Author: فریحہ فاطمہ

  • فریڈا کاہلو: درد اور اذیت کو رنگوں میں ڈھالنے والی مصور

    فریڈا کاہلو: درد اور اذیت کو رنگوں میں ڈھالنے والی مصور

    امریکی مصنفہ مشل سی ہل سٹورم نے لکھا ہے، درد یا تکلیف، تخیل اور فن کو بڑھاوا دیتا ہے، جو اپنے درد کو گلے لگاتا ہے، وہ اپنے فن کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔

    دنیا میں جتنے بھی فنکار گزرے، ان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی دکھ ایسا ضرور تھا جس نے پوری زندگی انہیں بے چین اور مضطرب رکھا، اور اسی درد، بے چینی اور اضطراب نے انہیں فن کی کسی نہ کسی جہت کی عروج پر پہنچا دیا۔

    میکسیکن آرٹسٹ فریڈا کاہلو کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی گزری جس نے اسے برش اور رنگوں سے جوڑ دیا، اور آج اسے ایک ایسی مصورہ قرار دیا جاتا ہے، جس نے مصوری میں نئی جہت پیش کی۔

    فریڈا 6 جولائی 1907 کو میکسیکو میں پیدا ہوئی، 6 برس کی عمر میں وہ پولیو وائرس کا شکار ہوگئی اور بیماری کے حملے کے باعث وہ کئی ماہ تک بستر پر رہی۔ پولیو نے اسے کم عمری میں معذوری کا شکار بنا دیا۔

    ایک یہی بیماری کافی نہ تھی کہ سنہ 1925 میں 18 برس کی عمر میں فریڈا بس میں سفر کے دوران ایک ہولناک حادثے کا شکار ہوئی، اس حادثے میں وہ مرتے مرتے بچی لیکن اس کی ریڑھ، کولہے، کندھے اور پاؤں کی ہڈیاں ایسی ٹوٹیں کہ وہ ساری عمر ان کے درد میں مبتلا رہی۔

    اس ایکسڈنٹ کے بعد بھی وہ کئی ماہ تک بستر پر رہی، اس دوران اس نے مصوری کے لیے ایک ایزل اپنے بستر کے قریب رکھ لیا اور مصوری کی مختلف تکنیکوں پر کام کرنے لگی۔

    پہلا سیلف پورٹریٹ ۔ سنہ 1926

    صحت یابی کے بعد اس نے باقاعدہ مصوری شروع کردی، اور وہ کہتی تھی کہ مصوری نے میری زندگی کو مکمل کیا۔ اس نے اپنے قریبی دوستوں، اہل خانہ اور مختلف اشیا کی تصاویر بنانی شروع کیں لیکن جس چیز نے دنیا کی توجہ حاصل کی، وہ اس کے سیلف پورٹریٹس تھے۔

    فریڈا نے نہ صرف زندگی کے ہر رنگ، اور خود پر گزرنے والے ہر غم، دکھ درد اور خوشی کے جذبے میں اپنی تصویر کشی کی بلکہ لاشعور سے شعور میں آنے والے ہر بے ربط خیال میں بھی خود کو پیش کیا۔

    اپنے پہلے سیلف پورٹریٹ میں فریڈا نے خود کو سرخ مخملی لباس میں ملبوس دکھایا۔

    19 سال کی عمر میں فریڈا کے پہلے پورٹریٹ کو ایک عام سی نوعمر لڑکی کا شوخ و چنچل تخیل تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس کم عمری میں وہ بہت سی تکالیف جھیل چکی تھی لیکن اس کا مخملی سرخ لباس نوعمری کی خواہشات کا جھلک ضرور دکھاتا ہے۔

    فریڈا زندگی بھر جسمانی تکالیف کا شکار رہی، اور اس سے عارضی نجات کے لیے اس نے آرٹ میں پناہ ڈھونڈ لی تھی۔ اس نے 200 کے قریب پینٹنگز بنائیں، جن میں سے 55 اس کے سیلف پورٹریٹس تھے۔

    وہ کہتی تھی کہ میں خود کو اس لیے پینٹ کرتی ہوں کہ کیونکہ میں تنہا ہوں، کیونکہ یہ وہ واحد انسان ہے جسے میں سب سے اچھی طرح جانتی ہوں۔

    دو فریڈا ۔ سنہ 1939

    اس کی تصاویر میں ایک طرف تو عام زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں نہایت شوخ رنگوں میں دیکھنے کو ملتیں، (غالباً اپنی تکلیف دہ زندگی کو رنگین اور خوبصورت بنانے کی خواہش اس نے اپنی پینٹنگز میں پوری کی)، تو دوسری طرف اس نے غیر حقیقی خیالات یا سریئلزم بھی اپنی تصاویر میں پیش کیا۔

    تاہم اس کا سریئلزم دیگر مصوروں کی طرح بالکل ہی غیر حقیقی اور بے ربط نہیں تھا، بلکہ اس کی زندگی کے تجربات پر ہی مشتمل تھا۔

    اس بارے میں وہ کہتی تھی، کہ مجھے سریئلسٹ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ میں نہیں ہوں، میں خواب پینٹ نہیں کرتی، میں اپنی حقیقت پینٹ کرتی ہوں۔

    فریڈا کو اپنی میکسیکن شناخت اور ثقافت سے بے حد محبت تھی، چنانچہ اس نے اپنی ہر پینٹنگ میں میکسیکن ثقافت کو، اور اپنے ہر سیلف پورٹریٹ میں خود کو روایتی میکسیکن لباس میں پینٹ کیا۔

    سنہ 1929 میں فریڈا نے اس وقت کے معروف میکسیکن مصور ڈیاگو رویرا سے شادی کی۔ یہ تعلق فریڈا کے لیے نہایت ہنگامہ خیز اور اونچ نیچ کا شکار رہا۔ ڈیاگو، فریڈا سے عمر میں خاصا بڑا تھا لیکن دونوں کے نظریات و خیالات ملتے تھے۔

    دونوں نے ایک ساتھ دنیا کا سفر کیا اور اس دوران بہترین پینٹنگز تخلیق کیں، دونوں کمیونسٹ سیاست میں بھی خاصے سرگرم تھے، لیکن ڈیاگو ایک مشکل شخص تھا۔

    فریڈا کاہلو اور ڈیاگو رویرا ۔ ڈیاگو کی بے وفائی فریڈا کی زندگی کا ایک اور دکھ تھا

    دونوں کی شادی 10 سال کا عرصہ چلی جس کے بعد دونوں الگ ہوگئے، لیکن ایک سال بعد ہی دونوں نے دوبارہ شادی کرلی اور پھر یہ تعلق فریڈا کی موت تک قائم رہا، تاہم اس دوران ڈیاگو کی بے وفائی اور بے التفاتی نے فریڈا کو بے حد جذباتی نقصان پہنچایا۔

    اس کے پورٹریٹس، جو اس کے دکھوں کا آئینہ ہیں، اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ڈیاگو سے محبت نے اسے توڑ دیا تھا لیکن وہ پھر بھی اس سے محبت کیے جارہی تھی۔

    وہ کہتی تھی، ڈیاگو کی بیوی ہونا ایک حیرت انگیز تجربہ ہے، اگرچہ وہ کسی ایک کا ہو کے نہیں رہ سکتا، پھر بھی وہ بہت اچھا ساتھی ہے۔

    اس کی دا ٹو فریڈاز نامی پینٹنگ اسی دکھ کی جھلک دکھلاتی ہے جو اس نے اپنی طلاق کے بعد بنائی۔

    اس پینٹنگ میں 2 فریڈا موجود ہیں، ایک فریڈا کا دل زخمی ہے جس سے رستا خون اس کے روایتی لباس کو رنگین کر رہا ہے، یہ فریڈا ایک تکلیف دہ ماضی کا اشارہ ہے۔ دوسری فریڈا جدید لباس میں صحت مند حالت میں ہے جس کے ہاتھ میں ڈیاگو کی ننھی سی تصویر ہے۔

    یہ تصویر اس کی شخصیت اور اس کی خواہش کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ ڈیاگو سے محبت کرتے ہوئے سب کچھ ٹھیک دیکھنا چاہتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ اس محبت سے نہایت اذیت میں ہے۔

    یہ پینٹنگ اس کی انفرادیت، خود مختاری اور جذباتی طور پر مضبوط ہونے کی خواہش، اور اصل میں اس کے ٹوٹ جانے اور محبت میں کسی پر منحصر ہوجانے کی حقیقت کی تصویر ہے۔

    ود آؤٹ ہوپ ۔ سنہ 1945

    فریڈا کی جسمانی خستہ حالی نے اسے زندگی بھر اذیت میں رکھا، 47 سال کی عمر میں موت تک اس کے 30 آپریشن ہوچکے تھے۔ سنہ 1944 میں وہ ایک نہایت تکلیف دہ آپریشن سے گزری جس کی کامیابی سے اس کی صحت یابی کی کچھ امید تھی، لیکن یہ آپریشن ناکام ہوگیا۔

    اس تکلیف کا اظہار فریڈا نے دا بروکن کالم نامی ایک پورٹریٹ پینٹ کر کے کیا، اس پینٹنگ میں فریڈا کے جسم میں جابجا میخیں گڑی ہوئی دکھائی گئیں جو اس کے درد اور اذیت کی طرف اشارہ ہے۔

    ایک اور پینٹنگ ود آؤٹ ہوپ میں اس نے خود کو ہر امید سے مایوس قرار دیا۔ اس پینٹنگ میں وہ اسپتال کے بستر پر ہے جو اس کا تکلیف دہ ساتھی بن چکا ہے۔

    وہ کہتی تھی، تکلیف، خوشی اور موت، کسی وجود کے نمو پاتے رہنے کا حصہ ہے۔ اس عمل سے جدوجہد کرتے اور گزرتے رہنا عقل و خرد کے نئے دروازے کھول دیتا ہے۔

    فریڈا سنہ 1954 میں 47 سال کی عمر میں چل بسی، زندگی بھر جس طرح وہ غم و اندوہ اور تکلیف کا شکار رہی، موت یقیناً اس کے لیے جائے پناہ تھی، اور خود اس نے موت کے لیے کہا تھا، مجھے امید ہے کہ روانگی کا سفر خوش کن ہو، اور مجھے امید ہے کہ اس کے بعد پھر کبھی واپسی نہ ہو۔


    مواد اور تصاویر بشکریہ:
    www.fridakahlo.org

  • سندھ کا پیر پٹھو: محمد بن قاسم سے منسوب ٹاور کی داستان کیا ہے؟

    سندھ کا پیر پٹھو: محمد بن قاسم سے منسوب ٹاور کی داستان کیا ہے؟

    وادیاں، بستیاں اور شہر زندگی کا نشان ہوتے ہیں، یہاں کبھی زندگی اپنے عروج پر ہوتی ہے، ہر چڑھتا دن، ہر نئی صبح ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے جب ان بستیوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگی ان کے لیے کچھ نیا لے کر آتی ہے۔

    لیکن وقت بے رحم ہوتا ہے، وہ ایسی چال چلتا ہے کہ کبھی ویران صحرا آباد ہوجاتے ہیں اور ایسے آباد ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ کبھی صحرا تھا، اور کبھی ایسا وار کرتا ہے، کہ ہنستے بستے شہروں اور وادیوں میں میلوں تک خاموشی اور ویرانی بس جاتی ہے۔

    پیر پٹھو کی وادی بھی ایسی ہی ہے جو اب میلوں تک پھیلا ہوا ایک شہر خاموش لگتی ہے۔

    صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے 119 کلو میٹر کے فاصلے پر مکلی سے جنوب کی طرف پیر پٹھو کی وادی موجود ہے، 120 ایکڑ پر محیط اس وادی میں جابجا مقبرے، مساجد اور قبرستان موجود ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ یہ وادی دراصل وہ دیبل ہے جہاں عرب کمانڈر محمد بن قاسم نے اپنا پڑاؤ ڈالا تھا۔ بعض مقامات پر اس جگہ کو، اور ان بزرگ کو جن کے نام پر یہ وادی ہے، پیر پٹھو دیبلی بھی لکھا گیا ہے۔

    وادی میں جابجا مقبرے، مساجد اور قبرستان موجود ہیں

    اس وادی میں موجود ایک واچ ٹاور، ایک قدیم مسجد اور دو درگاہیں اہم تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔

    ’محمد بن قاسم‘ ٹاور

    پیر پٹھو میں لائٹ ہاؤس کی طرز کا ایک طویل مینار موجود ہے جو محمد بن قاسم سے منسوب ہے، محکمہ سیاحت و ثقافت سندھ کی جانب سے بحالی کے عمل کے بعد اب یہ ٹاور سفید رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔

    ٹاور کی واحد لکڑی کی بالکونی سے پوری وادی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

    محمد بن قاسم سے منسوب ٹاور

    مقامی افراد کا ماننا ہے کہ 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے جس دیبل بندر گاہ نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا تھا، وہ یہی جگہ ہے، تاہم مؤرخین اور تاریخ کے طالب علموں کا خیال ہے کہ یہاں پر کھدائی اور قدیم آثار کی دریافت کے بعد ہی اس حوالے سے مستند طور پر کچھ کہا جاسکتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وادی دریائے سندھ کے کنارے پر موجود تھی، کبھی دریائے سندھ یہاں سے گزرتا تھا تاہم کچھ عرصے بعد دریا نے یہاں سے اپنا راستہ بدل لیا، مقامی افراد کے مطابق جس نوعیت کا یہ ٹاور ہے ایسا عموماً بندر گاہوں پر ہی تعمیر کیا جاتا ہے۔

    ٹاور کی بالکونی

    ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ یہ ٹاور اور مسجد محمد بن قاسم کی آمد سے کئی سو سال پہلے تعمیر کیے گئے تھے۔

    دو محرابوں والی مسجد

    ٹاور کے سامنے ایک قدیم مسجد بھی موجود ہے، تاریخی حوالوں کے مطابق یہ مسجد سموں حکمران جام تماچی کی دی گئی رقم اور ہدایت پر تعمیر ہوئی جو چودہویں صدی میں حکمران رہے۔

    دو محرابوں والی مسجد

    تاہم اسے محمد بن قاسم کی تعمیر شدہ مسجد بھی کہا جاتا ہے، اس مسجد کے بارے میں ایک اور روایت ہے جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔

    صوبہ سندھ کے محکمہ سیاحت و ثقافت کے آرکیالوجیکل انجینیئر سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ اس مسجد کو دو محرابوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔

    مسجد کا اندرونی حصہ

    شیخ پیر پٹھو اور جمیل شاہ داتاری

    پیر پٹھو کی وادی ان دو بزرگان شیخ پیر پٹھو اور جمیل شاہ داتاری کی وجہ سے مشہور ہے، سندھ کی تاریخ سے متعلق کتابوں میں پیر پٹھو کا نام حسن بن راجپار بتایا گیا ہے، ان کی وفات سنہ 1248 عیسوی میں ہوئی۔

    جمیل شاہ داتاری جوناگڑھ سے آئے تھے اور پیر پٹھو کی وادی میں ہی وفات پائی، ان کے سخی مزاج کی وجہ سے انہیں سخی داتار (دینے والا) کے نام سے پکارا گیا۔

    درگاہ جمیل شاہ داتاری کے نگران سید شاہ خالد داتاری ان دونوں بزرگوں سے متعلق ایک روایت سناتے ہیں۔

    درگاہ جمیل شاہ داتار ۔ تصویر: ابو بکر شیخ

    کسی زمانے میں اس وادی میں ایک بڑا جادوگر یا سامی رہا کرتا تھا۔ یہ جادوگر ہر جمعے کے روز (موجودہ) پیر پٹھو کی پہاڑی پر ایک میلہ سجایا کرتا تھا جس میں تمام گاؤں والے شرکت کرتے۔

    میلے کے دوران جادوگر کسی ایک شخص کو پکڑتا اور اس کا خون پی جاتا، ہر جمعے کو گاؤں کے کسی نہ کسی شخص کا قتل معمول بن چکا تھا۔

    گاؤں والے جادوگر سے نہایت دہشت زدہ تھے، وہ جانتے تھے میلے میں جانا ان میں سے کسی نہ کسی کی موت ثابت ہوگا لیکن جیسے ہی جمعے کا روز آتا، سب کے سب ایک تنویمی حالت میں میلے کی طرف چل پڑتے، جادوگر نے ان پر سحر طاری کر رکھا تھا۔

    اس وقت شیخ پیر پٹھو سب سے الگ تھلگ عبادت میں مشغول رہتے۔

    گاؤں والے کئی بار ان کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے فریاد کی کہ وہ انہیں جادوگر سے نجات دلائیں اور ظلم کا یہ سلسلہ ختم ہو، لیکن پیر پٹھو اس شیطان صفت جادوگر کے آگے بے بس تھے۔

    وادی میں بے شمار مقبرے موجود ہیں ۔ تصویر: ابو بکر شیخ

    جب جادوگر کے ظلم و ستم کا سلسلہ دراز ہوگیا اور گاؤں والوں کی آہ و بکا بڑھتی گئی تو پیر پٹھو اس وقت کے صوفی بزرگان دین حضرت بہاؤ الدین زکریا اور حضرت لعل شہباز قلندر کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔

    حضرت بہاؤ الدین زکریا نے انہیں جمیل شاہ داتاری کے بارے میں بتایا جو جونا گڑھ کے ویرانوں میں عبادت میں مصروف تھے۔ شیخ پیر پٹھو کسی طرح وہاں پہنچے اور جمیل شاہ داتاری کو ٹھٹھہ لے کر آئے۔

    سخی داتار نے جادوگر کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔

    شاہ خالد داتاری بتاتے ہیں کہ بعض روایات کے مطابق جادوگر اس کے بعد مسلمان ہو کر سخی داتار کا مرید ہو رہا، لیکن بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ سخی داتار نے جادوگر کو ایک پتھر میں تبدیل کردیا اور اسے تھر پارکر کے لق و دق ریگستان کی طرف پھینک دیا۔

    پیر پٹھو کی وادی اہم تاریخی حیثیت کی حامل ہے

    بعد ازاں مقامی افراد نے شر اور ظلم سے حفاظت کے لیے اس مقام پر مسجد تعمیر کی جس کا نام دو محرابوں والی مسجد ہے۔

    شاہ خالد داتاری کہتے ہیں، اب بھی کسی پر جادو ٹونا کیا گیا ہو، کسی کی کوئی منت ہو، تو وہ یہاں آتا ہے، پریشانی کا حل تو اللہ ہی نکالتا ہے، لیکن ان ولیوں کے صدقے میں لوگوں کی مرادیں بر آتی ہیں۔

    ان دونوں بزرگان کی درگاہوں پر ہر مذہب کے ماننے والے عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے جو اپنی منتیں اور مرادیں لیے یہاں آتے ہیں۔


    اس مضمون کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی:

    مکلی نامہ ۔ میر علی شیر قانع
    قدیم سندھ ۔ بھیرو مل مہرچند آڈوانی

  • عید اور شادیوں کا پہناوا، بنارسی کپڑا کہاں اور کیسے تیار ہوتا ہے

    عید اور شادیوں کا پہناوا، بنارسی کپڑا کہاں اور کیسے تیار ہوتا ہے

    صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے عبدالقدیر گزشتہ کئی دہائیوں سے بنارسی کپڑا بنانے کے کام سے وابستہ ہیں، ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے والد اور دادا کو اس کام سے روزگار کماتے دیکھا تھا اور بعد میں وہ خود بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔

    اب ان کے بیٹے بھی اسی صنعت سے وابستہ ہیں جبکہ خود عبدالقدیر 60 سال کی عمر میں بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    ایک زمانہ تھا جبکہ بنارسی کپڑا ہاتھ کی کھڈیوں پر بنایا جاتا تھا اور عبدالقدیر کے لیے یہ کل کی سی بات ہے، اس وقت بعض اوقات ایک مکمل کپڑا تیار کرنے میں 5 سے 6 دن کا وقت بھی لگ جاتا تھا، اس وقت محنت تو بہت لگتی تھی لیکن جب کپڑا بن کر تیار ہوتا تھا تو اس کی خوبصورتی اور نفاست دیکھ کر ساری محنت وصول ہوجاتی تھی۔

    اب مشینیں آچکی ہیں، مشکل سے مشکل ڈیزائن زیادہ سے زیادہ ایک دن میں تیار ہوجاتا ہے، اب ڈیزائن میں بھی جدت آچکی ہے اور اس کپڑے کی خوبصورتی اور عمدگی میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

    عبدالقدیر جیسے سینکڑوں کاریگر اس وقت کراچی کے اورنگی ٹاؤن بنارس مارکیٹ میں یہ کام کر رہے ہیں جو بنارسی کپڑوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہاتھ کی کھڈیوں سے مشین تک کے سفر میں نہ صرف ان کے لیے آسانی پیدا ہوئی بلکہ ان کے معاشی حالات میں بھی بہتری آئی۔

    عبدالقدیر کئی دہائیوں سے اس کام سے وابستہ ہیں

    سونے چاندی کے تاروں سے پولسٹر تک کا سفر

    بنارسی کلاتھ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے صدر ظفر اللہ انصاری نے اپنی ساری عمر اسی کام میں گزاری ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کبھی بنارسی کپڑے کی بنائی میں سونے اور چاندی کے تار استعمال ہوتے تھے۔ اس وقت بھی اس کپڑے سے بنی ساڑھیاں اور جوڑے احتیاط سے دہائیوں تک پہنے جاتے تھے، اور بالآخر جب کپڑے کا رنگ اور اس کی چمک مدھم پڑجاتی تو خواتین ساڑھی کو جلا کر سونا اور چاندی الگ کرلیتی تھیں اور انہیں احتیاط سے رکھ لیتی تھیں۔

    ’لیکن اب ایک لاکھ روپے سے زائد سونے کی قیمت میں ایسے لباس بنانا خواب و خیال ہوگیا ہے، کم از کم 30 سال قبل تک چاندی کے تاروں کا تو کام ہم نے کیا ہے، لیکن سونے کے تاروں سے متعلق صرف اپنے بڑوں سے سنا ہی ہے۔‘

    ایک طویل عرصے تک کھڈیوں پر کپڑا بنائے جانے کے بعد اب بنارسی کپڑا جدید مشینوں سے تیار کیا جاتا ہے

    ظفر اللہ انصاری کے مطابق خالص ریشم، جس پر بنارسی ڈیزائن تیار ہوتا ہے، جس کیڑے سے تیار ہوتا ہے وہ شہتوت کے درختوں میں پلتا ہے۔ کبھی چھانگا مانگا کے جنگلات ان کیڑوں کی افزائش کا بڑا مرکز تھے۔ یہ کیڑے کوکون پیدا کرتے ہیں جس سے ریشم بنتا ہے، اب ریشم کا یہ مرکز چین ہے جہاں سے کوکون پوری دنیا میں برآمد کیا جاتا ہے۔

    اپنی یادیں کھگالتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ بھارت کے بنارس (موجودہ وارانسی) سے آنے والے کاریگر تو لٹے پٹے آئے تھے، یہاں انہوں نے مقامی بڑھئیوں سے کھڈیاں بنوائیں اور جیسے تیسے کام شروع کیا۔ 60 کی دہائی میں یہ باقاعدہ مارکیٹ قائم ہوئی اور آج یہ پاکستان میں بنارسی کپڑے کا سب سے مرکز ہے۔

    ابتدا میں یہ کام روایتی کھڈیوں پر ہوتا تھا جو وقت اور محنت طلب تھا، پھر آہستہ آہستہ کمپیوٹرز اور مشینوں کا استعمال شروع کردیا گیا جس سے کپڑے کی پروڈکشن میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔

    اب تقریباً 95 فیصد کام مشینوں اور صرف 5 فیصد کھڈی پر ہوتا ہے۔

    مشینوں کی بدولت بنارسی کپڑے کی پروڈکشن میں اضافہ ہوگیا ہے

    کاریگر عبدالقدیر بتاتے ہیں کہ مشینوں سے کام کرنا بہت آسان ہے، کھڈی پر کام کرنے والے تقریباً سب ہی کاریگر جلد اس طریقہ کار کو سیکھ گئے۔ مشینوں کی مدد سے جہاں ڈیزائن میں جدت آئی اور کپڑے کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا، وہیں اس سے حاصل ہونے والا منافع بھی بڑھا، ’کاریگر اور سیٹھ دونوں کو ہی اس سے فائدہ ہوا، لیکن اب خام مال بہت مہنگا ہوتا جارہا ہے جس سے منافع کی رقم میں کمی آرہی ہے۔‘

    اس حوالے سے ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری اظہار احمد انصاری بتاتے ہیں کہ خالص ریشم پر کام کرنے کا تو اب تصور ہی نہیں رہا، یہ قوت خرید سے باہر ہوچکا ہے۔ اب پولسٹر اور نائلون کی آمیزش سے، یا پھر سنتھٹک سلک جسے مصنوعی ریشم کہا جاتا ہے پر کام کیا جارہا ہے۔

    ان کے مطابق باہر سے درآمد شدہ ریشم 15 سے 18 ہزار روپے کلو میں ملتا ہے، دیگر اخراجات اور ٹیکسز الگ ہیں، پھر کووڈ 19 کی وبا کے دوران کاروبار میں کمی آئی، تو ہر صنعت کی طرح یہ صنعت بھی مشکلات کا شکار ہے۔

    بنارسی کپڑا اب اصل سے مصنوعی ریشم پر منتقل ہوچکا ہے

    ظفر اللہ کا کہنا ہے کہ پہلے گھر گھر میں کھڈیاں موجود تھیں تو گھر کے سبھی افراد بشمول خواتین کپڑا بنانے کے کام میں شامل تھیں، چرغے بھرنا، اور کپڑا تیار ہونے کے بعد دھاگے کاٹنے کا کام خواتین ہی کرتی تھیں۔

    اب مشینوں کے لیے زیادہ جگہ چاہیئے تو باقاعدہ کارخانے بن گئے ہیں جس پر عموماً مرد ہی کام کرتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ اب کاریگروں کی نئی نسل نے اس کاروبار کو بھی نئی جہت دی ہے، انٹرنیٹ کے استعمال، مارکیٹنگ کے نئے طریقوں اور اعلیٰ تعلیم کی بدولت نوجوان اس صنعت کو پہلے سے بہتر طور پر چلا رہے ہیں، البتہ کئی نوجوان ایسے بھی ہیں جو اس خاندانی کام کو چھوڑ کر دیگر شعبوں میں کام اور ملازمتیں کر رہے ہیں۔

    کئی نامور برانڈز سستے داموں بنارسی کپڑا خرید کر اسے ڈیزائن کر کے کئی گنا مہنگا فروخت کر رہے ہیں

    بقول ظفر اللہ انصاری، ’بنارس کے کاریگر ایسے ہنر مند ہیں کہ کپڑے پر کسی کی تصویر تک بنا سکتے ہیں، لیکن اب وقت کا تقاضا ہے کہ کم وقت میں زیادہ پروڈکشن کی جائے، سو اب مشینیں مخصوص ڈیزائن بنا رہی ہیں، گو کہ اب اس کپڑے میں بہت جدت آچکی ہے، لیکن اس کی پسندیدگی اور مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور آج بھی شادیاں بنارسی کپڑوں کے بغیر ادھوری ہیں۔‘

  • جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو۔۔ کلاں کوٹ میں بکھری تاریخ توجہ کی منتظر

    جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو۔۔ کلاں کوٹ میں بکھری تاریخ توجہ کی منتظر

    صوبہ سندھ کا شہر ٹھٹھہ ایک طویل وقت تک بادشاہوں کا شہر رہا اور اب بھی ان بادشاہوں کی آخری آرام گاہ ہے، یہاں ان بادشاہوں کی عظمت کے نشان کھنڈرات کی صورت میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔

    مکلی، جسے دنیا کی سب سے بڑی آرام گاہوں میں سے ایک کی حیثیت حاصل ہے، اپنے جنوب میں ایک اور تاریخی مقام رکھتا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ آج ثقافتی ورثے کے عالمی دن کے موقع پر ہم آپ کو اسی مقام کی سیر کروا رہے ہیں۔

    ثقافتی ورثے کا عالمی دن ہر سال 18 اپریل کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد قدیم تہذیبوں کی ثقافت اور آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا اوراس کے بارے میں آگاہی و شعور اجاگر کرنا ہے۔

    کلاں کوٹ کا تاریخی قلعہ

    مکلی سے 10 کلو میٹر کے فاصلے پر حوادث زمانہ کا شکار کھنڈرات بتاتے ہیں کہ یہاں کبھی ایک عظیم الشان قلعہ ہوا کرتا تھا جسے تاریخ میں کلاں کوٹ، کلیان کوٹ، تغلق آباد اور طغرل آباد کہا جاتا رہا۔ یہ کھنڈرات 30 سے 32 ایکڑ پر محیط ہیں۔

    اس قلعے کی تعمیر کب ہوئی، اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، تاہم مؤرخین کی مقبول رائے کے مطابق اس کی تعمیر رائے خاندان کے دور میں ہوئی، یہ خاندان 489 عیسوی سے 632 عیسوی کے دوران سندھ میں حکمران رہا اور یہ گھرانہ بدھ مت کا پیروکار تھا۔

    قلعے کے اندر موجود مسجد

    یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر سولہویں صدی میں ہوئی۔

    صوبہ سندھ کے محکمہ سیاحت و ثقافت سے وابستہ آرکیالوجیکل انجینیئر سرفراز نواز بتاتے ہیں کہ جب یہ قلعہ آباد تھا تب اسے کشمیر سے تشبیہہ دی جاتی تھی، اس کے آس پاس کا ماحول ہی کچھ ایسا تھا، قلعے کے ساتھ ایک سحر انگیز جھیل، ان کے کنارے درختوں کی لمبی قطاریں اور دور دور تک خوبصورت باغات، لیکن اب یہ سب قصہ ماضی بن چکا ہے۔

    اس وقت اس قلعے کی دیواریں ڈھے چکی ہیں، اگر آثار باقی ہیں تو صرف قلعے کے اندر موجود مسجد کے، تالابوں کے، اور قلعے سے باہر خوبصورت جھیل کے جو سرفراز نواز کے مطابق ایک منافع بخش ٹورسٹ اسپاٹ بن سکتی ہے۔ مغربی حصے میں ایک مسمار شدہ مندر کے آثار بھی موجود ہیں۔

    قلعے کے باہر جھیل

    قلعے کے اندر سرخ اینٹوں سے بنے 4 تالاب موجود ہیں جو مؤرخین کے مطابق دشمن کے حملے کو پیش نظر رکھ کر بنائے گئے تھے کہ قلعہ بند ہونا پڑے تو یہ تالاب اندر موجود افراد اور جانوروں کی پانی کی ضروریات پوری کرسکیں۔ ان تالابوں کے خالی گڑھے اب خودرو پودوں کا مسکن ہیں۔

    سرفراز نواز بتاتے ہیں کہ چونکہ پورا قلعہ تو تقریباً ڈھے چکا تھا البتہ مسجد کی دیواریں موجود لیکن خستہ حال تھیں چنانچہ محکمے کی زیر نگرانی اس پر کام کروایا گیا، دیواروں کے اندر پانی رس رہا تھا لہٰذا ان پر کوٹنگ کی گئی اور بنیادوں پر کام کیا گیا۔

    مسجد کے اندر منبر کے آثار بھی موجود ہیں جس پر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔

    منبر

    سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ ٹھٹھہ میں نوٹیفائی کی گئی تمام تاریخی سائٹس جن میں قبرستان، قلعے اور مساجد وغیرہ شامل ہیں، انہیں کم از کم مرمتی ‘فرسٹ ایڈ’ دی جاچکی ہے جن میں کلاں کوٹ بھی شامل ہے۔

    محکمے کی جانب سے کلاں کوٹ میں نوٹس بورڈز اور ہسٹری بورڈز لگوائے گئے ہیں جبکہ اس سائٹ کو جیو ٹیگ بھی کیا گیا ہے، علاوہ ازیں کلاں کوٹ کی طرف جانے والا راستہ جو نہایت خستہ حال تھا، اسے بھی خاصی حد تک بنوایا گیا ہے۔

    قلعے کے باہر مغربی حصے میں ایک مندر کے بھی کھنڈرات موجود ہیں، سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ غالباً کسی زلزلے کی وجہ سے ایک ٹوٹی پھوٹی دیوار کے علاوہ پورا مندر ڈھے چکا ہے، اب بھی ہندو عقیدت مند یہاں حاضری دیتے ہیں جس کا ثبوت پتھروں پر جابجا لگا سرخ سندور ہے۔

    مندر کی واحد مخدوش دیوار

    سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ لوک داستانوں کے مطابق کلاں کوٹ میں ایک سانپ کا بسیرا ہے جو کسی خزانے کی حفاظت پر معمور ہے، ’لیکن اصل خزانہ تو یہ تمام کھنڈرات خود ہیں جنہیں کسی قیمتی اثاثے کی طرح سنبھال کر رکھا جانا چاہیئے اور اگلی نسلوں تک اس کی عظمت و اہمیت پہنچانی چاہیئے‘۔

  • سنہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی کمی کا شکار ہوجائے گی

    سنہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی کمی کا شکار ہوجائے گی

    آج دنیا بھر میں عالمی یوم آب منایا جارہا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر آبی ذخائر میں خطرناک کمی آتی جارہی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کو زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) سے منسوب کیا گیا ہے، زمین کے نیچے موجود پانی، سطح پر موجود پانیوں کی روانی کو برقرار رکھتا ہے اور زراعت اور شجر کاری کے پھلنے پھولنے میں مدد دیتا ہے۔

    زیر زمین پانی ۔ مال مفت دل بے رحم

    گزشتہ چند دہائیوں میں سطح پر موجود پانی کی کمی کی وجہ سے، بے تحاشہ زیر زمین پانی نکالا جاچکا ہے جس کے باعث اب اس کی کمی واقع ہونے لگی ہے۔

    اقوام متحدہ انوائرنمنٹ پروگرام کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی انسانوں، جانوروں اور نباتات کے لیے فراہمی آب کا اہم ذریعہ ہے لیکن اس کا بے تحاشہ اور غیر محتاط استعمال باعث تشویش ہے جبکہ انسانی سرگرمیاں اسے آلودہ بھی کر رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کسی شہر میں کئی دہائیوں تک زمینی پانی یعنی گراؤنڈ واٹر نکالا جاتا رہے تو اس شہر کی زیر زمین سطح کسی حد تک کھوکھلی اور غیر متوازن ہوجاتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت جنوبی ایشیا میں زراعت کے لیے استعمال ہونے والا 90 فیصد پانی زمین سے نکالا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر ممالک میں کنویں اور دیگر آبی ذخائر خشک ہوتے جارہے ہیں۔

    پاکستان میں بھی دیہی علاقوں میں پینے کا 90 فیصد پانی زیر زمین ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ دیگر ملک میں یہ شرح 70 فیصد ہے، علاوہ ازیں زراعت میں استعمال ہونے والا 50 فیصد پانی بھی زمین سے نکالا جاتا ہے۔

    پاکستان زراعت کے لیے زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں اس وقت 12 لاکھ سے زائد ٹیوب ویلز زمین سے پانی کھینچ رہے ہیں۔

    زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے کا قدرتی ذریعہ باقاعدگی سے بارشیں ہونا ہے تاہم بدلتے ہوئے موسموں یا کلائمٹ چینج کی وجہ سے بارشوں کے پیٹرنز میں تبدیلی اور کمی اس اضافے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

    واٹر ایڈ پاکستان کے مطابق زیر زمین پانی کی بحالی کے، جسے ری چارج کرنا کہا جاتا ہے اور بھی کئی طریقے ہیں جن میں سائنسی بنیادوں پر سسٹمز انسٹال کیے جاتے ہیں، علاوہ ازیں سینی ٹیشن کا پانی بھی ٹریٹ کرنے کے بعد زمین میں بھیجا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کے لیے سب سے بڑا خطرہ اس کا بے قاعدہ اور بے تحاشہ استعمال ہے، پاکستان میں بغیر کسی قواعد و ضوابط کے زیر زمین پانی استعمال کیا جارہا ہے اور صوبائی و وفاقی حکومتیں اس ضمن میں تاحال کوئی جامع پالیسی اور قوانین مرتب کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

    بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ملک میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے جس سے قلت آب کے دہانے پر کھڑا ملک مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔

    پاکستان میں پانی کی مجموعی صورتحال

    زیر زمین پانی کے علاوہ بھی ملک میں پانی کی مجموعی صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے طے کردہ معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    دوسری جانب یونیسف کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی یعنی 4 ارب افراد قلت آب کا شکار ہیں، 2 ارب افراد پانی کی کمی کا شکار ممالک میں رہتے ہیں، جبکہ سنہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی شدید کمی کا شکار ہوجائے گی کیونکہ ان کے علاقوں، شہروں یا ممالک میں پانی کی کمی یا خشک سالی واقع ہوسکتی ہے۔

    زیر زمین پانی کی کمی زلزلوں کا سبب بھی بن سکتی ہے

    سائنٹفک جنرل نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق زیر زمین پانی کی کمی زلزلوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں قلت آب کے پیش نظر کی جانے والی اس تحقیق میں علم ہوا کہ ریاست کی زراعتی پٹی کو زیر زمین پانی فراہم کرنے کی وجہ سے سین انڈریس فالٹ لائن متحرک ہوسکتی ہے جس سے زلزلوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ پانی کی کمی زمین کی اندرونی سطح میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے جس سے زمینی ارتعاش یعنی زلزلوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • وہ عظیم خاتون ریاضی دان، جو سیاسی و مذہبی اختلاف کی بھینٹ چڑھ گئی

    وہ عظیم خاتون ریاضی دان، جو سیاسی و مذہبی اختلاف کی بھینٹ چڑھ گئی

    یہ سنہ 415 عیسوی کا زمانہ ہے، عظیم رومی سلطنت رفتہ رفتہ اپنے زوال کی جانب بڑھ رہی ہے، سلطنت کے رومی صوبے کے شہر اسکندریہ کی گلیوں میں خوف اور بے یقینی کے سائے ہیں۔

    صوبے کے گورنر اور مقامی بشپ (پادری) کے درمیان سیاسی اختلافات عروج پر ہیں، ایک دوسرے پر حساس نوعیت کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں، اور اس کا نتیجہ مذہبی فسادات کی صورت میں نکل رہا ہے۔

    اختیارات کے حصول کے لیے نظریاتی اختلاف سے شروع ہونے والا یہ جھگڑا، شہر کی ایک معروف شخصیت پر جادو ٹونے کے الزام پر ختم ہوا اور اس کا بھیانک نتیجہ اس شخصیت کی مشتعل مسلح پادریوں کے ہاتھوں بہیمانہ موت کی صورت میں نکلا۔

    یہ شخصیت اس وقت کی ایک معروف فلسفی، مدبر اور استاد ہائپشیا تھی جو یہ مقام اور حیثیت حاصل کرنے والی اس دور کی واحد عورت تھی۔

    ہائپشیا نے جو کچھ تحریر کیا وہ محفوظ نہ رہ سکا، چنانچہ اس کے شاگردوں اور ہم عصروں نے اس کے بارے میں جو لکھا، اس سے علم ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کی ریاضی دان، ماہر نجوم، اسکالر اور فلسفی تھی۔

    اس وقت یہ مقام کسی اور عورت کو حاصل نہ تھا، ہائپشیا نے اس وقت کے معاشرے کے مروجہ روایتی صنفی اصولوں سے بغاوت کر کے یہ مقام حاصل کیا تھا۔ اس کے نظریات اور سوچ اس وقت سے کہیں آگے کے تھے، اور ستم ظریفی دیکھیئے کہ اپنے نظریات اور علم ہی کی وجہ سے اسے ایسی دردناک موت نصیب ہوئی، کہ اس کے بعد علم و فنون کا مرکز شہر اسکندریہ بنجر ہوگیا۔


    سنہ 355 (سے 360 کے درمیان) اسکندریہ میں، جو اس وقت رومی سلطنت کا اہم شہر اور علم و ادب اور تخلیقی سرگرمیوں کا مرکز تھا، یونانی ریاضی دان تھیان کے گھر ایک بچی نے آنکھ کھولی۔

    تھیان ایک ریاضی دان اور ماہر نجوم تھا جبکہ اس کی بیوی ایک عام روایتی گھریلو عورت تھی، تاریخ اس کے نام سے بھی واقف نہیں۔

    ہائپشیا تھیان کی اکلوتی اولاد تھی چنانچہ تھیان نے اسے نہایت ناز و نعم سے پالا اور خود اس کی تعلیم و تربیت کی۔ بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہائپشیا ریاضی اور علم نجوم کی مہارت میں اپنے والد کو بھی پیچھے چھوڑ چکی تھی۔

    اس کی ذہانت اور مختلف علوم پر مہارت نے جلد ہی اسے شہر میں مقبول کردیا، اور بالآخر وہ شہر کی سب سے بڑی درسگاہ کی سربراہ بنا دی گئی۔ وہ اس عہدے تک پہنچنے والی واحد عورت تھی۔

    بعد ازاں وہ شہر کی شوریٰ کی رکن بھی رہی۔

    وہ درسگاہ جس نے دنیا کی دانشورانہ تاریخ کا تعین کیا

    اس عظیم درسگاہ میں دوران تدریس ہائپشیا نے نئے انداز سے تعلیم دینا شروع کی۔ اس نے اس وقت استعمال ہونے والے سائنسی آلات و اصولوں میں جدت پیدا کی، ریاضی کی تقسیم مرکب (لانگ ڈویژن) کے لیے مؤثر طریقہ تیار کیا اور جدید اصولوں پر وضع کردہ ریاضی کی کئی کتابیں لکھیں۔

    تاہم مؤرخین کا ماننا ہے کہ علمی و ادبی طور پر ہائپشیا کی سب سے بڑی خدمت اس کا انداز تدریس تھا۔

    وہ فلسفہ جس کی تعلیم ہائپشیا نے دی، ارسطو، افلاطون، پلوٹینس اور فیثاغورث کے فلسفیانہ ورثے سے اخذ شدہ تھا۔ ان نظریات نے باہم ایک مکتبہ فکر تشکیل دیا جس کو نو افلاطونیت یا نیو پلیٹنزم کہا جاتا ہے۔

    اس کے ماننے والے مفکرین کے لیے ریاضی ایک روحانی پہلو کی حامل تھی، جو چار شاخوں میں منقسم تھی، یعنی علم اعداد یا ریاضی، جیومیٹری، فلکیات اور موسیقی۔

    ان مضامین کا مطالعہ صرف اس لیے نہیں کیا جاتا تھا کہ انہیں پڑھا جائے اور ان کا عملی استعمال کیا جائے، بلکہ ان مضامین نے اس عقیدے کی تصدیق کی تھی کہ اعداد دراصل کائنات کی مقدس زبان ہیں۔

    الجبری فارمولوں اور ہندسی اشکال کے نمونوں، سیاروں کے مداروں، اور موسیقی کی آوازوں کے ہم آہنگ وقفوں میں ان مفکرین نے ایک عقلی کائناتی قوت کو روبہ عمل دیکھا۔

    طلبا اس منظم دنیا پہ غور و فکر کرتے اور ایک اعلیٰ وحدانی قوت کے ساتھ جڑنے اور اسے جاننے کی کوشش کرتے۔

    دنیا کے دور دراز حصوں سے یہودی اور عیسائی مذہب کے ماننے والے طلبا، اور وہ بھی جو کسی مذہب کے پیروکار نہیں تھے، اس درسگاہ میں آتے اور یہاں علم کے موتیوں اور ہائپشیا کی دانشورانہ صحبت سے فیض یاب ہوتے۔

    ہائپشیا اس وقت کسی مذہب کی ماننے والی نہیں تھی، اور نہ وہ کسی دیوتا کی عبادت کرتی تھی۔ اس کے خیالات مختلف مذہبی نکتہ نظر کا مجموعہ تھے، چنانچہ کٹر مذہبی افراد اسے ملحد قرار دیتے تھے۔

    اس نے وہاں ایک غیر جانبدار اور مذہبی ہم آہنگی رکھنے والا ماحول پروان چڑھایا تھا جہاں سب ایک دوسرے کے مذہب، نظریات اور خیالات کا احترام کرتے، اور نہایت سکون سے رہتے۔

    دوسری طرف درسگاہ سے باہر شہر میں مذہبی و سیاسی رسہ کشی عروج پر تھی، سلطنت میں حال ہی میں عیسائیت کو سرکاری مذہب کا درجہ دیا گیا تھا۔

    شہر کے سیاسی حالات

    سنہ 415 عیسوی میں شہر کا مقامی بشپ سرل اپنے عہدے پر براجمان ہوتے ہی اپنے اختیارات کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کرتا جارہا تھا۔ وہ ایک کٹر مذہبی بشپ تھا چنانچہ اس نے عیسائی پادریوں کی باقاعدہ ملیشیا تیار کرلی اور انہیں یہودی آبادیوں اور ایسے مقامات پر حملے کرنے کا حکم دے دیا جہاں کسی مذہب کے نہ ماننے والے یا معتدل خیالات کے حامل افراد اپنی رسومات انجام دیتے تھے۔

    بشپ سرل کے اپنے اختیارات سے تجاوز کی کوششیں صوبے کے گورنر اوریسٹس کے عہدے کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اوریسٹس معتدل خیالات رکھنے والا شخص تھا تاہم سرل مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا تھا اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

    عام لوگ بھی دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتے تھے۔

    ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے دونوں جانب سے اب تک کئی انتہا پسندانہ اقدام اٹھائے جا چکے تھے، ایک بار بشپ نے گورنر کے قتل کے ارادے سے ایک راہب کو اس کے پیچھے روانہ کیا، گورنر اس وقت ایک عوامی تقریب میں شرکت کے لیے جارہا تھا۔

    گورنر کے محافظوں اور حامیوں نے اس راہب کا ارادہ جان کر اسے پکڑ لیا جس کے بعد گورنر کی ہدایت پر اسے مجمعے نے تشدد کا نشانہ بنایا، بعد ازاں اس راہب کی موت واقع ہوگئی۔

    سرل نے اس راہب پر لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نے اپنے بغض میں اس پر تشدد کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ سرل نے اس راہب کو ایک عظیم مقصد اور اپنے نظریات کے لیے جان دینے والا شہید قرار دیا جس کے بعد اس کی آخری آرام گاہ مقدس مقام میں بدل گئی۔

    اس اقدام نے گورنر اور اس کے حامیوں میں مزید بے چینی پیدا کردی۔

    ہائپشیا اس جھگڑے میں کیونکر شامل ہوئی؟

    اس وقت ہائپشیا شہر میں ایک غیر جانبدار، مدبر اور ساتھ ہی با اثر شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھی، اس کے کئی شاگرد اعلیٰ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور اب ان میں سے اکثر مختلف حکومتی عہدوں پر براجمان تھے۔

    گورنر ہائپشیا سے ملا اور اس سے مشورہ طلب کیا، ہائپشیا نے اسے صبر اور تحمل سے کام لینے کی ہدایت کی۔

    بعض مؤرخین کے مطابق ہائپشیا نے گورنر کو اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹے رہنے کی ہدایت کی جس سے گورنر کو شہ ملی، ورنہ وہ سرل سے مذکرات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ شہر کی ایک نمایاں شخصیت اور اس کے ذریعے اعلیٰ طبقے کی حمایت کے بعد گورنر نے مصالحت کا ہر ارادہ مؤخر کردیا۔

    اس دوران کئی بار دونوں کے آدمی آپس میں گتھم گتھا بھی ہوئے جن میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

    ایک دن ایسے ہی ایک مسلح ٹکراؤ میں جب پادریوں کی ملیشیا نے گورنر کے قافلے پر حملہ کیا، تو گورنر شدید زخمی ہوگیا، گورنر کے آدمیوں کے تشدد سے ایک اور راہب ہلاک ہوا۔

    چونکہ شہر میں کچھ روز قبل گورنر اور ہائپشیا کی ملاقات کی بازگشت تھی تو اس بار سرل نے ہائپشیا کو بھی اس جھگڑے میں شامل کرلیا۔ سرل نے اسے حالیہ واقعے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ہائپشیا جادو گرنی ہے اور اس نے جادو ٹونے کے ذریعے گورنر کو عیسائیت سے متنفر کردیا ہے۔

    اب شہر میں ہائپشیا کے خلاف بھی نفرت کی آگ بھڑکائی جانے لگی، اور پھر وہ دن آ پہنچا جس دن وحشت و بربریت کی خونی تاریخ رقم ہوئی۔

    سنہ 415 عیسوی میں ایک روز جب ہائپشیا اپنے رتھ پر شہر کے اندر سفر کر رہی تھی، جنونی مسلح پادریوں نے اس کا گھیراؤ کرلیا۔ اسے رتھ سے گھسیٹ کر قریبی چرچ میں لے جایا گیا اور مذہبی جنونیوں نے بہیمانہ تشدد کر کے اسے ہلاک کردیا۔

    مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس کی بے حرمتی بھی کی گئی جبکہ لاش کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر کے جلا دیا گیا۔

    ہائپشیا کی دردناک اور بہیمانہ موت اسکندریہ کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی، گورنر اوریسٹس نے دلبرداشتہ ہو کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور شہر چھوڑ کر چلا گیا۔

    شہر کی تخلیقی و کشادگی کی فضا پر بے یقینی کے سائے چھانے لگے تو ہائپشیا کی درسگاہ بھی آہستہ آہستہ خالی ہونے لگی، مختلف شہروں سے وہاں آئے ہوئے یونانی و رومی اسکالرز شہر چھوڑ کر جانے لگے اور جلد ہی شہر اسکندریہ جو علم و ادب کا گہوارہ تھا، اپنی حیثیت کھو بیٹھا۔

    مؤرخین کا کہنا ہے کہ اقتدار اور سیاست پر مبنی اس جھگڑے میں ہائپشیا جیسی دانشور، فلسفی اور استاد کی موت، اور وہ بھی ایسی بہیمانہ موت عظیم رومی سلطنت کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے، جس نے اس عظیم الشان سلطنت کی تخلیقی اور دانشورانہ تاریخ کو گہنا دیا ہے۔


    اس مضمون کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

    Britannica.com

    Greekreporter.com

    National Geographic / History and Culture

    تصاویر بشکریہ:

    TED-Ed

  • مصنوعی ذہانت ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے کیسے بچا سکتی ہے؟

    مصنوعی ذہانت ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے کیسے بچا سکتی ہے؟

    کووڈ 19 کی وبا نے دنیا بھر میں جہاں ایک طرف تو طبی ایمرجنسی نافذ کردی، وہیں اس وبا کے دوران دنیا کے طبی نظام میں موجود خامیوں کی بھی نشاندہی ہوئی۔ یہ وبا مختلف ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے طبی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور اصلاحات کرسکیں۔

    اس مقصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر مصنوعی ذہانت کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت میڈیکل ریسرچ اور طبی اصلاحات میں کس طرح مددگار ثابت ہورہی ہے، اس حوالے سے محمد عثمان طارق کچھ اہم سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔

    محمد عثمان طارق فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکول آف کمپیوٹنگ اینڈ انفارمیشن سائنسز سے وابستہ ہیں، ان کی تحقیق آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے مختلف امراض کی تشخیص اور اس کے علاج کے گرد گھومتی ہے۔

    محمد عثمان طارق بتا رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کس طرح پرسنلائزڈ میڈیسن کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کی قوت مدافعت اور دواؤں پر اس کے جسم کے ردعمل کے حساب سے دوا تیار کی جائے تاکہ مریض کے صحت یاب ہونے کا امکان بڑھ جائے۔

    اس سوال پر، کہ کیا ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے ویکسینز بھی تیار کی جاسکیں گی؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کیونکہ ویکسین بھی ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے مختلف اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

    اس کی حالیہ مثال کرونا ویکسین کی ہے جس نے کچھ افراد پر ویسے اثرات مرتب نہیں کیے جس کی توقع کی جارہی تھی، گو کہ یہ شرح خاصی کم ہے، تاہم اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    محمد عثمان طارق نے اس اہم سوال پر بھی روشنی ڈالی کہ جب مختلف شعبے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے جارہے ہیں، تو ایسے میں مصنوعی ذہانت سے ہونے والی کوئی غلطی یا غلط فیصلے کا ذمہ دار کون ہوگا اور اسے کیسے درست کیا جاسکے گا۔

    انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو بڑے پیمانے پر استعمال کیے جانے کے باجود اب بھی حتمی فیصلہ انسانی ذہانت ہی کرتی ہے۔

    عثمان طارق کے مطابق جیسے جیسے اس کا استعمال بڑھتا جائے گا، ویسے ویسے اس بات کی ضرورت بھی پڑے گی کہ اس کے استعمال کے حوالے سے ضوابط اور قوانین طے کیے جائیں تاکہ اس کے نقصان کی شرح کم سے کم کی جاسکے۔

  • جھلستے ہاتھ، لڑکھڑاتی سانسیں: کنری کی مرچ منڈی کے محنت کشوں کا احوال

    جھلستے ہاتھ، لڑکھڑاتی سانسیں: کنری کی مرچ منڈی کے محنت کشوں کا احوال

    کنری، سندھ: 28 سالہ شاد بی بی فصل سے مرچیں توڑنے میں مصروف ہیں، ان کے ساتھ ایک کمسن بچی، ایک شیر خوار بچے کو گود میں لیے موجود ہے۔ شیر خوار بچے نے رونا شروع کیا تو کچھ دیر بعد شاد بی بی نے مرچوں والے ہاتھوں سے ہی بچے کو اٹھایا اور اسے دودھ پلانے لگیں۔

    ماں کے مرچ والے ہاتھ بچے کے چہرے پر لگے تو اس کے رونے میں اضافہ ہوگیا، تاہم تھوڑی دیر بعد وہ دودھ پیتے ہوئے چپ ہوچکا تھا، اس کی سرخ جلد جلن اور سوزش کا پتہ دے رہی تھی۔

    یہ ایک معمول کا منظر ہے جو کنری کی مرچوں کی فصلوں میں نظر آتا ہے، یہاں مرچ توڑنے والی خواتین کی جلد اور آنکھوں کی جلن اور دیگر مسائل عام ہیں۔

    بچے بھی اس سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں، پورے شہر کی فضا میں مرچوں کی دھانس ہے جو یہاں رہنے والوں کا سانس لینا دو بھر کیے ہوئے ہے۔


    صوبہ سندھ کا علاقہ کنری سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور ہے اور یہاں لگنے والی منڈی ایشیا کی بڑی مرچ منڈیوں میں سے ایک ہے، تاہم مرچ کے کھیتوں اور منڈی میں کام کرنے والے کاشت کاروں اور تاجروں کی زندگی اتنی آسان نہیں۔

    سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور کنری، ضلع عمر کوٹ میں ہے جو ملک بھر میں فراہم کی جانے والی مرچ کا 85 فیصد پیدا کرتا ہے، یہ منافع بخش فصل سندھ کے دیگر مختلف علاقوں اور جنوبی پنجاب کے کچھ حصوں میں بھی اگائی جاتی ہے تاہم کنری کو اس حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق کنری میں 80 سے 90 ہزار ایکڑ رقبے پر مرچ کاشت کی جاتی ہے

    ایک زمانے میں کنری میں لگنے والی منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا، یہاں لگنے والی فصل ملک کی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد کی حصے دار ہے۔

    سرخ مرچ کی فصل اگست سے تیار ہونا شروع ہوتی ہے اور اکتوبر تک یہ سرخ ہو کر مکمل طور پر تیار ہوجاتی ہے۔ کھیتوں سے چنائی کے بعد اسے منڈی لے جایا جاتا ہے جہاں اس کی نیلامی اور فروخت ہوتی ہے، یہ سلسلہ جنوری یا فروری تک جاری رہتا ہے۔

    اپنے تیکھے پن کی وجہ سے ملک بھر میں کنری کی مرچ کی طلب زیادہ ہے

    کنری کی مرچ اپنے تیکھے پن کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے اور اسی تیکھے پن کی وجہ سے اس کی طلب اور قیمت دیگر علاقوں میں اگنے والی مرچ سے زیادہ ہے، تاہم اس کی وہ قیمت نگاہوں سے اوجھل ہے جو اس فصل کے کاشت کاروں اور محنت کشوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

    میرپور خاص اور کنری میں سرگرم عمل سماجی کارکن واجد لغاری بتاتے ہیں کہ مرچوں کی چنائی اور اس کی تجارت محنت کشوں کی صحت پر نہایت سخت اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ان کے مطابق کھیتوں سے مرچوں کی چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں، یہ محنت کش خواتین کھیتوں میں آتے ہوئے اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے آتی ہیں جن میں شیر خوار اور بڑی عمر کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔

    فصلوں سے اتارنے کے بعد مرچوں کو سکھایا جاتا ہے

    بچوں کی نازک جلد مرچوں کا تیکھا پن برداشت نہیں کر پاتی لہٰذا بچے مختلف جلدی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، عموماً ان کی جلد پر زخم بن جاتے ہیں جو نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

    مرچیں توڑنے والی خواتین بھی مختلف طبی مسائل کا شکار ہوتی ہیں جن میں ہاتھوں اور چہرے پر جلن، خراشیں اور پھر ان کا زخم بن جانا، کھانسی اور گلے کی خراش عام مسائل ہیں۔

    شہر کے وسط میں واقع مرچ منڈی

    چنائی کے بعد مرچیں نیلامی اور فروخت کے لیے منڈی میں لائی جاتی ہیں جو شہر کے وسط میں واقع ہے۔ صوبائی محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر نہال دیپ کا کہنا ہے کہ آج سے 4 دہائیاں قبل جب یہ منڈی قائم کی گئی اس وقت کنری شہر میں اتنی آبادی نہیں تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی جس کے بعد اب یہ منڈی شہر اور آبادی کے وسط میں آچکی ہے۔

    واجد لغاری بتاتے ہیں کہ منڈی میں لائے جانے کے بعد جیسے جیسے مرچیں سوکھتی جاتی ہیں ویسے ویسے ان کا تیکھا پن شدید اور نقصانات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، پورے شہر کی فضا میں تیکھا پن اور دھانس موجود ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔

    کنری کی مرچ منڈی ایشیا کی بڑی مرچ منڈیوں میں سے ایک ہے

    ان کے مطابق جن دنوں مرچ کی فصل عروج پر ہو ان دنوں اس کی دھانس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ آس پاس کے دکاندار اپنی دکانیں بند رکھتے ہیں جبکہ شہریوں کا سانس لینا دو بھر ہوجاتا ہے۔ نہ صرف منڈی کے آس پاس کی آبادیاں بلکہ پورا شہر ہی مجموعی طور پر مختلف مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

    واجد لغاری کا کہنا ہے کہ اس کاروبار سے منسلک محنت کشوں کو مختلف سانس کے اور جلدی مسائل عام ہیں، سانس کی نالیوں میں زخم ہو جانا، کھانسی، پھیپھڑوں کی خرابی، دمہ، جلد پر جلن، خراشیں اور زخموں کا بن جانا عام امراض ہیں۔

    تمام امراض کے علاج کے لیے ایک اسپیشلسٹ

    کنری تعلقہ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر مبارک علی درس کہتے ہیں کہ مرچ کی چنائی کے سیزن میں شہر بھر میں مختلف امراض میں اضافہ ہوجاتا ہے، ان دنوں پورے شہر کی فضا میں مرچ کی دھانس ہوتی ہے اور خصوصاً منڈی کے قریب رہنے والے افراد نہایت تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ڈاکٹر مبارک کے مطابق ان دنوں بزرگ، بچے اور ایسے افراد جو پہلے ہی سانس کے مسائل کا شکار ہوں ان کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جنہیں سانس کے مسائل، کھانسی اور آنکھوں اور جلد پر جلن کی شکایات ہوں۔ اسی طرح مرچ کے کاروبار سے وابستہ افراد بھی جسم پر زخموں کی تکلیف کے ساتھ کنری کے واحد سرکاری اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہی تمام طبی مسائل چھوٹے بچوں کو بھی لاحق ہوجاتے ہیں اور کمزور قوت مدافعت کی وجہ سے وہ زیادہ شدت سے ان کا شکار ہوتے ہیں۔

    مرچوں کی چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں

    ڈاکٹر مبارک کے مطابق کنری میں صرف ایک ہی چیسٹ اسپیشلسٹ موجود ہے جو ضلعے کی تمام آبادی کے لیے ناکافی ہے، ان کے علاوہ علاقے میں آنکھوں یا جلد کا کوئی اسپیشلسٹ موجود نہیں۔

    ایم ایس کا کہنا تھا کہ مرچوں کی دھانس سے متاثرہ مریض جب اسپتال آتے ہیں تو انہیں تاکید کی جاتی ہے کہ وہ خرابی طبیعت کی شدت سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور مرچوں کا کام کرنے والے دستانے ضرور پہنیں، ’لوگ سن کر اس پر ایک دو دن عمل کرتے ہیں، اس کے بعد تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں‘۔

    نئی منڈی جو 14 سال سے زیر تعمیر ہے

    کنری کے رہائشی اور مرچ کے کاروبار سے منسلک عظیم میمن بتاتے ہیں کہ سنہ 2007 میں کنری شہر سے باہر نئی مرچ منڈی کی تعمیر کی منظوری دی گئی جس کے لیے فنڈ بھی جاری کیے گئے اور فوری طور پر تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔

    لیکن 14 برس گزر چکے ہیں اس منڈی کی تعمیر کا کام تاحال ادھورا ہے، یہ منصوبہ میگا کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔

    اس منڈی کی تعمیر کا ابتدائی مجموعی تخمینہ 16 کروڑ روپے تھا جو فوراً جاری کردیے گئے تھے، تاہم اس وقت منڈی کی تعمیر میں نہایت ناقص مٹیریل کا استعمال کیا گیا۔ اس کے ہر کچھ عرصے بعد منڈی کی تعمیر کے لیے خطیر رقم کے فنڈز جاری کیے جاتے رہے۔

    سنہ 2017 میں نیب کراچی کے حکام نے منڈی کی تعمیر میں ہونے والی کرپشن کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا اور متعلقہ افسران سے پوچھ گچھ شروع کردی۔

    عظیم میمن کا کہنا ہے کہ ان 14 سالوں میں منڈی کی تعمیر کے لیے 60 سے 70 کروڑ روپے جاری کیے جاچکے ہیں اور تاحال اس کی تعمیر مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس دوران بنائی گئی چند دکانیں ناقص مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوچکی ہیں۔

    ان کے مطابق مرچ منڈی کی شہر سے باہر منتقلی سے شہریوں کی زندگی کچھ آسان ہوجائے گی اور شہر میں پھیلے مختلف امراض میں بھی کمی آئے گی۔ لیکن اس کا انحصار نئی منڈی کی تعمیر پر ہے، ’ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ جلد سے جلد اس منڈی کی تعمیر مکمل ہو اور ہم سکون کا سانس لے سکیں‘۔

  • گلوبل وارمنگ کس طرح کچھوے کی جنس تبدیل کر رہی ہے؟

    گلوبل وارمنگ کس طرح کچھوے کی جنس تبدیل کر رہی ہے؟

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے، زمین پر موجود تمام جانداروں کو متاثر کر رہا ہے، بعض جاندار اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں کہ ان کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، کچھوا بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    ماحولیات کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت مادہ کچھوؤں کی پیدائش میں اضافے کا سبب بن رہا ہے جس سے ان کی نسل میں جنسی عدم توازن پیدا ہوسکتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھوے کی نسل معدوم ہوسکتی ہے۔

    کچھوے کی بقا کی جنگ

    دنیا بھر میں کچھوے کی 7 نمایاں اقسام موجود ہیں جن میں سے 5 پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں، پاکستان حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے نہایت زرخیز سمجھا جاتا ہے اور 5 اقسام کے کچھوؤں کی موجودگی اس کی بہترین مثال ہے۔

    تاہم پاکستان میں کچھوے کی نسل کو مختلف خطرات لاحق رہے جس کے باعث ان کی آبادی میں کمی دیکھی گئی، اس وقت پاکستان میں کئی ادارے کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کوششوں سے کچھوے کی نسل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

    یہ جاننا آپ کے لیے باعث حیرت ہوگا کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 70 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن اس کے باوجود کچھوے کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں جو نہ صرف افزائش نسل کے لیے مادہ کچھوے کو پیش آتی ہیں بلکہ ننھے کچھوے جب سمندر تک پہنچتے ہیں تب بھی انہیں بے حد خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے، بعد ازاں وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔ اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔

    مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔ وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

    دوسری صورت میں مادہ جب انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے تو ساحلوں پر پھینکے کچرے کے باعث وہاں موجود کتے گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔

    جو انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    اگر پاکستانی ساحلوں کی بات کی جائے تو ساحلوں پر تفریح کے لیے آئے افراد ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوے کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سمندر تک پہنچ جانے والے کچھوؤں کی زندگی بھی آسان نہیں ہوتی، ماہی گیروں اور ماحولیاتی اداروں کی جانب سے کئی ایسے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں کم یا درمیانی عمر کے کچھوے سمندر میں شارک کا شکار بن گئے۔

    یہ تمام عوامل وہ ہیں جن کی وجہ سے کچھوے کے سروائیول کی شرح بے حد کم ہوجاتی ہے۔

    موسم سے جنس کا تعین

    سنہ 2018 میں امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے ماہرین نے کچھ جانوروں کے ایک جین KDM6B میں اس سرگرمی پر تحقیق کی جس کی وجہ سے بعض جانوروں کی جنس کا تعلق موسم سے ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گرم موسم میں اس جین میں ہونے والی سرگرمی یہ طے کرتی ہے کہ انڈے سے نکلنے والے جانور کی جنس مادہ ہوگی۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ موسم سے جنس کے تعین کا عمل کچھوے کے علاوہ بھی کچھ ریپٹائلز میں ہوتا ہے جیسے کہ مگر مچھ اور چھپکلی کی ایک قسم بیئرڈڈ ڈریگن۔

    سنہ 2018 میں ہی نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف آسٹریلیا کی جانب سے اسی حوالے سے ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں انکشاف ہوا کہ گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کے شمالی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 99 فیصد جبکہ جنوبی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 69 فیصد مادہ ہیں۔

    اس بارے میں تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کہتے ہیں کہ درجہ حرارت نارمل ہوگا تو انڈے سے نکلنے والے نر یا مادہ کا امکان یکساں ہوگا، درجہ حرات کم ہوگا تو نر کی پیدائش ہوگی جبکہ گرم موسم سے مادہ کی پیدائش میں اضافہ ہوگا۔

    معظم خان کے مطابق اب تک اس حوالے سے جامع تحقیق نہیں کی گئی کہ آیا کچھوے کی جنس میں عدم توازن پیدا ہوچکا ہے یا اس کی شرح کیا ہے تاہم کچھوے کی افزائش کے اس قدرتی پہلو کے باعث یہ طے ہے کہ بہت جلد یہ بگاڑ سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ نر کچھوؤں کی تعداد کم ہوجائے اور مادہ کی زیادہ، جس سے افزائش کا عمل بھی متاثر ہوگا، کچھووؤں کی آبادی کم ہوتی جائے گی یوں ان کی نسل معدومی کی طرف بڑھتی جائے گی۔

    ایکو سسٹم پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

    سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی کنزرویٹر عدنان حمید خان کہتے ہیں کہ کچھوؤں کو آبی خاکروب کہا جاتا ہے، کچھوے سمندر اور آبی ذخائر کو صاف رکھنے میں مدد دیتے ہیں جس سے آبی حیات پھلتی پھولتی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق کچھوے کی نسل میں اس عدم توازن کے اثرات 10 سے 15 سال بعد سامنے آنا شروع ہوسکتے ہیں، کچھوؤں کی آبادی میں کمی یا ان کی معدومی سمندروں کی آلودگی میں اضافہ کرسکتی ہے جس سے مچھلیاں اور دیگر آبی جانداروں اور پودوں کو نقصان ہوگا، اور یہ انسانوں کے فوڈ چین کو بھی متاثر کرے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ سمندری گھاس کچھوؤں کی خوراک ہے، کچھوؤں کے کھانے کی وجہ سے یہ گھاس متوازن مقدار میں سمندر میں موجود ہوتی ہے، اگر اس میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے سمندر کا ایکو سسٹم بھی متاثر ہوگا۔

    کیا اس صورتحال کو روکا جا سکتا ہے؟

    سنہ 2018 میں نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن کی تحقیق میں جب گریٹ بیریئر ریف میں مادہ کچھوؤں کی آبادی 99 فیصد ہونے کا انکشاف ہوا، اس وقت ماہرین نے تجویز کیا تھا کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ریت پر سایہ دار جگہیں فراہم کرنا یا مصنوعی بارشیں برسانا بہتر رہیں گی جس سے ریت کا درجہ حرارت کم ہو۔

    تاہم کیا پاکستان کے ساحلوں پر بھی ایسا ممکن ہے؟

    اس بارے میں معظم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی 800 کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے اور اس پوری پٹی پر ایسے اقدامات کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے، تاہم چھوٹے پیمانے پر کچھ اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ریت میں موجود پلاسٹک کے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) ریت کا درجہ حرارت بڑھا دیتے ہیں، چنانچہ ساحلوں سے پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔

    معظم خان کے مطابق کچھوؤں کی نسل کو لاحق دیگر خطرات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ماحول کے لیے بے حد اہم اس جاندار کا تحفظ کیا جاسکے۔

  • کلائمٹ چینج اور کرونا کی وبا نے گلاب کے پھولوں کو مرجھا دیا

    کلائمٹ چینج اور کرونا کی وبا نے گلاب کے پھولوں کو مرجھا دیا

    سندھی اور اردو زبان کے مشہور شاعر شیخ ایاز نے اپنی وائی میں لکھا ہے، جب ڈالیوں پر سرخ گلاب کھلیں گے، ہم تب ملیں گے۔ رواں سال وبا کے بیچ جب سرخ گلاب کھلے، تو عاشقوں کو محبوب سے ملن کا موقع تو مل گیا، لیکن فکر معاش نے انہیں کھل کر خوش ہونے نہ دیا۔

    میلوں تک پھیلا کھیت اور اس پر جا بجا لگے سرخ گلاب، دیکھنے میں تو سحر انگیز منظر ہے، لیکن اپنے نگہبانوں کے لیے ایک پریشان کن نظارہ، جو جانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا نے اس سال ان پھولوں کے نصیب میں خاک میں مل جانا لکھا ہے۔

    کرونا وائرس کی وبا نے جہاں پوری دنیا کو معطل کیا اور عالمی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، وہیں سرخ گلابوں کا کاروبار بھی ایسا ٹھپ ہوا کہ اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے چولہے سرد ہوگئے۔


    گلشن کا مہکتا ہوا کاروبار

    صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد، مٹیاری اور ٹنڈو الہٰ یار گلاب کی کاشت کے مرکز ہیں۔ یہاں لگے گلاب کے کھیت نہ صرف مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ انہیں باہر بھی بھیجا جاتا ہے، بلکہ اگر کہا جائے کہ مقامی استعمال سے زیادہ فائدہ مند بیرون ملک ایکسپورٹ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف ایکسپورٹ بلکہ مقامی کھپت بھی بے حد متاثر ہوئی اور گلاب کے کاروبار سے جڑے لوگوں کی زندگیوں میں معاشی بدحالی در آئی۔

    کبیر حسین منگوانو مٹیاری میں 40 ایکڑ زمین کے مالک ہیں جس پر گلاب کاشت کیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران گلاب کی مقامی کھپت میں 50 فیصد کمی آئی جبکہ بیرون ملک ایکسپورٹ مکمل طور پر رک گئی، اور گلاب کی پتیوں سے بھرے بورے یونہی گوداموں میں پڑے رہ گئے۔

    کبیر حسین کے مطابق گلاب کا موسم سارا سال رہتا ہے لیکن کچھ ماہ ایسے ہیں جنہیں اس کا سیزن کہا جاتا ہے، یہ سیزن پیداوار کا بھی ہوتا ہے اور استعمال کا بھی۔ سیزن کے دوران ان کے 40 ایکڑ کے فارم سے روزانہ 2 سے ڈھائی ہزار کلو گلاب پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ یہ تعداد گھٹ کر 5 سو سے 6 سو کلو یومیہ چلی جاتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ گلابوں کا زیادہ استعمال درگاہوں میں کیا جاتا ہے، کرونا کی وبا سے پہلے کراچی کی صرف ایک عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ پر یومیہ 15 سو سے 2 ہزار کلو پھولوں کی پتیاں فروخت کی جاتی تھیں، درگاہوں پر پھولوں کی کئی مختلف دکانیں ہوتی ہیں اور یہ ان کی روزانہ مجموعی کھپت تھی، لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے اس کھپت میں 50 فیصد کمی ہوئی۔ کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں سال کا زیادہ تر حصہ درگاہیں اور مزارات ویسے بھی بند رہے، اور جب کھلے تب بھی لوگوں کی آمد و رفت پہلے جیسی نہیں تھی۔

    گلاب کا دوسرا استعمال دواؤں اور کاسمیٹکس میں کیا جاتا ہے جبکہ گلقند بھی بنایا جاتا ہے، اور پھر اس کا سب سے بڑا حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔ برآمد کیا جانے والے حصہ گلاب کی خشک پتیاں ہوتی ہیں جنہیں سکھایا جاتا ہے اور پھر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ خشک پتیاں یورپ اور عرب ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں اور وہاں انہیں دواؤں اور کاسمیٹکس کے علاوہ چائے کی پتی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    گلاب کی کاشت کے حوالے سے کبیر حسین منگوانو نے بتایا کہ گلاب کو قدرتی اور آرگینک طریقے سے اگایا جاتا ہے اور مصنوعی کھاد یا کیڑے مار ادویات استعمال نہیں کی جاتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرون ملک درآمد کرنے کے بعد ان پتیوں کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اگر اس پر کیڑے مار ادویات کے اثرات پائے جائیں تو ایسی چیز کو دوا یا کاسمیٹکس میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس سے مقامی بیوپاری اور پھر کاشت کار کے منافع پر فرق پڑتا ہے۔

    گلاب کا پودا لگائے جانے کے بعد بڑھتا رہتا ہے اور ایک خاص حد تک بڑھنے کے بعد اسے تراش دیا جاتا ہے جس کے صرف 40 دن کے اندر وہ پھر سے گلاب کی پیداوار شروع کردیتا ہے۔ ایک پودے کی اوسط عمر 2 سال ہوتی ہے۔

    گلاب کی چنائی کے لیے مقامی افراد کو رکھا جاتا ہے جو ان کا ذریعہ روزگار بن جاتا ہے۔ کبیر حسین منگوانو کے فارم پر کام کرنے والی روپی بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    روپی قریبی گاؤں دودو منگوانو کی رہائشی ہے اور وہ خود، اس کا شوہر اور بڑی عمر کے بچے سب ہی اس کام سے وابستہ ہیں۔ روپی کا کہنا ہے کہ ان کی ایک طے کردہ مزدوری ہوتی ہے جو کلو کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ یعنی جتنے کلو وہ پھول توڑتے ہیں اس حساب سے انہیں مزدوری ملتی ہے۔

    روزانہ صبح 5 بجے فارم پر آجانے والی روپی خاصی بے دردی سے پھول توڑتی دکھائی دیتی ہے، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اسے کم وقت میں زیادہ پھول توڑنے ہیں، اگر وہ نرمی و نزاکت سے پھول توڑنے لگے تو اس کے روز کے کوٹے میں فرق پڑے گا اور اجرت میں کمی آئے گی جو پہلے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے خاصی کم ہوچکی ہے۔

    فارم پر کام کرنے والا ہر شخص روزانہ اوسطاً 12 سے 15 کلو پھول توڑتا ہے۔ روپی اور اس جیسے سینکڑوں مرد و خواتین اور بچے صبح ہی پھول توڑ کر انہیں بوریوں میں جمع کرتے جاتے ہیں، ان بوریوں کا وزن کیا جاتا ہے، اور پھر شہر سے آنے والی گاڑیاں انہیں لے کر روانہ ہوجاتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں برف کی سلیں بھی موجود ہوتی ہیں جو ان پھولوں کو تازہ رکھتی ہیں۔

    چنے گئے پھول مارکیٹ بھجوائے جارہے ہیں

    کبیر حسین منگوانو اور ان جیسے دیگر کئی کھیت مالکان کے فارم سے چلنے والی گاڑیاں کراچی کے علاقے تین ہٹی آ پہنچتی ہیں۔ یہ گلابوں کی منڈی کہلاتی ہے اور یہاں سے پورے شہر میں گلاب سپلائی کیے جاتے ہیں۔ یہاں پھولوں کی نیلامی اور خرید و فروخت کا عمل انجام پاتا ہے۔

    شہر کے مختلف علاقوں سے آنے والے دکاندار یہاں سے مختلف قیمتوں میں پھول اور پتیاں خریدتے ہیں، بعض اوقات وہ گلابوں کی چھانٹی بھی کرتے ہیں، اچھے اور بڑے گلابوں کی زیادہ قیمت بھی دے دیتے ہیں جبکہ چھوٹے گلاب کم قیمت میں بکتے ہیں۔

    دلدار احمد کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں پھولوں کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی قواعد و ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے منڈی سے پھولوں کی فروخت 50 روپے سے لے کر، 60، 70 یا 100 سو روپے فی کلو بھی ہوتی ہے۔ چونکہ یہاں سے مختلف داموں پر خریداری ہوتی ہے، لہٰذا دکاندار آگے جا کر اپنی دکان پر بھی مختلف قیمت پر پھول فروخت کرتے ہیں۔

    دلدار احمد کی دکان سے زیادہ تر شادی ہالز یا شادی کے گھروں میں پھول جاتے ہیں، لیکن کرونا وائرس کے دوران شادیوں میں سادگی کا رجحان بڑھ گیا جس سے ان کے کاروبار پر بھی فرق پڑا۔

    انہوں نے بتایا کہ پھولوں کی فروخت کا ایک روز شب برات بھی ہوتا ہے۔ اس دن پھولوں اور پتیوں کی فروخت دگنی تگنی ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ بعض فارم مالکان شب برات کے موقع پر خود ہی تین ہٹی آتے ہیں اور خرید و فروخت کے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔


    کبیر حسین منگوانو کے فارم سے کچھ فاصلے پر گوادم ہے جہاں ایکسپورٹ ہونے والی پتیاں سکھائی جاتی ہیں، ان پتیوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے بعد ازاں بوروں میں بھر کر ایکسپورٹ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم کرونا وائرس کی وجہ سے امپورٹ ایکسپورٹ رک گئی تو پتیوں کے بورے گوداموں میں ہی پڑے رہ گئے۔

    گلاب کی پتیاں سکھا کر انہیں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے
    وبا کے دوران راستے بند ہونے سے پتیاں ایکسپورٹ نہ کی جاسکیں

    گلاب سکھانے کے لیے استعمال کیے جانے والے گودام اکثر فارم مالکان ہی کی ملکیت ہوتے ہیں، ان کا شکوہ ہے کہ انہیں ایکسپورٹ تک براہ راست رسائی حاصل نہیں اور اس کے لیے انہیں درمیان میں بیوپاریوں اور ایکسپورٹ سے وابستہ افراد کی مدد لینی پڑتی ہے جس سے منافعے میں کمی آتی ہے۔

    کلائمٹ چینج سے پھولوں کی پیداوار متاثر

    دنیا بھر میں بدلتے ہوئے موسم نے فصلوں کی تمام اقسام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور پھول بھی انہی میں سے ایک ہیں۔

    ہارٹی کلچر سوسائٹی سے وابستہ ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ پھولوں کی فصل کا دارومدار دن میں سورج کی روشنی کی مدت پر ہوتا ہے، سورج کی تمازت میں کمی یا زیادتی بھی پھولوں کے کھلنے اور ان کی افزائش کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں مون سون کا سیزن تبدیل ہورہا ہے یعنی جن مہینوں میں بارشیں ہونا تھیں ان میں نہیں ہو رہیں جبکہ جن مہینوں میں بارشوں کا امکان نہیں ہوتا ان دنوں بادل برس رہے ہیں۔ یہ تبدیلی سب ہی فصلوں پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے۔

    علاوہ ازیں پانی کی کمی بھی تمام پھولوں کی پیداوار کو متاثر کر رہی ہے۔

    رفیع الحق نے کہا کہ گلاب کے پھولوں کی چنائی، ان کی مقامی طور پر فروخت اور درآمد سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے، پھولوں کی پیداوار میں کمی سے انفرادی اور مجموعی طور پر بھی منفی معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔