Author: اصغر عمر

  • خونی رشتوں سے محروم خاتون کی تصدیق کے لیے عدالت کا نادرا کو سخت حکم

    خونی رشتوں سے محروم خاتون کی تصدیق کے لیے عدالت کا نادرا کو سخت حکم

    کراچی (26 اگست 2025): خونی رشتوں سے محروم خاتون زرینہ کے شناختی کارڈ کے لیے نادرا سے تصدیق نہ ہونے کے معاملے پر سندھ ہائیکورٹ نے برہمی کا اظہار کیا ہے اور کل ہی اس سلسلے میں تصدیق کا حکم جاری کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خونی رشتے دار نہ ہونے کے سبب زرینہ نامی خاتون کو شناختی کارڈ جاری نہ کیے جانے سے متعلق کیس میں سندھ ہائیکورٹ میں نادرا حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی گئی۔

    عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر عدالت نادرا حکام پر برہم ہوئی، جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے کہا نادرا حکام کا عوام کے ساتھ رویہ بالکل بھی ٹھیک نہیں، انھوں نے استفسارکیا کہ نادرا میں کسی کی ویری فکیشن اور جانچ کا کیا نظام ہے؟ کیا نادرا کے پاس شہریوں کو ٹوکن جاری کرنے کا سسٹم موجود نہیں؟

    نادرا سے مسائل کا ازالہ کروانے کا سنہری موقع

    نادرا کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ ٹوکن نظام موجود ہے، نادرا شہریوں کو ان کی باری کے لیے ٹوکن جاری کرتا ہے، عدالت نے کہا بندہ کام کاج چھوڑ کر نادرا آفس جاتا ہے اور وہاں سے کہا جاتا ہے ابھی ہم کھانا کھا رہے ہیں، اس طرح شہریوں کو پریشان مت کریں، ہم بھی نادرا والوں کو بلا کر عدالت میں بٹھا دیں پھر کہیں گے کل آنا۔

    جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے کہا ہم نے نادرا کے زونل بورڈ کو درخواست گزار کی ویری فکیشن کا حکم دیا تھا، لیکن وہ صرف یہ کام بھی نہیں کر سکا، نادرا کل ہی زونل بورڈ کا اجلاس بلا کر درخواست گزار کی تصدیق کرے۔

    عدالت نے 15 روز میں نادرا سے پیش رفت رپورٹ بھی طلب کر لی، وکیل درخواست کے مطابق عدالت نے نادرا کو زرینہ نامی خاتون کی تصدیق کا حکم مارچ 2025 میں دیا تھا، درخواست گزار کا خونی رشتے میں کوئی بھی نہیں ہے، درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ شوہر کے ساتھ ان کا قومی شناختی کارڈ بنانے کا حکم دیا جائے۔

  • آٹو مینوفیکچررز کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی، عدالت نے حکومت کو اضافی کسٹم ڈیوٹی وصولی سے روک دیا

    آٹو مینوفیکچررز کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی، عدالت نے حکومت کو اضافی کسٹم ڈیوٹی وصولی سے روک دیا

    کراچی: آٹو مینوفیکچررز کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی پر کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے وفاقی حکومت کو اضافی کسٹم ڈیوٹی وصولی سے روک دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں آج جمعرات کو آٹو مینوفیکچرز کی اضافی کسٹم ڈیوٹی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے وفاقی حکومت کو درخواست گزاروں سے اضافی کسٹم ڈیوٹی کی وصولی سے روک دیا، اور درخواست گزار کو ٹیکس کے فرق سے متعلق کارپوریٹ گارنٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

    وکیل درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت نے کنسائنمنٹ اور پرزہ جات کی امپورٹ پر اضافی 2 فی صد کسٹم ڈیوٹی عائد کی ہے، اور آٹو موبائل ڈیولپمنٹ پالیسی کے تحت سرمایہ کاروں کو رعایت فراہم کی تھی، معاہدے کے تحت یہ رعایت 5 سال تک موجود رہے گی۔


    حکومتی کوششیں بےسود، چینی درآمد کرنے کےلئے کسی نے بولی نہیں لگائی


    وکیل نے مزید بتایا کہ پالیسی کے مطابق آٹو مینوفیکچرنگ کے لیے مجموعی طور پر ڈیوٹی کی حد 25 فی صد رکھی گئی تھی، 2 فی صد اضافی کسٹم ڈیوٹی کے بعد یہ حد ختم ہو جائے گی، لیکن سرمایہ کاروں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، اس صورت حال سے ملک میں سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔

    وکیل درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے اسی نوعیت کے دیگر درخواستوں میں اضافی ٹیکس کے خلاف حکم امتناع جاری کیا ہے۔

    عدالت نے ایک موقع پر کہا کہ درخواست گزار کو پہلے عبوری طور پر ڈیوٹی کا جائزہ لینا چاہیے تھا، وکیل نے کہا درخواست گزار نے ایس آر او کو چیلنج کیا ہے، بعد ازاں عدالت نے درخواستوں کی سماعت 19 اگست تک ملتوی کر دی۔

  • سندھ پبلک سروس کمیشن کے افسران کے خلاف نیب انکوائری مشکوک ہو گئی، عدالت برہم

    سندھ پبلک سروس کمیشن کے افسران کے خلاف نیب انکوائری مشکوک ہو گئی، عدالت برہم

    کراچی: سندھ پبلک سروس کمیشن کے افسران کے خلاف کیس میں ہائیکورٹ نے افسران کے خلاف نیب انکوائری پر اظہار برہمی کیا ہے، اور عدالت نے حکام کو 2 روز میں انکوائری سے متعلق دستاویز پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

    عدالت نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ایس پی ایس سی افسران کو موصول نوٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے، بتایا جائے کس قانون کے تحت ملزمان کو تحقیقات کے لیے نوٹس بھیجا گیا۔

    جج نے کہا نیب کا کال اپ نوٹس سوشل میڈیا پر ناچ رہا تھا، بظاہر ایسا لگتا ہے ادارہ سندھ پبلک سروس کمیشن افسران کا میڈیا ٹرائل کر رہا ہے، کال اپ نوٹس کی زبان دیکھیں تو لگتا ہے ملزمان کو بغیر ٹرائل 14 سال کی سزا سنائی گئی ہے، نوٹس ملنے کے بعد تو لوگ پریشان ہیں کہ انھیں بغیر ٹرائل سزا ہو گئی۔

    عدالت نے کہا ہم چیئرمین نیب سے پوچھتے ہیں کہ 2018 کی شکایت پر 2025 میں کیسے تحقیقات ہو رہی ہیں؟ لگتا ہے نیب تحقیقات کرنے کا اہل ہی نہیں ہے، ایک انکوائری کو مکمل کرنے میں 7 برس لگتے ہیں؟ بتایا جائے کہ نیب انکوائری میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟


    ریاستی اداروں کے لیے سائبر رسک آڈٹ کرانا ضروری قرار دے دیا گیا


    تفتیشی افسر نے بتایا کہ قانون کے مطابق نیب کو 6 ماہ میں انکوائری مکمل کرنی ہوتی ہے، عدالت نے کہا لیکن آپ چھ ماہ کے بجائے چھ سال میں بھی انکوائری نہیں کر سکے ہیں، ہم خود کو ریمارکس دینے سے روک رہے ہیں، کبھی نوٹس جاری کیا جاتا ہے، کبھی نوٹس گم ہو جاتا ہے،کیوں نہ چیئرمین نیب کو تمام تفتیشی افسران کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیں؟

    سندھ ہائیکورٹ نے کہا نیب 2025 میں نوٹس پر ہی چل رہا ہے، نیب تو تقرریوں سے متعلق تحقیقات کر ہی نہیں سکتا، تفتیشی افسر نے کہا نیب تقرریوں اور ناجائز فائدہ اٹھانے کے معاملے پر تحقیقات کر سکتا ہے، جج نے کہا ملزمان کے خلاف شواہد ہوتے تو ہم ابھی ریفرنس دائر کرنے کا کہہ دیتے، آئی او نے بتایا کہ ممبر ایس پی ایس سی کے خلاف اس لیے تحقیقات کر رہے ہیں کہ افسران کے اپنے ہی لوگوں کو بھرتی کیا گیا، قانون نیب کو اس معاملے کی تحقیقات کی اجازت دیتا ہے۔

    عدالت نے کہا ایک ادارے پر بھروسہ کرتے تھے اب وہ بھی نہیں رہتا، اگر اس معاملے میں کرپشن ہوئی تو ہم نیب کو سپورٹ کریں گے، لیکن نیب کو کسی کو ہراساں نہیں کرنے دیں گے۔

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ مختلف اداروں کو خطوط لکھے گئے ہیں، ملزمان کی پراپرٹی و دیگر ریکارڈ کے حصول میں وقت لگ رہا ہے، جج نے کہا نیب اور ایف بی آر شناختی کارڈ نمبر سے تمام ریکارڈ حاصل کر لیتا ہے، آئی او نے کہا یہ وائٹ کالر کرائم ہے، تحقیقات کے لیے وقت دیا جائے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے اس کیس میں درخواست کی مزید سماعت 24 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔

  • عدالت نے سابق پراسیکیوٹر نیب حسین بخش بلوچ کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنا دیا

    عدالت نے سابق پراسیکیوٹر نیب حسین بخش بلوچ کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنا دیا

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں نیب کے سابق پراسیکیوٹر حسین بخش بلوچ کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنا دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے نیب کے سابق پراسیکیوٹر حسین بخش بلوچ کی سزا کالعدم قرار دے دی، عدالت نے فیصلے میں کہا استغاثہ ملزم کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ حسین بخش بلوچ کو 2018 میں احتساب عدالت کراچی نے 7 سال قید کی سزا سنائی تھی، عدالت نے ملزم پر 28 کروڑ 87 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا، ملزم نے مختلف ریفرنسز میں عدالتوں سے فیصلوں کی مصدقہ نقول بروقت نہیں لی تھی جس پر ملزمان کو فائدہ ہوا اور ریاست کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔

    وکیل اپیل کنندہ نے عدالت کو بتایا کہ حسین بخش بلوچ کے خلاف مالی فوائد کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، وہ اب نیب پراسیکیوٹر نہیں رہے بلکہ لیگل کنسلٹنٹ کے طور پر تعینات تھے۔


    سائبر فراڈ اور ڈیجیٹل منی لانڈرنگ میں ملوث نیٹ ورک بے نقاب، 12 کال سنٹرز سیل


    واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق پراسیکیوٹر حسین بخش بلوچ کو احتساب عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

    عدالت نے انھیں پراسیکیوٹر کے طور پر اپنے کردار میں مؤثر طریقے سے کام کرنے میں ناکامی کا مجرم پایا، جس کی وجہ سے مختلف مقدمات میں بدعنوان افراد کو فائدہ پہنچا۔ عدالت نے ماتحت عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر کرنے میں ناکامی کو بھی نوٹ کیا، جس سے بدعنوان عناصر کو فائدہ پہنچا۔

  • بینک اکاؤنٹس منجمد کیس: عارف علوی کو اکاؤنٹ سے رقم نکالنے کی اجازت مل گئی

    بینک اکاؤنٹس منجمد کیس: عارف علوی کو اکاؤنٹ سے رقم نکالنے کی اجازت مل گئی

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے سابق صدر مملکت عارف علوی کو بینک اکاؤنٹ سے 10 لاکھ روپے تک رقم نکالنے کی اجازتت دے دی۔

    سندھ ہائیکورٹ میں عارف علوی و اہل خانہ کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے کیس کی سماعت جسٹس کے کے آغا نے کی، اس موقع پر ڈائریکٹر نیشنل سائبر کرائم ایجنسی وقار احمد عدالت میں پیش ہوئے۔

    وقار احمد نے استدعا کی کہ کیس میں جواب جمع کروانے کیلیے مہلت دی جائے۔ اس پر جسٹس کے کے آغا نے ریماکس دیے کہ یہ تاخیری ہتھکنڈے ہیں عدالت انہیں خوب سمجھتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: عارف علوی اور اہل خانہ کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے

    عدالت نے عارف علوی کو بینک اکاؤنٹ سے 10 لاکھ روپے تک رقم نکالنے کی اجازت دی۔

    درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر علی طاہر نے عدالت کو بتایا کہ عارف علوی، ان کی اہلیہ اور بچوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں، ایف آئی اے نے انکوائری کی بنیاد پر پوری فیملی کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے۔

    وکیل نے بتایا کہ پوری فیملی کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے سے روز مرہ کے اخراجات پورے کرنے مشکل ہوگئی ہے، ہمیں علم ہوا ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ کے الزامات میں بھی بے بنیاد انکوائری کی جا رہی ہے، ہمیں کوئی دستاویز فراہم نہیں کی جا رہی۔

    سندھ ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ تفتیشی افسر آئندہ سماعت پر متعلقہ ریکارڈ کے ہمراہ اپنی پیشی یقینی بنائیں۔ کیس کی مزید سماعت 19 جون 2025 تک ملتوی کر دی گئی۔

    21 مئی 2025 کو عارف علوی اور ان کے اہل خانہ کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے پر سندھ ہائیکورٹ نے فریقین سے جواب طلب کیا تھا۔

    سندھ ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران عارف علوی کے وکیل نے بتایا تھا کہ سابق صدر مملکت، اہلیہ اور بچوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں، ایف آئی اے نے انکوائری کی بنیاد پر پوری فیملی کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے۔

    عدالت نے ریماکس دیے تھے کہ فریقین کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیتے ہیں۔ اس پر وکیل نے کہا تھا کہ پوری فیملی کے اکاؤنٹس منجمد کرنے سے روز مرہ کے اخراجات پورے کرنے مشکل ہوگئے ہیں۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو بھی تو فیس کی ادائیگی کی گئی ہوگی۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ کیس بغیر فیس کے لڑ رہا ہوں۔

    عدالت نے کہا کہ فریقین کے جواب آنے دیں پھر دیکھتے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 5 جون کو جواب طلب کر لیا۔

    جنوری 2025 میں سابق صدر مملکت عارف علوی کے خلاف دہشتگردی کا ایک اور مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ انہوں نے مقدمات کی تفصیلات طلب کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

  • ریچھ کی آزادی کے لیے عدالت میں درخواست

    ریچھ کی آزادی کے لیے عدالت میں درخواست

    کراچی: شہر قائد میں ایک ریچھ کی آزادی کے لیے عدالت میں درخواست دی گئی ہے، کراچی چڑیا گھر میں رانو نامی ریچھ کی غیر قانونی قید اور ابتر حالت کے خلاف اس درخواست کی سماعت سندھ ہائیکورٹ میں ہوئی۔

    کیس کی سماعت کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ نے کے ایم سی، ڈائریکٹر کراچی زو اور سیکریٹری کنزرویٹو وائلڈ لائف کو نوٹس جاری کر دیے، عدالت نے آئندہ سماعت پر فریقین سے ریچھ کی قید اور حالت زار سے متعلق جواب طلب کیا ہے۔

    وکیل درخواست گزار جبران ناصر نے عدالت کو بتایا کہ سینئر ڈائریکٹر زو کی جانب سے رانو ریچھ کی صحت سے متعلق ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس کمیٹی نے 17 جنوری 2025 کو اپنی سفارشات میں کہا کہ رانو ذہنی دباؤ میں ہے، اور اسے کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔

    درخواست گزار نے مؤقف پیش کیا کہ رانو کو کراچی زو میں قید کرنا وائلڈ لائف ایکٹ کی سیکشن 47 کی خلاف ورزی ہے، جب کہ سندھ ہائیکورٹ ایسی ہی ایک درخواست میں رانو کے لیے ایئر کولر پول کی صفائی اور دیگر احکامات بھی جاری کر چکا ہے۔

    درخواست گزار نے کہا رانو کو کراچی زو میں رکھنا آرٹیکل 9 اور 9 اے کی خلاف ورزی ہے، اس لیے کمیٹی کی سفارشات کے مطابق رانو کی قدرتی ماحول میں منتقلی کا حکم دیا جائے۔

  • سرکاری املاک اور عوامی مقامات پر سائن بورڈز اور اشتہارات لگانے کے کیس میں پیش رفت

    سرکاری املاک اور عوامی مقامات پر سائن بورڈز اور اشتہارات لگانے کے کیس میں پیش رفت

    کراچی: سرکاری املاک اور عوامی مقامات پر سائن بورڈز، سیاسی بینرز اور اشتہارات لگانے کے کیس میں پیش رفت ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سائن بورڈ لگانے والی ایک نجی کمپنی نے ’سرکاری املاک اور عوامی مقامات پر سائن بورڈز، سیاسی بینرز اور اشتہارات لگانے‘ کے کیس میں فریق بننے کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا۔

    عدالت نے نجی کمپنی کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے، جمشید قاضی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کمپنی نے معاہدے کے بعد ہی سائن بورڈز لیے تھے، کمپنی کو سنے بغیر کی آپریشن کر کے سائن بورڈ ہٹا دیے گئے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر سندھ ہائیکورٹ نے میئر کراچی کو شہر بھر سے سائن بورڈز ہٹانے کا حکم دیا تھا، عدالت نے کے ایم سی، کے ڈی اے، ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ بورڈز اور دیگر کو شہر بھر سے سائن بورڈز ہٹانے کا حکم دیا تھا۔

    سندھ ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں احکامات پر عمل درآمد کر کے رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا تھا، عدالتی حکم ہے کہ غیر قانونی سائن بورڈز لگانے والوں کے خلاف مقدمات درج کرائے جائیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ جس نے بھی غیر قانونی سائن بورڈز لگائے ہوئے ہیں، ان کے خلاف مقدمات درج کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔

    وکیل درخواست گزار نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ نے سرکاری املاک پر سے سائن بورڈ ہٹانے کا حکم دیا تھا۔

  • اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے 138 ڈبل کیبن کی خریداری کیخلاف درخواست مسترد

    اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے 138 ڈبل کیبن کی خریداری کیخلاف درخواست مسترد

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے 138 ڈبل کیبن کی خریداری کیخلاف درخواست مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ میں اسسٹنٹ کمشنرز کے لئے 138 ڈبل کیبن کی خریداری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

    حکومت کی جانب سیایڈووکیٹ جنرل جواد ڈیرو، درخواست گزار رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق عدالت میں پیش ہوئے۔

    عدالت نے اسسٹنٹ کمشنرز کے لئے 138 ڈبل کیبن کی خریداری کے خلاف درخواست مسترد کردی ،درخواست جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق و دیگر نے دائر کی تھی۔

    عدالت نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ بتائیں آپ لوگ اس سے اسکیم سے کیسے متاثر ہوئے ہیں تو درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار رکن سندھ اسمبلی ہے درخواست گزار نے اسیمبلی میں بھی مخالفت کی تھی لیکن اس کے باوجود گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دی گئی۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ لیکن یہ معاملہ اسمبلی میں کیسے گیا ہوگا یہاں درخواست پر تو کسی بل یا ایکٹ نظر نہیں آرہا، جس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے گاڑیوں کی خریداری کے خلاف قراداد پیش کی تھی، بحیثیت شہری ڈبل کیبن گاڑیاں خریدی جائیں گی تو میں بھی متاثر ہوں گا۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کیسے متاثر ہو سکتے ہیں تو درخواست گزار نے کہا کہ بجٹ اور پیسہ سندھ حکومت کا ہی خرچ ہوگا لگژری گاڑیوں کے بجائے 1000 سی سی کی گاڑیاں خریدی جائیں۔

    عدالت نے درخواست گزار سے مکالمہ کیا کہ آپ کو گاڑیوں کی سی سی پر مسئلہ ہے، آپ بتائیں کونسے رولز اور پالیسی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

    جس پر وکیل درخواست گزار عثمان فاروق نے کہا کہ بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں تو عدالت نے ریمارکس دیے کونسے حقوق متاثر ہوئے آپکے کونسے قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

    درخواست گزار نے کہا کہ کہ مجھے وقت دے دیں میں رولز اور پالیسی کی خلاف ورزی سے متعلق تفصیلات دے دوں گا۔

    جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ وقت نہیں دے سکتے پہلے ہی کیس کئی ماہ سے زیر التوا ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عوامی مفادات کو سیاسی مفادات نا بنایا جائے یہ صرف پبلسٹی کیلئے کر رہے ہیں یہ لگڑری گاڑیاں نہیں بلکہ ضرورت ہیں درخواست کو مسترد کی جائے، اسسٹنٹ کمشنرز کے لئے گاڑیوں کی خریداری غیر ضروری نہیں نا ہی گاڑیوں کے لئے فنڈز کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل جواد ڈیرو نے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنرز کے پاس بہت اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں گاڑیوں کی خریداری ضروری ہے تاکہ افسران ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے سکیں اسسنٹنٹ کمشنرز کے لئے آخری بار خریداری 2010 اور 2012 میں ہوئی تھی سوزوکی کلٹس کی اوسط عمر چھ سال یا ایکسپریس لاکھ ساٹھ ہزار کلومیٹر ہے ،حکومت سندھ نے جواب میں کہنا تھا کہ بیشتر گاڑیاں اپنی میعاد پوری کر چکی ہیں۔

  • ملزمان کی شناخت پریڈ کیسے کی جائے؟ گائیڈ لائنز جاری

    ملزمان کی شناخت پریڈ کیسے کی جائے؟ گائیڈ لائنز جاری

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے کرمنل مقدمات میں ملزمان کی شناخت پریڈ کے لیے گائیڈ لائنز جاری کی گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایم آئی ٹی نے ملزمان کی شناخت پریڈ کے لیے ماتحت عدالتوں کو نئی گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں، ممبر انسپیکشن ٹیم کا کہنا ہے کہ منتظم جج نے سپریم کورٹ کے اصولوں کے مطابق گائیڈ لائنز تیار کی ہیں۔

    گائیڈ لائنز کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ مقدمے میں بتائے گئے ملزم کے حلیے کو میچ کریں گے، شناخت پریڈ بیان کردہ ملزم کے حلیے سے مماثلت کے بعد شروع ہوگی۔


    سندھ حکومت کا پولیس کی تفتیشی صلاحیت مزید بہتر بنانے کا فیصلہ


    گائیڈ لائنز میں کہا گیا ہے کہ ملزم کے ساتھ اسی حلیے سے ملتے جلتے ڈمی ملزمان کو پیش کیا جائے، پریڈ میں ایک ملزم سے زائد کو ایک ساتھ پیش نہ کیا جائے، اور گواہ سے پریڈ سے قبل ملزمان کے کردار کی معلومات لی جائیں۔

    گائیڈ لائنز کے مطابق پولیس یقینی بنائے پریڈ سے قبل ملزم کی شناخت نامعلوم رہے، کیوں کہ اگر ملزم کی شناخت سے متعلق گواہ کو معلومات ہوئی تو شناخت پریڈ کا فائدہ نہیں ہوگا۔

  • ایک سے زائد صوبوں میں کام کرنے اداروں کا ویلفیئر فنڈ کس کے پاس جمع ہوگا؟ عدالتی فیصلہ جاری

    ایک سے زائد صوبوں میں کام کرنے اداروں کا ویلفیئر فنڈ کس کے پاس جمع ہوگا؟ عدالتی فیصلہ جاری

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں ایک سے زائد صوبوں میں کام کرنے والے ملازمین کے ویلفئیر فنڈ جمع کرنے کے کیس میں عدالت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی درخواست کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایف بی آر نے اپنی درخواست میں ایک سے زائد صوبوں میں کام کرنے والے اداروں کا ای او بی آئی ویلفیئر فنڈ صوبے یا وفاق کو جمع کرنے کا سوال اٹھایا تھا۔

    عدالت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی درخواست منظور کرتے ہوئے تحریری حکم نامہ میں کہا کہ ایک سے زائد صوبوں میں کام کرنے ادارے فنڈز ایف بی آر کے پاس جمع کرائیں گے۔

    وکیل سندھ حکومت کے مطابق اٹھارویں ترمیم سے ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر فنڈز کا محکمہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے، سندھ نے اٹھارویں ترمیم کے بعد اپنا قانونی میکنزم بنا لیا ہے، جب کہ ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ مشترکہ مفادات کاوٴنسل (سی سی آئی) کے مطابق تمام صوبوں کی قانون سازی تک یہ معاملہ وفاق کے پاس ہوگا، سندھ نے تو قانون سازی کر لی ہے لیکن دیگر صوبوں میں ابھی معاملہ التوا کا شکار ہے، اس لیے سی سی آئی کے فیصلے کو عدالت تبدیل نہیں کر سکتی۔

    عدالت نے کہا کہ اس سلسلے میں آئین میں واضح گائیڈ لائن موجود ہیں، تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ اگر کسی کو سی سی آئی کا فیصلہ چیلنج کرنا ہے، تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں معاملہ اٹھایا جا سکتا ہے، پارلیمنٹ کے کئی مشترکہ اجلاس ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک کسی صوبے نے یہ معاملہ نہیں اٹھایا۔

    عدالت نے حکم دیا کہ عدالت کے عبوری حکم کے تحت ناظر کے پاس جو رقم جمع ہوئی ہے، وہ ایف بی آر کو دی جائے، عبوری حکم میں درخواستوں پر فیصلے تک ملازمین کے لیے فنڈز کی رقم ناظر کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی، حکومت سندھ کا مؤقف تھا کہ اس فنڈ کی مد میں اربوں روپے جمع ہیں، یہ صوبائی حکومت کو مل جائیں تو بہت سے منصوبے مکمل کیے جا سکتے ہیں۔