Author: عارف حسین

  • ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    1902ء میں ایملی زولا کی حادثاتی موت نے جہانِ ادب کو ایک زرخیز ذہن اور باکمال تخلیق کار سے محروم کردیا۔ وہ 29 ستمبر کی ایک رات کو گہری نیند میں خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ گیا۔

    اس حادثاتی موت کا سبب بظاہر ایک مستری کی غفلت تھی۔ واقعے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    جب یورپ کا اقتدار اور کلچر اپنے عروج پر تھا تو فرانس کی تیسری جمہوریہ میں ایملی زولا ایک بڑے ناول نگار کی حیثیت سے ابھرا اور اپنے اسلوبِ بیان سے نام پیدا کیا۔ ایملی زولا نے اپنے عہد کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا، مشاہدے اور تجربے سے مواد اکٹھا کیا۔ واقعات اور کرداروں کو خوب صورتی سے جمع کیا اور لکھنا شروع کر دیا۔

    ایملی زولا فرانس کا ممتاز ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840ء ہے۔

    اس نے متعدد محکموں میں معمولی نوکری کی، کلرک کے طور پر کام کیا اور پھر ایک اخبار سے منسلک ہوگیا جہاں سے اس کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ ہوا۔ اس ادیب کی کہانیاں موپساں جیسے نام ور ادیبوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ وہ عظیم ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ادیب تھا۔

    ایملی زولا کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری مشہور تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ فرانس کے صدر کے نام 1898ء میں لکھا گیا ایک خط اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ ثابت ہوا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کو فرانس کی بڑی بدنامی تصوّر کیا گیا۔ حکومت نے اس پر مقدمہ کر دیا اور عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا کسی طرح فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ بعد میں یہ کیس ختم ہوا اور زولا واپس پیرس آ گیا۔

    وطن لوٹنے کے بعد وہ دوبارہ تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے "کیے” کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، تاہم عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، اس کے باوجود ریاست نے اسے برداشت نہ کیا اور قیاس ہے کہ ایملی زولا کو “قتل” کروا دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو بظاہر اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا جس کے باعث کمرے کو گرم رکھنے کے لیے دہکائے گئے کوئلوں کے دھویں اور گیس کا اخراج نہیں ہوسکا۔ نیند میں دَم گھٹنے کے باعث زولا کی موت واقع ہوگئی۔

    اس وقت اسے محض حادثہ تصوّر کیا گیا، لیکن اس افسوس ناک واقعے کے دس برس بعد اسی مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اس نے زولا کے گھر کی چمنی کا منہ بند کیا تھا۔

    فرانسیسی زبان میں زولا کے کئی ناول اور کہانیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کا بعد میں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

  • ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان 1950ء کے عشرے میں اس تنازع کا سبب بنے تھے جس نے فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچا دیا تھا، لیکن تقریباً نصف صدی بعد انھیں اس کا ردعمل دیکھنا پڑا۔

    یہ 1999ء کی بات ہے جب آسکر ایوارڈ (لائف ٹائم اچیومنٹ) کے لیے ان کا نام پکارا گیا تو حاضرین ان کے استقبال اور پزیرائی کے معاملے پر تذبذب کا شکار اور منقسم نظر آئے۔ منتظمین پر کڑی تنقید کی گئی اور کازان کو خفّت اٹھانا پڑی۔

    اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایلیا کازان نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

    کازان کا بیان اُس دور کے فن کاروں کے لیے ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ثابت ہوا اور ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، لیکن کوئی بھی فلم انڈسٹری میں ایلیا کازان کی کام یابیوں کا راستہ نہ روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچانے گئے اور آج بھی ان کی یہ شناخت قائم ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں ایلیا کازان قابلِ تقلید ہدایت کار بنے اور ان کی فلمیں دیکھ کر نو آموز فن کاروں کو سیکھنے کا موقع ملا۔

    کازان ’آن دی واٹر فرنٹ‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار تھے۔ وہ 2003ء میں آج ہی کے دن ابدی نیند سو گئے تھے۔

    ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

    کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خریدوفروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

    امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

    ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان کا خیال تھاکہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بعد میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

    موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم اے ٹری گروز ان بروکلین کے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

    1949 ء میں ان کی ایک فلم پنکی منظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔

    پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد بھی رکھی اور اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دیتے رہے۔

    1951ء میں ان کی فلم A Streetcar Named Desire سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ اس کے بعد بھی ان کی کام یاب فلموں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ ایوارڈ بھی اپنے نام کرتے رہے۔

    اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ جیتے جب کہ مختلف فلمی اعزازات حاصل کیے۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

    کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ ان کی ایک فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب بھی تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔

    اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ اس شعبے میں ان کا پہلا آسکر تھا۔

    اب بات کریں کازان کے کمیونسٹوں سے متعلق بیان کی تو اس زمانے میں امریکا میں کمیونسٹوں پر کچھ ایسا شک کیا جارہا تھا جس طرح آج کل دنیا بھر میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے چند نام رکھے تھے جس سے اُس دور میں فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔

    کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی کی روداد ہیں۔

  • تیز رفتار کھلاڑی ‘فلوجو’ آج ہی کے دن زندگی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے باہر ہوگئی تھی

    تیز رفتار کھلاڑی ‘فلوجو’ آج ہی کے دن زندگی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے باہر ہوگئی تھی

    فلورنس گرفتھ جوئنر کھیلوں کی دنیا میں ‘فلوجو’ کی عرفیت سے مشہور ہوئی۔ وہ ایک ایسی ایتھلیٹ تھی جس نے تیز رفتار اور یکے بعد دیگرے فتوحات کا ریکارڈ قائم کیا۔ وہ زندگی کی محض 38 بہاریں دیکھ سکی اور 21 ستمبر 1998ء کو زندگی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے باہر ہو گئی۔

    فلوجو نے لمبی دوڑ کے بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں حصّہ لیا اور کام یابی سمیٹی۔ اسے تیز رفتار کھلاڑی تسلیم کیا گیا اور مسلسل فتوحات نے اسے ایک شہرت یافتہ کھلاڑی بنا دیا۔

    فلورنس گرفتھ جوئنر کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 1959ء میں پیدا ہوئی۔ لاس اینجلس کی رہائشی فلوجو نے نوعمری میں دوڑ کے مقابلوں میں دل چسپی لینا شروع کردی تھی۔ اس نے اسکول کی سطح پر متعدد مقابلوں میں حصّہ لیا تھا۔ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران جب وہ چودہ برس کی تھی تو اسے نیشنل یوتھ گیمز میں حصّہ لینے کا موقع ملا اور یہاں اس نے پہلی بڑی کام یابی اپنے نام کی۔

    1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں اس نے ایک مقابلہ جیت کر سلور میڈل حاصل کیا اور پھر کچھ عرصہ کھیل کی دنیا سے دور رہی۔ 1987ء میں فلوجو نے مشہور ایتھلیٹ ایل جوئنر سے شادی کر لی۔ اسی سال روم میں ورلڈ چیمپئن شپ منعقد ہوئی جس میں شائقین نے فلوجو کو دوبارہ میدان میں دیکھا۔ اس نے ورلڈ جیمپئن شپ کے مقابلوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

    1988ء کے سیول اولمپکس کا میدان سجا تو فلوجو نے اس میں حصّہ لیا اور تین گولڈ میڈل اپنے نام کرنے کے ساتھ ایک کانسی کا ایک تمغہ بھی لے اڑی۔ 1989ء میں اس نے دوڑ کے میدان سے ریٹارمنٹ کا اعلان کردیا۔

    اس لڑکی کی کہانی بہت دل چسپ ہے۔ وہ سیماب صفت اور پُراعتماد تھی جس نے کھیل کی دنیا میں نام و مقام بنانے کے بعد اچانک ہی اپنا راستہ بدل لیا۔ اس پر ماڈلنگ کا جنون سوار ہوگیا۔ اس کے بعد وہ بزنس کی دوڑ میں دکھائی دی اور خود کو کاروباری شخصیت کے طور پر منوانے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ یہیں‌ نہیں‌ رکا بلکہ اچانک ہی شائقین کو معلوم ہوا کہ اب فلوجو تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئی ہیں۔

    مشہور ہے کہ فلوجو ایک زرخیز ذہن کی مالک تھی اور وہ ہر شعبے میں نہایت متحرک اور فعال کردار ادا کرتی رہی۔ اسے ہر روپ میں اور ہر شعبے میں کام یابی ملی اور لوگوں نے بے حد عزّت اور احترام سے اسے یاد کیا۔

    فلورنس گرفتھ جوئنر نے ایک کام یاب زندگی گزاری اور امریکا میں اسے حکومتی سطح پر اعزازات سے نوازا گیا۔ اسے امریکی خواتین کے لیے عزم و ہمّت اور کام یابی کی ایک مثال کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

  • ممتاز ادیب، نام وَر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی انتقال کرگئے

    ممتاز ادیب، نام وَر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی انتقال کرگئے

    ممتاز ادیب، کالم نویس اور طنز و مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی آج اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

    وہ طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جب کہ علمی و ادبی موضوعات میں انھیں ایک محقق، مترجم، اور زبان و بیان کے ماہر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے شائستہ اور بامقصد ادب تخلیق کرنے کو اہمیت دی۔ ایک بیدار مغز لکھاری کی طرح معاشرے میں بے ضابطہ پن پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی مضامین اور کالم لکھے۔

    ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی وضع دار، بامروّت، شفیق، ملن سار، خوش مزاج مشہور تھے۔ وہ اپنے خورد معاصرین اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ستائش کے ساتھ زبان و بیان اور املا انشا کی درستی میں مدد دیتے اور اصلاح کرتے۔

    ان کے علمی مضامین اور کالم باقاعدگی سے پاکستان کے مؤقر جرائد اور روزناموں میں شایع ہوتے رہے ہیں۔

    انھوں نے ایل ایل بی، ادیب فاضل اور صحافت میں ایم اے کیا اور بعد ازاں صوبائی سوشل سیکیورٹی ادارے سے وابستہ ہوئے، جامعہ کراچی میں صحافت کی تعلیم کے لیے اعزازی تقرری ہوئی۔

    مرحوم نے 1953 میں اپنی ایک تحریر کی اشاعت کے بعد مزاح نگاری کا کا سلسلہ شروع کیا اور خوب نام و مقام بنایا۔ مجید لاہوری جیسے نام ور مزاح نگار کے مقبول ترین رسالے نمکدان سے طنز و مزاح نگاری کا سفر شروع کیا۔ 1962ء میں اس رسالے کی بدولت ان کا نام طنز و مزاح نگار کے طور پر قارئین کے سامنے آیا۔ اسی میدان میں انھوں نے انگریزی زبان میں بھی قلم کو تحریک دی اور 1982 سے مشہور و مستند انگریزی جرائد اور روزناموں کے لیے کالم لکھنے لگے۔ انھوں نے ابنِ منشا کے قلمی نام سے بھی اردو کالم لکھے۔

    1983ء میں ان کی کتاب سماجی تحفظ سامنے آئی جو ایک نہایت اہم موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ اسی موضوع پر انگریزی زبان میں کتاب شایع کروائی جو ایم اے کے طلبا کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کے بعد اشتہاریات کے عنوان سے اردو میں ان کی وہ قابل قدر کاوش سامنے آئی جسے آج بھی مارکیٹنگ کے نصاب میں اوّلین اور نہایت کارآمد تصنیف کہا جاتا ہے۔
    انھوں نے پہاڑ تلے، اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں، کتنے آدمی تھے، حواسِ خستہ جیسی شگفتہ مضامین پر کتب کے علاوہ دیگر موضوعات پر لگ بھگ 26 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔

    ان کی نمازِ جنازہ اور تدفین کل (21 ستمبر 2021) کی جائے گی۔

  • افغان جنگ کو عیّاش سیاست دان "چارلی ولسن کی جنگ” کیوں‌ کہا جاتا ہے؟

    افغان جنگ کو عیّاش سیاست دان "چارلی ولسن کی جنگ” کیوں‌ کہا جاتا ہے؟

    افغانستان میں مداخلت اور فوجی مہم جوئی کے بعد شکست خوردہ سوویت یونین کو دنیا نے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا اور پھر امریکا بہادر نے اسی سَرزمین پر اپنے مالی وسائل جھونکنے اور جانی نقصان اٹھانے کے بعد یہاں سے نکل جانے میں عافیت جانی۔

    آج افغانستان پر طالبان کا پرچم لہرا رہا ہے اور اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہے۔ اس بار طالبان کا طرزِ حکومت ان کے سابق دور سے کس طرح مختلف ہو گا اور کیا ان کے سخت گیر رویّے میں تبدیلی دیکھی جاسکے گی، دنیا یہ جاننا چاہتی ہے۔

    عالمی سیاست اور افغانستان کے موجودہ حالات پر ماہرین کے تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ یہ تحریر دہائیوں پہلے اس سرزمین پر لڑی جانے والی جنگ کے ایک اہم ترین کردار سے متعلق ہے۔ اس کا نام چارلی ولسن تھا۔

    معروف ناول نگار اور مصنّف طارق اسماعیل ساگر نے اپنی ایک کتاب "افغانستان پر کیا گزری” میں چارلی ولسن کی شخصیت اور روس سے لڑنے والے افغان مجاہدین کے حوالے سے اس کے کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ 2010ء میں چارلی ولسن کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کی عمر 76 برس تھی۔

    چارلی ولسن قابض روسی افواج سے لڑنے والے افغان مجاہدین کی مالی امداد کے لیے حمایت کرنے والا امریکی سیاست دان تھا۔

    اس کا تعلق ٹیکساس سے تھا۔ وہ امریکی رکنِ کانگریس کی حیثیت سے روس افغان جنگ کے دوران اہم کردار نبھانے کے لیے مشہور ہے۔

    اس کی زندگی، سیاست اور مجاہدین کی حمایت کے لیے اس کے کردار پر 2007ء میں ہالی وڈ نے ایک فلم بھی بنائی تھی جس کا نام تھا، ’چالی وِلسنز وار۔‘ اس فلم میں مرکزی کردار ٹام ہینکس نے ادا کیا تھا۔

    1933ء میں پیدا ہونے والے چارلی وِلسن نے امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی سے ناتا جوڑا اور کانگریس کی ’ہاؤس آپروپریئشنز کمیٹی‘ کا رکن بنا۔ 80 کی دہائی میں وہ اس کمیٹی کے ذریعے افغان مجاہدین کے لیے امریکی امداد مظور کرانے میں کام یاب رہا۔ یہ ولسن ہی تھا جس نے مجاہدین کی حمایت کو امریکا میں ایک اہم موضوع کے طور پر سب کے سامنے پیش کیا اور اسے سویت یونین کے خلاف امریکی کے لیے کوششوں اہم حصّہ باور کرانے میں کام یاب رہا۔ کہتے ہیں افواہ ساز اور مفروضوں پر کالم لکھنے والوں نے اسے بہت اہمیت دی اور اسے گڈ ٹائم چارلی لکھنے لگے تھے۔

    کہتے ہیں کہ وہ ایک عیّاش شخص تھا۔ وہ عورتوں کا دلدادہ تھا اور اکثر حسیناؤں میں‌ گھرا رہتا تھا۔ اس سیاست دان کے ساتھ جو خوب صورت عورتیں‌ نظر آتی تھیں، انھیں ‘چارلیز اینجلز’ کہا جاتا تھا۔ اس کا طرزِ زندگی اور حرکتیں اسے قابل ثابت نہیں‌ کرتیں، مگر مشہور ہے کہ وہ ایک ذہین اور ایسا شخص تھا جو بہت سے پیچیدہ معاملات کو بھی حل کرنے کی قابلیت رکھتا تھا۔ چارلی وِلسن 23 سال تک کانگریس کا رکن رہا اور 1969ء میں سیاست سے ریٹائر ہوگیا۔

    اسے سوویت دور کی افغان جنگ کا ماسٹر مائنڈ بھی کہا جاتا ہے۔ اس امریکی سیاست دان نے خفیہ ادارے سی آئی اے کے ذریعے افغانستان میں مجاہدین تک بھاری اسلحہ پہنچانے کے علاوہ رقم کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ سی آئی اے نے خود کار اسلحہ، ٹینک شکن مشین گنیں اور نقشے پاکستان سے افغان عسکریت پسندوں تک پہنچائے۔

    افغان عسکریت پسندوں کی امداد کے حوالے سے چارلی ولسن کے اس کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ روس کے خلاف افغانستان کی اس جنگ کو "چارلی ولسن کی جنگ” کہا جاتا رہا ہے۔

    افغانستان سے روسی فوج کے انخلا کے بعد جب تباہ شدہ ملک کی امداد میں کٹوتی کی گئی تو ولسن نے اس پر تنقید کی تھی۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے تسلیم کیا کہ وہ جنگ سے تباہ حال افغان عوام کو اس طرح چھوڑ دینے کے حامی نہیں‌ تھے۔

  • روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    مغل شہنشاہ شاہ جہان اور ملکہ ممتاز محل کی صاحب زادی روشن آرا بیگم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دین دار خاتون تھیں اور اپنے دور میں انھوں نے رفاہِ عامّہ کے کئی کام کروائے جن کا ذکر اب صرف تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے۔

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے بھائی اور ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی لاڈلی تھیں۔ وہ انھیں بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    روشن آرا بیگم 11 ستمبر 1671ء کو وفات پاگئی تھیں۔ 1617ء میں‌ پیدا ہونے والی روشن آرا بیگم کی ماں مغل بادشاہ کی چہیتی بیوی ملکہ ارجمند بانو (ممتاز محل) تھیں۔ روشن آرا کے حقیقی بہن بھائیوں میں دارا شکوہ، اورنگزیب عالم گیر اور جہاں آرا مشہور ہیں۔

    روشن آرا بیگم کی تعلیم و تربیت اسی طرح ہوئی جیسا کہ اس دور کے رواج کے مطابق ایک شاہزادی کے لیے اہتمام کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جملہ علوم و فنون اور تدبیر و سیاست سیکھی، لیکن اس شہزادی کو فنِ کتابت میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کی خداداد صلاحیت اور مشق نے انھیں کتابت میں ایسا باکمال کیا کہ ان کا خط دیکھنے والے داد دیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے تھے۔

    شہزادی روشن آرا کو سب بھائیوں میں اورنگزیب عالم گیر سے زیادہ محبّت تھی۔ وہ اورنگزیب کی خیرخواہ تھیں۔ جب شہزادی کے بھائیوں دارا شکوہ، مراد، شجاع اور اورنگزیب میں تخت نشینی پر تنازع پیدا ہوا تو روشن آرا نے اورنگزیب کا ساتھ دیا۔

    مشہور ہے کہ وہ شہنشاہ کے دربار میں اورنگزیب کے خلاف ہونے والی باتیں بھائی تک پہنچاتی تھیں اور اسے ہر قسم کی سازشوں سے آگاہ کر دیا کرتی تھیں۔

    ہندوستان میں تاج و تخت سے جڑے واقعات، محلّاتی سازشوں کے تذکروں اور اس دور کے شاہی مؤرخین کے قلم سے لکھی گئی تاریخ میں مبالغہ آرائی ہی نہیں، من گھڑت اور بے بنیاد قصّے کہانیاں اور جھوٹ کی آمیزش سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جاہ و جلال اور اختیار کی خواہش اور ہوسِ زر کے لیے خونی رشتوں کو بھی قربان کردیا گیا۔ اسی شہزادی کے باپ اور بھائیوں کو قید کے ساتھ دردناک موت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا جس میں اورنگزیب کا ہاتھ تھا۔

    اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ روشن آرا بیگم نے تخت نشینی کے معاملے میں اورنگزیب کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی خیر خواہی اور بیدار مغزی نے اورنگزیب کو فائدہ پہنچایا اور وہ تخت و تاج حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کام یابی میں اگرچہ اورنگزیب کی تدبیر و سیاست اور عزم و ہمّت کو سب سے زیادہ دخل تھا، لیکن اس کی بہن شہزادی روشن آرا بیگم نے ہر موقع پر اس کی مدد اور راہ نمائی کرتے ہوئے کسی بھی نقصان سے بچائے رکھا۔ یہاں تک کہ وہ ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگزیب عالمگیر اپنی بہن اور شہزادی روشن آرا بیگم کو بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ ایک بڑی جاگیر کی مالک تھیں جب کہ شاہی وظیفہ بھی پاتی تھیں۔ مؤرخین کے مطابق شہزادی کی دولت کا پیش تر حصّہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد میں صرف ہوتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم رفاہِ عامہ کے سلسلے میں اپنا حصّہ ڈالتی رہتی تھیًں۔ انھوں نے کئی کام کروائے جن سے رعایا کو فائدہ پہنچا، لیکن آج ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں‌ رہا۔

  • ثروت حسین: صاحبِ طرز شاعر کی موت خود کشی کا نتیجہ تھی یا محض حادثہ؟

    ثروت حسین: صاحبِ طرز شاعر کی موت خود کشی کا نتیجہ تھی یا محض حادثہ؟

    کہتے ہیں ثروت حسین نے خود کشی کی تھی۔ اور اس خیال کو تقویت دیتا ہے ان کا یہ شعر:

    موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
    لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کُشی کے بارے میں

    9 ستمبر 1996ء کو شہرِ قائد سے گزرنے والی ریل کے انجن میں بیٹھے ڈرائیور کو کیا معلوم تھا کہ ثروت حسین نامی کوئی شخص بالارادہ موت کو گلے لگانے چاہتا ہے یا پھر حادثاتی طور پر ٹرین کے نیچے آکر زندگی سے محروم ہو جائے گا۔ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ انھوں نے خود کُشی کی تھی یا یہ ایک حادثہ تھا۔ لیکن اس روز اردو کے معروف شاعر ثروت حسین کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک مشہور شاعرہ کی محبّت میں‌ گرفتار تھے جس کی بے نیازی نے انھیں مایوسی اور بیزاری کی طرف دھکیل دیا تھا اور اسی لیے انھوں نے زندگی کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

    ثروت حسین کو صاحبِ طرز شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کے والد بدایوں سے ہجرت کرکے کراچی آئے تھے۔ ثروت نے نومبر 1949ء کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کی زندگی اس وقت مضافات شمار کیے جانے والے علاقے ملیر میں گزری۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول ملیر کینٹ سے حاصل کرنے کے بعد علاّمہ اقبال کالج، اولڈ ائیر پورٹ سے ایف ۔ اے کیا۔ اسکول کے زمانے ہی سے شاعری کا شوق ہو گیا تھا، لیکن باقاعدہ شاعری کا آغاز کالج کے دور میں کیا، جہاں بیت بازی اور شعروسخن کی محافل میں شریک ہوتے رہے۔

    اسی زمانے میں اپنی شاعری مختلف روزناموں اور جرائد کو ارسال کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو شایع ہوئیں‌ تو حوصلہ بھی ملا اور خوشی بھی۔

    بعدازاں جامعہ کراچی سے ایم۔ اے اردو کی سند حاصل کی۔ اس عرصے میں انھیں کراچی کے ادبی حلقوں میں پہچان مل چکی تھی۔ انھیں ادبی تقریبات، مشاعروں اور ریڈیو پاکستان کے ادبی پروگراموں میں مدعو کیا جانے لگا تھا۔

    ثروت حسین کو جامعہ ملّیہ کالج، ملیر میں بطور لیکچرر ملازمت مل گئی جس کے بعد لاڑکانہ اور حیدرآباد کے تعلیمی اداروں میں بھی ذمہ داریاں نبھانے کا موقع ملا اور پھر اسی کالج میں‌ تبادلہ ہوگیا جہاں سے تدریسی سفر شروع کیا تھا۔

    ثروت حسین کا اسلوب جداگانہ اور ان کا کلام خوب صورت لفظیات سے آراستہ ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں اپنے موضوعات کے لحاظ سے بھی منفرد ہیں اور ندرتِ خیال کے ساتھ یہ کلام دل کش اور معنٰی آفریں بھی ہے۔ ثروت نے نثری نظم کو بھی اعتبار بخشا۔

    ان کا پہلا مجموعہ آدھے سیّارے پر 1989 میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی۔ دوسری کتاب کا نام خاک دان ہے جو ان کی موت کے بعد 1998ء میں شایع ہوئی۔

    ثروت حسین کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    غزل
    لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا
    بادل تھا اور جَل پریوں کے ساتھ رہا
    کون تھا میں، یہ تو مجھ کو معلوم نہیں
    پُھولوں، پتّوں اور دِیوں کے ساتھ رہا
    مِلنا اور بچھڑ جانا کِسی رستے پر
    اک یہی قصّہ آدمیوں کے ساتھ رہا
    وہ اک سُورج صبح تلک مرے پہلو میں
    اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا
    سب نے جانا بہت سبک، بے حد شفّاف
    دریا تو آلودگیوں کے ساتھ رہا

  • جگر مراد آبادی: اردو کے مقبول ترین شاعر اور ایک رندِ بلا نوش کا تذکرہ

    جگر مراد آبادی: اردو کے مقبول ترین شاعر اور ایک رندِ بلا نوش کا تذکرہ

    جگر مراد آبادی کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
    کتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں

    عشق جب تک نہ کرچکے رسوا
    آدمی کام کا نہیں ہوتا

    جگر آزاد طبیعت کے مالک اور حُسن پرست تھے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جگر کو اپنے عہد وہ شہرت اور مقبولیت ملی جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ اس میں ان کی رنگا رنگ شخصیت کے ساتھ ان کے رنگِ تغزّل اور ترنم کا بڑا دخل ہے۔ کئی شعرا نے جگر کا طرزِ شاعری اپنانے اور ان کے ترنّم کی نقل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس مقام و مرتبے کو نہ پہنچ سکے جو جگر کا خاصّہ تھا۔

    جگر مراد آبادی کا اصل نام علی سکندر تھا۔ 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر اور مقامی مکتب میں ہوئی، جہاں اردو اور فارسی کے علاوہ عربی بھی سیکھی۔ رسمی تعلیم میں دھیان نہ تھا، سو اسے ادھورا چھوڑ دیا۔ شاعری ورثے میں ملی تھی، کیوں کہ ان کے والد اور چچا شاعر تھے۔ جگر نے اصغر گونڈوی کی صحبت اختیار کی اور بعد میں شعروسخن کی دنیا میں نام و مقام بنایا۔

    آج اردو کے اس نام وَر شاعر کا یومِ وفات ہے۔ 1960ء میں آج ہی کے دن جگر مراد آبادی دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    جگر رندِ بلانوش تھے۔ ان کی زندگی اور شخصیت کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جنھیں بیان کرنا مناسب نہیں۔ تاہم جگر بہت مخلص، صاف گو اور ہمدرد انسان تھے۔ آخر عمر میں ترکِ مے نوشی کا انھیں خاص فائدہ نہ ہوا اور صحّت بگڑتی چلی گئی، مالی حالات دگرگوں ہوگئے اور جگر موت کے قریب ہوتے چلے گئے۔

    جگر مراد آبادی پاک و ہند کے مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔ انھیں دعوت دے کر بلایا جاتا اور منتظمین ان کی ناز برداری کرتے۔ جگر سامعین سے بے پناہ داد وصول کرتے۔ ان کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔

    ’آتش گل‘، ’داغِ جگر‘ اور ’شعلۂ طور‘ ان کے مشہور شعری مجموعے ہیں۔ ان کی ایک غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دَم نہیں
    ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

    بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
    توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

    میری زباں پہ شکوۂ اہلِ ستم نہیں
    مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

    یا رب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
    دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں

    شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً
    تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

    ملتا ہے کیوں مزہ ستمِ روزگار میں
    تیرا کرم بھی خود جو شریکِ ستم نہیں

    مرگِ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
    اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں

  • یومِ مسعود: افغان صوبہ پنجشیر کے احمد شاہ مسعود کی برسی

    یومِ مسعود: افغان صوبہ پنجشیر کے احمد شاہ مسعود کی برسی

    افغانستان کی وادی پنجشیر طالبان کے خلاف آخری مزاحمتی علاقہ تھا۔ طالبان نے اس علاقے کی فتح کا دعویٰ اور افغانستان کی نئی کابینہ کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیحُ اللہ مجاہد نے اس سلسلے میں پریس کانفرنس میں وادی پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ کیا تھا۔

    افغانستان کے اسی صوبہ پنجشیر میں طالبان کے مخالف اور جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود نے آنکھ کھولی تھی۔ وہ 2001ء میں 9 ستمبر کو ایک خود کش حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ افغانستان میں ان کی برسی کا دن "یوم مسعود” کے طور پر منایا جاتا رہا ہے۔ طالبان کے سابق دور میں‌ وہ ان کے بڑے مخالف اور شمالی اتحاد کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے تھے۔

    احمد شاہ مسعود 2 ستمبر 1953ء کو پنجشیر میں پیدا ہوئے۔ وہ افغانستان کے ایک سیاسی راہ نما اور مسلح مزاحمتی گروہ کے لیڈر تھے جنھوں نے 1979ء سے 1989ء کے درمیان سوویت قبضے کے خلاف مزاحمت میں اور بعد ازاں خانہ جنگی کے زمانے میں بھی کئی لڑائیاں لڑیں اور طالبان مخالف کمانڈر کے طور پر دنیا میں شناخت کیے گئے۔

    افغان مجاہد اور کمانڈر مسعود کے نام سے پہچانے جانے والے احمد شاہ مسعود نسلاً تاجک تھے۔ ان کا تعلق شمالی افغانستان کی وادی پنجشیر سے تھا۔

    انھوں نے 1970ء کی دہائی میں کابل یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، وہ کمیونسٹ مخالف تحریک کا حصہ رہے۔ 1979ء میں سوویت یونین کے قبضے کے بعد انھوں نے مزاحمتی لیڈر کا کردار نبھایا اور شیرِ پنجشیر مشہور ہوئے۔

    1992ء میں انھیں افغانستان کا وزیرِ دفاع مقرر کیا گیا تھا جو بعد میں افغان خانہ جنگی کے دوران مخالف گروہ سے الجھے رہے اور پھر طالبان کے خلاف نبرد آزما رہے۔ افغان حکم ران اشرف غنی کے فرار اور طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد پنجشیر اب تک طالبان کے خلاف مزاحمت کررہا تھا جس کی قیادت مرحوم احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کررہے ہیں۔

  • سیّد علی گیلانی: آخرت فراموش تہذیب سے نجات کا راستہ بتانے والا مجاہد

    سیّد علی گیلانی: آخرت فراموش تہذیب سے نجات کا راستہ بتانے والا مجاہد

    سیّد علی شاہ گیلانی جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، ایک نبّاض اور ایسے مدبّر تھے جنھوں نے نہ صرف دین و ملّت کا حق ادا کرنے کی سعی کرتے ہوئے زندگی بسر کی بلکہ ایک حرّیت پسند راہ نما کے طور پر کشمیر پر بھارت کے قبضے کے خلاف مسلمانوں میں آزادی کی جوت جگائے رکھی۔

    اسی جنّت نظیر وادی میں علی گیلانی نے تو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لیں، لیکن ان کے اس نعرے ’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ کو گویا نئی زندگی مل گئی ہے۔

    ہر کشمیری مرد و زن، بوڑھے اور بچّے بھی یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنے راہ نما اور کشمیر کے اس مجاہد کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ آزادی کا خواب ضرور پورا ہو گا اور ان کی جدوجہد، بے پناہ ایثار اور ان گنت قربانیوں کو کشمیری ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

    سیّد علی شاہ گیلانی کی قیادت اور ان کی جدوجہد سے متعلق تو بہت کچھ لکھا جارہا ہے، لیکن ہم یہاں ان کی فکر و نظر کا ایک خوب صورت پہلو اور وہ زاویہ آپ کے سامنے رکھتے ہیں جو انھیں ایک بیدار مغز شخصیت اور دین و ملّت کا مونس و غم خوار بھی ثابت کرتا ہے۔ انھوں نے اپنی اساس اور میراث کو نئی نسل تک پہنچانا بھی اپنا فرض سمجھا اور کشمیریوں کی سیاسی راہ نمائی کے ساتھ نسلِ‌ نو کو ان کے آبا کے درد اور ان کی دیرینہ خواہش سے بھی آگاہی دی ہے۔

    یہ کام انھوں نے اپنی تصنیف’’روحِ دین کا شناسا، اقبالؒ‘‘ کے ذریعے انجام دیا ہے، جو چیدہ چیدہ انتخابِ کلامِ اقبال اور اس کے ترجمے کا شاہ کار ہے۔

    سیّد علی شاہ گیلانی نے تہذیبی اور تشریحی عبارات کے ذریعے اپنے احساسات اور جذبات سے فکرِ اقبال کو انقلاب آفریں بنا دیا ہے۔ تین سو صفحات پر مشتمل اس تصنیف کا مقصد سیّد علی گیلانی نے ان الفاظ میں بتایا ہے:

    ’’ملّت کے جوانوں کو آج خدا بیزار اور آخرت فراموش تہذیب ہر چہار طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس گھیرے سے نکالنے کے لیے اقبالؒ کا درد و سوز سے پُر کلام کششِ ثقل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر میں نے اپنی کم علمی، بے بضاعتی، بے ما ئیگی اور ناتوانی کے باوصف ان کے حیات بخش پیغام اور کلام کی خوشہ چینی کی ہے۔‘‘

    اس کتاب کی تعارفی سطور میں ڈاکٹر شفیع شریعتیؔ لکھتے ہیں:

    ’’وہ ملّتِ اسلامیہ کے ایک ایسے جتھے کا پرچم تھامے ہوئے ہیں جس کی چیخیں عشروں سے فلک بوس برفیلی چوٹیوں کے ساتھ ٹکراتی رہی ہیں، جس کی آہیں پنبہ رنگ بادلوں کی صورت میں برسنے کے قریب ہیں اور جس کے سینے پر غلامی اور محکومی کے زخم ولرؔ اور ڈلؔ کی سی گہرائی اور کشادگی رکھتے ہیں۔

    ملّتِ اسلامیہ کی مجموعی زبوں حالی اور اقبالؒ کے محبوب آبائی وطن کشمیر کی خوں چکانی پر اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنے کے لیے سیّد علی گیلانی فکرِ اقبال اور شعرِ اقبال کو ایک وسیلۂ گرہ کشا سمجھتے ہیں۔ ملّتِ اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کی امنگ بیدار کرنے، خشک رگوں میں تازہ خون دوڑانے، لا دین تہذیبی جارحیت کے سیلاب کو روکنے اور مسلمان نوجوان کو خود آشنا اور خدا آشنا کرنے کے لیے جو لازوال نسخۂ کیمیا (کلامُ ﷲ اور سیرتِ رسول ﷲ‌ﷺ) مسلمانوں کے پاس موجود ہے، اس کی ترغیب، تفسیر اور تشہیر فکر اقبال کے ترکیبی نظام میں نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔

    کلامِ اقبال اس نسخہ کیمیا کے سمجھنے اور برتنے میں شاہِ کلید کا حکم رکھتا ہے۔ سید علی گیلانی فکرِ اقبال کے اس اہم اور بنیادی پہلو سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ علامہ مرحومؒ کو نہ صرف اپنا روحانی مرشد بلکہ’’ روحِ د ین کا شناسا‘‘ کہتے ہیں۔‘‘

    فرزند و مجاہدِ کشمیر اور روحِ حرّیت سیّد علی گیلانی کی اس گراں قدر تصنیف کا انتساب بھی پڑھ لیجیے جس سے قوم و ملّت کے لیے ان کا قلبی و ذہنی اضطراب، درد اور فکرمندی عیاں ہے۔ انتساب ملاحظہ ہو۔

    ’’دخترانِ و فرزندانِ ملّت کے نام!
    جو مشرکانہ تہذیب اور لادین سیاست کی زد میں ہیں۔‘‘