Author: فریحہ فاطمہ

  • فرح یاسمین شیخ: ’کلاسیکی رقص کو جدت اور پذیرائی مغل دربار سے ملی‘

    فرح یاسمین شیخ: ’کلاسیکی رقص کو جدت اور پذیرائی مغل دربار سے ملی‘

    پاکستان میں کلاسیکی رقص ایسی کوئی مقبول صنف نہیں جو بہت عام دکھائی دے، عوامی طور پر رقص سیکھنے اور کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن وہ چند گنے چنے نام جو یہاں اس فن سے جڑے ہیں، کسی نہ کسی طرح کلاسیکی رقص کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ان میں کئی پاکستانی نام بھی ہیں، اور کئی ایسے بھی جو پاکستانی شہری تو نہیں لیکن ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح پاکستان سے رہا ہے۔

    پاکستانی نژاد امریکی فرح یاسمین شیخ بھی ایسا ہی ایک نام ہیں جو پاکستان میں اس فن کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں، فرح کلاسیکی رقص کی ایک قسم کتھک کی رقاص اور کلاسیکی رقص کی استاد ہیں۔

    پاکستانی نژاد فرح 1977 میں امریکی ریاست کیلی فورنیا، سیلیناز میں پیدا ہوئیں، ان کے والدین 1971 میں کراچی سے امریکا منتقل ہوئے تھے۔

    فرح نے 5 سال کی عمر سے رقص سیکھنا شروع کیا لیکن ابتدا میں اطالوی اور امریکی رقص بیلے اور جاز سیکھا، 18 سال کی عمر میں وہ تعلیم کے لیے دوسرے شہر سان فرانسسکو گئیں، وہاں ان کے کورس میں ایک کلاس کلاسیکل ڈانس آف انڈیا کی تھی، وہیں ان کا کلاسیکی رقص سے تعارف ہوا اور پھر انہوں نے مستقل اسے ہی اپنا لیا۔

    ’مجھے کہا گیا کہ آپ نے بہت دیر کردی ہے، 18 برس عمر نہیں ہے رقص سیکھنا شروع کرنے کی، لیکن میں نے سیکھ کر ہی دم لیا۔‘

    فرح کے استاد کلکتہ، بھارت سے تعلق رکھنے والے نامور رقاص پنڈت چتریش داس تھے جو امریکا میں مقیم تھے، فرح 18 سال ان کے زیر تربیت رہیں۔ ان کے علاوہ فرح نے معروف پاکستانی رقاصہ ناہید صدیقی سے بھی رقص سیکھا۔

    فرح بتاتی ہیں کہ ان کے والد امجد نورانی جو ایک ماہر تعلیم تھے، خاصی نمایاں شخصیت تھے اور انہوں نے اپنے گھر میں بچپن سے ہی معروف شخصیات کی آمد و رفت دیکھی۔

    ’ہمارے گھر میں استاد نصرت فتح علی خان، استاد علی اکبر، ذاکر حسین اور اقبال بانو جیسی شخصیات کا آنا جانا تھا، سو یہ فطری تھا کہ میری دلچسپی رقص و موسیقی کی طرف ہوگئی۔‘

    دنیا بھر میں کتھک پرفارم کرنے والی فرح کی دلچسپی کا خاص موضوع مغل دور اور خاص طور پر ملکہ نور جہاں ہیں، وہ تقسیم ہند کی کہانیاں بھی اپنے رقص کے ذریعے پیش کرچکی ہیں۔

    کتھک کیا ہے؟

    برصغیر کا کلاسیکی رقص ہزاروں سال قدیم تاریخ رکھتا ہے، اس کا پہلا باقاعدہ ذکر سنسکرت زبان کی تصنیف ’ناتیا شاسترا‘ میں ملتا ہے، یہ تصنیف پرفارمنگ آرٹس کے بارے میں ہے جو 200 قبل میسح میں لکھی گئی۔

    انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق برصغیر کے قدیم کلاسیکی رقص کی 6 اقسام ہیں۔

    بھارت ناٹیم: اس کا آغاز جنوبی ہند کے علاقوں اور خاص طور پر تامل ناڈو سے ہوا، اسے مندر کا رقص کہا جاتا ہے جس کے ذریعے خواتین رقاصائیں مذہبی داستانیں پیش کرتی ہیں۔

    کتھک کلی: اس کا آغاز جنوب مغربی علاقوں اور خاص طور پر کیرالہ سے ہوا، بھارت ناٹیم سے ملتے جلتے اور مذہبی اثر رکھتے اس رقص میں عموماً مرد رقاص محو رقص ہوتے ہیں اور خواتین کا کردار بھی مرد ہی نبھاتے ہیں۔

    کتھک: کتھک سنسکرت زبان کا لفظ ہے جو ’کتھا‘ یعنی کہانی سے نکلا ہے،اس رقص کا آغاز شمالی ہند کے علاقوں سے ہوا۔

    کتھک رقص کی خاص بات نزاکت ہے اور اسے محبت کا رقص بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا خاص جزو رقص کے ذریعے کہانیاں پیش کرنا ہے۔

    کتھک میں گھنگھرؤں کی جھنکار اور پاؤں کے تال میل کو (جسے تتکار کہا جاتا ہے) خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ رقص بھی مندر میں کیا جاتا تھا تاہم جلد ہی یہ عام لوگوں میں بھی مقبول ہوگیا اور مختلف تہواروں اور تقاریب کا اہم حصہ بن گیا۔

    منی پوری: شمال مشرقی ہند سے شروع ہونے والے اس رقص میں لوک داستانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔

    کچھی پوری: جنوب مشرقی ہند کے اس رقص میں رقاص گاتے بھی ہیں۔

    اوڈیسی: مشرقی ہند کے علاقوں کا یہ رقص قدیم ترین رقص ہے جس میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کی شبیہہ پیش کی جاتی ہے، اسے ایک مشکل اور سب سے زیادہ تاثراتی رقص کہا جاتا ہے جس میں 50 سے زائد مدراز (ہاتھوں کی حرکت) شامل ہیں۔

    فرح کے مطابق جب انہوں نے رقص سیکھا تب یہ 6 اقسام ہی تھیں، لیکن اب چند مزید علاقوں کے لوک رقص کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے جس کے بعد اب ان کی تعداد 8 ہوگئی ہے۔

    ’کلاسیکی رقص پورے جنوبی ایشیا کا اثاثہ ہے‘

    سنہ 2016 میں فرح نے ایک ڈانس انسٹی ٹیوٹ ’نورانی ڈانس‘ قائم کیا، یہاں انہوں نے کلاسیکی رقص کو صرف بھارت کے نام سے محدود کرنے کے بجائے جنوبی ایشیا کے نام سے موسوم کیا، ’یہ صرف انڈین کلاسیکل ڈانس نہیں بلکہ کلاسیکل ڈانس آف ساؤتھ ایشیا ہے کیونکہ یہ صرف بھارت یا پاکستان کے کلچر کا حصہ نہیں، یہ تو بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی ثقافت کا بھی حصہ ہے، یہ رقص بہت قدیم اور چند تبدیلیوں کے ساتھ پوری جنوبی ایشیائی ثقافت کا حصہ ہے، ہماری ثقافتی تاریخ مشترکہ رہی ہے۔‘

    فرح کا کہنا ہے کہ اپنے والدین کے نام پر بنائے گئے ان کے اس ادارے میں سیکھنے والے متنوع پس منظر کے افراد ہیں، لیکن ان میں پاکستانی بہت کم ہیں۔ ’شاید وہ اسے اپنی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھتے، جو اس رقص کو سیکھنا چاہتے ہیں وہ امریکا میں رہتے ہوئے دراصل اپنی ثقافت سے جڑنا اور اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں، مجھے بہت خوشی ہوگی اگر زیادہ سے زیادہ پاکستانی رقص کو، اور خاص طور پر کلاسیکی رقص کو پاکستانی ثقافت کا حصہ سمجھیں‘۔

    ’پاکستان میں پرفارمنس کا الگ ہی لطف ہے‘

    فرح یاسمین شیخ دنیا بھر میں پرفارم کرچکی ہیں لیکن بقول ان کے، پرفارمنس کی جیسی داد پاکستان میں ملتی ہے ویسی کہیں اور نہیں ملتی۔ ’یہاں لوگ اس زبان کی شاعری کو، اور موسیقی کو سمجھتے ہیں، انہیں اس کا مطلب، اس کی نزاکت کا علم ہے، ہر ہر شعر پر اور مصرعے پر لوگ جس طرح جھوم کر داد دیتے ہیں، ایسے کہیں اور نہیں مل سکتی۔‘

    ’چاہے اقبال بانو کی گائی غزلوں پر پرفارمنس ہو، فیض کی غزل ہو یا امیر خسرو کا کلام، لوگ جب اس پر رقص دیکھتے ہیں تو اس کلام، اس غزل کی نئی جہت ان پر آشکار ہوتی ہے اور پھر جو ان کی داد ہوتی ہے اس کی مثال ہی نہیں ملتی، پاکستان میں پرفارم کرنے کا مزہ ہی کچھ الگ ہے۔‘

    لیکن کیا انہیں کبھی کسی تنقید یا تنازعے کا سامنا بھی کرنا پڑا؟

    اس بارے میں فرح بتاتی ہیں، کہ اب تک یہاں ان کی پرفارمنسز کے تجربات شاندار رہے اور انہیں کسی منفی تبصرے یا ناخوشگوار تجربے کا سامنا نہیں کرنا پڑا، البتہ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے حالات بدل گئے ہیں۔

    ’میرے سوشل میڈیا پر لوگ اکثر ایسے کمنٹس کرتے ہیں کہ اللہ آپ پر رحم کرے، آپ کو معاف کرے۔ میں ہر شخص کے نظریے کی عزت کرتی ہوں، لیکن مجھے علم ہے کہ میں کچھ غلط نہیں کر رہی، میرا دل مطمئن ہے۔ میں ایسے تبصروں کا جواب نہیں دیتی اور میری ہدایت پر میری ٹیم انہیں حذف کردیتی ہے کیونکہ میں منفی چیزوں کو اپنے کام کے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی۔‘

    کلاسیکی رقص ہندو دیو مالائی داستانوں کا حصہ رہا ہے اور اسے مندروں سے منسلک سمجھا جاتا ہے، تو کیا یہ وجہ رہی جس کی وجہ سے پاکستان میں اسے اپنانے سے گریز کیا جاتا ہے؟

    اس سوال پر فرح نے کہا، ’کلاسیکی رقص کا آغاز ہزاروں سال پہلے مندروں میں ضرور ہوا، لیکن اسے عروج مغل درباروں میں ملا۔ آج کلاسیکی رقص میں جو جدت ہے اور آج اس کا جو چہرہ ہم دیکھتے ہیں، یہ مغل دربار کے بغیر ناممکن تھا۔ رقص یا فن ویسے بھی کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتا، یہ خطے کا مشترکہ اثاثہ ہوتا ہے، یہ رقص جتنا بھارتی ہے، اتنا ہی پاکستانی بھی ہے۔‘

    تاہم فرح نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان میں اس حوالے سے خاصی حساسیت پیدا ہوچکی ہے، خواتین رقاص کو خاص طور پر منفی تبصروں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ’میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کوئی متنازعہ چیز نہ پیش کروں، میری دلچسپی کا محور ویسے بھی مغل دور، اس دور کی ملکاؤں اور تقسیم کی کہانیوں کو پیش کرنا ہے تو میں وہی پرفارمنسز یہاں پیش کرتی ہوں، البتہ امریکا یا دیگر ممالک میں، میں نے ہندو دیو مالائی کہانیوں، رامائن اور مہابھارت کی داستانوں پر بھی پرفارمنس دی ہے۔‘

    رقص و موسیقی کو معیوب کیونکر سمجھا جانے لگا؟

    فرح کا کہنا ہے کہ جب وہ پیدا ہوئیں تو اس وقت پاکستان میں ضیا ڈکٹیر شپ تھی اور رقص و موسیقی کو ممنوع قرار دیا جاچکا تھا، ’اگر میں یہاں ہوتی تو اپنی زندگی کے ابتدائی 10 سال اس سے محروم رہتی، اس دور میں پرورش پانے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ ان کی زندگی اور ثقافت میں سے کیا چیز غائب کردی گئی ہے، شاید اسی لیے اب رقص کے بارے میں اس قدر عدم برداشت پیدا ہوگئی ہے۔‘

    انہوں نے کہا کہ ابھی یہاں کچھ عرصہ قبل صوبہ سندھ کے اسکولوں میں موسیقی کو نصاب کا لازمی حصہ قرار دیا گیا تو انہیں بہت خوشی ہوئی، البتہ اس پر جو تنقید کی جاتی رہی، اور اس فیصلے کو واپس لینے پر زور دیا جاتا رہا، اس سے انہیں خاصا دکھ پہنچا۔

    ’کسی چیز کو یکدم ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا، اگر موسیقی پر، یا رقص پر یا کسی اور فن پر اعتراض ہے تو اس میں تبدیلی لائیں، ابتدا میں اسے یہاں کے کلچر جیسا بنانے کی کوشش کریں تاکہ لوگ اسے کم از کم قبول تو کرنا شروع کریں۔ اگر بالکل ہی ممنوع کردیا جائے، تو پھر آگے بڑھنے اور برداشت کرنے کی طرف راہیں کیسے کھلیں گی۔‘

    فرح کہتی ہیں کہ ان کا مقصد رقص کے ذریعے محبت اور مثبتیت کو فروغ دینا ہے، ’کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ آرٹ اور رقص لوگوں کو جوڑتا ہے، ان میں محبت پیدا کرتا ہے، نفرت اور دوری نہیں۔ اگر ہم اپنے دل اور دماغ کو کھولیں گے، سب کے لیے جگہ بنائیں گے، تو ہی یہ انسانیت اور اس دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔‘

  • سلویا پلاتھ ۔ ڈپریشن کے عفریت کی پیدا کردہ شاعری اور دردناک موت

    سلویا پلاتھ ۔ ڈپریشن کے عفریت کی پیدا کردہ شاعری اور دردناک موت

    ’انجیر کے درخت پر ہر شاخ تازہ جامنی انجیروں سے لدی ہوئی ہے، اسے کسی ایک انجیر کا انتخاب کرنا ہے اور اس انتخاب نے اسے سخت تذبذب میں ڈال رکھا ہے۔

    ہر انجیر دوسری سے لذیذ اور خوش نما دکھائی دے رہی ہے اور اس کے انتخاب کو مشکل بنا رہی ہے، لیکن ابھی وہ کوئی ایک انجیر منتخب کر کے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہی ہے، کہ تمام انجیریں ایک بعد ایک درخت سے گرنے لگتی ہیں اور گرتے ہی سوکھ جاتی ہیں، اس نے انہیں چننے میں اتنی دیر لگائی کہ ان کی تازگی ختم ہوگئی اور وہ بدمزہ ہوگئیں۔‘

    یہ منظر معروف امریکی شاعر سلویا پلاتھ کے واحد ناول دا بیل جار کا ہے اور یہ زندگی کی تمثیل ہے۔ عورت کی زندگی کے بے شمار رنگ الگ الگ انجیروں کی صورت اس کے سامنے آتے ہیں اور اسے ان میں سے کسی ایک کو چننا ہوتا ہے۔

    ایک انجیر شوہر کا گھر اور گھریلو زندگی ہے، دوسری انجیر شاعر ہونا ہے، تیسری انجیر اپنی دلچسپی کے مطابق کسی شعبے میں جانا اور اس کی ماہر بننا ہے، چوتھی انجیر دنیا کے سفر پر نکلنا ہے، اور اوپر کی شاخوں پر مزید کئی خوش نما انجیریں جو ناقابل رسائی ہیں، لیکن اسے کوئی ایک انجیر چننی ہے۔

    اس تمثیل میں دراصل سلویا نے بیسویں صدی کے محدود معاشرے میں جینے والی ایک عورت کی افسردگی بیان کی ہے، جس کے خیال لامحدود لیکن زندگی محدود ہے۔ جو کوئی فیصلہ کر بھی لے، تو اسے اس کے غلط ہونے کا خوف اور دوسری انجیر نہ چننے کا قلق ہے۔

    اس نے ایک بار لکھا، کیا میں لباس کی طرح زندگی کو بھی بدل بدل کر دیکھ سکتی ہوں کہ کون سی میرے لیے موزوں ترین ہے؟

    جسے اس بات کی خلش ہے، کہ میں زندگی کے ہر رنگ اور ہر تنوع کو بھرپور طریقے سے محسوس کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں خوفناک حد تک محدود ہوں۔

    سلویا پلاتھ 27 اکتوبر 1932 کو امریکی ریاست میساچوسٹس میں پیدا ہوئی، اس کے والد بوسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر تھے، لیکن جب سلویا صرف 8 برس کی تھی تو وہ چل بسے۔

    والد کی موت نے سلویا کو گہرا جذباتی و نفسیاتی صدمہ پہنچایا اور غالباً یہیں سے اس کی زندگی میں ایک طویل اور عذاب ناک ڈپریشن کی بنیاد پڑی، اس ڈپریشن نے اس کی زندگی کے سارے رنگوں کو پھیکا کردیا اور پیچھے رہ گئی اتھاہ سیاہ تاریکی جس میں وہ ساری زندگی ڈوبتی ابھرتی رہی۔

    11 برس کی عمر سے سلویا نے ڈائری لکھنی شروع کردی تھی اور اپنے احساسات اور جذبات کو ایسے خوبصورت جملوں میں پرویا جنہیں پڑھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ یہ بچی بڑی ہو کر لفظوں سے کھیلنے والی جادوگر بنے گی۔

    18 برس کی عمر میں اس کی پہلی باقاعدہ نظم ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی، بعد میں سلویا نے نثر بھی لکھا اور ایک ناول اور کچھ افسانے تحریر کیے۔

    دا بیل جار

    سنہ 1953 میں کالج کی تعلیم کے دوران سلویا نے نیویارک میں میڈموزیل میگزین میں ملازمت کی، فیمنسٹ نظریات کا حامل یہ میگزین خواتین میں بے حد مقبول ہوا اور یہاں گزارے گئے وقت نے سلویا کے ادبی سفر کا تعین کیا۔

    سلویا کے واحد ناول دا بیل جار کی داغ بیل اسی ملازمت نے ڈال دی تھی جب اس نے وہاں اعلیٰ حس مزاح اور بلند معیار سوچ رکھنے والے افراد اور خصوصاً خواتین کے ساتھ وقت گزارا۔

    تصویر: ٹیڈ ایکس

    دا بیل جار کی کہانی ایسٹر گرین ووڈ نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو خطرناک حد تک ذہین اور بہترین حس مزاح کی حامل لیکن شدید ڈپریشن کا شکار ہے، سلویا نے دراصل اپنی زندگی کی کہانی ایسٹر کی صورت میں پیش کی اور اس میں کچھ افسانوی رنگ بھی اختیار کیا۔

    سلویا کی حس ظرافت اس قدر ذومعنی تھی کہ سننے والے کو ہنسنے کے بہت دیر بعد علم ہوتا کہ کہنے والا اس کا تمسخر اڑا گیا، اس نے یہی انداز اپنے ناول کی ہیروئن کا بھی رکھا جو بہت مقبول ہوا۔

    اس کے ناول نے اس وقت کی عورت کے لیے مروجہ اصول، مرد کی کھلی چھوٹ اور معاشرے کے تضادات پر بہت بے باک انداز میں سوال اٹھائے۔

    یہ ناول جنوری 1963 میں سلویا کی موت سے صرف ایک ماہ قبل اس کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔

    ذہنی خلجان، خودکشی کی کوشش اور شاعری

    سلویا کی اصل وجہ شہرت اس کی نظمیں ہیں جو اس کے ذہنی خلفشار کا تحفہ تھیں، اس کے اپنے اندر کی عکاس نظمیں جو بھیانک خالی پن، عام لوگوں کی ڈگر سے ہٹ کر مشاہدے اور ذہانت و ڈپریشن کی پیدا کردہ مختلف ڈھب کی سوچ کی تصویر ہیں۔

    اس کی شاعری نے عورت کے دکھوں، ان کہے جذبات اور جنسیت کے گرد قائم خاموشی کا حصار توڑا اور اس کا نڈر اظہار کیا۔

    ذہنی خلجان اور ڈپریشن کے باعث سلویا ہمیشہ بے چینی کا شکار رہی، اس میں خودکشی کا رجحان بھی موجود تھا اور عام افراد کے برعکس موت اسے خوفزدہ کرنے والی شے نہیں لگتی تھی۔

    سنہ 1954 میں وہ ایک بار خودکشی کی کوشش بھی کر چکی تھی جس کے بعد کئی ماہ اسے نفسیاتی اسپتال میں گزارنے پڑے، ڈپریشن کی گولیاں تو ہمیشہ ہی اس کی ساتھی رہیں۔

    اس کی ایک نہایت مشہور نظم لیڈی لازرس جسے شاہکار کی حیثیت حاصل ہے، بائبل کے ایک کردار پر مبنی ہے جو فنا ہو کر پھر سے جی اٹھتا ہے۔ سلویا نے یہ نظم اپنی موت سے چند ماہ قبل اس وقت لکھی جب وہ اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی۔

    خود کو لیڈی لازرس سے تشبیہ دیتے ہوئے اس نے لکھا، مرنا بھی ایک آرٹ ہے۔

    اس نے ایک بار اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں لکھا، میں یا تو لمحے بھر میں بے حد خوش اور سرگرم رہ سکتی ہوں، یا پھر بے حد سست اور غمگین ہو سکتی ہوں، ان دونوں کیفیات کے بیچ معلق رہنا مجھے پاگل بنا دے گا۔

    ایک بار اس نے کہا، کیا سوچوں سے باہر جانے کا کوئی راستہ ہے؟

    محبت، جو اسے موت تک لے گئی

    سنہ 1956 میں سلویا کی ملاقات انگریزی کے معروف شاعر ٹیڈ ہیوز سے ہوئی، دونوں ایک دوسرے سے متاثر اور پھر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے اور محبت ناموں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔

    جلد ہی دونوں میں اختلافات سامنے آنے لگے۔ اس دوران دونوں کے یہاں ایک بیٹی فریڈا اور بیٹا نکولس پیدا ہوئے۔

    لیکن اصل طوفان شادی کے 6 برس بعد تب آیا جب یہ دونوں ڈیوڈ وول اور آسیا وول نامی ایک جوڑے کے گھر کے ایک حصے میں کرائے پر رہنے لگے اور ٹیڈ آسیا کی زلف کے اسیر ہوگئے۔

    سلویا کو جب ٹیڈ کی اس بے وفائی کا علم ہو تو وہ بے حد دل برداشتہ اور رنجیدہ ہوئی، شوہر سے جھگڑے کے بعد سنہ 1962 میں وہ بچوں کو لے کر انگلینڈ چلی آئی، یہاں نئی زندگی کی مشکلات، ڈپریشن اور نفسیاتی دوروں کا جن منہ کھولے کھڑا تھا اور اب سلویا کے لیے ان سے نمٹنا آسان نہ تھا۔

    اپنے ذہنی خلجان اور غم کی کیفیت میں سلویا نے ایک کے بعد ایک نظم لکھ ڈالی، لیڈی لازرس انہی دنوں کی تخلیق ہے۔ ان دنوں میں تخلیق کی گئی اس کی نظموں کا مجموعہ بعد از مرگ ایریل کے نام سے شائع ہوا۔

    ان دنوں سلویا کے ڈاکٹر نے اس کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر اسے اسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا لیکن سلویا نے اینٹی ڈپریسنٹس تک کھانا چھوڑ دی تھیں۔

    5 ماہ تک رنج، تنہائی اور ذہنی خلفشار سے لڑتے رہنے کے بعد بالآخر ایک دن سلویا نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے، فروری 1963 کی ایک صبح، جب اس کے دونوں بچے سو رہے تھے، اس نے بچوں کا ناشتہ بنا کر ان کے سرہانے رکھا اور گیس اوون کھول کر اپنا سر اس میں گھسا دیا، کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر نے جلد اسے تمام تکلیفوں سے نجات دلا دی۔

    بچے اٹھے تو وہ اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے تھے۔ اپنی موت کے وقت سلویا کی عمر صرف 31 برس تھی۔

    سلویا کی زیادہ تر نظمیں ان کی موت کے بعد شائع ہوئیں جنہیں عام لوگوں نے بھی پسند کیا اور ادبی حلقے بھی ان کی اختراعی سوچ اور بے باکی پر دم بخود رہ گئے، سنہ 1971 میں ان کا ناول دا بیل جار ان کے اصل نام سے شائع ہوا۔

    سنہ 1982 میں سلویا کی نظموں کے مجموعے کو پلٹزر پوئٹری پرائز بھی ملا۔

    سلویا کی موت ان کے شوہر ٹیڈ کے لیے بھی مشکلات لے آئی، ادبی طبقے کی خواتین نے انہیں سلویا کی خودکشی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ٹیڈ کو قتل کی دھمکیاں تک موصول ہوئیں۔

    دوسری طرف آسیا وول بھی احساس جرم کا شکار رہی اور 6 سال بعد اس نے بالکل اسی طرح خودکشی کرلی جیسے سلویا نے کی تھی، ساتھ ہی اپنی 4 سالہ بیٹی کو بھی مار ڈالا، گیس سے بھرے بند کچن سے دونوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

    سلویا کا ذہنی خلفشار اور خودکشی کا رجحان صرف اس تک محدود نہ رہا، اس کے بچوں نے اس کی دیوانگی، ذہانت اور فن سب ہی وراثت میں پایا، بیٹی فریڈا شاعر اور مصور بنی، بیٹے نکولس نے جو ایک پروفیسر تھا، سنہ 2009 میں 47 سال کی عمر میں خودکشی کرلی۔

    سلویا نے ایک بار کہا تھا، مجھے ان چیزوں کی خواہش ہے جو مجھے آخر میں مار ڈالیں گی، کون جانے کہ اسے خوشی کی خواہش تھی جس کی تلاش میں وہ تمام عمر سرگرداں رہی، یا پھر یہ اذیت اور بے چینی خود اسی کی منتخب کردہ تھی جو اسے موت تک لے آئی۔

  • ملک میں جوہری اور کوئلے کے پاور پلانٹس غیر فعال: یہ 2 ذرائع ملک کی کتنی بجلی پیدا کرتے ہیں؟

    ملک میں جوہری اور کوئلے کے پاور پلانٹس غیر فعال: یہ 2 ذرائع ملک کی کتنی بجلی پیدا کرتے ہیں؟

    اسلام آباد: 23 جنوری 2023 کی صبح 6 بجے مختلف علاقوں میں اچانک بجلی منقطع ہوئی جسے لوگوں نے معمول کا تعطل سمجھا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں واضح ہوچکا تھا کہ پورے ملک کی بجلی منقطع ہوئی ہے جس کے بعد بے یقینی کی فضا چھا گئی اور افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔

    اسی روز کہیں رات گئے اور کہیں دوسرے روز علیٰ الصبح بجلی بحال ہوچکی تھی، تاہم اکثر علاقوں میں تھوڑی ہی دیر بعد بجلی دوبارہ منقطع ہوگئی۔

    24 جنوری کی صبح وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کے تمام پاور پلانٹس دوبارہ فعال ہوچکے ہیں، تاہم جوہری اور کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کو بحال ہونے میں 48 سے 72 گھنٹوں کا وقت لگے گا۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ 2 ذرائع اس قدر بجلی پیدا کر رہے ہیں کہ ان کے غیر فعال ہونے سے ملک کا بیشتر حصہ تاحال بجلی سے محروم ہے؟

    لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ملک میں اس وقت کن ذرائع سے کتنی بجلی پیدا ہورہی ہے، اور اس وقت موسم سرما میں جب بجلی کی کھپت بے حد کم ہوجاتی ہے، بجلی کا شارٹ فال کتنا، اور طلب و رسد میں فرق کتنا ہے۔

    اس حوالے سے اگر وفاقی وزارت توانائی کی ویب سائٹ اور دیگر حکومتی ذرائع سے رجوع کیا جائے تو بجلی کی پیداوار کے حوالے سے جو معلومات سامنے آتی ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔

    پاکستان اکنامک سروے 2022-2021 کی رپورٹ، جو وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے، کے مطابق ملک میں بجلی کی پیداوار کا 61 فیصد حصہ تھرمل ذرائع سے پیدا کیا جاتا ہے، یہ بجلی گیس، تیل اور کوئلے وغیرہ سے پیدا ہوتی ہے۔

    24 فیصد بجلی ہائیڈل یعنی پانی سے (ڈیمز کے ذریعے) پیدا کی جارہی ہے، جوہری پاور پلانٹس ملک کی مجموعی بجلی کا 12 فیصد پیدا کر رہے ہیں، جبکہ 3 فیصد بجلی قابل تجدید یعنی ری نیو ایبل ذرائع سے پیدا کی جارہی ہے جن میں زیادہ تر ونڈ (ہوا) انرجی اور بہت کم سولر (شمسی) انرجی کے ذرائع شامل ہیں۔

    تھرمل ذرائع کی 61 فیصد بجلی میں سے 14 فیصد بجلی کوئلے کے پاور پلانٹس سے پیدا ہورہی ہے جس میں سے 4 فیصد مقامی کوئلے سے پیدا کی جارہی ہے، جبکہ 10 فیصد کوئلہ امپورٹ کیا جارہا ہے۔

    ان تمام ذرائع سے چلنے والے پلانٹس کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد کچھ یوں ہے۔

    تھرمل: 24 ہزار 710 میگا واٹ (اس میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹس 5 ہزار 332 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں)
    ہائیڈل: 10 ہزار 251 میگا واٹ
    جوہری: 3 ہزار 647 میگا واٹ
    قابل تجدید ذرائع (ہوا، سورج): 2 ہزار 585 میگا واٹ (19 سو 85، 600 میگا واٹ)

    گویا مجموعی طور پر ملک بھر میں قائم 6 جوہری اور 8 کوئلے کے پاور پلانٹس 8 ہزار 979 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    اس وقت 35 ہزار میگا واٹ بجلی سے کہیں زیادہ پیداواری استعداد رکھنے کے باوجود پاکستان صرف 20 سے 22 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر پا رہا ہے، اس کی بڑی وجہ تقسیم و ترسیل کا بوسیدہ نظام اور بدحال انفرا اسٹرکچر ہے۔

    حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کا شارٹ فال اس وقت 4 ہزار میگا واٹ ہے جو موسم گرما میں بڑھ کر 6 سے 8 ہزار میگا واٹ تک پہنچ جاتا ہے۔

  • سال 2022: سیلاب میں ڈوبتا ابھرتا پاکستان ۔۔ اور ناخدا سیاسی سرکس میں مصروف

    سال 2022: سیلاب میں ڈوبتا ابھرتا پاکستان ۔۔ اور ناخدا سیاسی سرکس میں مصروف

    سال 2022 پاکستان کے لیے ایک مشکل اور نامہربان سال ثابت ہوا، پورا سال عام انسان کی بہبود، تعلیم اور صحت نظر انداز کی جاتی رہی اور ملک سیاسی میوزیکل چیئر کی نذر ہوگیا۔

    سال کے وسط میں سیلاب نے ایک تہائی ملک کو ڈبو دیا اور ایک بدترین انسانی المیے نے جنم لیا، ملک کی معیشت جو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پہلے ہی دگرگوں تھی، سیلاب کے بعد آخری سانسیں لینے لگی اور ملک ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ سر پر آن کھڑا ہوا۔

    نیا سال شروع ہونے کے ساتھ ملک میں استحکام اور بہتری کی کچھ امید ہے تاہم بظاہر یوں لگتا ہے کہ رواں برس ملک کو پہنچنے والے جھٹکوں کا اثر تادیر قائم رہے گا۔

    آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ رواں برس ملک میں کیا اہم واقعات اور المناک حادثات پیش آتے رہے۔

    جنوری

    اومیکرون کا پھیلاؤ

    نیا سال شروع ہوتے ہی پاکستان میں کرونا وائرس کی قسم اومیکرون کے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے اور یہ بڑھتے بڑھتے اس حد تک جا پہنچے کہ حکومت کو ایک بار پھر پابندیاں عائد کرنا پڑیں۔

    نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری اور فروری میں اومیکرون سمیت کرونا وائرس کے یومیہ ہزاروں کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ روزانہ درجنوں اموات بھی ہوتی رہیں۔

    جنوری میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی ملگ گیر یومیہ شرح 12 فیصد تک جا پہنچی تھی۔

    ایسے میں این سی او سی کی جانب سے کراچی، لاہور، حیدر آباد اور اسلام آباد میں ان ڈور سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ تعلیمی سرگرمیاں بھی محدود کردی گئیں۔ یہ پابندیاں مارچ کے وسط تک جاری رہیں۔

    سانحہ مری ۔ برفانی طوفان کے دوران ہوٹل مالکان فرعون بن گئے

    7 اور 8 جنوری کی شب پاکستان کے معروف سیاحتی مقام مری میں دلدوز سانحہ پیش آیا جب سیاحوں کے رش کی وجہ سے مری جانے والا راستہ بند ہوگیا اور گاڑیوں میں رات گزارنے والے درجنوں سیاح شدید ٹھنڈ اور برف باری کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے۔

    7 جنوری کو مری میں شدید برفانی طوفان آیا جس کے دوران درجہ حرارت منفی 8 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا۔ برف باری دیکھنے کے لیے پہنچنے والے سیاحوں کے رش اور برف باری کی وجہ سے راستے بند ہوگئے اور سیاح اپنی گاڑیوں میں ہی پھنس گئے۔

    تاہم اگلی صبح گاڑیوں سے بے شمار لاشیں برآمد ہوئیں، یہ اموات شدید ٹھنڈ کی وجہ سے ہوئیں جبکہ اکثر افراد اپنی گاڑی کا ہیٹر چلا کر سوئے جس سے نکلنے والی زہریلی گیس نے تفریح کے لیے آئے ہوئے سیاحوں کی جان لے لیں۔

    عینی شاہدین کے مطابق اس رات مری کے تمام ہوٹل مالکان نے سفاکی کے نئے ریکارڈز قائم کیے اور پریشان حال سیاحوں سے ایک رات کے کمرے کے لیے 70 ہزار روپے تک طلب کیے۔ پانی، چائے اور انڈے جیسی معمولی اشیا کی قیمت 3، 3 ہزار روپے وصول کی گئی۔

    مشکل میں پھنسے سیاحوں نے گاڑیوں میں ہی رات گزارنے میں عافیت سمجھی اور پھر اگلی صبح کا آغاز دلدوز سانحے سے ہوا جب گاڑیوں میں موجود 23 افراد کے جاں بحق ہونے کا انکشاف ہوا۔

    المناک سانحے اور مقامی افراد کی سفاکی کی گونج عالمی میڈیا میں بھی سنائی دی۔

    فروری

    نور مقدم قتل کیس ۔ ظاہر جعفر کے تمام حربے بیکار گئے، عدالت نے سزائے موت سنا دی

    24 فروری کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قاتل ظاہر جعفر کو سزائے موت سنا دی، مجرم کو سزائے موت کے ساتھ زیادتی، اغوا اور دفعہ 342 کے جرم پر 36 سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

    نور مقدم قتل کیس ہائی پروفائل اور ملک کا بہیمانہ ترین قتل تھا، مجرم ظاہر جعفر نے سابق پاکستانی سفارت کار شوکت مقدم کی 27 سالہ بیٹی اور اپنی دوست نور مقدم کو تیز دھار آلے سے قتل کرنے کے بعد اس کا سر کاٹ کر جسم سے الگ کردیا۔

    فرانزک رپورٹ کے مطابق مجرم نے قتل سے پہلے مقتولہ کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا، مقدمے میں مجرم کے والدین کو بھی نامزد کر کے انہیں زیر حراست رکھا گیا جن کی بروقت مدد سے اندوہناک سانحہ ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔

    وزیر اعظم کا روس کا اہم دورہ ۔ لیکن وقت نامناسب

    فروری کے تیسرے ہفتے میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا، یہ سنہ 1999 کے بعد سے کسی پاکستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ روس تھا۔ تاہم ان کا یہ دورہ اس وقت شدید تنقید کی زد میں آگیا جب دورے کے دوران ہی 24 فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔

    روس اور یوکرین کی کشیدگی کے پیش نظر پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ روس کو بین الاقوامی طور پر ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا تھا اور یوکرین پر حملے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوگیا۔

    سفارتی ماہرین کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے دورے سے مغربی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا۔

    مارچ

    لمپی اسکن ڈیزیز سے ہزاروں مویشیوں کی اموات

    مارچ میں جانوروں میں پھیلنے والی لمپی اسکن ڈیزیز کا انکشاف ہوا جس نے تیزی سے ملک بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ڈیری اور کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے صوبائی سرحدیں بند کرنے اور جانوروں کی نقل و حرکت روکنے کی درخواست کی۔

    بیماری کی وجہ سے لوگوں نے احتیاطی طور پر گوشت خریدنا چھوڑ دیا جس کے بعد گوشت کوڑیوں کے مول بکنے لگا اور چکن کی قیمت آسمان پر جا پہنچی۔

    ستمبر 2022 تک اس بیماری کے ہاتھوں 9 ہزار جانوروں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔

    پشاور کا قصہ خوانی بازار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر ۔ امام بارگاہ میں خودکش دھماکا

    4 مارچ جمعہ کے روز پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدار میں مرکزی امام بارگاہ کو نماز جمعہ کے دوران خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

    افغان حملہ آور کے ساتھیوں نے امام بارگاہ میں داخل ہونے سے قبل دروازے پر موجود پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی جس کے بعد حملہ آور نے اندر داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، حملے میں 63 افراد جاں بحق ہوئے۔

    شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

    خانیوال میں بھارتی میزائل آ گرا ۔ بھارتی حکام کا غلطی کا اعتراف

    9 مارچ کی شام صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں ایک بڑی چیز زوردار دھماکے سے آ گری جس سے ایک ہوٹل اور گھر کی چھت مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ یہ ’چیز‘ بعد میں بھارتی براہموس میزائل نکلا۔

    بھارتی وزارت دفاع نے اسے غلطی قرار دیا اور بتایا کہ 9 مارچ کو معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک تکنیکی خرابی کی وجہ سے میزائل حادثاتی طور پر فائر ہوا۔

    میزائل ان آرمڈ تھا اور اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم اس نے بھارت کی دفاعی صلاحیتوں پر سوال کھڑے کردیے۔

    پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر سمجھداری کا مظاہرہ کیا گیا تاہم بھارتی حکام سے سخت سوالات پوچھے گئے اور دفاعی حکام کی اس نااہلی پر وضاحت طلب کی گئی۔

    پارلیمنٹ لاجز میں پولیس آپریشن

    10 مارچ کو جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام فورس کے 60 سے زائد کارکنوں کے پارلیمنٹ لاجز میں داخلے کی اطلاع پر پولیس حرکت میں آئی اور پولیس اور ایلیٹ فورس کی بھاری نفری پارلیمنٹ لاجز میں داخل ہوگئی۔

    اس موقع پر شدید بدنظمی اور دھکم پیل ہوئی، پولیس نے انصار الاسلام کے تمام کارکنوں کو گرفتار کیا جبکہ جے یو آئی ف کے ارکان اسمبلی مولانا صلاح الدین ایوبی اور جمال دین کو بھی حراست میں لے لیا۔

    جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس موقع پر اپنی گرفتاری دینے کا بھی اعلان کیا۔ کارکنوں کی گرفتاری کے بعد جے آئی یو ف نے ملک بھر میں احتجاج کرتے ہوئے راستے اور شاہراہیں بند کردیں۔

    سائفر ۔ جس نے پاکستانی سیاست میں بھونچال مچا دیا

    27 مارچ کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جیب سے ایک خط نکال کر لہرایا اور دعویٰ کیا کہ بیرون ملک سے ان کی حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے اور انہیں خفیہ طور پر لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد کا تعلق بھی اسی دھمکی آمیز خط سے ہے۔

    اس کے بعد ملک بھر اور میڈیا کی گفتگو کا مرکز یہ امریکی مراسلہ ہوگیا جس کے بارے میں خود تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی کئی بار بیانات بدلے۔

    ستمبر میں عمران خان کی ایک آڈیو بھی سامنے آئی جس میں انہیں اس دھمکی آمیز مراسلے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔ آڈیو میں سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو سائفر کے حوالے سے ایک میٹنگ بلانے کا مشورہ دیتے سنا جا سکتا ہے۔

    عمران خان یہ بھی کہتے سنے گئے کہ اس اجلاس کے منٹس وہ خود تیار کریں گے جن میں اپنی مرضی کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

    اپریل

    پاکستان کی تاریخ کی پہلی کامیاب تحریک عدم اعتماد ۔ وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا

    8 مارچ 2022 کو پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے الائنس پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دائر کی۔

    پی ڈی ایم نے عمران خان پر بدترین حکمرانی اور معیشت کی بد انتظامی کا الزام لگایا۔

    25 مارچ کو پارلیمان کا اجلاس شروع ہوا اور مرحوم اراکین کے لیے دعا کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمانی کنونشن کی روشنی میں اجلاس فوری طور پر 28 مارچ 2022 تک ملتوی کردیا۔

    28 مارچ کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے اجلاس ایک بار پھر 31 مارچ تک ملتوی کردیا۔

    31 مارچ کو ایک اور اجلاس ہونے اور ملتوی ہونے کے بعد 3 اپریل کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل 5 کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ اسی شام عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔

    اس کے بعد پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کے بعد 7 اپریل کو سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور عدم اعتماد کے ووٹ کو روکنے کی کوشش کو مسترد کردیا۔

    عدالتی حکم کے مطابق 9 اپریل کی صبح اجلاس ایک بار پھر شروع ہوا تاہم اسپیکر اسد قیصر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی کارروائی کو مؤخر کرتے رہے جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے انہیں متنبہ کیا کہ وہ توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں۔

    اس روز اسمبلی کا اجلاس 4 بار معطل کیا گیا، رات گئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر ججز سپریم کورٹ پہنچے، کیونکہ امکان تھا کہ اگر رات بارہ بجے تک تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہ کروائی گئی تو سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت اور اسپیکر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔

    دن بھر ہلچل کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے عمران خان کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، ساتھ ہی ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری بھی مستعفی ہوگئے۔

    اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے مستعفی ہونے کے بعد سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پینل چیئر پرسن کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت سنبھالی اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع کروا دی۔

    چونکہ رات کے بارہ بج چکے تھے اس لیے تاریخ تبدیل ہوجانے کے باعث اجلاس کا نیا دن شروع ہوا اور ووٹنگ سے قبل ایک مرتبہ پھر تلاوت، نعت اور قومی ترانے کے بعد اجلاس کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔

    10 اپریل کی نصف شب کو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کا اعلان کردیا گیا جس کے بعد عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے، 342 نشتوں کے ایوان میں تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں سے کامیاب ہوئی۔

    یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی کامیاب تحریک عدم اعتماد تھی اور عمران خان وہ پہلے وزیر اعظم بنے جنہیں کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے فارغ کیا گیا۔

    تحریک کی کامیابی کے بعد نامزد امیدوار برائے وزیر اعظم شہباز شریف نے اسمبلی میں خطاب بھی کیا۔

    اتوار کی سہ پہر 3 بجے سے ملک بھر میں عمران خان کے حامیوں نے سڑکوں پر نکلنا شروع کردیا اور رات تک احتجاج کا سلسلہ ملک بھر میں پھیل گیا، لاکھوں افراد سڑکوں پر عمران خان کے حق میں اور نئی حکومت اور فوج کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔

    شہباز شریف ملک کے 23 ویں وزیر اعظم منتخب

    11 اپریل سوموار کو ایوان کے اجلاس کا ایجنڈا ملک کے 23 ویں وزیر اعظم کا انتخاب تھا، اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف نے وزیر اعظم کے لیے ہونے والی ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا اور واک آؤٹ کر گئے جس کے بعد لیڈر آف اپوزیشن، پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور 3 بار صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہنے والے شہباز شریف بلا مقابلہ ملک کے 23 ویں وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔

    اسی رات شہباز شریف نے ایوان صدر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے اس کے ساتھ ہی ہفتوں سے جاری سیاسی بے یقینی اور پارلیمانی رسہ کشی اپنے اختتام کو پہنچی۔

    پاکستان تحریک انصاف اس سارے عمل کو بین الاقوامی سازش قرار دیتی رہی لہٰذا تحریک انصاف نے نئی حکومت کو بیرونی ایما پر برسر اقتدار آنے والی امپورٹد حکومت قرار دیا۔

    کراچی سے بچی کی گمشدگی کا معمہ

    16 اپریل کو کراچی کے علاقے الفلاح ٹاؤن سے ایک بچی دعا زہرا کے لاپتہ ہونے کے معاملہ سامنے آیا جس میں بعد ازاں کئی موڑ آئے۔ معاملے کو مسلکی رنگ دینے سے لے کر بچی پر والدین کی جانب سے تشدد کا الزام اور پھر انسانی اسمگلنگ کی قیاس آرائیوں تک طرح طرح کے تنازعات نے اس کیس کو الجھا دیا۔

    بعد ازاں بچی نے منظر عام پر آ کر اپنی مرضی سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان سے شادی کا اعلان کیا جس کے بعد کم عمری کی شادی اور اس سے جڑی قانونی پیچیدگیوں پر بحث شروع ہوگئی۔

    بچی کے والد بچی کی کسٹڈی حاصل کرنے کے لیے لگاتار عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے اور میڈیا اور سوشل میڈیا کی رنگین بیان بازیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔

    بچی فی الحال ایک سرکاری شیلٹر ہوم میں قیام پذیر ہے۔

    پریانتھا کمارا قتل کیس کے ملزمان کو سزائیں

    18 اپریل کو صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کا الزام لگنے کے بعد ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قاتلوں کو سزائے موت سنا دی گئی۔

    لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 6 افراد کو سزائے موت، 9 کو عمر قید اور 72 افراد کو 2، 2 سال قید کی سزائیں سنائیں۔

    کیس میں 89 ملزمان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا جن میں سے 88 کو سزائیں سنائی گئیں، ایک شخص کو 5 سال قید جبکہ ایک ملزم کو بری کر دیا گیا۔

    یہ اندوہناک سانحہ گزشتہ برس 3 دسمبر کو سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں پیش آیا جب فیکٹری ملازمین نے توہین مذہب کا الزام لگا کر اپنے سری لنکن مینیجر پر حملہ کیا اور درجنوں افراد نے بدترین تشدد کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، لاش کو بعد ازاں سڑک پر رکھ کر آگ لگا دی گئی تھی۔

    جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ پر خودکش حملہ

    26 اپریل کو جامعہ کراچی کے اندر چینی زبان کے مرکز کے قریب خودکش حملے میں 3 چینی اساتذہ سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے۔

    خودکش حملہ آور ایک بلوچ خاتون تھیں جن کا نام شاری بلوچ بتایا گیا، خاتون خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور ایک تعلیم یافتہ خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، وہ عرصے سے بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کا حصہ تھیں۔

    مئی

    چلغوزے کے جنگلات میں خوفناک آگ ۔ اربوں کا نقصان

    18 مئی 2022 کو صوبہ بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے لاکھوں درخت جل کر تباہ ہوگئے جس سے اربوں روپے، اور مقامی جنگلی حیات کو شدید نقصان پہنچا۔

    آگ بجھانے کی کوششوں میں 3 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔

    مقامی انتظامیہ کے مطابق سلیمان رینج میں چلغوزے کا یہ جنگل دنیا کا ایک اہم جنگل ہے اور یہ مجموعی طور 26 ہزار ایکڑ پر محیط ہے۔

    چلغوزے کی کاشت اور فروخت پاکستان کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے، صرف مذکورہ جنگل سے ہر سال 650 سے لے کر 675 میٹرک ٹن چلغوزہ پیدا ہوتا ہے جبکہ مجموعی طور پر چلغوزے کی 2.6 ارب روپے کی تجارت ہوتی ہے۔

    جون

    قلعہ سیف اللہ میں بس حادثہ

    8 جون کے روز بلوچستان کے علاقے ژوب میں قومی شاہراہ پر قلعہ سیف اللہ کے قریب مسافر بس سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں گر گئی جس کے نتیجے میں 22 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    ریسکیو اہلکاروں کے مطابق پہاڑ سے نیچے اترنے کا کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا، اہلکاروں نے کئی گھنٹے جدوجہد کر کے لاشوں اور زخمیوں کو ایک ایک کر کے اوپر پہنچایا۔

    ملک کو سنگین معاشی بحران لاحق ہوگیا ۔ مہنگائی کا طوفان

    یہ سال معاشی حوالوں سے بھی پاکستان کے لیے بدترین رہا، ایک طرف سیاسی بے یقینی نے روپے کی قدر اور بیرونی سرمایہ کاری پر برا اثر ڈالا تو دوسری طرف نئی حکومت نے، جو آئی ہی معاشی بدحالی کو جواز بنا کر تھی، اس بدحالی میں اضافہ کیا۔

    سیاسی و عسکری اکھاڑ پچھاڑ کے علاوہ نئی حکومت بھی معیشت کو سنبھالنے میں ناکام رہی اور پاکستان بدترین معاشی گراوٹ کا شکار ہوگیا۔

    گزشتہ سال کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں تاریخی کمی دیکھی گئی۔ ایک سال کے دوران امریکی ڈالر کی قیمت میں 48 روپے 38 پیسے اضافہ ہوا۔ یکم جنوری 2022 کو ڈالر کی قیمت 176 روپے 74 پیسے تھی جو یکم دسمبر تک 223 روپے 68 پیسے ریکارڈ کی گئی۔

    نئی حکومت نے پیٹرول کی قیمت بھی یکلخت کئی گنا بڑھا دی جس کے بعد ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان آگیا۔ جنوری 2022 میں پیٹرول کی قیمت 144 روپے 62 پیسے فی لیٹر تھی جو جون 2022 تک 250 روپے تک بڑھا دی گئی، دسمبر تک پیٹرول کی قیمت کم کر کے 214 روپے 80 پیسے فی لیٹر کردی گئی۔

    کچھ ایسا ہی حال پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا رہا، رواں برس اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ رہا تاہم 100 انڈیکس میں مجموعی طور پر 9.85 فیصد کمی ہوئی۔

    24 جون 2022 کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تو اس روز اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے اور مارکیٹ میں ٹریڈنگ معطل کردی گئی۔

    مجموعی طور پر ایک سال کے دوران انڈیکس میں 4 ہزار سے زائد پوائنٹس کم ہوئے۔

    بیرون ملک سے ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ ریفرنس

    رواں برس پاکستانی حکمرانوں کو بیرون ملک سے ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ بھی ہر خاص و عام کا موضوع بحث بنے رہے۔

    اپریل میں صحافی رانا ابرار نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو ایک درخواست دی کہ وہ پاکستانی حکام کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں، جسے منظور کرتے ہوئے انفارمیشن کمیشن نے کابینہ ڈویژن کو تحائف کی معلومات فراہم کرنے کی ہدایات دیں۔

    تاہم کابینہ ڈویژن نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور مؤقف اپنایا کہ ان تحائف کی تفصیل بتانا غیر قانونی ہے، اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

    اس کے بعد مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی محسن نواز رانجھا نے اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت تحائف سے متعلق ریفرنس دائر کردیا، یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا جس کا فیصلہ عمران خان کی نااہلی کی صورت میں سامنے آیا۔

    اس سے قبل 2 سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بھی توشہ خانہ سے متعلق کیسز کا سامنا کرچکے ہیں۔

    بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کی بازگشت شروع ہوئی تو یہ بھی انکشاف ہوا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی سربراہوں اور شاہی خاندانوں سے ملنے والے کئی تحائف فروخت بھی کیے۔

    جولائی

    پنجاب میں آئینی بحران ۔ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے میوزیکل چیئر چلتی رہی

    ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب شدید آئینی و انتظامی بحران کا شکار رہا۔

    اس کا آغاز 28 مارچ 2022 سے ہوا جب اس وقت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور ان کی جگہ اسپیکر پنجاب اسمبلی، سابق وزیر اعلیٰ اور مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کیا گیا۔

    اس دوران پاکستان تحریک انصاف میں دھڑے بندی شروع ہوگئی اور ایک گروپ نے سینیئر رکن علیم خان کو وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ناکامی پر علیم خان اور ان کے گروپ نے پرویز الٰہی کی نامزدگی کی شدید مخالفت کی اور اس کے بجائے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز شریف کی حمایت کا فیصلہ کیا۔

    اپریل کے آغاز میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے بلایا جانے والا اجلاس کئی بار ملتوی ہوتا رہا اور اس دوران اسمبلی میں ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔

    6 اپریل کو مسلم لیگ ن نے اسپیکر پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی، تحریک انصاف رہنماؤں نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے منحرف ہوجانے پر ان کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی۔

    16 اپریل کو اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز 197 ووٹوں کے ساتھ نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، جن میں سے 25 تحریک انصاف ارکان نے پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دیا۔ اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی جس میں ڈپٹی اسپیکر مزاری کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    20 مئی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کردیا، خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوا۔

    17 جولائی کو ایک بار پھر صوبائی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی جس میں حمزہ شہباز نے 179 اور چوہدری پرویز الٰہی نے 186 ووٹ لیے، اس دفعہ مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت کے خفیہ خط نے ایک اور تنازعہ کھڑا کیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے یک جنبش قلم پاکستان مسلم لیگ ق کے 10 ووٹ مسترد کردیے اور حمزہ شہباز 3 ووٹوں سے فاتح قرار پائے۔

    26 جولائی کو سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف فیصلہ دیا اور چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ قرار دیا، اگلے دن انہوں نے صدر عارف علوی سے اپنے عہدے کا حلف لے لیا۔

    صادق آباد کشتی حادثہ ۔ ایک ہی خاندان کے درجنوں افراد ڈوب گئے

    18 جولائی کو دریائے سندھ میں صوبہ پنجاب کی تحصیل صادق آباد کے قریب باراتیوں کی کشتی دریا میں الٹ گئی، کشتی میں گنجائش سے کہیں زیادہ 90 کے قریب افراد سوار تھے جن میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔

    شادی کے لیے جانے والے خاندان نے 28 جنازے اٹھائے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی، ڈوبنے والے مرد تیراکی جاننے کے باعث اپنی جانیں بچانے میں کامیاب رہے لہٰذا ہلاک شدگان میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔

    مقامی افراد کے مطابق ایک ایک گھر سے کئی خواتین کے جنازے اٹھے اور ان کے گھر عورتوں سے خالی ہوگئے۔

    اگست

    سیلاب ۔ تباہی کی المناک داستانیں چھوڑ گیا

    ہر سال کی طرح اس سال بھی موسم گرما کی شدت میں اضافہ ہوا اور گرمی سے پریشان لوگوں نے ابر رحمت کی دعائیں مانگیں، لیکن اس دفعہ ابر کرم ایسے برسا کہ رحمت کے بجائے آفت بن گیا، شہر کے شہر آسمان سے برستی بارش میں ڈوبتے چلے گئے اور ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب کی نذر ہوگیا۔

    رواں برس جولائی میں ملک بھر میں مون سون کی بارشوں کے آخری اسپیل نے طوفانی صورت اختیار کرلی اور سیلاب بن کر ایک کے بعد ایک شہر کو روندتا، پچھاڑتا آگے بڑھتا چلا گیا۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق صرف جولائی میں ہونے والی بارشیں ہر سال ہونے والی مون سون کی اوسط بارشوں سے 26 فیصد زیادہ تھیں۔

    پہلے بارانی اور پھر دریائی سیلاب نے سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کو بری طرح متاثر کیا اور سوا 3 کروڑ افراد سیلاب میں اپنا مال و متاع گنوا بیٹھے۔

    سیلاب سے لاکھوں افراد بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے آپہنچے، 17 سو سے زائد اموات کے ساتھ ملک کو 3 کھرب روپے کا نقصان پہنچا جس سے معیشت ہل کر رہ گئی۔

    گھر، اسکول، اسپتال، پل، سڑکیں تباہ ہوگئے اور پاکستان کئی دہائی پیچھے چلا گیا۔

    پاکستان میں آنے والے خوفناک سیلاب نے کلائمٹ چینج کے ان ہولناک خطرات کی طرف توجہ دلائی جس سے دنیا نگاہیں چرا رہی تھی، دنیا بھر میں ایک بحث چھڑ گئی کہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی ترقی موسموں کے توازن بگاڑ رہی ہے جس کا خمیازہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بھگت رہے ہیں، وہ بھی اس صورت میں جب کاربن اخراج میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

    دنیا بھر میں آواز اٹھائی جانے لگی کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی وجہ سے ہونے والے اس نقصان کا ازالہ کریں، جس کے بعد ماحولیات کی سالانہ کانفرنس کوپ 27 میں ایک فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

    ستمبر

    سارا انعام قتل کیس

    23 ستمبر کو قتل کی اس ہولناک واردات نے پورے ملک کر ہلا دیا جب معروف صحافی ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز امیر نے اپنی اہلیہ سارا انعام کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا۔

    37 سالہ سارا 3 ماہ قبل ہی شاہنواز سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں، واقعے سے چند روز قبل دونوں کا مالی معاملات پر جھگڑا ہوا جس کے بعد سارا ابو ظہبی سے، جہاں وہ ملازمت کرتی تھیں، شاہنواز سے ملنے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں واقع فارم ہاؤس پہنچیں۔

    وقوعے کے روز دونوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی جس کے دوران شاہنواز نے غصے سے بے قابو ہو کر ورزش کا ڈمبل بیوی کے سر پر دے مارا اور سارہ کا بے حس و حرکت جسم باتھ ٹب میں ڈال دیا۔

    پولیس نے ملزم کے والدین کا نام بھی شامل تفتیش کرلیا اور صحافی ایاز امیر کو حراست میں لے لیا تاہم بعد ازاں والدین کا نام کیس سے خارج کردیا گیا۔

    سارا انعام قتل کیس تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے اور ملزم پولیس کی تحویل میں ہے۔

    بہیمانہ قتل کے واقعے پر قومی و بین الاقوامی تنظیموں نے پاکستان میں ایک بار پھر خواتین کے خلاف تشدد اور عدم مساوات پر تشویش کا اظہار کیا۔ جولائی میں ورلڈ اکنامک فورم کے گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان صنفی مساوات کے حوالے سے دوسرا بدترین ملک قرار پایا۔

    ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر بری

    29 ستمبر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر اعوان کو بری کر دیا۔

    مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کی احتساب عدالت کی جانب سے سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے دونوں کو بری کردیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ اپیلوں کی منظوری اور بریت کی وجوہات بعد میں جاری ہوں گی۔

    یہ ریفرنس اس وقت دائر کیا گیا تھا جب سنہ 2016 میں پاناما پیپرز میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور شریف خاندان کی بیرون ملک جائیدادوں کی تفصیلات منظر عام پر آئیں۔

    سنہ 2017 میں سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔

    لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے معاملے پر دائر ریفرنس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 2018 میں نواز شریف کو 11 سال قید اور 80 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانہ، مریم نواز کو 7 سال قید اور 20 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانہ اور کیپٹن صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

    اکتوبر

    سوات میں طالبان کی مبینہ واپسی اور دہشت گردی کی حالیہ لہر

    رواں برس کے وسط سے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات میں طالبان کی مبینہ موجودگی کی اطلاعات سامنے آنے لگیں، اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد ضلعے میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

    اگست میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے دو فوجی جوانوں اور ایک پولیس افسر کو یرغمال بنا لیا جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔

    اس کے چند روز بعد مٹہ کے ایک نواحی گاؤں میں سابقہ امن لشکر کے سربراہ محمد ادریس خان کی گاڑی کو دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنا کر 2 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد کو جاں بحق کر دیا گیا۔

    دوسرے ہی روز چار باغ قصبے سے ملحقہ علاقے میں سابقہ امن کمیٹی کے ایک رکن حاجی محمد شیریں کو گولیاں مارکر ہلاک کر دیا گیا۔

    کچھ روز بعد چپریال سے بین الاقوامی موبائل کمپنی کے 8 ملازمین کو دن دہاڑے اغوا کیا گیا جس میں سے مزدوروں کو رہا کرکے مغوی انجینئرز کی رہائی کے لیے شدت پسندوں نے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا۔

    ان واقعات کی وجہ سے مقامی افراد میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور لوگوں نے حکومت کی چشم پوشی پر اسے تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

    10 اکتوبر کو ایک اسکول وین پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے ڈرائیور موقع پر جاں بحق ہوگیا جبکہ 2 طلبہ زخمی ہوئے، تیسری جماعت کے ایک طالب علم کو 3 گولیاں لگیں۔

    واقعے کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور نشاط چوک پر بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا، مظاہرین نے ہلاک ہونے والے ڈرائیور کی میت دفنانے سے انکار کرتے ہوئے اسے پوری رات کھلے آسمان تلے سڑک پر رکھا۔

    احتجاج میں مظاہرین نے سفید جھنڈے ہاتھ میں لیے سوات میں امن زندہ باد اور دہشت گردی مردہ باد کے نعرے لگائے۔

    سوات ایک عرصے تک طالبان کے کنٹرول میں رہا اور اس دوران خواتین سمیت لوگوں کو کوڑے مارنے اور ذبح کرنے کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی عائد تھی۔ سوات کے لوگوں نے اب دہشت گردی اور جبر کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔

    ضمنی انتخاب میں عمران خان 7 نشستوں پر خود امیدوار ۔ 6 پر فتح یاب ہوئے

    17 اکتوبر کو قومی اسمبلی کی 8 اور صوبائی اسمبلی کی 3 نشستوں کے لیے ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوا، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی اسمبلی کی 8 میں سے 7 نشستوں پر خود امیدوار کھڑے ہوئے۔

    اس انتخاب میں عمران خان اپنی 7 میں سے 6 نشستوں پر فتح یاب ہوگئے۔ اس سے ایک طرف تو پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، تاہم دوسری طرف بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا تحریک انصاف کی فتح کے لیے صرف عمران خان کا ہونا ضروری ہے؟ اور کیا پارٹی میں ایسی قیادت موجود نہیں جو الیکشن جیت سکے، اور جس پر عوام اور خود عمران خان بھی اعتماد کر سکیں؟

    عمران خان 5 سال کے لیے نااہل قرار

    21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو، توشہ خانہ ریفرنس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے 5 سال کے لیے ہر قسم کے عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا۔

    عمران خان کے وکیل گوہر خان کے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو کسی بھی عوامی عہدے پر انتخاب یا تعیناتی کے لیے 5 سال کے لیے نا اہل قرار دیا ہے، فیصلے کے بعد وہ وہ رکن قومی اسمبلی بھی نہیں رہے۔

    عمران خان نے اپنی نااہلی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

    ارشد شریف کا قتل ۔ ایک گتھی جو الجھتی جارہی ہے

    23 اکتوبر 2022 کی علیٰ الصبح پاکستانی صحافی برادری اس وقت شدید صدمے اور بے یقینی کی کیفیت سے دو چار ہوگئی جب اے آر وائی نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی ارشد شریف کی موت کی اطلاع پھیلی۔

    ابتدائی قیاس آرائیوں کے بعد لرزہ خیز تفصیلات کا انکشاف ہوتا گیا، ارشد شریف کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریبی علاقے مگاڈی میں نیروبی پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔

    نیروبی پولیس نے اسے شناخت کی غلطی قرار دیا اور کہا کہ انہیں ایک گاڑی چوری اور اغوا کی اطلاع موصول ہوئی تھی، وہ ارشد شریف کی گاڑی کو ملزمان کی گاڑی سمجھے۔

    بعد ازاں پولیس نے اپنا بیان بدل کر کہا کہ گاڑی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور جوابی فائرنگ میں پاکستانی صحافی جاں بحق ہوئے۔

    ارشد شریف کی ڈیڈ باڈی کی کچھ تصاویر بھی سامنے آئیں جن میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے۔ اس کیس پر شہبات کے گہرے سائے ہیں اور اس کی گتھیاں سلجھانے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔

    اہل خانہ کے مطابق ارشد شریف کو کچھ عرصے سے دھمکیاں موصول ہورہی تھیں جن کے بعد وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

    سانحہ مچھر کالونی ۔ ’غلط فہمی‘ میں 2 افراد ہجوم کے ہاتھوں قتل

    28 اکتوبر کے روز کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں نجی ٹیلی کام کمپنی کے ایک انجینیئر اور ڈرائیور کو بچے اغوا کرنے کے الزام میں پتھر مار کر اور تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

    اہل علاقہ کے مطابق دونوں افراد صبح سے علاقے میں کئی جگہ دیکھے گئے، وہ کمپنی کی جانب سے مرمتی کام کے لیے آئے تھے تاہم کسی طرح افواہ پھیل گئی کہ وہ بچے اغوا کرنے والے جرائم پیشہ ہیں۔

    بعد ازاں اہل علاقہ نے دونوں کو پکڑ کر ان پر تشدد شروع کردیا، عینی شاہدین کے مطابق لوگوں نے ٹیلی کام ملازمین پر اینٹوں اور پتھروں سے تشدد کیا۔ کچھ افراد نے مقتولین کو بچانے کی کوشش کی تو لوگوں نے انہیں بھی تشدد کر کے زخمی کردیا۔

    پولیس نے بعد ازاں درجنوں افراد کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کردی۔ اہل علاقہ نے مقتولین کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام کیا اور اس دوران کچھ بچیوں نے پوسٹرز اٹھائے رکھے جس پر تحریر تھا، ’ہم اپنے شہید بھائیوں سے شرمسار ہیں، منجانب مچھر کالونی‘۔

    آڈیو لیکس ۔ ایک ایک کر کے سب کی ٹیلی فون ریکارڈنگز ریلیز ہوتی گئیں

    رواں برس آڈیوز لیک ہونے کا بھی سال رہا جب وقتاً فوقتاً مختلف سیاست دانوں کی فون کالز منظر عام پر آتی رہیں۔

    جنوری میں پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی پرویز رشید کے ساتھ گفتگو منظر عام پر آئی جس کا موضوع مختلف میڈیا چینلز کو اشتہارات دینا تھا۔

    فروری میں اس وقت کی خاتون اول بشریٰ بی بی کی تحریک انصاف کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان سے غداری سے متعلق گفتگو میڈیا اور سوشل میڈیا کا بحث بنی رہی، ستمبر میں مریم نواز اور وزیر اعظم شہباز شریف کی پیٹرول کی قیمت بڑھانے اور صحت کارڈ بند کرنے سے متعلق ٹیلی فونک گفتگو ریلیز ہوئی۔

    اکتوبر میں عمران خان کی سائفر سے متعلق آڈیو نے ایک طوفان کھڑا کردیا، وزیر اعظم شہباز شریف نے لیک ہونے والی متعدد ریکارڈنگز کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم بھی دیا۔

    علاوہ ازیں بشریٰ بی بی کی تحائف اور ان کی فروخت سے حوالے سے بھی مختلف ٹیلی فون ریکارڈنگز منظر عام پر آئیں۔

    مختلف سیاست دانوں کی غیر اخلاقی آڈیوز اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر ریلیز کیے جانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

    نومبر

    پاکستان تحریک انصاف کا حقیقی آزادی لانگ مارچ

    تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد 25 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کیا اور 6 دن میں لانگ مارچ کی کال دینے اعلان کیا۔

    ان کا یہ مارچ 6 دن کے بجائے کئی ماہ کے بعد شروع ہوا اور 18 اکتوبر کو انہوں نے اچانک لانگ مارچ کا آغاز کردیا۔ اسے حقیقی آزادی مارچ کا نام دیا گیا۔

    3 نومبر کو عمران خان پر حملے کے بعد اور ان کی علالت کے دوران دیگر رہنما مارچ کی قیادت کرتے رہے تاہم اس میں پہلے سا جوش و جذبہ نہیں رہا۔

    26 نومبر کو عمران خان نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے لانگ مارچ ختم کردیا۔

    سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ

    3 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے حقیقی آزادی لانگ مارچ میں صوبہ پنجاب کے شہر وزیر آباد میں فائرنگ ہوئی جس سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت متعدد پارٹی رہنما زخمی ہوئے۔

    عمران خان کی ٹانگ میں گولی لگی اور انہیں پہلے لاہور اور پھر شوکت خانم اسپتال منتقل کیا گیا۔

    عمران خان پر حملے کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس موقع پر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی رہائشگاہ کے باہر بھی احتجاج ہوا۔

    فائرنگ سے مارچ میں شریک معظم گوندل نامی شخص جاں بحق ہوا جو اپنے بچوں کے ساتھ مارچ میں آیا تھا، بچوں کی مردہ باپ کو اٹھانے اور رونے کی دلدوز ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھیں۔

    عمران خان نے معظم گوندل کے اہلخانہ کی کفالت کا اعلان بھی کیا۔

    نئے آرمی چیف نے فوج کی کمان سنبھال لی

    29 نومبر کو راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں کمان کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد ہوئی جس میں نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھال لی۔

    سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے عہدے میں 3 سال کی توسیع کے بعد ریٹائرڈ ہوئے اور نئے آرمی چیف کا تقرر عمل میں آیا۔

    اس دوران آرمی چیف کے لیے نام کے معاملے پر سیاسی پارٹیوں کے درمیان رسہ کشی، ملاقاتیں و مذاکرت اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایک بار پھر ممکنہ توسیع کی قیاس آرائیوں نے میڈیا کو ہیجان میں مبتلا کیے رکھا جس کا اختتام نئے آرمی چیف کے اعلان پر ہوا۔

    دسمبر

    بنوں میں دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا

    18 دسمبر اتوار کے روز صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے دفتر میں دہشت گردوں نے ایک اہلکار سے اسلحہ چھین کر وہاں موجود تمام اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔

    یہ دہشت گرد وہاں زیر تفتیش تھے اور اہلکاروں کو یرغمال بنانے کے بعد انہوں نے افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تاہم ان کا یہ مطالبہ رد کردیا گیا۔

    48 گھنٹوں تک دہشت گردوں کو ہتھیار ڈالنے کی ترغیب کے بعد آپریشن کیا گیا جس میں تمام 35 دہشت گرد ہلاک ہوگئے، اس دوران 2 فوجی جوان شہید اور ایک افسر سمیت 15 جوان زخمی بھی ہوئے۔

    اس دوران منگل کے روز ضلعے میں تمام تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ شہر کے داخلی اور خارجی راستے سیل کردیے گئے، تمام اسپتالوں میں طبی ایمرجنسی نافذ رہی۔

    مقامی افراد کے مطابق بعض علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل رہی۔

    اسلام آباد میں پولیس تلاشی کے دوران خودکش دھماکا

    23 دسمبر جمعہ کے روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک پولیس چیک پوائنٹ پر پولیس نے مشکوک گاڑی کو روکا تو اندر موجود شخص نے دھماکا کردیا، دھماکے میں حملہ آور ہلاک ہوگیا۔

    خودکش دھماکے میں تلاشی لینے والا پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا جبکہ 4 اہلکار اور 2 شہری بھی زخمی ہوئے۔

    وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق گاڑی اسلام آباد میں ایک ہائی ویلیو ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لیے جارہی تھی۔

    وزیر اعظم شہباز شریف نے جاں بحق اہلکار کو شہدا پیکج دینے اور غیر معمولی بہادری پر پولیس اہلکاروں کو انعام اور تعریفی اسناد دینے کی ہدایت کی۔ حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔

  • بریسٹ کینسر: خواتین گھر میں اپنا ٹیسٹ کیسے کر سکتی ہیں؟

    بریسٹ کینسر: خواتین گھر میں اپنا ٹیسٹ کیسے کر سکتی ہیں؟

    دنیا بھر میں ہر سال اکتوبر کے مہینے کو چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر سے آگاہی کے ماہ کے طور پر منایا جاتا ہے جسے بریسٹ کینسر کی علامت گلابی ربن کی نسبت سے پنک ٹوبر کہا جاتا ہے۔

    پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، ملک میں ہر سال بریسٹ کینسر کے 90 ہزار سے 1 لاکھ تک کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں 45 فیصد ناقابل علاج ہوتے ہیں۔

    ہر سال ملک میں 40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔

    ملک میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگہی کے فروغ پر کام کرنے والے ادارے پنک ربن کے سربراہ عمر آفتاب کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر کو ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس مرض میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ خواتین اس مرض کو چھپاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا مرض بڑھ کر ناقابل علاج ہوجاتا ہے۔

    فاطمہ میموریل ہاسپٹل سے منسلک اونکولوجسٹ ڈاکٹر عندلیب خانم کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والی زیادہ تر مریض خواتین کا مرض آخری اسٹیج پر ہوتا ہے، وہ ایک عرصے سے بریسٹ میں ہونے والی تکلیف کو شرم کے مارے چھپا رہی ہوتی ہیں اور اپنے والدین، شوہر یا بچوں کو نہیں بتاتیں۔

    ڈاکٹر عندلیب کے مطابق اس حوالے سے یہ توہمات بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر کے پاس گئے تو ٹیسٹ کے لیے سوئی لگائی جائے گی یا کٹ لگایا جائے گا، اس سے یہ مرض پھیل جائے گا، وہ ایکسرے یا الٹرا ساؤنڈ کروانے سے بھی ہچکچاتی ہیں۔

    بعض خواتین اگر جلدی ڈاکٹر کے پاس آجائیں اور ڈاکٹر انہیں سرجری کا کہہ دے تب بھی خواتین اور ان کے گھر والے سرجری کرنے سے کتراتے ہیں، یوں ایک ایسا مرض جس پر جلد تشخیص سے آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے، بڑھ کر جان لیوا ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقوں میں خواتین ڈاکٹرز کی عدم دستیابی بھی خواتین کو اس کا علاج کرنے سے روک دیتی ہے کیونکہ وہ خود یا ان کے اہل خانہ مرد ڈاکٹرز کے پاس نہیں جانا چاہتے۔

    وجوہات اور علامات

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں بریسٹ کینسر کے پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے جامع تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اسباب معلوم کیے جاسکیں۔

    انہوں نے بتایا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ شادی نہ ہونا یا دیر سے ہونا، اولاد کا نہ ہونا اور ماؤں کا بچوں کو فیڈ نہ کروانا بریسٹ کینسر کے خطرات کو جنم دیتا ہے۔ یہ وجوہات مغربی ممالک سے حاصل کردہ ڈیٹا سے طے کی گئی تھیں، تاہم اب دیکھا جارہا ہے کہ پاکستان میں شادی شدہ اور بچوں والی خواتین بھی بریسٹ کینسر کا شکار ہورہی ہیں، تقریباً یہ تمام خواتین ہی بچوں کو اپنا دودھ پلا چکی ہوتی ہیں لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ بریسٹ فیڈنگ بھی کینسر سے بچانے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتی۔

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں 40 سال سے اوپر کی خواتین بریسٹ کینسر رسک کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں 35 سے 45 سال کے درمیان کی خواتین بریسٹ کینسر کا زیادہ شکار ہورہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر کی وجوہات میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ہارمونز کی زیادتی بھی شامل ہے، یہ دونوں ہارمونز خواتین کی تولیدی صحت سے متعلق ہیں، مینسٹروئل سائیکل کی باقاعدگی کے لیے لی جانے والی اور مانع حمل ادویات سے ان ہارمونز کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور یہ بریسٹ کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں موٹاپا، بہت زیادہ چکنائی والے کھانے اور جنک فوڈ کا بہت زیادہ استعمال بھی خطرناک ہیں، ہم اگر یہ سب نہ بھی کھائیں اور صحت مند غذائیں کھائیں، تب بھی فصلوں پر کیمیکل فرٹیلائزر، کیڑے مار ادویات کا استعمال، دودھ میں استعمال کیے جانے والے کیمیکل اور پھلوں پر کیے جانے والے اسپرے مختلف اقسام کے کینسرز کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ فیملی ہسٹری بھی اس کا ایک سبب ہے، اگر خاندان میں کسی کو بریسٹ کینسر ہوا ہو تو اس خاندان کی تمام خواتین کو بہت محتاط رہنے اور باقاعدگی سے بریسٹ کینسر اسکریننگ کروانے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامت چھاتی میں کسی بھی قسم کی گلٹی محسوس ہونا ہے، یہ عموماً شروع میں بہت بے ضرر ہوتی ہے اور کوئی تکلیف نہیں دیتی لہٰذا خاصے عرصے تک اس کا علم نہیں ہوتا۔

    اس کے علاوہ چھاتی کی ساخت میں کوئی بھی تبدیلی محسوس ہونا، جلد کا سخت ہوجانا، جھریاں یا گڑھے بننا بھی اس کی علامات ہیں اور ایسی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔

    سیلف ایگزام کیسے کریں؟

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ خواتین مہینے میں ایک بار خود اپنے آپ کو چیک کریں۔

    اس کے لیے ماہواری سائیکل ختم ہونے کے 3 سے 4 دن بعد کا وقت بہترین ہے، ہاتھ سے چھو کر چھاتی اور بغل کو چیک کریں، کہیں بھی کوئی ابھار، تکلیف یا گلٹی محسوس ہو تو اسے توجہ کی ضرورت ہے۔

    آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھیں، دونوں چھاتیوں کی شکل، رنگ یا جلد میں فرق یا تبدیلی۔ کسی ایک یا دونوں چھاتیوں میں کھنچاؤ، جلد پہ جھریاں، یا گڑھے۔ نپل کا اندر کی طرف جانا، نپل پہ خارش، سرخی یا کھنچاؤ۔ نپل سے مواد بہنا بھی اس کی علامت ہوسکتی ہے۔

    یہ وہ علامات ہیں جو گھر میں چیک کرنے کے دوران نظر میں آسکتی ہیں جس کے بعد بریسٹ ڈاکٹر کے پاس جایا جائے اور اس کا تجویز کردہ الٹرا ساؤنڈ یا میمو گرام کروایا جائے تاکہ حتمی صورتحال معلوم ہوسکے۔

    بریسٹ میں ہونے والی تمام گلٹیوں کا کینسر زدہ ہونا ضروری نہیں، یہ عام دواؤں یا معمولی سرجری سے بھی ٹھیک ہوسکتی ہیں لیکن اس حوالے سے حتمی فیصلہ اس مرض کا ڈاکٹر ہی کرے گا جو تمام ضروری ٹیسٹس کے بعد واضح نتیجے پر پہنچے گا۔

    کیا بریسٹ کینسر سے بچاؤ ممکن ہے؟

    ڈاکٹر عندلیب کے مطابق فعال طرز زندگی اور صحت مند غذا کا استعمال کینسر سمیت کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، خواتین سادہ اور صحت مند کھانے اور ورزش یا کم از کم روزانہ چہل قدمی کو اپنا معمول بنائیں۔

    تازہ سبزیوں، پھلوں اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔

    باقاعدگی سے سیلف ایگزام کرتے رہیں اور کسی بھی تکلیف کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔

  • ’گاؤں میں کچا پکا لیکن واش روم تھا تو سہی، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘

    ’گاؤں میں کچا پکا لیکن واش روم تھا تو سہی، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘

    31 سالہ زبیدہ صوبہ سندھ کے ضلع بدین کے ایک گاؤں حیات خاصخیلی کی رہائشی تھیں، مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد جب ان کے گاؤں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو ان کا خاندان سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنی جان بچا کر وہاں سے نکل آیا۔

    اب ان کا خاندان دیگر سینکڑوں خاندانوں کے ساتھ جھڈو (ضلع میرپور خاص) میں سڑک پر قائم ایک خیمہ بستی میں مقیم ہے۔ جب زبیدہ سے بیت الخلا کی دستیابی کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ بھڑک اٹھتی ہیں، ’واش روم؟ وہ یہاں کہاں ہے، گاؤں میں تو ہم نے دو پیسے کما کر کچا پکا چند اینٹوں کا واش روم کم از کم بنا تو لیا تھا، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘۔

    زبیدہ ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جو سیلاب زدہ علاقوں سے نکل کر اب ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں اور ایک وقت کھانے کے علاوہ انہیں کوئی سہولت موجود نہیں۔

    جھڈو کے قریب سڑک پر، اور اس سمیت پورے سندھ میں قائم خیمہ بستیوں میں بیت الخلا کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں جس سے تمام ہی افراد پریشان ہیں، تاہم خواتین اس سے زیادہ متاثر ہیں۔

    باقاعدہ بیت الخلا موجود نہ ہونے، اور آس پاس غیر مردوں کی موجودگی میں رفع حاجت کے لیے جانا سیلاب سے متاثر ہونے والی ان خواتین کے لیے آزمائش بن چکا ہے۔

    سیلاب متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ان خواتین نے رفع حاجت سے بچنے کے لیے پانی پینا اور کھانا کھانا بے حد کم کردیا ہے جس سے پہلے سے ہی کم خوراکی کا شکار یہ خواتین مزید ناتوانی کا شکار ہورہی ہیں، یاد رہے کہ ان میں درجنوں خواتین حاملہ بھی ہیں۔

    سکھر کی صحافی سحرش کھوکھر بتاتی ہیں کہ اکثر کیمپوں میں موجود خواتین چار، پانچ کا گروپ بنا کر ذرا سناٹے میں جاتی ہیں، اور چادروں یا رلی کی آڑ سے حوائج ضروریہ سے فارغ ہورہی ہیں۔

    سڑک کنارے آباد ہوجانے والی خیمہ بستیوں میں لاکھوں سیلاب زدگان موجود ہیں

    سحرش کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 15، 20 روز سے سکھر اور ملحقہ علاقوں میں فلڈ ریلیف کیمپس کی کوریج کے لیے جارہی ہیں، نہ انہیں کہیں مناسب بیت الخلا کا انتظام دکھائی دیا، نہ ہی میڈیکل کیمپس میں لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں جو خواتین کی بیماریوں کا علاج کرسکے۔

    جھڈو کی خیمہ بستی میں بھی زیادہ تر افراد نے اپنے خیموں کے قریب رلیوں کے ذریعے ایک مخصوص حصہ مختص کر کے عارضی بیت الخلا بنایا ہوا ہے۔

    زبیدہ اور دیگر خواتین نے بتایا کہ انہیں بیت الخلا کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں اور وہ آس پاس گڑھوں میں جمع بارش کا پانی جو اب گندا ہوچکا ہے، اس مقصد کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

    سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنے والے فلاحی کارکنان کا کہنا ہے کہ بیت الخلا کی عدم دستیابی سے خواتین عدم تحفظ اور بے پردگی کا شکار ہوگئی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ رفع حاجت کے لیے وہ دن کی روشنی میں نہ جائیں اور وہ اندھیرا ہوجانے کا انتظار کرتی ہیں، تاہم کئی علاقوں میں ہراسمنٹ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس سے خواتین مزید خوفزدہ ہوگئی ہیں۔

    سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں فلاحی اداروں کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر ساجدہ ابڑو بتاتی ہیں، کہ رفع حاجت کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے سب سے آسان طریقہ تو ان لوگوں کو کھلے میں رفع حاجت کا نظر آرہا ہے۔

    اب چونکہ وہاں لوگوں نے رہائش بھی اختیار کر رکھی ہے، تو کھلے میں رفع حاجت وہاں پر بیماریوں کا باعث بن رہی ہے، کھڑے پانی کی وجہ سے ویسے ہی وہاں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر مختلف وبائی امراض اور جلدی انفیکشنز کا باعث بن رہے ہیں جس کا شکار ان کیمپوں میں موجود ہر تیسرا شخص دکھائی دے رہا ہے۔

    ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ رفع حاجت روکنے اور اس کے لیے گندا پانی استعمال کرنے، اور چونکہ یہ لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں اپنی جانیں بچا کر نکلے ہیں تو خواتین کے پاس مناسب ملبوسات بھی نہیں، تو خواتین میں پیشاب کی نالی میں انفیکشنز کی شکایت عام دیکھی جارہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ رفع حاجت روکنے کی وجہ سے، یا گندے پانی کے استعمال سے ہونے والا انفیکشن بڑھ کر گردوں تک کو متاثر کرسکتا ہے۔

    ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ جھجھک کی وجہ سے خواتین یہ مسئلہ لیڈی ڈاکٹرز تک کو نہیں بتا پاتیں، جس کی وجہ سے اس کا علاج نہیں ہوتا اور مرض بڑھتا رہتا ہے۔ بعض علاقوں میں لیڈی ڈاکٹرز سرے سے موجود ہی نہیں، چنانچہ یہ توقع رکھنا بے کار ہے کہ خواتین مرد ڈاکٹرز سے اپنا علاج کروائیں گی۔

    اس بات کی تصدیق صحافی سحرش کھوکھر نے بھی کی کہ متعدد علاقوں میں کیمپس کے قریب لیڈی ڈاکٹر تو کیا سرے سے میڈیکل کیمپ ہی موجود نہیں، اکثر میڈیکل کیمپ شہر کے مرکز میں لگائے گئے ہیں اور سیلاب متاثرین کو وہاں آنے کے لیے کہا گیا ہے، اب ان سیلاب متاثرین کا پاس وہاں تک جانے کا کرایہ ہی نہیں تو وہ جا کر کیسے اپنا علاج کروائیں گے۔

    سیلاب سے سندھ کے 23 اضلاع تباہی و بربادی کی تصویر بن چکے ہیں

    دوسری جانب محکمہ صحت کے ضلعی رین ایمرجنسی فوکل پرسن ڈاکٹر زاہد اقبال نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ضلعے میں 5 مخصوص مقامات پر فکسڈ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں، جبکہ کئی موبائل کیمپس بھی ہیں جو مختلف مقامات پر موجود ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہر فکسڈ میڈیکل کیمپ میں 2 مرد اور 2 خواتین ڈاکٹرز موجود ہیں۔

    ڈاکٹر زاہد کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے کی وجہ سیلاب زدگان میں ڈائریا کا مرض بے تحاشہ پھیل رہا ہے، صفائی کے فقدان سے جلدی بیماریاں اور مچھروں کی بہتات کے باعث ملیریا بھی زوروں پر ہے جبکہ حاملہ اور دیگر خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل میں تمام امراض کا علاج کرنے اور سیلاب زدگان کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    خواتین کی ماہواری ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب

    پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہوئی دکھائی دی جس میں پہلے تو کہا گیا کہ سیلاب سے بے گھر ہوجانے والی خواتین کو ماہواری کے لیے بھی سامان درکار ہے، لہٰذا اس بات کی ترغیب دی گئی کہ سیلاب متاثرین کو بھجوائے جانے والے امدادی سامان میں سینیٹری پیڈز بھی شامل کیے جائیں۔ تاہم اس پر تنقید کرتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سینیٹری پیڈز کو شہری خواتین کی عیاشی قرار دیا اور کہا کہ دیہی خواتین اس کا استعمال تک نہیں جانتیں۔

    جھڈو میں سڑک کنارے قائم خیمہ بستی میں خواتین سے جب اس حوالے سے دریافت کیا گیا، تو زیادہ تر خواتین نے سینیٹری پیڈز سے لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم انہوں نے ماہواری کے دنوں کو اپنی آزمائش میں اضافہ قرار دیا۔

    26 سالہ ہاجرہ نے کہا، ’یہاں چاروں طرف لوگ موجود ہیں، واش روم کے لیے جانا ویسے ہی بہت مشکل ہے، اوپر سے ان دنوں میں مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ عام حالات میں وہ ماہواری کے لیے سوتی کپڑا استعمال کرتی تھیں، عموماً تمام خواتین ہی ان کپڑوں کو دوبارہ دھو کر استعمال میں لاتی ہیں، لیکن اب کیمپ میں سامان کی بھی کمی ہے، پھر دھونے کے لیے گڑھوں میں موجود بارش کا گندا پانی ہی دستیاب ہے، ’کیا کریں، کہاں جائیں، بس مشکل ہی مشکل ہے‘، ہاجرہ نے بے بسی سے کہا۔

    کیمپ میں موجود 15 سالہ یاسمین البتہ سینیٹری پیڈز سے واقف تھی۔ یاسمین نے ٹی وی پر ان کے اشتہارات دیکھ رکھے تھے، اور ایک بار انہیں استعمال بھی کرچکی تھی۔ یاسمین نے بتایا کہ سینیٹری پیڈز استعمال کرنے کے بعد اس نے انہیں دھو کر تلف کیا تھا۔ ’کیونکہ دھوئے بغیر پھینکنا گناہ ہے‘، اس نے بتایا۔

    سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل سماجی کارکن فریال احمد کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے نہ صرف خواتین میں سینیٹری پیڈز تقسیم کیے ہیں بلکہ انہیں استعمال کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔

    دوسری جانب ڈاکٹر ساجدہ ابڑو کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ تولیدی اعضا میں مختلف انفیکشنز اور بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اس کا اثر بعض اوقات آگے چل کر حمل کے دوران بھی ہوسکتا ہے جس سے دوران حمل یا بچے کی پیدائش میں مختلف پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض صورتحال میں ماہواری کے دوران ہونے والے مسائل بانجھ پن تک کا سبب بن سکتے ہیں۔

    15 سالہ یاسمین کا کہنا ہے، ’ہم ماہواری کے لیے بار بار نئے کپڑوں کا استعمال نہیں کرسکتے اسی لیے استعمال شدہ کپڑے دھو کر دوبارہ استعمال کرتے ہیں، جو امیر ہیں ان کی جیب انہیں ایک دفعہ کی استعمال شدہ اشیا پھینک دینے کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہم غریب ہیں، مجبوری میں استعمال شدہ سامان دوبارہ استعمال کرتے ہیں‘۔

  • کیا پاکستان کے کلائمٹ متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے؟

    کیا پاکستان کے کلائمٹ متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے؟

    رواں برس مون سون کی بارشوں نے ملک کے بڑے حصے کو سیلابی صورتحال سے دو چار کردیا ہے، ملک کے ہر حصے میں تباہی و بربادی کی تاریخ رقم ہوچکی ہے اور اس بربادی سے المیوں کی داستانیں جنم لے رہی ہیں۔

    اس سال ہونے والی غیر معمولی بارشوں نے سینکڑوں افراد کی جانیں لیں، مکانات، کھڑی فصلیں، انفرااسٹرکچر، مال مویشی سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا۔ لاکھوں لوگ ان قیامت خیز بارشوں میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے اور اب بے سرو سامانی کی حالت میں خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال ملک بھر میں مجموعی طور پر 210 فیصد زائد بارشیں ہوئی ہیں، سب سے زیادہ بارشیں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ہوئیں جہاں بارشوں کی شرح بالترتیب 508 اور 506 فیصد زائد رہی۔

    گلگت بلتستان میں 148 فیصد، پنجاب میں 86 فیصد اور خیبر پختونخواہ میں 44 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔

    نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے اب تک بارشوں اور سیلاب سے 11 سو 36 افراد جاں بحق اور 16 سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، 10 لاکھ 51 ہزار مکانات، 162 پل، اور 34 ہزار 71 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ 7 لاکھ 35 ہزار سے زائد مویشی مر چکے ہیں۔

    ملک بھر میں اب تک سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق اب تک 10 ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔

    غیر معمولی بارشوں کی وجہ کیا بنی؟

    دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والے تبدیلی (کلائمٹ چینج) اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) کی وجہ سے تقریباً پوری دنیا میں اسی نوعیت کے شدید موسمی ایونٹس رونما ہورہے ہیں، تاہم ترقی پذیر ممالک ان آفات سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جو بظاہر تو قدرتی آفات ہیں، لیکن اس کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔

    ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق انسانی سرگرمیوں (خاص طور پر صنعتی سرگرمیوں) کی وجہ سے ہماری فضا میں کاربن اور دیگر مضر گیسز کا اخراج کہیں زیادہ ہوگیا ہے، جو زمین کا مجموعی موسم تبدیل کر رہی ہیں، نتیجتاً قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے۔

    اور نہ صرف اضافہ ہورہا ہے بلکہ ان کی شدت بھی بڑھ گئی ہے اور ان سے ہونے والے نقصانات کی شرح بھی کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔

    بلوچستان میں 506 فیصد زائد بارشیں ہوئیں

    اس وقت گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ دار چین اور امریکا ہیں، چین نے سال 2019 میں 9 ہزار 877 میگا ٹن گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کیا، امریکا 4 ہزار 745 میگا ٹن گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے ساتھ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

    امریکی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے مطابق عالمی طور پر خارج کی جانے والی گرین ہاؤس گیسز میں چین 27 فیصد اور امریکا 15 فیصد کا حصے دار ہے۔

    دوسری جانب پاکستان کا گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 1 فیصد سے بھی کم صرف 0.6 فیصد ہے، تاہم جب کلائمٹ رسک انڈیکس کی ان ممالک کی درجہ بندی دیکھی جائے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، تو پاکستان وہاں آٹھویں نمبر پر ہے، یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات سے براہ راست سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

    اور صرف پاکستان ہی نہیں، اس فہرست میں شامل تمام ممالک گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کے تقریباً نہ ہونے کے برابر ذمے دار ہیں۔ یہ امیر ممالک کی ترقی اور صنعتی سرگرمیاں ہیں جو بڑے پیمانے پر پوری زمین کا موسم تبدیل کر رہی ہیں اور اس کا خمیازہ غریب ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

    پرائم منسٹر ٹاسک فورس آن کلائمٹ چینج کے سابق رکن ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اب کوئی مفروضہ نہیں رہا، یہ حقیقت بن چکا ہے اور نہایت خوفناک طریقے سے سامنے آرہا ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ہم دہائیوں سے اس خطرے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کلائمٹ چینج سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو بے تحاشہ نقصانات ہوں گے، اور اب یہ خطرات حقیقت بن چکے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ حالیہ مون سون بارشیں معمول کی بارشیں نہیں اور یہ مون سون کا پیٹرن بھی نہیں، یہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے اس قدر غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں کہ سب کچھ بہا کر لے گئیں۔

    محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور کئی بین الاقوامی جامعات میں ایٹموسفرک فزکس کی تعلیم دینے والے ڈاکٹر غلام رسول اس بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آپ گزشتہ کچھ سالوں کی موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو کلائمٹ چینج کے اثرات واضح طور پر نظر آئیں گے۔

    ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ بہار کا موسم آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ موسم گرما نے لے لی ہے، موسم گرما کا دورانیہ اور شدت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جو ہماری زراعت کو متاثر کر رہا ہے، آبی ذخائر کو خشک کر رہا ہے، اور گلیشیئرز کو بھی پگھلا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پہلے مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شمال مشرق سے شروع ہوتا تھا اور خیبر پختونخواہ اور پھر جنوب کی طرف آتا تھا، لیکن اس سال مون سون شروع ہی جنوب سے ہوا۔

    سیلاب سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی ہے

    ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق اب ان علاقوں میں بھی بارشوں کا سلسلہ دیکھا گیا جہاں مون سون کی بارشیں عموماً نہیں ہوتی تھیں، جیسے گلیشیئرز کے اطراف کے علاقے، اگر یہاں پر بھی بارشیں ہورہی ہیں تو پھر اس کا براہ راست خطرہ گلیشیئرز کو ہے جو پہلے ہی گرمی سے پگھل رہے ہیں، اور اب بارشوں کی وجہ سے مزید پگھلیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج نے غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے، اب مون سون کا دورانیہ طویل بھی ہوسکتا ہے، اس کی شدت بھی زیادہ ہوسکتی ہے، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں ہمیں کس قدر نقصانات سہنے ہوں گے۔

    کیا امیر ممالک اس کی ذمہ داری قبول کریں گے؟

    گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کے بڑے حصے دار اور امیر ممالک کی صنعتی سرگرمیاں کلائمٹ چینج کے ذریعے کس طرح ترقی پذیر ممالک کو متاثر کر رہی ہیں، صرف پاکستان اس کی ایک مثال نہیں، متعدد ایشیائی ممالک گزشتہ کچھ سال سے کم و بیش اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔

    پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت (بھارت خود بھی گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کا ایک بڑا حصے دار ہے) اور دیگر ایشیائی، افریقی اور کیریبیئن ممالک گزشتہ کچھ سالوں سے شدید ہیٹ ویوز، طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی زد میں ہیں اور ہر سال بے تحاشہ جانی و مالی نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

    تو کیا امیر ممالک اس تباہی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان نقصانات کے ازالے کی کوشش کریں گے؟ کیا یہ امیر ممالک ان نقصانات کی بحالی کے لیے دی گئی رقوم کو قرض یا امداد کا نام دینے کے بجائے اسے اپنا فرض سمجھ کر ادا کریں گے؟

    ہر سال ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسز میں جب ماحولیاتی نقصانات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور امیر ممالک کو بتایا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ دار ان کی صنعتی سرگرمیاں ہیں، تو یہ ممالک کندھے اچکا کر اپنا کاربن اخراج کم کرنے کے وعدے کرلیتے ہیں، لیکن اگر وہ اس وعدے کو وفا بھی کرلیتے ہیں تو یہ کمی اتنی کم ہوتی ہے، کہ اگلے سال تک ہونے والا ماحولیاتی نقصانات اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    سنہ 2009 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہونے والی یونائیٹڈ نیشنز کلائمٹ چینج کانفرنس میں (جسے COP بھی کہا جاتا ہے)، کئی سول سوسائٹی تنظیموں نے مل کر ایک تحقیقی ڈیٹا پیش کیا اور کہا کہ امریکا اور یورپی یونین، افریقہ، ایشیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں کلائمٹ چینج کی وجہ سے آنے والی آفات میں ہونے والے 54 فیصد مالی نقصان کے ذمہ دار ہیں۔

    اور پھر اسی سال ایک ازالہ جاتی فنڈ کا قیام عمل میں لانے کی منظوری دی گئی، لیکن اس کے پیچھے ترقی پذیر ممالک کی کئی سالہ کوشش تھی۔

    یہ ازالہ جاتی فنڈ کون سا ہے؟

    طویل عرصے تک جب اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ وہ امیر ممالک جن کی صنعتی سرگرمیوں سے کاربن اور دیگر مضر گیسز کا اخراج ہورہا ہے، اور اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، اور پھر یہ اضافہ پوری دنیا میں قدرتی آفات کا سبب بن رہا ہے، ایسے ممالک کو ان آفات اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اخلاقی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے، تو بالآخر ان امیر ممالک نے ازالے کی رقم دینے کی ہامی بھرلی۔

    سنہ 1992 میں قائم کی جانے والی اقوام متحدہ کی باڈی یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج (یو این ایف ٹرپل سی) کے تحت ایک فنڈنگ ادارہ قائم کیا گیا جسے گرین کلائمٹ فنڈ کا نام دیا گیا۔

    سنہ 2010 میں قائم کی جانے والی اس فنڈنگ باڈی کا مقصد ہے، ترقی پذیر ممالک کو گلوبل وارمنگ میں کمی اور اس سے ہم آہنگی کرنے والے اقدامات کرنے کے لیے مالی معاونت فراہم کی جائے۔

    یہ فنڈ ترقی یافتہ امیر ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ کلائمٹ چینج سے متاثر ہونے والے ممالک کے نقصانات کا ازالہ کریں۔

    اس فنڈ کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ امیر ممالک، غریب ممالک کے ماحول دوست پالیسیز کی طرف منتقل ہونے میں مالی مدد کریں، کیونکہ ماحول دوست ذرائع مثلاً سولر انرجی بنانا، توانائی کے عام ذرائع یعنی کہ پیٹرول یا کوئلے وغیرہ کی نسبت خاصا مہنگا ہے، غریب ممالک مہنگا ہونے کے باعث ماحول دوست ذرائع نہیں اپنا سکتے اور مجبوراً وہ ماحول کو نقصان پہنچانے والے ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے امریکا، یورپی ممالک اور دیگر امیر ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ ایک مقررہ رقم اس فنڈ میں جمع کروائیں۔

    پاکستان اس فنڈ کے قائم ہونے سے اب تک اس سے نہایت ہی معمولی سا فائدہ اٹھا سکا ہے۔ گرین کلائمٹ فنڈ کے تحت اب تک پاکستان کو صرف 4 منصوبوں کے لیے فنڈ مل سکا ہے جن کی مالیت 131 ملین ڈالرز ہے، ان 4 منصوبوں میں سے ایک کراچی کا گرین بی آر ٹی منصوبہ بھی ہے۔

    شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس حساب سے پاکستان میں کلائمٹ چینج سے نقصانات ہو رہے ہیں، اس حساب سے پاکستان اس فنڈ سے مستفید ہونے میں ناکام رہا ہے۔

    کلائمٹ فنانس کی ایکسپرٹ کشمالہ کاکاخیل اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ یہ پروگرام کسی نقصان کی صورت میں فوری ازالہ کرنے والے اقدامات کے لیے نہیں ہے۔ حالیہ سیلاب میں ہمیں متاثرین کے ریسکیو اور ریلیف کے لیے اب تک جو بھی رقم ملی ہے وہ فوری طور پر انسانی ہمدردی کے تحت ملی ہے۔

    کشمالہ کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم طویل المدتی اور پائیدار ترقیاتی منصوبے مکمل جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ پیش کریں۔

    انہوں نے کہا کہ اس فنڈ کے لیے مختلف ممالک اپنے پروجیکٹس پیش کرتے ہیں اور اس میں سے چند پروجیکٹس کو منتخب کر کے انہیں فنڈنگ دی جاتی ہے۔ پروجیکٹ بنانے سے قبل اس کا جائزہ لینا اور تحقیق کرنا، اسے تمام اعداد و شمار کے ساتھ پیش کرنا، اس میں کمی بیشی کو دور کرنا، اور پھر اس کی منظوری ہونا اور اس کے بعد اس پر کام شروع ہونا، یہ سب سالوں کے عرصے پر محیط ہوتا ہے۔

    یہ پروجیکٹس کون سے ہوں گے؟

    چنانچہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے منصوبے جو کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ ہوں، طویل المدتی ہوں، پائیدار ہوں، اور کسی قدرتی آفت کے بعد نقصان کی شرح کم سے کم کرسکیں، کون سے ہو سکتے ہیں؟

    اس حوالے سے ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ایسے منصوبے بنانے سے پہلے ملک میں جو مس مینجمنٹ موجود ہے، اسے ٹھیک کیا جانا ضروری ہے۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہم کس منہ سے دنیا سے پیسے مانگیں گے؟ کہ ہم نے دریا کے راستے میں ہوٹل تعمیر کرلیے، سیلاب میں وہ ہوٹل گر گئے، اب ہمارے اتنے لاکھ لوگ بیروزگار اور تباہ حال ہیں، ان کے لیے ہمیں پیسے دیے جائیں تاکہ ہم پھر سے اسی سیلابی راستے میں تعمیرات کریں۔ اس طرح تو ہمیں کوئی پیسے نہیں دینے والا‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی ہوں گی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ بعد کی چیز ہے، پہلے ہمیں دنیا کی طرح ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ ہوں تاکہ کسی آفت کی صورت میں ہمارا کم سے کم نقصان ہو۔ لیکن ایسی پالیسیز بنانا ہماری ترجیحات نہیں، البتہ ڈیزاسٹر کے بعد ہم اس کی تباہ کاری سے نمٹنے کے لیے ضرور اپنے وسائل استعمال کرلیتے ہیں۔

    دریا میں بنایا گیا کالام کا ہوٹل جو سیلاب میں بہہ گیا

    ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ ہمارا باقاعدہ کوئی ریسکیو سسٹم ہی نہیں، قدرتی آفات میں خیراتی ادارے ہی ہمارا واحد سہارا ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم کیا توقع رکھتے ہیں کہ دنیا کلائمٹ چینج سے نمٹنے میں ہماری مدد کرے۔

    وہ کہتے ہیں، کہ ایک تو عالمی طور پر رونما ہونے والا کلائمٹ چینج، پھر ہماری مس مینجمنٹ اور فطرت سے تصادم کا شوق، یہ سب مل کر ہمارے انسانی وسائل کو بے حد نقصان پہنچا رہے ہیں جن کی بڑی تعداد ویسے ہی غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

    تو کیا پاکستان کے پاس ایسے پائیدار ترقیاتی منصوبے ہیں؟

    کشمالہ کاکا خیل کا کہنا ہے کہ پاکستان فی الحال 4 سے 5 کلائمٹ ریزیلیئنٹ منصوبوں پر کام کر رہا ہے جو جلد ہی گرین کلائمٹ فنڈنگ کے لیے پیش کردیے جائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ سیلاب سے فوری طور پر ریلیف کے لیے تو کئی ممالک کی امداد منظور ہوچکی ہے، اب آگے ہمیں ایسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ درکار ہے جس سے مستقبل میں ایسے قدرتی آفات کے دوران کم سے کم نقصان ہو، اور اس کے لیے طویل المدتی اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر ہم 2010 کے سیلاب کے بعد ایسے منصوبے بنا لیتے، جن میں قدرتی آفات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیرات اور آباد کاری کی جاتی تو اب شاید ہم اتنا نقصان نہ اٹھاتے۔

    کشمالہ کا کہنا ہے کہ اب ضروری ہے کہ ہم یقینی بنائیں کہ سیلاب کے راستے میں تعمیرات نہ کی جائیں، ارلی وارننگ سسٹمز کو مضبوط بنایا جائے، اور فطرت سے تصادم کا راستہ نہ اپنایا جائے، تب ہی ہمارے قیمتی انسانی اور مالی وسائل کی حفاظت ہوسکے گی ورنہ کچھ سال بعد ہم پھر اسی صورتحال سے گزر رہے ہوں گے اور ہمارے کلائمٹ متاثرین میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

  • کاچھو میں سیلاب سے سینکڑوں گاؤں ڈوب گئے: ’بارش نہ ہو تو تکلیف، ہوجائے تو دہرا عذاب‘

    کاچھو میں سیلاب سے سینکڑوں گاؤں ڈوب گئے: ’بارش نہ ہو تو تکلیف، ہوجائے تو دہرا عذاب‘

    رپورٹ: فریحہ فاطمہ / جی ایم بلوچ

    پاکستان میں مون سون کے حالیہ اسپیل نے ملک کے بیشتر حصے کو شدید متاثر کیا ہے اور متعدد علاقوں میں سیلاب آچکا ہے، ان گنت علاقے تباہی و بربادی کی تصویر بن چکے ہیں۔

    بارشوں کے حالیہ سلسلے نے جہاں صوبائی دارالحکومت کراچی میں اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا کردی وہیں سندھ کے دیگر حصے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور کاچھو کا علاقہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    سندھ کے ضلع دادو میں واقع کاچھو کا علاقہ کیرتھر کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں ہے اور یہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کا سرحدی علاقہ ہے، سندھ اور بلوچستان کے درمیان موجود یہ قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑ 9 ہزار اسکوائر کلو میٹر طویل ہیں اور سندھ کی طرف اس کا سب سے بڑا علاقہ کاچھو کہلاتا ہے جو سندھ کے 2 اضلاع دادو اور قمبر شہداد کوٹ پر محیط ہے۔

    انتظامی طور پر یہ علاقہ 9 یونین کاؤنسلز میں تقسیم ہے جس میں چھوٹی بڑی بے شمار آبادیاں ہیں اور اندازاً یہاں کی آبادی 2 سے ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔ یہ علاقہ بارانی ہے اور یہاں کے رہائشی فصل کی افزائش اور پینے کے لیے بارش کے پانی کے محتاج ہیں۔

    ہر سال بارشوں کے دوران کیرتھر کے پہاڑوں سے پانی مختلف چھوٹی بڑی ندیوں کی صورت میں بہہ کر آتا ہے، یہاں کی سب سے بڑی ندی نئیں گاج کے نام سے ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بارشوں کے دوران پہاڑوں سے پانی کا بہہ کر آنا، اور پھر وہاں سے سندھ کی منچھر جھیل میں چلے جانا، معمول کا قدرتی عمل ہے لیکن گزشتہ 2 سال سے، اور اب یہ تیسرا سال ہے جس میں پانی کی مقدار اس قدر ہے کہ پورا علاقے میں سیلاب آچکا ہے۔

    تمام زمینی راستے منقطع

    ضلع دادو میں سرگرم عمل صحافی اور سماجی کارکن رشید جمالی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 1 ماہ سے بلوچستان میں ہونے والی بارشوں سے مستقل پانی یہاں آرہا ہے، کیرتھر کے پہاڑوں سے آنے والے پانی اور یہاں کی سب سے بڑی ندی نئیں گاج کے اوور فلو سے علاقہ زیر آب آچکا تھا، اور اب ہونے والی بارشوں کے بعد بے شمار گاؤں سیلاب کے پانی میں گھر چکے ہیں اور آس پاس کے علاقوں سے ان کا رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔

    ان کے مطابق بارش کے کچھ روز گزرنے کے بعد کچھ دیہات ایسے بھی ہیں جہاں پانی تو اتر گیا، لیکن اب وہاں دلدل اور کیچڑ ہوچکی ہے اور اب وہاں نہ تو کوئی کشتی جا سکتی ہے نہ ہی کوئی گاڑی۔

    رشید پچھلے کچھ روز سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی میں ایک قریبی گاؤں میں کھانا پہنچا رہے ہیں، کیچی شاہانی نامی یہ گاؤں بھان سعید آباد سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

    گاؤں کیچی شاہانی

    رشید نے بتایا کہ صرف کیچی شاہانی میں اس وقت 600 کے قریب افراد موجود ہیں جن میں 200 بچے بھی ہیں، فی الوقت یہ تمام لوگ کھانے سے بھی محروم ہیں جبکہ اب بارش کے بعد وبائی امراض بھی پھیلنا شروع ہوگئے ہیں جن کے سدباب کے لیے کوئی طبی سہولیات موجود نہیں۔

    کیچی شاہانی کے رہائشی حاجی محمد خان کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں گزشتہ 1 ماہ سے سیلابی پانی کھڑا ہے، تاحال کسی حکومتی نمائندے نے جھانک کر نہیں دیکھا، گاؤں والوں کے پاس نہ کھانا ہے، نہ راشن نہ کوئی طبی سہولت۔ یہاں سے نقل و حرکت کے لیے واحد ذریعہ کشتی ہی ہے جس کے ذریعے وہ طویل راستہ طے کر کے قریبی شہر تک جا سکتے ہیں اور راشن یا ادویات لا سکتے ہیں۔

    گاؤں کی رہائشی ایک خاتون نوراں بی بی نے بتایا کہ ان کا گزر بسر کھیتی باڑی پر ہے جس کے لیے بارش درکار ہے، بارش نہ ہو تو بھی وہ فاقے کرتے ہیں، ہوجائے تو سیلاب کی صورت میں دہرا عذاب ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ علاقے میں عام حالت میں بھی اسپتال، ڈاکٹر یا طبی سہولیات کا نام و نشان نہیں۔ کوئی شدید بیمار ہو یا کسی خاتون کی ڈلیوری ہو تو کئی کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے جوہی شہر تک جانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اکثر یا تو مریض راستے میں دم توڑ جاتا ہے یا پھر سواری میں ہی بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے۔

    امدادی کارروائیوں کے حکومتی دعوے

    ڈپٹی کمشنر دادو سید مرتضیٰ شاہ کا دعویٰ ہے کہ سیلاب کے بعد انتظامیہ کی ٹیمیں پورے علاقے میں متحرک ہیں اور امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کاچھو کی 9 یونین کاؤنسلز میں چھوٹی بڑی بے شمار آبادیاں ہیں، سینکڑوں گھروں پر موجود گاؤں بھی ہیں اور چھوٹی چھوٹی سیٹلمنٹس بھی جن میں 10، 12 یا 20 گھر ہیں، یہ سب ملا کر اس علاقے میں 900 سے 1 ہزار کے قریب گاؤں ہیں جن میں 30 ہزار گھرانے اور 2 سے ڈھائی لاکھ کے قریب افراد ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اب تک کیے گئے سروے کے مطابق حالیہ سیلاب سے کاچھو کے 251 گاؤں متاثر ہوئے ہیں، پورے ضلع دادو میں 500 کے قریب مکانات منہدم ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کاچھو میں ہیں، جبکہ پورے ضلعے میں مختلف حادثات سے 6 اموات ہوچکی ہیں۔

    ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ہر دفعہ بارشوں میں کیرتھر کے پہاڑوں سے پانی آتا ہے، چند گھنٹے وہاں رہتا ہے اس کے بعد منچھر جھیل میں چلا جاتا ہے، تو گاؤں والوں کے لیے یہ عام سی بات ہے، لیکن گزشتہ کچھ سال سے بارشوں کا پانی باقاعدہ سیلاب میں تبدیل ہورہا ہے اور پورا علاقہ زیر آب آجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب کے دوران کاچھو میں 16 مقامات پر، جو بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور وہاں سے انخلا کیا جانا ضروری تھا، مقامی افراد کو سرکاری کشتیاں مہیا کی گئی تھیں، لیکن وہ کشتیاں گاؤں والوں کی طرف سے انخلا کے بجائے نقل و حرکت کے لیے استعمال کی گئیں۔ ضلع بھر میں جہاں جہاں ریلیف کیمپس لگائے گئے تھے ان مقامات کے بارے میں بھی نوٹیفائی کردیا گیا تھا تاہم کاچھو کے لوگوں نے اپنے گھر چھوڑنے سے گریز کیا۔

    ڈی سی کے مطابق علاقے میں میڈیکل ٹیمز کو بھی متحرک کردیا گیا ہے جو بارشوں کے بعد پھیلنے والے وبائی امراض کی دوائیں، دیگر طبی امداد اور مویشیوں کی ویکسینز فراہم کر رہی ہیں، متعدد ایسے خاندان جن کے گھر گر گئے تھے انہیں خیمے فراہم کیے گئے ہیں، جبکہ اب تک 15 سو خاندانوں کو راشن فراہم کیا جاچکا ہے۔

    صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے مطابق 20 جون سے 31 جولائی 2022 تک ہونے والی بارشوں کے دوران صوبے میں 105 افراد جاں بحق اور 74 زخمی ہوچکے ہیں، 408.6 کلومیٹر کی سڑکیں متاثر ہوئی ہیں جبکہ 3 لاکھ 70 ہزار 143 ایکڑز پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

    مستقبل میں کاچھو کو سیلاب سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

    کیرتھر کے پہاڑوں سے آنے والا پانی اب عام حالات کے برعکس سیلاب کا سبب بن رہا ہے، اور گزشتہ 3 سال سے یہی صورتحال ہے جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، کیا صوبائی حکومت کے پاس اس کا کوئی مستقل حل ہے؟

    اس کے جواب میں ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ کاچھو سے 6 سڑکیں ہیں جو اسے دیگر علاقوں سے جوڑتی ہیں جن میں واہی پاندھی، جوہی، چھنی، حاجی خان، ڈرگھ بالا اور شاہ حسن شامل ہیں، یہ چھ کے چھ راستے بارشوں میں زیر آب آجاتے ہیں اور کاچھو کا رابطہ دیگر صوبے سے کٹ جاتا ہے۔

    ان کے مطابق کم از کم 3 راستوں پر پل بنانے کے منصوبے زیر غور ہیں جس میں سے ایک ڈرگھ بالا میں بنایا جانے والا پل منظور کیا جاچکا ہے، 10 کروڑ روپے کی لاگت سے اس پل پر رواں برس تعمیراتی کام شروع کردیا جائے گا جس کے بعد سیلاب کے دوران بھی کاچھو تک جانے والے راستے مکمل طور پر بند نہیں ہوں گے۔

  • جمنا کی کہانی ۔ ہوم گارڈننگ نے ان کی زندگی کس طرح تبدیل کی؟

    جمنا کی کہانی ۔ ہوم گارڈننگ نے ان کی زندگی کس طرح تبدیل کی؟

    ’میں کبھی اسکول نہیں گئی، لیکن ہمیشہ سے پڑھنا چاہتی تھی، شادی ہونے کے بعد اپنے بچوں کو پڑھانا اور انہیں بڑا آدمی بنانا چاہتی تھی لیکن جیب اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ لیکن اب زندگی نے ایسی کروٹ لی ہے کہ میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے قابل ہوگئی ہوں‘، 35 سالہ جمنا کے چہرے کا اطمینان بتا رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلی سے بے حد خوش ہیں۔

    اور ایک جمنا ہی نہیں، نیپال کے اس گاؤں کی رہائشی درجنوں خواتین بے حد خوش ہیں، 3 سال قبل شروع کی جانے والی باغبانی نے ان کی زندگی پہلے کے مقابلے میں خاصی بہتر کردی ہے۔

    نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے کچھ دور واقع گاؤں کوئیکلٹھمکا میں چند سال قبل تک حالات خاصے دگرگوں تھے، معلومات اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے گاؤں والے سال بھر میں کوئی ایک فصل اگا پاتے تھے، جس کی فروخت سے وہ جیسے تیسے زندگی گزار رہے تھے۔

    اس فصل پر کیڑے مار ادویات کے استعمال سے گاؤں میں مختلف امراض بھی عام تھے جن میں جلدی الرجی سرفہرست تھی، معاشی پریشانی کی وجہ سے بہت کم لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے قابل تھے۔

    پھر یہاں ایک انقلاب در آیا، حکومتی سرپرستی کے تحت چلنے والے ایک ادارے نے یہاں گھریلو باغبانی یا ہوم گارڈننگ کا سلسلہ شروع کروایا اور اس کے لیے خواتین کو چنا گیا۔

    مختصر تربیت کے بعد خواتین نے اپنے گھروں میں سبزیاں اگانی شروع کیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کا نقشہ بدل گیا، وہ گاؤں جہاں پہلے غربت کے ڈیرے تھے، اب وہاں خوشحالی، صحت اور سکون کی فراوانی ہوگئی۔


    دنیا بھر میں بدلتے اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی کلائمٹ چینج نے زندگی کے مختلف ذرائع پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور زراعت بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے گزشتہ 60 برسوں میں دنیا بھر کی زراعت میں 21 فیصد کمی آئی ہے۔

    کلائمٹ چینج کی وجہ سے زراعت پر اثر انداز ہونے والے عناصر میں سب سے اہم پیداواری موسم میں کمی ہے، یعنی غیر متوقع طور پر ہونے والی بارشیں اور موسم گرما کے دورانیے میں اضافہ فصلوں کو متاثر کر رہا ہے۔

    موسم گرما کے دورانیے میں اضافے سے ایک طرف تو سرد موسم میں پیدا ہونے والی فصلوں کو افزائش کے لیے کم وقت مل رہا ہے، دوسری جانب طویل دورانیے کی گرمی، موسم گرما میں پیدا ہونے والی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔

    دنیا بھر میں پیدا ہونے والی قلت آب بھی اس کا اہم سبب ہے، علاوہ ازیں بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جب فصل بڑھانے کے لیے دوائیں استعمال کی جاتی ہیں اور زمین کی استطاعت سے زیادہ پیداوار کی جاتی ہے تو زمین جلد بنجر ہوجاتی ہے یوں زیر کاشت رقبہ کم ہوتا جاتا ہے۔

    مستقبل قریب میں غذائی قلت کے ان خطرناک امکانات کو دیکھتے ہوئے مختلف طریقے متعارف کروائے جارہے ہیں، اور انہی میں سے ایک طریقہ ہوم گارڈننگ یا گھر میں سبزیاں اگانا بھی ہے۔

    نیپال کے ایک گاؤں میں اس ہوم گارڈننگ نے مقامی خواتین کی زندگی بدل دی ہے۔

    نیپال ۔ کلائمٹ چینج سے نمٹنے کی کوشش کرتا ملک

    لگ بھگ 2 کروڑ 92 لاکھ آبادی والا جنوب ایشیائی ملک نیپال اپنے 25 فیصد رقبے پر جنگلات رکھتا ہے تاہم یہاں بھی کلائمٹ چینج کے اثرات نمایاں ہیں۔

    کلائمٹ چینج رسک اٹلس کی درجہ بندی کے مطابق نیپال کلائمٹ چینج کے نقصانات سے ممکنہ متاثر ممالک میں 13 ویں نمبر پر ہے۔

    نیپال کا 25 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے

    زراعت اور فوڈ سیکیورٹی پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے سی جی آئی اے آر کے مطابق نیپال میں کلائمٹ چینج کی وجہ سے زراعت پر پڑنے والے منفی اثرات، ممکنہ غذائی قلت، آبی قلت، اور جنگلات میں کمی کی وجہ سے لاکھوں نیپالی خطرے کا شکار ہیں۔

    پہاڑوں سے گھرے اس ملک میں پانی کا اہم ذریعہ گلیشیئرز ہیں تاہم درجہ حرارت میں اضافے سے ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوچکا ہے، بدلتے موسموں نے خشک علاقوں کی خشکی اور مرطوب علاقوں کی نمی میں اضافہ کردیا ہے اور زراعت کے لیے یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے۔

    ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق ہر سال نیپال کی جی ڈی پی میں کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے ڈیڑھ فیصد تک کی کمی واقع ہو رہی ہے، سنہ 2050 تک یہ شرح 2.2 فیصد اور رواں صدی کے آخر تک 9.9 فیصد تک جا پہنچے گی۔

    چھوٹی چھوٹی کوششیں جو لوگوں کی زندگی تبدیل کر رہی ہیں

    بدلتے موسموں کی وجہ سے زراعت پر ہونے والے نقصانات نئی ترجیحات اور اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں جن میں سب سے آسان گھر میں باغبانی یا ہوم گارڈننگ ہے تاکہ ہر گھر اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوسکے۔

    اس کی ایک بہترین مثال نیپال کے چند گاؤں ہیں جہاں ہوم گارڈننگ نے مقامی افراد کی زندگی بدل دی ہے۔

    ہوم گارڈننگ کی وجہ سے جمنا کے بچے اسکول جانے کے قابل ہوگئے ہیں

    35 سالہ جمنا ادھیکاری کھٹمنڈو سے کچھ دور واقع ایک پہاڑی علاقے کوئیکلٹھمکا کے ایک گاؤں کی رہائشی ہیں، 3 سال قبل جب انہوں نے اپنے گھر میں باغبانی شروع نہیں کی تھی تب وہ اور گاؤں کے دیگر گھرانے مخصوص خوراک کھانے پر مجبور تھے، اس کی وجہ مارکیٹس کا گاؤں سے دور ہونا اور معاشی پریشانی تھی۔

    جمنا بتاتی ہیں کہ اس وقت گاؤں میں عموماً سبھی کسان سرسوں اگاتے تھے جسے فروخت کر کے وہ ایک محدود رقم حاصل کر پاتے، اس معمولی رقم سے جیسے تیسے زندگی گزر رہی تھی۔

    پھر 3 سال قبل چند اداروں کی مدد سے انہیں گھر میں سبزیاں اگانے کے حوالے سے تربیت دی گئی، اس کا بنیادی مقصد تو گاؤں والوں کی غذائی ضروریات پورا کرنا تھا تاکہ انہیں اپنے گھر میں ہی مختلف سبزیاں حاصل ہوسکیں، ان کی رقم کی بچت ہو جبکہ سبزیاں خریدنے کے لیے گاؤں سے دور آنے جانے کی مشقت بھی ختم ہوسکے۔

    لیکن اب تین سال میں گاؤں کی تمام خواتین نے اس باغبانی کو اس قدر وسعت دے دی ہے کہ نہ صرف ان کے گھر کی غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ وہ اس سبزی کو فروخت بھی کر رہی ہیں۔

    ’اس سبزی کی فروخت سے ہر گھر کو سالانہ تقریباً 1 لاکھ روپے تک کی آمدن حاصل ہوتی ہے، اتنی بڑی رقم ہم نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی‘، جمنا چمکتی آنکھوں کے ساتھ بتاتی ہیں۔

    اپنے گھر میں ہونے والی باغبانی کے حوالے سے جمنا بتاتی ہیں کہ وہ دو حصوں میں باغبانی کرتی ہیں، ایک گھر کی ضرورت کے لیے، دوسرا فروخت کے لیے۔ گھر کے لیے وہ 21 قسم کی سبزیاں اگاتی ہیں جن میں پھول گوبھی، بند گوبھی، ٹماٹر، مرچ، بینگن اور گاجر وغیرہ یکے بعد دیگرے اگاتی ہیں۔

    تجارتی مقصد کے لیے اگائی جانے والی سبزیوں کی تعداد کم لیکن مقدار زیادہ ہے۔

    گاؤں والوں کو تربیت دینے والی نیپال کی ایک مقامی تنظیم CEAPRED کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کرن بھوشل اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ جب اس گاؤں میں امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ گاؤں والے غذائی عدم توازن کا شکار تھے کیونکہ وہ چند مخصوص غذائیں ہی کھا رہے تھے۔

    ’اس کی وجہ معاشی طور پر کمزور ہونا اور شہر کی مارکیٹ تک عدم رسائی تھی، ہم نے یہ خیال پیش کیا کہ اگر گاؤں والے اپنے گھر میں ہی سبزیاں اگائیں تو ان کے لیے خوراک کا حصول آسان ہوسکتا ہے، جبکہ اضافی دیکھ بھال سے وہ اس موسم میں بھی سبزیاں حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے جو نسبتاً خشک سالی کا موسم ہوتا ہے اور فصل کی پیداوار کم ہوتی ہے‘، کرن نے بتایا۔

    تاہم اس سے آمدن کا حصول ایک اضافی فائدہ تھا جس نے گاؤں والوں کی زندگی خاصی بہتر بنائی، جمنا بتاتی ہیں کہ ایک غریب خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اسکول نہیں جاسکیں، لیکن اب اس آمدن نے انہیں اس قابل کردیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہی ہیں۔

    نقصان دہ کیمیکل فرٹیلائزر سے نجات

    نیپال کے ان دیہات میں کاشت کاری اور باغبانی کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ کھاد ’جھولمال‘ استعمال کی جارہی ہے، یہ کھاد جانوروں کے گوبر، گلی سڑی سبزیوں پھلوں اور پتوں سے تیار کی جاتی ہے۔

    فصلوں پر گائے کے پیشاب سے تیار کردہ ایک اسپرے بطور کیڑے مار دوا استعمال کیا جارہا ہے۔

    کرن بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل تک جب گاؤں والے اپنی فصل پر نقصان دہ کیڑے مار ادویات استعمال کیا کرتے تھے تب وہ مختلف طبی مسائل میں مبتلا تھے، ’اس وقت گاؤں میں اسکن الرجی اور سر درد کی بیماریاں عام تھیں، پھر کیمیکل فرٹیلائزر بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کا مستقل استعمال خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، تاہم اب کمرشل فصل اور گھریلو باغبانی دونوں کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ کھاد اور اسپرے استعمال کیا جارہا ہے اور لوگوں کے صحت کے مسائل میں خاصی کمی آئی ہے‘۔

    امریکی تحقیقاتی ادارے ڈرگ واچر کے مطابق فصلوں پر چھڑکی جانے والی اور زمین کی زرخیزی کے لیے استعمال کی جانے والی کیمیکل ادویات جلد کی الرجی سے لے کر سانس، ہاضمے کے مسائل اور کینسر تک کا سبب بن سکتی ہیں۔

    کرن کہتے ہیں کہ گھر میں کی جانے والی آرگینک فارمنگ نے مقامی افراد کو نقصان دہ فرٹیلائزر اور کیڑے مار ادویات سے تحفظ فراہم کردیا ہے۔

    پانی کی فراہمی کے لیے مقامی ذرائع

    سارا سال سبزیوں کے حصول کے لیے سب سے بڑا مسئلہ خشک سالی سے نمٹنا تھا، کرن کے مطابق بارشوں کے موسم میں کچھ بھی اگا لینا تو بے حد آسان تھا لیکن مسئلہ تب ہوتا جب بارشیں ختم ہوجاتیں۔

    اس وقت پانی کی کمی گاؤں والوں کی تجارتی فصل کی پیداوار کو بھی متاثر کرتی۔

    سوائل سیمنٹ ٹینک

    اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے گاؤں میں جگہ جگہ خاص قسم کے ٹینکس بنائے گئے، چکنی مٹی، ریت اور سیمنٹ سے تیار کردہ ان ٹینکس میں بارش کا پانی ذخیرہ کر لیا جاتا ہے جو بارش کا سیزن ختم ہوجانے کے بعد استعمال کیا جاتا ہے۔

    ’ہوم گارڈننگ کی وجہ سے ہمارے حالات خاصے بہتر ہوگئے ہیں، معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ ہمیں صحت کا تحفہ بھی ملا ہے، ذرا سی محنت اور معمولی کوشش سے ہماری زندگی اتنی بہتر ہوجائے گی، ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا‘، جمنا جھلملاتی مسکراہٹ کے ساتھ بتاتی ہیں۔


    Story Supported By: ICIMOD & GRID-Arendal

  • کراچی کا شیو مندر: جہاں رام اور سیتا نے قیام کیا تھا

    کراچی کا شیو مندر: جہاں رام اور سیتا نے قیام کیا تھا

    برگد کے گھنے پیڑ کے سایے میں وسیع و عریض احاطہ ہے، درخت پر بے شمار پرندوں نے گھر کر رکھا ہے جن کی چہکاریں لوگوں کا استقبال کرتی ہیں۔

    وہاں آنے والے احتیاط سے ننگے پاؤں سیڑھیاں اترتے ہیں اور دعائیہ کلمات پڑھتے ہوئے اندر کی طرف چلے جاتے ہیں، اگر بتیوں کی دھیمی خوشبو سے پورا ماحول مہک رہا ہے۔

    قریب سے گھنٹی کی مدھر آواز سنائی دیتی ہے، درخت پر بیٹھے پرندے چونک کر اڑتے ہیں اور ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور چہچہاہٹ کا شور مزید بلند ہوتا ہے۔ دن کی زرد روشنی دیواروں سے پھسلتی جاتی ہے، چمکتا سورج مدھم ہو کر بالآخر ڈھل جاتا ہے اور شام کی سرمئی چادر مندر کی دیواروں پر بچھ جاتی ہے، مندر، جہاں بے شمار افسانے ہیں، روایات ہیں اور عیقدت مندوں کی عقیدت ہے۔

    کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع شری رتنیشور مہا دیو مندر (جسے شیو مندر بھی کہا جاتا ہے) ہندو عقیدت مندوں کے لیے ایک افسانوی حیثیت رکھتا ہے، اس کی قدامت تو زیادہ سے زیادہ 500 برس ہے، تاہم اس ذرا سے عرصے کو زیب داستان کے لیے 5 ہزار سال پر محیط کردیا گیا ہے۔

    جب اس مندر کو ہزاروں سال قدیم قرار دیا جاتا ہے، تو اس سے جڑی نہایت دلچسپ روایات اور داستانیں جنم لیتی ہیں اور یہی ہمارا آج کا موضوع ہیں۔

    پہاڑیوں کے درمیان غار کے اندر بنا ہوا یہ مندر کبھی سطح سمندر سے 40 فٹ نیچے تھا اور اس کی 4 سطحیں یا زیر زمین منزلیں تھیں (بعض جگہوں پر 6 منزلیں بتائی گئی ہیں)، ہر منزل سے راستے مختلف سمتوں کی طرف جاتے ہیں۔

    مندر کے اندر موجود برگد کا گھنا درخت بھی مندر ہی کی عمر کا ہے جس کی شاخوں نے پورے مندر پر سایہ سا تان رکھا ہے۔

    مندر کی چھت سے غار کی ساخت نمایاں ہے

    جیسے جیسے مندر کی نچلی منزلوں پر اترتے جائیں، دیواروں اور چھتوں سے غار کی ساخت نمایاں ہوتی جاتی ہے، مٹی اور پتھر کی غیر ہموار چھت کو جوں کا توں رکھتے ہوئے مندر کے اندر خاصی تعمیرات کی گئی ہیں جہاں عقیدت مندوں کا رش رہتا ہے۔

    شیو بھگوان ۔ جو سمندر پر نگران ہے

    ہندو مذہب میں شیو بھگوان سب سے بڑے اور عظیم بھگوان ہیں، ہندو عقائد میں انہیں وقت کو قابو کرنے والا کہا جاتا ہے جو نہ صرف وقت کو ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کرتے ہیں بلکہ اس الٹ پھیر کو اپنی مرضی سے بدلنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔

    مذہبی عقائد کے مطابق شیو بھگوان تباہی کے خدا بھی ہیں، دنیا کے خاتمے کے مقررہ وقت پر شیو بھگوان ہی دنیا کو تہس نہس کریں گے۔

    ہندو عقائد کے مطابق یہ مندر کئی صدیوں تک شیو بھگوان کا ٹھکانہ رہا، کئی صدیوں بعد شیو جی یہاں سے چلے گئے، لیکن اب بھی اکثر وہ مندر میں سانپ کی شکل میں آتے ہیں۔

    شیو بھگوان

    کہا جاتا ہے کہ شیو بھگوان تیسری آنکھ رکھتے ہیں جسے باطن کی آنکھ کہا جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ وقت کے بے لگام گھوڑے کی باگیں تھامے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس وقت سے آگے دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    آٹھویں صدی کے صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کا مزار شہر کراچی میں موجود ہے اور شہر والے اسے اپنے لیے باعث رحمت جانتے ہیں کہ یہ غازی بابا ہی ہیں جو بپھرے سمندر اور منہ زور طوفانوں کو روک کر اس شہر کو تباہی سے بچا لیتے ہیں۔

    ہندو عقیدت مند اسے شیوا کی کرامت قرار دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شیوا کی تیسری آنکھ سمندر کی طرف نگران ہے جو طوفانوں کو اس طرف آنے سے پہلے ہی ختم کردیتی ہے۔

    اب یہ غازی بابا کا جاہ و جلال ہو، شیو بھگوان کی برکت ہو، یا کوئی اور سائنسی توجیہہ، اس شہر کے رہنے والے طوفانوں کو اپنی طرف بڑھتا تو دیکھتے ہیں، لیکن وہ طوفان ہمیشہ کراچی کے قدموں میں پہنچ کر دم توڑ دیتا ہے۔

    ہندو مت میں سوموار یعنی پیر کے دن کو شیو کا دن قرار دیا جاتا ہے اور اس دن شیو جی کی خاص پوجا کی جاتی ہے۔

    مہا بھارت میں ذکر

    کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے قدیم ترین داستانی صحیفے مہابھارت میں بھی اس مندر کا ذکر ہے، مہا بھارت ایک طویل منظوم داستان ہے جسے ہندو مت کی مذہبی کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔

    اس صحیفے میں اس مندر کو شیو بھگوان کا گھر لکھا گیا ہے۔

    ہندو عقائد کے مطابق مہا بھارت کو تیسری صدی قبل مسیح سے لکھنا شروع کیا گیا، اس میں بیان کیے گئے واقعات آٹھویں سے نویں صدی قبل مسیح میں رونما ہوئے۔ اس کے اختتامی کلمات چوتھی صدی عیسوی میں لکھے گئے جب اس خطے میں چندر گپت موریہ کا خاندان حکمران تھا۔

    مہا بھارت میں لگ بھگ 1 لاکھ اشعار ہیں اور اس میں لکھے گئے الفاظ کی تعداد 18 سے 25 لاکھ کے درمیان ہے۔

    رام اور سیتا کا قیام

    ہندو مذہب میں ایک بہادر راج کمار رام چندر کو وشنو بھگوان کا ساتواں روپ (اوتار) مانا جاتا ہے، وشنو بھگوان کے 10 روپ ہیں جن میں سے 9 زمین پر آچکے، دسواں آنا باقی ہے۔ اس حوالے سے ہندو مت کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی کی طرح ان کا بھی ایک بھگوان ظاہر ہوگا۔

    رام چندر کی بیوی سیتا خود بھی ایک شہزادی تھی اور نہایت خوبصورت تھی۔ ان دونوں کی محبت آج بھی مثال کا درجہ رکھتی ہے۔

    راجہ ہنومان اور رام ، سیتا

    ہندو صحیفوں کے مطابق لنکا کا شیطان صفت راجا راون، سیتا کی خوبصورتی کا دیوانہ ہو کر اسے اٹھا کر لے آیا اور اپنے پاس قید کرلیا۔ رام نے بندر راجہ ہنومان کی مدد سے راون کو شکست دی اور سیتا کو چھڑا کر واپس اپنی سلطنت پہنچا۔

    اس موقع پر لوگوں نے ان کی واپسی کا جشن منایا اور جابجا دیے جلا کر شہر کو روشن کردیا۔ یہ موقع آج دیوالی یا دیپاوالی کے نام سے منایا جاتا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ رام اور سیتا ایک بار اس شیو مندر میں بھی آئے تھے، ایک رات یہاں قیام کیا اور پوجا کی۔

    محقق اور تاریخ دان گل حسن کلمتی کراچی کے مندروں سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ رام اور سیتا نے ہنگلاج ماتا کے مندر (ضلع لسبیلہ، بلوچستان) جانے کے سفر میں، درمیان میں کراچی میں مختصر قیام کیا تھا۔ وہ جس جگہ پر ٹھہرے تھے اسے رام باغ کہا جانے لگا، بعد میں اس کا نام آرام باغ کردیا گیا۔

    غالباً اسی مختصر قیام کے دوران شیو مندر میں بھی قیام کیا گیا۔

    بابا گرو نانک کی مراقبہ گاہ

    اس مندر کو سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک سے بھی منسوب کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ الگ تھلگ غار ہونے کی وجہ سے گرو نانک بھی یہاں آیا کرتے اور مراقبہ کیا کرتے۔

    مندر کے اندر موجود چشمہ

    شیو مندر کے اندر ایک چشمہ بھی موجود ہے اور مشہور ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ سے پھوٹنے والا چشمہ، اور مندر کا چشمہ ایک ہی ہے۔

    لیکن کیا یہ مندر واقعی 5 ہزار سال پرانا ہے؟

    آل پاکستان ہندو پنچایت کے جنرل سیکریٹری روی ڈاوانی مندر کی تاریخ کے حوالے سے منطقی بنیادوں پر بات کرتے ہیں۔

    روی ڈاوانی کا کہنا ہے کہ 5 ہزار سال کا عرصہ خاصا طویل ہے، اتنے طویل عرصے تک کسی عمارت کا اس طرح قائم رہنا کہ وہ آج بھی زیر استعمال رہے، ناممکن سا لگتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے روی ڈاوانی نے بتایا کہ سنہ 2014 میں جب کلفٹن انڈر پاس تعمیر ہو رہا تھا تو ہیوی مشینری کے استعمال سے مندر کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگی تھیں اور اس کے منہدم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔

    قدیم برگد کا درخت

    ’تب ہم نے بڑے پیمانے پر اس معاملے پر آواز اٹھائی اور عدالت بھی گئے، ہمارا مطالبہ تھا کہ اس تاریخی مندر کو نقصان پہنچنے سے بچایا جائے۔ اس وقت دنیا بھر کی ہندو کمیونٹی ہماری ہم آواز ہوگئی اور سب نے اس تاریخی مندر کی حفاظت کے لیے زور ڈالا‘۔

    روی ڈاوانی بتاتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر سے ہمیں اس مندر کی تاریخ کے حوالے سے دستاویزات اور کتابیں موصول ہوئیں، ان تمام دستاویزات میں مندر کو 200 سے 500 سال قدیم لکھا گیا ہے، لیکن کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ مندر 5 ہزار سال قدیم ہے۔

    کراچی کے اس مندر کے حوالے سے معروف مصنف اور محقق اقبال اے رحمٰن مانڈویا نے بھی اپنی کتاب اس دشت میں اک شہر تھا میں لکھا ہے، کہ یہ مندر 5 ہزار سال نہیں بلکہ 200 سال پرانا ہے، 5 ہزار سال بہت بڑا عرصہ ہے اور اس عرصے میں موسمی حالات کی وجہ سے تعمیرات میں ٹوٹنے پھوٹنے اور گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

    روی ڈاوانی کہتے ہیں کہ، چونکہ مندر کی مصدقہ تاریخ معلوم ہوچکی تو اس سے جڑی روایات محض داستانیں ہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔

    روی ڈاوانی مندر میں موجود چشمے کے حوالے سے بھی بتاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عام افراد کا ماننا ہے کہ غازی بابا کی درگاہ اور مندر میں موجود چشمہ ایک ہی ہے، تاہم بظاہر ایسا لگتا نہیں ہے۔

    وہ کہتے ہیں کہ درگاہ اور مندر کے درمیانی راستے پر ایک مسجد موجود ہے، اگر ایسا ہوتا تو اس مسجد میں بھی اس چشمے کو ہونا چاہیئے تھا، لیکن وہاں چشمہ موجود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی پانی کے لیے بورنگ کی جاتی ہے تو خاصی نیچے تک کھدائی کرنی پڑتی ہے تب جا کر پانی نکلتا ہے، چنانچہ ہم اس بارے میں لاعلم ہیں کہ یہ چشمہ کہاں سے اور کیسے نکلتا ہے۔

    روی ڈاوانی یہ بھی بتاتے ہیں کہ پہاڑ کے اندر جب کوئی غار بنتا ہے تو اس میں نیچے سخت پتھر اور اوپر مٹی ہوتی ہے، لیکن اس غار میں مٹی نیچے ہے اور اس کے اوپر سخت پتھر ہے، اس مٹی پر یہ غار کس طرح قائم ہے یہ بھی حیران کن اور کسی معجزے سے کم نہیں۔

    وہ کہتے ہیں اس طرح کے مذہبی مقامات جو فطرت کے درمیان قدرتی طور پر بن گئے ہوں دنیا میں چند ایک ہی ہیں اور یہ شیو مندر بھی ان میں شامل ہے۔

    روی ڈاوانی کا کہنا ہے کہ جس طرح سکھوں کے لیے کرتارپور گردوارہ نہایت اہم مذہبی اہمیت کا حامل ہے، بالکل ویسے ہی یہ تاریخی مندر بھی ہندوؤں کے لیے بے حد اہم ہے۔ اگر مناسب انتظامات اور سہولیات فراہم کی جائیں تو دنیا بھر سے عقیدت مند یہاں آئیں گے اور یہاں منائے جانے والے مذہبی تہوار، معاشی اور سیاحتی حوالے سے بھی فائدہ مند ثابت ہوں گے۔


    حوالہ جات:

    قدیم سندھ ۔ بھیرو مل مہرچند آڈوانی

    Historic Temples in Pakistan: A Call to Conscience – Reema Abbasi and Madiha Aijaz