Author: فیض احمد فیض

  • جماعت اسلامی سے ملاقات کے دوران سعیدغنی نے فون پر کیا کہا؟

    رہنما پیپلزپارٹی سعیدغنی کی امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات کا احوال سامنے آگیا۔

    ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے وفد نے مئیرکراچی کے عہدے کیلئے جماعت اسلامی سے بات کی۔ جماعت کا موقف تھا کہ میئر سے پہلےنتائج تبدیل کئے جانے کے معاملے پر بات کی جائے اور جماعت کے کامیاب امیدواروں کے نتائج تبدیلی معاملے پر پہلے بات ہو۔

    جماعت اسلامی کی قیادت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےکامیابی سےانتخابات کرائے لیکن آر اوز اور ڈی آراوز صورتحال خراب کر رہے ہیں آراوز، ڈی آراوز سندھ حکومت کے افسران ہیں جو نتائج تبدیل کر رہے ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/saeed-ghani-hafiz-naeem-news-conference-in-karachi/

    سعیدغنی نےدوران ملاقات ہی فون کر کے دوبارہ گنتی روکنےکی ہدایت کی۔ ملاقات کےبعدبعض حلقوں میں دوبارہ گنتی رُکنے کی اطلاع ہیں۔ پیپلزپارٹی نےکئی حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواست دےرکھی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ ملاقات میں مئیرکراچی کے معاملے پر بات ہو سکتی ہے۔ حافظ نعیم نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت سے فون پر بات ہوئی اور براہ راست ملاقات نہیں ہوئی، پی ٹی آئی سےبراہ راست ملاقات جلد متوقع ہے۔

  • تحریک انصاف کے شکور شاد کا فیاض الحسن سے معافی مانگنے کا مطالبہ

    تحریک انصاف کے شکور شاد کا فیاض الحسن سے معافی مانگنے کا مطالبہ

    تحریک انصاف کے لیاری سے منتخب ایم این اے شکور شاد نے اپنے ہی پارٹی کے پنجاب سے ‏صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کو لیاری والوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا۔

    اپنے ویڈیو پیغام میں شکور شاد نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر سندھ حلیم عادل شیخ پر جیل میں حملے ‏میں میڈیا پر لیاری والوں کو نامزد کرنے اور غنڈہ کہنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ‏

    انہوں نے کہا کہ میں فیاض الحسن چوہان سے مطالبہ کرتا ہوں اپنے اس غیر زمہ دارانہ بیان پر ‏لیاری کی عوام سے فی الفور معافی مانگیں۔

    شکور شاد نے کہا ہے کہ لیاری میں کوئی گینگ وار نہیں یہاں کے 99 عشاریہ 99 فیصد لوگ شریف ‏ہیں جن کی شرح کسی بھی دوسرے علاقے سے زیادہ ہے۔

    رکن اسمبلی نے کہا کہ لیاری کو بدنام کرنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے غنڈوں کو لیاری کے عوام ‏سے جوڑنا قابل مذمت اور ناقابل برداشت ہے، فیاض الحسن چوہان اپنے بیان پر معافی مانگیں۔

    دوسری جانب وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ حلیم عادل شیخ کی جیل ‏میں سانپ چھوڑنا وڈیرہ شاہی کا اژدھابن کر زرداری کو ڈسے گا، زرداری اور لیاری گینگ کا اژدھا ‏سندھ حکومت کو ڈستا رہے گا۔

  • سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے

    سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
    بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

    ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
    ہاں ہم ہی کاربند اصول وفا نہ تھے

    آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
    بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے

    کیوں داد غم ہمیں نے طلب کی برا کیا
    ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے

    گر فکر زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
    کیوں محو مدح خوبی تیغ ادا نہ تھے

    ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
    ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے

    لب پر ہے تلخی مئے ایام ورنہ فیضؔ
    ہم تلخی کلام پہ مائل ذرا نہ تھے

    *********

  • تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

    تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
    کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

    حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
    تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں

    ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
    جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں

    صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطن
    تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں

    وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
    فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں

    در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
    تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    *********

  • آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
    آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی
    خواب در خواب محلات کے در وا ہیں کئی
    اور مکیں کوئی نہیں ہے
    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
    کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت
    کوئی امید، کوئی آس مسافر صورت
    کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں
    کوئی نہیں ہے
    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
    تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دور ہو تم
    ہر گھڑی سایہ گر خاطر رنجور ہو تم
    اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں ہے
    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

    ***********

  • نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی

    نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
    تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا

    جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
    بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا

    پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے
    اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا

    ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
    بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

    ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
    سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا

    **********

  • آپ کی یاد آتی رہی رات بھر

    آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
    چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

    گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
    شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر

    کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
    کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر

    پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
    کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر

    جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر ِدر
    ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر

    ایک امید سے دل بہلتا رہا
    اک تمنا ستاتی رہی رات بھر

    **********