Author: فریحہ فاطمہ

  • ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    کراچی: آپ کے گھر کے پیچھے ایک خوبصورت، صاف ستھرا، نیلا سمندر بہتا ہو، تو آپ کو کیسا لگے گا؟

    کراچی جیسے شہر میں جہاں سال کے 10 مہینے گرمی، اور اس میں سے 6 مہینے شدید گرمی ہوتی ہو، ایسی صورت میں تو یہ نہایت ہی خوش کن خیال ہے۔

    اور اگر آپ اس سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکتے ہوں، تو پھر آپ کو اس جگہ سے کہیں اور جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن ایسا آپ سوچتے ہیں، اس سمندر کنارے رہائش پذیر افراد نہیں۔۔

    کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سومار گوٹھ کا پہلا منظر تو بہت خوبصورت لگتا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، گاؤں کی پشت پر بہتا صاف ستھرا نیلا سمندر، لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں اور لوگوں سے ملتے ہیں، تو بھوک اور غربت کا عفریت پوری طرح سامنے آتا جاتا ہے۔

    صرف 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں میر بحر (مچھلی پکڑنے والے) ذات کے لوگ آباد ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ مچھلی پکڑنا اور اسے بیچ کر اپنی روزی کمانا ہے۔ لیکن گاؤں کی رہائشی 45 سالہ حمیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو مچھلی کھائے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔

    ’ہم ترس گئے ہیں مچھلی کھانے کے لیے، جتنی بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ ہم بیچ دیتے ہیں۔ اس رقم سے تھوڑا بہت گھر کا سامان آجاتاہے جس سے پیٹ کی آگ بجھا لیتے ہیں۔ مچھلی کھانے کی عیاشی کدھر سے کریں‘۔

    گاؤں والے سمندر سے جو مچھلی پکڑتے ہیں اسے 20 سے 30 روپے فی کلو بیچتے ہیں۔ شہروں میں یہی مچھلی 400 سے 500 روپے کلو بکتی ہے۔ شہر لے جا کر بیچنے کے سوال پر حمیدہ بی بی نے بتایا کہ گاؤں سے شہر آنے جانے میں اتنا کرایہ خرچ ہوجاتا ہے کہ 500 کلو مچھلی کی فروخت بھی کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ لہٰذا وہ گاؤں کے اندر ہی اسے بیچتے ہیں۔

    لیکن گاؤں والے آج کل اس سے بھی محروم ہیں۔ سمندر میں بلند لہروں کی وجہ سے 4 مہینے (مئی تا اگست) مچھیرے سمندر میں نہیں جا سکتے اور بقول حمیدہ بی بی یہ 4 مہینے ان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔

    ’گاؤں سے باہر کے لوگ آ کر ان دنوں میں تھوڑا بہت راشن دے جاتے ہیں جس سے کسی حد تک گزارہ ہوجاتا ہے‘۔

    پچھلے کچھ عرصے سے انہی دنوں میں رمضان آرہا ہے جس سے گاؤں والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ’افطار میں کبھی کچھ کھانے کو ہوتا ہے، کبھی صرف پانی سے روزہ کھولتے ہیں‘، حمیدہ بی بی نے بتایا۔

    ’ان دنوں میں کھانے پینے کی اتنی مشکل ہوجاتی ہے کہ ہم بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ہیں تاکہ وہ سارا دن کچھ نہ مانگیں‘۔

    ماہ رمضان میں جہاں لوگوں کی غذائی عادات تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ رمضان میں صحت مند غذا کھاتے ہیں، اس گاؤں کے لوگ اپنی روزمرہ غذا سے بھی محروم ہیں۔ ’کبھی کبھار مہینے میں ایک آدھ بار گوشت، یا پھل کھانے کو مل جاتا تھا، لیکن پابندی کے موسم میں تو ان چیزوں کے لیے ترس جاتے ہیں۔ کبھی کوئی آکر دال، آٹا دے جاتا ہے تو اسی سے گزارا کرتے ہیں‘۔

    گاؤں میں ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ سمندر کنارے واقع یہ گاؤں پینے کے پانی سے محروم ہے۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ وہ لوگ پانی نہ ہونے کے باعث کئی کئی ہفتہ نہا نہیں پاتے۔ پانی سے روزہ کھولنے کے لیے بھی بعض دفعہ پانی نہیں ہوتا۔

    گاؤں میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کاریتاس‘ کے پروجیکٹ ہیڈ منشا نور نے اس بارے میں بتایا کہ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے پہلے ہینڈ پمپس لگوانے کا سوچا۔ لیکن ان ہینڈ پمپس سے سمندر کا کھارا پانی نکل آیا۔ چنانچہ اب وہ پانی ذخیرہ کرنے والے ٹینکس پر کام کر رہے ہیں۔

    سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

    ان کی جانب سے کچھ لوگ آکر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

    ’ہمیں کبھی کسی نے پوچھ کر نہیں دیکھا، نہ کوئی حکومت کا کارندہ، نہ کوئی این جی او کبھی ادھر آئی‘، حمیدہ بی بی نے اپنے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا۔ ’ان 4 مہینوں میں ہم فاقے کرتے ہیں۔ کبھی پانی بہت چڑھ جاتا اور سمندر کنارے واقع ہمارے گھر ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں‘۔

    گاؤں کے لوگ یوں تو سارا سال ہی غربت کا شکار رہتے ہیں، مگر ان 4 مہینوں میں ان کی حالت بدتر ہوجاتی ہے اور وہ امید نہ ہونے کے باوجود فشریز ڈپارٹمنٹ، حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

  • ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    کراچی: گزشتہ برس کراچی میں ماہ رمضان میں پڑنے والی شدید گرمی سے 1 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ گرمی کی یہ شدید لہر جسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے، موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کا ایک نتیجہ تھا۔

    شہر کراچی میں درختوں کی کٹائی، بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر، دن بدن فیکٹریوں اور صنعتوں میں اضافہ اور ان سے نکلنے والے دھویں نے اس شہر کو ساحلی شہر ہونے کے باوجود گرم ترین شہر میں تبدیل کردیا ہے۔

    یہ تبدیلی بہ مشکل 2 عشروں میں وجود میں آئی۔ کراچی والوں کو اب بھی وہ دن یاد ہیں جب شہر میں ہر وقت سمندر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور موسم معتدل رہتا تھا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    گزشتہ برس آنے والی ہیٹ ویو کراچی والوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایسی صورتحال بھی پیش آسکتی ہے اور ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیئے۔ ہوش و حواس بحال ہونے تک 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ 36 ہزار سے زائد افراد اسپتالوں میں داخل ہوگئے۔

    رواں برس کا آغاز ہوتے ہی محکمہ موسمیات اور موسمیاتی ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو دوبارہ آئے گی۔ نہ صرف کراچی میں بلکہ پورے ملک میں ایسی ہی شدید گرمی کی لہریں آئیں گی اور ایک نہیں کئی لہریں آئیں گی جو پورے موسم گرما میں جاری رہیں گی۔

    خوش آئند بات یہ ہوئی کہ موسم گرما کے آغاز سے قبل ہی صوبائی و شہری حکومت متحرک ہوگئی۔ بڑے پیمانے پر ہیٹ ویو کے نقصانات سے بچنے کے انتظامات کر لیے گئے۔ پورے شہر میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے۔ کئی غیر حکومتی تنطیموں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور جگہ جگہ پانی کے اسٹالز اور سایہ دار جگہیں قائم کردیں۔ مارچ اور اپریل میں 400 سے زائد رضا کاروں کو ہیٹ ویو کا شکار افراد کو ہنگامی طبی امداد دینے کی تربیت دی گئی۔

    مزید پڑھیں: کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    ہیٹ ویو سے قبل آگہی مہم بھی بھرپور انداز میں چلائی گئی۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے اندرون سندھ بڑی تعداد میں پمفلٹس تقسیم کیے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی بھرپور آگہی دی گئی یوں گزشتہ برس کی 1000 ہلاکتوں کے مقابلے میں رواں برس اب تک صرف 2 افراد کی ہلاکت دیکھنے میں آئی۔

    رواں برس ماہ رمضان کے آغاز سے ہی محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو سے بھی خبردار کردیا اور یوں شدید گرمی میں روزے رکھ سکنے یا نہ رکھنے کا مسئلہ سامنے آگیا۔ گزشتہ برس بھی علما کی جانب سے روزے میں آسانی کا فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔ شدید گرمی میں روزوں کے بارے میں کیا حکم ہے، اس بارے میں ہم نے مختلف علما سے رائے لی۔

    مزید پڑھیں: ناگپور میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کی انوکھی تدبیر

    مختلف مکتبہ فکر کے علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے افراد جن کی حالت اتنی خراب ہو کہ جان جانے کا خطرہ ہو، روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔

    پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کا اس بارے میں کہنا ہے، ’ڈاکٹرز کے مطابق اگر شدید گرمی سے آپ کی جان جانے کا خدشہ ہو، یا جسمانی طور پر آپ بدتر حالت میں ہوں اور روزہ رکھنے سے اس میں مزید خرابی کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ رمضان میں شدید گرمی کی لہر آنے کی صورت میں کونسل کی جانب سے روزے میں لچک کی ہدایت بھی جاری کردی جائے گی۔

    کیو ٹی وی کے پروگرام ’آسک مفتی‘ میں علامہ لیاقت حسین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’قرآن میں لکھا ہے، ’اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘ اگر جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا، ’جہاں تک ہیٹ ویو کا تعلق ہے تو اس کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ مثلاً دھوپ میں گھر سے نہ نکلیں، زیادہ مشقت والا کام نہ کریں۔ پھر بھی اگر جسمانی حالت اس قابل نہ ہو کہ سارا دن بھوکے پیاسے رہ کر نہ گزارا جا سکے تو روزہ چھوڑ دیں، اور بعد میں اس کا کفارہ دے دیں‘۔

    البتہ انہوں نے صرف ’گمان‘ کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ ’یہ سوچنا کہ تمام احتیاطی تدابیروں کے باوجود میں روزہ رکھنے کے قابل نہیں، غلط ہے اور یہ جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کے مترادف ہے‘۔

    گرمی کے باعث اگر طبیعت خراب ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس بارے میں رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے بتایا، ’جہاں تک برداشت ہوسکے روزہ کو نہ توڑا جائے، لیکن اگر برداشت سے باہر ہوجائے، انسان بے ہوش ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑا جا سکتا ہے۔ اس روزہ کی قضا ہوگی، کفارہ نہیں ہوگا‘۔

    واضح رہے کہ کراچی میں پچھلے 2 دن سے درجہ حرارت 40 کے قریب ہے۔ موسم گرما کے آغاز سے ہی سندھ کے جنوبی حصوں جیکب آباد، لاڑکانہ اور موہن جو دڑو میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزہ دار اس موسم میں مشروبات اور پھلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور مرغن اور چکنائی والی غذاؤں سے پرہیز کریں۔

  • عظیم فلسفی کنفیوشس کے 12 رہنما افکار

    عظیم فلسفی کنفیوشس کے 12 رہنما افکار

    چین کے ایک اہم مذہب کنفیوشس ازم کا بانی کنفیوشس 551 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ وہ ایک فلسفی اور عالم تھا۔ کنفیوشس بچپن ہی سے مالی سختیوں اور نفسیاتی خلا کا شکار رہا۔ 15 سال کی عمر میں اسے سچ اور حق تلاش کرنے کی جستجو ہوئی اور وہ اپنا سارا وقت علم حاصل کرنے میں گزارنے لگا۔ بعد ازاں وہ چین کی ایک معروف جامعہ سے منسلک ہوگیا۔

    کنفیوشس نے ایک نئی فکر کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں کنفیوشن ازم کہلائی، کنفیوشس کے شاگرد اسے کنگ فوزے یعنی استاد کنگ کہتے تھے۔

    کنفیوشس نے 3 ہزار سے زائد افراد کو اپنا شاگرد بنایا۔ ان میں سے 70 سے زائد طالب علموں نے بطور دانشور شہرت پائی۔

    اس عظیم مفکر نے اخلاقیات اور تعلیم پر زور دیا۔ اس نے کئی کتابیں لکھیں جن میں سب سے زیادہ شہرت ’گلدستہ تحریر‘ کو حاصل ہوئی۔ کنفیوشس کا انتقال 479 قبل مسیح میں ہوا۔

    اس کے اخلاقی افکار کی پیروی کرنے والے مختلف ممالک میں موجود ہیں جن میں چین، تائیوان، ہانگ کانگ، مکاؤ، کوریا، جاپان، سنگاپور اور ویتنام شامل ہیں۔

    کنفیوشس کے افکار صرف کنفیوشس ازم کے ماننے والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر مذہب کے پیروکاروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آئیے کنفیوشس کے چند مشہور افکار پڑھتے ہیں۔

    اس شخص سے کبھی بھی دوستی نہ کرو جو تم سے زیادہ اچھا نہ ہو۔

    جب تم غصہ میں آؤ، تو اس کے بعد کے نتائج کے بارے میں سوچو۔

    اگر تم یہ جان جاؤ کہ تم اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتے، تب بھی تم اپنا مقصد تبدیل مت کرو، اپنے اعمال تبدیل کرو۔

    اگر تم نے نفرت کی، تو تم ہار گئے۔

    زندگی میں جو بھی کرو، اسے پورے دل اور دلچسپی کے ساتھ کرو۔

    چین کے شہر کوفو میں کنفیوشس ازم کے ماننے والوں کی عبادت گاہ

    صرف ان لوگوں کی رہنمائی کرو، جو اپنی کم علمی کے بارے میں جانتے ہوں اور اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہوں۔

    چھوٹی چیزوں پر اسراف کرنا بڑے نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔

    چیزوں کا خاموشی سے مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ چاہے کتنی ہی تعلیم حاصل کرلو، اشتیاق اور لگن کو برقرار رکھو۔

    ہر چیز میں ایک خوبصورتی ہوتی ہے، لیکن اسے ہر شخص نہیں دیکھ پاتا۔

    عظمت یہ نہیں کہ کوئی انسان کبھی نہ گرے، بلکہ کئی بار گر کر دوبارہ اٹھنا عظمت ہے۔

    کنفیوشس کی عظمت ڈھائی ہزار سال سے زائد وقت گزرنے کے باوجود برقرار ہے اور اس کے خیالات و افکار تمام لوگوں کے لیے رہنما ہیں۔

  • عظیم باکسر محمد علی کے 10 مشہور اقوال

    عظیم باکسر محمد علی کے 10 مشہور اقوال

    عظیم باکسر محمد علی آج صبح انتقال کر گئے۔ حوصلے اور عزم کا استعارہ محمد علی ایک عظیم کھلاڑی ہی نہیں عظیم انسان بھی تھے۔

    محمد علی ایک درد مند انسان تھے۔ وہ اکثر و بیشتر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھایا کرتے تھے۔ ویت نام جنگ کے دوران محمد علی نے امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد انہیں ان کے اولمپک چیمپئن شپ کے اعزازات سے محروم کر کے 5 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد علی کو سزا سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔

    محمد علی زندگی کو ایک مثبت نظر سے دیکھنے کے عادی تھے۔ ان کے چند مشہور خیالات یقیناً آپ کی زندگی میں بھی تبدیلی لائیں گے۔

    دوستی ایسی چیز نہیں جو آپ کسی تعلیمی ادارے میں سیکھیں، بلکہ اگر آپ نے دوستی کے صحیح معنی نہیں سیکھے، تو آپ نے کچھ نہیں سیکھا۔

    مجھے اپنی ٹریننگ کا ہر لمحہ برا لگتا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ مجھے رکنا نہیں چاہیئے۔ میں ابھی تکلیف اٹھاؤں گا تو ساری زندگی چیمپئن کہلاؤں گا۔

    جو شخص مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا وہ کبھی کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔

    اگر تم مجھے ہرانے کا خواب بھی دیکھو، تو بہتر ہے کہ تم جاگ جاؤ اور اپنے اس خواب کی معافی مانگو۔

    قوم آپس میں جنگیں نقشوں میں تبدیلی لانے کے لیے لڑتی ہیں۔ لیکن غربت سے لڑی جانے والی جنگ زندگیوں میں تبدیلی لاتی ہے۔

    میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کیں، لیکن اگر میں اپنی زندگی میں کسی ایک شخص کی زندگی بھی بہتر کرنے میں کامیاب رہا تو میری زندگی رائیگاں نہیں گئی۔

    جو شخص خواب نہیں دیکھتا، وہ کبھی بھی اونچا نہیں اڑ سکتا۔

    کاش کہ لوگ دوسروں سے بھی ویسے ہی محبت کرتے جیسے وہ مجھ سے کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو دنیا بہت خوبصورت ہوجائے گی۔

    ویت نام کی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرنے کے بعد محمد علی نے کہا، ’یہ مجھ سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ میں یونیفار م پہن کر اپنے گھر سے 10 ہزار میل دور جاؤں، اور کالوں پر گولیاں اور بم برساؤں؟ یہ تو اپنے ہی ملک میں نیگرؤوں سے کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں‘۔

    زندگی بھر ناقابل شکست رہنے والا آج موت سے شکست کھا گیا۔ وہ زندگی کے بارے میں کہتا تھا۔۔

    زندگی بہت چھوٹی ہے۔ ہم بہت جلدی بوڑھے ہوجاتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ یہ ایک احمقانہ بات ہے کہ ہم لوگوں سے نفرت کرنے میں اپنا وقت ضائع کردیں۔

  • ہندوستان کی عظیم تخت نشین خاتون ۔ رضیہ سلطان

    ہندوستان کی عظیم تخت نشین خاتون ۔ رضیہ سلطان

    عورت کو یوں تو کم عقل کہا جاتا ہے۔ اس کا جائیداد میں حصہ بھی کم ہے، اس کی گواہی بھی آدھی ہے، جبکہ اسے کمزور بنا کر مرد کو اس کا محافظ بنایا گیا ہے۔ لیکن اس حقیقت کا کیا کیجیئے کہ یہی محافظ مرد اسی کم عقل عورت کے ہاتھوں مات کھا کر کبھی تخت و تاج کو ٹھوکر مار دیتا ہے، کبھی اپنے ہوش و حواس گنوا بیٹھتا ہے۔

    انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم نے اپنے عشق کو حاصل کرنے کے لیے تاج و تخت کو ٹھکرا دیا۔ انگلستان کا ہی ہنری اپنی پسند کی شادی کرنے لگا تو پوپ اور سلطنت میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ بہادر رومی جرنیل جولیس سیزر مصر کی شہزادی قلو پطرہ کی زلف کا اسیر ہوا اور روم کی ساری دولت اس کے قدموں میں ڈھیر کردی۔ کہا جاتا تھا کہ سیزر کے فیصلوں کے پیچھے قلوپطرہ کی عقل کار فرما تھی۔ روس کی ملکہ کیتھرائن نے ترکی کے عظیم عثمانی حکمرانوں کو شکست دے ان سے تاریخی معاہدہ کوچک طے کیا۔

    روس کی ملکہ کیتھرائن

    ذرا آگے چل کر ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو مغلوں میں اکبر کے ہوش سنبھالنے سے قبل عنان حکومت اس کی ماں حمیدہ بانو بیگم کے ہاتھ میں رہی۔ یہ دور زنانی حکومت کا دور کہلایا۔ ملکہ نور جہاں سے کون نہ واقف ہوگا۔ حسین اور ذہین نورجہاں جہانگیر کواپنے اشاروں پرنچایا کرتی اورسلطنت مغلیہ ان دنوں عملاً نور جہاں کے احکامات سے چلا کرتی۔ اس سے قبل جہانگیر اپنے عہد ولی عہدی میں انار کلی نامی ایک مغنیہ کی زلفوں کے اسیر ہوکر مغل اعظم جلال الدین اکبر سے دو بدو جنگ بھی کرچکے تھے۔

    نور جہاں اور جہانگیر ۔ ایک مصور کی نظر سے

    کتنی ہی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اپنی عقل و ہمت سے تاریخ میں اپنا نام امر کرلیا۔ رضیہ سلطان بھی ایسی ہی ایک حکمران تھی۔

    رضیہ کو ’رضیہ سلطانہ‘ پکارا جانا سخت ناپسند تھا۔ وہ کہا کرتی تھی کہ ’سلطانہ‘ کا مطلب سلطان کی بیوی ہے۔ میں کسی سلطان کی بیوی نہیں بلکہ خود سلطان ہوں لہٰذا مجھے رضیہ ’سلطان‘ کہا جائے۔

    صد حیف کہ ایسی جاہ و حشم والی سلطان آج پرانی دلی میں ایک بے نام قبر میں دفن ہے اور اسکے برابر موجود قبر کا کوئی نام ونشان بھی نہیں۔

    اے آروائی نیوزکے پروگرام ’ادراک‘ کے میزبان فواد خان جب وہاں گئے تو انہیں اداسی، تنہائی اور خاموشی کے سوا وہاں کچھ نہ ملا۔

    انہوں نے سائیکل رکشے پر پرانی دلی کی گلیوں کا دورہ کیا۔ آئیے ہم بھی ان کے ہمراہ ماضی کے جھروکوں میں چلتے ہیں۔

    دلی سے دہلی تک

    بھارت کا دارالحکومت دہلی شاید دنیا کی تاریخ کا واحد شہر ہے جو 17 بار اجڑنے کے بعد بھی ہر بار دوبارہ بس گیا۔ غالب و میر جیسے شاعروں کی رہائش کا اعزاز رکھنے والا دلی حضرت عیسیٰ کے دور سے بھی 6 صدی قبل بسایا جا چکا تھا۔

    مغل شہنشاہ جہانگیر نے اس کی تعمیر نو کی جس کے بعد اس کا نام شاہجہاں آباد پڑگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا پرانا نام تو لوٹ آیا لیکن جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس شہر میں جو اضافہ کیا گیا اس نے دلی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا، نئی دہلی اور پرانی دہلی۔

    دلی کا سفر کرنے والے اکثر افراد اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ دلی اور لاہور کی کئی عمارتوں کا طرز تعمیر ایک جیسا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارتیں مغل بادشاہ شاہجہاں نے تعمیر کروائی تھیں جو تاریخ میں اپنی تعمیرات ہی کے حوالے سے مشہور ہے۔ محبت کی عظیم نشانی اور طرز تعمیر کا شاہکار تاج محل بھی شاہجہاں کا تعمیر کردہ ہے جو اس نے اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔

    آئیے اب پرانی دلی چلتے ہیں۔ گو کہ ہمیں کسی سواری کی ضرورت نہیں مگر فواد خان کو نئی دلی جانے کے لیے سائیکل رکشہ پر سفر کرنا پڑا۔

    پرانی دلی میں داخل ہونے کے لیے کئی دروازے ہیں جن میں سے ایک راستہ ترکمان گیٹ کہلاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے اندرون لاہور میں داخلے کے کئی دروازے ہیں۔

    کراچی کا کھارادر ہو، پرانا لاہور ہو یا پرانی دلی، آپ کو ایک سا منظر دکھائی دے گا۔ احاطوں سے باہر نکلی دکانیں، تنگ گلیاں، پتھارے دار، پرانی عمارتیں، جو سر پر گرتی محسوس ہوتی ہیں۔ پرانی دلی میں الگ چیز ہتھ گاڑی میں سامان کھینچتے مزدور بھی نظر آئیں گے۔

    آپ کو بالی وڈ کی فلم دلی 6 یاد ہوگی جس میں سونم کپور اور ابھیشک بچن نے کام کیا تھا۔ دلی 6 دراصل دلی کا پوسٹل کوڈ ہے۔

    مرزا غالب کی حویلی بھی یہیں پرانی دلی میں ہے۔ محلہ بلی ماراں کی گلی قاسم جان میں غالب کی حویلی موجود ہے۔ گو حویلی تو زمانے کی دست برد کے باعث اپنی شان کھو چکی ہے لیکن اس کے دو کمرے بھارتی حکومت کی مہربانی سے اچھی حالت میں ہیں اور دنیا بھر سے غالب اور اس کی شاعری کے دیوانے یہاں آکر غالب کو تلاشتے ہیں۔

    غالب کی حویلی تو پرانی دلی کے باسیوں کے لیے ایک جانا پہچانا مقام ہے، لیکن وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ اپنے وقت کی حکمران رضیہ سلطان کس مقام پر آسودہ خاک ہے۔ کئی لوگوں سے پوچھنے پر بمشکل کوئی ایک شخص آپ کو صحیح سمت بتا سکے گا۔ لیکن رضیہ سلطان کے مقبرے میں فاتحہ پڑھنے سے پہلے ایک نظر اس کے عروج پر بھی ڈالتے ہیں۔

    ہندوستان کی عظیم تخت نشین عورت ۔ رضیہ سلطان

    دہلی کا پہلا مسلمان بادشاہ سلطان الدین ایبک کا ایک غلام التمش جو اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے صوبہ بہار کا صوبیدار تھا اور بعد ازاں تخت دہلی پر بیٹھا، بلند حوصلہ رضیہ سلطان کا باپ تھا۔ التمش کے ماضی کی وجہ سے یہ خاندان، خاندان غلاماں کہلایا۔ التمش نے بچپن ہی سے اپنی بیٹی میں چھپی صلاحیتوں کو پہچان لیا اور عام شہزادیوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اسے جنگی تربیت اور انتظام سلطنت کی تربیت دی۔ جب اس کی اولادیں بڑی ہوگئیں اور جانشینی کا مسئلہ اٹھا تو التمش نے اپنی بیٹی کو جانشین مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔

    یہ فیصلہ اس نے اپنے بیٹوں کی نا اہلی کی وجہ سے کیا۔ اس کے اس فیصلہ کی اس کے امرا نے بھی مخالفت کی۔ التمش کی موت کے بعد اس کے ایک بیٹے رکن الدین فیروز نے رضیہ کو نظر بند کر کے خود تخت سنبھال لیا اور جلد ہی اپنے جلد باز فیصلوں اور ناقص حکمت عملیوں کے باعث امرا کی حمایت کھو بیٹھا۔ تب امرا کو بھی التمش کے دور رس فیصلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور جب رضیہ اپنے تخت کو واپس حاصل کرنے کے لیے نکلی تو دربار کے امرا، فوج اور عام عوام نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

    رضیہ مردانہ لباس پہن کر تخت پر بیٹھا کرتی۔ یہی نہیں بلکہ وہ بذات خود جنگوں میں شریک ہوکر مردانہ وار لڑتی تھی جس کو دیکھ کر اس کی فوج کے حوصلے بھی بلند ہوجاتے تھے۔ اپنے دور حکومت میں اس نے بے شمار دانشمندانہ فیصلے کیے، عوامی بہبود کے کئی منصوبے شروع کیے اور درباری سازشوں کا ایسی ذہانت سے مقابلہ کیا کہ وہ عوام کی پسندیدہ حکمران بن گئی۔

    اس نے بھٹنڈہ کے حکمران ملک اختیار التونیہ سے شادی کی۔ اس کی شادی کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مؤرخین کے مطابق اس نے اپنے بھائیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے شادی کی۔ بعض کے مطابق وہ التونیہ کی بغاوت کچلنے نکلی لیکن اس کی فوج نے اس سے غداری کی۔ رضیہ کو شکست ہوئی اور اسے قیدی کی حیثیت سے التونیہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ التونیہ پہلے ہی اس کے تیر نظر کا گھائل تھا۔ اس نے رضیہ سے شادی کرلی۔

    شادی کے بعد رضیہ نے اپنا کھویا ہوا تخت دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے وہ اور التونیہ بھٹندہ کی فوج لے کر دہلی کی طرف چلے۔ اس عرصے میں رضیہ کا بھائی معز الدین تخت پر بیٹھ چکا تھا۔ اس جنگ میں رضیہ کو شکست ہوئی۔

    اس کی موت کے بارے میں بھی متضاد معلومات ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ معز الدین نے شکست کے بعد ان دونوں کو قتل کروادیا، بعض کے مطابق اس جنگ میں التونیہ مارا گیا لیکن رضیہ جان بچا کر بھاگ نکلی اور ایک ویرانے میں ایک ڈاکو کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھی۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دونوں کے ساتھ پیش آیا اور شکست کے بعد دونوں جائے پناہ کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے تھے کہ ایک دیہاتی لٹیرے نے انہیں لوٹنے کے بعد قتل کردیا۔

    وجہ موت جو بھی ہو، بہرحال یہ موت ایک عظیم حکمران کے شایان شان نہ تھی۔

    رضیہ کی زندگی کا ایک کردار اس کا حبشی غلام یاقوت بھی تھا۔ وہ التمش کے زمانے سے رضیہ کی حفاظت پر معمور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ رضیہ اس کے عشق میں مبتلا تھی۔ سلطان بننے کے بعد اس نے اسے ایک اونچا عہدہ دے کر دربار کے کئی امرا سے بلند کردیا تھا جسے سخت ناپسند کیا گیا۔ درباری سازشیوں نے اس غلام کے حوالے سے رضیہ کی کردار کشی بھی کی۔ یہ غلام ملک التونیہ کے خلاف بغاوت میں مارا گیا۔

    مؤرخین کے مطابق رضیہ کے زوال کی وجہ اس غلام پر حد سے بڑھی ہوئی عنایتیں تھیں جنہوں نے امرا کو اس سے بدظن کردیا اور عوام میں بھی رضیہ کی ساکھ خراب کردی۔

    رضیہ سلطان کی قبر پرانی دلی میں موجود ہے۔ اس کی قبر کے برابر میں ایک اور قبر موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی سوتیلی بہن کی ہے۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں بے نام قبر میں وہ عورت دفن ہے جس کا نام سن کر کبھی باغی بغاوت سے باز آجاتے تھے۔

    اس کے مقبرے کے احاطے میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے جو ویران ہی رہتی ہے۔

    یہاں کا سناٹا، ویرانی، اداسی اور وحشت دیکھنے والوں کے لیے سبق ہے کہ اقتدار کسی کا نہیں رہتا، موت ہر شخص کو آئے گی، اور کوئی چاہے کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، وقت کی دھول میں مٹ جائے گا۔

  • ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ٹھٹھہ کا شہر گھارو ہے۔ اس مسافت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جن میں سے ایک، 370 لوگوں کی آبادی پر مشتمل گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو بھی ہے۔ ان دو شہروں کے بیچ میں واقع اس گاؤں میں جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کئی صدیوں پیچھے آگئے ہیں۔

    پاکستان کے ہر پسماندہ گاؤں کی طرح یہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ ڈاکٹر نہ اسپتال۔ معمولی بیماریوں کا شکار مریض شہر کے ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گاؤں میں اسکول کے نام پر ایک بغیر چھت والی بوسیدہ سی عمارت نظرآئی۔ اندرجھانکنے پرعلم ہوا کہ یہ گاؤں کے آوارہ کتوں کی پناہ گاہ ہے۔

    یہاں موجود بیشتر گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جان کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے زیادہ ترباسیوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی زندگی میں ایک بار بجلی کا چمکتا ہوا بلب دیکھنا ہے۔

    یہاں کی عورتوں کے مسائل بھی الامان ہیں۔ سر شام جب مہمانوں کو چائے پیش کی گئی تو گاؤں کے تمام مردوں نے تو ان کا ساتھ دیا لیکن خواتین چائے سے دور ہی رہیں۔ ’ہم شام کے بعد چائے یا پانی نہیں پیتے۔‘ پوچھنے پر جواب ملا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ ان کے گاؤں یا خاندان کی کسی قدیم روایت کا حصہ ہے جو صرف خواتین پر لاگو ہوتا ہے لیکن غربت سے کملائے ہوئے چہرے کے اگلے جملے نے میرے خیال کی نفی کردی۔ ’ہم رات کو رفع حاجت کو باہر نہیں جاسکتے۔ اندھیرا ہوتا ہے اور گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ رات کو اکثر سانپ یا کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ لیتا ہے اوریوں رات کو رفع حاجت کے لیے جانے کی پاداش میں صبح تک وہ عورت اللہ کو پیاری ہوچکی ہوتی ہے‘۔

    اب میرا رخ خواتین کی طرف تھا۔ ’میری ایک بہن کو کوئی بیماری تھی۔ وہ سارا دن، ساری رات درد سے تڑپتی رہتی۔‘ایک نو عمر لڑکی نے اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں سنبھالتے ہوئے بتایا۔ ’پیسہ جوڑ کر اور سواری کا بندوبست کر کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اسے گردوں کی بیماری ہے‘۔


    پنتیس سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔


    دراصل گاؤں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ مرد و خواتین رفع حاجت کے لیے کھلی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ خواتین ظاہر ہے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد جب سناٹا ہوتا ہے دو وقت ہی جا سکتی ہیں۔

    مجھے بھارت یاد آیا۔ پچھلے دنوں جب بھارت میں خواتین پر مجرمانہ حملوں میں اچانک ہی اضافہ ہوگیا، اور ان میں زیادہ تر واقعات گاؤں دیہاتوں میں رونما ہونے لگے تو صحافی رپورٹ لائے کہ زیادہ تر مجرمانہ حملے انہی دو وقتوں میں ہوتے ہیں جب خواتین رفع حاجت کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت سناٹا ہوتا ہے اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک اکیلی عورت بھلا ایسے دو یا تین افراد کا کیا بگاڑ سکتی ہے جن پر شیطان سوار ہو اور وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔

    اس کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر دیہاتوں میں باتھ رومز تعمیر کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ نہ صرف سماجی اداروں بلکہ حکومت نے بھی اس طرف توجہ دی لیکن اب بھی بہرحال وہ اپنے مقصد کے حصول سے خاصے دور ہیں۔

    ہم واپس اسی گاؤں کی طرف چلتے ہیں۔ باتھ رومز کی عدم دستیابی کے سبب خواتین میں گردوں کے امراض عام ہیں۔

    گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو کا دورہ دراصل چند صحافیوں کو ایک تنظیم کی جانب سے کروایا گیا تھا جو ان گاؤں دیہاتوں میں شمسی بجلی کے پینلز لگانے، گھروں میں ہینڈ پمپ لگوانے اور گاؤں والوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے مدد اور سہولیات فراہم کرتی ہے۔ گو کہ گاؤں اور اس کے باشندوں کی حالت زار کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ان کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی لیکن اس تنظیم اور اس جیسی کئی تنظیموں اور اداروں کی معمولی کاوشوں سے بھی گاؤں والوں کی زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔

    یہیں میری ملاقات خورشیدہ سے ہوئی۔ 35 سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا اور جب وہ گفتگو کر رہی تھی تو اپنے پر اعتماد انداز کی بدولت وہاں موجود لوگوں اور کیمروں کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔

    چونکہ ذہانت اور صلاحیت کسی کی میراث نہیں لہذاٰ یہاں بھی غربت کے پردے تلے ذہانت بکھری پڑی تھی جو حالات بہتر ہونے کے بعد ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ خورشیدہ بھی ایسی ہی عورت تھی جو اب اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا بھرپور استعمال کر رہی تھی۔

    تمام مرد و خواتین صحافیوں کے سامنے وہ اعتماد سے بتا رہی تھی۔ ’ہم پہلے گھر کے کام بھی کرتے تھے جس میں سب سے بڑا اور مشکل کام پانی بھر کر لانا ہوتا تھا۔ گاؤں کا کنواں بہت دور ہے اور سردی ہو یا گرمی، چاہے ہم حالت مرگ میں کیوں نہ ہوں اس کام کے لیے ہمیں میلوں کا سفر طے کر کے ضرور جانا پڑتا تھا۔ گھر کے کاموں کے بعد ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے تھے جس سے معمولی ہی سہی مگر اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ یہ سارے کام ہمیں دن کے اجالے میں کرنے پڑتے تھے۔ اندھیرا ہونے کے بعد ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے دعائیں مانگنے کے کہ اندھیرے میں کوئی جان لیوا کیڑا نہ کاٹ لے‘۔

    میں نے اس زندگی کا تصور کیا جو سورج ڈھلنے سے پہلے شروع ہوجاتی تھی اور سورج ڈھلتے ہی ختم۔ بیچ میں گھپ اندھیرا تھا، وحشت تھی، سناٹا اور خوف۔ مجھے خیال آیا کہ ہر صبح کا سورج دیکھ کر گاؤں والے سوچتے ہوں گے کہ ان کی زندگی کا ایک اور سورج طلوع ہوا اور سورج کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی روشنی آئی۔ ورنہ کوئی بھروسہ نہیں اندھیرے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔

    خورشیدہ کی بات جاری تھی۔ ’ جب سے ہمارے گھر میں بجلی آئی ہے ہم رات میں بھی کام کرتے ہیں۔ اجالے کی خوشی الگ ہے۔ گھروں میں بھی اب ہینڈ پمپ ہیں چنانچہ پانی بھرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ گئی۔ جو وقت بچتا ہے اس میں ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے ہیں جس سے گھر کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری زندگیوں میں بھی خوشحالی آئی ہے‘۔

    بعد میں خورشیدہ نے بتایا کہ اس نے اپنی کمائی سے ایک موبائل فون بھی خریدا جس سے اب وہ انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس انٹرنیٹ کی بدولت وہ اپنے ہنر کو نئے تقاضوں اور فیشن کے مطابق ڈھال چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے رابطے بھی وسیع کر لیے ہیں اور چند ہی دن میں وہ اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ملبوسات بیرون ملک بھی فروخت کرنے والی ہے۔

     میں نے اپنا اکاؤنٹ بھی کھلوا لیا ہے شہر کے بینک میں۔‘خورشیدہ کی آواز میں آنے والے اچھے وقت کی امید تھی۔ ’گاؤں میں بہت ساری لڑکیاں میرے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ جنہیں سلائی کڑھائی نہیں آتی ہم انہیں بھی سکھا رہے ہیں اور بہت جلد ایک مکان خرید کر ہم باقاعدہ اپنا ڈسپلے سینٹر بھی قائم کریں گے‘۔

    واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ موجود صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ گاؤں کی عورتوں کے لیے پانی بھر کر لانا ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔ بعض حاملہ عورتیں تو راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    مجھے خیال آیا کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، غربت ہو، جہالت ہو، کوئی قدرتی آفت ہو، یا جنگ ہو ہر صورت میں خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جنگوں میں خواتین کے ریپ کو ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے دور کے ظالم و جابر بادشاہوں اور قبائلی رسم و رواج کا دور ہو یا جدید دور کی پیداوار داعش اور بوکو حرام ہو، خواتین کو ’سیکس سلیوز‘ (جسے ہم جنسی غلام کہہ سکتے ہیں) کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا رہا۔

    جنگوں میں مردوں کو تو قتل کیا جا سکتا ہے یا زخمی ہونے کی صورت میں وہ اپاہج ہوسکتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی جرائم انہیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی طور پر بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کسی عورت پر پڑنے والے برے اثرات اس کے پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد جب امن مذاکرات ہوتے ہیں تو اسی صنف کی شمولیت کو انتہائی غیر اہم سمجھا جاتا ہے جو ان جنگوں سے سب زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

  • دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    کراچی: ماہرین کے مطابق دنیا کا مستقبل 5 ’پیز‘ پر مشتمل ہے۔ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک۔ یہ 5 ’پی‘ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف یعنی سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کا حصہ ہیں اور تمام اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی جامعہ این ای ڈی میں سسٹین ایبل ترقیاتی اہداف پر تربیتی ورکشاپ منعقد ہوئی۔ ورکشاپ میں تمام شعبہ جات کے ماہرین، این جی اوز کے نمائندے، سول سوسائٹی کے ارکان اور میڈیا اراکین نے شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    اس موقع پر شہری ترقیاتی امور کے ماہر فرحان انور نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے بارے میں بتایا کہ اقوام متحدہ نے ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز مقرر کیے تھے جن کی مدت 2001 سے 2015 تک تھی۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد اب سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا۔ اب یہ تمام شعبوں اور اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان اہداف کو 5 ’پیز‘ میں تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ ان اہداف کی تکمیل میں آسانی ہو۔ یہ ’پیز‘ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک پر مشتمل ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    ورکشاپ میں کراچی کی ہیٹ ویو بھی موضوع بحث رہی۔ ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کا حصہ ہے۔ کلائمٹ چینج اور ماحولیات کا تعلق سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز میں سے پلینٹ یعنی کرہ ارض سے ہے۔ اس موقع پر پیرس میں ہونے والی کلائمٹ ڈیل بھی زیر بحث آئی جس میں عالمی درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہ کرنے پر 195 ممالک نے اتفاق کیا۔ یہ ڈیل بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت، ماحولیاتی نقصانات، اس کی وجہ سے قدرتی آفات اور قحط یا خشک سالی جیسے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    تمام ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ اس ڈیل پر ہنگامی بنیادوں پر عمل درآمد شروع کیا جائے اس سے پہلے کہ ماحولیاتی نقصانات شدید ہوتے جائیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں پیس دراصل عالمی بھوک، وسائل کی کمی، قحط اور تعلیم کی کمی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ انہی کی عدم فراہمی شدت پسندی کو فروغ دیتی ہے اور القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ایسے ہی محروم لوگوں کو اپنا ہدف بنا کر ان کا برین واش کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    ترقیاتی اہداف میں شامل پروسپیرٹی ڈویلپمنٹ سیکٹر کا احاطہ کرتی ہے۔ پیپل یعنی لوگوں کے اہداف ان کی صحت، تعلیم اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف میں پارٹنرشپ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اب تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہے چاہے وہ ایشیا کے ہوں یا افریقہ کے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی افریقی ملک میں کوئی آفت آئے تو امریکہ یا ایشیا اس سے محفوظ رہے۔ تمام ممالک کو علاقائی سطح پر تعاون کر کے اپنے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔

  • رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی نمائندگی کے بغیر ادھورا ہے۔ کسی شعبہ میں اگر خواتین کی آواز نہیں ہوگی تو اس کا مطلب ہے ہم دنیا کی نصف سے زائد آبادی کے خیالات جاننے سے محروم ہیں۔

    فن و ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اردو شاعری پر یہ الزام ہے کہ اس میں خواتین صرف نسوانی جذبات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے روشناس بھی اسی صورت میں کرواتی ہیں جب ان کا تعلق صنف نازک سے ہو۔

    شاید اس کی وجہ یہ ہے عورت فطرتاً نرم دل اور حساس ہے۔ وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بات تلاش کرلیتی ہے۔ جب زندگی پہلے ہی مصائب سے گھری ہو، ہر طرف دکھ و الم ہو، بم دھماکے ہوں اور خون خرابہ ہو، تو ایسے میں جذبوں سے متعلق بات کرنا مزید مصیبت سے بچا لے گا۔

    ایسا ہی کچھ اظہار کرن شاہ، زینب مواز اور شاہانہ منور نے بھی اپنی پینٹنگز کے ذریعے کیا۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے پڑھنے اور پڑھانے والی تینوں فنکارائیں اپنے فن کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔

    اپنے فن کے بارے میں بتاتے ہوئے زینب مواز کہتی ہیں کہ پینٹنگ اپنے جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ جب میں چھوٹی تھی تو خیالی دنیا میرے رہنے کی پسندیدہ جگہ تھی۔ تب میرے والدین اور ٹیچرز نے فیصلہ کیا کہ آرٹ کے ذریعے میں اپنی اس خیالی دنیا کو حقیقت میں لے آؤں۔

    ان کے کچھ فن پارے تجریدی آرٹ کا نمونہ ہیں۔ یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس کے کیا معنی لیتا ہے۔

    ایک فنکار اپنے ارد گرد کے حالات کا اظہار کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب زینب مواز کا وہ فن پارہ ہے جس میں انہوں نے ایک کوے کو ایک پرندے سے نوالہ چھینتے ہوئے دکھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’کوا خودغرضی، لالچ اور بدفطرتی کی ایک مثال ہے۔ جب قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تو اس نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ انسانوں کی اس بدفطرتی کو علامتی اظہار میں پیش کرنے کے لیے مجھے کوے سے بہتر اور کوئی چیز نہیں لگی۔‘

    البتہ شاہانہ منور اس بات کی نفی کرتی ہیں۔

    ان کے خیال میں زندگی میں بے شمار دکھ، بے شمار مسائل ہیں، تو اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کا آرٹ کے ذریعے اظہار کر کے دوسروں کے مسائل میں اضافہ کرنا نا انصافی ہے۔ کیوں نہ انہیں رنگوں کی خوبصورتی دکھائی جائے تاکہ وہ چند لمحوں کے لیے ہی سہی، لیکن خوشی محسوس کر سکیں۔

    زینب اپنی ایک پینٹنگ کے ذریعے لوگوں کی فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے، ’لوگ بے رحم حد تک نکتہ چیں ہوتے ہیں۔ وہ منصفی کی ایک خود ساختہ کرسی پر بیٹھ کر ہر شخص کو جج کرتے ہیں۔‘ ان کی اس پینٹنگ میں ایک عورت طوطے کو ہاتھ پر بٹھا کر فرصت سے اس میں خامیاں تلاش کر رہی ہے۔

    شاہانہ منور اپنی پینٹنگز میں عورت کی خوبصورتی کو بیان کرتی ہیں۔ ان کے فن پارے ’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘ کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ گہرے اور شوخ رنگوں سے انہوں نے لفظ’عورت‘ میں قید رنگینی، خوبصورتی اور دلکشی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    گہرے رنگوں کو استعمال کرنے والی کرن شاہ اپنے فن کے بارے میں بتاتی ہیں، کہ ان کا مزاج بدلتا رہتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے فن پارے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

    ایک طرف وہ ان فن پاروں کے ذریعے انسانی فطرت کی بدصورتی کو اجاگر کر رہی ہیں تو دوسری طرف شوخ رنگوں سے مزین یہ فن پارے زندگی کے روشن رخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

    یہ تینوں مصورات اپنے اپنے تصورات اور تخیلات کے سہارے فن مصوری کی نئی جہتوں اور نئے جہانوں کی تلاش میں ہیں اور ان کی تصویروں میں استعمال ہونے والے رنگوں کا اعتماد بتاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ تینوں اپنی منزل ضرور حاصل کرلیں گی۔

  • اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو شاعری میں کلاسک کی حیثیت رکھنے والے اس شعر کے خالق حسرت موہانی کی آج 66 ویں برسی ہے۔

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    قیام پاکستان سے قبل جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار، انگریزوں کی غلامی کا دور اور اس کے بعد تحریک پاکستان کا غلغلہ اٹھا تو اردو شاعری حسن و عشق کے قصوں کو چھوڑ کر قید و بند، انقلاب، آزادی اور زنجیروں جیسے موضوعات سے مزین ہوگئی۔ غزل میں بھی انہی موضوعات نے جگہ بنالی تو یہ حسرت موہانی ہی تھے جنہوں نے اردو غزل کا ارتقا کیا۔

    البتہ اس وقت کے بدلتے ہوئے رجحانات سے وہ بھی نہ محفوط رہ سکے اور ان کی شاعری میں بھی سیاست در آئی۔ وہ خود بھی سیاست میں رہے۔ پہلے کانگریس کے ساتھ تھے پھر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

    حسرت موہانی ایک صحافی بھی تھے۔ 1903 میں انہوں نے علی گڑھ سے ایک رسالہ اردو معلیٰ بھی جاری کیا۔ 1907 میں ایک حکومت مخالف مضمون شائع ہونے پر انہیں جیل بھی بھیجا گیا۔

    ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

    ان کا یہ مشہور زمانہ شعر اسی دور کی یادگار ہے۔

    علامہ شبلی نعمانی نے ایک بار ان کے لیے کہا تھا۔ ’تم آدمی ہو یا جن؟ پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بنے اور اب بنیے ہو گئے ہو۔‘ حسرت موہانی سے زیادہ متنوع شاعر اردو شاعری میں شاید ہی کوئی اور ہو۔

    حسرت کی شاعری سادہ زبان میں عشق و حسن کا بہترین مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری کو ہر دور میں پسند کیا جاتا ہے۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے بہترین غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے۔

    بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
    ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

    اردو غزل کو نئی زندگی بخشنے والا یہ شاعر 13 مئی 1951 کو لکھنؤ میں انتقال کر گیا۔

  • کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    کراچی: جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو اب ایک معمول کی بات ہوگی۔ اسے ہوّا بنانے کی ضرورت نہیں۔

    کراچی میں کلائمٹ چینج پر ہونے والے ایک مباحثہ میں کراچی کی ہیٹ ویو کو بھی موضوع بحث بنایا گیا۔ پینل ڈسکشن میں ایڈیشنل کمشنر شاہ زیب شاہ، ڈائریکٹر جناح اسپتال ڈاکٹر سیمی جمالی سمیت مختلف ماہرین نے شرکت کی۔

    آئی بی اے میں ہونے والے اس مباحثے کے موضوعات تو اور بھی تھے لیکن شرکا کی توجہ کراچی کی ہیٹ ویو رہی۔ اسسٹنٹ کمشنر شاہ زیب شاہ نے حکومتی اقدامات کے بارے میں بتایا کہ شہر بھر میں کئی مقامات پر ہیٹ اسٹروک ایمرجنسی سینٹرز قائم کیے جاچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت اس حوالے سے طویل المدتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ اب درخت کٹنے پر ایکشن بھی لیا جارہا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔

    اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق سال 2015 میں ہیٹ ویو کراچی کے لیے بالکل نئی بات تھی۔ چنانچہ اسے سمجھنے اور اقدامات اٹھانے میں وقت لگا اور یوں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ ان کے مطابق اس سال ڈیزاسٹر ریلیف مینجمنٹ کو بھی ہیٹ ویو کے لیے تیار کیا گیا ہے جو پچھلے سال نہیں تھا۔

    شرکا کی جانب سے درخت کٹنے کے سوال پر انہوں نے آگاہ کیا کہ اس ضمن میں ایک ہیلپ لائن 1299 قائم کی جا چکی ہے جس پر اس قسم کی شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔

    جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کے باعث اب ایک معمول کی بات ہوگی۔ اسے ہوا بنانے کی ضرورت نہیں۔ خوف مت پھیلائیں، آگہی پھیلائیں کہ لوگوں کو کیسے بچنا ہے۔

    ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق پچھلے سال کی نسبت اس سال لوگ آگاہ بھی ہیں اور انہوں نے خود ہی حفاظتی انتظامات اختیار کرنے شروع کردیے ہیں۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے بھی نہ صرف آگاہی و شعور پھیلایا جارہا ہے بلکہ عملی اقدامات بھی کیے گئے جیسے پانی کے اسٹالز لگانا اور عوامی جگہوں کو سایہ دار بنانا۔

    ماہر برائے موسمیاتی تبدیلی عباد الرحمٰن نے بتایا کہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں میں اخراج کا صرف 0.6 حصہ ہے۔ کلائمٹ چینج عالمی امن و امان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے اور مستقبل میں یہ شدت پسندی میں کئی گنا اضافہ کرے گا۔