Author: اعجاز الامین

  • کورونا وائرس کے مریضوں کو ایک اور بڑے خطرے کا سامنا؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    کورونا وائرس کے مریضوں کو ایک اور بڑے خطرے کا سامنا؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد بڑی مشکل میں پڑ سکتے ہیں، محققین کا کہنا ہے کہ متعدد مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    اس سے قبل اگست 2020 میں امپرئیل کالج لندن کے محققین نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کووڈ 19 بچوں میں ذیابیطس ٹائپ ون کا باعث بن سکتی ہے۔

    اب طبی جریدے نیچر میٹابولزم میں شائع نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ اٹلی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 551 کووڈ مریضوں میں سے 46 فیصد کا بلڈ شوگر لیول بڑھ گیا، جو ذیابیطس کے مریضوں میں ایک عام مسئلہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق یہ مسئلہ مریضوں میں کوویڈ سے صحتیابی کے بعد بھی کم از کم 2 ماہ تک برقرار رہا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تو معلوم نہیں کہ کورونا وائرس سے متحرک ہونے والے ذیابیطس کے مرض کا بہترین علاج کیا ہے، مگر ایک ماہر نے خبردار کیا کہ کووڈ کے باعث ہمیں شاید ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافے کو دیکھنا پڑے گا۔

    ذیابیطس کی 2 اقسام عام ہیں، جن میں سے ٹائپ ون ایک آٹوامیون مرض ہے جو اس وقت سامنے آتا ہے جب مریض کا جسم غلطی سے انسولین بنانے والے خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں ذیابیطس ٹائپ 2 کو مریض کے طرز زندگی سے منسلک کیا جاتا ہے، یعنی زیادہ جسمانی وزن یا سست طرز زندگی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔

    ذیابیطس کے مریضوں کے بارے میں یہ پہلے ہی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ان میں کورونا وائرس سے بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر اب ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ کووڈ اس خاموش قاتل مرض کا شکار بھی بناسکتا ہے۔

    کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کو سمجھنے کے لیے بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ماہرین نے اٹلی کے شہر میلان کے ایک ہسپتال میں مارچ سے مئی 2020 کے دوران زیر علاج رہنے والے 551 مریضوں کا جائزہ لیا۔

    ان مریضوں میں ایک بلڈ شوگر سنسر ہسپتال میں داخلے کے وقت نصب کیا گیا تھا اور اس کے ڈیٹا کا جائزہ 6 ماہ تک لیا گیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ان مریضوں میں سے کوئی بھی ہسپتال میں داخلے سے پہلے سے ذیابیطس کا شکار نہیں تھا اور ہم نے 46 فیصد مریضوں میں نئے ہائپر گلیسیما کو دریافت کیا۔

    ہائپر گلیسمیا ہائی بلڈ شوگر لیول کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح ہے، وقت کے ساتھ اس کے نتیجے میں مریضوں کی آنکھوں، اعصاب، گردوں یا خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن مریضوں کو کووڈ کے باعث ہائی بلڈ شوگر کا سامنا ہوا ان کو دیگر مریضوں کے مقابلے میں ہسپتال میں زیادہ عرصے قیام کرنا پڑا، ان کی علامات زیادہ سنگین تھیں اور انہیں آکسیجن، وینٹی لیشن اور آئی سی یو نگہداشت کی بھی زیادہ ضرورت پڑی۔

    محققین کے مطابق حیران کن طور پر ان افراد میں انسولین کی بہت زیادہ مقدار بننے لگی تھی جبکہ بلڈ شوگر لیول کی سطح کم کرنے والے خلیات کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

    انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر لبلبے کے ہارمونز میں آنے والی خرابیوں سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے باعث انہیں ان مسائل کا سامنا ہوا اور صحتیابی کے لیے بھی زیادہ وقت لگا۔

    کورونا وائرس کی یچیدگیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مریض کا مدافعتی نظام حد سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں ورم کا باعث بننے والے مالیکیولز کی بھرمار ہوجاتی ہے جو صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ورم کا باعث بننے والے مدافعتی پروٹیشنز کو بلاک کرنے سے مریضوں کے بلڈ شوگر لیول کو کسی حد تک بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

    تاہم دیگر مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں اور ہر بار کھانے کے بعد ان مریضوں کے جسم میں گلوکوز کی سطح میں غیرمعموی اضافہ ہوجاتا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ اولین تحقیقی رپورٹس میں سے ایک ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 براہ راست لبلبے پر اثرات مرتب کرنے والا مرض ہے جو کہ طویل المعیاد طبی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

    ان مریضوں کا علاج کس طرح ہوسکتا ہے یہ تاحال کسی اسرار سے کم نہیں، کیونکہ انسولین کو مسلسل بلاک کرنے سے دائمی ورم کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے نقصان بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس حواے سے زیادہ بڑی تحقیق کیے جانے کی ضرورت ہے، کیونکہ کروڑوں افراد کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی دنیا بھر میں جاری ہے، جس سے ذیابیطس کے شکار آبادی میں نمایاں اضافے کا خدشہ ہے۔

    یہ تو ابھی مکمل طور پر واضح نہیں کہ کووڈ ذیابیطس کا باعث کیوں بن سکتا ہے، مگر ایک ممکنہ وضاحت لبلبے میں ایس 2 ریسیپٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہونا ہے، جس کو کورونا وائرس خلیات میں داخلے کے لیے استعتمال کرتا ہے۔

    اسی طرح کورونا وائرس کے مریضوں میں مدافعتی نظام کے باعث متحرک ہونے والا ورم بھی لبلبلے کو نقصان پہنچا کستا ہے جس سے اس کی انسولین بنانے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔

  • مریخ کی ساخت اندر سے کیسی ہے؟ سائنسدانوں کو بڑی کامیابی مل گئی

    مریخ کی ساخت اندر سے کیسی ہے؟ سائنسدانوں کو بڑی کامیابی مل گئی

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اب مریخ کی اندرونی ساخت کا مکمل تعین کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

    سائنسدانوں نے خلائی جہاز "ان سائٹ” سے حاصل ہونے والی معلومات پر مریخ کے اندرونی ڈھانچے کی مکمل شکل تیار کرلی ہے۔ ناسا کا ان سائٹ خلائی جہاز سال 2019 سے مریخ پر آنے والے زلزلوں کو ریکارڈ کررہا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مریخ کی بیرونی پرت یا کرسٹ کی موٹائی 24 سے 72 کلومیڑ ہے جو اندازوں سے کم ہے لیکن سب سے اہم دریافت مریخ کی اندرونی پرت یا کور سے متعلق ہے جس کا نصف قطر 1830 کلومیٹر ہے۔

    یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدان زمین کے علاوہ کسی اور سیارے کے اندرونی ڈھانچے کا تعین کر سکے ہیں۔ چاند کی اندرونی ساخت کا بھی پتا چلایا گیا ہے لیکن مریخ کا نصف قطر 3390 کلومیٹر ہے جو چاند سے بہت زیادہ ہے۔ مریخ کی اندرونی ساخت کے بارے میں معلومات سیاروں کے قیام اور ان کے ارتقائی عمل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

    خلائی جہاز ان سائٹ نے مریخ کی اندرونی ساخت کو سمجھنے کے لیے بھی وہی طریقہ اپنایا ہے جو زمین پر ماہرین ارضیات اپناتے ہیں یعنی زلزلوں کے سگنلز کو سمجھ کر زمین کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تعین کیا جاتا ہے۔

    قدرتی عوامل توانائی کی لہروں کو چھوڑتے ہیں اور ان لہروں کی رفتار اور راستے کی تبدیلی سے ان چیزوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے جن سے توانائی کی لہریں گزرتی ہیں۔

    ناسا نے زلزلہ ناپنے کے لیے جس نظام کا استعمال کیا ہے اس نے پچھلے دو برسوں میں سینکڑوں زلزلوں کو محسوس کیا جو سرخ سیارے کی اندرونی ساخت کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ ناسا مشن کی آلات والی ٹیم کی سربراہی فرانس اور برطانیہ کرتے ہیں۔ مریخ کی وہ سطح جہاں خلائی جہاز موجود ہے، وہاں مریخ کی بیرونی پرت کا تعین 20 سے 39 کلومیٹر کیا گیا ہے۔

    ریاضی کے فارمولے”معلوم سے نامعلوم”کے تحت مریخ کی بیرونی پرت کا تعین 24 سے 72 کلومیٹر کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس زمین کی بیرونی پرت کی اوسط موٹائی 15 سے 20 کلومیٹر ہے اور ہمالیہ جیسے خطے میں زمین کی بیرونی پرت کی موٹائی 70 کلومیٹر بنتی ہے۔

    لیکن سب سے دلچسپ معلومات مریخ پر زلزلوں کے سگنلز کی ہے جو تقریباً 1560 کلومیٹر گہرائی سے واپس لوٹتی ہے اور یہ مائع شکل میں ہے۔

    پہلے کے اندازوں میں مریخ کی اندرونی پرت چھوٹی سمجھی جاتی تھی لیکن اس نئی تحقیق سے پرانے اندازوں کی نفی ہوتی ہے۔
    ان سائٹ خلائی جہاز کو 2018 میں لانچ کیا گیا تھا

    ناسا مشن کا کہنا ہے کہ اس نئے مشاہدے سے دو خوبصورت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مریخ کی اندرونی پرت ماضی کے اندازوں سے کم کثیف ہے اور اس کی ہیت میں آئرن نکل زیادہ ہے اور اس میں سلفر جیسے دوسرے اجزا کی مقدار کافی ہے۔

    دوسرا نتیجہ یہ کہ اندرونی اور بیرونی پرتوں یعنی کرسٹ اور کور کے درمیان مینٹل کی موٹائی اتنی زیادہ نہیں جتنا پہلے اندازہ لگایا گیا تھا اور زمین کے برعکس یہ صرف چٹانوں کی ایک تہہ ہے۔

    مریخ کے حجم کو جانتے ہوئے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مینٹل یا درمیانی پرت میں دباؤ سے معدنیات کوئی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اس کے برعکس زمین کی درمیانی پرت معدنیات سے ڈھکی ہوئی ہے جس سے گرمائش کے اخراج کا عمل سست ہو جاتا ہے۔

    مریخ کے ابتدائی دنوں میں اسی مینٹل یا درمیانی پرت پر معدنیات کی تہہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی ٹھنڈا ہو گیا ہے۔

    اسی وجہ سے مریخ کے ابتدائی دور میں دھاتوں کے اخراج میں مدد ملتی تھی جس سے عالمی مقناطیسی عمل چلتا تھا لیکن وہ اب مکمل طور پر بند ہو چکا ہے اور اب مریخ پر مقناطیسی لہروں کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔ مریخ کی سطح خشک اور ٹھنڈی ہے جہاں ہر وقت تابکاری شعاؤں کی بارش ہوتی رہی ہے

    امپیریل کالج لندن کے پروفیسر ٹم پائک ناسا مشن کا حصہ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’ہم پہلی بار زلزلوں کو ماپنے کی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایک اور سیارے کے اندرونی ڈھانچے کو دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’ہم نے مریخ پر دیکھا کہ اس کی درمیانی پرت کہیں موٹی اور کہیں سے ہمارے اندازوں سے زیادہ پتلی ہے۔ اس سے ہمیں سیارے کے ارتقائی عمل کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا ہے۔‘

    کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹر سانے کوٹار نے خلائی جہاز ان سائٹ کے نتائج کو ہنر مندی کا عظیم مظاہرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مریخ پر چھوٹے چھوٹے زلزلوں جن کی شدت کبھی چار اعشاریہ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے، انھیں ریکارڈ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ زمین پر اتنی شدت کے زلزلے کو تبھی محسوس کیا جاتا ہے اگر زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی میں نہ ہو۔

  • یہ فینز کس کو دیکھنے آئے تھے ؟ اظہرعلی کا شعیب اختر سے سوال

    یہ فینز کس کو دیکھنے آئے تھے ؟ اظہرعلی کا شعیب اختر سے سوال

    کراچی : قومی ٹیم کے کھلاڑی اظہر علی نے ٹیم کے کھلاڑیوں پر کی جانے والی تنقید کا جواب دے دیا، ان کا کہنا ہے کہ اسٹیڈیم میں اتنے سارے شائقین کس کو دیکھنے آئے تھے؟

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک تازہ پیغام میں اظہر علی نے ایک تصویر شئیر کی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ناٹنگھم کے میدان میں کھیلے جانے والے ٹی ٹوینٹی میچ میں شائقین کی بڑی تعداد موجود ہے۔

    اظہر علی نے تصویر کے کیپشن میں لکھا کہ یہ فینز کس کو دیکھنے آئے تھے ؟؟ یاد رہے کہ کچھ دنوں قبل سابق فاسٹ بالر شعیب اختر نے پاکستان ٹیم کی ناقص کاکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    پاک انگلینڈ ون ڈے سیریز میں قومی ٹیم کی بدترین شکست پر راولپنڈی ایکسپریس نے اپنے یوٹیوب چینل سے ٹیم انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ شائقین ایسے کھلاڑیوں کو دیکھنے کیلئے پیسے خرچ کرکے اسٹیڈیم کیوں آئیں گے؟

    ان کا کہنا تھا کہ ایسی ٹیم کو دیکھنے کے لیے کون پیسے خرچ کرے گا جو انگلینڈ کی اکیڈمی ٹیم سے بھی ہار جائے، قومی ٹیم کی سلیکشن ہی صحیح نہیں، ٹی ٹوئنٹی کی بنیاد پر منتخب کھلاڑیوں کو ون ڈے اور ٹیسٹ میں کھلایا جارہا ہے۔

    ‘کون پیسے دے کر ایسی ٹیم کو دیکھنے آئے گا’ قومی ٹیم کی شکست پر شعیب اختر برہم

    واضح رہے کہ انگلینڈ کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز کا پاکستان نے فاتحانہ آغاز کردیا ہے، پہلے ٹی ٹوئنٹی میں انگلینڈ کو31 رنزسے شکست دے دی ہے۔  جس کے بعد اظہر علی نے  یہ پیغام  کسی کا نام لیے  بغیر ٹوئٹر پرجاری کیا۔

  • ایک پیر پر کھڑے ہونے کے ذہنی اور جسمانی فوائد

    ایک پیر پر کھڑے ہونے کے ذہنی اور جسمانی فوائد

    کیا آپ کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس سے آپ کو چوٹ لگنے کا کم خطرہ ہو، آپ کی چال ڈھال میں سدھار آئے اور آپ کی زندگی میں بہتری واضح ہو؟ جی ہاں اس کا ایک بہت آسان طریقہ ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ایکسیڈنٹ کے بعد سب سے زیادہ لوگ حادثاتی طور پر گرنے کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں، ماضی کے مقابلے اب ہم انسانوں کی جسمانی توازن قائم کرنے صلاحیت کم ہو گئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں معروف یوگی سید منور حسن نے اس حوالے سے ناظرین کو آگاہی دی، انہوں نے بتایا کہ یوگا ہر عمر کے افراد کیلئے بہترین ورزش ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے تو آپ اسٹاپ واچ آن کیجیے اور صرف تیس سیکنڈ کے لیے ایک پیر پر کھڑے ہو جائیے، اس کے بعد اب دوسرے پیر کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں۔

    آپ دیکھیں گے کہ آپ آہستہ آہستہ اپنا توازن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسا کرتے رہنے سے آپ کی چال میں تبدیلی نظر آئے گی اور گرنے کے امکان بھی کم ہو جائیں گے۔

    ایک ٹانگ پر کھڑے ہونے کے فوائد بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے نہ صرف ہمارے جسم کا بیلنس بہتر ہوتا ہے بلکہ دماغ پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایک پیر پر کھڑے ہونا بہت اچھی اور فائدہ مند ورزش ہے، اس کا آغاز دس سیکنڈ سے بھی کرسکتے ہیں، اور چیئر پوز یعنی کرسی کی طرح بیٹھنا بھی بہت فائدہ مند ہے۔

  • دنیا میں خوبصورتی کے منفرد اور انوکھے انداز، جسے دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے

    دنیا میں خوبصورتی کے منفرد اور انوکھے انداز، جسے دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے

    فیشن ہر دور میں نئے انداز میں سامنے آتا ہے اور وقت کے ساتھ بدلتا بھی رہتا ہے، مرد ہوں یا خواتین دونوں کی خوبصورتی کے اپنے علیحدہ معیار ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ خوبصورت نظر آنا ہر عورت کا بنیادی حق ہے جسے وہ استعمال بھی کرتی ہیں اسی لیے دنیا بھر میں فیشن انڈسٹری دن بہ دن ترقی کی جانب گامزن ہے۔

    ہر ملک میں فیشن اور خوبصورتی کے الگ الگ معیار ہیں، اس کا تعلق کافی حد تک علاقائی ثقافت سے بھی ہوتا ہے، جس کی مناسبت سے یہ انداز بہت دلچسپ اور عجیب نظر آتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں مختلف ممالک میں خوبصورتی کو اجاگر کرنے کیلئے کیے جانے والے انداز کو دکھایا گیا گیا ہے۔

    ایک میاؤ نامی مقام پر رہنے والی خواتین خود کو خوبصورت اور منفرد دکھانے کیلئے اپنے آباؤ اجداد کے بالوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ان بالوں کو لکڑی کے بڑے سے کنگھے پر باندھ کر اپنے سر پر رکھتی ہیں جس کا وزن تقریباً چھ کلو ہوتا ہے۔

    لمبی گردن ہمارے ہاں بھی خوبصورت کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن برما کی خواتین نے اپنی گردنیں ضرورت سے زیادہ ہی لمبی کر رکھی ہیں، جس کیلئے وہ اپنی گردن میں پیتل کی بہت ساری کڑیاں ڈال کر رکھتی ہیں۔

    برما کے علاقے بڈاؤں نامی علاقے کی خواتین اپنے گلے میں 15 کلو وزنی پیتل کی کڑیاں ڈالے رکھتی ہیں، جس ان کی گردنیں ناقابل یقین حد تک لمبی ہوجاتی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ جس کی گرن جتنی لمبی ہوگی وہ اتنا ہی خوبصورت شمار ہوگی۔

    سفید اور موتی جیسے دانت سب کو پسند ہوتے ہیں جس کیلیے طرح طرح کے لوازمات اور طریقے اپنائے جاتے ہیں لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے دانت سفید کے بجائے کالے کرواتے ہیں۔

    ارگارو نامی علاقے کی خواتین ایک ایسی روایت پر عمل کرتے آرہی ہیں جس میں دانتوں کا باقاعدہ کالا کروایا جاتا ہے، اس میں ایسی اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے جو منہ سے خوشبو آنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح ان کی دولت میں اضافہ ہوگا اور وہ خوبصورت بھی دکھائی دیں گی۔

  • اسٹنگرے فش جو گدگدی کرنے پر انسانوں کی طرح ہنستی ہے، ویڈیو دیکھیے

    اسٹنگرے فش جو گدگدی کرنے پر انسانوں کی طرح ہنستی ہے، ویڈیو دیکھیے

    آپ نے سوشل میڈیا یا یو ٹیوب پر سمندری جانوروں سے متعلق تو بہت سی ویڈیوز دیکھی ہوں گی جن میں عجیب الخلقت مچھلیوں یا دیگر آبی حیات کو دکھایا جاتا ہے۔

    ایک ایسی ہی ویڈیو ٹک ٹاک پر بھی وائرل ہورہی ہے جس میں  پتنگ نما اسٹنگرے فش  نامی ایک مچھلی کو دکھا گیا ہے، جو شکاری کے جال میں پھنس گئی تھی، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شکاری اس مچھلی کو پکڑ کر اسے پلٹ دیتا ہے۔

    Difference between Manta Ray and Stingray | Difference Between

    ویڈیو کی خاص بات یہ ہے کہ جب شکاری اس کے  پیٹ اور گلے کے حصے پر گدگدی کرتا ہے تو وہ مچھلی انسانوں کی طرح ردعمل کرتی ہے اور اس کے چہرے پر کھلکھلاتی ہوئی ہنسی  آجاتی ہے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کو لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور ہزاروں نے شیئر بھی کیا، ایک طرف ویڈیو کو بہت پسند کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب شکاری کی اس حرکت پر صارفین اپنے غم و غصے کا بھی اظہار کررہے ہیں۔

    The Remarkable Ray of Dublin's Ringsend | Environment & Society Portal

    اس ویڈیو میں 47 ملین سے زیادہ لائیکس تو ہیں لیکن اس نے واضح طور پر صارفین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشتی پر اس شخص کی جانب سے کیا جانے والا گدگدی کرنے کا یہ عمل بے زبان جانوروں پر ظلم کے مترادف ہے جس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔

    Types of Rays: A Quick Guide

    ایک صارف نے کہا کہ دیکھو کہ وہ کتنی خوش ہے اگر آپ کا دن پوری طرح سے بور گزر رہا ہے تو اس ویڈیو کو دیکھیں آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی اور اداسی دور ہوجائے گی۔

    ایک اور کمنٹ میں لکھا گیا کہ محض ٹک ٹاک بنانے کیلئے آپ اس مچھلی کو تکلیف دے رہے ہیں جس سے اس کا دم گھٹ رہا ہے، مجھے امید ہے کہ آپ اسے جلد از جلد پانی میں واپس ڈال دیں گے۔

  • اونٹنی کا دودھ ذیابیطس اور کینسر میں مفید قرار، مزید فوائد بھی سامنے آگئے

    اونٹنی کا دودھ ذیابیطس اور کینسر میں مفید قرار، مزید فوائد بھی سامنے آگئے

    مشرق کی طرح مغرب میں بھی اونٹنی کے دودھ کے استعمال کا رحجان جاری ہے لیکن ناقدین کا اصرار ہے کہ انسانوں کی بجائے جانوروں پر اس کے تجربات کئے گئے ہیں۔

    اونٹنی کا دودھ ، دہی اور مکھن وغیرہ اپنی زبردست غذائیت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں وٹامن سی، فولاد، کیلشیئم، انسولین اور پروٹین کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔

    اونٹنی کے دودھ پر عرصہ دراز سے تحقیق کی جارہی ہے اور اب تک اس کے کئی فوائد سامنے آچکے ہیں تاہم تازہ ترین تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اونٹنی کا دودھ اپنے اندر بیش بہا خصوصیات رکھتا ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

    متحدہ عرب امارات یونیورسٹی نے خاص طور پر اونٹنی کے دودھ کے اینٹی ڈئباٹک خصوصیات کی تحقیقات کرنے کے منصوبے کے لئے مالی اعانت فراہم کی ہے۔

    اس منصوبے پر خصوصی توجہ دینے کا مقصد اس دودھ سے مزید فوائد حاصل کرنا ہے خاص طور پر وہ فوائد جن سے ذیابیطس کے مریض مستفید ہوسکیں۔

    اونٹنی کا دودھ متحدہ عرب امارات اور دنیا کے بہت سارے حصوں میں ایک مقبول شے ہے۔ یہ ذیابیطس اور کینسر جیسی بیماریوں کے خلاف اپنے علاج معالجے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ بھی وسیع پیمانے پر نوٹ کیا گیا ہے کہ اونٹنی کا دودھ گلیسیمک کنٹرول کو راغب کرنے کے لئے درکار انسولین کی خوراک کو کم کرتا ہے اور خون میں گلوکوز کو بہتر بناتا ہے۔

    اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک خصوصیات کی تحقیقات دنیا بھر میں بہت سارے محققین نے کی ہیں چنانچہ متحدہ عرب امارات کے کالج آف سائنس کے شعبہ حیاتیات سے ڈاکٹر محمد ایوب، ڈاکٹر ساجد مقصود کی لیب ، متحدہ عرب امارات کے زید سینٹر برائے ہیلتھ سائنسز یو اے ای یو کے تعاون سے ، متحدہ عرب امارات کے محکمہ فوڈ سائنس ، کالج آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر کی لیب نے مشترکہ طور پر اونٹنی کے دودھ کی غذائیت اور خصوصیات کا مطالعہ کیا۔

    اس مطالعے کا مقصد اونٹنی کے دودھ میں پروٹین حصوں سے جراثیم کش اینٹی ڈئباٹک ایجنٹ کی نشاندہی کرنا اور سالماتی سطح پر اس کے عمل کے انداز کو سمجھنا ہے۔ ڈاکٹر ایوب اور ڈاکٹر مقصود نے حال ہی میں ایک مطالعہ شائع کیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اونٹ کے دودھ سے نکالا جانے والا جیوپیوٹک پیپٹائڈس انسانی انسولین ریسیپٹر اور خلیوں میں گلوکوز کی نقل و حمل پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ ایک اور تحقیق میں اونٹنی کے دودھ میں پروٹین کے علاوہ ذیابیطس سے بچنے والی خصوصیات کے حق میں بھی ثبوت فراہم کیے گئے جس میں ذیابیطس چوہوں میں اینٹی ہائپرگلیسیمیک اثر کا تجربہ کیا گیا۔ یہ نتائج انتہائی امید افزا ہیں اور اونٹ کے دودھ کی بنی مصنوعات کا استعمال کرتے ہوئے ذیابیطس کے خلاف جنگ میں ایک پیشرفت کا باعث بن سکتے ہیں۔

    اس طرح اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک ڈیزاسٹ خصوصیات کی تحقیقات سے ذیابیطس کی پیچیدگیوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور متحدہ عرب امارات اور دنیا میں اس دائمی بیماری کے خلاف جنگ میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔

    اس کے علاوہ اس طرح کی دریافتیں متحدہ عرب امارات کی معاشی نمو میں خاص طور پر اونٹنی کے دودھ پر مبنی ذیابیطس کے علاج سے متعلق ادوایات کی دریافت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کو ایک اہم معاشی وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔

    اونٹنی کے دودھ کو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اونٹ کے دودھ کے بے تحاشہ فوائد اور بھی ہیں جو اس کے باقاعدہ استعمال سے حاصل ہوسکتے ہیں۔

  • کبوتر کی یہ خوبصورت اور نایاب نسل آپ نے شاید ہی پہلے کبھی دیکھی ہو

    کبوتر کی یہ خوبصورت اور نایاب نسل آپ نے شاید ہی پہلے کبھی دیکھی ہو

    چشم حلقہ کبوتر Bare-eyed pigeon:

    بھورے ، سرمئی اور سیاہ رنگ پر مشتمل اس کبوتر کی خاص نشانی اس کی آنکھوں کے گرد واضح سیاہ حلقے اور اس کی گردن کی پشت پر موجود نیلا نشان ہے۔ اس منفرد شکل کے کبوتر کا تعلق جنوبی امریکہ سے ہے۔

     اس کا سائنسی نام ہے۔ Patagioenas corensis

    جغرافیائی حدود :
    یہ خوبصورت کبوتر جنوبی امریکہ، کولمبیا۔ وینزویلا۔ اروبا اور مضافاتی جزائر میں پایا جاتا ہے۔ اس کا مسکن حاری و نیم حاری جنگلات اور جھاڑیاں وغیرہ ہیں۔

    جسمانی پیمائش اور خوراک :

    چشم حلقہ کبوتر کا سائز 23 سم جبکہ وزن 283 گرام تک ہوتا ہے۔ اس کی پسندیدہ خوراک میں مختلف بیج، دانے اور چھوٹے جنگلی پھل شامل ہیں

    اس کی عمر کے بارے میں وثوق سے تو نہیں کہا جاسکتا تاہم ماہرین حیوانیات کا کہنا ہے کہ اس کی عمر چھ سال تک متوقع ہے۔

    رہن سہن اور افزائش نسل :

    چشم حلقہ کبوتر میں نر و مادہ کی تفریق یہ ہے کہ مادہ کی آنکھوں کے گرد حلقے نہیں ہوتے۔ یہ کبوتر رہتا تو درختوں پر گھونسلہ بنا کر ہے لیکن خوراک کے لیے اپنا زیادہ وقت زمین پر چگنے میں گزارتا ہے۔

    یہ ایک مستعد کبوتر ہے جو خطرہ محسوس ہوتے ہی فوراً اڑان بھر کر درختوں پر واپس چلا جاتا ہے۔ یہ ایک مظبوط ہوا باز ہے جو طویل فاصلوں تک یہاں تک کہ ایک جزیرہ سے دوسرے پر بھی اڑ کے چلا جاتا ہے۔

    ایک جائزے کے مطابق اسے 1300 فٹ بلند علاقوں میں بھی رہائش رکھتے دیکھا گیا ہے۔ ان چشم حلقہ کبوتروں کے ہاں افزائش نسل موسم برسات میں شروع ہوتی ہے۔

    فی موسم چشم حلقہ کبوتری 1 ہی انڈہ دیتی ہے جسے 17 دن تک سینے کے بعد چوزے کی پیدائش ہوتی ہے، پیدائش کے بعد چوزا 2 ہفتے تک ماں کے زیر سایہ پرورش پاتا ہے۔

    بقائی کیفیت :

    واضح رہے کہ اس کبوتر کو گوشت، ٹرافی ہنٹنگ اور بطور پالتو پرندہ فروخت کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر شکار کیا گیا پے جس سے اس کی آبادی میں واضح کمی آچکی ہے۔

  • صادق سنجرانی، سابق وزرائے اعظم کے معاون سے دوسری بار چیئرمین سینیٹ تک

    صادق سنجرانی، سابق وزرائے اعظم کے معاون سے دوسری بار چیئرمین سینیٹ تک

    اسلام آباد: سینیٹ الیکشن میں حکومت کی جانب سے نامزد کردہ امیدوار صادق سنجرانی مسلسل دوسری بار چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے ہیں، انہوں نے48 ووٹ حاصل کئے، ان کے مد مقابل پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی 42 ووٹ حاصل کرسکے۔

    پہلی بار صادق سنجرانی کے نام کی تجویز بلوچستان سے کی گئی تھی، اس بار حکومت نے سینیٹ انتخابات کے فوری بعد انہیں چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔

    صادق سنجرانی کون ہیں؟

    میر صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی سے ہے، ان کے والد خان محمد آصف سنجرانی کا شمار علاقے کے قبائلی رہنماؤں میں ہوتا ہے جبکہ وہ ضلع کونسل چاغی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔

    میرصادق سنجرانی 14اپریل 1978 کوبلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم نوکنڈی میں حاصل کی، بعد ازاں انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور اسلام آباد منتقل ہوگئے۔

    مزید پڑھیں: صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب

    میرصادق سنجرانی پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں، ان کے ایک بھائی اعجاز سنجرانی نواب ثنا اللہ زہری کے دور حکومت میں محکمہ خزانہ کے مشیر رہ چکے ہیں، گزشتہ عام انتخابات میں ہونے والی حکومت کی تبدیلی کے باوجود وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے انہیں اس عہدے پر برقرار رکھا تھا۔

    میر صادق سنجرانی کے ایک اور بھائی محمد رازق سنجرانی سینڈک پروجیکٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔

    سابق حکومتوں کے ساتھ کام

    میر صادق سنجرانی 1998 میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے معاون (کوآرڈینیٹر) بھی رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں 2008 میں یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو ایک شکایتی سیل قائم کیا جس کی سربراہی انہوں نے میر صادق سنجرانی کو دی، جہاں وہ پانچ سال تک بطور سربراہ امور انجام دیتے رہے۔

    پہلی بار چیئرمین سینیٹ کا انتخاب

    تین سال قبل میر صادق سنجرانی کا نام بطور امیدوار چیئرمین سینیٹ وزیراعلٰی بلوچستان نے دیا تھا جس پر پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ نے ان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: ماضی سے پیوستہ: بلاول بھٹو نے صادق سنجرانی کی فتح‌ کو ریاست کی فتح قرار دے دیا

    سال 2018 میں عبدالقدوس بزنجو اور میر صادق سنجرانی بلوچستان سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر سینیٹر منتخب ہوئے تھے، یاد رہے کہ صادق سنجرانی کا کبھی عوامی سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا، ان کی پہچان کاروباری شخصیت کے طور پر ہوتی تھی، ان کا کاروبار بلوچستان کے علاوہ دبئی تک پھیلا ہوا ہے۔

  • بھارتی ٹی وی ڈرامے کا مضحکہ خیز منظر، ویڈیو وائرل

    بھارتی ٹی وی ڈرامے کا مضحکہ خیز منظر، ویڈیو وائرل

    ممبئی : بھارت کے ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے سنجیدہ ڈراموں میں مضحکہ خیز اور  غیر حقیقی مناظر   دیکھنے والوں کو ہنسنے پر مجبور کردیتے ہیں، اس کی وجہ ڈرامے کہ کہانی نہیں بلکہ وہ ڈائرکشن ہے جس پر فنکار اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہیں۔

    بھارتی چینلز مالکان اور ڈرامہ ہدایتکار ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ (ٹی آر پی) حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا کہ اس منظر کا حقیقت سے دور دور تک بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں؟

    ان دنوں اسی طرح کی  ایک ڈرامہ سیریل ’’سسرال سمر کا‘‘ نشر کیا جارہا ہے جس کی کہانی گھریلو معاملات اور رشتوں کے نبھاؤ پر مبنی ہے،جس میں بعض مناظر ایسے ہیں جسے دیکھ کر ناظرین بے ساختہ ہنسے  بنا نہیں رہ پائیں گے۔

    اس ڈرامے کی مقبولیت صرف ناظرین تک ہی نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا پر اس کے کچھ مناظر پر مزاحیہ میمز بھی بنائی جارہی ہیں، جسے بے حد پسند کیا جارہا ہے اور صارفین دلچسپ کمنٹس بھی کررہے ہیں۔

    https://twitter.com/NoConViolence/status/1355003815112695808?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1355003815112695808%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.indiatimes.com%2Ftrending%2Fwtf%2Fsasural-simar-ka-viral-video-533288.html

    اس ڈرامے کے ایک سین میں خاندان کی سربراہ ماتا جی جو کسی بات پر اپنی پوتی سے ناراض ہیں، منہ پھیر کر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ڈانٹ رہی ہیں اور پوتی اپنی دادی سے ان کا دوپٹہ پکڑ کر معافیاں مانگ رہی ہے۔،

    اچانک ماتاجی کا دوپٹہ پوتی کے گلے میں پتہ نہیں کس طرح پھنس جاتا ہے اور وہ دم گھٹنے سے بے ہوش ہوجاتی ہے لیکن ماتاجی مڑ کر بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتیں کہ ان کی پوتی بولتے بولتے خاموش کیوں ہوگئی؟ اس کے بعد وہ خاموشی سے باہر چلی جاتی ہیں۔

    اس ڈرامے کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوا جس میں ایسی حماقت دیکھ کر لوگ اپنی ہنسی نہ روک پائے، سنجیدہ ڈراموں میں اس طرح کے مزاحیہ مناظر دیگر ممالک میں ہی نہیں بلکہ خود بھارت کے ناظرین بھی اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

    اس سے قبل اسی ڈرامے کے ایک اور سین میں کچھ ایسی ہی حماقت کا مظاہرہ کیا گیا گیا تھا کہ جس میں ان ہی ماتا جی نے ایک عورت کو اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ وہ بے چاری دور جاگری اور کسی جادوئی طریقے سے دروازے پر لگا پردہ اس کے گلے کا پھندا بن گیا۔

    یہی نہیں وہاں موجود دیگر کردار جس مں مرد بھی شامل تھے حیرت سے منہ کھولے کھڑے یہ تماشا دیکھتے رہے اور کافی دیر بعد ان کو گلے سے پھندا نکالنے کا خیال آیا۔