Author: فریحہ فاطمہ

  • انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    کرونا وائرس کی وبا دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے جس میں فطرت نے ہمیں بھرپور طریقے سے احساس دلایا کہ ترقی کی دوڑ میں ہم اس قدر تیز بھاگ رہے ہیں کہ نفع نقصان کا فرق بھی بھول چکے ہیں۔

    ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہماری دہائیوں اور صدیوں کی ترقی اور معیشت کا پہیہ فطرت کے صرف ایک وار سے جھٹکے سے رک گیا اور پوری دنیا کا نظام اتھل پتھل ہوگیا۔

    ماہرین کے مطابق جس بے دردی سے ہم زمین کے پائیدار وسائل کو ضائع کر رہے تھے اور صرف یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ زمین صرف انسانوں کے لیے ہے، اس کے ردعمل میں یہ جھٹکا نہایت معمولی ہے، اور اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو آئندہ جھٹکے اس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں کہ پوری نسل انسانیت کو بقا کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اب بھی اس وبا سے کچھ سیکھا ہے یا ہم اپنی پرانی روش پر قائم رہیں گے؟

    ایک تحقیق کے مطابق اکثر قدرتی آفات اور وباؤں کو دعوت دینے والا خود انسان ہی ہے جو دنیا بھر میں اپنی سرگرمیوں سے فطرت اور ماحول کے سسٹم میں خلل ڈال رہا ہے اور ان میں خرابی پیدا کر رہا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس بھی ان وباؤں میں سے ایک ہے جو انسان کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں متاثر کر رہی ہے، یعنی اگر ہم اپنی حدود میں رہتے ہوئے فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتے تو یہ وبا شاید انسانوں تک نہ پہنچتی۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جو ہمارے ہی لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں، اور ہم خود کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بائیو ڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروس (IPBES) کی سنہ 2020 میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق انسانوں میں پھیلنے والے تقریباً ایک تہائی متعدی امراض ایسے ہیں جو جانوروں سے منتقل ہوئے، اس وقت 17 لاکھ وائرسز ایسے ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوسکے اور یہ ممالیہ جانداروں اور پرندوں میں موجود ہیں، ان میں سے نصف ایسے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    وجہ؟ انسانوں کا جانوروں سے غیر ضروری رابطہ۔ اس کے خطرناک نقصانات کو ماہر ماحولیات سنیتا چوہدری نے نہایت تفصیل سے بتایا، سنیتا چوہدری مختلف ممالک میں ماہر جنگلات کے طور پر کام کرچکی ہیں جبکہ آج کل وہ نیپال کے تحفظ ماحولیات کے ادارے آئی سی موڈ سے بطور ایکو سسٹم سروس اسپیشلسٹ وابستہ ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ انسانوں کا غیر قانونی شکار اور جانوروں کی تجارت کا جنون انہیں سخت نقصان پہنچا رہا ہے، اس تجارت کے لیے وہ جنگلات میں جانوروں کے مساکن (Habitat) میں مداخلت کرتے ہیں اور یہیں سے وہ متعدد وائرسز اور جراثیموں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    سنیتا چوہدری کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بطور غذا یا ادویات کی تیاری میں مختلف جانوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، ایک اور وجہ گھروں میں جنگلی جانور پالنے کا انسان کا غیر معمولی شوق ہے جس کے دوران تمام خطرات اور احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق جنگلات کی کٹائی بھی انسانوں میں مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے، کیونکہ جنگلات میں رہنے والے جانور جنگل کٹنے کے بعد انسانی آبادیوں کے ارد گرد رہنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ہم خود ہی جنگلات یا پہاڑوں کو کاٹ کر وہاں رہائشی آبادیاں بنا کر انسانوں کو بسا دیتے ہیں۔

    ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہم جانوروں کے جسم میں پلنے والے ان وائرسز، جرثوموں اور بیماریوں کے حصے دار بن جاتے ہیں جو جانوروں میں تو اتنے فعال نہیں ہوتے، لیکن انسانوں پر کاری وار کرسکتے ہیں۔

    کیا کلائمٹ چینج بھی وباؤں کو جنم دے سکتا ہے؟

    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبیریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    گزشتہ برس یورپی یونین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ اکثر متعدی امراض میں اضافے کا سبب ہے جیسے ملیریا اور زیکا وغیرہ، اور یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ زمین پر کلائمٹ چینج کی وجہ انسان کی بے پناہ صنعتی ترقی اور اس سے خارج ہونے والی مضر گیسز ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ برف پگھلنے کی صورت میں سامنے آنے والے وائرسز کی تعداد اور خطرناکی لامحدود ہوگی، گلوبل وارمنگ ان وائرسز کو مزید فعال اور طاقتور کردے گی، یوں ہمارے سامنے ان گنت خطرات موجود ہیں۔

    کیا ہم بچاؤ کے اقدامات کرسکتے ہیں؟

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم ان عوامل کو روکنے یا ان کی رفتار دھیمی کرنے کے قابل ہیں؟ اور ایسا کر کے کیا ہم اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں؟

    اس حوالے سے سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ کووڈ 19 ہمارے لیے ایک وارننگ ہے کہ انسانوں کا فطرت سے تعلق نہایت ہی غیر صحت مندانہ ہے، ہم فطرت کو ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں ہمیں اس سے بہتر تعلق قائم کر کے فطرت کو اپنے لیے، اور خود کو فطرت کے لیے فائدہ مند بنانا چاہیئے۔

    سنیتا کے مطابق اگر ہم قدرتی ماحول اور فطرت کو احسن اور پائیدار طریقے سے استعمال کریں تو یہ انسانوں اور مختلف وبائی امراض کے درمیان ایک ڈھال کا کردار ادا کر سکتی ہے، ہمیں فطرت کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ انسانوں اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کا رشتہ ہو۔

    سنیتا کے مطابق مندرجہ ذیل اقدامات کی صورت میں ہم نہ صرف ماحول کا بلکہ مختلف خطرات سے اپنا بھی بچاؤ کر سکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں ایکو سسٹم کی بحالی، فطری حسن اور وہاں کی مقامی جنگلی حیات کا تحفظ

    زراعت میں رائج پرانے طریقوں کو چھوڑ کر جدید طریقے اپنانا جو بدلتے موسموں سے مطابقت رکھتے ہوں

    جانوروں کے لیے محفوظ علاقوں کا قیام

    آبی ذخائر کی بحالی اور ان کا تحفظ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت کا تحفظ اب ہمارے لیے ایسی ضرورت بن گئی ہے جو ہماری اپنی بقا کے لیے ضروری ہے، ورنہ ہماری اپنی ترقی ہی ہمارے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

  • سینٹ لوئیس چڑیا گھر: جس کی گزرگاہوں میں کھو جانے کی تمنا ہو

    سینٹ لوئیس چڑیا گھر: جس کی گزرگاہوں میں کھو جانے کی تمنا ہو

    جانوروں سے محبت ہونے کے باوجود پاکستانی چڑیا گھروں کی سیر کرنا مجھے ہرگز پسند نہیں جس کی وجہ وہاں رکھے گئے جانوروں کی حالت زار ہے، لیکن بیرون ملک سفر کے دوران میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ جس شہر میں بھی جاؤں وہاں کے چڑیا گھر ضرور جاؤں اور وہاں کے مقامی جانور اور انہیں چڑیا گھر میں رکھے جانے کا انداز دیکھوں۔

    سنہ 2019 میں ایک فیلو شپ کے سلسلے میں امریکا جانا ہوا تو میں نے پہلے ہی گوگل پر سرچ کرلیا کہ جن شہروں میں ہم جائیں گے وہاں کے چڑیا گھروں میں کون کون سے جانور موجود ہیں۔ ایک چڑیا گھر میں دنیا کے نایاب ترین جاندار پینگوئن کی موجودگی نے مجھے پرجوش کردیا اور میں نے طے کرلیا کہ زندگی کبھی کسی برفانی خطے میں جا کر پینگوئن سے ملاقات کا موقع تو شاید نہ دے، لہٰذا امریکا کے چڑیا گھر میں ہی اسے دیکھ لیا جائے۔

    سینٹ لوئیس زولوجیکل پارک

    پاکستانی صحافیوں کے لیے منعقدہ اس فیلو شپ میں مجھ سمیت ملک بھر سے تقریباً 10 صحافیوں کو منتخب کیا گیا تھا۔ ہمارے دورے میں واشنگٹن ڈی سی سمیت امریکا کے 3 شہر شامل تھے۔ نومبر کی ایک صبح جب ہم ریاست میزوری کے شہر سینٹ لوئیس میں اترے تو درجہ حرارت منفی 1 تک گر چکا تھا۔ اس سے قبل ہم ریاست اوکلوہاما میں تھے جہاں درمیان کے تین دن موسلا دھار بارش رہی اور شروع اور آخر کے 2 دن میں تیز دھوپ نے ہمیں جھلسا دیا تھا۔

    اس کے بعد سینٹ لوئیس کا منفی ڈگری سینٹی گریڈ ہم سب کو ٹھٹھرا دینے کے لیے کافی تھا۔ سردی اس قدر شدید تھی کہ پنجاب اور بالائی علاقوں کی سخت سردیوں کے عادی صحافی دوست بھی ٹھٹھر رہے تھے، ہم کراچی والوں کا تو حال ہی برا تھا جنہیں سردیاں کم ہی نصیب ہوتی تھیں۔

    ایک روز جب ہمارے طے شدہ پروگرام میں سینٹ لوئیس کے تاریخی گیٹ وے آرچ اور بوٹینکل گارڈن کی سیر شامل تھی، منتظمین نے ہماری ٹھٹھرتی حالت پر ترس کھاتے ہوئے گارڈن کا دورہ منسوخ کردیا اور ہمیں واپس ہوٹل جا کر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔

    سینٹ لوئیس کا تاریخی گیٹ وے آرچ

    آرام کس کافر کو کرنا تھا۔ ہوٹل کے قریب ایک ریستوران میں لنچ کرتے ہوئے سب نے پروگرام بنایا کہ وقت مل گیا ہے تو وال مارٹ جا کر تحفے تحائف کی ادھوری شاپنگ مکمل کی جائے۔ میں نے صاف انکار کردیا کہ ایسے موسم میں مجھے ہوٹل کا گرم کمرا اور بستر زیادہ پرکشش لگ رہا ہے۔ اس دوران سینٹ لوئیس زو ذہن میں تھا۔

    میں نے دبے لفظوں میں کہا کہ کیوں نا چڑیا گھر چلا جائے لیکن شاپنگ کی زور و شور سے ہونے والی بحث میں میری آواز دب گئی چانچہ میں کان لپیٹ کر کھانے میں مصروف ہوگئی۔ تاحال میرا ارادہ اکیلے کہیں نہ جانے اور ہوٹل واپس جا کر سونے کا ہی تھا۔

    ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر سردی سے جما ہوا دماغ کچھ بحال ہوا تو چڑیا گھر کی ویب سائٹ اور تصاویر کھول کر دیکھیں۔ تصاویر دیکھ کر یاد آگیا کہ مجھے پینگوئن دیکھنا تھا۔ استقبالیہ پر کال کر کے راستے کی معلومات لینی چاہیں تو ریسیپشن پر بیٹھی خاتون نے جاں فزا خبر سنائی کہ ہوٹل کی مفت شٹل سروس مجھے چڑیا گھر تک چھوڑ اور واپس لے سکتی ہے۔

    بس پھر کیا تھا، میں نے سونے کا ارادہ واپس کراچی جانے تک مؤخر کیا، موٹی جیکٹ چڑھائی، اپنے پاس موجود تمام ڈالرز بیگ میں ڈالے کہ کہیں پینگوئن پر لگے مہنگے ٹکٹ کی وجہ سے مجھے نامراد نہ لوٹنا پڑے اور نیچے آگئی۔

    شٹل کے لمبے چوڑے سیاہ فام ڈرائیور نے بتایا کہ مجھ سے پہلے اسے ایک گروپ نے وال مارٹ کے لیے بک کرلیا ہے، وہ مجھے چڑیا گھر چھوڑ تو آئے گا لیکن واپسی میں پہلے اس گروپ کو ہوٹل پہنچائے گا اور پھر مجھے لینے آئے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ میرے ہی دوست ہیں اور انہیں ہرگز اعتراض نہ ہوگا اگر وہ انہیں وال مارٹ سے لینے کے بعد چڑیا گھر پہنچے اور پھر مجھے وہاں سے لے کر سب کو ایک ساتھ ہوٹل پر اتارے، وہ مان گیا۔

    کم آن لیڈی کہہ کر وہ وین میں بیٹھ گیا اور میں بھی اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی، اگلے دو منٹ کے اندر جب گاڑی ہوٹل چھوڑ کر خزاں رسیدہ درختوں سے بھرے نہایت سنسان راستوں سے گزرنے لگی تو مجھے ایک لمحے کو خوف بھی محسوس ہوا۔ راستہ نہایت خوبصورت تھا، دو رویہ درختوں سے ڈھکا ہوا، خزاں نے ان درختوں کو بے رنگ کر کے گویا عجب خوبصورتی عطا کردی تھی۔ 10 منٹ طویل راستہ اختتام پذیر ہوا اور چڑیا گھر کے سائن بورڈز نظر آئے تو میں خوش ہوگئی۔

    نیک طنیت شٹل ڈرائیور نے چڑیا گھر کے مرکزی دروازے پر چھوڑا اور مسکراتے ہوئے ’انجوائے یور وزٹ‘ کہہ کر ہاتھ ہلا کر واپس چلا گیا۔

    چڑیا گھر کے استقبالیہ پر مجھے زو کا نقشہ تھمایا گیا اور بتایا گیا کہ زو 4 بجے بند ہوجائے گا یعنی میرے پاس صرف 1 گھنٹہ تھا۔ انٹری اور پورے چڑیا گھر کی سیر بالکل مفت تھی۔ مجھے کراچی کے تفریحی مقامات یاد آئے جہاں داخلے کی فیس الگ لی جاتی ہے جبکہ اندر موجود تفریحی سہولیات پر الگ ٹکٹ ہیں۔ تقشہ تھام کر چڑیا گھر کے اندر چلنا شروع کیا۔

    چڑیا گھر کی گزرگاہیں دیکھ کر اردو شاعروں کی حزنیہ شاعری یاد آگئی جنہیں خزاں میں درختوں کے گرتے پتے اور سنسان راستے دیکھ کر محبوب کی یاد آجاتی تھی۔

    سینٹ لوئیس زو جس کا مکمل نام سینٹ لوئیس زولوجیکل پارک ہے سنہ 1910 میں قائم کیا گیا۔ اس کے پہلے ڈائریکٹر جارج ولہرل تھے جو کہا کرتے تھے، ایک زندہ دل شہر کو 2 چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک اچھا چڑیا گھر، اور ایک اچھی بیس بال ٹیم۔

    سینٹ لوئیس کے چڑیا گھر میں موجود کئی جانوروں کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ جیسے فل نامی گوریلا کو لائف میگزین کے سرورق پر جگہ ملی۔ چڑیا گھر کا پہلا ہاتھی سنہ 1992 میں پیدا ہوا جس کے والدین ایشیائی تھے اور اس کا نام راجہ رکھا گیا۔

    اس چڑیا گھر کا شمار اینیمل مینجمنٹ، ریسرچ اور تحفظ جنگلی حیات کے اقدامات کے حوالے سے دنیا کے اہم اداروں میں کیا جاتا ہے اور یہاں موجود جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو دنیا کے مختلف خطوں سے لائی اور نہایت حفاظت و خیال سے رکھی گئی ہیں۔

    میں نے جب اس چڑیا گھر کی سیر کی تب سخت سردی تھی اور زو کے بند ہونے کا ٹائم قریب تھا لہٰذا وہاں لوگ نہ ہونے کے برابر تھے۔ میرا اصل مقصد پینگوئن دیکھنا تھا چنانچہ میں راستے میں مختلف جانوروں کو سرسری نظر سے دیکھتی ہوئی گزری۔

    تمام جانداروں کے انکلوژز بڑے اور کھلے ہوئے تھے اور شیشے کی دیواروں سے ان کی حد بندی کی گئی تھی۔ گو کہ یہ کھلے انکلوژر بھی ان جانوروں اور پرندوں کے لیے ناکافی تھے کہ وہ جنگلوں اور فضاؤں کی وسعتوں کے لیے پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کی حالت پاکستانی چڑیا گھروں سے خاصی مختلف اور بہتر تھی۔

    مختلف راستوں سے گزر کر میں اس انکلوژر میں پہنچی جہاں پینگوئن موجود تھے۔ یہاں ان کی مختلف اقسام موجود تھیں، ان کے لیے دو تالاب بھی بنائے گئے تھے جس کے سرد پانی میں ڈبکیاں لگاتے پینگوئن نہال تھے۔

    دنیا بھر میں پینگوئن کی 18 اقسام پائی جاتی ہیں جو زمین کے سرد ترین علاقوں میں رہتی ہیں۔ سنہ 1959 میں 12 ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت برفانی خطوں میں موجود جانداروں کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں نقصان پہنچانے یا کسی بھی طرح ان کے قریب جانے کو غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے۔

    معاہدے کے تحت پینگوئن کے شکار یا اس کے انڈے جمع کرنے پر بھی پابندی عائد ہے، یہی وجہ ہے کہ زمین کا نایاب ترین جانور ہونے کے باوجود اسے معدومی کا کوئی خطرہ نہیں اور اس کی نسل مستحکم ہے۔

    اچھلتے کودتے پینگوئنز کی تصاویر اور ان کے ساتھ سیلفیاں بنا کر میں واپس ہوئی تو نقشے میں ایک جگہ جانے پہچانے زرافے دکھائی دیے۔ اپنے صحافتی سفر میں وائلڈ لائف کو کور کرتے کرتے ان جانوروں سے بھی واقفیت ہوگئی تھی جن کا پاکستان میں نام و نشان بھی نہ تھا اور سوچتی تھی کہ کیا کبھی ان جانوروں کو دیکھنے، انہیں چھونے اور پیار کرنے کا موقع ملے گا؟ اب زرافے کا پتہ چلا تو دل دھڑک اٹھا کہ یہاں تک آ ہی گئے تو یہ خواہش بھی پوری کرلی جائے۔

    گھڑی دیکھی تو وقت کم تھا اور راستہ طویل۔ لیکن سوچا کہ زرافہ نہ دیکھنے کے پچھتاوے سے بہتر ہے ایک رات کے لیے چڑیا گھر میں بند ہوجانا۔ سو باہر نکل کر زرافے کے انکلوژر کی جانب چلنے لگی۔

    اونچے نیچے بل کھاتے راستے، دونوں طرف سرخ اور زرد پتوں سے لدے درخت، زمین پر گرے زرد پتے اور انسان کا نام و نشان نہیں۔ یہ وہ راستے تھے جن پر کھو جانے کی آرزو کی جاتی ہے۔ صرف راستے ہی نہیں جانوروں کے لیے مخصوص کردہ احاطے بھی خالی تھے جس کی وجہ بعد میں پتہ چلی۔

    میں چونکہ راستوں اور سمتوں کے معاملے میں خاصی بھلکڑ واقع ہوئی ہوں سو رک رک کر ایک ایک موڑ کی نشانی ذہن نشین کرتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔ جب دائیں یا بائیں مڑنا ہوتا تو پلٹ کر دیکھتی اور سوچتی کہ واپسی کے وقت دایاں بائیں میں تبدیل ہوچکا ہوگا، راستہ بتانے والا آس پاس کوئی نہیں ہے لہٰذا خود ہی یاد رکھ کر واپس آنا ہوگا۔

    خاصا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب اس جگہ پہنچی جہاں زرافوں کا سائن بورڈ لگا تھا تو لکڑی کی باڑھ سے ارد گرد سبز قطعہ، جہاں زرافوں کو ہونا چاہیئے تھا، خالی تھا۔ آس پاس کچھ اجنبی قسم کے بندر اپنے محدود کردہ حصے میں اچھلتے دکھائی دیے لیکن زرافہ غائب تھا۔ میں مایوس ہو کر پلٹنے کو تھی کہ اندر سبز قطعے کے ساتھ موجود بند جگہ سے ایک شخص باہر آتا دکھائی دیا۔

    میں نے اس سے زرافوں کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ ویسے تو چڑیا گھر کے بند ہونے کا وقت 4 بجے ہے جس کے بعد جانوروں کو کھلے حصے سے اندر بند جگہ لے جایا جاتا ہے، لیکن آج چونکہ سردی بہت زیادہ ہے لہٰذا مقررہ وقت سے پہلے ہی جانوروں کو اندر بند کیا جاچکا ہے۔ میرے چہرے پر مایوسی دیکھ کر اس نے کہا کہ چونکہ میں ٹورسٹ لگتی ہوں تو وہ خصوصی طور پر مجھے اندر لے جا کر زرافے دکھا سکتا ہے۔

    میں اس کے پیچھے ایک تاریک کمرے کی طرف چل پڑی۔ اندر ہیٹر کے درجہ حرارت سے گرم ایک طویل کمرہ تھا جس کے دونوں طرف  پنجرے تھے جن کی سلاخیں چھت تک جارہی تھیں۔ ان پنجروں میں زرافے، شتر مرغ، ایک قسم کا ہرن اور دیگر کئی جانور تھے۔

    بقیہ جانور تو آرام سے ان پنجروں میں بند تھے لیکن زرافوں کی طویل گردنیں چھت سے ٹکرا رہی تھی۔ وہ بیچارے اپنی گردن جھکاتے تو وہ سلاخوں سے لگتیں۔ غرض وہ نہایت غیر آرام دہ حالت میں پنجرے میں موجود تھے اور ان کو دیکھ کر میری خوشی ماند پڑ گئی۔ قریب سے دیکھنے پر ان کے چہرے کا نرم فر نہایت بھلا محسوس ہوا۔

    زرافہ جسے افریقی ممالیہ کہا جاتا ہے، زمین پر پایا جانے والا طویل ترین جانور ہے۔ 21 جون کو جب زمین کے ایک حصے پر سال کا طویل ترین دن، اور دوسرے حصے پر سال کی طویل ترین رات ہوتی ہے، اس طویل القامت جانور کا دن بھی منایا جاتا ہے۔

    زرافے کو عالمی اداروں نے معدومی کے خطرے سے دو چار جانداروں میں سے ایک قرار دے رکھا ہے جس کی وجہ افریقہ میں ہونے والی خانہ جنگیاں اور ان کے باعث جنگلات کا اجڑ جانا شامل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موجود زرافوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہے اور ماہرین تحفظ جنگلی حیات اس کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں۔

    سینٹ لوئیس زو میں انکلوژر کے نگران نے زرافوں کے ساتھ خوشدلی سے میری تصاویر کھینچیں۔ تمام جانوروں کو دیکھتے ہوئے میں باہر نکل آئی اور اس بھلے آدمی کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ واپسی میں درختوں سے گھرے وہی سنسان راستے اور سناٹا تھا۔ ہیلووین کی مناسبت سے زو میں جگہ جگہ جنوں بھوتوں کی ڈیکوریشن کی گئی تھی اور چمکتا ہوا دن اب جب آہستہ آہستہ اندھیرے میں ڈھل رہا تھا تو یہ ڈیکوریشنز خوفناک ثابت ہوسکتی تھیں۔

    واپسی میں ایک تالاب میں پانی کی بلیوں (سیل) کو کھانا کھلایا جارہا تھا جہاں رکنا لازم تھا۔

    اس کے بعد میں تقریباً بھاگتی ہوئی واپس مرکزی دروازے تک پہنچی۔ ڈرائیور میرے دوستوں کو وال مارٹ سے لے کر راستے میں تھا۔ سووینیئر شاپ سے میں نے یادگار کے طور پر چند منی ایچر جانور خریدے جنہیں آج تک کامیابی سے گھر کے بچوں سے چھپا رکھا ہے۔

    تھوڑی دیر بعد واپسی کے لیے وین موجود تھی۔ میں وین میں داخل ہوئی تو خفا دوستوں نے پوچھا، اکیلے ہی پروگرام بنا لیا؟ میں نے جواب دیا کہ پوچھا تو تھا، تم سب نے دلچسپی ہی نہ دکھائی۔ ہوٹل واپس پہنچ کر ہم سب نے ڈرائیور کا ٹپ جار ایک اور دو ڈالرز کے نوٹوں اور سکوں سے بھردیا اور اس کا شکریہ ادا کر کے گاڑی سے اتر گئے۔ سیاہ فام ڈرائیور کی آنکھیں بھرا ہوا ٹپ جار دیکھ کر چمک رہی تھیں۔

  • بجٹ 22-2021: تیزی سے بڑھتے ماحولیاتی خطرات اور پاکستان کی دھیمی مگر ہوشیار چال

    بجٹ 22-2021: تیزی سے بڑھتے ماحولیاتی خطرات اور پاکستان کی دھیمی مگر ہوشیار چال

    اسلام آباد: پاکستان دنیا کے ان 10 سرفہرست ممالک کی صف میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی زد میں سب سے زیادہ ہیں، تاہم حکومت پاکستان اس حوالے سے کس طرح کام کر رہی ہے، یہ گزشتہ روز پیش کیے جانے والے بجٹ سے ظاہر ہے جسے خاصی حد تک خوش آئند قرار دیا سکتا ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ماحولیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے خلاف پاکستان اپنے حصے سے کہیں زیادہ کام کر رہا ہے۔

    وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس ضمن میں ساڑھے 14 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔

    اس حوالے سے منسٹری آف کلائمٹ چینج کے فوکل پرسن محمد سلیم شیخ نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ یہ رقم صرف 10 بلین ٹری پروجیکٹ کے لیے مختص ہے۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ 10 سال پر محیط ہے اور اس کا کل بجٹ 125 ارب روپے ہے جس میں سے 50 فیصد صوبوں کو دینا ہوگا۔

    سلیم شیخ کے مطابق رواں برس ساڑھے 14 ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، منصوبے کا کل بجٹ پاکستانی تاریخ میں کسی بھی ماحولیاتی منصوبے کے لیے مختص کیا جانے والا سب سے بڑا بجٹ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 10 بلین ٹری سونامی سمیت حکومت پاکستان اس وقت ماحولیات کے حوالے سے 4 بڑے منصوبوں پر کام کر رہی ہے جو کہ یہ ہیں۔

    ماحول سے مطابقت رکھنے والی انسانی آباد کاری کا منصوبہ
    Climate Resilient Urban Human Settlement Unit
    بجٹ 22-2021 میں مختص کردہ رقم: 15 ملین

    واٹر اینڈ سینی ٹیشن کی بہتری کا منصوبہ
    Establishment of Water Sanitation & Hygiene Strategic Planning and Coordination Cell
    بجٹ 22-2021 میں مختص کردہ رقم: 12 ملین

    پینے کے پانی کے معیار کو بہتر بنانے کا منصوبہ
    Water Quality Monitoring Capacity Building Project
    بجٹ 22-2021 میں مختص کردہ رقم: 30 ملین

    سلیم شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی جی ڈی پی کا 1 فیصد ماحولیات کی بہتری کے لیے مختلف اقدامات اور منصوبوں پر خرچ کر رہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اس وقت ماحولیاتی نقصانات کے باعث سالانہ 11 سو سے 12 سو ارب روپے کا نقصان اٹھا رہا ہے۔

    ان میں سے 400 ارب روپے کا سالانہ نقصان وہ ہے جو قدرتی آفات کی وجہ سے ہوتا ہے جن میں انفرا اسٹرکچر کا تباہ ہونا، صحت اور تعلیم کی سہولیات کا نقصان اور زراعت کو پہنچنے والا نقصان شامل ہے۔

    علاوہ ازیں ماحولیاتی بگاڑ جسے انوائرمنٹ ڈی گریڈیشن کہا جاتا ہے، پاکستانی معیشت کو ہر سال 700 ارب روپے کا جھٹکا دیتا ہے۔ اس بگاڑ میں فضائی و آبی آلودگی میں اضافہ، جنگلات کی کٹائی، موسم کے باعث زراعتی زمین کو پہنچنے والا نقصان، جنگلی حیات کو لاحق خطرات اور ان کے مساکن (رہنے کی جگہوں) کو پہنچنے والے نقصانات شامل ہیں۔

    دوسری جانب گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس رپورٹ کے مطابق سنہ 2000 سے 2019 کے درمیان پاکستان کو مختلف قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے 3 ہزار 771 ملین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

    کلائمٹ رسک انڈیکس کے مطابق اس عرصے میں پاکستان کو 173 قدرتی آفات نے متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان مختلف ویدر ایونٹس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔

  • ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ذہنی امراض کی سب سے بڑی قسم ڈپریشن ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 20 میں سے 1 شخص شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہے۔

    دنیا بھر میں 26 کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، یعنی دنیا کی 5 فیصد آبادی ڈپریشن کے زیر اثر ہے اور اس کے باعث نارمل زندگی گزارنے سے قاصر ہے۔ ڈپریشن کے علاوہ دیگر ذہنی امراض جیسے اینگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزو فرینیا یا فوبیاز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی آبادی کے ذہنی امراض سے متاثر ہونے کے باوجود اس حوالے سے نہایت غیر محتاط، غیر حساس اور غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ لوگوں سے کٹ جانا، تنہائی اختیار کرلینا یا پھر خودکشی کرلینا ہی انہیں راہ نجات دکھائی دیتا ہے۔

    ذہنی امراض کے حوالے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد غلط تصورات اور غلط فہمیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنا بے حد ضروری ہے، آج یہاں پر ایسی ہی کچھ غلط فہمیوں کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔

    غلط فہمی: ڈپریشن کو کسی علاج کی ضرورت نہیں

    عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ڈپریشن کے لیے کسی علاج یا دوا کی ضرورت نہیں، یہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔

    حقیقت

    اگر ہمیں بخار ہو، نزلہ زکام ہو، کیا کوئی اور تکلیف ہو تو ہم ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا لیتے ہیں، تو پھر ڈپریشن کی دوا لینے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر ڈپریشن کا صحیح وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ آگے چل کر سنگین صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

    غلط فہمی: ماہر نفسیات کے پاس مت جاؤ، دنیا کیا کہے گی!

    دنیا کیا کہے گی، یہ وہ خیال ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی زندگی کو بدتر بنا دیتا ہے۔ ذہنی امراض کے بارے میں قائم غلط تصورات کے باعث اسے شرمناک سمجھا جاتا ہے اور ماہر نفسیات کے پاس جانا گویا کلنک کا ٹیکہ، جس کے بعد ماہر نفسیات کے پاس جانے والے معاشرے کی نظر میں سرٹیفائڈ نفسیاتی ہوجاتے ہیں۔

    حقیقت

    اگر ہم دل کی تکلیف کا شکار ہوں، تو ہم ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں۔ ناک، کان، یا گلے کی تکلیف کے لیے ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جایا جاتا ہے، کینسر کے علاج کے لیے کینسر اسپیشلسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے جسے اونکولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ تو پھر دماغی امراض کے علاج کے لیے ماہر نفسیات یا دماغی امراض سے ہی رجوع کیا جانا چاہیئے جو مرض کی درست تشخیص کر کے اسے ٹریٹ کرسکے۔

    غلط فہمی: ہر ذہنی و نفسیاتی مریض کو پاگل خانے جانا چاہیئے

    یہ ہمارے معاشرے میں پایا جانے والا وہ بدصورت رویہ ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی بیماری کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔

    ذہنی طور پر خطرناک حد تک بیمار افراد کے علاوہ بھی جب کسی شخص کا ڈپریشن حد سے زیادہ بڑھ جائے اور اس کیفیت میں وہ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تب بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو اب پاگل خانے میں داخل کروا دینا چاہیئے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ذہنی مریض کی جگہ پاگل خانہ نہیں ہے، یہ افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں اور ان کا علاج ایسے ہی ہوسکتا ہے جیسے دل کا مریض اپنا علاج بھی کرواتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں و مصروفیات میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لے۔

    غلط فہمی: اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں اپنی لت میں مبتلا کردیتی ہیں

    یہ غلط فہمی بھی بہت سے لوگوں کو ماہر نفسیات کے پاس جانے سے روک دیتی ہے، اینٹی ڈپریسنٹ دواؤں کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنی لت میں یا کسی قسم کے نشے میں مبتلا کردیتی ہیں اور ان کا استعمال ساری زندگی کرنا پڑ سکتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے یہ دوائیں لینے والے افراد سارا دن غنودگی کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔

    حقیقت

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن کے دوران ہمارے جسم میں سکون، خوشی اور اطمینان کی کیفیت پیدا کرنے والے ہارمون جیسے سیروٹونین کی کمی پیدا ہوجاتی ہے، یہ اینٹی ڈپریسنٹ اس کمی کو پورا کرتی ہیں۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم جسم میں کیلشیئم کی کمی پورا کرنے کے لیے کیلشیئم کی گولیاں کھاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی بھی ہمارے جسم اور دماغ کو بری طرح ڈسٹرب کرتی ہے اور ذہنی تناؤ میں اضافہ کرتی ہے، لہٰذا ڈپریشن کے شکار افراد کے لیے سب سے اہم نیند کا پورا ہونا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار افراد کے اعصاب ریلیکس حالت میں نہیں ہوتے جبکہ وہ گہری اور پرسکون نیند لینے سے بھی قاصر رہتے ہیں لہٰذا یہ دوائیں ڈپریشن کا شکار شخص کے اعصاب کو ریلیکس کرتی ہیں جس سے اس کی نیند میں بہتری واقع ہوتی ہے۔ یہ مریض کے لیے نہایت ضروری ہے، طویل، پرسکون اور گہری نیند لینے کے ساتھ ڈپریشن میں کمی ہوتی جاتی ہے یوں اس شخص کی حالت میں بہتری آتی ہے۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق شدید ڈپریشن کے مریض کو وہ ابتدا میں غشی آور ادویات ضرور استعمال کرواتے ہیں تاہم جیسے جیسے مریض کی نیند کا قدرتی لیول بحال ہونے لگتا ہے وہ ان دواؤں کی مقدار کم کرتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ان دواؤں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔

    غلط فہمی: غذا کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں

    عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ غذا صرف ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے، اور دماغ پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں کرتی۔

    حقیقت

    ہم جو کھاتے ہیں اس کا اثر صرف ہمارے جسم پر ہی نہیں بلکہ دماغ، نفسیات اور موڈ پر بھی پڑتا ہے۔ جس طرح جنک فوڈ ہمارے جسم کو فربہ کر کے ہمیں بلڈ پریشر یا دل کا مریض بنا سکتے ہیں اسی طرح یہ دماغ کو بھی ڈسٹرب کرتے ہیں۔

    سائنس ڈیلی میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق جنک فوڈ کھانے کے عادی افراد میں ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ دیگر غذائیں کھانے والے افراد کی نسبت 51 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    جنک فوڈ اور غیر متوازن غذائیں ہمارے موڈ پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمیں غصہ، چڑچڑاہٹ اور مایوسی میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

    اس کے برعکس پھل اور سبزیاں کھانے کے عادی افراد ڈپریشن کا کم شکار ہوتے ہیں، آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پھل اور سبزیاں نہ صرف دماغی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ یہ کسی انسان کو خوش باش بھی رکھتے ہیں۔

    غلط فہمی: ذہنی امراض کا شکار افراد سے دور رہا جائے

    جب ہمیں اپنے ارد گرد کسی شخص کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہے تو ہم اس سے دور بھاگتے ہیں اور اس سے بات کرنے سے کتراتے ہیں، ہمیں یہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس شخص کے لیے بھی مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض کا شکار افراد کو سب سے زیادہ ضرورت ان کے اپنوں اور دوستوں کی ہوتی ہے، ایسے افراد کا سب سے بڑا علاج اور سب سے بڑی مدد ان کی بات سننا ہے تاکہ ان کے دل کا غبار کم ہوسکے۔

    ایسے شخص کو اکیلا چھوڑنا اس کے مرض کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے، دوستوں اور اہل خانہ کی سپورٹ اور ان کے ساتھ ہونے کا احساس مریض کو بتدریج نارمل زندگی کی طرف لے آتا ہے اور وہ اپنے ڈپریشن سے چھٹکارہ پا لیتا ہے۔


    اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

    عالمی ادارہ صحت

    عالمی ادارہ صحت / پاکستان

    کتابچے برائے ذہنی امراض: کراچی نفسیاتی اسپتال

  • سمندر میں ہلکورے لیتی کشتیاں، جن کے ملاح کچھوؤں کی بددعاؤں سے خوفزدہ ہیں

    سمندر میں ہلکورے لیتی کشتیاں، جن کے ملاح کچھوؤں کی بددعاؤں سے خوفزدہ ہیں

    کراچی کا علاقہ ابراہیم حیدری ماہی گیروں کی قدیم بستی ہے، تاریخی اوراق کے مطابق ایک زمانے میں یہ بستی عظیم دریائے سندھ کا راستہ تھی جو یہاں سے گزرتا تھا۔ پھر وقت بدلا تو دریا نے بھی اپنا راستہ بدل لیا اور یوں یہاں سے گزرنے والا راستہ خشک ہوگیا۔ طویل عرصے تک یہ جگہ یوں ہی خشک رہی، اس کے بعد سمندر نے خالی راستہ دیکھا تو اپنا ڈیرہ جما لیا۔

    کہا جاتا ہے کہ سمندر کے یہاں آجانے کے بعد ایک بار کچھ ماہی گیر یہاں چند لمحوں کو ٹھہرے تو انہیں یہ جگہ بے حد پسند آئی اور وہ یہیں بس گئے، تب سے اب تک یہ علاقہ ماہی گیروں کا علاقہ ہے۔

    اس علاقے میں قدم رکھتے ہی مچھلی کی مخصوص مہک ہر جانب پھیلی محسوس ہوتی ہے، علاقے میں ماہی گیری سے متعلق تمام ساز و سامان کی دکانیں موجود ہیں جن میں سرفہرست جالوں کی دکانیں ہیں۔

    یہاں پر کشتی سازی کے بھی کئی کارخانے موجود ہیں جہاں چھوٹی بڑی ہر قسم کی کشتیاں تیار کی جاتی ہیں، کشتی سازی کا کام کراچی کے ابراہیم حیدری کے علاوہ بلوچستان کے شہروں گوادر، پسنی، جیوانی اور سونمیانی وغیرہ میں بھی ہوتا ہے۔

    پوری دنیا میں جہاں کشتی سازی جدید مشینوں کے ذریعے انجام دی جارہی ہے، وہیں پاکستان میں اب بھی یہ کام انسانی ہاتھوں کے ذریعے ہورہا ہے۔ لکڑی کی کٹائی کے لیے چند ایک مشینوں کے استعمال کے علاوہ بقیہ تمام کام کاریگر اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے ہیں اور ان کے سخت ہاتھ ایسی مضبوط کشتیاں تیار کرتے ہیں جو بڑے بڑے سمندری طوفانوں سے نکل آتی ہیں۔

    کاشف کچھی بھی ابراہیم حیدر کے رہائشی ہیں، وہ ایک کشتی ساز کارخانے کے نگران ہیں جہاں سینکڑوں کشتیاں تیار ہوتی ہیں۔ کاشف ڈسٹرکٹ کونسلر بھی رہ چکے ہیں جبکہ سماجی کارکن بھی ہیں۔

    کاشف کا کہنا ہے کہ کشتیاں بنانے کے لیے زیادہ تر لکڑی باہر سے درآمد کی جاتی ہے، اس سے قبل اس کے لیے مقامی لکڑی استعمال کی جارہی تھی تاہم ملک میں غیر قانونی طور پر درختوں کی کٹائی کی وجہ سے جنگلات کے رقبے میں خطرناک کمی آئی ہے جس کے بعد اب کشتی سازی کی صنعت جزوی طور پر درآمد شدہ لکڑی پر انحصار کر رہی ہے۔

    پاکستان میں تحفظ ماحولیات کے ایک ادارے کے غیر سرکاری اور محتاط اندازے کے مطابق ملک میں کشتی سازی کے لیے سالانہ 12 لاکھ کیوبک فٹ درآمد شدہ جبکہ 2 لاکھ کیوبک فٹ مقامی لکڑی استعمال ہوتی ہے۔

    کاشف نے بتایا کہ کشتی سازی کے لیے کیکر، برما ٹیک، شیشم اور چلغوزے کے درختوں کی لکڑی کو بہترین سمجھا جاتا ہے۔ لکڑی کاٹنے کے لیے ٹرالی مشین اور بینسا مشین استعمال ہوتی ہیں، کاشف کے مطابق لکڑی کے بڑے اور چوڑے تختے ہی اس مقصد کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔

    کیا فائبر لکڑی کا متبادل ہوسکتا ہے؟

    کشتی سازی سے جنگلات پر پڑنے والے اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایک دہائی قبل فائبر گلاس کی کشتیاں بنانے کا رجحان شروع ہوا، تاہم کاشف کچھی کے مطابق فائبر کی کشتی کے حوالے سے بے شمار تحفظات ہیں۔

    پہلا تشویشناک امر تو یہ ہے کہ اگر فائبر کی کشتی بنائی جائے تو اس کی لاگت میں کم از کم 4 گنا اضافہ ہوجاتا ہے، لکڑی کی وہ کشتی جو 10 سے 12 لاکھ روپے میں تیار ہوجاتی ہے، اسی سائز کی فائبر کی کشتی بنانے جائیں تو صرف اس میں فائبر کا کام ہی 40 سے 45 لاکھ تک چلا جاتا ہے۔ پھر اس کی دیگر بنائی کے اخراجات الگ ہیں۔

    فائبر کی کشتی کا وزن برابر کرنے کے لیے لامحالہ اس میں لکڑی ہی لگائی جاتی ہے۔ یوں اس کی بنائی کے تمام اخراجات کشتی مالکان کی پہنچ سے باہر ہوجاتے ہیں۔

    فائبر سے بنی کشتی

    کاشف کے مطابق دوسرا پہلو اس کے غیر محفوظ ہونے کا بھی ہے۔ لکڑی کی کشتی سمندر میں کسی وزنی اور ٹھوس شے سے ٹکرا جائے تو وہ ایسے جھٹکے برداشت کرسکتی ہے، سمندر میں کسی نوکیلی شے سے لکڑی کی کشتی میں معمولی سا سوراخ ہوجاتا ہے جو عارضی طور پر کوئی کپڑا ٹھونس کر بند کیا جاتا ہے تاکہ کسی کنارے تک پہنچا جاسکے اور پھر اس کی باقاعدہ مرمت کی جاسکے۔

    فائبر کی کشتی کسی چیز سے ٹکرا جائے تو اس کے پھٹنے کے خدشات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ایک بار اسے نقصان پہنچ جائے تو وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے جس کے بعد اس پر سوار ماہی گیر سمندر کی موجوں کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔

    کشتی کس کی ملکیت ہوتی ہے؟

    کشتیوں کی بنائی کے حوالے سے کاشف نے مزید بتایا کہ چھوٹی کشتی کو ہوڑا کہا جاتا ہے، جبکہ بڑی کشتی، لانچ کہلاتی ہے۔ سب سے چھوٹی کشتی 15 سے 16 فٹ طویل ہوتی ہے جس میں 2 افراد کے سوار ہونے کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ اس کی لاگت 80 ہزار سے 1 لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔

    بعض بڑی کشتیوں کی قیمت 2 کروڑ تک بھی جا پہنچتی ہے۔

    کشتی میں لکڑی کا کام مکمل ہوجانے کے بعد اسے سمندر میں اتارا جاتا ہے اور چند دن پانی میں رکھا جاتا ہے، اس کے بعد اسے نکال کر اس میں انجن اور دیگر مشینری لگائی جاتی ہے۔

    کشتی تیاری کے مراحل میں
    کشتی تیاری کے مراحل میں
    کشتی کا اندرونی حصہ۔ تصویر: جی ایم بلوچ

    کاشف نے بتایا کہ کسی ایک ماہی گیر کے لیے کشتی خریدنا آسان بات نہیں، اکثر اوقات کئی ماہی گیر مل جل کر کشتی خریدتے ہیں اور بعد ازاں مچھلیوں کی فروخت سے ہونے والی آمدنی آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔

    بعض افراد جو کشتی خرید سکنے کی سکت رکھتے ہیں، وہ خرید کر اسے ٹھیکے پر یا کوئی اور طریقہ کار طے کرنے کے بعد ماہی گیروں کے حوالے کردیتے ہیں اور بعد ازاں مچھلیوں کی فروخت میں منافع کے حصے دار ہوتے ہیں۔

    آبی آلودگی کشتیوں کے لیے بھی نقصان دہ

    کاشف کچھی نے بتایا کہ ہر ماہ یا مہینے میں دو بار کشتی کے بیرونی پیندے پر مچھلی کی چکنائی کا ایک آمیزہ لگایا جاتا ہے، اس سے لکڑی خشک نہیں ہوتی۔ خشک لکڑی سمندر کے نمکین پانی سے جلد خراب ہوسکتی ہے تو یہ چکنائی کشتی کی عمر بڑھا دیتی ہے، علاوہ ازیں اس سے کشتی کی رفتار بھی متوازن رہتی ہے۔

    کشتیوں پر خوبصورت نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں جس کے لیے رنگ ساز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں

    البتہ اب آبی آلودگی کے باعث کشتیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور خراب ہونے کی شرح بڑھ گئی ہے۔ پہلے ایک کشتی کی عمر 12 سے 15 سال تک ہوتی تھی تاہم اب یہ جلد خراب ہونے لگی ہیں۔

    کاشف کے مطابق فیکٹریوں کا سمندر میں ڈالا جانے والا فضلہ جس میں زہریلے کیمیکل شامل ہوتے ہیں، ایک طرف تو سمندری حیات کے لیے موت کا پروانہ ہیں تو دوسری طرف کشتیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔

    ماہی گیروں کی عقیدت و روایات

    کاشف نے بتایا کہ ماہی گیر سمندر سے رزق کماتے ہیں لہٰذا سمندر ان کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے، وہ اپنے کام سے اس قدر عقیدت رکھتے ہیں کہ سمندر پر جانے سے قبل وضو کرنا نہیں بھولتے۔

    زیادہ تر ماہی گیر کوشش کرتے ہیں کہ اگر ان کے جال میں مچھلیوں کے علاوہ کوئی اور سمندری جانور آجائے، جیسے کچھوا، یا دیگر آبی جانداروں کے بچے، تو وہ انہیں احتیاط سے واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان معصوم بے زبان جانداروں کی بددعائیں انہیں سخت نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

    کاشف کا کہنا ہے کہ پاکستانی سمندروں میں غیر ملکی افراد کو ٹرالنگ کی اجازت دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہمارے سمندروں کے لیے سخت نقصان دہ ہے، ’ہم اسے ماس کلنگ کا نام دیتے ہیں، ہیوی مشینری کے ذریعے ٹرالنگ کرنے سے اس جگہ موجود تمام سمندری حیات اوپر آجاتی ہے جن کی مقدار ہزاروں ٹن تک ہوتی ہے۔ بعد ازاں اس میں سے قابل فروخت مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ نکال کر بقیہ مردہ جاندار واپس سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے سمندری وسائل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔‘

    ان کے مطابق پاکستان میں ٹرالنگ کے لیے ان ممالک سے لوگ آتے ہیں جہاں سمندر میں شکار کے سخت قوانین اور پابندیاں ہیں، ان ممالک میں چین، روس، جرمنی اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

    کاشف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت بغیر کسی قواعد و ضوابط کے ملکی جی ڈی پی میں 100 ارب روپے سے زائد ریونیو کی حصے دار ہے، اگر اسے منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملکی معیشت کا اہم ستون ثابت ہوگی۔

    ان کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ غیر ملکی ٹرالنگ پر پابندی لگائی جائے تاکہ ہمارے سمندری وسائل سے مقامی ماہی گیروں کو فائدہ ہو اور ہمارے قیمتی وسائل بھی ضائع نہ ہوں۔

  • کیا آپ کسی کو خودکشی کرنے سے بچا سکتے ہیں؟

    کیا آپ کسی کو خودکشی کرنے سے بچا سکتے ہیں؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے وقت میں سے چند لمحے نکال اپنے ڈپریشن کا شکار دوستوں کی بات سن لیں، تو انہیں خودکشی جیسے انتہائی اقدام سے بچا سکتے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل معروف بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ کی خودکشی نے جہاں ایک طرف تو کئی تنازعوں کو جنم دیا، وہیں دماغی صحت کے حوالے سے ہمارے رویوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

    یہ موضوع اس وقت دنیا بھر میں زیر بحث ہے کہ کیوں ہم اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے ارد گرد کے افراد کی پریشانی سننے کے لیے ذرا سا بھی وقت نہیں اور نہ ہم ڈپریشن کو بیماری ماننے کے لیے تیار ہے۔

    یہی ڈپریشن اور ذہنی تناؤ ہے جو کسی شخص کو خودکشی کی نہج پر پہنچا دیتا ہے اور اس کے لیے زندگی بے معنی بن جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ خودکشی انہیں راہ نجات نظر آنے لگتی ہے۔

    جب کوئی شخص کینسر یا کسی دوسرے جان لیوا مرض کا شکار ہوتا ہے تو کیا ہم ان کے لیے بھی ایسے ہی غیر حساسیت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں، تو پھر ذہنی صحت کے حساس معاملے میں اتنی بے حسی کیوں دکھائی جاتی ہے۔

    خودکشی کے خلاف کام کرنے والی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائڈ پریوینشن (آئی اے ایس پی) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد جنگوں اور دہشت گردی میں ہلاک اور قتل کیے جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

    ہر 40 سیکنڈ بعد دنیا میں کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی خودکشی کی کوشش کرتا ہے۔

    خودکشی کی طرف لے جانے والی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    سائیکٹرک فرسٹ ایڈ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن میں کمی کا سب سے آسان طریقہ اپنے خیالات اور جذبات کو کسی سے شیئر کرنا ہے، بات کرنے سے دل و دماغ کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار شخص کو سب سے زیادہ ضرورت اسی چیز کی ہوتی ہے کہ کوئی شخص اسے بغیر جج کیے اس کی باتوں کو سنے اور جواب میں اس کی ہمت بندھائے۔

    کراچی کے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔

    مغربی ممالک میں اسی مقصد کے لیے ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے ایسی ہیلپ لائن قائم کی جاتی ہے جہاں دوسری طرف ان کی بات سننے کے لیے ایک اجنبی شخص موجود ہوتا ہے اور مریض جب تک چاہے اس سے بات کرسکتا ہے۔

    کیا یہ پہلے سے جانا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص خودکشی کا ارادہ رکھتا ہے؟

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے والا عموماً خاموشی سے اپنے ارادے کی تکمیل نہیں کرتا، وہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ لاشعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سن کر اس پر دھیان دے اور اسے اس انتہائی قدم سے روک لے۔

    ان کے مطابق ایسا شخص اپنے آس پاس کے افراد کو بار بار اس کا اشارہ دیتا ہے جبکہ وہ واضح طور پر کئی افراد کو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ وہ خودکشی کرنے والا ہے۔

    یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرے شخص کو فوراً الرٹ ہو کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے، اس کے برعکس اس کی بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

    انفرادی طور پر ہم کسی کو خودکشی کی نہج پر پہنچنے سے بچانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

    کراچی میں نفسیاتی صحت کے ایک ادارے سے وابستہ ڈاکٹر طحہٰ صابری کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر سن بھی لے تو اسے معمولی کہہ کر چٹکی میں اڑا دیتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی شخص آپ کو اپنا مسئلہ بتائے تو اس کے کردار یا حالت پر فیصلے نہ دیں (جج نہ کریں) نہ ہی اس کے مسئلے کی اہمیت کو کم کریں۔ صرف ہمدردی سے سننا اور چند ہمت افزا جملے کہہ دینا بھی بہت ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک صحت مند دماغ ہی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتا ہے چنانچہ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دیں۔

    اگر کسی نے خودکشی کا ارتکاب کر بھی لیا ہے تو اس کو مورد الزام نہ ٹہرائیں، نہ ہی ایسا ردعمل دیں جیسے اس نے کوئی بہت برا کام کر ڈالا ہو۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ ایک بار خودکشی کا ارتکاب کرنے والے افراد میں دوبارہ خودکشی کرنے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ پہلی بار میں ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور انہیں مدد دیں۔

    ایسی صورت میں بہت قریبی افراد اور اہلخانہ کو تمام رنجشیں بھلا کر متاثرہ شخص کی مدد کرنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی انا اور ضد کسی شخص کی جان لے لے۔

  • مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    پہلا منظر: یہ سنہ 1901 کی ایک اداس سی شام ہے، دلی کے گلی کوچوں میں ہو کا عالم ہے، لوگ اپنے گھروں میں یوں دبکے پڑے ہیں جیسے نامعلوم سمت سے آتی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ باہر جانا گویا اس موت سے گلے ملنے جیسا ہے۔

    ہندوستان میں پھیلی طاعون کی وبا نے لوگوں کو خوف کے حصار میں جکڑ رکھا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ یہ وبا کتنے لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائے گی اور کتنے زندہ بچیں گے۔

    دوسرا منظر: جولائی 2020 کا ایک دن، جب کرونا وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اب تک دنیا بھر میں 5 لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

    ایسے میں چین کے خود مختار علاقے منگولیا میں گلٹی دار طاعون کے مصدقہ کیس نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ حکام نے الرٹ جاری کردیا ہے جس کے تحت اس خطرناک مرض کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے جانوروں کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    بیکٹیریا سے پھیلنے والی یہ بیماری ہر صدی میں وقفے وقفے سے ظاہر ہوتی رہی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے اسے دوبارہ سر اٹھانے والی بیماری قرار دیا ہے۔


    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانے زمانوں میں سرد علاقوں میں رہنے والے لوگ وبائی امراض کا شکار اپنے پیاروں اور جانوروں کو برف کے نیچے دفن کردیتے تھے، ہم نہیں جانتے کہ ہزاروں سال پہلے کس دور میں، کس وائرس نے انسانوں پر حملہ کیا اور انہیں کن امراض کا شکار بنایا۔

    چنانچہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس ڈھیروں برف کے نیچے کیا کیا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے؟

    وائرس کو جگانے کے تجربات

    اگر برف کے نیچے دبے ہوئے ہزاروں لاکھوں سال قدیم وائرس اور جراثیم پھر سے زندہ ہوگئے تو وہ کس حد تک فعال ہوں گے؟ آیا وہ پہلے کی نسبت کمزور ہوچکے ہوں گے یا پھر ماحول کے مطابق خود کو مزید طاقتور بنا لیں گے؟

    یہ جاننے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین وائرسز پر مختلف تجربات کر چکے ہیں۔

    سنہ 2014 میں ایک تجربے کے تحت امریکی ماہرین برف میں دبے 30 ہزار سال قدیم ایسے وائرس کو جگانے میں کامیاب رہے جس کی خاص بات یہ تھی کہ عام وائرسز کے برعکس یہ اتنا بڑا تھا کہ ایک عام مائیکرو اسکوپ سے دیکھا جاسکتا تھا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جیسے ہی وائرس حیات نو حاصل کرتا ہے، وہ اسی لمحے سے فعال ہوجاتا ہے اور خود کو ملٹی پلائی کرنا شروع کردیتا ہے۔ اپنی نئی زندگی کے اگلے لمحے سے ہی وہ اپنے میزبان (انسان یا جانور) کو بیماری کا شکار بنا دینے کے قابل ہوتا ہے۔

    سنہ 2005 میں امریکی خلائی ادارے ناسا کی لیبارٹری میں الاسکا کی برفوں میں دبے ایسے جرثوموں کو جگایا گیا جو اندازاً اس وقت فعال تھے جب زمین پر فیل پیکر (میمتھ) رہا کرتے تھے۔ ہاتھی جیسے قوی الجثہ یہ جانور اب سے 1 لاکھ 20 ہزار سال قبل موجود تھے اور ان کی آخری نسل اب سے 4 ہزار سال قبل تک موجود رہی۔

    فیل پیکر

    اس کے 2 سال بعد یعنی سنہ 2007 میں انہی سائنسدانوں نے 80 لاکھ سال قدیم ایسے جراثیم کو حیات نو دی جو انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز میں دبے ہوئے تھے۔ جس برف سے ان جراثیم کو حاصل کیا گیا وہ برف بھی 1 لاکھ سال قدیم تھی۔

    فروری 2017 میں ناسا کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمالی میکسیکو میں کرسٹل کے ایک غار میں انہیں 10 سے 50 ہزار سال قدیم جرثومے ملے ہیں۔

    شمالی میکسیکو کا غار

    یہ جرثومے کرسٹل کے اندر موجود اس کے مائع میں تھے تاہم جیسے ہی انہیں مائع سے الگ کیا گیا اور انہیں سازگار ماحول ملا، یہ خود کو ضرب دینا شروع ہوگئے۔ یہ غار ایسا تھا جہاں ہزاروں سال سے سورج کی روشنی نہیں پہنچی تھی، چناچہ یہ جرثومے جوں کے توں موجود رہے۔

    بیماریوں کا پنڈورا بکس

    فرنچ نیشنل ریسرچ سینٹر سے تعلق رکھنے والے جین مائیکل کلیویئر کا کہنا ہے کہ برفانی خطے میں بسنے والے اولین انسان (جن کی زندگی کے قدیم ترین معلوم آثار 30 سے 40 ہزار سال قدیم ہیں) بھی جن وائرسز سے متاثر ہوئے، وہ وائرس اب بھی وہیں برف میں موجود ہوسکتے ہیں اور اگر یہی صورتحال رہی تو وہ قدیم وائرس بھی زندہ ہوسکتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ فلاں وائرس زمین سے ختم ہوچکا، ایک گمراہ کن بات ہے اور یہ گمراہ کن بیان ہمیں ایک جھوٹا احساس تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    مائیکل کلیویئر کے مطابق صرف ایک کلائمٹ چینج ہی نہیں، کان کنی اور تیل و گیس کی تلاش کے لیے زمین میں کی جانے والی گہری کھدائیاں بھی سوئے ہوئے جراثیم کو پھر سے سطح پر لا کر انہیں جگا سکتی ہیں۔ البتہ گلوبل وارمنگ کا مستقل عمل مختلف بیماریوں کا پنڈورا بکس کھول دے گا۔

    کرونا وائرس سے نڈھال پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

    پاکستان واٹر پارٹنر شپ پروگرام سے منسلک کلائمٹ چینج سائنٹسٹ ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا کو سائنسی طریقے سے ڈیل کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق جب ہم آگے آنے والے خطرات کو دیکھتے ہیں تو پھر اس بات کی ضرورت کو محسوس کرلینا چاہیئے کہ ہمیں سائنسی شعبے میں اپنی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

    ان کے مطابق کاربن اخراج کو کم کرنا اور ایسے ماحول دوست اقدامات اٹھانا جن سے کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات میں کمی ہو، یہ تو طویل المدتی منصوبے ہیں تاہم تب تک ان خطرات کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پرانے وائرسز کے جاگنے کا خطرہ ہے، وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں سائنسی بنیادوں پر سخت نگرانی اور ریسرچ کی جائے تاکہ کسی ممکنہ خطرے کو ابتدا میں ہی پکڑا جاسکے اور اس کا سدباب کیا جاسکے۔

    انہوں نے کہا کہ پرانے وائرسز کے جاگنے سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہوں گے، بلکہ یہ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ہمارے آبی ذخائر کو متاثر کریں، ہماری نباتات کو نقصان پہنچائیں یا پھر ہمارے مویشیوں کے لیے خطرہ ثابت ہوں۔ ایسے میں لائیو اسٹاک اور ماہی گیری سے منسلک پاکستان کی ایک بڑی آبادی خطرے میں ہوگی بلکہ ہمارے پانی کے ذخائر بھی غیر محفوظ ہوں گے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا مزید کہنا تھا کہ ایسی وباؤں کے دور میں ماہرین طب اور سائنسدانوں کی تجاویز کو ترجیح دے کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، مذکورہ بالا منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک میں میڈیکل سائنس اور ماحولیات کا شعبہ مشترکہ طور پر سائنسی بنیادوں پر کام کرے اور اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری کرے۔

  • بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    رحمت بی بی کی جھونپڑی میں آج گویا عید کا دن تھا، صرف ایک ان کی جھونپڑی کیا آس پاس کی تمام جھونپڑیوں میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی کیونکہ آج رحمت بی بی کی سب سے بڑی بیٹی شادی ہو کر رخصت ہونے جارہی تھی۔

    شادی کے لیے رحمت بی بی نے اپنی حیثیت کے مطابق بہت کچھ جوڑ لیا تھا۔ وہ سامان جو مستقبل میں نہ صرف ان کی بیٹی بلکہ اس کے نئے گھر والوں کے بھی کام آنا تھا۔ کپڑے، برتن، ڈھیروں سجانے کی اشیا جو سب ہاتھ سے کڑھی ہوئی تھیں، ہاتھ کے پنکھے اور اس تمام سامان کو رکھنے کے لیے لوہے کے صندوق (جنہیں پیٹی بھی کہا جاتا ہے)۔ رحمت بی بی کا ایک بیٹا شہر میں ملازمت کرتا تھا سو ان کی حیثیت دیگر گاؤں والوں کے مقابلے میں کچھ بہتر تھی لہٰذا وہ بیٹی کو جہیز میں ایک عدد بکری بھی دے رہی تھیں۔ اور سب سے اہم چیز جو سب کو دکھانے کے لیے سامنے ہی رکھی تھی، 50 عدد تکیے۔

    یہ 50 عدد تکیے وہ اہم شے تھی جس کی تیاری رحمت بی بی اور ان کے گاؤں کی ہر ماں بیٹی کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی شروع کردیتی تھی۔ کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع اس گاؤں مٹھو گوٹھ میں بیٹی کی شادی میں اور کچھ ہو یا نہ ہو مگر 50 تکیے لازمی تھے۔

    جہیز میں دیے گئے سامان پر ہاتھ سے کشیدہ کاری کی جاتی ہے

    مٹھو گوٹھ صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔

    گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔

    ایک مٹھو گوٹھ ہی کیا سندھ کے طول و عرض میں آباد مختلف ذاتوں، قبیلوں اور برادریوں میں جہاں مختلف روایات دیکھنے کو ملتی ہے، انہی میں ایک روایت بیٹی کو جہیز میں ڈھیروں ڈھیر بستر دینا بھی ہے، البتہ یہ روایت پورے سندھ کی برادریوں میں نہیں ہے۔

    جن برادریوں میں یہ رواج ہے وہاں کم از کم 20 سے 30 کے قریب کڑھی ہوئی چادریں، تکیے اور رلیاں (کپڑے کے ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا متنوع رنگوں کا سندھ کا روایتی بچھونا) دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھ سے تیار سجاوٹ کی ایسی اشیا جو دیوار پر آویزاں کی جاسکیں، ازار بند اور پہننے کے لیے کڑھے ہوئے کپڑے ان کے علاوہ ہوتے ہیں۔

    تاہم بستروں پر اس قدر زور کیوں؟ اس بارے میں اندرون سندھ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے والی پرھ قاضی نے اپنی معلومات سے آگاہ کیا، پرھ اندرون سندھ کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔

    پرھ کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ تو سندھ کی مہمان نوازی ہے، سندھ دھرتی کی مہمان نوازی جو بیرون ملک سے آنے والوں کو بھی اپنائیت سے سرشار کردیتی ہے، سندھ کے رہنے والوں کی سادہ سی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ سندھ کے لوگ اپنے گھر آنے والوں کی بے انتہا آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بہترین پکوان جو گھر کے شاندار برتنوں میں سرو کیا جاتا ہے، تمام وقت مہمان کا خیال رکھنا (جس میں بجلی نہ ہو تو انہیں پنکھا جھلنا بھی شامل ہے)، رات سونے کے لیے نئے بستر بچھانا، اور وقت رخصت مہمانوں کو روایتی تحائف دینا سندھ کے لوگوں کا خاصہ ہے۔

    رحمت بی بی نے بیٹی کے جہیز کے لیے ڈھیروں بستر تیار کیے

    خاندانوں کا اکثر ایک دوسرے سے ملنے کے لیے جانا اور رات قیام کرنا عام بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈھیروں بستر ہر گھر کی ضرورت ہیں۔ اکثر گھروں میں اسی حساب سے چارپائیاں بھی رکھی جاتی ہیں جن پر بچھانے کے لیے چادریں اور تکیے درکار ہوتے ہیں جبکہ فرشی نشست کی صورت میں بھی یہی سامان درکار ہے۔ ایسے میں اگر بہو کے جہیز کے بستر مہمانوں کو بھلے لگیں اور وہ اس کی تعریف کردیں تو نہ صرف سسرال والوں کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا ہے بلکہ گھر میں بہو کی اہمیت میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

    پرھ نے بتایا کہ ایک رجحان جسے بظاہر ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے وہ رخصتی سے قبل جہیز کی نمائش کرنا ہے تاکہ ہر شخص دیکھ سکے کہ ماں باپ نے اپنی بیٹی کو کیا کیا دیا ہے۔ ’برادری والے باقاعدہ سوال پوچھتے ہیں کہ کتنے جوڑے دیے ہیں، کتنے بھرے ہوئے (کڑھائی والے)، اور کتنے سادہ ہیں، کتنی رلیاں ہیں، کتنے تکیے ہیں۔ ایسے میں جب بتایا جاتا ہے کہ 40 رلیاں ہیں، یا 50 تکیے، تو نہ صرف بتانے والے والدین کا سینہ چوڑا ہوجاتا ہے بلکہ سسرال والے بھی فخر سے اتراتے ہیں کہ دیکھو ہماری بہو اتنا کچھ لے کر آرہی ہے‘۔

    بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے جہیز کی تیاری کرنا، بظاہر والدین کے کندھوں پر بوجھ لگتا ہے، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ پرھ نے بتایا کہ بیٹی کو شادی کر کے رخصت کرنے تک ایک بھاری ذمہ داری سمجھنا تو برصغیر پاک و ہند میں عام ہے، لیکن اگر اس خاص پس منظر میں جہیز کی تیاری کی بات کی جائے تو یہ ذمہ داری سے زیادہ والدین اور خصوصاً ماں کے لیے وقت گزاری کا ذریعہ بھی ہے۔

    ان کے مطابق گھر کے تمام کاموں سے فرصت پا کر کڑھائی اور کشیدہ کاری کرنا دیہی سندھ کی خواتین کا خصوصی مشغلہ ہے۔ یہ ان کے لیے ایک سماجی تفریح بھی ہے کیونکہ کڑھائی کرنے اور سیکھنے کے بہانے دو چار گھروں کی خواتین ایک گھر میں جمع ہوجاتی ہیں، اس دوران گپ شپ اور کھانے پینے کا سلسلہ چلتا ہے جبکہ ایک سے ایک کشیدہ کاری کے نمونے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ دن کے اختتام پر جب سارا کام سمیٹا جاتا ہے تو ماں اس نئے تیار شدہ سامان کو ایک محفوظ جگہ رکھ دیتی ہے اور سوچتی ہے کہ یہ بیٹی کی شادی میں کام آئے گا۔ اور صرف جہیز پر ہی کیا موقوف، اس بیٹھک کے دوران گھر کی سجاوٹ کی اشیا اور گھر کے مردوں کے لیے کڑھے ہوئے ازار بند بھی بنائے جاتے ہیں جو چند دن بعد ہی استعمال میں لے لیے جاتے ہیں۔

    سلائی کڑھائی کرنا گاؤں کی خواتین کے لیے مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہے

    سینئر صحافی اور محقق اختر بلوچ اس بارے میں کہتے ہیں کہ جہیز میں بستروں کا یہ رواج سندھ کی ثقافت کا ایک حصہ ہے جو والدین اور بیٹی دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ چونکہ دیہی سندھ میں جہیز کا سامان بازار سے خریدنے کے بجائے اپنے ہاتھ سے تیار کیا جاتا ہے لہٰذا یہ سہل بھی لگتا ہے اور خوشی بھی فراہم کرتا ہے۔

    ان کے مطابق گھر میں اگر بہت مہمان زیادہ آجائیں تو پڑوس کے گھروں سے بھی بستر یا چارپائیاں ادھار لے لی جاتی ہیں، ایسے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کے گھر کی رلیاں بہت اچھی ہیں یا فلاں کے گھر کے تکیے بہت خوبصورت ہیں، یہ تعریف اس سامان کے مالکوں کی خوشی میں بے پناہ اضافہ کردیتی ہے۔

    گھریلو استعمال کی بھی کئی اشیا ہاتھ سے بنائی اور سجائی جاتی ہیں

    سندھ کی ثقافت پر عبور رکھنے والے سینئر صحافی امر گرڑو بتاتے ہیں کہ سندھ کا ایک قبیلہ باگڑی اپنی ہر شادی میں ہزاروں مہمانوں کو مدعو کرتا ہے، اتنے مہمانوں کے قیام کے لیے اتنے ہی بستروں کی ضرورت ہے، اب ہر گھر میں سو یا 200 بستر بھی ہوں تو میزبانوں کا کام چل جاتا ہے۔

    ان کے مطابق شہر اور گاؤں کے درمیان فاصلہ ہونا ایک ایسی وجہ ہے جس کے باعث شہری سندھ کے لوگوں کو دیہی سندھ کے باسیوں کی کئی عادات نامانوس لگتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ جب شہر جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اشیائے ضرورت خرید کر اسٹاک کرلیں تاکہ بار بار اتنی دور کا سفر نہ کرنا پڑے، ایسے میں مہمانوں کی آمد کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اچانک مہمان آجائیں تو کسی شے کی کمی نہ ہو۔ بہت زیادہ تعداد میں بستر جمع کرنا بھی اسی عادت کا حصہ ہے۔

    امر نے بتایا کہ سندھ کی یہ روایت کچھ علاقوں میں ہے، جہیز کے حوالے سے پورے سندھ میں مختلف روایات دیکھنے کو ملیں گی۔ سندھ کی ایک برادری ایسی ہے جو بیٹی کو جہیز میں کچھ نہیں دیتی، تھر میں جوگیوں کا قبیلہ بیٹی کو جہیز میں سانپ دیتا ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں کے جغرافیائی حالات، وہاں کا ماحول اور آب و ہوا وہاں رہنے والوں کی ثقافت و روایات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، شہر والوں کے لیے جو روایت بہت اجنبی ہوسکتی ہے وہ کسی دوسرے سندھی قبیلے یا سندھی برادری کے لیے بھی اتنی ہی اجنبی ہوسکتی ہے کیونکہ ان کے درمیان جغرافیے کا فرق ہے۔

  • گاؤں دیہات میں بیت الخلا کی عدم دستیابی ۔ کیا وجہ صرف غربت ہے؟

    گاؤں دیہات میں بیت الخلا کی عدم دستیابی ۔ کیا وجہ صرف غربت ہے؟

    32 سالہ رحمت بی بی نے اپنی جھونپڑی کے دروازے سے باہر دیکھا، باہر گھپ اندھیرا تھا اور گہرا سناٹا۔ ایک لمحے کو اس کا دل گھبرایا لیکن باہر جانا بھی ضروری تھا، ضرورت ہی کچھ ایسی تھی۔

    رحمت بی بی کچھ دیر برداشت کرتی رہیں لیکن جب معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہونے لگا تو مجبوراً اس نے برابر میں سوئی اپنی بہن کو جگایا، بہن بمشکل آنکھیں کھول کر اس کی بات سننے کی کوشش کرتی رہی، پھر معاملے کو سمجھ کر وہ اٹھ گئی، دونوں بہنیں باہر گئیں جہاں گھر سے کچھ دور جھاڑیاں ان کی منزل تھیں۔ جھاڑیوں کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد دونوں بہنیں واپس جھونپڑی میں تھیں لیکن اس دوران دونوں جیسے کئی میل کا سفر طے کر آئی تھیں۔

    رحمت بی بی پاکستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 22 لاکھ افراد کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں، یعنی ملک کی 13 فیصد آبادی بیت الخلا سے محروم ہے۔

    یہ افراد زیادہ تر گاؤں دیہات اور کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ رحمت بی بی کا گاؤں بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ گاؤں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع ہے، اس کا نام مٹھو گوٹھ ہے، اور یہاں جا کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کئی صدیاں پیچھے چلی گئی ہو۔

    صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں واقع یہ گاؤں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔

    مٹھو گوٹھ 100 گھروں پر مشتمل گاؤں ہے

    گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔

    طویل عرصے سے آباد یہاں کے لوگوں کے معاشی حالات یا گاؤں کے مجموعی حالات میں بظاہر تو کوئی تبدیلی نہیں آئی، البتہ حال ہی میں آنے والی ایک تبدیلی ایسی ضرور ہے جس کی خوشی یہاں کی خواتین کے چہروں پر چمکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ تبدیلی ہے، خواتین کے لیے واش رومز کی تعمیر۔

    اس گاؤں میں صرف ایک واش روم تھا جو گاؤں کی مسجد کے باہر بنا ہوا تھا اور یہ مردوں کے زیر استعمال رہتا تھا۔ نماز کے لیے وضو کے علاوہ اسے عام اوقات میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    کچھ سال قبل جب یہاں طوفانی بارشوں کے سبب سیلاب آیا، اور امداد دینے کے لیے یہاں حکومتی افراد، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور مخیر افراد کی آمد شروع ہوئی تو ان کے لیے ایک اور واش روم کی ضرورت پڑی۔ تب ایک این جی او نے یہاں ایک اور باتھ روم بنوا دیا لیکن وہ صرف باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، اور عام دنوں میں اسے کوئی استعمال نہیں کرتا تھا۔

    گاؤں کی خواتین صبح اور رات کے اوقات میں گھر سے دور، کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور تھیں۔ رحمت بی بی بتاتی ہیں، ’زیادہ مشکل اندھیرا ہونے کے بعد پیش آتی تھی۔ اس وقت کسی عورت کا اکیلے جانا ناممکن تھا۔ چنانچہ دو یا تین عورتیں مل کر ساتھ جایا کرتی تھیں، چھوٹی بچیاں عموماً اپنی بڑی بہنوں یا ماں کے ساتھ جاتیں۔‘

    رحمت بی بی خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ

    یہ ایک مستقل اذیت تھی جو گاؤں کی خواتین کو لاحق تھی۔ دن کے کسی بھی حصے میں اگر انہیں باتھ روم کی ضرورت پیش بھی آتی تو وہ اسے شام تک برداشت کرنے پر مجبور ہوتیں تاکہ مرد گھر لوٹ آئیں تو وہ سناٹے میں جا کر فراغت حاصل کرسکیں۔

    گاؤں میں پہلے سے موجود 2 باتھ روم ان کے لیے غیر ضروری تھے، کیونکہ ان میں سے ایک تو مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، جبکہ دوسرا مردوں کے زیر استعمال تھا، لہٰذا وہ شرم کے مارے چاہ کر بھی اسے استعمال نہیں کرتی تھیں۔

    باتھ روم کی سہولت نہ ہونے اور صفائی کے ناقص انتظام کے باعث 2 خواتین یہاں ڈائریا کے ہاتھوں جان سے بھی دھو چکی تھیں۔

    ان خواتین کی زندگی کا یہ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت حل ہوا جب ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے یہاں واش رومز بنوائے۔ خواتین کے لیے بنوائے جانے یہ دو بیت الخلا ان کے لیے رحمت ثابت ہوئے جو ان کے گھروں کو نزدیک بنوائے گئے تھے اور وہ دن کے کسی بھی حصے میں انہیں استعمال کرسکتی تھیں۔

    نو تعمیر شدہ بیت الخلا
    نو تعمیر شدہ بیت الخلا

    اس بارے میں تنظیم کے سربراہ منشا نور نے بتایا کہ یہاں پر بیت الخلا کی تعمیر کا مقصد ایک تو ان خواتین کو محفوظ باتھ روم کی سہولت فراہم کرنا تھا، دوسرا صفائی کے رجحان کو بھی فروغ دینا تھا۔ ’جب ہم نے یہاں بیت الخلا بنوانے کا ارادہ کیا تو گاؤں کی خواتین سے اس بارے میں تفصیلی مشاورت ہوئی۔ انہیں ایک محفوظ باتھ روم نہ ہونے کی پریشانی تو ضرور تھی تاہم وہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ کھلے میں رفع حاجت اور صفائی کا فقدان ان کی صحت کے لیے خطرناک مسائل پیدا کرسکتا ہے۔‘

    منشا نور کے مطابق ان خواتین کو باتھ روم کی تعمیر کے ساتھ صحت و صفائی کے اصولوں کی بھی ٹریننگ دی گئی جیسے باتھ روم کے استعمال کے بعد ہاتھ دھونا، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، اور صابن کا باقاعدہ استعمال کرنا۔

    کیا بیت الخلا کی تعمیر میں کوئی سماجی رکاوٹ بھی ہے؟

    حکومت پاکستان کے ساتھ سینی ٹیشن پر کام کرنے والی تنظیم واٹر ایڈ کے پروگرام مینیجر عاصم سلیم کے مطابق گاؤں دیہات میں گھروں میں، یا گھروں کے قریب ٹوائلٹ نہ بنوانا، اس امر میں کہیں غربت ان کی راہ میں حائل ہے اور کہیں پر یہ ان کی صدیوں پرانی روایات و عادات کا حصہ ہے۔ ’ہر گاؤں میں ایک بیت الخلا ضرور ہوتا ہے لیکن اسے مہمانوں کے لیے تعمیر کیا جاتا ہے۔ مہمانوں کے لیے ایک مخصوص کمرہ بیٹھک (اور بعض زبانوں میں اوطاق) بیت الخلا کے بغیر ادھورا ہے، یہ کمرہ گاؤں کے بیچوں بیچ تعمیر کیا جاتا ہے اور اسے صرف مہمانوں کے لیے ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘

    عاصم کے مطابق اکثر گاؤں دیہات کے مقامی مرد و خواتین کھلے میں رفع حاجت کے عادی ہوتے ہیں اور یہ ان کی عادت بن چکا ہے چنانچہ ان کی ٹیم اسی عادت کو تبدیل کرنے پر کام کرتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض جگہوں پر گاؤں والے ایک خاص وجہ کے تحت بھی بیت الخلا نہیں بنواتے۔ چونکہ گاؤں والے کنوؤں اور ہینڈ پمس کے ذریعے زمین کا پانی نکال کر اسے پینے، فصلوں کو پانی دینے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور ایسی جگہوں پر ایک باقاعدہ سیوریج سسٹم موجود نہیں ہوتا تو وہ سمجھتے ہیں کہ بیت الخلا بنوا کر اسے استعمال کرنا زیر زمین پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔ سیوریج سسٹم کی عدم موجودگی کے سبب وہ بیت الخلا بنوانا بے فائدہ سمجھتے ہیں۔

    بیت الخلا کی تعمیر میں کیا چیلنجز درپیش ہیں؟

    محکمہ صحت سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ میں سینی ٹیشن پالیسی سنہ 2017 میں تشکیل دی گئی تھی جس کا موٹو ’صاف ستھرو سندھ‘ رکھا گیا۔ اس کے تحت صوبائی حکومت کا وعدہ ہے کہ سنہ 2025 تک سندھ سے کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔

    لیکن ترجمان کا کہنا ہے کہ اس میں انہیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، ’سب سے پہلا چیلنج تو لوگوں کی اس عادت کو بدلنا ہے کہ وہ کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کو ترک کر کے ٹوائلٹس کا استعمال شروع کریں۔‘

    ان کے مطابق اس سلسلے میں کمیونٹیز کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ ان کی صدیوں پرانی اس عادت کو بدلنے کے لیے کون سا طریقہ آزمایا جائے۔

    انہوں نے بتایا کہ کئی مقامات پر جب لوگوں کو ٹوائلٹس تعمیر کروا کر دیے گئے تو ایک صاف ستھری اور طریقے سے بنی ہوئی جگہ کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کو ان کا دماغ تیار نہیں ہوا، چنانچہ اکثر افراد نے انہیں بطور اسٹور روم اور بعض نے بطور کچن استعمال کرنا شروع کردیا۔

    ترجمان کے مطابق اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں 74 فیصد افراد کو بیت الخلا کی سہولت میسر ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صرف 48 فیصد ہے۔

    ایک طرف تو سندھ حکومت اس غیر صحتمند رجحان کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے، تو دوسری طرف مختلف این جی اوز بھی ان کی مدد کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف، جنہیں سنہ 2030 تک مکمل کیا جانا ہے، میں چھٹا ہدف بھی اسی سے متعلق ہے کہ ہر شخص کے لیے محفوظ بیت الخلا کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔

    گاؤں دیہات کی خواتین کو ٹوائلٹ کی عدم موجودگی میں تکلیف میں مبتلا دیکھ کر امید کی جاسکتی ہے کہ سنہ 2025 تک کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کے خاتمے کا ہدف پورا ہوسکے گا۔

  • ہماری جینز کا نیلا رنگ کہاں سے آیا؟

    ہماری جینز کا نیلا رنگ کہاں سے آیا؟

    رنگ مختلف خاصیتوں کے حامل ہوتے ہیں، کچھ رنگ خوشی، خوشحالی، محبت اور سکون کا استعارہ ہوتے ہیں تو کچھ غم و الم، مایوسی اور ناامیدی کی علامت ہوتے ہیں۔

    نیلا بھی ایسا ہی رنگ ہے جو بھروسے، وفاداری اور ذہانت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں اس رنگ کی کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جو ہم آج سے قبل نہیں جانتے تھے؟

    ہماری نیلے رنگ کی جینز، اور نیلے رنگ کے مختلف ملبوسات آج کے دور میں مختلف کیمیکلز سے رنگے جاتے ہیں۔ آئیے آج ہم آپ کو اس رنگ کے اصل خطے اور اس کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہیں۔

    جاپان کے جنوب مغرب میں واقع مضافاتی شہر ٹوکو شیما نیلا رنگ پیدا کرنے والے پودوں انڈیگوفیرا ٹنکوریا کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس شہر میں یوشینو گاوا نامی دریا ہے جو زیر زمین بہتا ہے اور مٹی کو حرارت فراہم کرتا ہے۔

    ان پودوں سے حاصل ہونے والا نیلا رنگ سنہ 1600 سے مقبول ہونا شروع ہوا۔ اس سے قبل جاپان کا سمورائی قبیلہ اس رنگ کو عام استعمال کرتا تھا۔

    دراصل اس نیلے رنگ سے جب کاٹن کو رنگا جاتا تھا تو وہ کاٹن سخت ہوجاتا تھا، یہ کپڑا دیگر کپڑوں کی نسبت بدبو اور دھول مٹی سے کم خراب ہوتا تھا۔ چنانچہ سخت مشقت کرنے والے اور سخت جان سمورائیوں کے لیے یہ ایک پسندیدہ رنگ تھا۔

    پودوں سے حاصل ہونے والا یہ نیلا رنگ جسم کے مختلف زخموں کو بھی جلد مندمل کردیتا تھا کیونکہ یہ رنگ زخم کو مختلف بیکٹریا سے محفوظ رکھتا تھا۔

    یہ رنگ اس وقت فائر فائٹرز کے لباس کا بھی رنگ تھا، کیونکہ (خالص) نیلا رنگ 1500 ڈگری فارن ہائیٹ کے شعلوں سے بھی بچا سکتا ہے۔

    تاہم اس رنگ کا حصول اتنا آسان بھی نہیں تھا۔

    اس رنگ کو حاصل کرنے کے لیے مخصوص پودے کے پتوں کو پودے سے الگ کیا جاتا ہے، اس کے بعد اسے دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ ان پتوں کو ہر تھوڑی دیر بعد پلٹ کر دھوپ لگانی ضروری ہوتی ہے۔

    اچھی طرح دھوپ میں رہنے کے بعد ان پتوں کا رنگ نیلا مائل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس سے رنگ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سارا عمل تقریباً 1 سال میں مکمل ہوتا ہے۔

    اس رنگ کو حاصل کرنے میں درپیش محنت اور طوالت کی وجہ سے اب اس رنگ کے لیے کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب مارکیٹ میں اصل رنگ کی مانگ کم ہوئی تو اس کی افزائش سے وابستہ کسانوں نے بھی ان پودوں کو اگانا چھوڑ کر کوئی دوسرا ذریعہ معاش تلاش کرلیا۔

    ٹوکو شیما میں اب گنتی کے صرف 5 کسان ہیں جو ابھی بھی اس پودے کی افزائش کر رہے ہیں۔

    اس رنگ سے کپڑوں کو رنگنا بھی کوئی آسان کام نہیں، رنگ سازوں کو اس رنگ میں رنگی ایک شے تیار کرنے میں کم از کم 10 دن لگ جاتے ہیں۔

    طویل عرصے تک اس رنگ سے کھیلنے کے بعد زیادہ تر رنگ سازوں کے ناخن بھی مستقل اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

    خالص اور کیمیکل ملے رنگ میں کیا فرق ہے؟

    یہ بات تو طے ہے کہ جب کوئی شے خالص اور قدرتی اشیا سے تیار کی جاتی ہے تو اس کی الگ ہی چھب ہوتی ہے۔

    اس رنگ کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کیمیکل والے رنگ سے جب کپڑے کو رنگا جاتا ہے تو وہ اسی وقت خوبصورت معلوم ہوتا ہے، اور کچھ عرصے بعد اس کی یہ خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔

    اس کے برعکس اصل رنگ سے رنگی اشیا کی خوبصورتی وقت کے ساتھ نکھر کر آتی ہے اور یہ دیرپا بھی ہوتی ہے۔

    ایک ماہر رنگریز پودوں سے حاصل کیے گئے نیلے رنگ سے مختلف شیڈز تخلیق کر سکتا ہے، وہ اسے سیاہی مائل نیلا بھی بنا سکتا ہے، اور سمندر جیسا پرسکون نیلگوں بھی۔

    کیا آپ یہ خالص رنگ پہننا چاہیں گے؟