Author: عارف حسین

  • رجب علی بیگ سرورؔ اور ان کا "فسانۂ عجائب”

    رجب علی بیگ سرورؔ اور ان کا "فسانۂ عجائب”

    فسانۂ عجائب کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اسے اردو ادب میں نثرِ مقفیٰ کا شاہ کار اور دبستانِ لکھنؤ کی نمائندہ داستان کہا گیا ہے۔ قدیم انشا میں اس طرزِ دل نشیں میں یہ تصنیف رجب علی بیگ سرورؔ کی ہے۔

    ذوق و شوقِ مطالعہ کی تسکین یا پھر اردو نصاب کی ضرورت کے تحت آپ نے بھی اس داستان اور اس کے مصنّف کے بارے میں ضرور پڑھا ہو گا۔ رجب علی بیگ سرورؔ کی تحریر کردہ اس داستان کے بارے میں شمس الدّین احمد لکھتے ہیں، ”فسانۂ عجائب لکھنؤ میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا اور عورتیں بچّوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔“ اس داستان کی مقبولیت ایک الگ بات ہے، لیکن فسانۂ عجائب کے طرزِ تحریر اور اس کے محاسن و معائب پر نقّادوں کی رائے مختلف ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے مصنّف کا تعارف اور ان کے تخلیقی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    سُرور کا درست سنہ پیدائش معلوم نہیں اور اسی طرح‌ تاریخِ وفات میں اختلاف ہے لیکن قیاس ہے کہ وہ 1786ء میں پیدا ہوئے اور آج ہی کے دن 1867ء میں وفات پائی۔ شعر و شاعری کا شوق بہت تھا۔ نثر کے ساتھ شاعری بھی کی۔ رجب علی بیگ ان کا نام، سرورؔ تخلص تھا اور وطن لکھنؤ۔ تربیت اور تعلیم دہلی میں پائی۔ عربی فارسی زبان و ادب کے علاوہ شہ سواری، تیر اندازی، خوش نویسی اور موسیقی میں دست گاہ رکھتے تھے۔ کہتے ہیں دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ غالبؔ سے بھی دوستانہ مراسم تھے۔

    1824ء میں سرور پر افتاد یہ ٹوٹی کہ والیٔ اودھ غازی الدّین حیدر ان سے کسی بات پر خفا ہوگئے اور لکھنؤ سے نکال باہر کیا۔ سرورؔ کانپور چلے گئے اور وہاں حکیم اسد علی کے توجہ دلانے پر فسانۂ عجائب لکھی جس نے انھیں بہت شہرت دی۔ بعد میں لکھنؤ جانے کی اجازت ملی تو لوٹ گئے اور سلطنتِ اودھ کے خاتمے کے بعد وظیفہ سے محرومی نے مالی دشواریوں کا شکار ہوئے تو پھر لکھنؤ چھوڑنا پڑا۔ مہاراجہ بنارس، مہاراجہ الور اور مہاراجا پٹیالہ کے درباروں سے وابستہ رہے اور آخر عمر میں آنکھوں کے علاج کے لیے کلکتہ گئے جہاں سے واپسی پر بنارس میں وفات پائی۔

    سرور کی سب سے مشہور تصنیف فسانۂ عجائب ہے۔ اس کی عبارت مقفّیٰ اور مسجع، طرزِ بیان رنگین اور دل کش ہے۔ ادبی مرصع کاری، فنی آرائش اور علمی گہرائی بھی اس داستان کا وصف ہے۔ اس کتاب کے علاوہ سرور سلطانی، گل زارِ سرور، شبستانِ سرور، انشائے سرور اور منظومات ان کی تخلیقات میں‌ شامل ہیں۔

    اگرچہ فورٹ ولیم کالج کی سلیس نگاری نے مولانا فضلی اور مرزا رسوا کے پُرتکلف طرزِ تحریر پر کاری ضرب لگائی اور باغ و بہار جیسی سادہ و سلیس نثر سامنے آئی، لیکن اس زمانے میں اسے قبول کرنے کے بجائے بعض ادبا نے قدیم طرز کو جاری رکھا اور اس کی حمایت کی۔ ان میں رجب علی بیگ سرور بھی شامل تھے۔ باغ و بہار چوں کہ عام فہم اسلوب کی حامل تھی تو فارسی کے پرستار اور مشکل پسند نثر نگاروں نے اس پر اعتراضات کیے اور سرور نے اسے منوانے کی غرض سے ”فسانۂ عجائب“ کی صورت میں مشکل اور مقفّیٰ عبارت لکھ ڈالی جو ایک طرح سے باغ و بہار کی ضد تھی۔ اس پر انھیں‌ خوب داد ملی اور یہ عوام میں‌ بھی مقبول ہوئی، لیکن بعد میں نقّادوں نے اس داستان کو فقط انشا پردازی کا نمونہ اور ایک یادگارِ ادب شمار کیا۔

    ڈاکٹر عابدہ بیگم فسانۂ عجائب کے متعلق لکھتی ہیں: ”فسانۂ عجائب اپنے دور کی مقبول ترین کتاب تھی۔ یہ متاثرینِ فارسی کی انشا پردازی کا اردو جواب تھی۔ سرور نے کچھ ایسا جادو جگایا جو تیس سال تک اردو نثر کے سَر پر چڑھا رہا۔“

    نقّاد مانتے ہیں کہ سرور موقع محل کے مطابق زبان اختیار کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ منظر کشی، مختلف فنون کی اصطلاحیں، ہر قسم کے سازو سامان کی تفصیلات، عوام النّاس کے مختلف طبقات کا طرزِ کلام، گویا ہر قسم کا بیان نہایت مناسب اور موزوں الفاظ میں کیا گیا ہے۔ عبارت آرائی اور قافیہ بندی میں بھی سرور کی قدرت اور استادی جھلکتی ہے۔

    ” اس کتاب سے ایک ادبی روایت کی مستحکم بنیاد پڑی۔ اردو کی کم کتابوں نے اپنے عہد کی زبان اور ادب پر اتنا اثر ڈالا جتنا فسانۂ عجائب نے۔“

    فسانۂ عجائب کی زبان کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک قسم سلیس اور بامحاورہ زبان اور دوسری قسم پیچیدہ اور گراں بار زبان ہے جس کو سمجھنے کے لیے قاری کو فرنگی محل کی گلیوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔

    اس داستان کے اسلوب اور واقعات کے تسلسل و بیان پر معترض نقّادوں میں‌ سے ایک کلیم الدّین احمد لکھتے ہیں۔ ”فسانۂ عجائب ایک عجوبۂ روزگار ہے، اس کی ممکن ہے کچھ تاریخی اہمیت ہو لیکن زندہ ادب میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔“ بعض نے کہا ہے کہ یہ ایک دور، ایک تہذیب کا نمائندہ اسلوب ہے اور اسے اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔

    اس کتاب سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    "صاحبو! دُنیائے دوں، نیرنگیٔ زمانۂ سِفلَہ پرور، بو قلموں عبرت و دید کی جا ہے۔ گرما گرم آئندہ رَوِندہ کا بازار ہے۔ کس و ناکس جنسِ نا پائیدار، لہو و لعب کا خریدار ہے۔ اپنے کام میں مصروف قضا ہے۔ جو شے ہے، ایک روز فنا ہے۔ معاملاتِ قضا و قدر سے ہر ایک ناچار ہے، یہی مسئلۂ جبر و اختیار ہے۔ کوئی کسی کی عداوت میں ہے، کوئی کسی کا شیدا ہے۔ جسے دیکھا، آزاد نہ پایا؛ کسی نہ کسی بکھیڑے میں مبتلا ہے۔”

    ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
    "دُنيا جائے آزمائش ہے۔ سفیہ جانتے ہیں یہ مقام قابلِ آرام و آسائش ہے۔ دو روزہ زیست کی خاطر کیا کیا ساز و ساماں پیدا کرتے ہیں۔ فرعونِ با ساماں ہو کے زمین پر پاؤں نہیں دھرتے ہیں۔ جب سر کو اٹھا آنکھ بند کر کے چلتے ہیں، خاکساروں کے سر کچلتے ہیں۔ آخرکار حسرت و ارماں فقط لے کر مرتے ہیں۔ جان اُس کی جستجو میں کھوتے ہیں جو شے ہاتھ آئے ذلّت سے، جمع ہو پریشانی و مشقّت سے، پاس رہے خِسَّت سے، چھوٹ جائے یاس و حسرت سے۔ پھر سَر پر ہاتھ دھر کر روتے ہیں۔”

    سرورؔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں فسانۂ عجائب 1824ء کی تصنیف ہے۔ یہ حسن و عشق کا افسانہ ہے۔ انداز اس کا داستانوی ہے۔ اس میں غیر فطری باتیں بھی بہت سی ہیں۔ اسی لیے بعض اہلِ نظر نے اسے داستان اور ناول کے بیچ کی کڑی کہا ہے۔ فسانۂ عجائب کی عبارت انتہائی پُرتکلف اور زیادہ تر مقام پر نہایت پیچیدہ معلوم ہوتی ہے۔ الغرض رنگینیٔ بیان سے کتاب کو دل چسپ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کے نزدیک سادہ و سہل زبان کوئی خوبی نہیں، بلکہ عیب ہے۔ وہ صناعی اور عبارت آرائی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ چوں کہ اس زمانے میں یہ اندازِ نگارش عام بھی تھا اور اس کے سمجھنے اور پڑھنے والے بھی موجود تھے، اس لیے سرور کی یہ داستان بہت مقبول ہوئی، لیکن اس کے چند برس بعد ہی زبان و ادب میں عام لوگوں نے تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جسے سب نے قبول کیا۔

    فسانۂ عجائب سے یہ پارہ دیکھیے:

    انجامِ شاہ و گدا دو گز کفن اور تختۂ تابوت سے سوا نہیں۔ حسرتِ دنیا سے کفن چاک ہوا، بستر دونوں کا فرشِ خاک ہوا۔ نہ امیر سَمور و قاقُم کا فرش بچھا سکا، نہ فقیر پھٹی شطرنجی اور ٹوٹا بُوریا لا سکا۔ بعدِ چندے، جب گردشِ چرخ نے گنبد گرایا، اینٹ سے اینٹ کو بجایا تو ایک نے نہ بتایا کہ دونوں میں یہ گورِ شاہ ہے، یہ لحدِ فقیر ہے۔ اس کو مرگِ جوانی نصیب ہوئی، یہ استخوانِ بوسیدۂ پیر ہے۔ کتّے بلّی، چیل کوّے بوٹیاں نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ دامنِ دشتِ عُریاں کفن، گور بے چراغ، صحرا کا صحن ہوتا ہے۔ یاس و حسرت کے سوا کوئی نہ سرہانے روتا ہے۔ تمنّا چھٹ کوئی پائنتی نہ ہوتا ہے۔

  • چاند کی بیٹی….

    چاند کی بیٹی….

    ایک چھوٹی سی بچّی تھی۔ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔

    ایک امیر آدمی کے گھر میں اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ پانی بھر کے لاتی، کھانا پکاتی۔ بچّوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔ کھیلنا کودنا تو کیا دو گھڑی آرام بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ آدمی بہت چالاک اور بے رحم تھا اور اس کی بیوی تو میاں سے بھی دو قدم آگے تھی۔

    ایک رات چاند آسمان پر چمک رہا تھا اور باہر بہت سخت سردی تھی۔ امیر آدمی کی بیوی نے اس بچّی سے پانی لانے کے لیے کہا۔ بچّی پانی بھرنے باہر گئی۔ جب وہ تالاب پر پہنچی تو سردی سے اس کے پیر پتھر ہو چکے تھے۔ تالاب کا پانی بھی اوپر سے جما ہوا تھا۔ بچّی نے برف میں سوراخ کیا اور پانی کی بالٹی بھر کر گھر واپس آنے لگی۔ گھر کے قریب پہنچ کر وہ گر پڑی اور سارا پانی بہہ گیا۔ بچی گھبرا گئی۔ وہ خالی بالٹی لے کر گھر نہیں جا سکتی تھی۔ وہ دروازے پر کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہنس رہا تھا۔

    بچّی نے چاند سے کہا، ’’چندا ماموں، دیکھو تو میں کتنی دکھی ہوں۔ میری مدد کرو۔ مجھے ان ظالموں سے بچاؤ۔ یہ تو مجھے مار ڈالیں گے۔‘‘

    چاند اس کی فریاد سن کر زمین پر اتر آیا۔ وہ ایک خوب صورت نوجوان کے بھیس میں تھا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ چاند کے بڑے بھائی سورج نے بھی بچّی کی فریاد سن لی تھی۔ وہ بھی آدمی کی شکل میں سنہرے رنگ کے کپڑے پہنے زمین پر اتر آیا۔

    سورج نے چاند سے کہا، ’’میں اس دکھی لڑکی کو لینے آیا ہوں۔ اسے مجھے دے دو۔ کیوں کہ میں تم سے بڑا ہوں۔‘‘

    چاند نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے کہ تم بڑے ہو سورج بھائی، لیکن اس وقت رات ہے، اور میں رات کا بادشاہ ہوں۔ اس بچّی نے مجھ سے مدد مانگی ہے۔ اس لیے میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

    چاند بچّی کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ جب سے وہ ننھی بچّی چاند میں رہتی ہے۔ جب تم چودھویں کا پورا چاند دیکھو گے تو اس میں وہ ہنستی گاتی نظر آئے گی۔

    (پاکستان کی نام وَر شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • جاذب و جمیل اور پُرکشش رائن کی کہانی جو دنیا بھر میں‌ مشہور ہے!

    جاذب و جمیل اور پُرکشش رائن کی کہانی جو دنیا بھر میں‌ مشہور ہے!

    دریائے رائن کے قدرتی حُسن اور اطراف و اکناف کی دل آویز خوب صورتی نے کسے اپنا اسیر نہیں کیا۔ ایک زمانہ تھا جب مناظرِ فطرت کے شیدائی اور سیّاحت کے شوقین افراد کے ساتھ فن کار بھی خاص طور پر جرمنی میں اس مشہور دریا کی سیر اور اپنے فن کو آزمانے کے لیے آتے تھے۔

    یہ آبی گزر گاہ سوئٹزر لینڈ میں اپنی سحر انگیزی کے لیے مشہور الپس کے پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے اور پہلے سوئٹزر لینڈ اور پھر فرانس سے ہوتا ہوا جرمنی میں بہتے ہوئے نیدر لینڈز سے گزر کر بحیرۂ شمال سے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔ یہ یورپ کا 12 واں سب سے بڑا دریا ہے جو 1233 کلو میٹر طویل ہے۔

    یہ قدیم زمانے سے جہاز رانی اور تجارت کا ذریعہ رہا ہے اور جرمنی کا سب سے بڑا دریا ہے۔ دریائے رائن سوئٹزر لینڈ، آسٹریا اور جرمنی کی سرحدوں پر مشہور جھیل کونسٹانس بھی تشکیل دیتا ہے جو جنوب مغربی جرمنی کے لیے پینے کے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔

    رائن کے کنارے فطرت کی رنگینوں سے لبریز رہے ہیں اور اس کے اطراف قدرتی ماحول کی کشش نے بالخصوص 18 ویں اور 19 ویں صدی میں ہر خاص‌ و عام کو متاثر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جرمنی اور دور دراز سے فن کار بھی یہاں‌ سیر و تفریح کو آیا کرتے تھے۔ ان میں‌ مصوّر، ادیب اور شاعر شامل تھے جو قدرتی مناظر کو کینوس پر اتارتے، اور یہاں شاعری کرتے تھے۔ 19 ویں صدی میں دریائے رائن کی مقناطیسی کشش نے فن کاروں‌ کے ساتھ محققّین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔

    دریائے رائن کے دونوں کناروں پر موجود چٹانیں، وادیاں اور اونچے پہاڑ اور کسی زمانے میں یہاں‌ تعمیر کیے گئے قلعے آنے والوں کو اپنے سحر میں‌ گرفتار کرلیتے۔

    کہتے ہیں اس دریا اور قدرتی حسن کی شہرت کا سبب وہ ولندیزی مصوّر بنے جو 18 ویں صدی عیسوی میں‌ یہاں‌ آنے لگے تھے اور انھوں‌ نے یہاں کی منظر کشی کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان مصوّروں کو ایمسٹرڈم کے جغرافیہ دان یہاں‌ بھیجتے تھے، اور ان سے دریا اور اس علاقے کے مختلف مقامات کی تصاویر بنواتے تھے۔ ولندیزی مصوّر یہ کام بامعاوضہ کرتے تھے۔ بعد میں‌ جرمن آرٹسٹوں نے بھی یہ سلسلہ شروع کردیا اور پھر دریائے رائن سبھی کا محبوب بن گیا۔

    رائن اور اس کا کنارہ بے پناہ دل کش تھا۔ رائن کا وسطی حصّہ اس علاقے کے ابتدائی سیّاحوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ اٹھارویں صدی میں اُس دور کے بے شمار رئیس اور امرا دریا کی سیر کو آنے لگے اور اس خطّے کی خوب صورتی سے واقف ہوئے۔ یہاں فن پارے اور شاعری تخلیق ہوئی، فلسفیوں نے کائنات پر غور و فکر کیا اور کئی عقدے حل کیے۔

    آج ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سے جس طرح خشکی پر کئی مسائل سر اٹھا چکے ہیں، اسی طرح سمندر، دریا اور جھیلیں بھی اپنی آب و تاب کھو چکے ہیں اور ان کا حسن و جمال ماند پڑ چکا ہے۔ کہتے ہیں‌ 1810ء میں اس دریا کو سیدھا کرنے کا کام شروع کر دیا گیا تھا جس کے بعد یہ ایک مصروف آبی گزر گاہ بنتا چلا گیا۔ آج یہ دریا بھی انہی پہاڑی سلسلوں سے ہوکر اپنے راستے پر بہتا چلا آتا ہے، لیکن شاید اس رنگینی اور جاذبیت اب پہلے جیسی نہیں‌ رہی ہے۔

  • یومِ‌ وفات: قلم، ٹائپ رائٹر اور ڈاک کے لفافے جان اپڈائیک کا رومانس تھے

    یومِ‌ وفات: قلم، ٹائپ رائٹر اور ڈاک کے لفافے جان اپڈائیک کا رومانس تھے

    گھر میں رائٹنگ ٹیبل پر رکھے ٹائپ رائٹر میں اسے عجیب کشش محسوس ہوتی تھی۔ قلم اور کورے کاغذ گویا اپنی جانب کھینچتے اور ڈاک کے خاکی لفافوں کا بھید جاننے کے لیے وہ بے چین ہوجاتا تھا۔ اس کا محبوب مشغلہ ان لفافوں پر درج نام اور مختلف پتے پڑھنا تھا۔ یہ جان اپڈائیک کی زندگی کے ابتدائی دن تھے۔

    اس کے والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں گھر میں موجود تھیں اور اپڈائیک کو اکثر ان کی زبانی علمی و ادبی مباحث سننے کا موقع ملتا تھا۔ اسی ماحول کا اثر تھا کہ اس نے کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

    ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد وہ اس قابل ہوگیا کہ بچّوں کا ادب پڑھ سکے۔ اسی مطالعے نے اس کم عمر کے تخیل کو مہمیز دی اور ایک دن اس نے قلم تھام کر اپنے جذبات اور احساسات کو نظم کر دیا۔ نوعمر اپڈائیک نے اس پہلی کاوش کے بعد ایک مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ یہ تخلیقی کاوشیں والدین کے سامنے رکھیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور بیٹے کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے برسوں میں خصوصاً والدہ کی راہ نمائی میں جان اپڈائیک نے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا اور وہ وقت بھی آیا جب دنیا بھر میں وہ اپنے نظریۂ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔

    جان اپڈائیک کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کے بچپن کی لفظی جھلکیاں آپ کی نظر سے گزری ہیں، جو یقیناً عام بچّوں کے مقابلے میں بہت مختلف تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپڈائیک روانی سے نہیں بول سکتے تھے اور ایک ایسے مرض میں بھی مبتلا تھے جس میں جلد کی رنگت سفید ہوجاتی ہے اور چہرے پر سرخ نشانات پڑجاتے ہیں، مگر والدین کی بھرپور توجہ اور ہمّت افزائی نے انہیں کسی بھی قسم کے احساسِ کم تری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ اپڈائیک اپنے قلمی سفر کی ابتدا سے متعلق لکھتے ہیں۔

    ’’میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چُھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری راہ نمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اُس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔‘‘

    18 مارچ 1932ء کو آنکھ کھولنے والے جان اپڈائیک نے ہر بچّے کی طرح ابتدائی عمر میں مہم جوئی پر مبنی کہانیوں، طلسماتی اور تجسُس سے بھرپور اسٹوریز میں دل چسپی لی۔ ذرا شعور آیا تو خود بھی مختلف موضوعات پر لکھنے لگے اور جب باقاعدہ قلم تھاما تو پہلے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی پر ناول لکھا۔ اپڈائیک کی تخلیقات اپنے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین میں مقبول ہوئیں۔ ان کے عام موضوعات سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جب کہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا۔

    عظیم ناول نگار، شاعر اور نقّاد جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویّوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اپڈائیک کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور اپڈائیک کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق اپڈائیک نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اوّل کے تخلیق کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

    دورانِ تعلیم جان اپڈائیک ایک مقامی روزنامہ ’’ریڈنگ ایگل‘‘ سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہوگئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوئی اور اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950ء میں اپڈائیک نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دل چسپی کے باعث انہوں نے اسکیچ اورکارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اپڈائیک کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں ان کے کارٹون شایع ہوئے جو بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹ میں یہی دل چسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہوگیا۔

    انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران اُن کی ملاقات امریکی قلم کاروں ای بی وہائٹ اور کیتھرائن وہائٹ سے ہوئی جنہوں نے اپڈائیک کی تخلیقات کی ستائش کے بعد ’’نیویارکر‘‘ کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد اپڈائیک امریکا لوٹے اور نیویارکر کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب اپڈائیک کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ اپڈائیک کے ذہن کو اجالتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال اور ہمہ جہتی ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔

    جان اپڈائیک کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کرچکے تھے۔ اپڈائیک گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کر رہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ اپڈائیک کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ اپڈائیک نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ طرزِ تحریر ایسا کہ قاری ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔

    جان اپڈائیک نے اپنے گردوپیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بُنیں۔ ان کی تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔

    اپڈائیک مصلحت پسند نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کی جنہیں اُس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا، لیکن انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویّے بھی رہے۔ اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کا موضوع بوسٹن اور نواح کی زندگی تھی۔ یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اسی ناول کے بعد وہ مشہورِ زمانہ امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ کی کور اسٹوری بنے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ اپڈائیک نے ان الزامات کو مسترد کردیا۔ وہ اپنے نظریۂ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ٹائم میگزین نے ایک بار پھر اس پر اسٹوری شایع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔

    اپڈائیک کا پہلا ناول Poorhouse Fair تھا اور 1958ء میں نظموں کا پہلا مجموعہ The Carpentered Hen کے نام سے شایع ہوا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز نیویارکر کا حصّہ بنتی رہیں جو انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بعد میں کئی ناول لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں امریکا اور عالمی سطح پر کئی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ان کی زندگی کا آخری ناول 2008ء میں منظرِ عام پر آیا اور اگلے برس 27 جنوری کو پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث جان اپڈائیک نے زندگی ہار دی۔

    (مترجم: عارف عزیز)

  • گلبرگہ کے فضل گلبرگوی اور روئے گُل کا تذکرہ

    گلبرگہ کے فضل گلبرگوی اور روئے گُل کا تذکرہ

    فضل گلبرگوی اردو کے اُن شعرا میں‌ سے ایک ہیں‌ جنھوں نے غزل اور نظم کی اصناف میں اپنی انقلابی فکر اور نظریات کو نہایت لطیف اور پُراثر انداز میں اس طرح سمویا کہ ایک طرف یہ کلام اُن کے سیاسی اور سماجی شعور کا آئینہ نظر آتا ہے اور دوسری جانب شاعر کے فن کی پختگی اور جمالیاتی اظہار کی تازگی کا نمونہ ہے۔ فضل گلبرگوی کے اشعار میں ان کا احساسِ درد مندی نمایاں ہے۔

    محبوب حسین جگر (جوائنٹ ایڈیٹر، روزنامہ سیاست، حیدرآباد دکن) نے فضل گلبرگوی کے شعری مجموعے روئے گُل پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا تھا،

    "حیدر آباد نے زبان و ادب، تہذیب اور تمدن کو بے نہایت آب و تاب بخشی۔ پیار و محبّت کی اس سرزمین کا ایک خطّۂ پاک گلبرگہ بھی ہے، جہاں اردو کا اوّلین نثر نگار مطلعِ ادب پر طلوع ہوا، جس کی تعلیمات سے نگر نگر چاندنی سی پھیل گئی۔ رشد و ہدایت، نیکی اور بھائی چارگی نیز گنگا جمنی روایات کو دکن کی مشترکہ تہذیب کہا جاتا ہے۔

    فضل گلبرگوی کا روئے گُل اسی روایت کا صحّت مند، ترقی پذیر اور عصری فکر و دانش کا گل دستہ ہے۔ فضل گلبرگوی کی غزلوں کا لہجہ تیکھا، اور دل میں اترنے والا ہے۔ ان کے اظہار کا اسلوب کلاسیکی اقدار کا حامل ہوتے ہوئے بھی تازگیِ فکر کا خوش گوار امتزاج معلوم ہوتا ہے۔

    فضل گلبرگوی نے ٹھہر ٹھہر کر اور سوچ سوچ کر شعر کہے ہیں۔ اس لیے ان کے مجموعہ کو عطر سخن قرار دوں تو بیجا نہ ہو گا۔ انسانی اقدار کی تقدیس، سماجی کشمکش، معاشی الجھنوں اور عوامی احساسات کا شعور ان کی غزلوں اور نظموں کا نمایاں وصف ہے۔

    فضل نے حیدر آباد(دکن) کے جاگیردارانہ نظام کے زمانے میں آنکھیں کھولیں۔ مجلس کی تحریک نے بھی انھیں کھینچا، انقلابوں کی گھن گرج سے بھی ان کے کان آشنا رہے۔ پھر یہ پاکستان چلے گئے۔ فکرو نظر کے زاویے بدلے، مگر ان کا ذہن اور سوچنے کا طور طریق وہی رہا جو حیدر آبادیوں اور عثمانین کا رہا ہے۔

    فضل کی ابیات میں ہندی کی لطافت اور کوملتا بھی من موہنی سی لگتی ہے۔ غزلوں میں ترنم، سلاست، نیا پن اور پوری شاعری کی مہک اور تازگی ملتی ہے۔”

    ادبی ماہ نامہ سب رَس کے مدیر اور متعدد کتابوں کے مصنّف خواجہ حمید الدین شاہد نے فضل گلبرگوی کی شاعری پر یوں تبصرہ کیا:

    "اُن کی غزلیں سادگی اور پُرکاری کے علاوہ لطیف احساسات کی ترجمان ہیں۔ شیریں اور مناسب ہندی الفاظ کے بَر موقع استعمال نے ان کی غزلوں کا حسن دوبالا کر دیا ہے۔”

    اردو زبان کے اس شاعر کے کلام سے یہ انتخاب حاضر ہے۔

    غزل
    ذہن پہ بندش، فکر پہ پہرے
    کون تمھارے شہر میں ٹھہرے
    آپ کی بستی دیکھ لی ہم نے
    زخمی روحیں، اترے چہرے
    کس کا گلشن، کیسی جنّت
    ٹوٹ گئے سب خواب سنہرے
    اُف یہ پراسرار کتابیں
    پڑھتا ہوں احباب کے چہرے
    فضل نہ چھیڑو پیار کے نغمے
    لوگ یہاں کے گونگے بہرے

    شاعر کا یہ خوب صورت کلام ملاحظہ کیجیے۔

    کیوں کسی غیر کی آشفتہ بیانی لکھتے
    وقت ملتا تو ہم اپنی ہی کہانی لکھتے
    وہ تو یہ کہیے کہ ہم بھی نگراں تھے ورنہ
    لوگ آہوں کو دھواں خون کو پانی لکھتے
    کون گلشن میں سمجھتا گل و لالہ کی زباں
    ہم اگر شرح نہ کرتے، نہ معانی لکھتے
    اور دکھ بڑھ گیا رودادِ گلستاں لکھ کر
    اس سے اچھا تھا کوئی اور کہانی لکھتے
    فضل اک پھول سے چہرے کا خیال آیا تھا
    ورنہ ہم دہر کے ہر نقش کو فانی لکھتے

    فضل گلبرگوی کا ایک شعر پیشِ‌ خدمت ہے

    یہ وقت ہی بتائے گا بازی ہے کس کے ہاتھ
    تم خوش ہوا کرو کہ ہمیں مات ہوگئی

    یہ غزل دیکھیے

    اپنے مسلک سے ہٹ گئے رستے
    راستے سے پلٹ گئے رستے
    کارواں کو تھی زندگی کی تلاش
    اور لاشوں سے پٹ گئے رستے
    اہلِ دل جس طرف سے گزرے ہیں
    احتراماً سمٹ گئے رستے
    شوق کو رہنما بنایا تھا
    آپ ہی آپ کٹ گئے رستے
    فضل یہ کون سُوئے دار چلا
    نقشِ پا سے لپٹ گئے رستے

    فضل گلبرگوی 1914ء میں‌ پیدا ہوئے عبدالرّحیم نام تھا، فضل تخلّص کیا اور اپنے آبائی وطن کی نسبت بھی ساتھ ہی جوڑ لی اور فضل گلبرگوی مشہور ہوئے۔ حیدرآباد دکن میں اُن کا کاروبار تھا، لیکن کاروبار سے زیادہ دل چسپی سیاست میں رہی۔ بہادر یار جنگ کے خاصے قریب رہے۔ خاکسار تحریک سے وابستہ ہوئے اور باقاعدہ وردی پہنا کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور یہاں‌ ایک بینک میں ملازم ہوئے۔ فضل گلبرگوی نے اسی شہر میں 1994ء میں‌ وفات پائی۔

  • 2022ء: آنے والے دنوں کی تابانی، جانے والے دنوں سے بڑھ کر ہو!

    2022ء: آنے والے دنوں کی تابانی، جانے والے دنوں سے بڑھ کر ہو!

    کچھ خوشیاں کچھ آنسو دے کر ٹال گیا
    جیون کا اک اور سنہرا سال گیا

    یہ 31 دسمبر 2021ء کی وہ شب ہے جس کے وجود سے نیا سنہ (سال) جنم لے گا۔ ساتھ ہی دنیا بھر میں کئی لوگوں کے سِن بھی تبدیل ہوجائیں گے۔ گردشِ ماہ و سال اسی کا تو نام ہے۔

    نئے سال یعنی 2022ء کا بھی ہر دن ماضی بن کر 12 مہینوں کی لڑی میں پیوست ہوتا چلا جائے گا۔ کیلنڈر میں‌ ہماری خوشیاں اور تمام رنج و غم واقعات اور حادثات کی صورت میں‌ تاریخ وار جگہ پائیں گے۔ الغرض ماہ و سال کی اس گردش میں انسان اپنا سفر جاری رکھے گا۔

    ممتاز شاعر عرش صدیقی کی یہ نظم ملاحظہ کیجیے۔

    اُسے کہنا دسمبر آگیا ہے!

    اُسے کہنا دسمبر آگیا ہے
    دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا
    اُسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
    مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
    اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں ہے
    اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
    اور ان پر برف کی چادر جمی ہے
    اسے کہنا، اگر سورج نہ نکلے گا
    تو کیسے برف پگھلے گی
    اسے کہنا کہ لوٹ آئے

    خنک شامیں، یخ بستہ ہوائیں اور بہت سی سہانی اور تلخ یادیں دسمبر کے مہینے میں گویا تازہ ہوجاتی ہیں۔ یہ مہینہ اردو شاعری کا موضوع بھی رہا ہے۔ ہر سال ایسی نظمیں اور اشعار ہماری نظر سے گزرتے ہیں جن پر اداسی، کسی خلش، کسک اور نامرادی کا رنگ غالب ہوتا ہے، لیکن دسمبر کو رخصت کرنے کے ساتھ ہی ہم نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس کے لیے اپنی بانہیں کھول دیتے ہیں۔ اس لمحے یہ امید افزا اور دعائیہ اشعار ہمارے جذبات اور احساسات کی خوب صورت ترجمانی کرسکتے ہیں۔ اردو کے معروف شاعر فرخ اظہار کی یہ نظم پیشِ خدمت ہے۔

    سالِ نو
    ہے تمنّا کہ تجھ کو آج کا دن
    ہر مسرت سے ہمکنار کرے
    کھل اٹھیں پھول دل کے آنگن میں
    تو اگر خواہشِ بہار کرے

    مسکراہٹ لبوں پہ ہو رقصاں
    سارا عالم تجھی سے پیار کرے
    تجھ سے ہر رنج دُور ہو جائے
    ہر خوشی تجھ پہ جاں نثار کرے

    تیری رعنائیوں میں کھو جائے
    غم کا سورج غروب ہو جائے
    تیرے آنگن میں قافلے اتریں
    جھلملاتے ہوئے ستاروں کے
    ہو کے بے اختیار اٹھ جائیں
    تیری جانب قدم بہاروں کے

    ہر نئی صبح تیرے دامن میں
    چاہتوں کے گلاب بھر جائے
    ہر حسین شام اپنی رعنائی
    تیرے خوابوں کے نام کر جائے
    دیکھ کر تیرے رُخ کی شادابی
    رنگِ قوس قزح نکھر جائے

    مسکراتی سدا حیات رہے
    تیرے قدموں میں کائنات رہے
    پرتوِ غم نہ پڑ سکے تجھ پر
    دل ترا شہر اِنبساط رہے

    غم نہ دِل میں کبھی اجاگر ہو
    شادمانی ترا مقدر ہو
    آنے والے دنوں کی تابانی
    جانے والے دنوں سے بڑھ کر ہو

  • 2021 ادب کے لیے کیسا رہا؟

    2021 ادب کے لیے کیسا رہا؟

    تخلیق ہر دور کے انسان کا جوہر اور ادب ہر تہذیب کا خاصہ رہا ہے۔

    دنیا کی کسی بھی زبان میں اہلِ قلم جب اپنے افکار و خیالات، زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو تخلیقی وفور اور جمالیاتی حس کے ساتھ الفاظ میں ڈھالتے ہیں تو ادب تشکیل پاتا ہے۔ آج گلوبل ولیج میں ادیب اور شاعر کی خوشیاں اور دکھ مشترک ہیں اور انھیں کئی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ اب انگلیوں کی پوروں میں‌ سمٹی ہوئی دنیا کا جیتا جاگتا انسان مصنوعی ذہانت کا اسیر اور ڈیجیٹل ورلڈ کا شیدائی ہے۔ ٹیکنالوجی کی اسی اثرپذیری نے ادبی مذاق، میلانِ طبع اور رجحان کو بھی تبدیل کیا ہے جس کے مطابق ادب تخلیق کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

    اگر آج کا ادیب اور شاعر اُن موضوعات کا بہتر ادراک کرسکے جو کسی مخصوص تہذیب، خطّے یا معاشرے کے کسی ایک گروہ سے متعلق نہیں بلکہ ان کی نوعیت آفاقی ہے اور وہ جدید دور میں اپنے قاری کے ذوق کی تسکین کے ساتھ انھیں معیاری ادب پڑھنے پر آمادہ کرلے تو یہ اس کی بڑی کام یابی ہوگی۔

    اس وقت دنیا کرونا کی وبا سے لڑ رہی ہے جس نے ادب شناسی اور کتاب کلچر کے فروغ کی کوششوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ 2021ء کے ادبی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح‌ پر کئی اہم اور قابلِ ذکر تقریبات کا حسبِ روایت اور بصد اہتمام انعقاد ممکن نہیں‌ ہوسکا۔ اکثر ادبی جلسوں اور میلوں میں حاضرین کی تعداد کم رہی جب کہ مشاہیر بھی ان تقاریب میں بہ نفسِ نفیس شرکت نہیں‌ کرسکے اور آن لائن اپنے موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔

    یہاں ہم اس سال کی اہم ادبی تخلیقات اور قابلِ‌ ذکر تقاریب کی مختصر روداد پیش کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    جنّت (Paradise) اور عبدالرّزاق گرناہ
    اس سال ادب کا نوبل انعام عبدالرّزاق گرناہ کے نام کیا گیا جو برطانیہ میں مقیم ہیں۔

    اسٹاک ہوم میں سویڈش اکیڈمی کی جانب سے ان کے نام کا اعلان سات اکتوبر کو کیا گیا تھا۔ 72 سالہ گرناہ کو ایسا ادیب کہا گیا ہے جس نے دردمندانہ انداز میں مصلحت پسندی کے بغیر نوآبادیاتی نظام کے اثرات اور ایک مہاجر کی قسمت کو انتہائی متاثر کن انداز میں پیش کیا ہے۔

    تنزانیہ نژاد برطانوی ادیب عبدالرّزاق گرناہ کو یہ انعام ان کے ناول جنّت کے لیے دیا گیا جس کی کہانی پہلی عالمی جنگ کے نوآبادیاتی مشرقی افریقہ کی ہے۔ فکشن کے زمرے میں ان کا یہ ناول بکر پرائز کے لیے بھی شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔

    وہ تنزانیہ کے باسی ہیں اور پچھلے 14 برسوں میں افریقی ادب سے اس انعام کے لیے منتخب ہونے والے پہلے ادیب ہیں۔ عبدالرّزاق گرناہ نے 1960ء کی دہائی میں افریقہ سے اُس وقت ہجرت کی تھی جب زنجبار میں عرب نسل کے شہریوں کا تعاقب کیا جارہا تھا۔ گرناہ زنجبار میں اس دور میں پروان چڑھے تھے، جب برطانوی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور آزادی کے ساتھ وہاں انقلابی تبدیلی آگئی تھی۔

    تنزانیہ میں اپنا آبائی علاقہ چھوڑنے کے بعد گرناہ 1984ء میں صرف ایک بار اپنے والد کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل زنجبار جاسکے تھے۔ اس سے قبل افریقی ادب میں نوبل انعام زمبابوے کی سفید فام مصنّفہ ڈورس لیسنگ کو دیا گیا تھا۔

    اس سال نوبل انعام کی دوڑ میں جن تخلیق کاروں کو مضبوط تصوّر کیا جارہا تھا، ان میں کینیا سے اینگوگی وا تھیئونگو، فرانس کی اینی اَیرنو، جاپان سے ہاروکی موراکامی، کینیڈا کی مارگریٹ ایٹ وُڈ اور اینٹی گوئن اور امریکا کی جمیکا کِن کیڈ شامل تھیں۔

    ڈیمن گالگوٹ کا دی پرامس (The Promise)
    بکر پرائز کی بات کریں تو اس کی اوّلین فہرست کا اعلان 27 جولائی کو کیا گیا اور 14 ستمبر کو نام شارٹ لسٹ ہوئے اور تین نومبر کو فکشن کا یہ معتبر انعام ایک تقریب کے دوران ڈیمن گالگوٹ کے نام ہوا۔ وہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے گئے تھے۔

    جنوبی افریقہ کے ادیب ڈیمن گالگوٹ کو ان کے ناول دی پرامس پر بکر پرائز سے نوازا گیا ہے۔ انھوں نے اپنے اس ناول میں جنوبی افریقہ کے مضافات کے ایک سفید فام کسان کے مادر شاہی خاندان کے حالات کو پیش کیا ہے۔ یہ کسان اپنی والدہ سے اُس کی موت کے وقت کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ وعدے کے مطابق اسے اپنی خاندانی خدمت گار سیاہ فام خاتون کو اپنی ملکیتی زمین پر مکان دینا تھا، لیکن مرحومہ کے خاندان کی یہ نسل اس معاملے میں اپنے بزرگوں کا مان رکھنے میں تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔ انھیں جائیداد میں اس نوکرانی کو کچھ حصّہ دینے میں بڑی الجھن محسوس ہوتی ہے۔ دی پرامس ڈیمن گالگوٹ کا انیسواں ناول ہے جو اسی برس شایع ہوا تھا۔

    مصنّف نے 17 سال کی عمر سے لکھنے کا آغاز کیا تھا اور اب تک وہ متعدد ادبی اعزازات اپنے نام کرچکے ہیں۔ ڈیمن گالگوٹ ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ ان کی کتاب دی کیوری پر دو فلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں۔

    بکر پرائز کے فاتح ڈیمن گالگوٹ بچپن میں لاحق ہونے والے ایک مرض کے بعد کتب بینی کی طرف راغب ہوئے اور اسی شوق اور مطالعے نے انھیں لکھنے کی تحریک دی۔

    ادب کے اس عالمی انعام کے لیے چھے ناول شارٹ لسٹ کیے گئے تھے جن میں امریکی ناول نگار میگی شپسٹیڈ کا ناول گریٹ سرکل، سری لنکا کے تمل ناول نگار انوک اروند پراگسم کا ناول نارتھ پیسیج، امریکی شاعر اور ناول نگار پیٹریشیا لاک ووڈ کا پہلا ناول نوون از ٹاکنگ اباؤٹ دس، صومالی نژاد برطانوی ندیفہ محمد کا ناول دی فورچون مین، امریکی مصنّف رچرڈ پاورزن کا ناول بیولڈرمنٹ اور انعام یافتہ ناول شامل تھا۔

    بکر پرائز کا سلسلہ 1968ء میں شروع ہوا تھا اور فکشن کا یہ انعام انگریزی زبان میں اس کتاب پر دیا جاتا ہے جو برطانیہ میں شائع ہوئی ہو۔ انعام یافتہ کتاب کے مصنّف کو 50 ہزار پاؤنڈ کی رقم دی جاتی ہے۔

    At Night All Blood Is Black کا انگریزی ترجمہ
    2021ء میں انگریزی ترجمے پر انٹرنیشنل بکر پرائز At Night All Blood Is Black کو دیا گیا جو فرانسیسی زبان میں پہلی بار 2018ء میں شایع ہوا تھا۔ ڈیوڈ ڈیوپ کے اس ناول نے قارئین اور ناقدین کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ ناول نگار کا تعلق فرانس سے ہے۔ ان کے اس ناول کو Anna Moschovakis نے انگریزی زبان میں ڈھالا ہے جسے برطانیہ اور امریکہ میں اشاعت کے بعد رواں‌ سال انٹرنیشنل بکر پرائز دیا گیا۔

    فکشن کا پلٹزر پرائز
    The Night Watchman وہ ناول ہے جسے اس سال فکشن کے زمرے میں پلٹزر پرائز دیا گیا ہے۔ اس کی مصنّف Louise Erdrich ہیں۔ یہ ناول 1950ء کی دہائی میں متعدد امریکی قبائل کی نقل مکانی کے بعد پیدا ہونے والی ہمہ رنگی کے خاتمے کو روکنے کی کوششوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس ناول میں تخیّل اور فنی مہارت متاثر کُن ہے۔

    ناول نگار امریکا کی باسی ہیں۔ ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں جن میں ناولوں اور شعری مجموعے شامل ہیں جب کہ بچّوں کے لیے بھی انھوں نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ مصنّفہ کا نام اس سے قبل بھی پلٹزر پرائز کے لیے سامنے آچکا ہے۔ انھوں نے اسی سال نیشنل بک ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔

    محبّت اور پیار کے جذبوں کی عکاسی کرنے والی نظمیں
    Natalie Diaz نے اپنی نظموں کو Postcolonial Love Poem کے عنوان یکجا کیا تھا جو امریکی نوآبادیات اور تنازعات میں گھرے دور میں محبّت اور پیار کے جذبوں کی عکاس ہیں۔ اس شعری کاوش پر انھیں اس سال پلٹزر پرائز دیا گیا۔

    شاعرہ کا تعلق امریکا کی ریاست کیلیفورنیا سے ہے۔ ان کی نظمیں دل موہ لینے والی اور نہایت متاثر کُن ہیں۔ Natalie Diaz ایک معلّمہ اور زبانوں کی ماہر بھی ہیں اور باسکٹ بال کی کھلاڑی بھی رہ چکی ہیں۔

    ویمنز پرائز کا تذکرہ
    اس سال فکشن کا ویمنز پرائز انگریزی زبان کی ناول نگار Susanna Mary Clarke کے نام کیا گیا۔ ان کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ انھیں یہ انعام Piranesi کے لیے دیا گیا ہے۔ ان کا یہ ناول پچھلے سال شایع ہوا تھا۔ Jonathan Strange & Mr Norrell ان کا وہ ناول تھا جس کا 2004ء میں خاصا چرچا ہوا تھا۔

    وہ جو دامِ اجل میں آئے
    اس سال دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجانے والے مشاہیر میں اردو کے بلند پایہ نقّاد، ادیب اور ڈرامہ نگار شمیم حنفی بھی شامل ہیں۔ انھوں نے 6 مئی کو دہلی میں وفات پائی۔

    شمیم حنفی کی تحریر، تقریر اور گفتگو کو ان کی تہذیبی اور ثقافتی بصیرت کی مثال سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی تدریسی مصروفیات کے ساتھ اردو ادب کی خوب خدمت کی اور کئی تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    وہ 17 مئی 1938ء کو بھارت کے شہر سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھیں بھارت میں جامعات اور اکیڈمیوں میں لیکچر دینے کے علاوہ بیرونِ ملک علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا جاتا تھا۔ شمیم حنفی پاکستان بھی تشریف لائے اور یہاں علمی و ادبی محافل میں شرکت کی۔

    تنقیدی کتب ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس،‘ ’جدیدیت اور نئی شاعری،‘ ’کہانی کے پانچ رنگ،‘ ’میرا جی اور ان کا نگار خانہ،‘ ’میر اور غالب،‘ ’اردو کلچر اور تقسیم کی روایت،‘ اور ’خیال کی مسافت‘ کے نام سے کتابوں کے علاوہ ان کا ایک شعری مجموعہ ’آخری پہر کی دستک‘ کے نام سے شایع ہوا۔ شمیم حنفی کے ڈرامے ’مجھے گھر یاد آتا ہے،‘ ’آپ اپنا تماشائی،‘ ’مٹی کا بلاوا‘ اور ’بازار میں نیند‘ کے نام سے کتابی شکل میں سامنے آئے۔ انھوں نے تہذیب و ثقافت، سماجی موضوعات اور حالاتِ حاضرہ پر بھی کئی مضامین سپردِ قلم کیے۔ نام وَر شخصیات کے تذکرے اور سوانح کے علاوہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کے علاوہ شمیم حنفی نے کئی اہم کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا۔

    جولائی کی پانچ تاریخ کو معروف افسانہ نگار، مترجم اور کالم نویس مسعود اشعر انتقال کرگئے۔ 70 کی دہائی میں انھوں نے اپنے افسانوں کی بدولت اپنی پہچان بنائی اور ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ اور ’’اپنا گھر‘‘ وہ کتابیں تھیں جن کے اسلوب اور موضوعات نے قارئین اور ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

    مسعود اشعر 1931ء کو رام پور اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ملتان اور بعد میں لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ان کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    اردو ادب اور فکشن کی دنیا کا جدید ذہن بھی اس سال ‘ساکت’ ہو گیا۔ مشرف عالم ذوقی نے یکم اپریل کو دلّی شہر میں وفات پائی۔ ان کا تعلق بہار سے تھا جہاں وہ 1962ء میں پیدا ہوئے۔

    مشرف عالم ذوقی کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے متنوع موضوعات پر مسلسل اور خوب جم کر لکھا۔ تین دہائیوں پر محیط اپنے تخلیقی سفر میں ذوقی نے اردو فکشن کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔

    فکشن پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شایع ہوئیں۔ ان کی نظر ڈیجیٹل ورلڈ کے مشہورِ زمانہ کردار پوکے مان پر بھی پڑی جس پر انھوں نے ’پو کے مان کی دنیا‘ جیسا ناول لکھا۔ ’مرگِ انبوہ‘ بھی ان کا ایک مشہور ناول ہے۔ اس کے علاوہ ’نالۂ شب گیر‘، ’نیلام گھر‘، ’شہر چپ ہے‘، ’عقاب کی آنکھیں‘، ’آتشِ رفتہ کا سراغ‘، ’لے سانس بھی آہستہ‘ نے انھیں پاک و ہند میں نام و پہچان دی۔ تنقید پر مبنی ان کی تحریریں، خاکے اور مختلف ادبی مضامین بھی کتابی صورت میں شایع ہوچکے ہیں۔ ذوقی کے ناول ’مردہ خانے کی عورت‘ کو ادبی حلقوں نے بہت سراہا۔

    وہ برصغیر کی اقلیتوں کے مسائل اور سماجی حالات یا انسانی المیوں کی جذباتی منظر کشی اور بھرپور ترجمانی کرنے والے ایسے تخلیق کار تھے جس نے زندگی کو ہر رنگ میں دیکھنے اور انسان کے ہر روپ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ ادیب ولبر اسمتھ بھی 13 نومبر 2021ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی عمر 88 برس تھی۔ جنوبی افریقہ کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اس مصنّف کے ناولوں کا دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

    ولبر اسمتھ نے افریقی ملک زیمبیا میں آنکھ کھولی۔ 1946ء میں ان کا پہلا ناول
    When the Lion Feeds منظرِ عام پر آیا اور بعد میں ان کے 48 ناول شایع ہوئے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ناول Shout at the Devil اور Gold Mine بہت مشہور ہیں جن پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔

    اگر یہاں ادبِ عالیہ سے ہٹ کر ہمیں کسی ایسی ہستی کا تذکرہ کرنا ہو جس نے اسکرین پر ڈرامے کے ذریعے اپنا زورِ قلم دکھایا اور تخلیقی شعور کا ثبوت دیا تو ان میں حسینہ معین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے رسالے بھائی جان سے اپنے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ حسینہ معین نے ریڈیو پاکستان کے لیے خاکے لکھے اور ملک میں ٹی وی نشریات کا آغاز ہوا تو ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت حاصل کی۔ وہ 26 مارچ کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ اسی سال 15 مئی کو معروف فن کار اور مزاح نگار فاروق قیصر بھی انتقال کرگئے جنھیں پاکستان بھر میں انکل سرگم (کٹھ پتلی) کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ ان کی عمر 75 برس تھی۔

    جرمنی کا مشہورِ زمانہ کتب میلہ
    پچھلے سال کی طرح فرینکفرٹ کے مشہور کتاب میلے کی گہماگہمی اور رونق پر کرونا کی وبا کا خوف حاوی رہا۔ تاہم 20 اکتوبر سے 24 اکتوبر تک جاری رہنے والے اس میلے میں بک اسٹال سجائے گئے تھے اور نام ور تخلیق کاروں اور ناشروں نے بھی آن لائن سیشن میں اظہارِ خیال کیا۔ اس میلے کے آخری روز جرمنی کی کتابی صنعت کا امن انعام زمبابوے کی معروف ادیبہ سِتسی دانگاریمبوآ (Tsitsi Dangarembga) کو دیا گیا۔

    62 سالہ اس ناول نگار، ڈرامہ نویس اور فلم میکر کو 25 ہزار یورو کی نقد رقم دی گئی۔ جیوری کے مطابق سِتسی دانگاریمبوآ اپنے ملک کے اہم ادیبوں اور فن کاروں میں شامل ہیں۔ ان کی تخلیقات نہ صرف اہم سماجی اور اخلاقی تنازعات کی نشان دہی کرتی ہیں، بلکہ دنیا کے تمام معاشروں کو انصاف اور سماجی بہتری کی جانب متوجہ کرتی ہیں۔

    14 ویں عالمی اردو کانفرنس
    پاکستان میں علم و ادب، تہذیب و ثقافت سے وابستہ شخصیات اور اردو زبان کے شیدائی کراچی میں 14 ویں عالمی اردو کانفرنس میں اکٹھے ہوئے۔ آرٹس کونسل میں 9 دسمبر کو شروع ہونے والی چار روزہ اس کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعلٰی سندھ سید مرادعلی شاہ بھی شریک ہوئے۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ادب کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ادیبوں اور دانش وروں کی بات اثر رکھتی ہے، ملک کے موجودہ حالات میں قلم کا ساتھ دینا ہوگا۔

    آرٹس کونسل آف پاکستان کے صدر احمد شاہ نے استقبالیہ خطبے میں کہا کہ جب کسی قوم کی ثقافت ختم ہوجائے تو وہ معاشرہ مردہ ہوجاتا ہے، ہم اپنی تہذیب کے بے غرض سفیر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مہینے بھر سے اس کانفرنس کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ادب و ثقافت اور تہذیب سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ عید سے کم نہیں ہے، تہذیب و ثقافت کے دشمنوں سے ادب کے ذریعے لڑنا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ رواں سال عالمی اردو کانفرنس میں کرونا کی وبا کے باعث سرحد پر سفری پابندیوں کے باوجود دنیا اور اندرونِ ملک سے 250 سے زائد دانش ور، اسکالرز، ادیب اور شاعر شرکت کریں گے جب کہ بھارت کے تمام بڑے شاعر اور ادیب آن لائن سیشنوں میں شریک ہوں گے۔

    اہلِ علم و دانش نے اس کانفرنس کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کی آواز اور چاشنی ان سب تک پہنچتی ہے جو دل اور احساس رکھتے ہیں۔

    نام ور تخلیق کاروں نے چار روزہ کانفرنس میں ادبی نشستوں اور اجلاسوں کی صدارت کی۔ عالمی اردو کانفرنس میں بہ نفسِ نفیس اور آن لائن شرکت کرنے والوں میں انور مقصود، اسد محمد خان، محمود شام، زہرا نگاہ، مستنصر حسین تارڑ، گوپی چند نارنگ، گلزار، اخلاق احمد، محمد حمید شاہد، امجد طفیل، نور الہدیٰ شاہ، کشور ناہید، زاہدہ حنا، افتخار عارف، اخلاق احمد، محمد حمید شاہد، امجد طفیل، خالد جاوید و دیگر شامل تھے۔

    کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں بھارت سے آن لائن خطاب کے دوران گوپی چند نارنگ نے کہا کہ مجھے اردو کا جادو جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں کا فیضان بعد میں نصیب ہوا مگر اردو میرے ڈی این اے میں شامل ہے۔ اردو زبان میرے لیے رازوں بھرا بستہ ہے اور یہ زبان میرے وجود کا حصہ بنتی چلی گئی ہے۔ اردو جیسی زبان اور شیرینی جس میں عربی اور فارسی کی لطافت اور شائستگی کے ساتھ ساتھ ہماری مٹی کی خوشبو بھی موجود ہے، ہماری دھرتی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

    کانفرنس کے پہلے دن ایک شام فیض صاحب کے نام کی گئی تھی۔ دوسرے روز حسبِ پروگرام مختلف نشستیں ہوئیں جب کہ بھارت کے شاعر اور کہانی کار جاوید صدیقی کی کتاب ’’مٹھی بھر کہانیاں‘‘ کی تقریبِ اجرا بھی منعقد ہوئی، جسے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے شائع کیا ہے۔ جاوید صدیقی کے علاوہ اس تقریب میں مشہور شاعر گلزار نے بھی آن لائن شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    عالمی اردو کانفرنس میں تیسرے روز مختلف پروگراموں کے ساتھ ’’تعلیم کے پچھتّر سال‘‘ پر سیشن اور اردو افسانے پر نشست جمی۔ ’’اردو نظم کی صورت و معنی‘‘ کے موضوع پر سیشن ہوا اور افتخار عارف کے تازہ شاعری مجموعے ’باغِ گلِ سرخ‘ کی رونمائی بھی ہوئی۔

    کانفرنس کے آخری روز ’’عورت اور پاکستانی سماج‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں عارفہ سیدہ زہرا، نورالہدیٰ شاہ، انیس ہارون اور وسعت اﷲ خان نے گفتگو کی۔ اُردو ناول کی عصری صورتِ حال، بچوں کا ادب اور نئی دنیا، اردو افسانے کا منظر نامہ، اردو افسانہ آزادی کے بعد اور اس کے امکانات، پون صدی کے اردو افسانے میں ہیئت و اسلوب کے تجربات وہ عنوانات تھے جن پر مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    ادیبوں اور شعرا کے علاوہ محققین اور ماہرینِ تعلیم نے بھی اس کانفرنس میں حسبِ‌ پروگرام اپنے مقالے پیش کیے۔ ادب، صحافت، تاریخ و ثقافت، زبان اور معاصر منظر نامے اور رفتگاں کی یاد تازہ کرتے ہوئے عالمی اردو کانفرنس 12 دسمبر کو تمام ہوئی۔

    کتابوں‌ کی دنیا
    عالمی ادب میں موجودہ اور رائج صولوں کے مطابق، دنیا کا پہلا ناول ”گینجی مونوگتاری“ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ ”مورا ساکی شیکیبو“ کا جاپانی زبان میں تخلیق کیا گیا ناول ہے۔ جاپانی زبان میں”مونوگتاری“ کا مطلب ”کہانی“ ہے جب کہ”گینجی“ ناول کا مرکزی کردار ہے، جس کے معنیٰ ”روشنی“ ہیں۔ یہ ناول ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے اور دنیا کی 32 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ 2021 میں یہ ناول اردو زبان میں شایع ہوا ہے۔

    اسے باقر نقوی نے اردو زبان میں ڈھالا اور ڈیڑھ برس کے عرصے میں روزانہ کئی گھنٹوں کی ریاضت کے بعد اس کے ترجمے کا اوّلین بنیادی خاکہ مکمل کیا۔ ان کی اچانک رحلت کے بعد خرم سہیل نے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس ناول کے لیے زبان و بیان، رموزِ اوقاف، قواعد کے معاملات سمیت مختلف تحقیقی پہلوﺅں سے بہت کام کیا گیا۔

    اس ناول کے اردو ترجمے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ صرف اردو ترجمے کے لیے 821 حواشی بھی تحریر کیے گئے، جو کسی اور زبان میں اتنی تعداد میں نہیں لکھے گئے۔ خرم سہیل یہ کام لگ بھگ ڈھائی برس کے عرصے میں مکمل کر پائے۔

    اردو زبان میں یہ ناول پہلی مرتبہ مکمل طور پر شائع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ (مسودہ) جاپان میں اردو زبان کے دو ممتاز اساتذہ پروفیسر سویامانے اور پروفیسر کین ساکو مامیا اور کراچی میں موجود جاپان کے قونصل جنرل جناب توشی کازو ایسومورا، جو اردو زبان پر عبور رکھتے ہیں، کی نظر سے بھی گزرا۔

    یہ ناول بڑے سائز میں ساڑھے گیارہ سو صفحات پر مشتمل ہے جس کی اسلام آباد میں جاپانی سفارت خانے اور کراچی میں جاپانی قونصل خانے میں تقریبِ رونمائی بھی منعقد کی گئی۔

    ممتاز ادیب اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے بہاؤ کو اردو کا شاہ کار ناول کہا جاتا ہے۔ اس سال اکادمی ادبیات نے بہاؤ کو نمائندہ ناول کے طور پر منتخب کرکے اس کا انگریزی ترجمہ شایع کیا۔

    ستّار طاہر 1993 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ اس سال ‘دنیا کی سو عظیم کتابیں’ کی دوبارہ اشاعت نے ان کی یاد بھی تازہ کردی۔ 250 سے زائد کتابیں مرتب کرنے اور تراجم کے علاوہ اُنھیں اپنا قائداعظم ایک، اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت متعدد کتابوں نے پہچان دی۔

    ممتاز ادیب، محقّق، مدیر اور ماہر مترجم ستّار طاہر کی کتاب دنیا کی سو عظیم کتابیں پہلی بار 1986 میں شایع ہوئی تھی۔ ستّار طاہر نے چند باتیں کے عنوان سے کتاب کے اوّلین ایڈیشن میں لکھا تھا، یہ سو کتابیں وہ ہیں جنھوں نے انسانی فکر کو بدلا ہے۔ اختلافات اور دائمی مباحثے کا سرچشمہ ٹھہری ہیں، لیکن ان کی ہمہ گیری اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

    سو عظیم کتابوں کی فہرست میں القرآن، صحیح بخاری، عہد نامہ عتیق، عہد نامہ جدید، گیتا، اقوال کنفیوشس اور دیگر شامل ہیں۔

    ممتاز ڈرامہ نگار اور شاعر اصغر ندیم سیّد کا ناول دشتِ امکاں بھی رواں سال منظرِ عام پر آیا اور عالمی اردو کانفرنس میں اپنے اجرا پر یہ ناول ادیبوں اور نقاّدوں کے درمیان گفتگو کا موضوع رہا۔

    خودنوشت سوانح حیات ادب کی وہ تخلیقی صنف ہے جو کسی فردِ واحد کی زندگی کے اہم ادوار پر محیط ہوتی ہے اور اسی کے قلم کی رہینِ منت ہوتی ہے جس کے آئینے میں اس فرد کی داخلی اور خارجی زندگی کا عکس براہِ راست نظر آتا ہے اور اس کا عہد بھی جلوہ گر ہوتا ہے۔

    کشور ناہید کی خود نوشت سوانح بُری عورت کی کتھا بھی اس برس شایع ہوئی۔ کشور ناہید ترقی پسند شاعرہ اور ادیب ہی نہیں سماجی کارکن اور عورتوں کے مساوی حقوق کی جدوجہد کے لیے بھی مشہور ہیں۔ یہ ان کی تازہ کتاب ہے۔ اس سے پہلے ان کے تراجم، یادداشتوں اور مضامین پر مشتمل کتابیں بھی شایع ہوچکی ہیں۔

    روس‌ کے شہرۂ آفاق ادیب لیو ٹالسٹائی کے ناول وار اینڈ پیس کا اردو ترجمہ بھی 2021ء میں شایع ہوا جس کے مترجم پروفیسر شاہد حمید ہیں۔ یہ ترجمہ ریڈنگز کے اشاعتی ادارے القا پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔

    شمیم حنفی نے اس بارے میں لکھا تھا، دنیا کے اس سب سے بڑے ناول کا یہ ترجمہ کسی بھی زبان اور کسی بھی زمانے کے لیے قابلِ فخر سمجھا جائے گا۔ تقریباً دو ہزار صفحوں پر پھیلی ہوئی اس کتاب میں طالسطائی (ٹالسٹائی) کے شاہ کار جنگ اور امن کے ترجمے کے علاوہ ناول کو پس منظر فراہم کرنے والی روسی تاریخ، تفصیلی فرہنگ جس میں عسکریت، مذہب ،موسیقی اور دیگر متعلقہ دائروں میں آنے والے حوالوں کی وضاحتیں پیش کی گئی ہیں، حقیقی اور غیر حقیقی کرداروں سے متعلق ضروری باتیں، نقشے، طالسطائی کی زندگی اور سوانح کا ایک خاکہ، ترجمے کے مسائل اور ترجمے کے فن پر بہت بصیرت آمیز نوٹ۔۔۔۔ یہ سب چیزیں شامل کردی گئی ہیں۔

    اس سطح کا کام کرنے کے لیے جو انہماک، ریاضت اور جاں کاہی درکار ہوتی ہے، اُس کا بوجھ ہر زمانے میں بس اِکّا دُکّا افراد اُٹھا سکتے ہیں، اور ہمارا یہ کم عیار دور تو اس طرح کے کام کا تصور بھی مشکل سے کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے شاہد حمید صاحب کا یہ کارنامہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ شاہد حمید صاحب نے اس کام کا بیڑا ایک ایسے وقت میں اٹھایا جب عام انسان اپنے ماضی پر قانع اور حال کی طرف سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔

    شاہد حمید صاحب نے جنگ اور امن کے تمام انگریزی متون کا موازنہ کرنے کے بعد اور خاصی تحقیق اور چھان بین کے بعد اس مہم کا آغاز کیا تھا۔ جس احساسِ ذمے داری، علمی لگن اور ترجمہ کاری کے فن پر جیسی بے مثل مہارت کے ساتھ انہوں نے اس کام کی تکمیل کی ہے وہ تخلیقی ادب اور ادب کی تحقیق و تدریس سے مناسبت رکھنے والوں کے لیے یکساں طور پر حیران کُن ہے۔

    جہاں تک جنگ اور امن کے ترجمے کا تعلق ہے، شاہد حمید صاحب اس سلسلے میں امکانی حد تک محتاط رہے ہیں۔ اصل متن کی حرمت کا انہوں نے کتنا خیال رکھا ہے اس کا اندازہ کرنے مشکل نہیں۔ مجھے اس ترجمے کی سب سے بڑی خوبی یہ نظر آئی ہے کہ اس پر کہیں بھی طبع زاد ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔

    اُن کے اس عظیم الشان کارنامے کی وقعت اور تاریخی، ادبی، علمی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔

  • مقبول شاعر اور ڈرامہ نویس عدیم ہاشمی کی برسی

    مقبول شاعر اور ڈرامہ نویس عدیم ہاشمی کی برسی

    جدید اردو شاعری میں عدیم ہاشمی کو مقبول شعرا میں‌ شمار کیا جاتا ہے جن کے سادہ و دل کش انداز کو پڑھنے والوں نے بہت سراہا۔ آج عدیم ہاشمی کا یومِ وفات ہے۔ وہ2001ء میں وفات پاگئے تھے۔

    عدیم ہاشمی نے شاعر کے علاوہ ڈرامہ نویس کے طور پر بھی شہرت حاصل کی جب کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں کو بے انتہا مقبولیت ملی۔ پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ان کا تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ’’آغوش‘‘ آج بھی ناظرین کے ذہنوں میں‌ محفوظ ہے جس کے اداکاروں‌ کو بھی بہت شہرت اور پذیرائی ملی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان بھر میں‌ ٹیلی وژن کے ناظرین میں مقبول ہونے والے ڈرامہ سیریز گیسٹ ہاؤس کی بھی چند کہانیاں ان کی تحریر کردہ تھیں۔

    عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدّین تھا۔ وہ یکم اگست 1946ء کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئے اور فیصل آباد میں زندگی کا ابتدائی عرصہ گزارا۔ بعد میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہوگیا۔ اس دوران ان کا شعری سفر شروع ہوگیا اور لاہور آنے کے بعد ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا۔ عدیم ہاشمی نے متعدد گیت بھی لکھے جو ریڈیو اور ٹی وی پر پیش کیے گئے۔

    ان کی کتابیں ’’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘، ’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘ کے نام سے شایع ہوئیں‌۔

    عدیم ہاشمی امریکا کے شہر شکاگو میں مقیم تھے اور وفات کے بعد وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔ ان کی یہ مشہور غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

    وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
    میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

    میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
    ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

    آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
    تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

    یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
    آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

    سیکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
    ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا

    یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

  • چاندنی چوک کا بدنصیب فقیر

    چاندنی چوک کا بدنصیب فقیر

    اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
    مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

    ایک دن میں دلّی کے چاندنی چوک میں سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک فقیر پر پڑی جو بڑے مؤثر طریقے سے اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتا جا رہا تھا۔ دو تین منٹ کے وقفے کے بعد یہ درد سے بھری اسپیچ انہیں الفاظ اور اسی پیرائے میں دہرا دی جاتی تھی۔

    یہ طرز کچھ مجھے ایسا خاص معلوم ہوا کہ اس شخص کو دیکھنے اور اس کے الفاظ سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس فقیر کا قد لمبا اور جسم خوب موٹا تازہ تھا اور چہرہ ایک حد تک خوب صورت تھا۔ مگر بدمعاشی اور بے حیائی نے صورت مسخ کر دی تھی۔ یہ تو اس کی شکل تھی، رہی اس کی صدا، تو میں ایسا قسی القلب نہیں ہوں کہ صرف اس کا مختصر سا خلاصہ لکھ دوں۔ وہ اس قابل ہے کہ لفظ بہ لفظ لکھی جائے۔ چنانچہ وہ اسپیچ یا صدا جو کچھ کہیے، یہ تھی:

    "اے بھائی مسلمانو! خدا کے لیے مجھ بدنصیب کا حال سنو۔ میں آفت کا مارا سات بچوں کا باپ ہوں۔ اب روٹیوں کا محتاج ہوں اور اپنی مصیبت ایک ایک سے کہتا ہوں۔ میں بھیک نہیں مانگتا ہوں، میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے وطن چلا جاؤں۔ مگر کوئی خدا کا پیارا مجھے گھر بھی نہیں پہنچاتا۔

    بھائی مسلمانو! میں غریب الوطن ہوں ۔ میرا کوئی دوست نہیں، اے خدا کے بندو! میری سنو، میں غریب الوطن ہوں۔”

    فقیر تو یہ کہتا ہوا اور جن پر ان کے قصے کا اثر ہوا ان سے خیرات لیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ لیکن میرے دل میں چند خیالات پیدا ہوئے اور میں نے اپنی حالت کا مقابلہ اس سے کیا اور مجھے خود تعجب ہوا کہ اکثر امور میں میں نے اس کو اپنے سے اچھا پایا۔

    یہ صحیح ہے کہ میں کام کرتا ہوں ہوں اور وہ مفت خوری سے دن گزارتا ہے۔ نیز یہ کہ میں نے تعلیم پائی ہے، وہ جاہل ہے۔ میں اچھے لباس میں رہتا ہوں، وہ پھٹے کپڑے پہنتا ہے۔ بس یہاں تک میں اس سے بہتر ہوں۔ آگے بڑھ کر اس کی حالت مجھ سے بدرجہا اچھی ہے۔

    اس کی صحّت پر مجھے رشک کرنا چاہیے، میں رات دن اسی فکر میں گزار تا ہوں اور وہ ایسے اطمینان سے بسر کرتا ہے کہ باوجود بسورنے اور رونے کی صورت بنانے کے اس کے چہرے سے بشاشت نمایاں تھی۔ بڑی دیر تک میں غور کرتا رہا کہ اس کی یہ قابلِ رشک حالت کس وجہ سے ہے اور آخر کار میں بظاہر اس عجیب نتیجے پر پہنچا کہ جسے وہ مصیبت خیال کرتا ہے وہی اس کے حق میں نعمت ہے۔

    وہ حسرت سے کہتا ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں۔ میں حسرت سے کہتا ہوں "میرے اتنے دوست ہیں، اس کا کوئی دوست نہیں۔” اگر یہ سچ ہے تو اسے مبارک باد دینی چاہیے۔

    (مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ، از سجاد حیدر یلدرم)

  • محسنِ پاکستان کا دینی ذوق و شوق اور ملک و قوم کے لیے دردمندی، شخصیت کا ایک منفرد پہلو

    محسنِ پاکستان کا دینی ذوق و شوق اور ملک و قوم کے لیے دردمندی، شخصیت کا ایک منفرد پہلو

    محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حیات و خدمات، بالخصوص جوہری سائنس دان کی حیثیت سے ان کا وہ کارنامہ جس نے ہماری سرحدوں کا دفاع مضبوط اور اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیا، اس سے قوم کا بچّہ بچّہ واقف ہے۔

    جوہری قوّت کے حامل ممالک کی فہرست میں شامل پاکستان آج خطّے میں امن کے فروغ کے لیے اپنی مثالی کوششوں کے لیے پہچانا جاتا ہے اور ہمسایہ ممالک سے قریبی اور برادرانہ تعلقات کا خواہاں آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اسی وطن کی بقا و سالمیت کو یقینی بنانے اور ملک دشمن قوّتوں کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملا دینے والے ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستان میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ وہ ایک محبوب شخصیت کے طور پر ہمیشہ قوم کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

    انھیں پاکستان کی سلامتی کی علامت سمجھا جاتا ہے، جب کہ ان کے رفقا اور دیگر قریبی ساتھی انھیں ایک بہترین منتظم، دور اندیش اور ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں جو حقیقی معنوں میں قوم کا درد رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کو معاشی طور پر نہایت مضبوط، عوام کو خوش حال اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے تھے۔

    ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حالاتِ زندگی اور خدمات کی تفصیل ذرایع بلاغ کی بدولت آج آپ تک پہنچتی رہی ہیں، لیکن اے آر وائی کی اس خصوصی رپورٹ میں آپ قوم کے اس عظیم سپوت کی زندگی کے اُس پہلو سے آشنا ہوں گے، جس کو سمجھ کر اور اس پر عمل کرکے شاید ہم ان کے احسانات کا بدلہ اتار سکتے ہیں۔

    محسنِ پاکستان غور و فکر کے عادی، مطالعہ کے شوقین تھے جنھوں نے دین و مذہب کی تعلیمات کے ساتھ اسلامی تاریخ اور اکابرین و اسلاف کے کارناموں اور ان کی ہدایات اور اقوال کو نہ صرف اپنی راہ نمائی کا ذریعہ سمجھا بلکہ اسے قوم کے لیے بھی مشعلِ راہ قرار دیا۔

    وہ اپنی گفتگو اور تحریروں میں قرآن و سنّت کے احکامات، بزرگوں کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے اخلاقی حالت بہتر بنانے، عملی زندگی میں دیانت اور راست گوئی کو اپنانے کا درس دیتے رہے۔ یہاں ہم اُن کے چند کالموں سے اقتباسات نقل کررہے ہیں جن سے قارئین دینی اور اخلاقی تعلیمات سے ان کے لگاؤ، اسلامی تاریخ سے گہرے شغف اور قوم کے لیے ان کی درد مندی اور تڑپ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

    عبدالقدیر خان اردو اور فارسی ادب کے بھی شائق تھے جس کا اظہار ان کی اس تحریر سے ہوتا ہے۔

    وہ لکھتے ہیں: بچپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فرش پر بیٹھ کر، لیٹ کر، الف لیلیٰ، طلسم ہوشربا، فسانہ آزاد اور صحرا نورد کے خطوط پڑھتے تو بہت مزہ آتا تھا۔ پہلی تینوں کتب بہت پرانی اور بہت ضخیم تھیں۔ آخری ذرا کتاب نما تھی۔ الف لیلیٰ میں ایک ہزار ایک کہانیاں ہندوستان، ایران اور عرب کے بارے میں ہیں، ان میں مشہور قصّے الہ دین اور جادو کا چراغ، علی بابا چالیس چور اور سند باد جہازی کے ہیں۔ اس میں چین کے قصّے کہانیاں بھی شامل ہیں۔

    پہلی کتاب کا حوالہ نویں صدی عیسوی کا ہے۔ طلسم ہوشربا 100 برس سے زیادہ پرانی ہے اور اس کو محمد حسین نے چار حصوں میں لکھا ہے جو نہایت لاجواب کتاب ہے۔ فسانہ آزاد پنڈت رتن سرشار نے لکھی ہے۔ صحرا نورد کے خطوط، نہایت دل چسپ، ہمارے اپنے مصنف مرزا ادیب کی گل فشانی ہے مگر ان سب کتابوں کے باوجود مجھے شیخ سعدیؒ کی گلستان اور بوستان بے حد پسند تھیں اور ہیں۔

    عبدالقدیر خان مزید لکھتے ہیں:‌ اسکول میں فارسی بھی پڑھتا تھا، اس لیے اس سے بہت انسیت ہوگئی کہ ہر حکایت دل چسپ اور سبق آموز ہے۔

    ڈاکٹر عبدالقدیر خان اکثر کالموں میں اخلاقی اور سبق آموز واقعات، حکایات بیان کرتے ہیں اور اس بابت بتاتے ہیں: شیخ مصلح الدین سعدی شیرازیؒ کے بارے میں اکثر آپ کی خدمت میں معروضات پیش کرتا رہا ہوں۔ دیکھیے میں اس لیے ان کی حکایات اور نصیحتیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ یہ بے حد مفید اور سبق آموز ہوتی ہیں اور نہ صرف حکم رانوں بلکہ عوام کے لیے بھی ان میں نہایت مفید ہدایتیں موجود ہوتی ہیں۔ سیاست پر تو ہرایک ہی لکھ لیتا ہے میں یہ حکایتیں اور نصیحتیں عوام اور حکم رانوں کی اخلاقی اصلاح کے لیے پیش کرتا ہوں کہ ممکن ہے کہ ﷲ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور ان کی دین و دنیا سنور جائیں۔

    کسی حکومت میں عمّال اور مشیران کو کیسا ہونا چاہیے، اس بارے میں انھوں نے اپنی ایک تحریر میں لکھا: جو ہدایات میں لکھ رہا ہوں یہ نظام الملک طوسی کی کتاب سیاست نامہ سے ہے جس کا ترجمہ جناب شاہ حسن عطا نے کیا ہے۔ حکومت کا ہر عامل اور کارکن ایسا ہونا چاہیے کہ وہ حکم ران کا رعب اور دبدبہ تسلیم کرے اور اس سے ڈرتا رہے، البتہ مشیر بے تکلّف ہو سکتا ہے۔ اس بے تکلفی اور گستاخی میں حکم ران کو لذّت اور حلاوت ملتی ہے۔ اور اس کی طبعِ شاہانہ میں انبساط اور موزونیت پیدا ہوتی ہے۔ مشیروں کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہوتا ہے۔ ان کا وقت وہ ہوتا ہے جب حکم راں بارِ عام دے چکا ہو اور عمائدینِ سلطنت سب ہی جا چکے ہوں۔

    قارئین، ان منتخب پاروں کے بعد محسنِ پاکستان کے چند کالموں کے عنوانات پڑھ کر آپ اُن کی دینی فکر، فرد کے اخلاق و کردار کی اصلاح و بہتری کے لیے اُن کی تڑپ اور اس کے ذریعے معاشرے میں سدھار کی خواہش سے آگاہ ہوسکیں گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    رسول ﷺ کی عاداتِ مبارکہ اور سائنسی ثبوت
    ریاستِ مدینہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ
    کم بولنے اور خاموشی کے فوائد
    عدل، تدبیر اور رائے
    صبر، قناعت، قسمت، ثابت قدمی
    اچھے رفقائے کار کی اہمیت

    اس کے علاوہ انھوں نے کئی سیاسی اور اہم تاریخی واقعات، مختلف موضوعات پر کتابوں کا تعارف اور شخصیات کا تذکرہ بھی اپنی تحریروں میں کیا جن کا مقصد دینی و ملّی پیغام عام کرنا، معاشرتی شعور اور آگاہی دیتے ہوئے قوم میں تعمیر و ترقی کا شوق بیدار کرنا تھا۔