Author: عظیم لطیف

  • ہاتھی کے کانوں والا پودا

    ہاتھی کے کانوں والا پودا

    یہ پودا آپ نے بھی اکثر بڑی کیاریوں، دفاتر اور گھروں کے اندر اور باہر بڑے بڑے گملوں‌ اور کشادہ جگہ پر رکھا ہوا دیکھا ہو گا۔ اسے عموماً خوب صورتی اور سجاوٹ کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر اسے Elephant Ear Plant کہتے ہیں۔

    اس پودے کے بڑے بڑے پتّوں‌ پر شبنم یا بارش کے قطرے ٹھہر جاتے ہیں اور بہت خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔ سبز کے علاوہ بھی اس پودے کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اس کے صاف اور سبز رنگ کے چمکتے ہوئے پتّے دیکھ کر خوش گوار احساس پیدا ہوتا ہے۔

    سائنسی دنیا میں‌ اس کا نام Colocasia ہے۔ ماہرینِ نباتات کے مطابق دنیا میں‌ اس پودے کی 3000 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔

    یہ برّاعظم ایشیا کے جنوب مشرقی ممالک جن میں انڈونیشیا، ملائیشیا ویت نام، لاؤس، جاپان وغیرہ شامل ہیں، ان کے ٹراپیکل (Tropical) خطّے میں پایا جاتا ہے۔ یاد رہے دنیا کے نقشے پر ٹراپیکل سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں تقریباً سارا سال بارش ہوتی ہے اور موسم گرم رہتا ہے۔ آج بڑے اور پھیلے ہوئے پتّوں والا یہ پودا پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں‌ دیکھا جاسکتا ہے۔

    یہ پودا کیوں اتنا عام ہے؟
    اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت آسانی سے جڑ پکڑ لیتا ہے اور تیزی سے نشوونما پاتا ہے جس کے بعد خوب صورت اور بڑے پتّے دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہ موسم کی سختیاں برداشت کرلیتا ہے اور مٹّی کا بھی عادی ہوتا ہے۔ اسے پودوں‌ کے لیے ضروری مٹّی اور باقاعدہ پانی کافی ہوتا ہے البتہ زرخیز زمین اور سازگار ماحول میں‌ اس پودے میں‌ جان پڑ جاتی ہے۔ اس کے بڑے اور خراب ہو جانے والے پتّوں کو الگ کردیا جائے تو نئے پتّوں کو اگنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کا تنا بلندی کی طرف بڑھتا ہے جس سے نکلنے والی شاخوں‌ پر یہ خوب صورت پتّے موجود ہوتے ہیں۔

    کیا یہ پودا اور اس کے پتّے زہریلے ہوتے ہیں؟
    جی ہاں۔ اس کے پتّے کافی زہریلے ہیں اور اس کی وجہ ان میں موجود کیلشیم آکسیلیٹ کیمیکل ہے۔ اس پودے کے تنے اور پتّوں میں یہ کیمیکل لمبی لمبی نہ نظر آنے والی سوئیوں (Needle Like Crystals) کی طرح ہر جگہ موجود ہے۔ جب کوئی جانور یا انسان اس پودے کے پتّوں کو چھوتا یا کھاتا ہے تو یہ کیمیکل جلد میں گھس جاتا ہے اور سوجن پیدا کرتا ہے۔ اگر منہ میں چلا جائے تو ہونٹ اور حلق سوج جاتے ہیں‌ اور سانس لینا یا نگلنا دشوار ہوجاتا ہے۔

    کیا یہ انسانوں‌ کے لیے کسی طرح‌ مفید ہے؟
    یہ پودا ہماری فضا کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سے سالن اور پکوڑے بھی بنتے ہیں۔ جی ہاں! اس پودے کے تنے اور پتّوں میں سے کیلشیئم آکسیلیٹ نکال کر انہیں کھایا جاتا ہے۔ اس زہریلے کیمیکل کو نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ پتّے کا چھلکا اور اس کی نسیں (Veins) کاٹی جاتی ہیں، پتّوں کو ٹھنڈے پانی میں تھوڑی دیر بھگویا جاتا ہے۔ اس کے بعد ابال کے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے تنے اسفنج کی طرح ہوتے ہیں اور زیادہ تر اسے مچھلی کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ اس کی جڑ جو آلو کی طرح موٹی ہوتی ہے اسے آلو ہی کی طرح کاٹ کر تلا جاتا ہے یا سالن میں ڈال کر پکایا جاتا ہے۔

    بہت سے ممالک میں اس کی جڑ سے میٹھی ڈش(Desert) بنتی ہے جو بہت لذیذ ہوتی ہے۔ اس کے پتّوں میں وٹامن سی، بی1، اور بی 2 شامل ہیں جب کہ جڑ میں امینو ایسڈ اور نشاستہ موجود ہوتے ہیں۔ یہ جسم کے پٹھے مضبوط کرتے اور جسم کو فربہ بناتے ہیں۔

    اس پودے سے لوگ لاکھوں روپے کماتے ہیں، کیوں‌ کہ ان کی بعض اقسام بہت مشکل سے دست یاب ہوتی ہیں اور یہ منہگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔

    اس پودے کو گھروں میں لگائیں تو بچّوں کو اس سے دور رکھیں اور اگر کھائیں تو اس کی سب سے محفوظ چیز یعنی جڑ کھائیں۔

  • کوّا پیاسا نہیں مَر سکتا…

    کوّا پیاسا نہیں مَر سکتا…

    پیاسا کوّا کے عنوان سے کہانی آپ نے بھی پڑھی ہو گی۔ اس مشہور کہانی میں کوّے کی ذہانت کو خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ کوّا وہ پرندہ ہے جو واقعی بھوک اور پیاس سے نہیں مَر سکتا ہے۔ خدا نے اپنی اس مخلوق کو ان صلاحیتوں اور اسی ذہانت سے نوازا ہے کہ یہ ‘پاتال’ سے پانی ڈھونڈ نکالے۔

    حیوانات کے ماہرین نے اس پرندے کے خاندان کو Corvidae کا سائنسی نام دے رکھا ہے جن میں کوّے سے مماثلت رکھنے والے کئی پرندے مثلاً Raven, Rooks, Jays, Magpies Jackdaws وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس خاندان میں 133 مختلف پرندوں میں سے 40 نسلیں کوؤں کی ہیں۔

    پاکستان میں عام طور پر سرمئی رنگ کی گردن اور کالے جسم والا کوّا پایا جاتا ہے جسے House Crow کہتے ہیں۔

    اس پرندے (گھریلو کوّے) کی ذہانت بہت مشہور ہے۔ یہ نہ صرف درخت کی چھوٹی موٹی ٹہنیوں، تنکوں کو بطور اوزار استعمال کر کے کھانا تلاش کرنا جانتا ہے بلکہ لوہے تانبے کی پتری وغیرہ کو چونچ سے موڑ کر اس کا پھندا سا بنا کر کسی جگہ سے اپنے کھانے کی کوئی شے حاصل کرنا بھی جانتا ہے۔

    کوّے کے دماغ میں 1.5 بلین نیورون ہوتے ہیں اور اتنے ہی نیورون مختلف نسل کے بندروں میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن یہاں ایک فرق ہے۔ کوّے کا دماغ اور بندر کے دماغ کا سائز بہت مختلف ہے۔ اس ننّھے دماغ کے اندر یہ تمام نیورون انتہائی قریب ہوتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ دماغ کو ملنے والے سگنلز تیزی سے ادھر سے ادھر ہوتے ہیں اور یوں دماغ کے نیورون کی آپس میں‌ کمیونیکشن یا رابطہ بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے آپ پتّھر اٹھانے کے لیے جھکتے ہیں اور دوسری طرف کوّا اُڑ چکا ہوتا ہے۔

    اس پرندے کا آئی کیو لیول انتہائی زبردست ہے۔ ماہرین اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بن مانس یا سات سالہ بچّے کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے برابر تصوّر کرتے ہیں۔

    کوّے کی غذائی عادات اور اس کی خوراک کی بات کی جائے تو یہ مردار خور بھی ہے، لیکن یہ اس کا بنیادی طریقۂ حصولِ خوراک نہیں۔ آپ اگر تجربہ کریں تو معلوم ہو گا کہ کھلی جگہ جیسے چھت پر باقاعدگی سے کھانا کھائیں تو اس پرندے کو آپ کا یہ وقت یاد رہے گا اور ہر روز باقاعدگی سے وہ اس جگہ پر پہنچے گا اور موقع ملتے ہی آپ کی کسی ڈش سے کچھ نہ کچھ اڑا لے جائے گا۔ اسی طرح کوّا کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کی آمدورفت کے اوقات جانتا ہے۔ الغرض جہاں خوراک کی بھرمار اور کوّے کے لیے غذا کی دست یابی آسان ہو، یہ ہر اس جگہ اور مقام سے واقف ہے۔

    کوّا بیج، پھل، سبزی، گوشت، مردہ پرندے حتّٰی کہ انسانی لاشوں کو بھی نوچتا ہے اور چھوٹے پرندوں کے انڈے اور بچّے بھی کھا جاتا ہے۔

    یہ پرندہ گروہ کی شکل میں‌ رہنا پسند کرتا ہے۔ اگر آپ کسی کوّے کو مارتے ہوں تو جواب میں‌ بہت سے کوّے آپ کو دیکھ کر کائیں کائیں کرنے اور سَر پر ٹھونگیں‌ مارنے کے لیے جمع ہو جائیں گے۔ یہ نہ صرف انتقامی جذبات رکھتا ہے بلکہ اپنے خاندان کو بھی آپ کے حلیے سے آگاہ کردیتا ہے۔

    افزائشِ نسل کے لیے کوّا ٹہنیوں، تنکوں سے اپنا گھونسلہ بناتا ہے اور ایسے درخت کا انتخاب کرتا ہے جو گھنا اور پھیلا ہوا ہو۔ مادہ کے انڈے دینے کا وقت اپریل تا جولائی ہوتا ہے جس میں یہ تین سے پانچ انڈے دیتی ہے۔ ایک ہی درخت پر کوّے کے بہت سارے گھونسلے ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر کوّے 15 سے 20 سال کی عمر پاتے ہیں۔

  • گیانا کے قومی پرندے کو فارسی میں گند مرغ کیوں کہتے ہیں؟

    گیانا کے قومی پرندے کو فارسی میں گند مرغ کیوں کہتے ہیں؟

    گیانا (Guyana) جنوبی امریکا کے شمالی ساحل پر واقع ایک ملک ہے، جس کی سرحدیں وینزویلا، سرینام اور برازیل سے ملتی ہیں۔ اس ملک کا قومی پرندہ Hoatzin ہے جسے فارسی میں گند مرغ کہتے ہیں جس کی وجہ اس کے جسم سے آنے والی بدبُو ہے۔

    یہ جنوبی امریکا اور اس خطّے کے گھنے جنگلات کے دلدلی علاقوں، جوہڑوں اور تالابوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے اور گیانا ہی نہیں برازیل، وینزویلا، کولمبیا کے بھی ایسے ہی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

    یہ ایک عجیب و غریب پرندہ ہے جس کا سارا دن گائے بھینسوں کی طرح پتّے وغیرہ کھاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ یہ کوئی بھی پھل کم ہی کھاتا ہے۔ کیڑے مکوڑے یا چھوٹے حشرات بالکل نہیں کھاتا۔ یہ ڈھیر سارے پتّے کھا کر اپنی خوراک کی نالی (گلے) میں مخصوص مقام پر ذخیرہ کرتا ہے اور یہاں قدرتی نظام کے تحت خاص بیکٹیریا اسے جسمانی غذائی ضرورت کے لیے مخصوص شکل میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ پتّے کھانے کی وجہ سے اس کے جسم سے مسلسل گائے کے گوبر جیسی بُو آتی رہتی ہے اور اس کا گوشت بھی بہت بدمزہ ہوتا ہے۔

    یہ مادہ سے ملاپ کے وقت نہایت پُراسرار اور خطرے کی صورت میں بھیانک قسم کی آواز نکالتا ہے۔ ماہرین کے مطابق گند مرغ شور مچانے والا پرندہ ہے جو پرواز نہیں‌ کرسکتا اور درختوں پر اچھل کود کے علاوہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ہوا میں غوطہ لگاسکتا ہے۔ قدرت نے اسے درختوں کی شاخوں پر تیزی سے اوپر نیچے اور لمبی چھلانگیں لگانے کی صلاحیت دے رکھی ہے۔ اس کے پیروں کے پنجے بڑے اور مضبوط ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ درخت کی شاخوں پر اپنی گرفت قائم رکھتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے بازوؤں میں بھی اندر کی جانب چھوٹے چھوٹے پنجے موجود ہوتے ہیں جن سے یہ ٹہنیوں پر اچھل کود کے دوران گرفت قائم رکھتا ہے۔ زمین سے کسی درخت پر چڑھنا ہو تو یہ اپنے پروں کو پھیلا کر ان کے اندر موجود پنجوں کو استعمال کرتے ہوئے آسانی سے اوپر چڑھ جاتا ہے۔

    یہ درختوں پر گھونسلا بھی بناتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ پرندہ زیادہ تر دریا اور تالاب کے ساتھ موجود درختوں پر آشیانہ قائم کرتا ہے جہاں اس کے بچّے کسی حملہ آور کو دیکھ کر نیچے پانی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ خطرہ ٹل جانے پر باہر نکل کر تیرتے ہوئے باہر نکلتے ہیں اور اپنے پیروں اور بازوؤں کے پنجوں کی مدد سے درخت پر بنے ہوئے اپنے گھونسلے میں دوبارہ پہنچ جاتے ہیں۔

    گند مرغ 12 سے 15 سال تک زندہ رہتے ہیں اور اکثر بازوں، سانپوں اور بندروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ اس کے مختلف نام ہیں جو اس کی خصوصیات کی بنا پر اسے ماہرین نے دیے ہیں۔ یہ خطرناک اور خوب صورت پرندہ ہے جس کی لمبی گردن اور آنکھوں کی سرخی مائل بھوری رنگت ہی نہیں‌ اس کے پروں کا پھیلاؤ بھی نہایت دل کش معلوم ہوتا ہے۔ سَر پر پروں کا تاج سا ہوتا ہے جو دور سے دیکھنے پر نہایت بھلا لگتا ہے۔

  • دریائی گھوڑا: وہ جانور جس سے‌ کوئی درندہ نہیں‌ الجھنا‌ چاہتا

    دریائی گھوڑا: وہ جانور جس سے‌ کوئی درندہ نہیں‌ الجھنا‌ چاہتا

    Hippo (ہیپو) کو ہم دریائی گھوڑا کہتے ہیں۔ اس جانور کا پورا نام hippopotamus ہے جو یونانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے دریا میں رہنے والا گھوڑا۔ یہ برّاعظم افریقا میں‌ پایا جاتا ہے جہاں دریا، ندی، نالے، تالاب اور جوہڑ اس کا مسکن ہیں۔

    اس جانور کی بڑی تعداد برّاعظم افریقا کے ملک زیمبیا میں (40 ہزار) اور دوسرے نمبر پر تنزانیہ (20 ہزار) رہتی ہے۔ یہ افریقا کے علاوہ کسی اور برّاعظم میں نہیں پائے جاتے۔

    کسی دریائی گھوڑے کا وزن 1500 سے 4500 کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ نر کی بہ نسبت مادہ کا وزن چند سو کلو کم ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھاری بھرکم وجود انھیں پانی کے اندر تیز لہروں میں اپنی جگہ جمے رہنے میں‌ مدد دیتا ہے۔ یہ تیرتے نہیں ہیں بلکہ پانی میں اچھل کود کرتے اور چھلانگیں لگاتے ہیں۔ وزنی اور بھاری بھرکم ہونے کے باوجود یہ انسان سے تیز دوڑ سکتے ہیں۔

    قدرت نے ان کا جسم پانی میں رہنے کے لیے خاص طرح ڈیزائن کیا ہے۔ یہ پانی سے باہر زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے، ان کی کھال خشک ہو کر پھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ ان کے جسم سے سرخ رنگ کا مادّہ نکلتا ہے۔ یہ ان میں قدرتی طور پر پایا جانے والا Sun Screen Lotion ہے جو انھیں دھوپ سے بچاتا ہے اور جراثیم کُش کے طور پر کام کرتا ہے۔

    اگر آپ غور کریں تو اس کی ناک، آنکھیں اور کان ایک سیدھ میں نظر آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیپو پانی میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنا پورا منہ بھی باہر کم ہی نکالتا ہے اور صرف سَر کا اوپری حصّہ باہر رکھتا ہے اس کا باقی دھڑ پانی کے اندر ہوتا ہے اور یوں اس کی جلد دھوپ وغیرہ سے بچی رہتی ہے۔ پانی کے اندر یہ اپنے ناک کے نتھنے اور کان بند کر لیتا ہے۔ اس کی آنکھ میں اضافی حفاظتی جھلّی ہوتی ہے جو اسے پانی میں دیکھنے کے قابل بناتی ہے۔

    ہیپو کے منہ میں 38 سے 44 دانت ہوتے ہیں۔ اس کے دانتوں کی بناوٹ بھی خاص ہوتی ہے جیساکہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ سامنے والے سیدھے دانت کسی بھی چیز کو توڑنے میں‌ مددگار ہیں جب کہ جبڑوں کے کناروں پر سینگ جیسے دوسرے لمبے دانت (Canine) چیر پھاڑ کرنے کے کام آتے ہیں۔ منہ کی پچھلی جانب ڈاڑھیں ہوتی ہیں۔ یہ اپنے ہونٹوں سے گھاس توڑتے ہیں اور اسے ڈاڑھوں سے پیستے ہیں۔

    افریقا کے گرم ممالک کا یہ جانور سارا دن پانی میں گزارتا ہے اور رات کے وقت گھاس چرنے کے لیے باہر نکلتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ریٹینا کے پیچھے ایک Tapetum Lucidum نامی ایک تہ ہوتی ہے جس کی مدد سے یہ رات کے وقت بھی آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ نے کتّے، بلّی وغیرہ کی آنکھوں کو رات میں چمکتے ہوئے دیکھا ہو گا، یہ اسی تہ کی وجہ سے ہے۔

    ہیپو خطرناک اور انتہائی غصیلا جانور ہے۔ افریقا کے جنگلات میں شیر، تیندوے، چیتے بھی ہیں، ہاتھی گینڈے اور مگرمچھ جیسی مخلوق بھی، لیکن افریقا میں سب سے زیادہ انسانی جانیں اسی جانور کے حملے میں‌ ضایع ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال افریقا میں پانچ سو سے زائد انسان ہیپو کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جو مچھر اور سانپ کو چھوڑ کر کسی بھی ایسے جانور کے حملے میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ تعداد ہے۔ افریقا میں لوگ دریائوں ندیوں پر مچھلیوں کے شکار کی غرض سے جاتے ہیں اور یہیں یہ جانور ان کو اپنا شکار کرلیتا ہے۔

    ہیپو سات منٹ تک پانی کے اندر رہ سکتے ہیں۔ یہ اکثر خطرہ محسوس کرنے پر کشتیوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ دوسرے جانور بھی ان سے دور ہی رہتے ہیں، کیوں‌ کہ یہ کسی بھی وقت کسی پر بھی حملہ کر دیتے ہیں اور زیادہ تر اکٹّھے رہتے ہیں۔ ان کے دانت دو فٹ تک لمبے ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے یہ اپنے شکار کو دبوچ کر اپنا بڑا سا جبڑا کھول کر یکبارگی میں زندگی سے محروم کرسکتے ہیں۔ ان کے جبڑے میں اتنی طاقت ہوتی ہے جو دس فٹ کے کسی مگر مچھ کو دو لخت کرنے کے لیے کافی ہے۔

    یہ آپس میں‌ بھی بھڑ جاتے ہیں‌ اور خاص طور پر افزائشِ نسل کے لیے مادہ ہیپو کو رجھانے اور ملاپ کے لیے ان میں زبردست لڑائیاں ہوتی ہیں۔ مشہور ہے کہ نر ہیپو اکثر نومولود ہیپو کو مار ڈالتا ہے۔ مادہ ہیپو دو سال میں ایک بچہ پیدا کرتی ہے۔

    قدرت کے کارخانے میں‌ کوئی چیز نکّمی اور ناکارہ نہیں‌ بلکہ ہر جانور کوئی نہ کوئی ایسا کام یا افعال انجام دیتا ہے جن سے دوسری مخلوق بلواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ اٹھاتی ہے۔ دریائی گھوڑا بھی ایک ایسی ہی مخلوق ہے جو قدرت کے اس نظام کا توازن برقرار رکھنے میں‌ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ دریائوں میں حرکت کرتے ہوئے یہ جانور اپنے بھاری پیروں سے لمبی نالیاں یا ایسے راستے بناتا چلا جاتا ہے جس سے گزر کر پانی قریبی زمین کو سیراب کرنے لگتا ہے اور وہاں طرح طرح کا سبزہ اور گھاس اگتی ہے۔ اس طرح دوسرے جانوروں اور پرندوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوجاتا ہے۔

    دریائی گھوڑے کا دوسرا اہم کام نباتات کو پھلنے پھولنے میں‌ مدد دینا ہے اور زرخیزی پھیلانا ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ جانور روزانہ تقریباً پچاس کلو گھاس کھاتے ہیں اور بڑی مقدار میں گوبر مختلف پودوں، جھاڑیوں اور پانی میں پھینکتے ہیں۔ وہ یہ عمل اس طرح انجام دیتے ہیں جیسے فصل پر اسپرے کیا جاتا ہے اور یوں نباتات کی افزائش اور نشوونما ہوتی ہے۔

    دریائی گھوڑے کا سامنا ہونے پر آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک طرف کھڑا ہوکر آپ کو اپنا قد کاٹھ دکھا کر ڈرانے کی کوشش کرے گا، اگر آپ اس سے دور نہ ہوئے تو اپنا منہ پورا کھول دے گا جو ایک سخت تنبیہ ہے کہ مجھ سے دور ہوجائو اور زیادہ خطرہ محسوس کرنے پر اگلے لمحے حملہ آور بھی ہوسکتا ہے۔

    یاد رکھیں یہ انسان سے تیز تقریباً 45 کلومیٹر کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ اگر آپ پانی میں ہیں تو مخالف سمت بھاگیں، کیوں کہ عام طور پر دریائی گھوڑا پانی میں اپنے ٹھکانوں سے 5 کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں‌ جاتا اور اگر خشکی پر اس جانور سے سامنا ہوگیا ہے تو جھاڑیوں، پتھروں کے پیچھے چھپتے ہوئے زگ زیگ بھاگیں اور اس سے فاصلہ بڑھاتے چلے جائیں۔

    اس جانور کی اوسط عمر 50 برس ہوسکتی ہے۔