Author: اعجاز الامین

  • استاد اسد امانت علی خان کو مداحوں سےبچھڑے دس برس بیت گئے

    استاد اسد امانت علی خان کو مداحوں سےبچھڑے دس برس بیت گئے

    کراچی : کلاسیکل مو سیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ استاد اسد امانت علی خان کو مداحوں سےبچھڑے آج دس برس بیت گئے۔ وہ آٹھ اپریل دو ہزار سات کو لندن میں دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اسد امانت علی پچیس ستمبر انیس سو پچپن میں لاہور میں پیدا ہوئے۔

    آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز
    مدہوش دل و جاں کو بناتی ہوئی آواز

    اسد امانت علی خان استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اوراستاد حامد علی خان کے بھتیجے اورشفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔ دس سال کی عمر سے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والے اس فنکار کی آواز نے لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔

    انہوں نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور والد کے شہرہ آفاق گیت اورغزلیں گا کر مشہور ہو گئے۔ اسد امانت علی خان نے لوک گیتوں سے بھی الگ پہچان بنائی۔

    ‘عمراں لنگھیاں پباں بھار’ ان کی ایک خوبصورت غزل قارئین کی نذر

    انہیں اصل شہرت ‘عمراں لنگھیاں پباں بھار’ سے ملی اور اس کے بعد وہ انتقال تک گائیکی کے ایک درخشاں ستارے رہے۔ اس کے علاوہ گھر واپس جب آؤگے ان کی شاہکارغزلیں ہیں۔

    انہوں نے بے شمار پاکستان فلموں کے لئے گیت گائے، اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ اسدامانت علی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ ایوارڈ کے فوری بعد ہی ان کی طبیعت ناساز ہوگئی اور وہ علاج کیلئے لندن چلے گئے۔

    آٹھ اپریل 2007کو دل کے دورے کے باعث دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اسد امانت علی خان آج ہم میں نہیں مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت آج بھی سما عت میں رس گھو لتی ہیں۔ ان کی غزلیں اور گیت اب بھی کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں۔

  • پاپ گلوکارہ نازیہ حسن کا آج 52 واں‌ یوم پیدائش

    پاپ گلوکارہ نازیہ حسن کا آج 52 واں‌ یوم پیدائش

    کراچی : بر صغیر پاک و ہند میں پاپ موسیقی کو غیرمعمولی شہرت بخشنے والی خوبصورت گلوگارہ نازیہ حسن کے پرستار آج ان کی 52 سالگرہ منا رہے ہیں، صدارتی ایوارڈ یافتہ نازیہ حسن 3 اپریل 1965ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔

    مسکراتے چہرے، دلفریب انداز اور سریلی آواز کی مالکہ نازیہ حسن نے اپنے کیریئر کا آغاز پی ٹی وی کے پروگرام کلیوں کی مالا سے کیا، انہوں نے 80 کی دہائی میں موسیقی میں مغربی انداز متعارف کروایا جسے پاکستانی نوجوان نسل کے ساتھ بیرون ملک بھارت، امریکہ، عرب امارات، لاطینی امریکہ سمیت دنیا بھر میں بھرپور پزیرائی حاصل ہوئی۔

    اسی وجہ سے نازیہ حسن کو پاپ موسیقی کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن اصل شہرت سال اسّی کی دہائی میں پندرہ برس کی عمر میں بھارتی فلم قربانی کے گیت ’’ آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘‘ سے ملی۔

    نازیہ حسن کی شخصیت اپنے اندر اتنی دلکشی سمیٹے ہوئے تھی کہ ان کے ہر گیت اور ہر ادا نے لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لیا، نازیہ کا پہلا البم ’’ڈسکو دیوانے‘‘ 1982ء میں ریلیز ہوا۔ جس نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے، اس البم میں ان کے بھائی زوہیب حسن نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔

    نازیہ حسن پہلی پاکستانی گلوکارہ ہیں، جنہوں نے فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا اور بیسٹ فیمیل پلے بیک سنگر کی کیٹیگری میں کم عمر ایوارڈ جیتنے والی گلوکارہ قرارپائیں، یہ اعزازآج تک ان کے پاس ہے۔

    نازیہ حسن کی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز پرائڈ آف پرفارمنس کے علاوہ فلم فیئر، پلاٹینیم، ڈبل پلاٹینیم اور گولڈن ڈسکس ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

     انہوں نے اپنا بچپن کراچی اور لندن کے تعلیمی اداروں میں گزارا۔ نازیہ حسن نے پی ٹی وی پر متعدد پروگراموں اور ٹی وی کمرشلز میں بھی کام کیا۔ نازیہ حسن نے اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ مل کر پاکستانی موسیقی میں ایک نئی جہت روشناس کروائی۔

     نازیہ حسن کے 10مشہور گانے،قارئین کی نذر

    نازیہ حسن 13 اگست 2000ء کو لندن کے ایک اسپتال میں صرف 35 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھیں۔


    Remembering legendary pop singer Nazia Hassan by arynews

  • پپیتے اوراس کے پتّوں کے طبی فوائد

    پپیتے اوراس کے پتّوں کے طبی فوائد

    قدرت نے پھلوں اور سبزیوں میں رنگوں کے مطابق بھی ہمارے لیے بیش قدر فوائد رکھے ہیں، ہر رنگ کے پھلوں اور سبزیوں میں مختلف وٹامنز، معدنیات اور غذائیت موجود ہے۔

    یہ بات ہمارے لیے باعث تسکین ہے کہ جو پھل اورسبزیاں ہم بطور غذا کھاتے ہیں وہ صرف ہمارا پیٹ ہی نہیں بھر رہی ہوتیں بلکہ ان سے ہمارے جسم کو غذائیت اور بہت سے امراض سے تحفظ بھی مل رہا ہوتا ہے۔ طبّی طور پر پپیتے کے فوائد اہمیت کے حامل رہے ہیں۔

    ان پھلوں میں ایک پپیتہ بھی ہے جس کی غذائیت اور اس کے فوائد سے کوئی ذی شعورانکار نہیں کر سکتا، غذائی اعتبار سے یہ پھلوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ پپیتے میں اینٹی آکسیڈنٹس، کیروٹینائیڈز اور بائیو فلیوونائیڈز کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے۔

    papaya-post-1

    پپیتا قبض کشا پھل ہے جس میں فائبر کی موجودگی کولیسٹرول لیول کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔

    papaya-post-2

     پپیتے کے پتّے مختلف امراض کیلئے انتہائی مفید

    صرف پپیتہ ہی نہیں اس کے پتوں میں بھی قدرت نے مختلف بیماریوں کا علاج پوشیدہ رکھا ہے۔ ذیابیطس اور دل کے امراض میں مبتلا افراد کیلئے بہترین پھل تصور کیا جاتا ہے۔

    papaya-post-3

    تلی اور جگر کے مریضوں کیلئے اکسیر اور بواسیر میں مفید ہے۔ اس کا شربت سینے کی بلغم نکالنے میں معاون کردار ادا کرتا ہے۔ پپیتے کا چھلکا اور اس کے پتے چوٹ یا زخم کی سوزش ختم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

    papaya-post-4

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پپیتے کے پتوں میں بھی ایسے جراثیم کُش اجزا موجود ہوتے ہیں جو ریڑھ کی ہڈی کے کینسر سمیت جگر، لبلبہ اور پھیپھڑوں کے کینسر سے لڑنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

    papaya-post-5

  • شہنشاہ جذبات اداکارمحمد علی کی گیارہویں برسی آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہ جذبات اداکارمحمد علی کی گیارہویں برسی آج منائی جارہی ہے

    کراچی : اپنی منفرد اداکاری سے شہنشاہ جذبات کا خطاب پانے والے پاکستانی فلموں کے نامور اداکار محمد علی کو مداحوں سے بچھڑے گیارہ برس بیت گئے لیکن ان کی اداکاری کا سحر آج بھی برقرار ہے۔

    اداکارمحمد علی 10 نومبر 1938ء کو ہندوستان کے شہر رامپور کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ محمد علی نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے کیا اور 1962ء میں ان کی پہلی فلم ‘چراغ جلتارہا’ ریلیز کی گئی جبکہ محمد علی کی اور مقبول فلم ‘شرارت’ 1964ء میں ریلیز ہوئی۔

    ali-post-01

    اداکار محمد علی نے چاردہائیوں تک سلوراسکرین پر حکمرانی کرکے کروڑوں فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا، محمد علی نے 300  سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں پنجابی فلمیں بھی شامل ہیں۔ منفرد انداز، آواز کے اتار چڑھاؤ پر مکمل دسترس اور حقیقت سے قریب تر اداکاری نےمحمد علی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    فلم صاعقہ کا مشہور نغمہ اے بہارو گواہ رہنا جو محمد علی اور شمیم آرا پر فلمایا گیا، قارئین کی نذر

    محمد علی کی مشہور فلموں میں جاگ اٹھا انسان‘خاموش رہو‘ ٹیپو سلطان‘ جیسے جانتے نہیں‘آ گ‘ گھرانہ‘ میرا گھر میری جنت‘ بہاریں پھر بھی آئیں گی‘ محبت‘ تم ملے پیار ملا  اور دیگر بہت سی فلمیں شامل ہیں۔

    ali-post-02

    محمد علی نے جس اداکارہ کے ساتھ بھی کام کیا ان کی جوڑی خوب سجی، محمد علی کا شمار ورسٹائل اداکاروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے کئی کریکٹر رول اور منفی رول بھی بڑی کامیابی سے پرفارم کئے۔

    مشہور گانا اتیرے میرے پیار کا ایسا ناتہ ہے، جو محمد علی پر فلمایا گیا، قارئین کی نذر

    ان کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے بہترین اداکاروں میں ہوتا تھا اوران کی بہترین کارکردگی کی بناء پر 1984ء میں ان کو ‘پرائڈ آف پرفارمنس’ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلمی صنعت کے حوالے سے محمد علی کی خدمات کے پیش نظر ان کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا اور وہ فلمی صنعت کے واحد اداکار ہیں جن کو تمغہ امتیاز دیا گیا ہے۔

    انیس سو اڑتیس میں طلوع ہونے والا فلم انڈسٹری کا یہ روشن ستارہ لاہور میں انیس مارچ دوہزار چھ کو غروب ہو گیا۔ محمد علی کو لاہور میں واقع حضرت میاں میرؒ کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔

  • انقلابی شاعرحبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 24برس بیت گئے

    انقلابی شاعرحبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 24برس بیت گئے

    کراچی : عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کی چوبیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ حبیب جالب 28 فروری 1928ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے، حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔

    اینگلو عریبک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے 15 سال کی عمر سے ہی مشق سخن شروع کردی تھی، ابتداء میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کر تے تھے۔ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف قلم سے لڑنے والے حبیب جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو حق بات پر ڈٹ جانے کا سبق دیتی ہے۔

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
    ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    حبیب جالب کی یہ شہرہ آفاق نظم ان کی اپنی آواز میں قارئین کی نذر

    نڈر بے باک باہمت حوصلہ مند شاعر حبیب جالب حبیب جالب جب قلم اٹھاتا ہے تو اقتدار کے ایوان لرز اٹھتے ہیں، ترقی پسند شاعر ہونے کی حیثیت سے جالب نے جنرل ایوب خان اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف لکھا، جالب کی شاعری میں انقلاب کا درس ہے۔

    رقص، زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
    تو کہ ناواقفِ آداب غلامی ہے ابھی

    وہ ساری عمر انقلاب کی آس میں جیلیں کاٹتے رہے اور پولیس سے مار کھاتے رہے جس پر وہ فخر کا اظہار کرتے تھے۔

    ایک مرتبہ جیل میں ان سے کہا گیا کہ انہیں کاغذ اور قلم فراہم نہیں کیا جائے گا جس پر انہوں نے جواب دیا ‘میں آپ کے محافظوں کو اپنے شعر سناؤں گا اور وہ اسے دیگر افراد کو سنائیں گے اور اس طرح یہ لاہور تک پہنچ جائے گا۔’

    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
    پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا

    جالب کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ کئی طرح سے معاشرے میں رائج روایات کے خلاف تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی بائیں بازو کی ترقی پسند تحریک کے لیے وقف کردی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عوامی سطح پر وہ اس تحریک کی سب سے زیادہ وکالت کرتے تھے۔

    جہل کے آگے سر نہ جھکایا میں نے کبھی
    سِفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی
    دولت اور عہدوں کے بل پر جو اینٹھیں
    ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی
    میں نے چور کہا چوروں کو کھل کے سر محفل
    دیکھ اے مستقبل

    جالب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں شوشلزم کے پیچیدہ خیالات کو سیاست، شاعری اور طنز و مزاح کا روپ دینا آتا تھا۔

    habib-post-01

    دستورحبیب جالب کی ایسی نظم تھی کہ جس نے عوام کو حبیب جالب کے عشق میں گرفتار کردیا، حبیب جالب نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس کو اپنے الفاظ میں ڈھال دیا۔

    حبیب جالب تیرہ مارچ 1993ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی انقلابی شاعری کا پیدا کردہ ولولہ آج بھی لوگوں کے دلوں کو گرماتا ہے۔

  • گلوکار پٹھانے خان کی 17ویں برسی آج منائی جائے گی

    گلوکار پٹھانے خان کی 17ویں برسی آج منائی جائے گی

    فیصل آباد : معروف لوک گلوکار پٹھانے خان کی سترھویں برسی آج نو مارچ کو منائی جائے گی، پٹھانے خان کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 17 سال بیت گئے ہیں لیکن ان کے گائے ہوئے عارفانہ کلام آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صدارتی ایوارڈ یافتہ برائے حسن کارکردگی کے حامل ملک کے معروف گلوکار پٹھانے خان کی 17ویں برسی آج بروزجمعرات کو منائی جائے گی ، پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد تھا۔

    پٹھانے خان سنہ 1926کو تمبو والی بستی کوٹ ادو میں پیدا ہوئے، انہیں غزل، کافی، لوک گیتوں پر بے حد کمال حاصل تھا، پٹھانے خان نے کئی دہائیوں تک اپنی سریلی آواز کا جادو جگایا اور خواجہ غلام فرید ، بابا بلھے شاہ ، مہر علی شاہ سمیت کئی شاعروں کے عارفانہ کلام کو گایا، جس پر حکومت نے اس نامور گلوکار کو 1979 میں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔

    پٹھانے خان کا مشہور و معروف صوفیانہ کلام ’’میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں‘‘ قارئین کی نذر

    پٹھانے خان نے 79 مختلف ایوارڈز حاصل کیے اور ذوالفقار علی بھٹو بھی لوک گلوکار کی دل میں اترنے والی آواز کے معترف تھے جن کے فن کلام کو ان کے دیرینہ دوست اور بیٹے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ پٹھانے خان کی آواز میں درد کے ساتھ بے پناہ کشش بھی تھی اور اسی لیے ان کا عارفانہ کلام سنتے ہی سامعین پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔

    ان کے مشہور صوفیانہ کلام میں میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں، الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو ان کی دنیا بھر میں شہرت کا باعث بنا۔

    ان کا یک اور شاہکار کلام ’’الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو‘‘ قارئین کی نذر

    اس کے علاوہ جندڑی لئی تاں یار سجن، کدی موڑ مہاراں تے ول آوطناں، آ مل آج کل سوہنا سائیں، وجے اللہ والی تار، کیا حال سناواں، میرا رنجھنا میں کوئی ہور، اور دیگر ان کے مشہور گیتوں میں شامل ہیں.

    پٹھانے خان 74سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد سنہ 2000میں انتقال کرگئے لیکن ان کے فن کے سحر میں مبتلا مداحوں نے کوٹ ادو کے تاریخی بازار کو ہی ان کے نام سے منسوب کر دیا۔

    مرحوم کی برسی کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں ان کی یاد میں تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں پٹھانے کی فن لوک موسیقی کیلئے نمایاں خدمات پر ان کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

  • نامورغزل گو شاعر ناصرکاظمی کی آج 44 ویں برسی ہے

    نامورغزل گو شاعر ناصرکاظمی کی آج 44 ویں برسی ہے

    کراچی : غزل کے نامور شاعر ناصر کاظمی کو ہم سے بچھٹرے 44 برس بیت گئے، ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔

    انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ناصر کاظمی لاہور کے ایک ہاسٹل میں رہتے تھے ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لئے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر ہی بات کرتے تھے۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    قیام پاکستان تک اُن کے شعروں کی مہک چہار سو پھیل چکی تھی، ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی زندگی بنا لیا اور رات دن اسی کی دھن میں مست رہے، ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہارغم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔

    استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں ایک مشہور غزل غم ہے یا خوشی ہے تو قارئین کی نذر

    ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔ نا صر کا ظمی نے شاعری میں سادہ الفاظ کا چناؤ کیا خوبصورت استعاروں اورچھوٹی بحر میں غزلیں کہنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔

    ناصر کاظمی کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس دلوں میں ہلکورے لیتا ہے۔ ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ “برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ دوسرے دو مجموعے “دیوان” اور “پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔

    گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
    عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ

    ناصر کی شاعری میں محبت کے ان جزیروں کی تلاش ہے جہاں پرندے چہکتے اور پھول مہکتے ہیں،جہاں کو ئی کسی سے نہ بچھڑتا ہو۔ ناصر کاظمی دو مارچ 1972 کو اِس دارفانی سے کوچ کرگئے، وہ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﭘﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺳﻮﺩﮦ ﺧﺎﮎ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﻮﺡ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ان ہی ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﮯ۔

    ﺩﺍﺋﻢ ﺍٓﺑﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﺩﻧﯿﺎ
    ﮨﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ

  • حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا آج یوم وفات ہے

    حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا آج یوم وفات ہے

    انیس فروری 1275 بمطابق 21 شعبان 673 ھجری سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی تاریخ وفات ہے، ﺣﻀﺮﺕ ﻟﻌﻞ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ (1177تا 1274) آپؒ کا اصل نام عثمان مروند تھا، آپ 1177 عیسوی بمطابق 573ھجری میں مروند کے مقام پر پیدا ہوئے۔

     ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا تعلق صوفی سلسلۂ سہروردیہ سے تھا۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے۔

    آپؒ کا سلسلہ نسب تیرہ واسطوں سے ہوکر جعفر صادق تک پہنچتا ہے، سید عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سید نورشاہ بن سیدمحمود شاہ بن احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن سید جعفر صادق۔

    آپ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر "لعل” کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی اس وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔ شہبازکا لقب امام حسن نے ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا کیا، اس وجہ سے "شہباز لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے۔

    آپؒ نے ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد حضرت ابراہیم کبیر الدینؒ سے کی، قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان بھر کی سیاحت کی اور مختلف اولیاء کرام کی صحبت سے مستفید ہوئے، جن میں ھضرت شیخ فرید الدئین شکر گنجؒ، حضرت بہاءالدین ذکریا ملتانیؒ، حضرت شیخ بو علی قلندرؒاور حضرت مخدوم جہانیاں جلال الدین بخاریؒ کے نام سر فہرست ہیں۔

    آپ مروند (موجودہ افغانستان) کے ایک درویش سید ابراہیم کبیر الدین کے بیٹے تھے۔ ان کے اجداد نے عراق سے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی جہاں کی تعلیم مشہور تھی۔

    بعد ازاں مروند کو ہجرت کی۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور آپ نے اسلامی دنیا کے لا تعداد سفر کیے جس کی وجہ سے آپ نے فارسی، عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت میں مہارت حاصل کر لی۔

    آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور مسلمانوں کے علاوہ اہلِ ہنود میں بھی بڑی عزت تھی۔ آپ سرخ لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے انہیں لال کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں جھولے لال بھی کہا جاتا تھا۔ آپ کا وصال21 شعبان المعظم 673 ہجری میں ہوا

    آپ کا مزار سندھ کے شہر سیہون شریف میں ہے۔ یہ سندھی تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے اور 1356ء میں تعمیر ہوا۔ اس کا اندرونی حصہ 100 مربع گز کے قریب ہے۔ ان کا سالانہ عرس اسلامی تقویم کے مطابق 18 شعبان المعظم کو ہوتا ہے۔

  • لیجنڈ اداکارہ ’’مدھو بالا‘‘ کا آج 84 واں یوم پیدائش

    لیجنڈ اداکارہ ’’مدھو بالا‘‘ کا آج 84 واں یوم پیدائش

    ممبئی : ماضی کی انتہائی خوبصورت اور مشہور فلمی اداکارہ مدھو بالا کا آج چوراسی واں جنم دن ہے،خوب صورت مسکان والی ہیروئن مدھو بالا کا شمار ہندی فلموں کی سب سے بااثر شخصیات میں کیا جاتا ہے۔ وہ محض چھتیس سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئیں تھیں۔

    انہوں نے چالیس اور پچاس کی دہائی میں اپنے فن اداکاری سے مداحوں کے دل میں گھر کرلیا تھا، چودہ فروری (ویلنٹائن ڈے) جو دنیا بھر میں محبت کرنے والوں کے لئے بہت خاص دن ہوتا ہے، دل چسپ اتفاق ہی ہے کہ بولی وڈ کی فلموں میں لازوال رومانوی کردار ادا کر کے امر ہوجانے والی مدھو بالا کا یوم پیدائش بھی 14 فروری 1933 ہے۔

    madhu-post-01

    مدھو بالا کا اصل نام ممتاز جہاں بیگم تھا، انہوں نے سال 1942 میں صرف نو سال کی فلم بسنت سے اپنے فلمی کیریئر کا آغازکیا تھا، اس وقت کی مشہور فلم ساز دیویکا رانی نے انہیں مدھو بالا کا فلمی نام دیا، سال 1947 میں مدھو بالا نے فلم نیل کمل میں راج کپور کے مقابلے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    فلم محل سے شہرت اور ناموری کا جو سفر مدھو بالا نے شروع کیا، اس کا عروج تھا، شہرہ آفاق فلم مغل اعظم جس کے بعد مدھو بالا صرف اداکارہ نہیں رہیں بلکہ سینما کی تاریخ میں لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر گئیں، اپنی مختصر زندگی میں مدھو بالا نے چوبیس فلموں میں کام کیا جن میں سے زیادہ تر سپر ہٹ رہیں لیکن دلیپ کمار کے ساتھ مدھو بالاکی جوڑی کو دیکھنے والوں نے بہت پسند کیا۔

    ان پر فلمایا گیا فلم ’’مغل اعظم‘‘ کا ایک بہت خوبصورت گیت قارئین کی نذر

    ان کی مشہور فلموں میں پرائی آگ، لال دوپٹہ، امرپریم، سنگار،نیکی اوربدی، دو استاد، چلتی کا نام گاڑی اور مسٹر اینڈ مسز 55 قابلِ ذکر ہیں۔ حسن و عشق کی دیوی مدھو بالا کا دلیپ کمار سے زبردست رومانس چلا وہ شادی بھی دلیپ کمار سے ہی کرنا چاہتی تھیں ﻣﮕﺮﺍﯾﺴﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮧ ﮨﻮﺳﮑﺎ تاہم ان کی شادی اس وقت کے نامور گلوکار کشور کمار سے ہوئی۔

    madhu-post-02

    یہ ورسٹائل اداکارہ صرف 36 سال کی عمر میں 23 فروری 1969 کو عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگئی لیکن اپنے کام سے ہمیشہ کے لئے امر ہو گئی۔

  • کراچی میں بد امنی : وزیراعلیٰ کا آئی جی سندھ پراظہار برہمی

    کراچی میں بد امنی : وزیراعلیٰ کا آئی جی سندھ پراظہار برہمی

    کراچی : شہر قائد میں بد امنی پر وزیراعلیٰ نے آئی جی سندھ پولیس کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ نجی ٹی وی چینل کے ڈی ایس این جی پر حملہ کے حوالے سے اطلاع نہ دینے پر برہمی کا اظہار کیا، مراد علی شاہ نے کہا کہ آئی جی صاحب آپ میری ٹیم میں کام کے نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں نجی ٹی وی چینل کی گاڑی پر فائرنگ اور اس کے نتیجے میں اسسٹنٹ کیمرہ مین کے جاں بحق ہونے پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ٹیلی فون کیا۔

    انہوں نے اے ڈی خواجہ پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں دہشت گردی ہوئی آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ مجھے اطلاع نیو زچینلز سے ملی۔

    انہوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ دیانتدار پولیس افسر عہدوں پرتعینات ہو رہے ہیں، آئی جی صاحب آپ میری ٹیم میں کام کے نہیں ہیں۔ مراد علی شاہ نے ٹیلی فون پر آئی جی سندھ سے کئی سوال پوچھ لیے۔

    مزید پڑھیں : نجی چینل کی ڈی ایس این جی پر فائرنگ، ایک شخص جاں بحق 1 زخمی

    انہوں نے کہا کہ پولیس وین پر حملے کے بعد پولیس ٹیمیں دیر سے بھی کیوں نہیں پہنچیں؟ وزیراعلیٰ نے آئی جی سے مزید کہا کہ جواز مت بتائیں جو پوچھا جا رہا ہے اس کا جواب دیں کہ شہر میں وارداتیں اچانک کیوں بڑھ رہی ہیں، پولیس کہاں ہے؟ اس واقعے کے ذمہ داران کون ہیں ؟ ڈی آئی جی ،ایس ایس پی ،اے ایس پی ،ڈی ایس پی یاایس ایچ اوز؟

    واضح رہے کہ نارتھ ناظم آباد کے علاقے کے ڈی اے چورنگی کے قریب نامعلوم افراد نے سماء ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 2 افراد زخمی ہوئے۔ اسسٹنٹ کیمرہ مین تیمور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیا جبکہ ڈی ایس این جی آپریٹر کی حالت بھی تشویشناک ہے۔