Author: فرید الحق حقی

  • پاکستان میں پائی جانے والی دھوتر مچھلی (جیولین گرنٹر) کی پہچان، اقسام اور معلومات

    پاکستان میں پائی جانے والی دھوتر مچھلی (جیولین گرنٹر) کی پہچان، اقسام اور معلومات

    دھوتر مچھلی اپنی لذیذ اور منفرد ذائقے اور صحت بخش غذائیت کے باعث بہت مشہور مچھلی ہے اور اسی وجہ سے اس کی بین الاقوامی طور پر بھی اچھی ڈیمانڈ ہے۔ چوں کہ، ماہی گیری پاکستان کی ایک اہم صنعت ہے اور مچھلی کی برآمدات اس کی صنعت کا اہم حصہ ہیں، دھوتر مچھلی بھی اس برآمدات میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ اسے زیادہ تر خلیجی ممالک اور اس کے بعد چین، تھائی لینڈ، امریکا اور کچھ یورپی منڈیوں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

    قیمت


    لذیذ، میٹھے، منفرد ذائقے اور ایکسپورٹ ڈیمانڈ کی وجہ سے اس کی قیمتیں زیادہ ہی رہتی ہیں۔ کراچی فشری میں ایکسپورٹ کوالٹی دھوتر کی قیمت 100 سے 1500 روپے فی کلو رہتی ہے، جو 1800 تک بھی جا سکتی ہے۔

    یہ سمندر میں ریتیلی اور کیچڑ والی تہوں پر رہنا پسند کرتی ہے اور اس کا تعلق Haemulidae فیملی سے ہے۔ یہ ہر طرح سے پکانے پر ذائقہ دیتی ہے، لیکن سب سے زیادہ اس کا سالن اور پھر گرل زیادہ مشہور ہے۔

    پکڑے جانے پر یہ خنزیر کی آواز کے مشابہہ آوازیں نکالتی ہے، جسے ’’گرنٹنگ‘‘ کہتے ہیں، اسی نسبت سے اسے گرنٹر نام ملا ہے۔ پاکستان میں اس کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن ذیل میں صرف ان اقسام کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو کراچی فشری میں سال بھر نظر آتی ہیں اور عوام میں مقبول ہیں۔

    جیولین گرنٹر


    اسے انگلش میں javelin grunter کہتے ہیں جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadesys kaakan ہے۔

    دھوتر کی نسل میں سب سے زیادہ مشہور اور ذائقے دار یہ والی نسل ہے اور یہی اصلی دھوتر مانی جاتی ہے۔ یہ دو رنگوں، سفید/سلوری اور پیلی/گولڈن میں آتی ہے۔ کراچی فشری میں سفید/سلوری کو وائٹ دھوتر اور دوسری والی کو گولڈن دھوتر کہتے ہیں۔ وائٹ دھوتر ہی اصلی اور ذائقے دار مانی جاتی ہے اور اسی کی ہی زیادہ ایکسپورٹ ڈیمانڈ ہے۔

    کراچی فشری میں اس کی قیمت ایک ہزار سے پندرہ سو روپے فی کلو کے آس پاس رہتی ہے۔ یہ وزن میں عام طور پر ایک سے 3 کلو تک کے سائز میں نظر آتی ہے، جب کہ زیادہ سے زیادہ یہ 5 سے 6 کلو تک بڑھ سکتی ہے۔ عمر میں یہ 7 سے 10 سال تک جی سکتی ہے۔

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحر الکاہل: بحیرہ احمر، خلیج فارس، افریقہ کے مشرقی ساحل سے جنوب مشرقی ایشیا، شمال سے تائیوان، جنوب سے کوئنز لینڈ آسٹریلیا تک ہے۔

    اولڑی دھوتر


    اسے انگلش میں Silver Grunt کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys argenteus ہے۔

    وائٹ اور گولڈن دھوتر کے بعد تیسرے نمبر پر یہ والی نسل کراچی فشری میں زیادہ نظر آتی ہے، اسے فشری میں اولڑی دھوتر یا دوغلا دھوتر کہا جاتا ہے۔ یہ وائٹ اور گولڈن دھوتر سے کم ذائقے دار ہوتی ہے۔

    اس کا رنگ ہلکا سفید سلوری ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ ہلکی سبز یا ہلکی زیتونی رنگ کی بھی نظر آتی ہے۔ کراچی فشری میں اس کی قمیت 500 سے 700 روپے کے آس پاس رہتی ہے۔ اس کے بدن پر دھبے ہوتے ہیں، وزن میں یہ ایک سے 2 کلو تک کے سائز میں نظر آتی ہے، جب کہ یہ 5 سے 7 سال تک جی سکتی ہے۔

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحر الکاہل، بحیرہ احمر سے فلپائن تک (لیکن خلیج فارس سے ریکارڈ کے بغیر)، عمان، کویت، شمال سے جنوبی جاپان، جنوب سے شمالی آسٹریلیا نیو کیلیڈونیا تک ہے۔

    چھوٹے دھبوں والی گرنٹر


    اسے انگلش میں Small Spotted Grunter کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys commersonnii ہے۔ یہ بھی اصلی دھوتر، جیولین دھوتر کی طرح ذائقے دار ہوتی ہے، لیکن بہت زیادہ ماہی گیری کے باعث اب یہ پاکستان میں نایاب ہو گئی ہے اور بہت ہی کم نظر آتی ہے۔

    یہ اولڑی دھوتر سے ملتی جلتی ہے۔ اولڑی دھوتر کا بدن گولائی میں جب کہ اس کا لمبائی میں ہوتا ہے۔ اولڑی کے بدن پر ہلکے گہرے اور کم دھبے جب کہ اس کے بدن پر کالے اور زیادہ دھبے ہوتے ہیں، جب کہ بدن کی طرح اس کا منہ بھی لمبا ہوتا ہے۔

    یہ وزن میں 6 سے 7 کلو تک پہنچ سکتی ہے لیکن پاکستان میں زیادہ ماہی گیری کی وجہ سے ایک سے 3 کلو تک میں پائی جاتی ہے، عمر میں یہ 9 سال تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کا مسکن جنوب مشرقی بحر اوقیانوس، مغربی بحر ہند، جنوبی افریقہ، مشرقی افریقہ، خلیج فارس، سوکوٹرا، سیشلز، مڈغاسکر سے بھارت کے شمال مغربی ساحل تک ہے۔

    کاک گرنٹر


    اسے انگلش میں cock grunter کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys multimaculatus ہے۔ اس کا مسکن بحر ہند، افریقہ کے مشرقی ساحل سے آسٹریلیا تک ہے۔

    اس کی جسمانی ساخت اولڑی دھوتر کی طرح ہوتی ہے اور بدن پر دھبے اسمال سپاٹڈ گرنٹر کی طرح ہوتے ہیں، لیکن دھبے گہرے بھورے ہوتے ہیں اور اس کے منہ پر بھی ہوتے ہیں۔ یہ وزن میں ایک سے 2 کلو تک پہنچتی ہے جب کہ 6 سے 7 سال تک جی سکتی ہے۔

    سیڈل گرنٹ


    اسے انگلش میں Saddle Grunt fish کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys maculatus ہے۔ اس کا مسکن ہند-مغربی بحر الکاہل، بحر ہند، شمال سے چین، جنوب سے آسٹریلیا تک ہے۔

    اس کی جسمانی ساخت جیولین دھوتر سے ملتی جلتی ہے۔ جیولین لمبائی میں جب کہ یہ تھوڑی سی گولائی میں ہوتی ہے۔ اس کی ڈورسل فن (کمر کا پنکھ) پر ایک کالا دھبا ہوتا ہے اور کمر سے نیچے پیٹھ کر طرف بریکٹ کی شکل کی کئی موٹی دھاریاں ہوتی ہیں، جو کہ بیچ بیچ میں کٹی ہوئی بھی ہو سکتی ہیں۔

    یہ وزن میں 2 کلو تک ہوتی ہے اور عمر میں 8 سال تک جی سکتی ہے۔

  • ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    پانی سے ہی زندگی ہے اور تازہ پانی بقا، صحت، خوراک کی پیداوار، اقتصادی استحکام اور ماحولیاتی توازن کے لیے ناگزیر ہے۔

    زراعت عالمی میٹھے پانی کا تقریباً 70 فی صد استعمال کرتی ہے، آب پاشی فصل کی نشوونما کو سہارا دیتی ہے اور خوراک کی پیداوار کو یقینی بناتی ہے۔ پانی کی کمی سے غذائی تحفظ کو خطرہ ہوتا ہے، جو ممکنہ طور پر قحط، اور سماجی و اقتصادی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔

    پانی کی کمی صحت کے شدید مسائل یا اموات کا باعث بن سکتی ہے جب کہ صاف میٹھے پانی تک رسائی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو روکتی ہے جیسا کہ ہیضہ، پیچش، جو کہ اموات کی بڑی وجوہ میں شامل ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں صفائی کی ناکافی سہولیات ہیں۔

    اسی طرح پانی کا استعمال صنعتوں میں کولنگ، اور توانائی کی پیداوار کے لیے بھی ہوتا ہے (مثلاً، ہائیڈرو الیکٹرک پاور، تھرمل پلانٹس)۔ پانی کی قلت سپلائی چینز اور انرجی گرڈز میں خلل ڈال سکتی ہے اور زرعی و صنعتی پیداوار، افرادی قوت کی صحت کو محدود کر کے معاشی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    میٹھے پانی کی کمی


    حالاں کہ پانی پر بڑے پیمانے پر جنگیں نہیں ہوئی ہیں، تاہم یہ اکثر وسیع تر تنازعات میں ایک اہم عنصر، اسٹریٹجک ہدف، یا آلہ رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تازہ پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے، اور ریسرچ اسٹڈیز اور رپورٹس میٹھے پانی کی دست یابی میں کمی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ آبادی میں مسلسل اضافے کے باعث میٹھے پانی کے محدود وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں طلب میں اصافہ اور سپلائی میں کمی کی وجہ سے حکومتوں، صنعتوں اور سول سوسائٹیوں کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    کھارا پانی


    دوسری طرف کھارا پانی یعنی کہ سمندروں کی اچھی صحت کا براہ راست تعلق انسانی بقا، معاشی استحکام اور ماحولیاتی توازن سے ہے۔ سمندر ہمیں آکسیجن فراہم کرتا ہے، غذا دیتا ہے، گرمی کو جذب کر کے ماحول میں توازن بناتا ہے، اور بخارات کی صورت میں بارشیں برساتا ہے۔ عالمی تجارت کا 90 فی صد سمندری راستوں سے ہوتا ہے، جو معیشتوں کو جوڑتا ہے اور وسائل کی تقسیم کو فعال کرتا ہے۔

    بچپن سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ہماری زمین کا 3 فی صد حصہ پانی اور صرف ایک فی صد خشکی پر مشتمل ہے۔ امریکی سرکاری ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق زمین کا 71 فی صد حصہ پانی اور 29 فی صد خشکی پر مشتمل ہے، لیکن ہماری یہ معلومات عام طور سے یہیں تک محدود ہوتی ہے۔


    کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات


    امریکی سائنسی ایجنسی ’’یو ایس جیولوجیکل سروے‘‘ (USGS) کے مطابق زمین کے 71 فی صد پانی میں سے 97 فی صد کھارے پانی یعنی کہ سمندری پانی اور صرف 3 فی صد میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔ اس میٹھے پانی میں سے بھی 68 فی صد سے زیادہ برف اور گلیشیئرز میں بند ہے، جب کہ مزید 30 فی صد میٹھا پانی زیر زمین ہے۔

    سطح کے تازہ پانی کے ذرائع جیسا کہ دریا اور جھیلیں صرف 22,300 کیوبک میل (93,100 مکعب کلومیٹر) پر مشتمل ہیں، جو کہ کُل پانی کے ایک فی صد کا تقریباً 1/150 واں حصہ ہے۔ اس طرح تمام میٹھے پانی کا صرف 1.2 فی صد سے تھوڑا زیادہ سطح کا حصہ ہمیں میسر ہے، جو ہماری زندگی کی زیادہ تر ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بھی سنتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی۔

    سمندروں کی نقشہ سازی اور نئی انواع


    کھارے پانی کی بات کریں تو امریکی حکومتی ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ بغیر نقشے کے، غیر مشاہدہ شدہ اور غیر دریافت شدہ ہے اور یہ کہ 91 فی صد سمندری انواع کی درجہ بندی ابھی ہونا باقی ہے۔

    بیلجیم کے ادارے ورلڈ رجسٹر آف میرین اسپیسیز (WoRMS) کے مطابق اب تک تقریباً 2 لاکھ 42,500 سمندری انواع دریافت کی جا چکی ہیں۔ اس رجسٹر میں ان ناموں کا یہ اندراج دنیا بھر سے سائنس دانوں نے کیا ہے اور ہر سال تقریباً 2000 نئی سمندری انواع کا اندارج اس رجسٹر میں ہوتا رہتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کرنے کے باوجود آخر اب تک سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ غیر دریافت شدہ کیوں ہے؟

    غیر دریافت شدہ سمندر


    اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر بحریات ڈاکٹر جین کارل فیلڈمین سمندروں کے تحفظ کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ’اوشیانا‘ کو بتاتے ہیں: ’’سمندر کی گہرائیوں میں پانی کا شدید دباؤ اور سرد درجہ حرارت تلاش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘

    فیلڈ مین نے اوشیانا کو مزید بتایا کہ سمندر کی تہہ تک جانے کے مقابلے میں خلا میں جانا بہت آسان ہے۔ سمندر کی سطح پر انسانی جسم پر ہوا کا دباؤ تقریباً 15 پاؤنڈ فی مربع انچ ہے اور خلا میں زمین کے ماحول کے اوپر دباؤ کم ہو کر صفر ہو جاتا ہے، جب کہ غوطہ خوری کرنے یا پانی کے اندر موجود گاڑی میں سواری کر کے گہرائیوں میں جانے پر دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔

    انھوں نے اب تک سمندر کی سب سے گہری دریافت شدہ جگہ ماریانا گھاٹی (Mariana Trench) کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ماریانا گھاٹی کے نیچے غوطہ لگانے پر، جو تقریباً 7 میل (11.265 کلو میڑ) گہری ہے، سطح کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ یہ دباؤ انسانی جسم پر 50 جمبو جیٹ رکھے جانے کے وزن کے برابر ہے۔

    سمندر کی گہرائیوں میں شدید دباؤ، سرد درجہ حرارت اور مکمل اندھیرا، ان چیلنجوں سے ماہرین بحریات جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کتنی جلدی نمٹ کر سمندروں کو دریافت کر پاتے ہیں یہ تو صرف وقت ہی بتا سکتا ہے۔

  • کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات

    کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات

    فرید الحق حقی

    سمندر دنیا کی سطح پر پھیلے ہوئے بڑے آبی ذخائر ہیں جو زمین کے مختلف حصوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔ سمندر براعظموں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور کئی جگہوں پر خلیجوں، آبناؤں اور چھوٹے سمندروں کی شکل میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ سمندر بین الاقوامی تجارت، ماحولیاتی نظام، اور موسمی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بڑی بندرگاہیں جیسے کراچی، شنگھائی، نیویارک، سنگاپور سمندری نقل و حمل کے بڑے مراکز ہیں۔

    مغربی بحر اوقیانوس (Western Atlantic Ocean)


    اس سے مراد بحر اوقیانوس کا وہ حصہ ہے جو امریکا سے ملحق ہے، جو شمالی، وسطی اور جنوبی امریکا کے مشرقی ساحلوں سے تقریباً وسط بحر اوقیانوس کے کنارے تک پھیلا ہوا ہے۔

    محل وقوع

    شمالی نصف کرہ، آرکٹک سرکل (گرین لینڈ اور کینیڈا کے قریب) سے جنوب کی طرف خط استوا تک پھیلی ہے، جو مشرقی امریکا، خلیج میکسیکو، بحیرہ کیریبین اور مشرقی کینیڈا سے متصل ہے۔ جنوبی نصف کرہ، جو خط استوا سے بحرِ جنوبی تک پھیلی ہے، برازیل، یوراگوئے اور ارجنٹائن سے ملحق ہے۔

    بڑے خطے

    خلیج میکسیکو کے بڑے علاقے، جنوبی امریکا، میکسیکو اور کیوبا سے متصل۔ کیریبین سمندر، کیوبا، جمیکا، پورٹو ریکو، اور لیزر اینٹیلز جیسے جزیروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ سرگاسو سمندر، ایمیزون دریا کا منہ، جہاں ایمیزون برازیل سے دور بحر اوقیانوس میں خارج ہوتا ہے۔

    سرحدی ممالک

    شمالی امریکا میں: امریکا (مشرقی ساحل)، کینیڈا (میری ٹائم صوبے)، میکسیکو (خلیجی ساحل)، کیریبین، کیوبا، ڈومینیکن ریپبلک، بہاماس، جمیکا، اور دیگر۔ جنوبی امریکا میں: برازیل، وینزویلا، کولمبیا، گیانا، سورینام، فرانسیسی گیانا، ارجنٹائن اور یوراگوئے۔ جزائر میں: آرکیپیلاگوس برمودا، بہاماس، گریٹر اینڈ لیزر اینٹیلز، فرنینڈو ڈی نورونہا (برازیل)۔

    مغربی-ہند بحرالکاہل (Indo-West Pacific)


    یہ ایک وسیع سمندری جیو جغرافیائی خطہ ہے، جو اپنی غیر معمولی حیاتیاتی تنوع کے لیے مشہور ہے، خاص طور پر مرجان کی چٹانوں کے ماحولیاتی نظام میں۔ یہ دو بڑے سمندری طاسوں ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل پانیوں پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں درج ذیل اہم علاقے شامل ہیں:

    محل وقوع

    مغربی سرحد افریقہ کے مشرقی ساحل سے شروع ہوتی ہے، بشمول بحیرہ احمر، مشرقی افریقی ساحل (مثلاً، موزمبیق، تنزانیہ)، مڈغاسکر، اور بحیرہ عرب کی مشرقی حد جو وسطی بحر الکاہل تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں فجی اور ساموا جیسے جزائر شامل ہیں۔ ٹونگا، اور مائیکرونیشیا کے کچھ حصے (مثلاً، پالاؤ، مارشل جزائر)۔

    شمالی اور جنوبی حدود: جنوبی جاپان اور جنوبی بحیرہ چین سے شمالی آسٹریلیا (مثلاً، گریٹ بیریئر ریف) اور نیو کیلیڈونیا تک پہنچتی ہیں۔

    بنیادی ذیلی علاقے: مغربی ہند-بحرالکاہل میں بحیرہ احمر، خلیج عرب، اور مشرقی افریقی سواحل شامل ہیں۔ اس میں 40 سے زیادہ ممالک کے علاقے شامل ہیں، بشمول انڈونیشیا، فلپائن، آسٹریلیا، پاپوا نیو گنی وغیرہ۔

    ہند بحر الکاہل (Indo-Pacific)


    یہ ایک وسیع اور تزویراتی لحاظ سے اہم خطہ ہے جو دو بڑے سمندروں اور ان کے آس پاس کے علاقوں پر پھیلا ہوا ہے۔

    محل وقوع

    مشرقی افریقہ سے بحرالکاہل کے جزیرے تک افریقہ کے مشرقی ساحل (بشمول کینیا، تنزانیہ اور جنوبی افریقہ) سے بحر ہند کے اس پار تک اس کا پھیلاؤ ہے۔

    جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں جنوبی ایشیائی ممالک (مثلاً، بھارت، سری لنکا)، جنوب مشرقی ایشیا (مثلاً، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن)، اور مشرقی ایشیا (مثلاً، جاپان، جنوبی کوریا) اوشیانا اور بحرالکاہل شامل ہیں- آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور بحر الکاہل کے جزیرے کے ممالک (مثال کے طور پر، فجی، پاپوا نیو گنی)۔

    بحیرہ احمر ( Red Sea)


    یہ افریقہ اور ایشیا کے براعظموں کے درمیان واقع پانی کا ایک اسٹریٹجک لحاظ سے اہم خطہ ہے۔

    محل وقوع

    شمال میں: مصر میں نہر سویز کے ذریعے بحیرہ روم سے جڑتا ہے۔ جنوب میں آبنائے باب المندب کے ذریعے بحر ہند سے جڑا ہے اور خلیج عدن کی طرف جاتا ہے۔ اس کا افریقی ساحل مصر، سوڈان، ایریٹیریا، اور جبوتی سے متصل ہے، اور ایشیائی ساحل (جزیرہ نما عرب) سعودی عرب اور یمن سے۔ شمال مشرقی (خلف عقبہ) سریل اور اردن سے۔

    بحیرہ عرب (Arabian Sea)


    یہ شمالی بحر ہند کا ایک خطہ ہے جو درج ذیل جغرافیائی ممالک سے گھرا ہوا ہے۔

    مشرق میں جزیرہ نما بھارت (بھارت کا مغربی ساحل)، پاکستان اور ایران کے شمالی جنوبی ساحل۔ مغرب میں عرب جزیرہ نما (عمان، یمن) اور ہارن آف افریقہ (صومالیہ) جنوبی بحر ہند میں کھلتا ہے، جس کی سرحد کو اکثر بھارت کے جنوبی سرے (کنیا کماری) سے صومالیہ (کیپ گارڈافوئی) کے مشرقی سرے تک ایک لکیر سمجھا جاتا ہے۔

    کلیدی رابطے: خلیج عمان آبنائے ہرمز کے ذریعے خلیج فارس سے جڑتا ہے، اور خلیج عدن کا تعلق بحیرہ احمر سے آبنائے باب المندب کے ذریعے۔ اہم بندرگاہوں اور شہروں میں ممبئی (انڈیا)، کراچی (پاکستان)، مسقط (عمان)، اور عدن (یمن) شامل ہیں۔

    خلیج فارس (Persian Gulf)


    یہ مشرق وسطیٰ میں واقع پانی کا اسٹریٹجک لحاظ سے ایک اہم خطہ ہے، جس کا جغرافیائی محل وقوع یوں ہے:

    یہ جزیرہ نما عرب (جنوب اور مغرب میں) اور ایران (شمال اور مشرق میں) کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے۔ بحر ہند کے کچھ سمندر کا حصہ بھی اس سے ملا ہوا ہے۔

    سرحدی ممالک: شمالی/مشرقی ساحل پر ایران، جنوبی/مغربی ساحل پر سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور عراق، (شط العرب دریائے ڈیلٹا کے قریب چھوٹی ساحلی پٹی)۔ عمان کی موجودگی آبنائے ہرمز کے قریب ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ خلیج عمان سے متصل ہے۔


    30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں؟


  • 30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں؟

    30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں؟

    آپ حیران رہ جائیں گے کہ 30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی محض 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں ہوتی ہے؟ یہ صفائی کارکن ’’بلو اسٹریک کلینر وراس‘‘ مچھلی کی حیرت انگیز داستان ہے۔

    ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل صفائی ستھرائی سے مشروط ہے، انسانوں کی طرح جانور بھی خود کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اور حفظان صحت کے لیے ہر نوع مختلف اور دل چسپ طریقے اختیار کرتا ہے، ان کے یہ طریقہ ہائے کار ان کے ماحول اور ارتقائی ضروریات کی عکاسی کرتے ہیں، جو ان کی صحت، سماجی تعاملات اور بقا کو برقرار رکھتے ہیں۔

    سمندری جان دار بھی اپنی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے ہیں، کچھ اپنی صفائی خود کرتے ہیں اور کچھ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں۔

    کلینر فش

    انڈوـ پیسیفک خطے میں رہنے والی ایک مچھلی جس کا نام Bluestreak Cleaner Wrasse ہے، ایک صفائی کارکن ہے جو دوسری مچھلیوں کی صفائی کرتی ہے اور معاوضے میں اسے کھانا ملتا ہے۔ اس کا سائنٹفک نام Labroides dimidiatus ہے، جب کہ اس تعلق Labridae فیملی سے ہے۔

    مسکن


    اس کا مسکن ہند-بحرالکاہل، خلیج فارس، بحیرہ احمر، مشرقی افریقہ سے لائن، مارکیساس اور ڈوکی جزائر، شمال سے جنوبی جاپان، جنوب میں لارڈ ہوے، راپا جزائر اور گریٹ بیریئر ریف (آسٹریلیا ) تک ہے۔

    رنگ، عمر، وزن اور لمبائی


    یہ لمبائی میں 5 انچ تک بڑھ سکتی ہے، جب کہ وزن میں 15 سے 30 گرام تک ہو سکتی ہے، عمر میں یہ 4 سے 6 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کا جسم پتلا اور لمبا ہوتا ہے، رنگ نیلا اور سفید، پیٹ کے اوپری سمت منہ سے لے کر دم تک ایک کالی پٹی ہوتی ہے اور تھوتھنی نوک دار ہوتی ہے، جب کہ پیٹ سفید سے پیلا ہوتا ہے۔

    یہ مرجان کی چٹانوں (کورل ریف) میں رہتی ہے، چٹانوں میں یہ گروپ کی صورت میں بھی رہتی ہے اور حرموں میں بھی۔ ایک نر کے حرم میں کئی مادائیں ہوتی ہیں۔ نر کے مرنے کے بعد ماداؤں میں سے سب سے بڑی مادہ جنس تبدیل کر کے نر بن جاتا ہے اور پھر وہ اسی حرم کی قیادت کرتا ہے، جنس کی اس تبدیلی میں 14 سے 18 دن لگتے ہیں۔ یہ اپنا جنس تبدیل کر سکتی ہے کیوں کہ یہ protogynous hermaphrodite ہوتی ہیں۔ پروٹائجینس ہرمافروڈائٹ وہ جان دار ہوتے ہیں جو اپنی زندگی ایک مادہ کے طور پر شروع کرتے ہیں اور بعد میں جنس تبدیل کر کے نر بن سکتے ہیں۔

    کلیننگ اسٹیشن (صفائی مرکز)


    چٹانوں میں یہ جہاں مچھلیوں کی صفائی کرتی ہیں، ان جگہوں کو کلیننگ اسٹیشن کہا جاتا ہے، مچھلیاں صفائی کے لیے کلیننگ اسٹیشن کے قریب آتی ہیں تو یہ اپنے مسکن سے نکل کر ان کے سامنے اپنی دستیابی کےلیے ایک مخصوص ڈانس کرنے لگتی ہے۔

    یہ تیزی سے آگے پیچھے ہوتے ہوئے اپنے بدن کے پچھلے حصے کو اٹھا اٹھا کر پھڑپھڑانے لگتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ ایک ہی سمت، یعنی اوپر کی سمت ٹھمکے لگا رہی ہے۔ ان کا نیلا رنگ اور کالی پٹی ایک یونی فارم کی طرح کام کرتی ہے اور صفائی کے لیے آنے والی مچھلی اسے اسی رنگوں سے شناخت کرتی ہے۔ ڈانس سے صفائی کے لیے آنے والی مچھلی کو پتا چل جاتا ہے کہ بلوسٹریک صفائی کے لیے تیار ہے۔

    مچھلی کلیننگ اسٹیشن پر آ کر منہ اور گلپھڑے کھول کر ساکت ہو جاتی ہے اور بلوسٹریک اس کے بدن سے ایکٹو پیراسائٹس، خراب یا مردہ ٹشوز اور دیگر گندگی نوچ کر کھانے لگتی ہے۔ یہ ان کے گلپھڑے اور منہ کے اندر تک گھس کر صفائی کرتی ہے۔ رش کے وقت مچھلیاں لائن لگا کر اپنی باریوں کا انتظار کرتی ہیں۔

    کلیننگ اسٹیشنز پر مختلف انواع کی مچھلیاں ہوتی ہیں اور یہ منظر بہت ہی پیارا اور حیران کر دینے والا ہوتا ہے، جو کلیننگ اسٹیشن پر مختلف انواع میں باہمی تعلق کی شان دار مثال پیش کرتا ہے۔ ان کلیننگ اسٹیشنوں پر خطرناک چیر پھاڑ والی شکاری مچھلیاں جیسے کہ شارک، مورے ایل، بیرا کوڈا اور گروپرز بھی آتے ہیں اور بلو سٹریک بلا خوف انھیں اپنی خدمات فراہم کرتی ہے۔

    ماہرین کی تحقیق


    سوئٹزرلینڈ اور پرتگال کی یونیورسٹیوں کی جانب سے مصر کے ’’راس محمد نیشنل پارک‘‘ میں بلو سٹریک راس پر تحقیق کی گئی تھی، جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ صفائی سے مچھلیوں کی صحت پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تحقیق کی شروعات انھوں نے مرجان کی چٹانوں میں رہنے والی مچھلیوں کے 2 گروپ بنا کر کی۔ ایک گروپ کو بلو سٹریک تک رسائی تھی جب کہ دوسرے گروپ کو نہیں تھی۔

    نتائج میں پایا گیا کہ کلیننگ اسٹیشنز تک جس گروپ کی رسائی نہیں تھی ان کے مقابلے رسائی والی مچھلیوں کی صحت بہتر تھی، ماہرین حیاتیات نے یہ بھی پایا کہ کلیننگ اسٹیشنز تک رسائی والی مچھلیوں میں بیماریوں کے خلاف مدافعت کرنی والی مخصوص اینٹی باڈیز کی نمایاں طور پر زیادہ پیداوار پائی گئی تھی۔

    اینٹی باڈیز وہ پروٹین ہوتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کے ذریعے باہری حملہ آوروں جیسے بیکٹیریا، وائرس اور زہریلے مادوں سے لڑنے کا کام کرتے ہیں، اور جسم کے مدافعتی نظام ( امیون سسٹم) کو طاقت دیتے ہیں۔ طاقت ور امیون سسٹم تولیدی عمل (انڈوں اور بچوں کی پیداوار) کو بڑھاتا ہے۔

    اس کے علاوہ ٹیم نے یہ بھی پایا کہ کلیننگ اسٹیشنز تک رسائی والے گروپ کے مقابلے دوسرے گروپ میں ’کورٹیسول‘ کا لیول زیادہ تھا۔

    کورٹیسول ایک ہارمون ہے اسے ’سٹریس ہارمون‘ بھی کہتے ہیں، یہ جسم میں بڑی بڑی اور خطرناک دائمی امراض کی پہلی اسٹیج ’سوزش‘ (انفلامیشن) کو کم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں شوگر، بلڈ پریشر، کینسر، ٹینشن، ڈپریشن، پٹھوں کی کمزوری، دل اور ہڈیوں کے امراض سے بچا جا سکتا ہے اور یہ بیماریوں کے خلاف لڑنے والے بدن کے ’امیون سسٹم‘ کو بھی طاقت دیتا ہے۔ اس کی بلند سطح مندرجہ بالا بیماریوں کو جنم دیتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عمل تولید ( انڈوں یا بچوں کی پیداوار) کو بھی کم کرتی ہے۔

    پاکستان میں موجودگی


    پاکستانی پانیوں میں اس کی موجودگی کی تصدیق کرنے والی کوئی وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ سائنسی ریکارڈ یا سروے دستیاب نہیں ہے، حالاں کہ یہ ہند بحر الکاہل میں رہتی ہے جہاں پاکستان میں پائی جانی والی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ اصل میں یہ صحت مند مرجان کی چٹانوں کے ساتھ صاف اور گرم پانیوں میں پروان چڑھتی ہے۔ بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ساحلی پٹی میں مرجان کی چٹانوں کے حالات ناقص ہیں، اور کم ہے اور پانی بھی بہت صاف ستھرا نہیں ہے۔

    گھروں کا سارا گندا پانی، گندے نالوں اور فیکٹریوں کا کیمیکل ملا زہریلا پانی فلٹر ہوئے بغیر سمندر میں جا کر اسے آلودہ کر رہا ہے، جس سے ایک تو ہمارے کورل ریف (مرجان کی چٹانیں) جو سمندری حیات کے لیے انتہائی اہم ہیں، برباد ہو رہی ہیں، دوسرا فی زمانہ واحد قدرتی غیر ملاوٹی صحت مند غذا، جو سمندری غذا کی صورت میں ہمیں میسر ہے، اسے آلودہ اور غیر معیاری بنا رہا ہے۔

    یہ دو طرفہ الودگی یعنی کہ سمندر میں گندگی پھینکنے کی اور اسی گندگی کی وجہ سے بلو سٹریک اور اس جیسی صفائی والی مچھلیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے، مچھلیوں کی صحت بھی بہتر نہیں ہے، اس لیے انھیں کھا کر ہمیں ویسے فوائد حاصل نہیں ہوتے ہوں گے جو ہونے چاہئیں۔

    بلوسٹریک مغربی بحر ہند کے کچھ حصوں میں پائی جاتی ہے جیسے کہ عمان، یمن، اور مغربی بھارت۔ جیسا کہ تحقیقات سے پتا چلتا ہے بلو اسٹریک کا سمندری ماحولیاتی کردار میں کتنا اہم مقام ہے، کیوں کہ یہ مچھلیوں کی صفائی کر کے ان میں پھیلنی والی بیماریوں کو کم کرتی ہے اور مچھلیوں کی حفظان صحت کو بہتر بنا کر ہمیں صحت بخش غذا تو دیتی ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ مچھلیوں میں ان کی اچھی صحت کے ذریعے ان کی بقا اور تولیدی عمل کو بھی تقویت دیتی ہے۔

    اچھی صحت اور ایک صحت مند معاشرے کے لیے ہم انسانوں کو اس ننھی سی جان سے ہی سبق لے کر خود کو آس پاس کے ماحول کو اور سمندر کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے، خاص طور پر متعلقہ اداروں کو، کہ اب خواب غفلت سے جاگ کر اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور پوری ایمان داری سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے سمندر کی صفائی کے لیے کڑے سے کڑے اقدامات اٹھائیں، کہ سمندر جو ہمیں اتنا کچھ دے رہا ہے اب ہم بھی اسے صاف ستھرا رکھ کر اس کا احسان اتاریں۔ اس میں ہماری ہی بقا ہے۔

  • پاکستان میں پائی جانے والی اسنیپر فیملی کی مچھلیوں کا تعارف اور ان کی شناخت میں پائی جانے والی غلط فہمیاں

    پاکستان میں پائی جانے والی اسنیپر فیملی کی مچھلیوں کا تعارف اور ان کی شناخت میں پائی جانے والی غلط فہمیاں

    اسنیپر فیملی کی مچھلیاں اپنے لذیذ ذائقے، خوب صورت بناوٹ، شوخ رنگوں اور تجارتی اہمیت کے باعث دنیا بھر میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ ان میں مرکری کی سطح بھی کم ہوتی ہے، یہ وٹامنز، پروٹینز، اور اومیگا 3 سے بھی پھرپور ہوتی ہیں۔ ان ہی خصوصیات کے باعث انھیں دنیا بھر میں مہنگی قیمتوں کے باوجود بھی بہت ہی زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور خریدا جاتا ہے۔

    اسنیپر فیملی کا تعلق Lutjanidae خاندان سے ہے اور اب تک ان کی دنیا بھر میں 113 نسلوں کی شناخت کی جا چکی ہے۔ امریکن فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کے مطابق اسنیپر میں مرکری لیول 0.166ppm ہے، جو کہ کم ہے۔ یاد رہے کہ ایف ڈی اے نے اسنیپر فیملی کی الگ الگ نسلوں کی مرکری سطح کی بجائے صرف Snapper کے نام سے ریکارڈ درج کیا ہے۔

    اسنیپرز کی بناوٹ اور رنگوں کے امتزاج میں یکسانیت کے باعث ان کے درمیان کافی مماثلتیں پائی جاتی ہیں، جن سے ان کی پہچان میں پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس مضمون میں ان ہی پیچیدگیوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی پہچان میں کوئی مشکل پیش نہ آئے، ساتھ ہی ساتھ آخر میں کچھ سمندروں کا محل وقوع بھی دیا جا رہا ہے تا کہ ان کا مسکن بھی آسانی سے سمجھا جا سکے۔

    پاکستان میں اسنیپر کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، یہاں صرف ان چند کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو کراچی فشری میں سال بھر نظر آتی ہیں اور عوام میں مقبول ہیں۔

    ہیرا مچھلی

    پاکستان میں اسنیپر فیملی میں سب سے مشہور، ذائقے دار اور نرم گوشت والی مچھلی ہیرا مچھلی ہے۔ اسے انگلش میں گولڈن اسنیپر کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنسی نام Lutjanus johnii ہے۔ یہ John’s snapper اور Finger Mark کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ وزن میں تقریباً 11 کلو تک اور عمر میں 10 سے 15 سال تک جی سکتی ہے۔

    ہیرا مچھلی

    فش بیس نامی گلوبل انفارمیشن سسٹم کے مطابق اس کا مسکن ہند بحرالکاہل (Indo-Pacific)، بحیرہ احمر (red sea)، خلیج فارس (Persian Gulf)، مشرقی افریقہ سے فجی، سامووا، شمال میں Ryukyu جزائر اور جنوب میں آسٹریلیا تک ہے۔ اسے پاکستان میں Red Snapper پکارا جاتا ہے حالاں کہ ریڈ اسنیپر پاکستان میں پائی ہی نہیں جاتی ہے۔

    ریڈ اسنیپر کا اصل نام Northern red snapper ہے لیکن یہ صرف ریڈ اسنیپر کے نام سے مشہور ہے، اس کا مسکن مغربی بحر اوقیانوس، بحیرہ کیریبین اور خلیج میکسیکو ہے۔ یہ وزن میں 23 کلو تک اور عمر میں 57 سال تک جی سکتی ہیں۔ یہ مکمل طور پر لال رنگ کی ہوتی ہیں، جب کہ ہیرا مچھلی مجموعی طور پیلی نظر آتی ہے، اس کے بدن پر چھوٹے چھوٹے گہرے بھورے یا ہلکے کالے دھبوں کی قطاریں ہوتی ہیں، یہ دھبے پیٹ کے اوپری حصے سے شروع ہوتے ہیں اور پیٹ کے نچلے حصے تک آتے آتے ہلکے ہو کر غائب ہونے لگتے ہیں۔ اس کی پیٹھ پر دم کے قریب بھی ایک کالا دھبا ہوتا ہے۔

    دونوں مچھلیوں میں کافی جسمانی فرق اور مسکن بالکل الگ الگ ہونے کے باوجود بھی اسے ریڈ اسنیپر کہا جاتا ہے۔

    کنرچہ

    کنرچہ کو انگلش میں Mangrove Jack کہتے ہیں۔ یہ وزن میں 9 کلو تک اور عمر میں 31 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کا اور ہیرا مچھلی کا مسکن ایک ہی ہے۔

    کنرچہ مچھلی

    مینگروز (تیمر) کے جنگلات کے کنرچہ کا رنگ عام طور پر پیٹھ پر سبز بھورا، سرخی مائل جب کہ گہرے پانیوں کے کنرچے کا رنگ لال، سرخی مائل ہوتا ہے۔ اسی لال سرخی مائل رنگ کی وجہ اسے بھی ریڈ اسنیپر کہا جاتا ہے جو پاکستان میں پائی ہی نہیں جاتی، اور جس کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا ہے۔ کنرچہ کو مینگرو ریڈ اسنیپر بھی کہا جاتا ہے۔

    چھایا مچھلی

    چھایا مچھلی کو انگلش میں Blubberlip اسنیپر کہتے ہیں، یہ وزن میں 11 کلو تک اور عمر میں 20 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کا رنگ زیتونی سبز سے بھورا ہوتا ہے، جسم پر چھوٹے چھوٹے ابھرے ہوئے دھبے ہوتے ہیں جو بدن پر ہاتھ لگانے پر محسوس ہوتے ہیں۔ سر اور گالوں پر نیلے رنگ کی لکیریں یا دھبے ہوتے ہیں، خاص طور پر آنکھوں کے گرد اور گلپھڑوں کے کور پر، ہونٹ موٹے اور اکثر سرخی مائل یا گلابی ہوتے ہیں۔ کمر اور دم کے پنکھوں پر سرخی مائل یا زرد رنگت ہو سکتی ہے، جب کہ چھاتی کے پنکھ پر پیلا رنگ، سر اور منہ بڑا ہوتا ہے۔

    چھایا مچھلی

    اس کا مسکن ہند-بحرالکاہل، مشرقی افریقہ سے تاہیٹی، شمال سے جنوبی جاپان، اور جنوب میں آسٹریلیا تک ہے۔

    پیلی ٹیکسی

    پیلی ٹیکسی کو انگلش میں Bigeye Snapper کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنسی نام Lutjanus Lutjanus ہے۔ یہ وزن میں 1 کلو تک بڑھ سکتی ہے لیکن عام طور 400 گرام تک نظر آتی ہے، اور یہ عمر میں 11 سال تک جی سکتی ہے۔ پیٹ کا اوپری حصہ ہلکا گلابی اور پیٹھ سلوری ہوتی ہے، جس پر پیلے رنگ کی پٹیاں ہوتی ہیں۔ ان پیلی پٹیوں کی وجہ سے یہ پیلی نظر آتی ہے۔ پنکھ زرد اور سرخی مائل ہوتے ہیں، سر اور آنکھیں بڑی ہوتی ہیں۔

    پیلی ٹیکسی مچھلی

    اس کا مسکن انڈو-ویسٹ پیسیفک، مشرقی افریقہ سے جزائر سلیمان، شمال سے جنوبی جاپان، اور جنوب میں آسٹریلیا تک ہے، یہ زیادہ تر مچھلیاں پکڑنے کے لیے چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

    لال پری

    لال پری کو انگلش میں Crimson snapper کہتے ہیں، یہ گہرے سرخ رنگ کی ہوتی ہے۔ اس کا مسکن ہند-مغربی بحرالکاہل، خلیج فارس، خلیج عمان سے فجی، شمال سے جنوبی جاپان اور جیجو جزیرہ کوریا، جنوب سے نیو ساؤتھ ویلز آسٹریلیا اور نیو کیلیڈونیا تک ہے۔ یہ عمر میں 8 سال تک اور وزن میں 5 سے 10 کلو تک بڑھ سکتی ہے۔

    لال پری مچھلی

    پوتہ مچھلی

    اسے انگریزی میں Malabar blood snapper کہتے ہیں۔ اس کا رنگ گہرے سرخ سے سرخ گلابی ہوتا ہے، جب کہ پیٹ اکثر ہلکا گلابی ہوتا ہے۔ تمام پنکھ جسم کی طرح سرخ ہوتے ہیں اور پنکھوں کے کنارے قدرے گہرے دکھائی دے سکتے ہیں۔ ان کا منہ قدرے نوک دار اور نچلا جبڑا قدرے پھیلا ہوا ہوتا ہے، جو شکار کو پکڑنے کے لیے تیز مخروطی دانتوں سے لیس ہوتا ہے۔

    پوتہ مالابار ریڈ اسنیپر مچھلی

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحرالکاہل، خلیج فارس، بحیرہ عرب سے فجی، شمال سے جنوبی جاپان اور جنوب سے آسٹریلیا تک ہے۔ یہ وزن میں 8 کلو تک اور عمر میں 31 سال تک جی سکتی ہے۔

    ہمپ بیک ریڈ اسنیپر

    Humpback red snapper وزن میں 3 کلو تک اور عمر میں 18 سال تک جی سکتی ہے۔ یہ سرخی مائل گلابی ہوتی ہے، اکثر پیٹھ کے اوپری حصے پر پیتل یا زیتونی چمک ہوتی ہے، جب کہ پیٹ کا حصہ سلوری سے سفید ہوتا ہے۔ پنکھ سرخی مائل، جب کہ چھاتی کے پنکھ لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں، کچھ کے دموں پر کالے دھبے ہو سکتے ہیں۔

    پوتہ ہمپ بیک مچھلی

    سر بڑا ہوتا ہے، منہ میں دانت ہوتے ہیں اور اس کی کمر کوبڑ کی جیسی ہوتی ہے، یہ کوبڑ سر کے پیچھے سے شروع ہوتی ہے ایک کھڑی محراب والی پشت بناتی ہے جو دم کی طرف ڈھلوان ہو جاتی ہے۔ اس کا مسکن انڈو پیسیفک، بحیرہ احمر، مشرقی افریقہ، شمال سے جنوبی جاپان، اور جنوب سے آسٹریلیا تک ہے۔

    دوغلا ہیرا یا لائنر ہیرا

    اسے انگلش میں Dory Snapper کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنسی نام Lutjanus fulviflamma ہے۔ یہ وزن میں 2 سے 3 کلو تک اور عمر میں 23 سال بڑھ سکتی ہے۔

    اس کے پیٹھ اور اوپری اطراف کا رنگ بھورا، نچلے اطراف سفید یا ہلکے بھورے اور پیٹ سفید سے پیلے، عام طور پر اطراف میں 6 سے 7 پیلے رنگ کی پٹیوں کی قطاریں اور پس منظر کی لکیر (Lateral line) کی سطح پر ایک نمایاں سیاہ دھبہ، جو ڈورسل فن کے نرم حصے کے پچھلے حصے کے نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ اس کا مسکن ہند-بحرالکاہل، بحیرہ احمر، خلیج فارس، مشرقی افریقہ سے ساموا، شمال میں ریوکیو جزائر، جنوب میں آسٹریلیا تک ہے۔

    دوغلا ہیرا ڈوری اسنیپر مچھلی

    دوغلے ہیرے کے جیسی پاکستان میں کئی نسلیں پائی جاتی ہیں اور سب کی ہی غلط شناخت کی جاتی ہے، ان سب نسلوں کو Lane Snapper کہا جاتا ہے جب کہ لین اسنیپر پاکستان میں پائی ہی نہیں جاتی۔

    لین اسنیپر اسی کی طرح نظر آنے والی ایک اور مچھلی ہے، جس کا سائنسی نام Lutjanus synagris ہے اور اس کا مسکن مغربی بحر اوقیانوس، برمودا اور شمالی کیرولائنا، امریکا سے جنوب مشرقی برازیل، بشمول خلیج میکسیکو، بحیرہ کیریبین، پاناما اور جنوبی امریکا کے شمالی ساحلوں تک ہے۔ یہ وزن میں 4 کلو تک اور عمر میں 10 سال جی سکتی ہے۔

    کالے دھبے والی اسنیپر

    اسے انگلش میں Black Spot snapper کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنسی نام Lutjanus ehrenbergii ہے۔ یہ وزن میں 2 کلو تک اور عمر میں 10 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کی کمر اور اوپری اطراف کا رنگ گہرا بھورا، نیچے کی طرف اور پیٹ کا رنگ سلوری چمک کے ساتھ سفیدی مائل، عام طور پر لیٹرل لائن کے نیچے اطراف میں 4 سے 5 تنگ پیلے رنگ کی پٹیوں کی قطاریں، ڈورسل فن کے پچھلے حصے کے نیچے پیٹھ پر ایک سیاہ دھبا ہوتا ہے۔

    بلیک اسپاٹ دوغلا ہیرا مچھلی

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحرالکاہل، بحیرہ احمر اور مشرقی افریقہ سے سلیمان اور ماریانا جزائر تک ہے۔

    پانچ لکیروں والی اسنیپر

    اسے five-lined snapper کہتے ہیں، یہ وزن میں 3 کلو تک اور عمر میں 31 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کا رنگ عام طور پر پنکھوں سمیت چمک دار پیلا، اطراف میں 5 نیلی پٹیوں کی قطاریں، پچھلے حصے کے سب سے نرم ڈورسل فنز کے نیچے ایک گول سیاہ دھبا، آنکھ کے سائز یا اس سے بڑا، جو پیٹھ پر پس منظر کی لکیر (lateral line) کو چھوتی ہے، لیکن زیادہ تر اس کے اوپر ہوتی ہے۔ اس کا مسکن ہند-مغربی بحرالکاہل، خلیج فارس، خلیج عمان سے فجی، شمال سے جنوبی جاپان تک ہے۔

    پانچ لکیروں والی اسنیپر مچھلی

    رسلز اسنیپر

    Russell’s snapper کا رنگ عام طور پر سلوری چمک کے ساتھ گلابی سے سفید ہوتا ہے۔ ایک سیاہ دھبا، بنیادی طور پر پس منظر کی لکیر (lateral line) کے اوپر، نرم ڈورسل فنز کے اگلے کانٹوں کے نیچے (بحر ہند کی بالغ مچھلیوں کی پیٹھ پر عام طور پر 7 سے 8 تنگ سنہری بھوری پٹیاں ہوتی ہیں) بالغوں کی سفید رنگ کے ساتھ پیٹھ پر سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ ان کے کمر کے اوپری حصے پر ایک گول سیاہ دھبا ہوتا ہے۔

    رسل اسنیپر مچھلی

    ان کا مسکن ہند-بحرالکاہل ہے اور یہ عمر میں 10 سے 15 سال تک اور وزن میں 2 سے 3 کلو تک بڑھ سکتی ہیں۔

  • تازہ اور باسی سفید پاپلیٹ مچھلی (Silver pomfret) کی پہچان، صحت بخش فوائد اور مکمل معلومات

    تازہ اور باسی سفید پاپلیٹ مچھلی (Silver pomfret) کی پہچان، صحت بخش فوائد اور مکمل معلومات

    فرید الحق حقی

    مچھلیوں کی دنیا میں سفید پاپلیٹ سب سے مشہور اور مہنگی مچھلی ہے۔ اپنی خوب صورتی اور زبردست ذائقے کی وجہ سے سب ہی اسے جانتے ہیں۔ پاپلیٹ کھانے میں مکھن کی طرح نرم و ملائم ہے، لیکن اس کی لذت اور اصل ذائقہ تب ہی مل سکتا ہے جب یہ تازی کھائی جائے۔

    بدقسمتی سے عوام کی مچھلیوں سے عدم دل چسپی کے باعث مچھلیوں کی خریداری میں دھوکے بازیاں بہت عام ہیں اور لوگ باسی مچھلیاں تازی کے بھاؤ خرید کر، اور سستی مچھلیاں مہنگی مچھلیوں کے ناموں سے خرید کر لٹ جاتے ہیں اور انھیں پتا بھی نہیں چلتا۔ ایسی مچھلیاں کھا کر ایک تو مزا نہیں آتا، دوسرا صارفین کا دل اس طرف سے کھٹا ہو جاتا ہے اور کچھ صارفین مچھلیاں خریدنے سے اجتناب کرنے لگتے ہیں۔

    اس مضمون میں آپ سفید پاپلیٹ کی تازہ اور باسی کی پہچان، تازہ کہاں سے خریدی جائے؟ اس کے صحت بخش فوائد اور اس کے مکمل لائف سائیکل کے بارے میں جانیں گے۔

    تعارف

    سفید پاپلیٹ کو انگلش میں Silver pomfret کہتے ہیں، جب کہ انڈیا میں اسے ممبئ کے اطراف سفید پاپلیٹ کی بجائے صرف پاپلیٹ اور بنگال میں ’’روپ چندا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ عربوں میں بھی بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے اور عربی اسے ’’زبیدی‘‘ کہتے ہیں۔ زبیدی عربی کے لفظ ’’زبدہ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی مکھن کے ہیں۔

    چاندی والا سفید پاپلیٹ

    مارکیٹ میں اس کی 2 قسمیں آتی ہیں۔

    1. Silver pomfret

    (Pampus argenteus)

    2. Chinese Silver Pomfret

    (Pampus chinensis)

    چائنیز پاپلیٹ کو پاکستان میں ’’گبر پاپلیٹ‘‘ جب کہ انڈیا میں ’’کاپری‘‘ کہتے ہیں۔ مارکیٹ میں پاپلیٹ کی تیسری قسم Black Pomfret (Parastromateus niger) بھی آتی ہے۔ اسے پاکستان میں ’’کالا پاپلیٹ‘‘ جب کہ انڈیا میں ’’حلوہ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن کالے پاپلیٹ کا تعلق Carangidae فیملی سے جب کہ سفید پاپلیٹ کا Stromateidae فیملی سے ہے۔

    عمر اور خوراک

    سفید پاپلیٹ 5 سے 7 سال تک جی سکتی ہے، جب کہ وزن میں 4 سے 6 کلو تک بڑھ سکتی ہے، لیکن بہت زیادہ شکار کے باعث اس کی 1 کلو کے اور 1 کلو سے کم ہی کے دانے نظر آتے ہیں۔ یہ گوشت خور ہوتی ہیں اور بنیادی طور پر چھوٹی مچھلیوں، کرسٹیشینز (کیکڑے، جھینگے، لابسٹر وغیرہ) زو پلانکٹن (چھوٹے جان دار) اور سکوئیڈ کھاتی ہیں۔

    گبر پاپلیٹ

    جنسی پختگی کی عمر اور انڈوں کی تعداد

    سفید پاپلیٹ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور ماحولیاتی حالات کے لحاظ سے مختلف لمبائیوں اور عمروں میں جنسی پختگی کو پہنچتے ہیں۔ تاہم، عام طور پر یہ 28 سینٹی میٹر تک کی لمبائی میں مکمل طور پر پہلی بار جنسی پختگی کو پہنچتے ہیں، جس کی رینج 18 سینٹی میٹر سے شروع ہوتی ہے۔

    ڈیپارٹمنٹ آف فش بائیو لوجی اینڈ بائیو ٹیکنالوجی فیکلٹی آف فشریز، چٹاکانگ بنگلا دیش، اور کوسٹل بائیو ڈائیورسٹی، مرین فشریز اینڈ وائلڈ لائف ریسرچ سینٹر بنگلا دیش کی تحقیق کے مطابق بنگلا دیش کے پانیوں میں سفید پاپلیٹ کی جنسی پختگی تک پہچنے کی لمبائی 18.82 سینٹی میٹر سے لے کر 35.73 سینٹی میٹر تک تھی اور وزن 89.26 گرام سے لے کر 617.60 گرام تھا۔ پختگی پر عمر تقریباً 1 سال تک کی ہوتی ہے، حالاں کہ ماحولیاتی عوامل اور مقامی سپوننگ سائیکل ان میٹرکس میں رد و بدل کر سکتے ہیں۔

    سفید پاپلیٹ بیچز میں انڈے دیتی ہے۔ عام طور پر 1 کلو کی مادہ ایک بیچ میں 1,76,300 تک انڈے دیتی ہے اور یہ انڈے دینے کے ایک پورے سیزن میں تقریباً 6 بیچز میں انڈے دیتی ہے، اس طرح 1 سیزن میں ایک 1 کلو کی مادہ کل 10,58000 تک انڈے دیتی ہے۔ بڑی مادائیں چھوٹی ماداؤں سے زیادہ انڈے دیتی ہیں۔ ماداؤں کے انڈے دینے کے بعد نر ان انڈوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انڈوں کے قریب اپنے پنکھ چلاتے ہوئے انھیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور تب تک انڈوں کی حفاظت کرتے ہیں جب تک ان انڈوں سے بچے نہ نکلیں۔

    کیا سفید پاپلیٹ کی نسل خطرے سے دوچار ہے؟

    حالاں کہ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) کی ریڈ لسٹ میں سفید پاپلیٹ کی نسل خطرے سے دوچار کی حثیت سے درج نہیں ہے، تاہم کچھ علاقائی رپورٹس میں کچھ علاقوں میں جیسے انڈیا، کویت اور چین میں ضرورت سے زیادہ تجارتی ماہی گیری کی وجہ سے اس کی نسل میں کمی ہو رہی ہے اور اب اس کے زیادہ سے زیادہ 1 کلو اور 1 کلو سے کم ہی کے دانے پکڑے جاتے ہیں، حالاں کہ یہ وزن میں 4 سے 6 کلو تک پہنچ سکتی ہیں۔

    سفید پاپلیٹ

    حد سے زیادہ تجارتی ماہی گیری اس مچھلی کی کم پختگی کی شرح اور کم ہوتی ہوئی ابادی کو صاف ظاہر کرتی ہے۔ ڈیٹا کے مطابق سفید پاپلیٹ 28 سینٹی میٹر تک کی لمبائی میں جنسی پختگی تک پہنچتی ہیں اور وزن میں تقریباً 500 گرام تک ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ کم سے کم وزن وہ ہے جب ان کی جنسی پختگی شروع ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ وزن وہ ہ ہے جب یہ اپنی فل میچیورٹی یعنی کہ اپنی پہلی مکمل جنسی پختگی تک پہنچ جاتی ہیں۔

    کراچی فشری

    کراچی فشری میں لائی جانے والی زیادہ تر پاپلیٹ اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ 1 کلو میں 4 اور 6 دانے نکلتے ہیں، یعنی اس وزن میں جب یہ اپنے پہلی جنسی پختگی کو پہنچتی ہیں، یا پہنچنے والی ہوتی ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عمر میں ہی انھیں فوراً شکار کر لیا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کراچی فشری اور مارکیٹوں میں سفید پاپلیٹ کی ایسی بڑی بڑی ڈھیریاں بھی جا بہ جا نظر آتی ہیں، جن میں اس مچھلی کا وزن 100 گرام اور 150 گرام تک ہوتا ہے، یعنی کہ انھیں جنسی پختگی تک پہچنے سے پہلے ہی شکار کر لیا جاتا ہے۔

    سفید پاپلیٹ

    متعلقہ ڈپارٹمنٹس کو اس پر فوراً نوٹس لے کر گورنمنٹ پر دباؤ ڈال کر 500 گرام سے کم وزن والی سفید پاپلیٹ کے پکڑنے پر پابندی لگانی چاہیے، ورنہ اس شان دار مخلوق کی نسل جو کہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت زیادہ مفید ہے، دھیرے دھیرے ختم ہو جائے گی۔

    تازہ اور باسی سفید پاپلیٹ کی پہچان

    تازہ پاپلیٹ کو جب آپ اٹھا کر سر سے پکڑیں گے تو یہ مڑنے کی بجائے بالکل سیدھی رہے گی اور گوشت سخت ہوگا۔ اگر مچھلی لٹک جاتی ہے اور گوشت نرم ہے تو یہ باسی ہے۔

    سفید پاپلیٹ

    اس کے بدن پر چاندی ہوگی، اکثر برف لگنے سے چاندی اتر جاتی ہے، اس صورت میں گلپھڑوں کا پنکھ اٹھا کر دیکھیں چاندی ہوگی، اگر چاندی نہی ہے تو یہ باسی ہو چکی ہے۔ اس کے گلپھڑے دبانے پر اس میں سے سفید گاڑھا مواد نکلے گا، اگر مواد سفید کی بجائے لال یا کالا نکلتا ہے تو پھر یہ باسی مچھلی ہے۔

    مچھلی فروشوں کی دھوکے بازیاں

    نرم اور باسی پاپلیٹ کو مچھلی فروش سخت اور تازی بنانے کے لیے اسے کچھ گھنٹے یا 1 دن تک برف اور نمک کے پانی میں رکھتے ہیں۔ اس صورت میں پاپلیٹ کا بدن سخت اور کھال بالکل سفید ہو جاتی ہے، آپ سے اٹھا کر دیکھیں گے تو یہ بالکل سیدھی رہے گی اور سخت ہوگی۔ ایسی پاپلیٹ مچھلیوں کو فشری کی اصطلاح میں ’’چل واٹر مال‘‘ کہتے ہیں۔

    اس کی پہچان یہ ہے کہ ایسی پاپلیٹ دھلی ہوئی، بالکل صاف و شفاف اور سفید نظر آئے گی، اس پر چاندی بالکل بھی نہیں ہوگی اور اس کے گلپھڑے دبانے پر اس میں سے ہلکا سا لال رنگ کا پانی نکلے گا۔

    مچھلی فروش ’’گبر پاپلیٹ‘‘ کو بھی سفید پاپلیٹ کے نام سے فروخت کرتے ہیں۔ گبر سفید پاپلیٹ سے سستی ہوتی ہے، اس کے علاوہ مچھلی فروش ’’سوناب مچھلی‘‘ (Pompano fish) کی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں (سوناب کے 100 اور 200 گرام کے بچے، جو کہ سفید پاپلیٹ کی طرح نظر آتے ہیں) بھی سفید پاپلیٹ کہہ کر بیچتے ہیں۔

    کراچی میں تازہ کہاں ملے گی؟

    کراچی فشری میں 2 مارکیٹیں لگتی ہیں۔ رات کی مارکیٹ کو ’’گجہ مارکیٹ‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں زیادہ تر وہ مچھلیاں آتی ہیں، جو جال کے ذریعے شکار کی جاتی ہیں اور اس مارکیٹ میں ان لانچوں کی مچھلیاں آتی ہیں، جو لانچیں زیادہ تر مہینہ یا اس سے زیادہ تک سمندر میں شکار کرتی ہیں۔

    دوسری مارکیٹ کو ’’ھیلہ مارکیٹ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مارکیٹ دوپہر 3 بجے سے مغرب تک لگتی ہے اور اس میں 1 سے 2 دن والی شکار کی ہوئی مچھلیاں آتی ہیں۔ یہ ایکسپورٹ کوالٹی کی مچھلیاں ہوتی ہیں، اور جال کی بجائے کانٹے سے شکار کی ہوئی ہوتی ہیں، اس لیے بالکل تازہ ہوتی ہیں اور ان کی قیمت بھی صبح کی مارکیٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔

    لیکن کچھ مچھلیاں جس میں سفید پاپلیٹ بھی شامل ہے، شام کی مارکیٹ کی بجائے صبح کی مارکیٹ میں تازہ ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ریڑی گوٹھ اور ابراھیم حیدری سے بھی تازہ مل جاتی ہے۔

    قیمت

    پاپلیٹ کی قیمت اس کے وزن کے حساب سے ہوتی ہے، مستقل ایکسپورٹ کیے جانے کی وجہ سے اس کی قیمتیں سارا سال زیادہ ہی رہتی ہیں۔ 1 کلو والے دانے کی قیمت تقریباً 7 ہزار روپے، آدھا کلو والے دانے کی تقریباً 5 ہزار، 1 کلو میں 4 دانے والی کی تقریباً 4 ہزار، 1 کلو میں 6 اور 8 دانے والی کی تقریباً 3 ہزار، اور 1 کلو میں 10 دانے والی مچھلی کی تقریباً ڈھائی ہزار روپے تک قیمت ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ قیمتیں مارکیٹ میں سپلائی اور ڈیمانڈ کے حساب سے کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔

    صحت بخش فوائد

    لذیذ ذائقے اور خوب صورتی کے ساتھ ساتھ سفید پاپلیٹ صحت بخش فوائد سے بھی مالا مال ہے۔ کوئٹہ ویمن یونیورسٹی شعبہ زولوجی کے سردار بہادر خان، وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ کراچی پاکستان، انقرہ ترکی کی غازی یونیورسٹی، برونائی یونیورسٹی دارالسلام کی مشترکہ تحقیق جو کہ بلوچستان سے پکڑے گئے 40 سفید پاپلیٹ مچھلیوں کے نمونوں پر مشتمل تھی، کے مطابق پاپلیٹ کا گوشت انتہائی ہاضم ہوتا ہے جو کہ وٹامن اے، بی، بی 3، سی، ڈی، ای، اور وٹامن کے سے بھرپور ہوتا ہے۔

    اس کا گوشت پروٹین سے بھرپور اور کیلوریز میں کم ہوتا ہے، مذکورہ ٹیم نے یہ بھی پایا کہ اس کا گوشت صحت مند جلد کو فروغ دینے میں بہت ہی زیادہ کار آمد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے گوشت میں صحت بخش چربی جسے ’’پولی ان سیچوریٹڈ فیٹ‘‘ کہتے ہیں اور اومیگا تھری کی بھی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں آئرن، کیلشیئم اور سیلینیم کی بھی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ یہ وہ تمام ضروری وٹامنز ہیں جو کہ اگر مستقل بنیادوں پر لیے جائیں تو ایک فولادی و انتہائی صحت مند اور بیماریوں سے پاک وجود کو بہ خوبی و آسانی سے تشکیل دے سکتے ہیں۔

    مرکری کی سطح

    چین کے تین اداروں چائنا نیشنل آف شور آئل کارپوریشن (CNOOC) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لمیٹڈ بیجنگ، کالج آف میرین لائف سائنسز اوشین یونیورسٹی آف چائنا چنگ ڈاؤ، اور میرین کاربن سنک ریسرچ سینٹر شیڈونگ نے چین کے تین ساحلی علاقوں Beibu Gulf, Haizhou Bay, Laizhou Bay میں مرکری کی جانچ کے لیے مشترکہ تحقیق کی تھی، اس کے مطابق ٹیم نے پایا کہ تینوں علاقوں میں پاپلیٹ میں مرکری کی الگ الگ سطح ریکارڈ کی گئی۔

    سب سے کم سطح Haizhou Bay میں 0.012 ± 0.006 (mg/kg/dw) تھی جب کہ سب سے زیادہ مرکری Beibu Gulf میں 0.072 ± 0.026 (mg/kg/dw) ریکارڈ کی گئی۔ یہ مرکری اتنا کم ہے کہ سفید پاپلیٹ روز کھائی جا سکتی ہے۔

  • مچھلی فرائی کرنے کے لیے سب سے صحت بخش، محفوظ تیل کون سا ہے؟

    مچھلی فرائی کرنے کے لیے سب سے صحت بخش، محفوظ تیل کون سا ہے؟

    اگر آپ کا شمار مچھلی شوق سے کھانے والوں میں ہوتا ہے تو کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ مچھلی فرائی کے لیے اور دیگر کھانوں میں استعمال کے لیے سب سے صحت بخش اور محفوظ تیل کون سا ہے؟

    اس سے پہلے کہ ہم فرائی کے لیے تیل کے بہترین آپشن کو جانیں ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جو تیل ہم استعمال کر رہے ہیں کیا وہ کھانے کے قابل ہے بھی یا نہیں؟

    صدیوں سے ہمارے آبا سرسوں، کھوپرے، زیتون کے تیل اور دیسی گھی کا استعمال کرتے آ رہے ہیں، یہ تیل کولہو میں بیل جوت کر نکالا جاتا تھا، یہ ایک مکمل آرگینک تیل تھا جو حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق تیار تھا۔ اس میں سب سے زیادہ استعمال سرسوں کے تیل کا ہوتا تھا کیوں کہ وہ سستا بھی تھا اور دستیابی بھی آسان تھی۔

    70 کی دہائی میں امریکا و یورپ سے آواز اٹھی کہ سرسوں کے تیل میں اومیگا 9 یعنی کہ ایرکک ایسڈ (Erucic Acid) کی مقدار زیادہ ہے جو ہارٹ اٹیک کا باعث بنتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جانوروں کی چربی، دیسی گھی اور مکھن کو بھی مضر صحت قرار دے دیا گیا۔

    جب اس کی خوب تشہیر کی گئی تو پھر مارکیٹ میں کنولا آئل متعارف کرایا گیا، اور یہ کہا گیا کہ اس میں ایرکک ایسڈ کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ صحت کے لیے بہترین ہے، اور کینیڈا دھڑا دھڑ کنولا آئل بنانے لگا۔

    معاملہ یہ تھا کہ ایرکک ایسڈ کے معمولی مقدار کو ہوا بنا کے پیش کیا گیا تھا تاکہ ان کا کاروبار چل نکلے، دل چسپ بات یہ ہے کہ کنولا بھی سرسوں ہی کی ایک قسم ہے، جسے میٹھی سرسوں کہا جاتا ہے، اس کے بعد کنولا آئل اور ریفائنڈ آئل کو فروغ ملا اور دنیا بھر میں اس کا استعمال عام ہو گیا۔

    لیکن پھر اس کے مضر صحت اثرات سامنے آنے لگے اور دنیا بھر میں شوگر، بلڈ پریشر، موٹاپا، دل کی بیماریاں اور کینسر عام ہونے لگیں، ایسا کیوں ہوا؟ آئیے اس کی وجوہ جان لیں۔

    کنولا آئل ایک GMO فوڈ تھا، اس کا مطلب ہے کہ وہ فوڈ جس میں جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے لیبارٹری میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ یہ چوں کہ خلاف فطرت ہے اس لیے مکمل آرگینک نہیں ہے۔ دوسرا طریقہ ہائبرڈ کہلاتا ہے جو مصنوعی ملاپ کے ذریعے دو اقسام کی کراس بریڈنگ مقامی طور پر کسان حضرات کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک پودے پر کسی اور پودے کا قلم لگانا، یہ آرگینک طریقہ کار ہے۔

    دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ موجودہ تیل کو پراسس یعنی ریفائنڈ کیا جاتا ہے اور اس عمل میں اس کے مفید اجزا خاص طور پر Omega 3 نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں، اور نقصان دہ کولیسٹرول یعنی کہ LDL کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

    ریفائنڈ اور غیر ریفائنڈ میں کیا فرق ہے؟

    آئل کی موجودہ شکل ریفائنڈ آئل کہلاتی ہے، یعنی کہ پراسس کیا ہوا ہو یا صاف شدہ تیل۔

    ریفائننگ کا یہ عمل ہیوی مشینری کے ذریعے کیا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران اس کی رنگت سنہری کرنے، بو ختم کرنے اور لمبے عرصے تک محفوظ کرنے کے لیے اس میں مضر صحت کیمیکل ڈالے جاتے ہیں، اور زیادہ دیر تک ہیوی ہیٹ دی جاتی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ تیل کی پراسیسنگ میں ہیٹ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

    ریفائننگ کے اس عمل کے دوران تیز درجہ حرارت اور کیمیکل ان میں سے تمام قیمتی اور قدرتی عناصر ختم کر دیتے ہیں اور اس کے بجائے یہ ٹرانس چربی کی مقدار کو بڑھا دیتے ہیں، جس سے غیر صحت بخش کولیسٹرول یعنی کہ LDL کولیسٹرول، ٹرائگلیسرائڈز، اور انسولین کی سطح بڑھ جاتی ہے اور فائدہ مند HDL کولیسٹرول کی سطح کم ہو جاتی ہے۔

    ریفائنڈ ہوئے بغیر تیل یقینی طور پر ریفائنڈ تیل سے زیادہ صحت بخش ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ کم آنچ پر، بغیر کیمکل اور کم پراسس کے ساتھ تیار ہوتے ہیں۔

    کولڈ پریس مشینیں

    غیر ریفائنڈ تیل پہلے کولہو میں تیار ہوتا تھا، ایک بڑے سے ڈونگے میں سرسوں کے بیچ ڈال کر اسے لکڑی اور بیلوں کی مدد سے کرش کر کے تیل نکالا جاتا تھا، اس عمل کو کولڈ پروسیس کہتے ہیں جس میں تیل قدرتی حالت میں رہ پاتا ہے۔ کیوں کہ تیل کو ہیٹ بھی کم لگتی ہے اور کیمکل بھی شامل نہیں کیے جاتے، بس اسے لمبے عرصے تک رکھا نہیں جا سکتا۔ تیل نکالنے کے بعد 3 مہینے کے اندر اندر استعمال کرنا ہوتا ہے۔

    اب کولہو میں بیلوں کی جگہ موٹر مشینوں نے لے لی ہے، لیکن باقی طریقہ کار وہی ہے، جیسا آپ کو تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ اب مارکیٹ میں ایسی کئی مشینیں بھی دستیاب ہیں جو کولڈ پراسس کے تحت بیج سے آئل نکالتی ہیں۔ آپ وہاں بیج دے کر تیل نکالیں اور پھر گھر میں خود بہت ہی آسانی سے اسے پراسس کر لیں۔ ایسی کولڈ پریس مشینیں اور کولہو پاکستان میں ہر جگہ دستیاب ہیں۔

    تیل کو گھر پر کیسے صاف کریں؟

    سرسوں کا غیر صاف شدہ یعنی کہ غیر ریفائنڈ تیل گھر پر ریفائنڈ کرنے کے لیے اس میں کٹی پیاز، لہسن، زیرہ اور آٹے کا پیڑا ڈال کر اسے گرم کر کے پھر بلکی آنچ پر ایک گھنٹے تک پکایا جاتا ہے۔ اس عمل سے بو ختم ہو جاتی ہے، رنگ سنہرا ہو جاتا ہے اور فاسد مادے ختم ہو جاتے ہیں، جو کچھ فاسد مادے رہ بھی جاتے ہیں وہ نیچے پیندے میں بیٹھ جاتے ہیں۔

    ایک گھنٹے تک ہلکی آنچ پر گرم کرنے کے بعد آنچ بند کر کے اس میں سے ساری ڈالی ہوئی چیزیں نکال لیں اور پانچ گھنٹے تک ایسے ہی پڑا رہنے دیں۔ یاد رہے کہ اس وقت پتیلے یا برتن پر ڈھکن نہ لگائیں تاکہ بخارات پانی بن کر تیل میں شامل ہو کر تیل خراب نہ کر دیں بلکہ کسی کپڑے سے ڈھانپ لیں۔

    پانچ گھنٹے بعد اوپر کا تیل کسی برتن کے ذریعے کسی اور برتن میں شفٹ کر لیں اور پیندے میں پڑا تیل رہنے دیں، کیوں کہ اس میں کچھ مضر اثرات ہو سکتے ہیں، پیندے میں پڑا یہ تھوڑا سا تیل آپ مالش اور سر پر لگانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

    اب آپ کے پاس قدری طریقے سے پراسس کیا ہوا بھرپور صحت بخش تیل ہے، جسے آپ بلا جھجھک ہر ریسپی میں استعمال کر سکتے ہیں، چاہے وہ سبزی ہو، گوشت ہو یا دال۔ ہمارے آبا صدیوں سے اسی طریقے سے تیل نکال کر اور صاف کر کے استعمال کرتے آئے ہیں۔ انھیں نہ بلڈ پریشر کے مسائل تھے نہ شوگر کے، نہ دل کے، اور ان کی ہڈیاں بھی مضبوط تھیں۔ اس کولڈ پراسس کے تحت حاصل شدہ غیر ریفائنڈ تیل بہت مفید بھی ہے اور سستا بھی اور سرسوں کا تیل خاص کر فرائی کرنے کے لیے سب سے بہترین ہے کیوں کہ اس کا اسموک پوائنٹ ہے۔

    اسموک پوائنٹ کیا ہے؟

    جب تیل کو اتنا گرم کیا جائے کہ اس میں سے دھواں نکلنے لگے تو اس عمل کو Smoke Point یا Burning Point کہتے ہیں۔ تیل میں سے دھواں نکلنے کے بعد اگر اسے آنچ سے ہٹا نہیں دیا جائے یا آنچ کم نہ کی جائے اور اس میں سے ایسے ہی دھواں نکلتا رہے تو اس کے مفید اجزا تو ختم ہو ہی جاتے ہیں، ساتھ میں یہ تیل بالکل زہریلا ہو جاتا ہے، جو صحت کے لیے اور خاص کر دل کے لیے زہر قاتل ہے۔

    عام طور سے فیکٹریوں میں پراسیسنگ کا عمل اچھا نہیں ہوتا کیوں کہ وہ پراسیسنگ میں ہیٹ کا خیال نہیں رکھتے، اور تیل مضر صحت ہو جاتا ہے اور اس پر ان کے دعوے کہ یہ ریفائنڈ یعنی کہ گندگی سے مبرا صاف و شفاف تیل ہے، بہ ظاہر دیکھنے پر تو تیل صاف و شفاف نظر آتا ہے لیکن درحقیقت غیر فائدہ مند اور نقصان دہ ہوتا ہے۔

    یہ بھی ذہن نشین رہے کہ فرائی کرنے کے لیے تیل کو صرف دو مرتبہ اور وہ بھی کم وقت کے لیے ہی استعمال کر سکتے ہیں، صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے بعد وہ تیل قابل استعمال نہیں رہتا۔ اب اس تناظر میں بازار میں فرائی کرنے والوں کو ذہن میں لائیں، ایک تو وہ ریفائنڈ تیل استعمال کرتے ہیں جو کہ پہلے ہی سے نقصان دہ ہے، اس پر مستزاد یہ کہ وہ اسے بار بار اور مسلسل استعمال کرتے رہتے ہیں جو پک پک کر ڈیزل کی طرح اور زہر قاتل بن جاتا ہے۔

    اس لیے بازار کی فرائی کی ہوئی چیزیں سخت نقصان دہ ہوتی ہیں، خصوصاً مچھلی، کیوں کہ وہ ڈیپ فرائی میں اور سارا دن استعمال ہونے والے تیل میں تلتی ہے۔

    فرائی میں پھر سب سے نقصان دہ ڈیپ فرائی ہے، اس لیے ہمیشہ shallow فرائی کیا کریں، پین میں اتنا آئل ڈالیں کہ پیندا تر ہو جائے، جب کہ اس کے برعکس ہمارے ہاں کڑھائی اور پین کو آئل سے تقریباً آدھا بھر دیا جاتا ہے۔

    تیلوں کا اسموک پوائنٹ

    سب سے زیادہ اسموک پوائنٹ ایواکاڈو (avocado) آئل کا ہے جو 271 ڈگری سیلسیس ہے۔ یعنی کہ تیز ہیٹ اور زیادہ دیر تک پکنے پر جلے گا نہیں، اس طرح یہ فرائی کے لیے بہترین ہے لیکن یہ مہنگا ہونے کی وجہ سے عام عوام کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس کے بعد دیسی گھی کا 250 ڈگری ہے لیکن یہ بھی مہنگا ہے۔

    اب بچتے ہیں سرسوں کا تیل 249 ڈگری، سن فلاور 232 ڈگری، کنولا 204 ڈگری، زیتون کا 160 ڈگری اور ناریل کا 177 ڈگری ہے۔

    اس میں صحت کے لیے سب سے بہترین دیسی گھی اور زیتون کا تیل ہے، لیکن یہ دونوں مہنگے ہونے کی وجہ سے عام استعمال کے لیے ممکن نہیں، اور زیتون یعنی کہ Olive Oil کا اسموک بہت پوائنٹ کم ہے، اس لیے اس کو ہلکی آنچ اور کم ٹائم کے لیے پکنے والی غذاؤں کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

    بہترین چوائس مسٹرڈ آئل یعنی کہ سرسوں کا تیل ہے، جس کا اسموک پوائنٹ بھی زیادہ ہے اور صحت کے لیے بھی بہت کار آمد ہے اور اسی تیل میں مچھلی فرائی کا اصل مزا آتا ہے۔

    کنولا تیل سرسوں سے اچھا ہے لیکن وہ مہنگا ہے اور اسموک پوائنٹ بھی کم ہے، آپ سرسوں کی جگہ کنولے سے بھی تیل نکلوا سکتے ہیں، اسی لیے جب بھی تیل کا انتخاب کریں ہمیشہ غیر ریفائنڈ اور سرسوں کا، زیتون، ناریل، کنولا اور دیسی گھی کا انتخاب کریں۔

    مکھن، دیسی گھی، کاربوہائیڈریٹس

    کچی لسی، دہی، مکھن، دیسی گھی، جانوروں کی چربی اور Nuts کا استعمال ضرور کیا کریں، حالیہ ریسرچ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ان غذاؤں کا دل کی بیماری، موٹاپے اور شوگر سے تعلق نہیں ہے۔ یہ فیٹس بدن کے لیے صحت بخش ہیں جو کہ صحت مند کولیسٹرول HDL کو بڑھاتے ہیں۔

    کاربوہائیڈریٹس بدن کے لیے نقصان دہ ہیں، حالاں کہ کاربو ہائیڈریٹس بدن کے لیے ایندھن کا کام کرتے ہیں اور باڈی کو طاقت دیتے ہیں، لیکن ریفائنڈ تیل کی طرح ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹ فوڈز بدن کو انرجی کی بجائے زہر دے رہے ہیں، جس میں تمام ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹ شامل ہیں، یعنی کہ چینی، نشاستہ، موجودہ گندم (پرانی 55 سال پہلے تک والی نہیں، اور پراسس گندم، یعنی آٹے میں سے چوکر نکلا آٹا، جیسا کہ آٹا مل والے کرتے ہیں) بیکری آئٹم، تمام پراسس فوڈز، کولڈرنک، میٹھی اشیا، چاول (فائبر نکلا ہوا چاول، موجودہ تمام سفید کلر کے چاول سے فائبر ہٹا دیا جاتا ہے، اصلی یعنی صحت بخش اور غیر نقصان دہ چاول براؤن کلر کے چاول ہیں جن میں فائبر ہوتا ہے) اور میدے سے بننے والی تمام اشیا۔

    ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹ فوڈز کے مسلسل استعمال سے LDL یعنی غیر صحت بخش کولیسٹرول اور خون میں انسولین اور گلوکوز کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے اور یہ دل کی بیماری، شوگر، موٹاپے، اور کینسر کا باعث بنتے ہیں۔

    اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب سے یعنی 60 اور 70 کی دہائی سے موجودہ گندم اور ریفائنڈ تیل آئے ہیں، اور قدرتی خوراک کو ختم اور جینیاتی تبدیلیاں کر کے اور آمیزش کر کے پیش کیا گیا ہے، اور پراسس فوڈز کا استعمال بڑھا ہے، شوگر، بلڈ پریشر، کینسر، موٹاپا، ہارٹ اٹیک اور ہڈیوں کی بیماریوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

  • کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر ہے؟ ٹونا مچھلی کی اقسام اور مکمل معلومات

    پچھلی تحریر میں ہم نے مرکری کی سطح کے حوالے سے بتایا تھا کہ کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھانی چاہیے؟ اب اس تحریر میں ایک اور اہم سوال کا جواب فراہم کیا جا رہا ہے کہ کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر ہے؟

    دنیا بھر میں ٹونا کی کل 15 اقسام پائی جاتی ہیں، جب کہ پاکستان کے پانیوں میں اس کی عام طور سے اور زیادہ دیکھی جانی والی 4 اقسام موجود ہیں۔

    1… یلو فِن ٹونا (Yellowfin Tuna)

    2… بلو فِن ٹونا (Bluefinfin Tuna)

    3… بونیٹو (Bonito)

    4… بِگ آئی ٹونا (bigeye Tuna)

    مندرجہ بالا چار اقسام میں بلو فِن ٹونا بہت کم نظر آتی ہے، جب کہ باقی 3 اقسام عام ہیں۔

    یہ تو آپ نے پڑھا ہوگا کہ مچھلی قدرت کی جانب سے طاقت کا ایک خزانہ ہے، ماہرین غذائیات کہتے ہیں کہ ایک صحت مند جسم کی تشکیل لیے مچھلی کا باقاعدہ استعمال نہایت ضروری ہے، لیکن جیسا کہ پھول کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں، ویسا ہی مچھلی کے بیش بہا فائدوں کے ساتھ اس کا ایک نقصان بھی ہے۔

    یہ نقصان مرکری (پارہ) کی صورت میں ہے، جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے، مچھلی کی ہر جاتی کا الگ الگ مرکری لیول ہوتا ہے، تو آئیں، ٹونا کے مرکری لیول کو سمجھتے ہیں۔

    ٹونا میں کتنا مرکری ہے؟

    ٹونا کی اقسام میں سب سے زیادہ مرکری بلو فِن ٹونا میں پایا جاتا ہے، جو کہ 1.0 پی پی ایم ہے، جو کہ ایک مہلک سطح ہے۔ اس کے بعد بگ آئی ٹونا ہے جس میں 0.689 پی پی ایم مرکری پایا جاتا ہے، جو کہ پارے کی ہائی لیول سمجھی جاتی ہے۔ تیسرے نمبر پر یلو فِن ٹونا ہے جس کا مرکری لیول 0.354 ہے، جو کہ ایک قابل قبول اور میڈیم رینج ہے، جب کہ آخر میں بونیٹو ہے۔ اگر چہ بونیٹو میں باقی ٹونا کی نسبت کم پارہ پایا جاتا ہے لیکن اس کا گوشت ڈارک، ٹوٹنے پھوٹنے، اور ذائقہ دار نہ ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔

    پہچان

    اگرچہ تصاویر ساتھ دی گئی ہیں لیکن پھر بھی آسانی کے لیے بتاتے چلیں کہ بلو فِن پر نیلے رنگ کی پٹی ہوتی ہے، جو اوپر کی سمت آنکھوں کے پیچھے سے شروع ہو کر دم تک جاتی ہے، بونیٹو پر اوپر کی سمت دھاریاں اور ڈاٹ ہوتے ہیں۔ بگ آئی کے پر کالے اور جسم سلور اور کالے رنگ کی ہوتی ہے، جب کہ یلو فِن کے پر پیلے اور آنکھوں کے پیچھے سے ایک پیلا شیڈ دم تک جاتا ہے۔

    ٹونا اور سرمائی میں مچھلی فروشوں کا فراڈ

    مچھلی سے عوام کی عدم دل چسپی کے باعث مچھلی فروش اس کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سستی مچھلیاں مہنگی مچھلیوں والے نام بتا کر لوگوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ اگر ہم صرف ٹونا کی بات کریں تو مشہور مچھلی کنگ میکرل یعنی کہ سرمائی کے نام پر ٹونا بیچی جاتی ہے۔

    دونوں کی قیمت میں ڈبل سے بھی زیادہ فرق ہوتا ہے، سرمائی کی A گریڈ کی قیمت آج کل 1600 روپے ہے، جب کہ ٹونا کی 500 روپے۔ تصاویر میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ دونوں کی جسمانی ساخت اور رنگ میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن مچھلیوں سے لوگوں کی لاعلمی انھیں اپنے ہی ہاتھوں لٹوا دیتی ہے۔

    اسی طرح بونیٹو یعنی کہ چکی فش کو اصلی ٹونا کے نام پر بیچا جاتا ہے، بونیٹو کی قیمت 200 روپے تک ہوتی ہے جب کہ ٹونا کی 500 کے آس پاس ہوتی ہے۔

    کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر اور ذائقے دار ہے؟

    جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ بلو فِن اور بگ آئی ٹونا کا مرکری لیول بہت زیادہ ہوتا ہے، اور بونیٹو بے کار ہے، اس لیے ان تینوں کو نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے، بالخصوص بلو فن ٹونا کو۔

    یلو فِن کا مرکری لیول میڈیم رینج کا ہے، گوشت بھی زیادہ سیاہ نہیں ہے، فوائد بھی بہت ہیں اور ذائقہ بھی اچھا ہے، اس لیے ہمیشہ یلو فِن ٹونا ہی خریدیں۔ چوں کہ یلو فن کی تعداد کم ہے اس لیے یہ آپ کو مارکیٹ سے کم ہی دستیاب ہوگی، اور آپ کو بگ آئی ہر طرف ملے گی، لیکن اگر آپ کو یلو فِن نہیں ملتی تو آپ بہ حالت مجبوری بگ آئی ٹونا بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن پھر آپ کو خوراک میں رد و بدل کرنی پڑے گی۔

    یلو فِن آپ مہینے میں 4 مرتبہ کھا سکتے ہیں لیکن بگ آئی ٹونا صرف 2 مرتبہ کھانا بہتر ہے۔ ایف ڈی اے کی تجویز کردہ خوراک کے مطابق آپ بگ آئی ٹونا 5 اونس یعنی 140 گرام ہفتے میں 3 مرتبہ کھا سکتے ہیں۔

    یلو فِن ٹونا کے فوائد

    یلو فِن ٹونا میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں، جو دل کی صحت کو بہتر بنانے اور کولیسٹرول کو کم کرنے، دماغی افعال کو بڑھانے اور آنکھوں کی صحت کو بہتر کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اومیگا 3 ہڈیوں اور جوڑوں کی بیماری دور کرنے اور کینسر کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، اس میں اومیگا 3 کا لیول 0.4 گرام پر 6 اونس ہے۔

    یلو فِن ٹونا پروٹین میں زیادہ اور کیلوریز میں کم ہوتی ہے، اس لیے یہ جسم کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ وزن بھی بڑھنے نہیں دیتی، یہ پوٹاشیم کا بھی بھرپور ذریعہ ہے۔ ایک 3 اونس یلو فِن ٹونا کی سروِنگ میں 93 کیلوریز ہوتی ہیں، اور یہ 21 گرام پروٹین فراہم کرتا ہے۔ اس میں موجود پوٹاشیم بلڈ پریشر کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یلو فِن کے 100 گرام میں 527 ملی گرام پوٹاشیم ہوتا ہے۔

    یلو فن ٹونا میں زنک، مینگنیز اور وٹامن سی جیسے غذائی اجزا ہوتے ہیں جو قوت مدافعت کو بڑھانے اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتے ہیں، 100 ملی گرام میں 42 ملی گرام میگنیشیم اور 64 ملی گرام زنک ہوتا ہے۔ زنک ایک اہم معدنیات ہے جو جسم کے بہت سے معمول کے افعال اور نظاموں کے لیے ضروری ہے، بشمول مدافعتی نظام، زخم بھرنے، خون کا جمنا، تھائرائیڈ گلینڈ کی حفاظت کرنا، ذائقہ اور سونگھنے کی حس کو معمول میں رکھنا۔ زنک حمل، بچپن اور جوانی کے دوران معمول کی نشوونما میں بھی مدد کرتا ہے۔

    میگنیشیم جسم میں بہت سے افعال کے لیے اہم ہے، یہ عضلات اور اعصاب کو صحیح طریقے سے کام کرنے، بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر کو صحیح سطح پر رکھنے اور پروٹین، ہڈی اور ڈی این اے بنانے کے لیے ضروری ہے، وقت کے ساتھ میگنیشیم کی کم سطح کیلشیم اور پوٹاشیم کی سطح کو کم کر سکتی ہے۔

    سیلینئیم

    سب سے اہم بات یہ کہ یلو فِن ٹونا میں سب سے زیادہ سیلینیم ہوتا ہے جو کہ 92 مائکرو گرام فی 3 اونس ہے، اس کے بعد جھینگے، کیکڑے، سیپیاں، لور یا سارڈین اور حجام ہیں جن میں 60 مائکروگرام تک سیلینیم ہوتا ہے۔ باقی سمندری غذاؤں میں یلو فِن سے تقریباً آدھا سیلینیم ہوتا ہے۔

    سیلینیم مختلف انزائمز اور پروٹینز کا ایک لازمی جزو ہے، جسے سیلینو پروٹین کہتے ہیں، جو ڈی این اے بنانے اور سیل کو پہنچنے والے نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں مدد کرتے ہیں۔ سیلینیم مدافعتی نظام کے افعال اور تولیدی عمل کو بہتر بنانے میں مدد کر تا ہے۔ اس لیے بانجھ پن کی ادویات میں سیلینیم شامل کیا جاتا ہے تا کہ تولیدی عمل کو بڑھایا جا سکے۔

    یہ تھائرائیڈ ہارمون، میٹابولزم اور ڈی این اے کی ترتیب کو برقرار رکھنے اور جسم کو آکسیڈیٹیو نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اور امیون سسٹم کو طاقت دے کر جسم کو بیماریوں سے لڑنے میں مدد دیتا ہے۔

    ان نتائج سے معلوم ہوا کہ مچھلی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے، مچھلی باقاعدگی سے ہر کوئی نہیں کھاتا، سب فاسٹ فوڈز، کڑاھیاں، بریانیاں اور پلیٹرز کی طرف جاتے ہیں، اور بیماریاں پیسوں سے خرید کر خوشی خوشی نوش کرتے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شوگر، بلڈ پریشر، ہڈیوں اور دل کی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔

    مچھلی کے باقاعدہ استعمال سے ان بیماریوں سے بچاؤ بالکل ممکن ہے، ماہرین غذائیات کے مطابق جو لوگ باقاعدگی سے مچھلی کھاتے ہیں، ان میں شوگر اور بلڈ پریشر کی سطح نارمل ہوتی ہے، ہڈیاں مضبوط اور صحت مند اور دل بالکل نارمل کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے مچھلی سارا سال باقاعدگی سے کھانی چاہیے۔

    A گریڈ خریدیں اور فرائی نہ کریں

    لیکن خیال رہے کہ ہمیشہ تازی یعنی A گریڈ اور 5 کلو سے نیچے کا پیس لیا کریں، اور ٹونا کو اپنی خوراک کا لازمی حصہ بنائیں، بدقسمتی سے ٹونا کو اس کے لال گوشت کی وجہ سے پاکستان میں پسند نہیں کیا جاتا، جب کہ امریکا، یورپ، چین اور جاپان میں اس کے فوائد کی وجہ سے یہ بہت مقبول اور مہنگی مچھلی ہے۔

    یاد رکھیں کہ ٹونا مچھلی فرائی کرنے کے لیے نہیں ہے، اس کو ہمیشہ بریانی اور سالن یا قورمے کے لیے استعمال کریں۔

  • کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھانی چاہیے؟

    ہماری غذاؤں میں مچھلی ایک بہترین غذا ہے، ہر کوئی مچھلی پسند کرتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ مچھلی میں ایک ایسی چیز بھی پائی جاتی ہے جو انسانی صحت کے لیے بہت مضر ہے، یہ ہے پارہ، اس لیے یہ اہم سوال ابھرتا ہے کہ پارے کی مہلک سطح سے بچنے کے لیے کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھائیں؟

    سب سے یہ پہلے یہ جان لیں کہ مرکری کیا ہے؟
    مرکری ( پارہ ) ایک بھاری دھات ہے جو قدرتی طور پر ہوا، مٹی اور پانی میں پائی جاتی ہے۔ اس کی 3 اہم شکلیں ہیں۔
    1: عنصری
    2: نامیاتی
    3: غیر نامیاتی

    پانی میں پائی جانے والی قسم نامیاتی (Methyl mercury) کہلاتی ہے۔ سمندری پانی میں میتھائل مرکری کی بہت کم مقدار ہوتی یے، لیکن سمندری پودے جیسا کہ الجی (Algae) اسے جذب کرتے رہتے ہیں۔ چھوٹی مچھلیاں ان الجیوں کو کھا کر مرکری جذب کرتی ہیں۔ پھر بڑی مچھلیاں ان چھوٹی مچھلیوں کو کھا کر اپنے جسم میں مرکری لیول بڑھاتی رہتی ہیں، اور اس طرح اس چَین سے مچھلی کے گوشت میں میتھائل مرکری کی خطرناک سطح پروان چڑھتی ہے، جو انسانی جسم کے لیے بھی مہلک ہو سکتی ہے۔ انسانی بدن میں اس کا لیول بڑھنے پر یہ گردوں، اعصابی نظام اور دل پر حملہ کرتا ہے، جس سے کئی مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

    اب اہم سوال یہ ہے کہ کتنی اور کون سی مچھلی کھائیں کہ پارے کی مہلک سطح سے بچیں رہیں؟
    مچھلی میں مرکری کی سطح کو ’پارٹس فی ملین‘ (PPM) کے حساب سے ماپا جاتا ہے۔ سمندری غذا کے استعمال کے لیے محفوظ سطح، ماہرین کے مطابق، ایک حصہ فی ملین (PPM) پارہ فی ہفتہ ہے۔ یعنی کہ پارے کی زیادہ سے زیادہ خوراک 3.3 مائیکرو گرام فی کلو گرام جسمانی وزن فی ہفتہ ہے۔ آسان زبان میں سمجھیں تو آپ وہ کم پارے والی مچھلیاں ہفتے میں دو بار کھا سکتے ہیں، جن کے پارے کی سطح 0.050 کے آس پاس ہوتی ہے۔ ان میں کیٹ فش، سول، حجام، بوئی، پلہ، تارلی یا لور اور جھینگا شامل ہیں۔

    اس کے بعد امروز ہے، جس کے پارے کی سطح 0.178 ہے، اسے مہینے میں 4 بار کھایا جا سکتا ہے، اور اسی سطح والی مچھلیوں میں مشکا اور ریڈ اسنیپر بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد گھیسر اور یلو فِن ٹونا ہیں، جن کے مرکری کا لیول 0.350 کے آس پاس ہوتا ہے، انھیں مہینے میں 2 بار کھا سکتے ہیں۔ اور اس فہرست میں چند مچھلیوں کو چھوڑ کر باقی سبھی مچھلیاں شامل ہیں جسنھیں مہینے میں 2 بار کھا سکتے ہیں۔

    وہ مچھلیاں جن میں مرکری کی سطح بہت بلند ہوتی ہے، انھیں کھانے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے، ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
    Swordfish 0.995
    Shark 0.979
    King mackerel 0.730
    Big-eye Tuna 0.689
    Marlin 0.485

    اگرچہ اس فہرست میں مشہور مچھلی کنگ میکریل یعنی سرمائی شامل ہے، تاہم اس سے پرہیز ہی بہتر ہے، پھر بھی اگر کھانا چاہیں تو مہینے میں صرف 1 بار کھائیں، لیکن خیال رہے کہ اس مہینے کیٹ فش اور جھینگے کے علاوہ اور کوئ سمندری غذا نہ کھائیں۔

    یاد رکھنے کی بات:
    آپ مچھلی کے پارے کے بارے میں فکرمند تب ہی ہو سکتے ہیں جب آپ اسے سال کے بارہ مہینے کھاتے ہیں۔ تب آپ کو مندرجہ بالا ہدایات کی روشنی میں ایک مینو ترتیب دینا پڑے گا، جس پر عمل کر کے آپ پارے کے نقصان دہ اثرات سے بے فکر ہو سکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر آپ پورا مہینہ 4 سے 5 بار کم مرکری والی فش کھائیں اور پھر کوئی سی 1 یا 2 میڈیم رینج والی مچھلی کھائیں۔ چوں کہ ہر مچھلی کے اپنے اپنے نیوٹریشن اور فائدے ہوتے ہیں اس لیے ہمیشہ الگ الگ نسل کی مچھلی کا انتخاب کریں، تاکہ آپ مچھلی کے فوائد سے پوری طرح مستفید ہو سکیں۔ لیکن اگر آپ کبھی کبھار یا مہینے میں 1 سے 2 بار مچھلی کھانے والے ہیں، تب آپ کو پارے کے بارے میں فکر کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں، بس مندرجہ بالا ہائی مرکری مچھلیوں سے اجتناب برتیں۔

    کیا پارے کے نقصان دہ اثرات کی وجہ سے مچھلی کھانا چھوڑ دینا چاہیے؟
    بالکل بھی نہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ ایک ’محفوظ‘ مینو ترتیب دے سکتے ہیں۔مچھلی کھانے کے بہت سے فوائد ہیں اور یہ اللہ کی ایسی نعمت ہے جو ملاوٹ سے مکمل پاک ہے۔

    مچھلی اومیگا 3 فیٹی ایسڈز اور وٹامنز جیسا کہ ڈی اور بی 2 (ربوفلاوین) بی 12، اور بی 6 سے بھرپور ہوتی ہے۔ مچھلی کیلشیم اور فاسفورس سے بھی بھرپور ہوتی ہے اور یہ معدنیات کا ایک بڑا ذریعہ ہے، جیسا کہ آئرن، زنک، آیوڈین، میگنیشیم اور پوٹاشیم۔

    چوں کہ مچھلی پروٹین کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اور اعصابی نشوونما میں مدد دیتی ہے، اس لیے یہ غذا کا ایک اہم جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن ایک صحت مند غذا کے حصے کے طور ہر ہفتے میں کم از کم دو بار مچھلی کھانے کی سفارش کرتی ہے۔ اگر آپ پھر بھی پارے کے بارے میں فکرمند ہیں تو آپ اپنی فکرمندی کے خدشات کو بہت ہی آسانی سے مزید گھٹا بھی سکتے ہیں۔

    آپ جب بھی مچھلی خریدیں ہمیشہ چھوٹے سائز کا پیس لیں، یعنی کہ 1 کلو، یا پھر 2 کلو سے 3 کلو والا پیس لیں، اور 5 کلو سے زائد والا پیس بالکل بھی نہ لیں۔ چوں کہ کم عمر مچھلی میں مرکری جذب کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے، اس لیے مرکری کے نقصان دہ اثرات کا خطرہ اور بھی کم ہو جاتا ہے۔

    یاد رکھیں کہ مچھلی میں سیلینئم (Selenium) بھی ہوتا ہے، یہ مختلف انزائمز اور پروٹینز کا ایک لازمی جزو ہے، جسے سیلینوپروٹین کہتے ہیں، جو ڈی این اے بنانے اور سیل کو پہنچنے والے نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں مدد کرتے ہے۔ سیلینئم مدافعتی نظام کے افعال اور تولیدی عمل کو بہتر بنانے میں بھی مدد کر تا ہے، اس لیے بانجھ پن کی ادویات میں سیلینئم شامل کیا جاتا ہے، تاکہ تولیدی عمل کو بڑھایا جا سکے۔ یہ تھائیرائڈ ہارمون، میٹابولزم اور ڈی این اے کی ترتیب کو برقرار رکھنے اور جسم کو آکسیڈیٹیو نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے یہ پارے کے نقصانات کو مزید کم کرتا ہے۔

    آخری بات، مچھلی ہمیشہ تازہ یعنی کہ A گریڈ خریدیں، تبھی آپ مچھلی کے مکمل فوائد سے استفادہ کر پائیں گے۔