد تھا۔‘‘

    ’’مشہور عرب مؤرخ مسعودی نے دو مختلف باتیں لکھی ہیں: ’اور باغ فارسی میں بستان کو کہتے ہیں، اسی لیے بغداد کہا گیا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مجوسی مذہب کے ظہور سے اور اس زمین پر فارس کا غلبہ ہونے سے پہلے یہ مقام ایک باغ، نام بُت کا استھان تھا۔ پہلا قول زیادہ مشہور ہے اور ایسا ہی ابنِ طاہر نے اپنی کتاب میں جو بغداد کے حالات پر ہے، کہا ہے اور، اور مصنّفوں نے بھی۔‘

    ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں،’’یہ سب کچھ تو کہا گیا مگر اس بات کا کہیں ذکر نہ آیا کہ وہاں نوشیروان اپنے کسی باغ میں ہفتے میں ایک دن بیٹھ کے مظلوموں کی داد رسی کیا کرتا تھا۔ پہلوی اور سریانی مآخذوں میں بھی جو عربی تصنیفوں سے زیادہ پرانے ہیں، اس باغ کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔‘‘

    وہ اپنے تحقیقی مضمون میں لکھتے ہیں، ’’اس زمانے میں بغداد کی حیثیت ایک بڑے گانو (گاؤں) سے زیادہ نہ تھی۔ مکان جو بستی میں تھے تقریباَ سب کے سب کچی اینٹ کے تھے۔ جہاں تک تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کچی عمارت بھی کوئی ایسی نہ تھی جسے نوشیروان نے بنوایا ہو۔ اس پر بھی کوئی باغِ داد والی کہانی کو سچ جانے تو یہی مان لینا پڑے گا کہ نوشیروانِ عادل اپنی عدالت کا اجلاس اُسی باغ کے کسی پیڑ کے نیچے کرتا ہوگا، مگر یہ بات عقل سے دور اور بہت دور ہے کہ مدائن کے آرام دہ محلوں کو چھوڑ کر وہ ہر ہفتے پچیس میل کا سفر کر کے ایک ایسی جگہ داد رسی کرنے جاتا ہو جہاں نہ دھوپ سے بچاؤ کی کوئی صورت تھی، نہ مینہ سے۔‘‘

    ڈاکٹر صاحب ایک جگہ یوں‌ رقم طراز ہیں، ’’ایک اور بات بھی سوچنے کی ہے۔ یہ بھی مان لیجیے کہ بغداد کی اوّلین صورت باغِ داد تھی تو اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایک مدّت تک پہلی صورت رہی اور اس پر بہت طویل زمانہ گزرنے کے بعد مخفّف صورت وجود میں آئی ہو گی۔‘‘

    ’’پندرہ بیس برس میں شاید عام طور پر باغِ داد سے بغداد ہوگیا ہو، یعنی اضافت کا کسرہ حذف ہو گیا ہو۔ اس طرح 575ء تک بغداد کی یہ صورت پیدا نہ ہوئی ہو گی مگر ہجرت کے تیرہویں‌ برس ربیعُ الاوّل یا ربیعُ الثانی (یعنی مئی، جون 634ء) میں جب بغداد کا بازار لٹا تو اس کا نام بلاشبہ بغداد تھا، باغِ داد نہ تھا اور یہ فرض کرنا غلط نہ ہو گا کہ اس سے کم سے کم تیس چالیس برس پہلے بھی یہ نام بغداد ہی تھا۔‘‘

    ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی کا یہ مضمون طویل ہے اور کئی مستند تاریخی واقعات اور روایات سے مدد لے کر مصنّف نے اس قدیم بستی اور عباسی دور کے اہم تہذیبی اور علمی مرکز کو ہر دور کا بغداد ہی بتایا ہے۔

  • مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں  کا تذکرہ

    مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں کا تذکرہ

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں نغمہ نگار راجہ مہدی علی خاں کا نام ان کے معیاری کلام کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ ان تحریر کردہ گیتوں نے لوگوں کے دلوں پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح کے لیے معروف اور متعدد مقبول گیتوں کے خالق تھے۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد کے ایک گاؤں کے زمین دار خاندان میں 22 ستمبر 1915ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ عالم فاضل اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ یوں راجہ مہدی علی خان کو شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ راجہ صاحب کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ محض دس برس کے تھے جب بچّوں کے لیے ایک رسالے کا اجرا کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل وہ دہلی آگئے جہاں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ اسی زمانے میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور انہی کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی چلے گئے جہاں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    راجہ مہدی علی خاں کے بے حد کام یاب فلمی نغموں میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جو آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

    انھوں نے اپنے بیس برس کے فلمی سفر میں تقریباً 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ بمبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی پرندوں کی میوزک کانفرنس کے عنوان سے لکھی ہوئی ایک نظم پیش کررہے ہیں۔

    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے
    الّو جب مردنگ بجائے کوّا شور مچائے

    ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال
    قمری اپنی ٹھمری گائے مرغی دیوے تال

    مور اپنی دم کو پھیلا کر کتھک ناچ دکھائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    چڑیا باجی سبھا میں ناچے خوشی سے چھم چھم چھم
    موٹی بطخ چونچ سے ڈھولک پیٹے دھم دھم دھم

    بیا بجائے منجیرے اور بھونرا بھجن اڑائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    بلبل گل کی یاد میں رو رو گائے دیپک راگ
    مست پپیہا دور سے نغموں کی بھڑکائے آگ

    کوئل پہن کے پائل ساری محفل میں اٹھلائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    رنگ برنگی چڑیاں اب چھیڑیں ایسی قوالی
    پتا پتا بوٹا بوٹا تال میں دیوے تالی

    پھوپھی چیل وجد میں آ کر اونچی تان لگائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    انگلستان کا سارس آ کر ناچے راک این رول
    مرغابی سے بولے میڈم انگلش گانا بول

    دیکھو دیکھو کتنی پیاری محفل ہے یہ ہائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

  • ساغر صدیقی: خوب صورت اشعار کا خالق جسے حالات نے ‘بدصورت’ بنا دیا

    ساغر صدیقی: خوب صورت اشعار کا خالق جسے حالات نے ‘بدصورت’ بنا دیا

    ساغر کو اس کے خلوص، سب سے پیار اور خیر خواہی کے بدلے میں‌ کچھ نہیں ملا، لیکن اس نے زمانے سے شکوہ نہیں کیا اور اشعار کے پھول برساتا رہا۔ اس کے اشعار زندگی کے بارے میں‌ بتاتے تھے، اور انسانی رویوں‌ کی گرہ کشائی کرتے تھے۔ اس نے اپنے وجدان کے سہارے زندگی کو سمجھا اور اپنی قوّتِ ادراک سے اسے گزارنے کا ڈھنگ سیکھا تھا۔ ساغر صدیقی جب تک زندہ رہا، اپنے اشعار کو زندگی کے تلخ و شیریں، تند و سبک لمحات کا آئینہ بناتا رہا۔

    اسے درویش صفت اور فقیر شاعر کہا جاتا ہے جس کی روح آج ہی کے دن اُس کے لاغر اور ناتواں جسم کا ساتھ چھوڑ گئی تھیا۔ یہ 1974ء کی بات ہے جب ایک صبح لاہور شہر کے فٹ پاتھ پر ساغر صدیقی مردہ حالت میں‌ پایا گیا۔ کچھ عرصہ قبل فالج کی وجہ سے اس کا دایاں ہاتھ بھی ہمیشہ کے لیے بیکار ہوگیا تھا۔

    اردو زبان کے اس بے مثال شاعر کا اصل نام محمد اختر تھا۔ وہ 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اوائلِ عمری ہی میں‌ شعر و شاعری سے شغف تھا اور مصرع موزوں کرنے لگے۔ خود کو کسی قابل سمجھا تو ناصر حجازی تخلّص اختیار کیا اور غزلیں کہنے لگے۔ بعد میں‌ ساغر صدیقی کے نام سے شہرت پائی۔

    ساغر صدیقی زود گو شاعر تھے اور ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی۔ کئی فلموں کے لیے نغمات بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔

    ساغر صدیقی نے شروع ہی سے غربت دیکھی اور تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ وہ تیرہ، چودہ برس کی عمر میں امرتسر آ گئے اور کسبِ معاش کی صورت یہ نکالی کہ لکڑی کی کنگھیاں بنانے کا کام سیکھنے بیٹھ گئے۔ یہ ہنر سیکھنے کے ساتھ اپنی محنت اور وقت کے لیے کچھ اجرت بھی پانے لگے۔ اس عرصہ میں‌ شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ دوستوں اور حلقۂ احباب میں اشعار سنانے لگے اور پھر شاعری ان کی وجہِ شہرت بن گئی اور یہی فن وسیلۂ روزگار بھی بنا۔

    ساغر کو لوگ بہت ملے، اور اپنی شاعری کے مداح بھی، لیکن مونس و ہمدم بہت کم نصیب ہوئے۔ یونس ادیب کی ایک کتاب میں ہمیں ساغر صدیقی کی زبانی اس کی زندگی کو پڑھنے کا ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ”گھٹنوں کے بل چلنے کا زمانہ سہارن پور اور انبالہ کی آغوش میں گزرا۔ انبالہ اردو اور پنجابی بولنے والے علاقے کا سنگم ہے۔ ماں کی مامتا، باپ کی شفقت، کہاں اور کیسے پیدا ہوا ہوں؟ یہ میرے لیے علی بابا چالیس چور کے پُرسرار غار کی کہانی ہے۔ میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں خدا کو اس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟

    بہرحال شاید میری تسکینِ قلبی کے لیے کسی کا نام بھائی رکھ دیا ہو۔ اسی طرح ایک وجود کا تذکرہ میرے بارے میں لکھنے والوں نے کیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پر نظر رکھنے والے صاحبِ فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہُوا بازو، کالی چادر میں چھپائے، احساس کے الٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی بہن ہوتا تو شاید یہ حال نہ ہوتا۔ میں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سنا۔ البتہ ایک پُرشکوہ ماضی کی سرسراہٹ میں نے اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کی ہے۔

    1936ء میں جب ذرا سوجھ بوجھ کا زمانہ آیا تو ایک ویران مکان کی افسردہ دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے لکڑی کے پرانے صندوقوں میں دیمک چاٹتی ہوئی کتابیں دیکھیں۔ شاید ان کے پڑھنے والے 1857ء کی گھٹاؤں میں ڈوب چکے تھے۔

    میں نے اردو اپنے گھر میں پڑھی۔ ایک چالیس پچاس سالہ بزرگ جن کا نام حبیب حسن تھا، بچوں کی تربیت و تعلیم کا بہت ذوق رکھتے تھے۔ یہیں مجھ میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ میری عمر سات یا آٹھ سال کی ہوگی کہ میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اکثر خط لکھوانے والے اپنی گزارشات کو میرے اندازِ بیان میں سن کر داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ میں نے بچپن کا دور بھی غربت میں صبر و شکر سے گزارا ہے۔ جو کچھ ملتا اس پر بخوشی قناعت کرتا۔

    اس وقت کے تمام اردو روزناموں زمیندار، احسان، انقلاب کا مطالعہ میرا شغل تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی میں نے آج تک اردو کا کوئی لفظ غلط پڑھا یا لکھا ہو۔ میں نے شروع میں ناصر حجازی تخلص رکھا، تقریباً دوماہ بعد مجھے یہ تخلص واضح دکھائی نہ دیا۔ تب میں نے اپنا تخلص ساغر صدیقی پسند کیا، جو اب تک موجود ہے۔ دس بارہ برس کی عمر میں، مَیں اپنے استاد حبیب حسن کے ساتھ امرتسر میں رہا کرتا تھا۔

    میری عمر سولہ سال کی تھی جب 1944ء میں امرتسر کی جامعہ السنّہ شرقیہ ہال بازار میں جو کہ علومِ شرقیہ کی بہترین درس گاہ تھی، ماہانہ طرحی مشاعرے ہوتے تھے، ان میں شرکت کرنا میرے لیے سب سے بڑی خوشی کی بات تھی۔

    1944ء ہی میں اردو مجلس کے نام سے ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور شمس العلماء تاجور نجیب آبادی کے زیرِ سایہ ایک بزم قائم ہوئی۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی اس کے اغراض و مقاصد تھے۔ اس کے مشاعروں میں بھی باقاعدہ شریک ہوتا رہا ہوں۔

    امرتسر میں دوسری جنگِ عظیم کے باغی آزاد فوج کے تین جرنیلوں کے استقبال کے لیے جلیانوالہ باغ میں تقریبا تیس چالیس ہزار کے مجمع میں، مَیں نے زندگی میں پہلی بار اسٹیج پر آکر نظمیں پڑھیں۔ اس جلسہ میں پڑھی جانے والی نظم کا ایک شعر اور مصرع مجھے یاد ہے جو یوں تھا:

    ہو جس کا رخ ہوائے غلامی پہ گامزن
    اس کشتیِ حیات کے لنگر کو توڑ دو

    تہذیبِ نو کے شیشہ و ساغر کو توڑ دو

    تقسیمِ ہند کے وقت نوجوان ساغر صدیقی لاہور آگئے۔ یہاں فلم اور ادبی رسائل کے لیے کام شروع کیا، لیکن تقدیر نے اس کے ساتھ عجیب مذاق کیا۔ کہتے ہیں ایک اتفاق نے انھیں چرس، بھنگ اور مارفیا کے ٹیکے کا عادی بنا دیا۔ وہ دنیا اور مہذب طور طریقوں سے بیگانہ ہوتے چلے گئے۔ اسی نشے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ساغر نے اپنی شاعری کو چند سکّوں‌ کے عوض دوسروں کے نام کرنے میں‌ دیر نہ کی۔ کیا اپنے اور کیا غیر، سبھی ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اور اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے رہے۔ ساغر صدیقی کو اس نشے نے رہن سہن کے ڈھنگ سے غافل کیا تو ان کے بال بڑھتے، اور میل کچیل سے بھرنے لگے۔ اسی طرح ملبوس کا بھی حال بدتر ہوتا چلا گیا، ان کے ایک ہاتھ میں سگریٹ سلگتا رہتا تھا، الغرض وہی حال حلیہ ساغر کا تھا جو نشے کی لت کا شکار ہوجانے والوں کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے فلمی اور ادبی دنیا کے لوگ ان سے دور ہوگئے اور خود ساغر بھی ان کے دفاتر اور اسٹوڈیو آنے جانے سے کترانے لگے۔

    ساغر کا آخری وقت بہت مشکل میں گزرا۔ یونس ادیب نے ان الفاظ میں ساغر کے دنیا سے جانے کا احوال لکھا ہے: ”لاہور میں قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ یہ جولائی کے دوسرے ہفتے کی بات ہے۔ ایک دوپہر میں ریڈیو اسٹیشن سے نکل کر لوہاری دروازے پہنچا تو مسلم مسجد کے مینار کے نیچے مجھے ساغر کی ایک جھلک دکھائی دی۔ اس نے اپنے نحیف و نزار جسم سے سیاہ چادر اُتار دی تھی اور ڈھیلا ڈھالا سفید کرتا پہنے چھڑی کے سہار ے کھڑا تھا۔

    میں ٹریفک چیر کر اُس کی طرف بڑھا تو اُس نے دھونکی کی طرح چلتے ہوئے سانس کو روک کر مجھے دیکھا اور کہا، ’میں تمھیں ہی یاد کر رہا تھا کہ تم بھی نظارا کر لیتے اور ہاں تم ضرور پوچھو گے کہ فقیر نے سیاہ چادر کیوں اُتار دی ہے اور سفید کرتا کیوں پہن لیا ہے‘ اور چھڑی دکھا کر بولا سب کچھ بتاؤں گا پہلے میری صلیب دیکھو۔ یہ کہتے ہوئے پھر اُس کا دم اکھڑنے لگا اور اُس نے کھانس کر بلغم تھوکا تو دَم لے کر کفن نما سفید کرتے کو چُھو کر بولا، مقتل کی طرف جانے کی گھڑیاں آ گئی ہیں اور میں نے کفنی پہن لی ہے۔ میں نے جلدی سے پوچھا ’لیکن تم ہو کہاں؟‘ اُس نے اپنی بے نور ہوتی آنکھوں سے عینک اتار کر پرے پھینک دی اور بولا ’اب کچھ دیکھنے کو دل نہیں چاہتا اور جا بھی کہاں سکتا ہوں۔ صرف چولا بدلنے گیا تھا۔ اب تو میں نے سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔‘

    ٹریفک کے شور میں ساغر کی آواز ڈوب ڈوب جاتی تھی۔ پھر وہ میر ے آخری سوال کا جواب دیے بغیر لوہاری کے اندر اپنے لرزیدہ جسم کو کھینچ کر لے گیا۔

    رات کو مجھے دیر تک نیند نہ آئی اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے روشنی اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے۔ اُنہی دنوں طالب چشتی روتا ہوا ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُس نے گلوگیر آواز میں بتایا۔ بابا جی خون تھوک رہے ہیں اور پان گلی کے باہر منیر چھولیاں والے کے تھڑے کے نیچے پڑے ہیں۔

    میں کام جاری نہ رکھ سکا اور طالب کے ساتھ لوہاری پہنچا تو ساغر وہاں نہیں تھا۔ ہم نے انار کلی، ایبک روڈ، آبکاری روڈ، پیسہ اخبار، شاہ عالمی اور سوتر منڈی میں ہر جگہ اُسے تلاش کیا لیکن ساغر کا کوئی نشان نہ ملا۔ دوسر ے دن میں ریڈیو اسٹیشن جانے کی بجائے صبح ہی صبح لوہاری چلا گیا اور اُسے مکتبہ جدید کے سامنے دیکھ کر میرا دَم گھٹنے لگا۔ راہگیر اُسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور دکان دار اپنے اپنے گاہکوں میں مصروف تھے۔

    اس نے بند ہوتی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہا تو اُس کے منہ سے خون نکل کر اُس کے ہونٹوں پر پھیل گیا، اُس نے سفید آستین سے پونچھ کر دوبارہ کچھ کہنے کی آرزو کی تو خون کی لکیریں اُس کی کفنی پر بہنے لگیں۔

    اپنے ہی خون میں شرابور ساغر صدیقی اس ہنستے بستے شہر میں کئی دنوں تک مقتل کا نظارا بنا رہا، اُس وقت ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم رائٹرز گلڈ کے انتخابات پر پانی کی طرح روپیہ بہایا جا رہا تھا اور بہت سار ے خوش حال ادیب اور شاعر رائٹرز گلڈ سے معذوروں کا وظیفہ بھی پا رہے تھے لیکن ساغر جس نے عمر بھر صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر حُسن و پیار اور رحم کے گیت تراشے تھے، اپنے خون آلود کرتے میں لپٹا تیسر ے دن بے کسی کے ساتھ مر گیا تھا۔”

    ساغر صدیقی وہ شاعر تھا جسے ہر صبح ایک آزمائش سے گزرنا پڑتا۔ پیسے اس کی سب سے بڑی ضرورت یعنی نشے کی طلب پوری کرسکتے تھے کیوں‌ کہ وہ اچھا کھانے پینے، پہننے کی ہر خواہش ترک کرچکے تھے۔ ناشر، فلم ساز اور ریڈیو کہیں سے یا تو بَروقت مشاہرہ یا معاوضہ نہ ملا یا پھر کسی نے طلب کرنے کے باوجود اسے مایوس لوٹ جانے پر مجبور کر دیا۔

    مدہوشی و مستی کی اتھاہ گہرائیوں‌ میں ڈوبے رہنے والے ساغر صدیقی کو لاہور میں‌ میانی صاحب کے قبرستان میں‌ ہمیشہ کے لیے تھوڑی سی جگہ مل گئی۔ وہ اپنی زندگی میں‌ بھی ایسے ہی تھوڑی سی جگہ گھیر کر پڑے رہتے تھے۔ شہر کی کسی سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ پر، کسی دکان کے چھپرے تلے یا ایک مزار کے احاطے میں‌۔

    اردو زبان کے اس شاعر کی غزلیں مقبول اور کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے۔ یہ غزل دیکھیے۔

    ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
    میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

    میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
    میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

    میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
    مجھ سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں

    کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
    کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ساغر صدیقی کا کلام ’زہرِ آرزو‘، ’غمِ بہار‘، ’تیشۂ دل‘، ’ ’سبز گنبد‘، ’مقتلِ گل‘ کے نام سے شعری مجموعوں‌ کی صورت میں‌ محفوظ ہے۔

  • پھر جمہوریت کا کیا ہو گا؟

    پھر جمہوریت کا کیا ہو گا؟

    فلورنس کے مضافات کے ایک گاؤں میں لگ بھگ چار سو برس پہلے، گاؤں کے لوگ اپنے گھروں میں تھے یا کھیتوں میں کام کر رہے تھے کہ انہوں نے گرجا گھر کی گھنٹی کی آواز سنی۔

    پرہیز گاری کے ان دنوں میں گھنٹی بار بار بجا کرتی، اس لیے اس آواز پر کوئی حیران نہ ہوا۔ مگر یہ گھنٹی موت کا اعلان تھی اور گاؤں میں کسی کی موت کی خبر نہیں تھی۔ گاؤں والے جلد ہی گرجا گھر کے سامنے اکٹھا ہوگئے اور یہ انتظار کرنے لگے کہ اب انہیں بتایا جائے گا کہ کون مرگیا ہے۔

    گھنٹی اور کچھ دیر تک بجتی رہی پھر خاموش ہوگئی۔

    تب ایک دیہاتی گرجے سے باہر آیا، وہ وہاں عام دنوں میں گھنٹی بجانے والا نہیں تھا۔ گاؤں والوں نے اس سے پوچھا کہ گھنٹی بجانے والا کہاں گیا اور یہ کہ کون مرگیا۔ دیہاتی نے جواب دیا: "گھنٹی میں نے بجائی تھی۔ میں نے انصاف کی موت کی گھنٹی بجائی تھی، اس لیے کہ اب انصاف نہیں رہا۔”

    علاقے کا لالچی زمین دار اپنی زمین کی حد بندی کے پتھروں کی جگہ خاموشی سے بدلتا جارہا تھا اور دیہاتی کی زمین پر قبضہ کرتا جا رہا تھا۔ ہر مرتبہ جب زمین دار حد بندی کے پتھروں کی جگہ بدلتا، دیہاتی کی ملکیت زمین تھوڑا سا اور سُکڑ جاتی۔ غریب دیہاتی نے احتجاج کیا، پھر رحم کی درخواست کی اور آخر کار قانون سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس کی زمین یوں ہی لٹتی رہی۔ آخر کار مایوس ہو کر اس نے اعلان کرنے کا فیصلہ کیا (اگر آپ ساری زندگی گاؤں میں رہے ہیں تو پھر یہی گاؤں آپ کے لیے ساری دنیا ہے) کہ اب انصاف نہ رہا۔

    شاید وہ سمجھتا تھا کہ اس کی یہ وحشت زدہ حرکت ساری کائنات کی گھنٹیوں کو جنبش میں لے آئے گی۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ یہ گھنٹیاں تبھی خاموش ہوں گی جب انصاف دوبارہ جی اٹھے گا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ پھر کیا ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آیا گاؤں والے اس غریب دیہاتی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے یا پھر ایک بار جب کہ انصاف کی موت کا اعلان ہوچکا تھا، وہ سر جھکائے اپنی روزمرہ زندگی کی مشقت کی طرف لوٹ آئے۔ تاریخ کبھی مکمل کہانی نہیں بیان کرتی۔

    میں تصور کرتا ہوں کہ یہ واحد موقع تھا، دنیا میں کسی بھی جگہ جب کہ گھنٹی نے انصاف کی موت کا ماتم کیا تھا۔ یہ گجر پھر نہ بجایا گیا مگر انصاف روز مرتا ہے۔ اور جب بھی انصاف زخموں کی تاب نہ لاکر ڈھیر ہوجاتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ان لوگوں کے لیے کوئی وجود ہی نہ تھا جو اس پر اعتبار کرتے تھے، جو اس کی توقع رکھتے تھے، جس کی توقع کے ہم سب حق دار ہیں: سچا اور کھرا انصاف۔

    میں اس انصاف کی بات نہیں کر رہا ہوں، جو تھیٹر کے اداکاروں کا سا رنگ دھار لیتا ہے اور کھوکھلی خطابت سے ہمیں دھوکا دیتا ہے۔ یا وہ انصاف جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ دیے جانے اور ترازو کے پلڑے جھک جانے کی اجازت دیتا ہے۔ میں اس انصاف کی بات نہیں کر رہا جس کی تلوار کی دھار ایک طرف سے تیز ہے اور دوسری طرف سے کُند۔ میرا انصاف منکسر المزاج ہے اور ہمیشہ مسکینوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں انصاف، اخلاقیات کا ہم معنی ہے اور روحانی صحت کے لیے لازمی۔ میں صرف اس انصاف کی بات نہیں کر رہا جو عدالت سے حاصل ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی اہم تر، وہ انصاف جو فطری طور پر معاشرے کے اپنے اعمال سے پھوٹتا ہے۔ وہ انصاف جو ہر انسان کے اس حق کا احترام کرتا ہے کہ ایک بنیادی اخلاقی اور لازم کے طور پر اپنا وجود رکھے۔

    گھنٹیاں صرف موت کی خبر پر نہیں بجا کرتی تھیں۔ وہ دن اور رات کے پہر کا اعلان کرتی اور ایمان والوں کو بلایا کرتی تھیں۔ حالیہ دنوں تک وہ لوگوں کو سانحے، سیلاب، آتش زدگی، تباہی اور خطرے سے متنبہ کرتی تھیں۔ اب ان کا واحد سماجی منصب رسمی رہ گیا ہے۔ اب اس دیہاتی کا روشن خیال یا تو پاگل پن سمجھا جائے گا یا قابلِ دخل اندازیٔ پولیس۔

    آج اور گھنٹیاں اس امکاں کے دفاع اور تصدیق میں بج رہی ہیں کہ انصاف کو کم از کم اس دنیا میں قائم تو کیا جاسکتا ہے۔

    اس طرح کا انصاف جو روحانی عافیت کے لیے بلکہ جسمانی صحت کے لیے بھی لازمی ہے۔ اگر ہمیں یہ انصاف میّسر ہوا تو پھر کوئی بھوکا مرتا اور نہ ان بیماریوں کا شکار ہوتا جو لوگوں کے لیے قابلِ علاج ہیں، باقی لوگوں کے لیے نہیں۔ اگر ہمیں یہ انصاف میّسر ہوتا تو عالمِ وجود بنی نوعِ انسان کے تقریباً نصف کے لیے وہ ہولناک سزا نہ ہوتا جو ہمیشہ سے اس طرح معلوم ہوتا آیا ہے۔

    اب نئی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ نئی گھنٹیاں جو بج رہی ہیں، وہ اختلافی اور سماجی تحریکیں جو نئے انصاف کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ جس انصاف کے لیے بج رہی ہیں وہ ہر انسان کے لیے مناسب حصّے کی فراہمی کا عہد کرتا ہے اور اس میں تبدیلی لانے کی طاقت ہے، تمام انسان اس کو خلقی طور پر اپنا سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف آزادی اور قانون کی حفاظت کرتا ہے مگر ان کی نہیں جو ان دونوں کے منکر ہیں۔

    ہمارے پاس اس انصاف کے لیے ضابطہ موجود ہے جو ہماری فہم میں آسکتا ہے۔ پچھلے پچاس برس سے انسانی حقوق کے اعلان نامے میں محفوظ رہا ہے، وہ تیس اصول جن کا ذکر اگر ہوتا بھی ہے تو مبہم طریقے سے۔ آج ان کو قرونِ وسطیٰ کے اس اطالوی دیہاتی کی ملکیت سے زیادہ حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے اصولوں کی سالمیت اور اس کے مقاصد کی وضاحت میں، یہ اعلان نامہ جن الفاظ میں لکھا گیا ہے۔ ایک نقطے کی تبدیلی کے بغیر، دنیا کی ہر سیاسی جماعت کے منشور کی جگہ لے سکتا ہے۔

    میں خاص طور پر ان سے مخاطب ہوں کہ جس کو ہم بایاں بازو کہتے ہیں۔ اپنی اپروچ میں فرسودہ اور دقیانوسی، یہ دنیا کی تلخ حقیقتوں سے نمٹنے کے ناقابل یا ان سے بے تعلق نظر آتا ہے۔ یہ اس کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے جو ابھی سے ظاہر ہے، وہ مہیب ڈراوے جو مستقبل میں اس عقلی اور حساس وقار کے لیے خطرہ ہیں کہ جس کو ہم انسانیت کی آرزو سمجھتے ہیں۔ یہی بات ملکی ٹریڈ یونینز اور بین الاقوامی ٹریڈ یونین تحریک کے لے بھی درست ہے۔ شعور یا لاشعوری طور پر، خاموشی سے مان جانے والی اور بیوروکریسی زدہ، ٹریڈ یونین ازم ہمارے پاس باقی رہ گئی ہے۔ وہ بڑی حد تک اس سماجی تعطل کی ذمہ دار ہے جو معاشی عالم گیریت کے ہم رہ آئی ہے۔ مجھے یہ کہتا اچھا نہیں لگتا، مگر میں اس کو چھپا نہیں سکتا۔ اگر ہم نے بروقت مداخلت نہ کی۔۔۔۔ اور وہ وقت ہے، آج اور ابھی ۔۔۔۔ تو معاشی عالم گیریت کی بلّی لامحالہ طور پر انسانی حقوق کے اس چوہے کو پھاڑ کھائے گی۔

    اور پھر جمہوریت کا کیا ہوگا؟ "عوام کی حکومت، عوام کے لیے حکومت، عوام کی جانب سے حکومت؟” میں اکثر یہ دعوے سنا کرتا ہوں، ان کی جانب سے جو حقیقی معنوں میں مخلص ہیں اور ان کی جانب سے بھی جن کو نیک نیتی کا سوانگ رچانے میں فائدہ ہے، کہ حالاں کہ اس سیّارے کا بیش تر حصہ مایوس کن حالت میں ہے لیکن یہ صرف جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے کہ ہم انسانی حقوق کے لیے مکمل یا کم از کم مناسب احترام حاصل کرسکیں گے۔ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں، بس شرط یہ ہے کہ حکومت اور سماجی تنظیم کے جس نظام کو ہم جمہوریت کہتے ہیں، وہ واقعی جمہوری ہو۔

    لیکن ایسا نہیں ہے۔ درست ہے کہ ہم ووٹ دے سکتے ہیں۔ درست ہے کہ رائے دہندگان (ووٹرز) کی حیثیت سے جو خود مختاری و حاکمیت ہمیں تفویض ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کا انتخاب کرسکتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی کون کرے گا، عام طور پر یہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ درست ہے کہ نمائندوں کی تعداد اور سیاسی جمع و اتحاد جو اکثریت کے حصول کی ضرورت عائد کرتی ہے۔ ہمیشہ حکومت قائم کرلیتے ہیں۔ یہ سب درست ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ جمہوری عمل کے لیے موقع یہیں سے شروع ہو کر یہیں ختم ہو جاتا ہے۔

    ایک رائے دہندہ (ووٹر) ہم دردی سے عاری حکومت کا پانسہ الٹ سکتا ہے اور اس کی جگہ دوسری حکومت کو لاسکتا ہے، لیکن اس حقیقی قوت پر جو دنیا پر حکمرانی کرتی ہے، لہٰذا اس کے ملک اور خود اس کے اوپر بھی حکم راں ہے، اس پر اس کے ووٹ کا کوئی خاطر خواہ یا سمجھ میں آنے والا اثر مرتب ہوسکا ہے۔ ہُوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ یہ طاقت معاشی طاقت ہے، بالخصوص وہ ہمہ وقت مائل بہ وسعت شعبہ جس کو کثیر قومی تجارتی ادارے (ملٹی نیشنلز) غلبے کی اس حکمت عملی کے ساتھ چلاتے ہیں، جو اکثریت کی فلاح و بہتری کے اس تصور سے مخاصمت رکھتی ہے، جمہوریت، اپنی تعریف کے مطابق، جس کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہے مگر ہم میکانیکی طور پر اس طرح باتیں کرتی ہیں اور سوچتے ہیں جو ہم کو اس معلومات پر عمل کرنے سے روکتی ہے۔ سو اگر ہم جمہوریت کے بارے میں اس طرح باتیں کرتے رہے گویا وہ زور آور اور مؤثر ہے۔ جب کہ ہمارے پاس جو باقی رہ گیا ہے وہ کسی دنیوی انبار کی رسمی، بے ضرر حرکات و سکنات اور اشاروں پر مشتمل ہے۔

    اور ہم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں، گویا یہ بات واضح نہ ہوکہ ہماری حکومتیں، وہی حکومتیں جن کا ہم نے بہتر یا بدتر طور پر انتخاب کیا ہے اور جن کے لیے ہم پر بنیادی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے بڑی تیزی کے ساتھ ان لوگوں کے سیاسی منتظمین کا کردار ادا کرنے لگی ہیں جن کے پاس حقیقی معنوں میں معاشی زور ہے۔ حکومتیں بس اب اس کام کی رہ گئی ہیں کہ ان قوانین کے مسّودے تیار کرتی رہیں کہ جن کی ضرورت بڑے معاشی عوامل یا کھلاڑیوں کو ہے۔ مناسب عوامی (پبلک) یا نجی (پرائیوٹ) چکر میں ملفوف، یہ قانوں سازی پھر سماجی منڈی میں کس احتجاج کا موجب بنے بغیر متعارف کرائی جاسکتی ہے۔ اور احتجاج اگر ہوتا بھی ہے تو چند ایک، کبھی مطمئن نہ ہونے والی اقلیتوں کا احتجاج۔

    پھر ہم کیا کریں؟ ہم ہر چیز پر بحث کرتے ہیں: ادب، ماحول، کہکشاں کا سفر، سبز خانہ اثرات، کوڑے لگانے کے طریقے اور ٹریفک کی رکاوٹیں۔ مگر ہم جمہوری نظام پر کبھی بحث نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے کہ جس کو وقت کے انجام تک ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا۔

    ان بہت سے معاملات کے ساتھ کہ جن پر ہمیں بحث کرنا چاہیے، ہمیں اشد ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، جمہوریت اور اس کے زوال کے اسباب پر بین الاقوامی مباحثہ کیا جائے۔ ہمیں شہریوں کے اس عمل دخل پر مباحثے کی ضرورت ہے جو سیاسی و سماجی زندگی میں اور پھر ریاستوں اور عالم گیر معاشی و تجارتی قوتوں کے درمیان ہونا چاہیے۔

    ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کون سی چیزیں ہمیں فروغ دیتی ہیں اور کون سے عوامل جمہوریت سے منکر ہیں۔ خوشی اور وقار کے حق کے بارے میں انسانیت کے مصائب اور امیدوں کے بارے میں، انسانوں کے بارے میں، انفرادی طور پر بھی اجتماعی طور پر بھی۔ خود فریبی ساری غلطیوں میں سے بدترین ہے۔ لیکن خود فریبی ہمارے چاروں طرف موجود ہے۔

    (حوزے سارا میگو (پرتگال) کی تحریر جس کا اردو ترجمہ آصف فرخی نے کیا ہے)