Author: اصغر عمر

  • بابر غوری کے وکیل کا مؤقف سامنے آ گیا

    بابر غوری کے وکیل کا مؤقف سامنے آ گیا

    کراچی: سابق وفاقی وزیر بابر غوری کے وکیل نے کہا ہے کہ ان کے مؤکل کی گرفتاری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز ایئر پورٹ سے گرفتار کیے گئے سابق وفاقی وزیر کے وکیل کا مؤقف سامنے آ گیا، بیرسٹر شبیر شاہ نے کہا کہ بابر غوری کی گرفتاری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔

    انھوں نے کہا جو مقدمات ہمارے سامنے تھے ان میں حفاظتی ضمانت حاصل کر لی گئی تھی، آج منگل کو نئی درخواست بھی دائر کی جائے گی۔

    بیرسٹر شبیر شاہ نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے چھپے ہوئے مقدمات کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے آج عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔

    ایم کیو ایم رہنما بابر غوری کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار

    وکیل نے کہا بابر غوری پاکستانی شہری ہیں، ملک آنا ان کا حق ہے، وہ اپنے خلاف تمام مقدمات کا سامنا کریں گے۔

    دوسری جانب اعلیٰ پولیس حکام نے بابر غوری کی گرفتاری کی تصدیق کر دی ہے، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بابر غوری پولیس کو بھی کئی کیسز میں مطلوب ہیں، انھیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، آج عدالت میں پیش کریں گے۔

    واضح رہے کہ عدالت نے بابر غوری کی 2 مقدمات میں 5 جولائی تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی، ان کے خلاف احتساب عدالت میں ایک ریفرنس بھی زیر سماعت ہے، بابر غوری مارچ 2015 سے بیرون ملک مقیم تھے۔

  • سندھ بلدیاتی الیکشن، سندھ ہائی کورٹ نے بڑا فیصلہ دے دیا

    سندھ بلدیاتی الیکشن، سندھ ہائی کورٹ نے بڑا فیصلہ دے دیا

    کراچی: صوبے میں بلدیاتی الیکشن کے التوا سے متعلق سندھ ہائی کورٹ نے اہم ترین فیصلہ سنادیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے صوبے میں بلدیاتی الیکشن کے التوا سے متعلق دائر تمام درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے شیڈول کے مطابق الیکشن کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

    فیصلے سے قبل جماعت اسلامی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے صوبے کے ترقیاتی اداروں کو مقامی حکومتوں کےتابع کرنےکا حکم دیاتھا اور قانون سازی کے بعد انتخابات کرنے کا حکم دیا تھا۔

    جس پر جسٹس جنیدغفار نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے تو حکم دیا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کرائےجائیں، وکیل جماعت اسلامی نے جواب دیا کہ اس طرح انتخابات کرائےگئےتو بلدیاتی حکومت کمزور ترین تصور کی جائےگی۔

    کمرہ عدالت میں موجود وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا مقامی حکومت کی مدت ختم ہونے پر ایک سو بیس روز میں بلدیاتی انتخابات ہونا تھے، جسٹس جنیدغفار نے استفسار کیا تو پھر آپ نے ایک سو بیس روز میں بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے ؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ مردم شماری اور حلقہ بندی کی وجہ سےانتخابات میں تاخیر ہوئی۔

    حکومت نے دو ہزار سترہ کی مردم شماری کی منظوری دی تو انتخابی مرحلہ شروع ہوا، بلوچستان اورخیبرپختونخوامیں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں۔

    ایم کیو ایم وکیل کے دلائل

    اس سے قبل ایم کیوایم کے وکیل ڈاکٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کا جواب ٹھوس بنیادوں پر مشتمل نہیں، یہ جواب رسمی طورپرجمع کرایا گیا ہے، ابھی تک انتخابی فہرستیں مکمل نہیں لیکن الیکشن کرانا چاہتے ہیں۔

    ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا کہ نوازشریف کیس میں بھی قراردیا گیا تھا قانونی تقاضے پورے کیےبغیرانتخابات نہیں کرائے جاسکتے، سندھ ہائی کورٹ نے قراردیا تھا کہ حلقہ بندی کی آزاد باڈی ہونی چاہئے۔ اس طرح انتخابات کرائے گئے تو ہر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے گا۔

    وکیل ایم کیو ایم نے کہا کہ ان کے حکومت ہوگی تو وہ اپنی مرضی سے حلقہ کریں گے۔ ہماری حکومت آئے تو ہم اپنی مرضی سے حلقہ بندیاں کریں گے۔ حلقہ بندیاں کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح انتخابات شفاف نہیں ہوں گے۔ ہرکوئی ان انتخابات کو چیلنج کرے گا۔

    ایم کیوایم کے وکیل نے حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ حکومت کے نوٹیفکیشن بھی عدالت میں پیش کرتے ہوئے دلائل میں کہا کہ سندھ حکومت نے خود سے حلقہ بندیاں کردیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے ہونے والی حلقہ بندیوں میں تضاد ہے۔

  • ڈاکٹر عامر لیاقت کے پوسٹ مارٹم کا حکم معطل

    ڈاکٹر عامر لیاقت کے پوسٹ مارٹم کا حکم معطل

    کراچی : رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کے پوسٹ مارٹم کا حکم معطل کردیا گیا، عامرلیاقت کے بیٹے اور بیٹی نے پوسٹ مارٹم کے حکم کیخلاف درخواست دائر کی تھی۔

    تٖفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم روکنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے عامر لیاقت کے بیٹے اور بیٹی کی پوسٹ مارٹم کیخلاف درخواست منظور کرلی۔

    سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عامر لیاقت کے پوسٹ مارٹم کا حکم معطل کردیا۔

    یاد رہے عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم رکوانے کیلئے ان کے بیٹے احمد عامر اور دعا عامر کی جانب سے دائر کی گئی تھی اور درخواست میں میڈیکل بورڈ، محکمہ صحت،ایس ایس پی ایسٹ و دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

    درخواست گزار نے کہا کہ عامر لیاقت کے پوسٹ مارٹم کرانے کی درخواست شہرت حاصل کرنے کے لیے مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں دائر کی گئی تھی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ورثاء کے انکار کے بعد ان کا بھی پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا تھا ، بے نظیر بھٹو کا قتل بھی ایک ہائی پروفائل کیس تھا۔

    عامر لیاقت کے اہلخانہ کی جانب سے کہا کہ پوسٹ مارٹم کرانا شریعت کے خلاف ہے، درخواست گزار نے اس حوالے سے فتویٰ بھی حاصل کیا ہے،عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکی قبر کی بے حرمتی ہوگی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی نے اختیارات سے تجاویز کرتے ہوئے جلد بازی میں پوسٹ مارٹم کے احکامات جاری کیے، استدعا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی جانب سے 18 جون کو دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

  • این اے 240 ضمنی الیکشن میں ناقص انتظامات، عملہ پریشان

    این اے 240 ضمنی الیکشن میں ناقص انتظامات، عملہ پریشان

    کراچی کے حلقے این اے 240 میں ضمنی انتخاب کی ناقص انتظامات کی قلعی کھل گئی، عملہ انتخابی سامان موٹر سائیکل اور رکشوں میں لے جانے لگا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے حلقے این اے دو سو چالیس میں ضمنی الیکشن کے لئے کل میدان سجے گا، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتظامات مکمل کرنے کے بلند وبانگ دعوے کئے گئے تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔

    پولنگ سامان کی ترسیل کے لئے حاصل ٹرانسپورٹ ناکافی ہونے کے باعث عملہ انتخابی مواد اپنی مدد آپ کے تحت متعلقہ پولنگ اسٹیشن لے جارہاہے، اے آر وائی نیوز کو موصول فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پریذائیڈنگ افسر انتخابی سامان موٹر سائیکل اور رکشوں پر لے جارہے ہیں۔

    اس سے قبل انتظامیہ نےانتخابی مواد پولیس کی نگرانی میں پولنگ اسٹیشنز پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا، بیان میں کہا گیا تھا کہ ریٹرننگ افسران کے دفتر سے انتخابی سامان کی تقسیم جاری ہے تمام انتخابی سامان آج پولنگ اسٹیشنز پر پہنچایا جائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:این اے 240 کے تمام پولنگ اسٹیشن حساس قرار

    ادھر تعینات عملے میں شکایت کی ہیں کہ متعدد پولنگ اسٹیشنز پر پینے کے پانی اور پنکھوں کا بندوبست نہیں ہے، شدید گرمی اور حبس زدہ موسم میں کام کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔

    تمام پولنگ اسٹیشنز حساس اور انتہائی حساس قرار

    الیکشن کمیشن نے این اے 240کے تمام پولنگ اسٹیشنز کو حساس اور انتہائی حساس قرار دیا ہے، پولنگ کے روز پولیس اور رینجرز کے جوان اپنی فرائض انجام دینگے۔

    واضح رہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں این اے 240 سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار اقبال محمد علی کامیاب ہوئے تھے تاہم وہ 19 اپریل 2022 کو انتقال کرگئے تھے جس کے باعث یہ نشست خالی ہوئی تھی۔

    کل ہونے والے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم پاکستان، پیپلز پارٹی اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔

  • دعا زہرا کیس کا  فیصلہ سنا دیا گیا

    دعا زہرا کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا

    کراچی : سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرا کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی اور کہا جس کے ساتھ جانا یا رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY News (@arynewstv)

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرا کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا ہے، فیصلے میں دعا زہرا کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی۔

    سندھ ہائیکورٹ نے تین صفحات پرمشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا ، جس میں کہا کہ دعا زہرا کی مرضی ہے، جس کے ساتھ جانا یا رہنا چاہے رہ سکتی ہے، شواہد کی روشنی میں اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا۔

    عدالت نے بتایا ہے کہ عدالت بیان حلفی کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دعا زہرہ اپنی مرضی سے شوہر کے ساتھ رہنا چاہے یا اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہے تو جا سکتی ہے، وہ اپنے اس فیصلے میں مکمل آزاد ہے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے کیس کے تفتیشی افسر کو ضمنی چالان جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تفتیشی افسر عمر کے تعین پرمیڈیکل سرٹیفکیٹ اور ریکارڈ بیان بھی پیش کرے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ دعا زہرا کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش کرنا سندھ حکومت کی صوابدید ہے ، ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے۔

    دوران سماعت کیا ہوا؟

    اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرا کیس کی سماعت ہوئی ، دعازہرااور اس کے شوہر کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر میڈیکل کرانے کا حکم دیا تھا، ہم نے کچھ دستاویزات پیش کرنی ہے۔

    جسٹس جنید غفار کا کہنا تھا کہ آپ نے جو بھی پیش کرنا ہے ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، ہمارے پاس بازیابی کا کیس تھا ، بچی بازیابی ہو گئی ہے۔

    پراسکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ کیس نمٹا دیا جائے ،باقی معاملات کیلئے کیس ٹرائل کورٹ بھیج دیں۔

    عدالت نے دعا زہرا کو والدین سے ملنے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد والدین نے کہا کہ لڑکی ان کے ساتھ جانا چاہتی ہے-

    سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ 10تاریخ کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرناہے، کسٹڈی پنجاب پولیس کےحوالےکی جائے تاکہ بچی کولاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا جا سکے۔

    مزید پڑھیں : دعا زہرا سے ملاقات کے بعد والدین کا بڑا دعویٰ

    درچواست گزار نے کہا کہ کیس یہاں چل رہاہے ، جس پر عدالت نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ بچی کابیان ہوچکاہےآپ جذبانی کیوں ہورہےہیں۔

    عدالت نے والد سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں ، جس پر والد کا کہنا تھا کہ میری شادی کو17 سال ہوئے ہیں، میری بچی کی عمر17 سال کیسے ہوسکتی ہے۔ جسٹس جنیدغفار نے کہا کہ ہمارے پاس دعا زہرا کا بیان ہے، ہم نےسپریم کورٹ اوروفاقی شرعی عدالت کےفیصلوں کودیکھناہے، آپ ملاقات کرلیں ان سےہم چیمبرمیں ملاقات کراتےہیں۔

    بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

    بیٹی گھر جانا چاہتی ہے، دعا زہرا کے والدین کا دعویٰ غلط قرار 

  • دعا زہرا سے ملاقات  کے بعد  والدین  کا  بڑا دعویٰ

    دعا زہرا سے ملاقات کے بعد والدین کا بڑا دعویٰ

    کراچی : دعا زہرا کی والدین نے بیٹی سے ملاقات کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ دعا ہمارے ساتھ جانا چاہتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرا نے والدین سے ملاقات کی ، جس کے بعد والدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ دعا نے میرے ساتھ جانے کا کہا ہے، پولیس دوبارہ عدالت لے جانے کے بجائے اپنے ساتھ لے گئی ہے۔

    جس کے بعد دعا زہرا کی والدہ کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ زمین پر گر گئیں۔

    والد مہدی کاظمی نے میڈیا سے گفتگو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہم نے دعا زہرا سے چیمبر میں ملاقات کی ، بچی سے آرام سے بات کی اس نے کہا گھر جانا چاہتی ہوں ، ہم نے جج صاحب سے کہا بچی دوبارہ بیان دینا چاہتی ہے لیکن جج صاحب نے دوبارہ بیان نہیں لیا۔
    یاد رہے سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرا کیس کی سماعت ہوئی ، دعازہرااور اس کے شوہر کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

    مزید پڑھیں : دعا زہرا کی میڈیکل رپورٹ کوعدالت میں چیلنج کردیا گیا

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر میڈیکل کرانے کا حکم دیا تھا، ہم نے کچھ دستاویزات پیش کرنی ہے۔

    جسٹس جنید غفار کا کہنا تھا کہ آپ نے جو بھی پیش کرنا ہے ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، ہمارے پاس بازیابی کا کیس تھا ، بچی بازیابی ہو گئی ہے۔

    پراسکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ کیس نمٹا دیا جائے ،باقی معاملات کیلئے کیس ٹرائل کورٹ بھیج دیں، جس کے بعد عدالت نے دعا زہرا کو والدین سے ملنے کی اجازت دے دی تھی۔

    یاد رہے والد مہدی کاظمی کے وکیل الطاف کھوسو ایڈووکیٹ نے دعا زہرا کی میڈیکل رپورٹ کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے تھے۔

    الطاف کھوسو ایڈووکیٹ نے کہا تھا کہ عمرکے تعین کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا، ہڈیوں کے ذریعے عمر کے تعین کیلئے میڈیکل ٹیسٹ حتمی نہیں ہوتا۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ نادرا ریکارڈ میں دن،تاریخ سمیت مکمل تفصیلات ہوتی ہیں،دستاویزقانونی ہوتےہیں، میڈیکل سرٹیفکیٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔

  • دعا زہرا کا  والدین سے ملنے سے انکار، عدالت کا عمر کے تعین کیلئے میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم

    دعا زہرا کا والدین سے ملنے سے انکار، عدالت کا عمر کے تعین کیلئے میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرا نے والدین سے ملنے سے انکار کردیا ، عدالت نے دعا زہرا کی عمر کے تعین کیلئے میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے شیلٹر ہوم بھیج دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس حکام نے دعازہرا اور اس کے شوہر ظہیر کو سندھ ہائیکورٹ میں پیش کردیا،عدالت نے دعا زہرا سے استفسار کیا کہ آپ کا نام کیا ہے،مہدی کاظمی سےکیا تعلق ہے۔

    دعا زہرا نے بتایا کہ میرا نام دعا زہرا ہے ، مہدی کاظمی میرے والد ہیں، جسٹس جنید غفار نے ریمارکس دیئے کہ ابھی لڑکی بیان دے گی اغوا کا مقدمہ ختم ہو جائے گا۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا درخواست گزار کی استدعا تھی بازیاب کرایا جائے اور لڑکی کا بیان لیا جائے، جس پر عدالت نے دعا زہرا سے حلف لینے کی ہدایت کردی۔

    عدالت نے دعا زہرا سے استفسار کیا کہ آپ کی عمر کیا ہے ؟ دعا زہرا نے بیان میں کہا کہ 18سال عمرہے ،مییں ظہیر کے ساتھ رہتی ہوں ، مکان کا نمبر پتہ نہیں ہے۔

    ظہیر نے مجھے اغوانہیں کیا

    عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کے والد نے کہا ہے کہ ظہیر نے آپ کو اغواکیا ہے؟ جس پر دعا زہرا نے بتایا کہ نہیں ظہیر نے مجھے اغوانہیں کیا ہے۔

    عدالت نے سوال کیا آپ کو کہاں سے بازیاب کرایا ہے ؟ تو دعا زہرا کا کہنا تھا کہ مجھے چشتیاں سے بازیاب کرایا ہے ، میں ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔

    جسٹس جنید غفار نے کہا 10جون کو کیس لگا ہوا ہے آج کیوں آئے ہیں ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ عدالت نے حکم دیا تھا جیسےدعا زہرا بازیاب ہو پیش کیا جائے۔

    عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ کیا چاہتےہیں اب آپ ، اےجی سندھ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نےبھی 10جون کو دعا زہرا کو طلب کررکھا ہے۔

    جسٹس امجد سہتو نے استفسار کیا ملزم کہاں ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایاکہ لڑکی اپنی مرضی سے صوبہ چھوڑگئی تھی ، لڑکی نے پنجاب جاکر شادی کی ، قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

    عدالت نے استفسار کیا لڑکی کے اغواکا کیس نہیں ہے؟ جس پر وکیل والد دعا زہرا نے کہا کہ لڑکی کے اغواکا مقدمہ ہے۔

    دعا زہرا کا والدین سے ملنے سے انکار

    عدالت میں دعا زہرانے والدین سے ملنےسے انکار کردیا ، وکیل والد نے استدعا کی تھوڑا سا وقت دیا جائے، عدالت کسی پر زور زبردستی نہیں کرسکتی۔

    وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ برتھ سرٹیفکیٹ ہے تاریخ پیدائش 27اپریل 2008ہے ، اب دعا کی عمر 14 سال اور کچھ دن ہے، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا وہاں پر کیا کیس ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں لڑکے کے والدین نے ہراساں کرنے کی درخواست کی، اس صوبے میں کوئی جرم نہیں ہوا ہے ، شادی وہاں ہوئی ہے کم عمری کی شادی کی دفعات نہیں لگتیں، بچی مرضی سے گئی ہے یہاں کوئی جرم نہیں ہوا ، پنجاب پولیس نے دعا زہرا اور ظہیر کو پیش کرنا ہے۔

    جسٹس جنید غفار کا کہنا تھا کہ بچی کی بازیابی سے متعلق درخواست تو غیر موثر ہوچکی ہے، بچی سامنے کھڑی ہے وہ خود کہہ رہی ہے مجھے کسی نے اغوانہیں کیا ، ہم لڑکی کے میڈیکل کرانے کا حکم دے رہے ہیں ، اگر لڑکی ملنا نہیں چاہتی تو ہم کیسے زبردستی کرسکتے ہیں، والدین کھڑے ہیں پریشان ہیں مگر ہم نےقانون کودیکھناہے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرا کی عمر کے تعین کیلئے میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کے تفتیشی افسر کو عمر کے تعین کی ہدایت کردی۔

    سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرا کو شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہم نے کئی بار دعا زہرا کی بازیابی کا حکم دیا ہے ، دعا زہرا کو آج پیش کیا گیا جس نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا دوسرے صوبے میں جاکر شادی کی، درخواست گزار مہدی کاظمی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔

    خیال رہے دعا زہرا اور اس کے شوہر کو رات گئے کراچی منتقل کیا گیا تھا ، پولیس حکام کا کہنا تھا کہ دعا زہرا کو ویمن پولیس کے حوالے کیا ہے، دعا زہرا کا شوہر اے وی سی سی کی حفاظتی تحویل میں ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز پسند کی شادی کرنےوالی کراچی کی دعا زہرا کو بہاولنگر سے بازیاب کروایا گیا تھا جبکہ پولیس نے شوہراور پناہ دینے والے کو گرفتار کرلیا تھا۔

    کراچی پولیس نے دعا زہرا کو شوہر سمیت بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں سے بازیاب کروایا، پولیس کے مطابق زیرحراست چشتیاں کے رہائشی محمدرفیع پر دعازہرہ اور اس کے شوہر ظہیرکوپناہ دینے کا الزام ہے۔

    واضح رہے دعا زہرا کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ کامران افضل کی کارکردگی پرعدم اطمینان کرتے ہوئے ان کی تبدیلی اور دس جون تک دعا زہرا کو پیش کرنےکا حکم دیا تھا۔

  • کھلے تیل کی فروخت، سندھ ہائی کورٹ کا گودام کھولنے کی اجازت دینے سے انکار

    کھلے تیل کی فروخت، سندھ ہائی کورٹ کا گودام کھولنے کی اجازت دینے سے انکار

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے کھلے تیل کی فروخت کرنے والے گوداموں کو ڈی سیل کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں کھلے تیل کی فروخت روکنے کا حکم دیا تھا، عدالتی حکم پر گودام سیل کر دیے گئے تھے، جس پر کھلے تیل کے ہول سیلرز نے ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

    عدالت نے گوداموں کو ڈی سیل کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا مشاہدے میں بات آئی ہے کہ کھلا تیل مضر صحت ہے، اس طرح کھلا تیل فروخت کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

    تاہم عدالت نے درخواست پر مزید سماعت کے لیے سندھ فوڈ اتھارٹی اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے 13 جون کو جواب طلب کر لیا ہے۔

    قبل ازیں، درخواست گزاروں کے وکیل یاسین آزاد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر ہول سیل کے 14 میں سے 8 گودام سیل کر دیے گئے تھے، ان گوداموں میں تیل کے علاوہ دیگر اشیائے خور و نوش بھی موجود ہیں، اس لیے گوداموں کی سیل کھولنے کا حکم دیا جائے۔

    سماعت کے دوران جسٹس عدنان اقبال نے کہا اب تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، گودام کھولنے سے ان کو تو فائدہ ہوگا، یاسین آزاد ایڈووکیٹ نے کہا غریب آدمی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

    یاد رہے کہ عدالت نے کھلا تیل مضر صحت ہونے کی درخواست پر گوداموں کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا، اب ہول سیلرز کی جانب سے درخواستیں آنے پر عدالت نے انھیں یک جا کر کے فریقین کو 13 جون کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔

  • ایم کیو ایم کی درخواست مسترد، سرکاری ملازمتوں پر حکم امتناع واپس

    ایم کیو ایم کی درخواست مسترد، سرکاری ملازمتوں پر حکم امتناع واپس

    سندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سرکاری ملازمتوں پر حکم امتناع واپس لے لیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے ملازمتوں سے متعلق ایم کیو ایم کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سرکاری ملازمتوں پر حکم امتناع واپس لے لیا ہے اور اس حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔

    عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ کیس فل بیچ تشکیل کیلیے چیف جسٹس کو بھیجا جائے، کوئی قانونی جوازموجود نہیں لیکن درخواست کی 8 سماعتیں ہوچکی ہیں، درخواست گزار وکیل سے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کیے لیکن وکیل نے دلائل دینے کے بجائے بینچ سے متعلق توہین آمیز ریمارکس دیے۔

    تحریری حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست گزار وکیل کی جانب سے بینچ اور عدلیہ کی توہین کی گئی، وکیل 15 سے 20 منٹ مسلسل توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے رہے،انہیں بار بار خاموش رہنے کا کہا گیا مگر وہ مسلسل بولتے رہے۔

    عدالتی حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ درخواست گزار وکیل کا رویہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا کہا ساتھ ہی کہا کہ وکیل کی کم عمری کی وجہ سے سخت کارروائی نہ کی جائے۔

    تحریری حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وکیل کو تنبیہ کی گئی ہے کہ آئندہ عدالت میں ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے، بصورت دیگر درخواست گزار وکیل کو قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    واضح رے کہ ایم کیو ایم نے سندھ کے مختلف محکموں میں 21 ہزار سے زائد آسامیوں پر پسند افراد کو بھرتی کرنے کے خلاف درخواست دی تھی اور عدالت نے حکومت کو 21 ہزار سرکاری ملازمتوں کی فراہمی سے روک رکھا تھا۔

     یہ بھی پڑھیں: سندھ میں نئی بھرتیوں پر اسٹے آرڈر برقرار

    ایم کیو ایم کی جانب سے درخواست گزاروں میں ایم این اے کشور زہرہ کے علاوہ ایم پی ایز ہاشم رضا، غلام گیلانی، جاوید حنیف اور وسیم الدین قریشی بھی شامل ہیں۔

  • 30 ہزار درختوں کی کٹائی، عدالت کا ریڈ لائن بس منصوبے پر حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار

    30 ہزار درختوں کی کٹائی، عدالت کا ریڈ لائن بس منصوبے پر حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے 30 ہزار درختوں کی کٹائی کے تناظر میں ریڈ لائن بس منصوبے پر حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں ریڈ لائن کی تعمیر کے لیے تیس ہزار درخت کاٹے جائیں گے، جس پر دو وکلا کیس کو سندھ ہائی کورٹ لے گئے ہیں۔

    عدالت نے بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس منصوبے کو روکنے کے لیے کوئی حکم جاری نہیں کیا جائے گا۔

    درخواست شاہ نواز اور محسن عباسی ایڈووکیٹ نے عدالت کو دی، جس میں انھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ درختوں کی کٹائی فوری روکی جائے۔

    درخواست گزاروں نے کہا کہ ریڈ لائن کی تعمیرات کے دوران 30 ہزار سے زائد درخت کاٹے جا رہے ہیں، اور اب تک 2 ہزار درخت کاٹ دیے گئے ہیں، اس لیے حکم امتناعی جاری کیا جائے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ کراچی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اگر مزید درخت کاٹے گئے تو یہ ماحول کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔

    تاہم جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کہا ہم فی الحال حکم امتناعی جاری نہیں کریں گے، ریڈ لائن بھی تو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بن رہی ہے۔

    عدالت نے اس سلسلے میں چیف سیکریٹری، سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، ڈائریکٹر جنگلات، وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ، ڈی سی ملیر اور کورنگی، ایڈمنسٹریٹر کراچی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، سی ای او ملیر کنٹونمنٹ بورڈ، سی ای او کورنگی کنٹونمنٹ بورڈ کو نوٹسز جاری کر دیے گئے۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ ہی وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ ریڈ لائن بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) پراجیکٹ کو درپیش مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے تاکہ اس کی راہداری پر کام بر وقت مکمل کیا جا سکے۔