Author: اعجاز الامین

  • شب قدر: اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت

    شب قدر: اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت

    رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات شب قدر ہے۔ اس رات کو پروردگارِ عالم نے انسان پر اپنی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت قرار دیتے ہوئے اسے تلاش کرنے کا حکم دیا ہے، احادیث سے مروی ہے کہ جو شخص زندگی میں ایک بار اس رات کو اس حالت میں حاصل کرلے کہ اپنے رب کی عبادت میں محو استغراق ہو تو اس کے عمر بھر کے گناہ زائل ہوجاتے ہیں اس رات کی بے شمار فضیلتوں میں سے چند فضیلتیں مندرجہ ذیل ہیں

    قرآن کا نزول

    پروردگار عالم کی سب سے باعظمت جامع و کامل کتاب قرآن کریم جسے ہمیشہ باقی رہنا ہے وہ اسی شب میں نازل ہوئی جیسا کہ قرآن گواہی دیتا ہے: ” شہر رمضان الذی انزل فیہہ القرآن ” (ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ) لیکن رمضان کی کس شب میں قرآن نازل ہوا ؟ اس کا بیان دوسری آیت میں ہے ” انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ ” ( بیشک! ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل کیا ) اور سورۃ قدر میں اس بابرکت رات کو اس طرح بیان کیا ” انا انزلناہ فی لیلۃ القدر ” (بیشک! ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ) لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ قرآن کے نزول نے بھی اس شب کی عظمت میں اضافہ کیا ہے۔

    تقدیر کا معین کرنا

    اس شب کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ رات با برکت و با عظمت ہے ” لیلۃ العظمۃ” اور قرآن مجید میں لفظ قدر عظمت و منزلت کے لئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت میں ہے ” ما قدروا اللہ حق قدرہ ” (انہوں نے اللہ کی عظمت کو اس طرح نہ پہچانا جس طرح پہچاننا چاہئے

    اللہ پاک نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ میں دیا ہے، وہ سعادت کی زندگی حاصل کرنا چاہے گا اسے مل جائے گی وہ شقاوت کی زندگی چاہے گا اسے حاصل ہو جائے گی۔ <<یا ایھا النّاس انّما بغیکم علی انفسکم>> (یونس:23) لوگو! اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تمہاری سرکشی صرف تمہیں نقصان پہچائے گی۔ جو کوئی سعادت کا طلبگار ہے وہ شب قدر میں صدق دل کے ساتھ اللہ کی بار گاہ میں توبہ کرے، برائیوں اور برے اعمال سے بیزاری کا عہد کرے گا۔

    دعاؤں سے تقدیر بدل جاتی ہے 

    اللہ سے اپنے خطاؤں کے بارے میں دعا اور راز و نیاز کےذریعہ معافی مانگے گا یقینا اس کی تقدیر بدل جائے گی اور امام زماں (ارواحنا فداہ) اس تقدیر کی تائید کریں گے۔ اور جو کوئی شقاوت کی زندگی چاہے وہ شب قدر میں توبہ کرنے کے بجائے گناہ کرے ، یا توبہ کرنے سے پرہیز کرے ، تلاوت قرآن ، دعا اور نماز کو اہمیت نہیں دے گا ، اس طرح اس کے نامہ اعمال سیاہ ہوں گے اور یقینا امام زماں (ارواحنا فداہ) اس کی تقدیر کی تائید کریں گے۔
    جو کوئی عمر بھر شب قدر میں سال بھر کے لئے سعادت اور خوش بختی کی تقدیر طلب کرنے میں کامیاب ہوا ہوگا وہ اس کی حفاظت اور اس میں اپنے لئے بلند درجات حاصل کرنے میں قدم بڑھائے گا اور جس نے شقاوت اور بد بختی کی تقدیر کو اختیار کیا ہوا وہ توبہ نہ کرکے بدبختی کی زندگی میں اضافہ کرے گا۔

    خیر و برکت کی رات

    شب قدر کے بارے میں اللہ نے تیراسی سالوں سے افضل ہونے کے ساتھ ساتھ اس رات کو سلامتی اور خیر برکت کی رات قرار دیا ہے۔ << سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر>> اس رات میں صبح ہونے تک سلامتی ہی سلامتی ہے اس لئے اس رات میں انسان اپنے لئے دنیا اور آخرت کے لئے خیر و برکت طلب کرسکتا ہے۔

    اگر دل کو شب قدر کی عظمت اور بزرگی کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جس شب کے بارے میں اللہ ملائکہ سے کہہ رہا ہے کہ جاو اور فریاد کرو کہ کیا کوئی حاجب مند، مشکلات میں مبتلا ، گناہوں میں گرفتار بندہ ہے جسے اس شب کے طفیل بخش دیا جائے ؟ اگر اس نقطے کی طرف توجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ یہ رات ایک عمر بھر کی مخلصانہ عمل سے افضل ہے۔

    گناہوں کی بخشش

    شب قدر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں گناہ گاروں کی بخشش ہوتی ہے لہٰذا کوشش کریں کہ اس عظیم شب کے فیض سے محروم نہ رہیں، وائے ہو ایسے شخص پر جو اس رات میں بھی مغفرت و رحمت الٰہی سے محروم رہ جائے جیسا کہ رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے : “من ادرک لیلۃ القدر فلم یغفر لہ فابعدہ اللہ[12] جو شخص شب قدر کو درک کرے اور اس کے گناہ نہ بخشے جائیں اسے اللہ پاک اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔
    (واللہ عالم بالصواب)

  • پاکستانی صحافی زینب عباس کی سیلفیوں نے تہلکہ مچا دیا

    پاکستانی صحافی زینب عباس کی سیلفیوں نے تہلکہ مچا دیا

    کراچی : پاکستانی صحافی زینب عباس کی سیلفیوں کے چمپیئنز ٹرافی میں خوب چرچے ہورہے ہیں، ان کے ساتھ سیلفی لینے والا کسی بھی ٹیم کا کپتان اگلی گیند پر ہی آؤٹ ہوجاتا ہے اور نہ صرف آؤٹ بلکہ وہ ٹیم ہی میچ ہار جاتی ہے، زینب کو بھارت میں پنوتھی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کی اسپورٹس اینکر زینب عباس نے بھارت اور سری لنکا کے میچ میں ویرات کوہلی کے ساتھ سیلفی لی اور پھر اسے سوشل میڈیا پر شیئر کردیا، اس کے بعد پاکستان اور جنوبی افریقہ کے میچ سے قبل انہوں نے انگلش کپتان اے بی ڈیویلئر کے ساتھ بھی سیلفی لی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

    ان سیلفیوں کے بعد بھارت کی ٹیم سری لنکا سے ہار گئی، پھر اسی طرح جنوبی افریقہ کی ٹیم بھی پاکستان کیخلاف اپنے اہم میچ میں شکست سے دوچار ہوئی جس پر سوشل میڈیا پر لوگوں نے بھارت اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کی شکست کو ان سیلفیوں کی وجہ قرار دیا۔

    شائقین کرکٹ نے مطالبہ کیا کہ زینب عباس پاکستان اور سری لنکا کے میچ سے قبل سری لنکن کپتان اینجلو میتھیوز کے ساتھ بھی سیلفی لیں، زینب عباس نے ایسا ہی کیا اور اینجلو میتھیو کے ساتھ سیلفی لے کر اسے سوشل میڈیا پر جاری کردیااور پیغام لکھا کہ میں نے تو اپنا کام کردیا اب باقی ذمہ داری پاکستان ٹیم پر عائد ہوتی ہے۔

    پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، سری لنکا کی ٹیم بھی پاکستان کے ہاتھوں اہم میچ گنوا بیٹھی، شائقین نے زینب عباس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ زینب کی سیلفی نے اپنا کام کر دکھایا۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ چمپیئنزٹرافی کے فائنل میں ویرات کوہلی کی پچھلی سیلفی کام آجائے گی یا زینب کو ایک بارپھر ویرات کوہلی کے ساتھ سیلفی بنانی پڑے گی۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے زینب عباس کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتہ یہ سب کیا ہے پر مجھے تو ہنسی آتی ہے، بہر حال یہ سب محض اتفاق ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں تو یہ کہو گی کہ اب پاکستان ٹیم کو میری سیلفی کی ضرورت بھی نہیں ہے، ایک موقع پرسری لنکا کے صحافیوں نے مجھے کہا کہ تم ہمارے کیپٹن سے دور رہو، زینب نے بتایا کہ بھارت میں مجھے پنوتھی کہا جاتا ہے کیونکہ شاید میں کالا جادو کرتی ہوں۔

  • فیس کی عدم ادائیگی : 3 بچے 3 سال تک ہاسٹل میں قید کیے جانے کا انکشاف

    فیس کی عدم ادائیگی : 3 بچے 3 سال تک ہاسٹل میں قید کیے جانے کا انکشاف

    کراچی : اے آروائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے ایک ماں کو تین سال بعد اس کے تین بچوں سے ملوادیا، مذکورہ بچے ایک ہاسٹل میں قیام پذیر تھے، جس کی فیس ادا نہ کرنے سبب ہاسٹل انتظامیہ نے ماں کو بچوں سے ملنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔

    متاثرہ ماں رضوانہ خاتون کا کہنا تھا کہ تین سال قبل شوہر سے طلاق کے بعد عدالت نے اس کے تین بچوں ایک بیٹی اور دو بیٹوں کوشوہرسے لے کر میرے حوالے کردیا تھا، بعد ازاں سابق شوہر کی جانب سے بچوں کو اغوا کرنے کی دھمکیوں پر میں نے تینوں بچوں کو وقتی طور پر لاہور کے ایک بورڈنگ اسکول کے پی ایس میں داخل کروا دیا تھا۔

    اسکول میں بچوں کی رہائش کا بھی انتظام تھا لیکن کچھ ماہ بعد لاکھ کوشش کے باوجود اسکول کی فیس جمع نہ کراسکی، جس پر اسکول انتظامیہ نے یہ کہہ کربچوں کو ملانے سے منع کردیا کہ پانچ لاکھ 34ہزار 500 روپے کے واجبات کی ادائیگی تک بچوں سے نہیں ملا سکتے، اور نہ ہی بچے اس کے حوالے کیے جائیں گے۔

    اسی طرح تین سال کا عرصہ گزرگیا، لیکن رضوانہ خاتون کو بچوں سے ملنا تو درکنار ان کی شکل تک نہیں دکھائی گئی، ہر طرح کی کوششیں کرنے کے بعد اورسب جگہ سے مایوس ہوکراس دکھیاری ماں نے سرعام کی ٹیم سے رابطہ کیا۔

    تمام تحقیقات کے بعد سر عام کی ٹیم نے لاہور میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی سربراہ اور صوبائی وزیر صبا صادق سے رابطہ کیا جنہوں نے مکمل تعاون کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو سرعام کی ٹیم کے ساتھ روانہ کردیا اور کارروائی کے بعد ان بچوں کو بورڈنگ اسکول کی قید سے آزاد کرادیا گیا۔

    بعد ازاں قانونی کارروائی مکمل کر کے ان بچوں کو بذریعہ پی آئی اے کی پرواز لاہور سے کراچی منتقل کیا گیا، سر عام کی ٹیم نے رمضان المبارک کے پروگرام شان رمضان میں بطور مہمان رضوانہ خاتون کو بھی بھکر سے کراچی بلوالیا اور اس بات کی اطلاع نہیں دی کہ اسے کیا خوشی ملنے والی ہے۔

    جب شان رمضان میں رضوانہ خاتون اپنی آپ بیتی رو رو کر سنا رہی تھی تو اسی دوران اس کے بچوں کو اس کے سامنے لایا گیا، یہ منظر اتنا رقت آمیز تھا کہ دیکھنے والی ہر آنکھ اشکبار ہوگئی (جیسا کہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے)

  • شہنشاہ غزل مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    کراچی : برصغیر کے عالمی شہرت یافتہ گائیک اور شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کی چوتھی برسی آج 13 جون کو منائی جا رہی ہے۔ مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے، مگر اُن کا فن آج بھی زندہ ہے، مہدی حسن کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

    مہدی حسن 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔ 1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    سال انیس سو پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔  وقت سے لے کرآج تک وہ پچیس ہزار سے زیادہ فلمی غیر فلمی گیت اور غزلیں گا چکے ہیں۔60 اور70کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن گئے۔

    مہدی حسن کی آواز میں ایک خوبصورت فلمی گیت قارئین کی نذر

    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کی آواز میں ایک خوبصورت ملّی نغمہ

    سنجیدہ حلقوں میں اُن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

  • کراچی سے مکہ مکرمہ تک پیدل سفر کرنے والا پاکستانی

    کراچی سے مکہ مکرمہ تک پیدل سفر کرنے والا پاکستانی

    کراچی : خانہ خدا کی زیارت اور گنبد خضرا سے آنکھوں کا وضو کرنے کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں مرتے دم تک رہتی ہے، ایک وقت تھا جب لوگ سنا کرتے تھے کہ فلاں شخص نے پیدل حج کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور لوگ جوق در جوق اس شخص سے ملاقات کرنے اس کا دیدار کرنے کو بھی سعادت کا درجہ دیتے تھے۔

    جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ہزاروں کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرکے خانہ خدا پہنچے اس کے پیروں سے خون جاری ہو، جسم کمزور اور لاغر ہوچکا ہو، تو کیسے ممکن ہے کہ اس شخص کی گنبد خضرا پر پڑنے والی پہلی نظر اس کی بخشش کا ذریعہ نہ بنے۔

    ایک ایسا ہی کثرت رائے نام کا عاشق رسول جس نے اس ترقی یافتہ دور میں بھی کراچی سے مکہ تک پیدل سفر کرکے ایک بہترین مثال قائم کی۔ کثرت رائے نے چھ ہزار کلو میٹر کا سفر ایک سو سترہ دنوں میں پیدل طے کر کے خانہ خدا اور روضہ رسول کی زیارت کی۔


    اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کثرت رائے نے اپنے اس مقدس سفر کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ 7 جون سال 2013 کو میں نے اس سفر کا آغاز کراچی پریس کلب سے کیا تھا۔

    یہ سفر کراچی سے مکہ مکرمہ براستہ ایران عراق تھا جس میں مجھے حج کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا سفرتھا اور میں نے امن واک کے حوالے سے عالمی قوانین پر عمل کرتے ہوئے 117 دن پورے کیے اور اس سفر کی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ انتظامیہ کو بھی اطلاع دی۔

    مدینہ پہنچنے پرمیرا شانداراستقبال کیا گیا

    انہوں نے بتایا کہ میں نے یومیہ 55 کلومیٹر کی اوسط سے واک کی، مدینہ پہنچ کر میرا بہت شاندار طریقے سے استقبال کیا گیا 500 گاڑیوں کے قافلہ کے ساتھ میں مدینہ کی حدود میں داخل ہوا اس دوران لوگ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔

    پولیس کی گاڑیاں میرے لیے راستہ صاف کروا رہی تھیں جو میرے لیے نہایت تقویت بخش تھا اور وہاں کے دو ٹی وی چینلز نے لائیو کوریج کی۔ مسجد نبویﷺ کے میناردیکھ کر میری کیفیت ناقابل بیان ہوگئی۔

    کثرت رائے نے اس سے قبل بھی مختلف پیدل سفر کیے ہیں جو ایک تحریک کی صورت میں ہیں، کثرت رائے کے سفر کا مقصد جہالت، ظلم اور نانصافی کے خلاف ہوتا ہے۔ یہ بات قابل فخر ہے کہ پاکستان کا بیٹا اس مثبت سوچ کا حامل ہے۔

    میری پہلی امن واک کراچی تا خیبرتھی 

    اپنے پہلے سفر کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے بھی ایک پاکستانی کی طرح خوشحال پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔

    سال 2007 میں جب پاکستان کے حالات بہت خراب تھے دہشت گردی عروج پر تھی تو میں نے دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثر قائم کرنے کے لیے کراچی سے خیبر تک پہلی امن واک کی جس کا دورانیہ پچیاسی دن اور اس کا فاصلہ 1999 کلومیٹر تھا۔

    انہوں نے کہا کہ میں بظاہر تو اکیلا چل رہا ہوتا ہوں لیکن حقیقت میں میرے ساتھ پورا پاکستان چل رہا ہوتا ہے،  وہ پاکستانی ساتھ ہوتے ہیں جو ملک کا درد رکھتے ہیں اس کی بہتری چاہتے ہیں۔

    مجموعی طور پر سولہ ہزار کلومیٹر کا پیدل سفر کرچکا ہوں

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میں اب تک مجموعی طور پر 16 ہزار کلومیٹر کا پیدل سفر کرچکا ہوں، ان یہ سفرکسی نہ کسی مقصد کے لیے کیے گئے۔

    انہوں نے بتایا کہ کہ مجھے فخر ہے کہ میں واحد پاکستانی ہوں کہ جس نے ایل او سی پر جا کر پاکستان کا جھنڈا لگایا۔

  • عمران خان کو 10 ارب والی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، اسد عمر

    عمران خان کو 10 ارب والی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، اسد عمر

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ عمران خان کو 10 ارب روپے کی پیشکش والی بات نہیں کرنا چاہیے تھی، مریم نواز واضح کریں کہ وزیر اعظم اور سجن جندال کی ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں۔

    یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں میزبان کاشف عباسی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری بھی موجود تھیں۔

    اسد عمر نے کہا کہ یہ درست ہے کہ 10 ارب روپے کے حوالے سے کی گئی بات عمران خان کو نہیں کرنی چاہیے تھی، اس شخص کا نام مجھے بھی معلوم ہے لیکن اس شخص کی اجازت کے بغیر اس کا نام لینا کسی طور بھی درست عمل نہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی شریف برادران پر کوئی برا وقت آتا ہے تو وہ پیسوں کا سہارا لیتے ہیں۔

     

    انہوں نے سوال کیا کہ کیا لوگ چھانگا مانگا کو بھول گئے؟ کیا ہائی کورٹ کے حاضر جج کا یہ کہنا کہ میں تابعدار ہوں لوگ بھول گئے؟ اور کیا لوگ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ بی ایم ڈبلیو کی چابی جو سابق چیف آف آرمی اسٹاف آصف نواز کوبھیجی گئی وہ انہوں نے واپس کردی تھی۔ تو پیسے کا استعمال شریف برادران کی سیاست کا معمول ہے کہ جہاں کام نہ نکلتا ہو وہاں پیسہ لگاؤ۔

    اسد عمرنے کہا کہ بھارت کےساتھ ریاستی سطح پربھی تعلقات سب کے سامنے ہیں، ایل او سی،مقبوضہ کشمیر،کلبھوشن کی گرفتاری اہم معاملات ہیں، وزیراعظم دورہ بھارت کے دوران حریت رہنماؤں سے نہیں ملتے اور جندال کے گھر چلے جاتے ہیں، مودی افغانستان سے واپسی پر پاکستان آتا ہے اور مل کر کیک کھایا جاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور یہاں ذاتی دوستی نبھائی جارہی ہے، سجن جندال نریندر مودی کے پیام بر ہیں، کیا حکومت رابطوں کے لیے بیک ڈور چینل استعمال کررہی ہے؟

    ان کا کہنا تھا کہ انفرادی اور ریاستی رابطوں میں فرق ہونا چاہیے، کمزوری دکھائیں گے تودشمن فائدہ اٹھائے گا اور مودی بھی یہی کررہے ہیں، پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے مطالبہ کیا کہ مریم نواز واضح کریں کہ وزیر اعظم اور سجن جندال کی ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟

     

    لوگ دس ارب کی آفر دینے والے کا نام جاننا چاہتے ہیں، شایہ مری

    پی پی رہنما شازیہ مری نے عمران خان کو دس ارب روپے کی آفر سے متعلق کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے ایسے نازک حالات میں اس بات کا انکشاف کیا جو کافی اہمیت کا حامل ہے، تو عمران خان کو وہ نام بتا دینا چاہیے کہ آفر کس کے ذریعے کی گئی کیونکہ یہ بات جاننا لوگوں کے لیے  بہت ضروری ہوگیا ہے کہ کون ایسا شخص ہے جس کی دوستی دونوں فریقین سے اتنی مضبوط ہے کہ وہ ایسی پیشکش کر رہا ہے؟

  • اسٹریٹ چلڈرنز کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    اسٹریٹ چلڈرنز کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    لاہور/ کراچی : پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بے گھر بچوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں سو ملین سے زئد بچے آوارگی کی زندگی گزار رہے ہیں، اسٹریٹ چلڈرنز کا عالمی دن سال2014سے منایا جارہا ہے۔

    اس دن کا مقصد ان بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا ہے، ان بچوں کی تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے لوگوں میں شعور اُجاگر کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے یہ بچے بھی مستقبل میں معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔

    یہ دن پہلی بار کنسورشیم فار اسٹریٹ چلڈرن نامی تنظیم نے لندن میں منایا جس کے بعد اس دن کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دنیا بھر میں منایا جانے لگا۔ اس موقع پر دن کی مناسبت سے بے گھر بچوں کی فلاح بہبود کیلئے تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں ان بچوں کی مناسب تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر پرورش کرنے پر بھی زور دیا جاتا ہے۔

    دنیا بھرمیں بیشتر بچے والدین کے فوت ہونے کے بعد بے سہارا ہو کر گھروں سے نکل پڑتے ہیں جبکہ غربت کے مارے خاندانوں کے بچے ایک وقت کی روٹی نہ ملنے کے سبب روٹی روزی کے چکر میں گھروں کو خیرباد کہہ دیتے ہیں جبکہ بیشتر بچے بری سوسائٹی کی وجہ سے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔

    یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1.5ملین سے بے گھر بچے موجود ہیں پاکستان میں سب سے زیادہ اسٹریٹ چلڈرن کراچی کی شاہراہوں اور گلی کوچوں میں ہیں جہاں سینکڑوں بچے روزانہ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    علاوہ ازیں لاہورملک بھر کی طرح لاہور کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں بھی اسٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن منایا گیا جس میں بچوں کی شاندار پرفارمنس نے حاضرین کے دل جیت لئے۔ گلی کوچوں سے لائے جانے والے بچوں نے آنکھوں میں امید کے دیپ جلائے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں اسٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن منایا۔

    تقریب میں شریک ہر بچے کی ایک کہانی تھی لیکن ہمت اور حوصلہ انہیں ٹوٹنے نہیں دیتا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں اندازاً ایک لاکھ بچے گلی کوچوں اور فٹ پاتھوں پہ زندگی گزارتے ہیں جن کے لئے حکومتی سطح پر قائم اداروں میں سر چھپانے کے لئے چھت اور ضروریاتِ زندگی فراہم کی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں : اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹیم تیسری پوزیشن حاصل کرکے وطن لوٹ آئی

    ملکی قوانین میں کمسن بچوں سے بھیک مانگنے کو جرم تو قرار دے دیا گیا تھا لیکن اس قانون پر تاحال عمل درآمد کرانے کی ہی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

  • کوئلے کے حیرت انگیز فوائد

    کوئلے کے حیرت انگیز فوائد

    کوئلے کے کئی فوائد ہیں، کوئلہ توانائی کے حصول یا صنعتی ایندھن کا سب سے بڑا وسیلہ ہے اور خاص طور پر دیگر ایندھنوں کے مقابلے میں بہت سستا ہے، کوئلے کو بجلی پیدا کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور آسانی سے ذخیرہ شدہ بھی ہے۔

    کوئلے میں کاربن کا عنصر نمایاں ہوتا ہے جو اس کا 50 فیصد سے زیادہ وزن 70 فیصد سے زائد بناتا ہے، وہ درخت جو کسی وجہ سے زمین میں دفن ہوجاتے ہیں ہزاروں سال بعد حرارت اور دباؤ کی وجہ سے کوئلہ بن جاتے ہیں۔


    کوئلہ توانائی کے طور پر استعمال کی جانے والے ایندھن کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کیلئے بھی فائدہ مند ہے، اس کے علاوہ آج ہم آپ کو اس کے وہ فوائد بھی بتائیں گے کہ جنہیں پڑھ کر آپ میں سے اکثر لوگ دم بخود رہ جائیں گے کیونکہ اب کالی رنگت سے پریشان افراد کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

    کالا سیاہ نظر آنے والا کوئلہ دراصل اپنے اندر بے پناہ خوبیاں لیے ہوئے ہے، کوئلہ وہ خاص چیز ہے جو افادیت سے بھرپور ہے۔ ہیرے کی تلاش بھی کوئلے کے تراشے جانے پر مکمل ہوتی ہے۔

    کوئلہ جہاں بار بی کیو اور دیگر کھانوں کو مزید لذیذ بناتا ہے وہیں آپ کے چہرے کی جھائیاں دور کرنے اورکلینزر کے طور پر جلد کو تروتازہ رکھنے اورچہرے کے داغ دھبوں کو ختم کنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

    کوئلے کے ذریعے کیا جانے والا ڈیٹوکس بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ کوئلے کے استعمال سے آپ اپنے پیلے اور گندے دانتوں کو صاف شفاف بھی رکھ سکتے ہیں۔

  • احمد رشدی کے دس مقبول ترین گیت

    احمد رشدی کے دس مقبول ترین گیت

    احمد رشدی کو دنیا سے بچھڑے چونتیس برس بیت گئے لیکن ان کی جادوئی آواز آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

    انہیں پاکستان کاپہلا پاپ سنگر بھی کہا جاتا ہے۔ فلمی سچویشن اور شاعری کے ملاپ کو اپنی آواز سے پراثر بنانے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا، احمد رشدی کے مشہور اور خوبصورت گانے جو ان کے پرستاروں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔
    ان کے بے شمار مشہور گیتوں میں سے دس گیت قارئین کی نذر

    میرے خیالوں پہ چھائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوکو کورینا

    الف سے اچھی گاف سے گڑیا، جیم سے جاپانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کرتم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    گول گپے والا آیا گول گپے لایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    تمہیں کیسے بتادوں تم میری منزل ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    سوچا تھا پیار نہ کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اے ابر کرم آج اتنا برس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ہاں اسی موڑ پر اس جگہ بیٹھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • معروف گلوکار احمد رشدی کی 34ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    معروف گلوکار احمد رشدی کی 34ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    کراچی : ماضی کے منفرد ومقبول ترین گلوکار احمد رشدی کی چونتیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔احمد رشدی کو دنیا سے بچھڑے چونتیس برس بیت گئے لیکن ان کی جادوئی آواز آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

    منفرد آواز کے مالک احمد رشدی نے تین دہائیوں تک فلمی نگری پرراج کیا۔ انہیں پاکستان کاپہلا پاپ سنگر بھی کہا جاتا ہے۔ فلمی سچویشن اور شاعری کے ملاپ کو اپنی آواز سے پراثر بنانے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔

     معروف گلوکار احمد رشدی عمدہ اور دلکش نغمات کی بدولت تین دہائیوں تک فلمی صنعت پر چھائے رہے ، شوخ وچنچل اور مزاحیہ گانوں میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں انہیں پہلی بارانگریز ی گیت گانے کابھی اعزاز حاصل ہے۔

    احمد رشدی نے اپنے فنی کیریئر کا اغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا، معروف گانے ،بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

    احمد رشدی کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کا احمدرشدی کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ رشدی بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے۔

    انہوں نے پہلا گیت ہندوستان کی فلم "عبرت”(1951) کے لئے گایا. پھر پاکستان آ کر 1954 میں "بندر روڈ سے کیماڑی” گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے. اس کے بعد رشدی نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا. بڑے بڑے گلوکار ان کے آگے بجھ کر رہ گئے.

    احمد رشدی نے موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی. رشدی ہندوستان کے مشہور فلمی گلوکار کشور کمار کے بھی آئیڈل تھے اور کشورکمار نے انگلستان میں رشدی مرحوم کے گانوں پر پرفارم کیا۔ انہوں نے غزل کی گائیکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرزایجاد کی۔ یہ البیلا گلوکار ہر کردار میں اپنی آواز کا جادو بھر دیتا تھا۔

    چاکلیٹی ہیرو اداکار وحید مراد کے ساتھ رشدی کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ اس جوڑی کے سارے نغمے ہٹ ہوئے. ان کے انتقال کو برسوں گزرنے کے بعد اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ احمد رُشدی جیسا گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو نہیں مل سکتا۔

    احمد رُشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے. پاکستان کے صد‏‏ر پرویز مشرف کی حکومت نے ا ن کے انتقال کے  بیس سال بعد رُشدی کو "ستاره ا متيا ز” کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کا نام پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طور پر آیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ بے شمار گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں.

    انہوں نے ﮐﮁﮭ فلموں میں بھی کام کیا. رُشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساﮅﮭ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی، اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر پیسے لئے موسیقاروں کے لئے گیت گائے۔ وہ بہت سیدھے انسان تھے. احمد رُشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔.

    احمد رشدی کو مالا کے ساتھ فلموں میں 100 سے زائد دوگانے، گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں نہیں آسکا۔

     احمد رشدی کے دس مقبول ترین گیت، قارئین کی نذر

    روک اینڈ رول کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر احمد رُشدی 11 اپریل 1983 کو کراچی میں 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے. آپ کو کراچی میں ہی دفن کیا گیا۔

    گلوکاراحمد رشدی کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو کہ مرنے کے بعد بھی دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔