کراچی : سوشل میڈیا پر گزشتہ روز وائرل ہونے والی ایک رومانوی ویڈیو کے مناظر نے لاکھوں دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا، اس ویڈیو کو دیکھنے والوں کی تعداد اب تک ایک ملین سے زائد ہوچکی ہے۔
مذکورہ ویڈیو میں خوبرو لڑکی ایک نوجوان کو دیکھ کر ایسے دلفریب اشارے کرتی نظر آرہی ہے کہ دیکھنے والا دم بخود ہوجائے۔
یہ منظر ایک بھارتی فلم کا ہے، جس کے ایک کلپ کو سوشل میڈیا پر دیکھنے والوں نے بے حد پسند بھی کیا اور اورخوب کمنٹس بھی کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ویڈیو لاکھوں صارفین تک جا پہنچی، یہ منظر ملیالم زبان کی فلم ’ اورو آدار لو‘ کے ایک سین پر مشتمل ہے جس کے ڈائریکٹرعمرلالو ہیں۔
اس ویڈیو کی مقبولیت کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس ویڈیو کے بعد یہ لڑکی نوجوانوں کا نیا ”کرش“ بن چکی ہے اور سب دیپیکا پڈوکون اور دیشا پٹانی کو بھی بھول گئے ہیں۔
اس پوسٹ کو دیکھنے اور پسند کرنے والے اکثر صارفین اس اداکارہ کا نام جاننے کی کوشش کرتے رہے جس پر ہم نے ان کی یہ مشکل بھی آسان کردی۔
جی ہاں اس خوبرو بھارتی اداکارہ کا نام پریا پرکاش وریارہے جس کی عمر ابھی 18 سال ہے اور یہ بھارتی ریاست کیرالہ کے شہر تھریسور میں ویمالا کالج میں بی کام کی طالبہ ہے۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ہریا پرکاش وریار کے انسٹا گرام پر فالوورز کی تعداد اب تک چودہ لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے جو کسی سیلیبرٹی کے نصیب میں ہی آتے ہیں۔
کراچی :آج اردو کے ممتاز شاعر محسن نقوی کا یوم وفات ہے، ان کا اصل نام سید غلام عباس نقوی تھا، اور آپ 5 مئی 1947 کو محلہ سادات ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے ۔
محسن نقوی نے بچپن سے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجہ دی، مسجد کے ساتھ گھر میں قرآن مجید اور ناظرہ کی طرف توجہ دیتے اور مذہبی کتابیں ذو و شوق سے پڑھتے تھے۔
انہوں نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا، اور کم و بیش اسی زمانے میں ان کی شاعری کا بھی آغاز ہوا۔
بعد ازاں تعلیم کو خیر باد کہہ کر ذاتی کاروبار کی طرف راغب ہو گئے اور انیس سو سڑسٹھ میں اپنی چچا زاد سے شادی کرلی، محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔
گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ” الغازی” کے مدیر اور کالج کی یونین کے نائب صدر تھے، جب انہوں نے ” فکر جدید” نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہو گیا۔
کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے، سب ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ان دنوں ان کا ایک قطعہ بے حد پذیرائی حاصل کرنے لگا۔
چاندنی کارگر نہیں ہوتی تیرگی مختصر نہیں ہوتی ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں احتراماً سحر نہیں ہوتی
ایک مرتبہ محسن نقوی اپنے ماموں زاد سید علی شاہ نقوی کے ہمراہ اکٹھے گاڑی میں لاہور جا رہے تھے راستے میں ماچس کو انگلیوں سے بجاتے جاتے اور شعر کہتے جاتے اور لاہور تک انہوں نے ایک ایسی غزل کہہ ڈالی جو آج تک بھی زبان زد عام ہے وہ غزل تھی”
یہ دل یہ باگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی”
جسے پاکستان کے ہر دلعزیز گلوکار غلام علی نے گا کر ہمیشہ کے لیئے امر کر دیا۔
انیس سو انہتر میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے باقاعدہ کارکن کی حیثیت سے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے سیاست میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اس حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔
انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی۔ 1994ء میں انھیں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا تھا۔
محسن نقوی کا پہلا شعری مجموعہ بند قبا 1970ء میں دوستوں کے مالی تعاون سے منظرعام پر آیا جس میں انہوں نے 1965 ء سے 1970 ء تک کی شاعری شائع کی اور اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی محسن نقوی کا نام اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید ہو گیا۔
اگر نہ صبر مسلسل کی انتہا کرتے کہاں سے عزم پیغمبر کی ابتدا کرتے؟ نبی ﷺکے دیں کو تمنا تھی سرفرازی کی حسین سرنہ کٹاتے تو اور کیا کرتے؟
ان کے شعری مجموعات میں بندِ قبا، ردائے خواب، برگِ صحرا، موجِ ادراک، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، فراتِ فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہیں۔
محسن طلوعِ اشک دلیلِ سحر بھی ہے شب کٹ گئی ، چراغ بجھا دینا چاہیے
پندرہ جنوری 1996 کی ایک شام اس نامور شاعر محسن نقوی کو نامعلوم دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر کے ہمیں ایسا کر ب دیا جو کبھی بھی کم نہ ہو سکے گا۔
سال 2017 گزر گیا لیکن اپنے ساتھ خوشگوار یادوں کا گلدستہ دینے کے ساتھ ہی بہت ساری ان شخصیات کو بھی لے گیا جن کو یاد کرکے ہم اداس رہیں گے، ان لوگوں میں معروف ادیب، گلوکار و اداکاراور سماجی شخصیات شامل ہیں۔
ان شخصیات نے اپنے اپنے شعبہ جات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ملک و قوم کا نام روشن کیا،جن کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس حوالے سے ہم نے ان میں سے چند شخصیات کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔
استاد فتح علی خان ۔ وفات 4جنوری ۔ عمر 82سال
معروف کلاسیکل گائیک استاد فتح علی خاں طویل عرصہ سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے، استاد فتح علی خان، استاد امانت علی اور حامد علی کے چھوٹے بھائی اور اسد امانت علی خان کے چچا تھے۔
بانو قدسیہ ۔ وفات 4فروری۔ عمر 88 سال
اردو ادب کی معروف مصنفہ اور اشفاق احمد کی اہلیہ بانو قدسیہ معروف ادیب اشفاق احمد کی اہلیہ تھیں، وہ خود بھی ادب کا ایک درخشاں ستارہ تھیں، بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ بہت مشہور ہوا۔ اُن کی ادبی خدمات آئندہ نسلوں تک یاد رکھیں جائیں گی۔
فاروق ضمیر۔ وفات 23فروری ۔ عمر 78سال
پاکستان ٹیلی ویژن کے سنجیدہ اور دھیمے لہجے کے حوالے سےمشہور فنکار فاروق ضمیر منکسر المزاج اور ہنس مکھ شخصیت کے مالک تھے، ان کی وفات سے پی ٹی وی کا ایک سنہرا دور اپنے اختتام کو پہنچا، مرحوم اپنی اداکاری اور ڈائیلاگ ڈیلیوری کی وجہ سے منفرد مقام رکھتے تھے۔
ونود کھنہ ۔ 27وفات اپریل۔ عمر 70 سال
بھارتی فلموں کے مشہور اداکار ونود کھنہ طویل عرصے سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے، بالی ووڈ پر راج کرنے والے اس اداکار نے ایک سو اکتالیس سے زائد فلموں میں کام کیا اور آخری بار 2015 میں شاہ رخ خان کی فلم دل والے میں جلوہ گر ہوئے، مرحوم نے ملکی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
نعت خواں منیبہ شیخ ۔ وفات 14مئی ۔عمر 70سال
معروف نعت خواں اور صدارتی ایوارڈ یافتہ منیبہ شیخ طویل عرصے سے گردے کے امراض میں مبتلا تھیں۔ منیبہ شیخ نے فارسی، اسلامی تاریخ، انڈین اسٹڈیز میں ایم اے کیا، جبکہ استاد امراؤ بندو خان سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی، انہوں نے ریڈیو پاکستان سے پہلی مرتبہ نعت مرحبا سیّدی مکّی مدنی العربی پڑھی جس سے انہیں کافی شہرت ملی۔
عامر ذکی۔ وفات 2جون۔ عمر 49 سال
معروف میوزیکل بینڈ وائٹل سائنز سے شہرت پانے والے پاکستانی گٹارسٹ عامر ذکی دل کا دورہ پڑنے کے باعث دار فانی سے کوچ کرگئے، انہوں نے 1995 میں ‘سگنیچر’ کے نام سے اپنی البم ریلیز کی جس کے گیت ‘میرا پیار’ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ ۔ وفات 10اگست۔ عمر 87سال
جذام کے مریضوں کا مفت علاج کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ المعروف پاکستانی "مدرٹریسا” کی خدمات پر انہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلالِ امتیاز، جناح ایوارڈ اور نشان قائداعظم سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ 1960 میں پاکستان آئیں اور پھر جذام کے مریضوں کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی ۔
نصرت آراء ۔ وفات 14 اکتوبر۔ عمر 65 سال
لاہور : بچوں کی مشہور ڈرامہ سیریل عینک والا جن کے کردار بل بتوڑی سے شہرت پانے والی اداکارہ نصرت آرا انتہائی کسمپرسی کے عالم میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث خالق حقیقی سے جاملیں، زندگی کےآخری سالوں میں وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئی تھیں، چوبیس برس بعد بھی بل بتوڑی کا کردار ہمارے ذہنوں میں زندہ ہے۔
رومی انشاء۔ وفات 17 اکتوبر۔ عمر 42سال
معروف شاعر اور مزاح نگار ابنِ انشاء کے صاحبزادے ہدایتکار رومی انشاء حرکت قلب بند ہونے کے باعث کراچی میں انتقال کر گئے، رومی انشا کا آخری سیریل”رسم دنیا” تھا، جو اے آر وائی ڈیجیٹل سے آن ایئر ہوا۔
ششی کپور ۔ وفات 4دسمبر ۔ عمر 79سال
تین سال کی عمر سے اداکاری کے جوہر دکھانے والے بالی ووڈ انڈسٹری کے نامور اداکار ششی کپور نے کئی شہرہ آفاق فلموں میں نمایاں کردار ادا کیا، امیتابھ بچن کے ساتھ ان کی جوڑی بہت مشہور ہوئی، سو سے زائد فلموں میں کام کے دوران انہیں بھارت کے کئی بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔
خواجہ اکمل ۔ وفات 25 نومبر۔ عمر 60سال
پاکستان کے معروف کامیڈین خواجہ اکمل کوئٹہ میں دل کا دورہ پڑنے سے مداحوں سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے، اے آر وائی ڈیجیٹل سے پچھلے کئی سالوں سے ان کی سپرہٹ کامیڈی سیریل ’بلبلے‘ جاری تھی۔ ان کے مقبول ڈراموں میں رس گلے اور دیگر شامل ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔
کراچی : ماضی کے مشہور اداکار اور چاکلیٹی ہیرو ششی کپور جو آج ہم میں نہیں رہے، وہ صرف ایک اداکار ہی نہیں بلکہ فلم پروڈیوسر بھی تھے، انہوں نے بڑی تعداد میں ہندی فلموں کے ساتھ ساتھ کچھ انگریزی فلموں میں بھی کام کیا۔
ششی کپور نے ماضی کی کئی معروف اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا، ان کا پورا گھرانہ ہی بالی ووڈ سے وابستہ ہے، ان کے بڑے بھائی راج کپور، شمی کپور سمیت ان کے بھتیجوں رشی کپور، رندھیرکپور اور ان کے بھائی راج کپور کے پوتوں اور پوتیوں کرشمہ کپور ، کرینہ کپور اور رنبیر کپور نے فلموں میں کام کرکے خوب شہرت سمیٹی ہے۔
چاکلیٹی ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان پر فلمائے گئے کچھ مشہور گیت ہم قارئین کی نذر کررہے ہیں۔
‘‘فلم جب جب پھول کھلے کا ایک خوبصورت گیت ’’ پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا، پردیسیوں کو ہے ایک دن جانا
جسے گلوکار محمد رفیع نے گا کر امر کردیا۔
‘‘فلم شرمیلی کا مشہور گیت ’’کھلتے ہیں گل یہاں کھل کے بکھرنے کو ملتے ہیں دل یہاں مل کے بچھڑنے کو
جسے گلوکار کشور کمار نے اپنی دلفریب آواز میں گایا۔
فلم پیار کا موسم کا یہ گیت ’’تم بن جاؤں کہاں کہ دنیا میں آکے، کبھی نہ پھر چاہا کبھی تم کو چاہ کے‘‘۔
یہ گیت محمد رفیع کی مسحور کن آواز میں جب بھی سنیں کانوں کو بھلا لگتا ہے۔
فلم کنیادان کا یہ نغمہ ’’ لکھے جو خط تجھے وہ تیری یاد میں ہزاروں رنگ نظارے بن گئے‘‘۔
محمد رفیع کا یہ گیت بھی آج بھی سننے والوں کو ماضی کی یادوں میں دھکیل دیتا ہے۔
فلم دیوار میں گایا گیا پیار بھرا یہ نغمہ پیار کرنے والوں کے دلوں کے تاروں کو چھیڑ دیتا ہے۔ کہہ دوں تمہیں یا چپ رہوں دل میں میرے آج کیا ہے ‘‘۔’’:
کشور کمار کی مسحور کن آواز میں آپ بھی سنیئے۔
فلم کالا پتھر کا یہ خوبصورت گیت ’’بانہوں میں تیری مستی کے گھیرے‘‘۔
محمد رفیع اور لتا منگیشکر کی دلفریب آواز میں گایا ہوا یہ گانا جب بھی سنیں کانوں میں رس گھول دیتا ہے۔
فلم سوائموار یہ گیت محمد رفیع اور بیگم اختر کی خوبصورت آوازوں میں ’’مجھے چھو رہی ہیں تیری گرم سانسیں میرے رات اور دن مہکنے لگے ہیں‘‘۔آج بھی ماضی کی طرح اتنا ہی مقبول ہے۔
فلم چور مچائے شور کا یہ غمگین نغمہ ’’ گھنگرو کی طرح بجتا ہی رہا ہوں میں‘‘۔ کشور کمار کی آواز میں آج بھی ماضی کی طرح مقبول عام ہے۔
فلم کرودھی کا مشہور گانا ’’ لڑکی تمہاری کنواری رہ جاتی کہ مانو ہمارا احسان کہ لڑکے نے ہاں کردی‘‘۔
کشور کمار اور آشا بھوسلے کی آوازوں میں یہ گانا آج بھی شادی بیاہ کی تقاریب میں شوق سے سنا جاتا ہے۔
فلم حسینہ مان جائے گی کا یہ بے حد خوبصورت اور سدا بہار گیت ’’ بے خودی میں صنم اٹھ گئے جو قدم، آگئے پاس ہم‘‘۔ گلوکارہ لتا منگیشکر اور محمد رفیع کی مسحور کن آوازوں میں سننے والوں پر اپنا سحر طاری کردیتا ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
تہران : ایرانی حکومت نے خواتین کبڈی کے مرد کوچ کو حجاب پہننے پر مجبور کردیا، ایرانی عوام نے اسے اپنی نوعیت کا نرالا حکم قرار دیتے ہوئے سختی سے مذمت کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایران کے شہر جرجان میں ایشیئن کبڈی چمپیئن شپ کے ایک میچ میں تھائی لینڈ کی خواتین ٹیم کے مرد کوچ سیمبراش وانشو کو اس وقت اسٹیڈیم میں داخلے سے روک دیا گیا جب وہ خواتین کھلاڑیوں کو ہدایات دینے جارہا تھا۔
حکام کی جانب سے کہا گیا کہ چیمپیئن شپ کی میزبانی صرف خواتین کھلاڑیوں کیلئے ہے لہٰذا وہ حجاب کے بغیر اسٹیڈیم میں داخل نہیں ہوسکتا، یہ بات مذکورہ کوچ نے اخباری بیانات میں بتائی۔
سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہونے کے بعد عوام کی بڑی تعداد نے اسے حکومت کا قابل شرمناک اقدام قرار دیا، تصاویر میں تھائی لینڈ کے کوچ کو حجاب یا اس کے سر کو ڈھکنے والے ایک رومال کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب چیمپین شپ کے مرکزی منتظم نے اس امر کی تردید کی ہے کہ حکام نے سیمبراش کو حجاب پہننے پر مجبور کیا، مقصود نامی منتظم کے مطابق درحقیقت تھائی کوچ نے خود سے حجاب پہنا تھا اور اس کی شناخت ہو جانے کے بعد کوچ کو کھیل کے میدان سے باہر بھیج دیا گیا۔
In other news from #Iran: The coach for Thailand Women’s Team had to wear (a sorta) Hijab, apparently to pretend he is a woman, in order to be allowed into the the arena & lead his team during the Asian Kabaddi Championship tournament in Gorgan. pic.twitter.com/oZTHqQDJ2y
مذکورہ تھائی کوچ سیمبراش نے امریکی ریڈیو "فردا” سے گفتگو کرتے ہوئے اس مؤقف کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایرانی حکام کے مطالبے پر دو مرتبہ کھیل کے میدان میں دو مختلف رنگوں کے حجاب پہن کر داخل ہوا، سوشل میڈیا پر تھائی کوچ کی جاری تصاویر اس موقف کی تصدیق کرتی ہیں۔
ریاض : کرپشن کے الزام میں گرفتار سعودی شہزادوں کو پر تعیش لگژری ہوٹل میں نظر بند کیا گیا ہے، سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل کو جیل قرار دیا گیا ہے، برطانوی میڈیا دنیا کے سب سے پر تعیش قید خانے کی فوٹیج سامنے لے آیا۔
تفصیلات کے مطابق کرپشن کے الزام میں گرفتار سعودی شہزادوں کو قید بھی شاہی انداز میں دی گئی ہے، سعودی شہزادوں کو انتہائی خوبصورت اور پرتعیش لگژری ہوٹل میں نظر بند کیا گیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی خاتون رپورٹر نے ریٹز کارلٹن ہوٹل دکھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسی جیل پہلے کبھی نہیں دیکھی، جم، سوئمنگ پول، پلے لینڈ اور ریسٹورنٹ سمیت دنیا کی ہر سہولت اس قید خانے میں موجود ہے۔
کرپشن میں مبینہ طور پر ملوث گیارہ سعودی شہزادوں سمیت شاہی خاندان کے دو سو ارکان اس پر تعیش قید خانے میں نظر بند ہیں۔
بی بی سی پہلی بار اس جیل کے اندرونی مناظر دنیا کے سامنے لے آیا، بی بی سی نے دعویٰ کیا کہ نظر بند افراد میں پچانوے فیصد ایسے ہیں جو رہائی کے لیے اثاثوں کا کچھ حصہ واپس کرنے کو تیار ہیں۔
ولی عہد محمد بن سلمان نے روان ماہ چارنومبرکی رات اپنے دو کزن سمیت گیارہ سعودی شہزادوں کو اس ہوٹل میں قید کیا تھا، ان افراد کی گرفتاری ولی عہد محمد بن سلمان کی بدعنوانی کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔
کراچی : جشن عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر گھروں اور گلیوں میں چراغاں کرنا ایک مسلمان کی اپنے نبی کریم سے سچی محبت کا اظہار ہے لیکن اگر اس چرغاں کو چوری کی بجلی سے کیا گیا تو یہ عمل روز قیامت پکڑ کا باعث بنے گا۔
اسی طرح بل بورڈز اور ہورڈنگز کا استعمال بھی بغیر رقم کی ادائیگی یا متعلقہ حکام سے اجازت کے بغیر شرعی لحاظ سے کسی طور بھی جائز نہیں۔
اس حوالے سے اے آر وائی کیو ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عالم دین کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو نبی کریمﷺ سے محبت ہے تو چراغاں بھی اپنی جیب سے کرنا چاہیئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ جس طرح دیگر قومی دنوں کے موقع پر سرکاری عمارتوں کو سجایا جاتا ہے اسی طرح حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جس نبی ﷺ کی وجہ سے ہمیں ایمان کی روشنی ملی، ان کی آمد پر اس سے زیادہ خوشی منائی جائے اور ملک بھر میں جشن عید میلادالنبی ﷺ پر بھی چراغاں کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جشن ولادت ﷺ کے موقع پر اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ہمارے کسی عمل سے کسی کا نقصان یا کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
واضح رہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں بجلی کی چوری ایک عام روایت بن چکی ہے، کنڈوں کا استعمال بلا جھجک کیا جاتا ہے جس میں بجلی کے میٹر سے بالا بالا براہ راست گلی میں کھمبوں سے جڑے تاروں سے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔
دوسری جانب اس کے مقابلے میں پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دن بدن طویل ہوتا جارہا ہے، ملک کا کوئی شہر یا گاؤں ایسا نہیں جو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے متاثر نہ ہواہو، شہری کئی کئی گھنٹے بجلی سے محروم رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال پشاورالیکٹرک سپلائی کمپنی نے بجلی چوری سے لوگوں کو روکنے کے لئے ماہ رمضان میں صوبے کے مختلف اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں اشتہارات شائع کروائے تھے جن میں تحریر تھا کہ بجلی چوری کرنا خلاف قانون اور گناہ بھی ہے، عوام بجلی چوری سے گریز کریں۔
اشتہار میں مزید کہا گیا تھا کہ آپ روزہ رکھیں، زکوۃ ادا کریں اور اپنے والدین کی خدمت کریں لیکن یہ تمام کام آپ جائز طریقے سے بجلی استعمال کرتے ہوئے سر انجام دیں، اشتہار میں علمائے اکرام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ چوری کی گئی بجلی استعمال کرتے ہوئے اچھے اور نیک کام کرنا بھی شریعت کے خلاف ہے۔
کراچی : پاکستان کے فلمی صنعت میں چاکلیٹی ہیرو کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے وحید مراد نے دو اکتوبر انیس سو اڑتیس کو سیالکوٹ میں آنکھ کھولی، تعلیمی مراحل کراچی میں طے کیے اور کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
وحید مراد انیس سو باسٹھ میں پہلی بار کیمرے کے سامنے جلوہ گرہوئے اور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، پرویز ملک کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’’ارمان‘‘ نے وحید مراد کو پاکستان کا پہلا سپراسٹار بنادیا۔
احمد رشدی کے گائے ہوئے گانوں ’’کوکورینا‘‘ اور ’’اکیلے نہ جانا‘‘ پر وحید مراد کی پرفارمنس کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔1960ء میں انہوں نے اپنا ذاتی فلمسازادارہ ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے قائم کیا اوراس ادارے کے تحت دو فلمیں ’’انسان بدلتا ہے‘‘ اور ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ بنائیں۔
ان فلموں کی تکمیل کے دوران انہیں خود بھی اداکاری کا شوق ہوا، وہ درپن کی بہ حیثیت فلمساز ایک فلم ساتھی میں موٹر مکینک کا چھوٹا سا کردار بھی ادا کرچکے تھے اوربالاخر1962ءمیں انہیں ہدایت کار ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ میں بہ حیثیت اداکار متعارف کروایا۔
یہ فلم بے حد کامیاب رہی اس کے بعد انہوں نے فلم ’’دامن‘‘ میں کام کیا اور اپنی دلکش شخصیت کے باعث اس فلم میں بھی بے حد پسند کئے گئے۔
اُن کی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ پاکستان کی وہ پہلی فلم ہے جس کی فلم بندی سب سے پہلے بیرونِ ملک میں کی گئی۔ پہلی رنگین فلم ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ تھی۔
وحید مراد کی دیگر کامیاب فلموں میں جوش، جاگ اٹھا انسان، احسان، دو راہا، انسانیت، دل میرا دھڑکن تیری، انجمن، مستانہ ماہی اور عندلیب کے نام سرفہرست ہیں۔
وحید مراد نے لاتعداد فلموں میں ایوارڈز حاصل کئےاوروہ بلاشبہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک صاحب اسلوب اداکار کہے جاسکتے ہیں۔
وحید مراد تئیس نومبر انیس سو تراسی کو پراسرار حالات میں اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے، یہ مسحور کن شخصیت آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
کراچی : ملیر کورٹ میں پسند کی شادی کیس کی سماعت کے سلسلے میں پیشی پر آئے افراد آپس میں جھگڑ پڑے، عدالت کا احاطہ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔
تفصیلات کے مطابق پسند کی شادی کرنے والے پریمی جوڑے کی عدالت میں پیشی کے موقع پر لڑکا اور لڑکی کے لواحقین آپس میں جھگڑ پڑے.
فریقین نے ایک دوسرے پر مکوں اور لاتوں کی برسات کردی، کراچی کا ملیر کورٹ میدان جنگ بن گیا، کورٹ میرج سے متعلق سماعت کے موقع پر جھگڑے کی وجہ سے کئی افراد زخمی ہوئے۔
لاتوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا، جھگڑے کی وجہ سے عدالت کی کھڑکیوں کے ششیے بھی ٹوٹ گئے، پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تین افراد کو گرفتار کرکے لاک اپ کردیا۔
عدالت نے پولیس کوگرفتار ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
نوجوانوں کو خودی کا درس دینے والے مصور پاکستان اور بیسویں صدی کے عظیم صوفی شاعر حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا ایک سو اکتالیسواں یوم ولادت آج منایا جارہا ہے،مصور پاکستان نے شاعری کے ذريعے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔
شاعر مشرق حکیم الامت اور سر کا خطاب پانے والے ڈاکٹر علامہ اقبال 9 نومبر اٹھارہ سو ستتر (1877) کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا، آپ نے قانون اور فلسفے ميں ڈگرياں لیں لیکن جذبات کے اظہار شاعری سے کیا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ملت اسلامیہ کو ” لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری “ جیسی آفاقی فکر دینے والے علامہ اقبالؒ نے قانون اور فلسفے میں ڈگریاں لیں لیکن جذبات کے اظہار شاعری سے کیا، اقبالؒ نے اپنے خیالات اشعار کی لڑی میں ایسے پروئے کہ وہ قوم کی آواز بن گئے۔
شاعر مشرق نے یورپ اور انگلستان میں زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا لیکن انہوں نے انگریزوں کا طرز رہن سہن کبھی نہیں اپنایا، علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں زیادہ ترنوجوانوں کو مخاطب کیا، علامہ اقبالؒ کو دو جدید کا صوفی بھی سمجھا جاتا ہے۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے۔
علامہ اقبال کی اردو شاعری
بانگ درا
بال جبریل
ضرب کلیم
انگریزی تصانیف
فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر ن
اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کے کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی ، فرانسیسی، چینی ، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے معترف ہیں، بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں
وکالت کے ساتھ ساتھ آپ نے سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے آپ کو سرکا خطاب ملا، 1926 ء میں آپ پنجاب اسمبلی کے ممبر چنے گئے، آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے۔
آپ کا الٰہ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1931ء میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔
ایران کے مشہورشہر مشہد میں ایک شاہراہ شاعرمشرق علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال کے نام سے منسوب ہے۔ علامہ محمد اقبال کے نام سے منسوب اس شاہراہ کا نام ’’بولیوارڈ اقبالِ لاہوری‘‘ ہے۔
یاد رہے کہ شاعرِمشرق علامہ محمد اقبال نے کبھی بھی ایران کا دورہ نہیں کیا تاہم ان کے فارسی کلام کے سبب ایران میں ان کے قارئین کی تعداد بہت زیادہ ہے
ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی جس نے پاکستان کا تصور پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی آس پیدا کی۔
علامہ اقبال اور قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن قدرت کی منشاء سے پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938ء(بمطابق 20 صفر 1357ھ) میں علامہ انتقال کر گئے تھے۔ (انا للہ واناالیہ راجعون) ۔