Author: فریحہ فاطمہ

  • پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ غذائی ضروریات بھی بڑھتی جارہی ہیں، جس کے لیے موجودہ وسائل ناکافی ہیں اور یوں دنیا کی ایک بڑی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔

    اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے چند نوجوانوں نے متبادل پروٹین کی پیداوار کا منصوبہ پیش کیا ہے جسے دنیا بھر کے ماہرین کی پذیرائی حاصل ہوئی۔

    سنگاپور میں منعقد کی جانے والی انوویٹ فار کلائمٹ کانفرنس کے تحت ہونے والے لیو ایبلٹی چیلنج میں دنیا بھر کے تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد کو ماحول دوست آئیڈیاز پیش کرنے کی دعوت دی گئی جس کے لیے سینکڑوں آئیڈیاز موصول ہوئے۔ ان تمام آئیڈیاز میں متبادل پروٹین کا آئیڈیا مقابلے کا فاتح ٹھہرا۔

    فاتح کمپنی

    متبادل پروٹین کا یہ منصوبہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے نوجوانوں کی ایک کمپنی صوفیز کچن نے پیش کیا۔

    اس پروٹین کو بنانے کے لیے مختلف غذائی اشیا کی تیاری کے دوران بچ جانے والے خمیر اور ایک قسم کی الجی کو استعمال کیا گیا ہے۔ ان دونوں اشیا کی آمیزش سے اگنے والا پودے میں وافر مقدار میں پروٹین موجود ہوتی ہے۔

    یہ پودا صرف 3 دن میں اگایا جاسکتا ہے جبکہ پروٹین حاصل کرنے کے روایتی ذرائع جیسے گائے کو نشونما کے لیے ایک عرصہ درکار ہے، جبکہ گوشت کی پیداوار کے لیے کم از کم 141 ایکڑ زمین چاہیئے۔ اس کے برعکس پروٹین کے اس پودے کو صرف 0.02 ایکڑ زمین درکار ہے۔

    اسی طرح اس پودے کی تیاری میں پانی بھی کم استعمال ہوگا جبکہ گائے کی افزائش کی نسبت اس کا کاربن فٹ پرنٹ (کاربن اخراج / اثرات) بھی بے حد کم ہوں گے۔

    مزید پڑھیں: برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    خیال رہے کہ پروٹین کے حصول کا ذریعہ یعنی مختلف مویشیوں کو رہائش کے ساتھ پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    الجی اور خمیر سے تیار کیے جانے والے اس پودے کو بطور غذا استعمال کیا جاسکتا ہے جو انسانی جسم کو درکار غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔

    اس آئیڈیے کو 10 لاکھ سنگاپورین ڈالر یعنی لگ بھگ 7 لاکھ امریکی ڈالر کا انعام دیا گیا تاکہ اس منصوبے کو نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا بھر میں فروغ دیا جاسکے اور غذائی بحران اور قلت پر قابو پانے کے لیے قدم اٹھایا جاسکے۔

  • باصلاحیت طالبات نے پلاسٹک سے ڈیزائنر لباس تیار کردیا

    باصلاحیت طالبات نے پلاسٹک سے ڈیزائنر لباس تیار کردیا

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک اس وقت دنیا بھر کے ماہرین کے لیے درد سر بن چکا ہے، اس پلاسٹک کے کچرے کو ختم کرنے کے لیے اس کے مختلف استعمالات متعارف کروائے جارہے ہیں اور ایسا ہی ایک اور استعمال سامنے آیا ہے۔

    سنگاپور کے کچھ طالب علموں نے پلاسٹک کو ملبوسات کی صورت میں پیش کیا ہے جسے دنیا بھر کی پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ جیسیکا اور ایوانا، صرف 2 طالبات پر مشتمل اس فیشن ڈیزائننگ ٹیم نے ماحول دوستی میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فیشن میں ایک نئی جہت پیش کی اور پلاسٹک سے بنے ملبوسات متعارف کروائے ہیں۔

    یہ ملبوسات سنگاپور میں ہونے والی انوویٹ فار کلائمٹ کانفرنس میں پیش کیے گئے جہاں دنیا بھر کے ماہرین اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسے دیکھا اور ان طالبات کو سراہا۔ طالبات کو اس کانفرنس میں ان کی تخلیقات پر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    جیسیکا اور ایوانا کو سنگاپور میں کام کرنے والی ایک کمپنی کی معاونت حاصل ہے۔ یہ کمپنی روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی بوتلوں کو جمع کر کے انہیں مختلف مراحل سے گزار کر کپڑے کی شکل میں بدل ڈالتی ہے۔ اس کپڑے کو تجارتی بنیادوں پر تو فروخت کیا ہی جاتا ہے، تاہم یہ کمپنی ان افراد کو یہ کپڑا مفت فراہم کرتی ہے جو استعمال شدہ پلاسٹک بوتلوں کی بڑی مقدار جمع کر کے انہیں دیں۔

    جیسیکا اور ایوانا نے بھی مختلف صفائی مہمات میں جمع ہونے والی پلاسٹک بوتلیں اس کپمنی کو فراہم کیں جس کے بعد انہیں پلاسٹک سے بنا ہوا کپڑا دیا گیا اور ان باصلاحیت طالبات نے اس سادے سے کپڑے پر اپنے ہنر کا جادو جگا کر اسے ڈیزائنر لباس میں تبدیل کرڈالا۔

    ان طالبات کا کہنا ہے کہ وہ فیشن میں رائج اس تصور کو بدلنا چاہتی ہیں کہ لباس صرف کاٹن یا مخمل سے ہی تیار کیا جاسکتا ہے۔

    وہ کہتی ہیں، ’پلاسٹک سے بنا ہوا لباس زمین سے ہماری محبت کا ثبوت ہے، اور خوبصورتی سے ڈیزائن کیے جانے کے بعد یہ لباس کسی بڑے ڈیزائنر کے تیار کردہ لباس سے کسی صورت کم نہیں اور اسے اہم سے اہم ترین موقع پر بھی پہنا جاسکتا ہے‘۔

    سنگاپور میں منعقد کی جانے والی اس نمائش میں پلاسٹک سے بنے صرف ملبوسات ہی نہیں اور بھی بے شمار اشیا پیش کی گئیں۔

    ایک اور کپمنی نے پلاسٹک بوتلوں کے ڈھکن سے بنے ہوئے ٹی میٹس، چشمے، تلف شدہ اسمارٹ فون اسکرین سے بنے گلاس اور سگریٹ بٹ سے بنی آرائشی اشیا بھی پیش کیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • بریانی ۔ کہاں سے آئی اور کیسے ہمارے دستر خوان کی زینت بنی؟

    بریانی ۔ کہاں سے آئی اور کیسے ہمارے دستر خوان کی زینت بنی؟

    ایک عمومی خیال ہے کہ بریانی برصغیر پاک و ہند کا پکوان ہے تاہم یہ خیال غلط ہے۔ لفظ ’بریانی‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے پکانے سے پہلے تلنا یا فرائی کرنا جبکہ برنج فارسی میں چاول کو کہا جاتا ہے۔

    بریانی نے فارس سے ہندوستان کا سفر کیسے کیا؟ اس بارے میں متضاد آرا ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ یہ پکوان مغربی ایشیا کی پیداوار ہے۔

    بعض روایات میں ہے کہ جب ترک منگول فاتح تیمور 1398 میں ہندوستان آیا تو اس کے توشہ دانوں میں بریانی بھی موجود تھی جو لشکر کے سپاہیوں کی غذا تھی۔

    اس وقت ایک مٹی کے برتن میں چاول، مصالحے، اور اس وقت دستیاب گوشت بھر کر گڑھا کھود کر اور اسے تندور کی طرح دہکا کر اس میں دفن کردیا جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد زمین کھود کر اسے نکالا جاتا اور فوج میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔

    ایک اور روایت کے مطابق ہندوستان کے جنوبی مالا بار کے ساحل پر اکثر و بیشتر عرب تاجر آتے رہتے تھے اور بریانی انہی کا تحفہ ہے۔

    اس وقت کی تاریخ میں چاولوں کے ایک پکوان کا ذکر ملتا ہے جسے تامل ادب میں اون سورو کہا جاتا تھا۔ یہ سنہ 2 عیسوی کا قصہ ہے۔

    اون سورو نامی پکوان گھی، چاول، گوشت، ہلدی، کالی مرچ اور دھنیے کی آمیزش سے بنتا تھا اور یہ پکوان بھی لشکر کے کھانے میں استعمال ہوتا تھا۔

    ان سب میں سب سے مشہور روایت یہ ہے کہ یہ پکوان شاہ جہاں کی خوبصورت اور محبوب بیوی ممتاز محل کے ذہن رسا کی تخلیق تھی۔ وہی ممتاز محل جس کی محبت میں شاہجہاں نے تاج محل جیسا خوبصورت عجوبہ تخلیق کر ڈالا۔

    کہا جاتا ہے کہ ایک بار ممتاز محل نے سپاہیوں کی بیرکوں کا دورہ کیا تو اس نے انہیں بہت لاغر اور کمزور پایا۔ تب اس نے شاہی مطبخ کے سالار سے کہا کہ وہ ایسا پکوان تیار کریں جو چاول اور گوشت سے بنا ہو تاکہ سپاہیوں کی متوازن غذائی ضروریات پوری ہوں اور یوں بریانی کا آغاز ہوا۔

    اس وقت چاولوں کو بغیر دھوئے تلنے کا رواج تھا جبکہ پکانے سے پہلے اس میں زعفران، مختلف مصالحے اور گوشت شامل کیا جاتا اور اسے آگ سے لکڑیاں جلا کر پکایا جاتا۔

    بریانی حیدر آباد کے نظام اور لکھنؤ کے نوابین کے یہاں بھی ایک مقبول پکوان تھا۔ ان کے باورچی اپنے مخصوص پکوانوں کے باعث پوری دنیا میں مشہور تھے۔

    ان حکمرانوں نے بریانی میں اپنی پسند کی جدتیں کروائیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔ اس وقت بریانی کے ساتھ کئی لذیذ پکوان بھی کھائے جاتے جیسے مرچی کا سالن، دھن شک اور بگھارے بینگن۔

    ایک بہترین اور لذیذ بریانی اسے کہا جاتا ہے جس میں تمام اجزا نہایت ناپ تول کے ساتھ برابر ملائے جاتے ہوں۔ روایتی طور پر بریانی کو دھیمی آنچ پر پکایا جاتا ہے جسے دم دینا کہتے ہیں۔

    اس طریقہ کار میں تمام اجزا کو ملانے کے بعد اسے اچھی طرح سے ڈھانپ دیا جاتا ہے تاکہ دھویں سے گوشت نرم ہوجائے اور اس کا رس چاولوں میں گھل جائے۔ دھیمی آنچ کا دھواں بریانی کی لذت کو دوبالا کردیتا ہے۔

    بریانی میں مصالحوں کا کردار بھی اہم ہے۔ ایک بہترین بریانی میں 15 مصالحوں کی آمیزش کی جاتی ہے تاہم کچھ اقسام کی بریانی میں مصالحوں کی تعداد یا مقدار کم بھی کردی جاتی ہے۔

    بعض ساحلی علاقوں میں بریانی میں گوشت کی جگہ مچھلی، جھینگے اور کیکڑوں کا گوشت بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس میں عرق گلاب، کیوڑہ اور قابل نوش عطر کا استعمال بھی عام بات ہے۔

    بریانی میں عموماً باسمتی چاولوں کا استعمال کیا جاتا ہے تاہم ہر علاقے میں دستیاب اور پیدا ہونے والے چاولوں کی اقسام الگ ہوتی ہیں اور اس وجہ سے ان چاولوں سے بننے والی بریانی بھی مختلف ذائقوں کی حامل ہوتی ہے۔

    لشکر کے پکوان بننے سے لے کر شاہی دستر خوان تک آنے، اور پھر امرا و خواص اور اس کے بعد عوامی دستر خوان تک پہنچنے میں بریانی کے ذائقوں، رنگ اور ترکیب میں بے حد ارتقا ہوا اور اس کی مختلف جہتیں پیدا ہوگئیں۔

    آج ہم آپ کو بریانی کی چند ذائقہ دار اور مشہور اقسام کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جنہیں جان کر آپ کے منہ میں پانی آجائے گا۔

    مغلئی بریانی

    مغل حکمران بہترین پکوان کھانے کے شوقین تھے اور ان کے ادوار میں کھانا پکانے کو باقاعدہ ایک فن کی حیثیت حاصل تھی۔

    اس وقت کی مقبول بریانی رسیلے مرغ کے ٹکڑوں اور کیوڑے میں بسے چاولوں پر مشتمل ہوتی تھی جبکہ ان کی مہکتی خوشبو کسی کی بھی اشتہا میں اضافہ کرسکتی تھی۔

    حیدر آبادی بریانی

    حیدر آبادی بریانی کی مقبولیت کا سراغ اس وقت سے ملتا ہے جب بادشاہ اورنگزیب نے نظام الملک کو حیدر آباد کا حکمران مقرر کیا۔

    نظام الملک کے باورچی بریانی کی 50 اقسام بنانا جانتے تھے جن میں مچھلی، کیکڑے، بٹیر اور ہرن کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا۔ ہر بریانی کا ذائقہ اس میں ڈالے جانے والے گوشت کی وجہ سے مختلف ہوتا تھا۔

    ان میں سب سے مقبول حیدر آبادی بریانی تھی جس میں چاولوں میں زعفران کی آمیزش کی جاتی تھی۔

    کلکتہ بریانی

    کلکتہ بریانی نواب واجد علی شاہ کی اختراع ہے جو اپنے پسندیدہ کھانے میں جدت پیدا کرنا چاہتے تھے۔

    اس وقت ریاست کے خزانے میں کمی کی وجہ سے شاہی مطبخ ہر روز گوشت کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا تھا چنانچہ نواب کے حکم پر بریانی میں سنہری تلے ہوئے آلو شامل کیے جانے لگے اور پھر یہی آلو کلتہ بریانی کی شناخت بن گئے۔

    اس بریانی میں مصالحے نسبتاً کم ہوتے ہیں جبکہ ہلکی سی مٹھاس بھی شامل کی جاتی ہے۔

    سندھی بریانی

    سندھی بریانی ہرے مصالحہ جات اور مختلف مصالحوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس میں کھٹا دہی اور آلو بخارا بھی شامل کیا جاتا ہے جس کے باعث اس کا ذائقہ نہایت منفرد ہوتا ہے۔

    دودھ کی بریانی

    دودھ کی بریانی بھی حیدر آباد کا تحفہ ہے۔ ملائی والے دودھ میں بھنے ہوئے خشک میوہ جات اور خوشبو دار مصالحے اس بریانی کو نہایت ذائقہ دار بنا دیتے ہیں۔

    آپ کو ان میں سے بریانی کی کون سی قسم پسند آئی؟

  • خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    احمد ایک کامیاب کاروباری شخص تھا، پھر کچھ یوں ہوا کہ اس کے حالات تیزی سے تنزلی کی طرف جانے لگے۔ اس نے ہر جانب ہاتھ پیر مارے، دوستوں اور رشتے داروں سے مدد طلب کی لیکن کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ حالات سے مایوس ہو کر اس نے ایک دن تنگ آکر خودکشی کا سوچنا شروع کردیا، وہ اپنے چند قریبی دوستوں کو بتاتا رہا کہ اگر اس کے مسائل حل نہ ہوئے تو وہ خود کشی کرلے گا۔

    صورتحال گھمبیر سے گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ رقم کا تقاضہ کرنے والوں کا دباؤ بڑھ رہا تھا، گھر والے بھی ان حالات کے لیے اسی کو قصور وار ٹہرا رہے تھے، اچھے وقتوں کے دوست اب فون اٹھانے سے کتراتے تھے کہ مبادا وہ رقم طلب نہ کرلے، بالآخر ایک دن اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔

    میڈیکل اسٹور سے نیند کی گولیاں لیں اور اپنے بستر پر لیٹ کر اپنے معدے میں انڈیل لیں۔ اسے لگتا تھا کہ اب ایک پرسکون خاتمہ اس کے قریب ہے لیکن بروقت طبی امداد نے اس کی جان بچالی۔

    ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں احمد موجود ہیں، جو خودکشی کے دہانے پر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کے خیال کو جنم دینے کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔

    یہ لوگ معاشرتی رویوں، گھریلو حالات، احساس کمتری، ناکام عملی یا ازدواجی زندگی، کسی بڑے صدمے یا نقصان کی وجہ سے ایک دھچکے کا شکار ہوتے ہیں اور اگر ان پر توجہ نہ دی جائے تو یہ خودکشی کی نہج پر پہنچ جاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز نے آج خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ کسی شخص میں خودکشی کے رجحان کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟ اور کیا ہم خودکشی کا ارادہ کیے ہوئے کسی شخص کو بچا سکتے ہیں، اگر ہاں تو کیسے؟

    سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خودکشی کرنے کے پیچھے کیا عوامل یا وجوہات ہوتی ہیں۔

    لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟

    خودکشی کا رجحان عموماً مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر فروغ پاتا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار ہونا

    کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہونا جس میں موت بہت پرکشش لگتی ہو

    کسی شخص کو اس کام پر اکسایا جائے

    کسی کو مدد کی ضرورت ہو لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آئے اور وہ خود کو بے بس محسوس کرے

    کسی قسم کا ناقابل برداشت پچھتاوا، گہرا صدمہ یا بہت بڑا نقصان

    خودکشی کی خاندانی تاریخ موجود ہو تب بھی امکان ہے کہ کسی شخص میں خودکشی کا رجحان پایا جائے۔

    ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے علاوہ دیگر دماغی امراض جیسے بائی پولر ڈس آرڈر یا شیزو فرینیا بھی خودکشی کی وجہ بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں منشیات اور الکوحل کے عادی افراد میں بھی خودکشی کا رجحان ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔

    اذیت پسندی جو ایک پرسنالٹی ڈس آرڈر ہے، بھی کسی کو خودکشی کی طرف مائل کرسکتی ہے۔

    ہمارے دماغ میں ڈوپامین نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو ہمارے دماغ میں خوشی کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ اس مادے کی کمی بھی ہمیں اداسی، مایوسی اور ناخوشی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور یہیں سے ڈپریشن جنم لیتا ہے۔

    اگر ڈپریشن کی بات کی جائے تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، تو کیا ڈپریشن کے ہر مریض میں خودکشی کا امکان موجود ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سلیم بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جب بھی کوئی ڈپریشن کا مریض آتا ہے تو وہ اس سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا اس کے دماغ میں خودکش خیالات تو نہیں آرہے؟

    ان کے مطابق خودکشی کا رجحان رکھنے والے لوگ عموماً اس بات کو چھپاتے نہیں، وہ ڈاکٹر کو بتا دیتے ہیں، علاوہ ازیں وہ اپنے آس پاس کے افراد سے بھی اس کا ذکر کرتے ہیں تاہم اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص ایسا اظہار کرے کہ اس کی زندگی بے فائدہ ہے، اس کا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہے، اور وہ اپنے آپ سے بھی غافل ہوجائے تو یہ واضح نشانی ہے اور ایسی صورت میں آس پاس کے افراد کو چوکنا ہوجانا چاہیئے۔

    خودکشی کی عام علامات

    خودکشی کی سب سے عام علامت ڈپریشن کا شکار ہونا ہے اور بذات خود ڈپریشن کے مریض میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن پر آس پاس کے افراد کو دھیان دینا بہت ضروری ہے۔

    ان علامات میں مذکورہ شخص کی اداسی، دوستوں اور رشتہ داروں سے کٹ جانا، تنہائی میں وقت گزارنا، ناامیدی، ہر شے سے غیر دلچسپی، اپنے بارے میں منفی باتیں کرنا اور اس بات کا اظہار کرنا کہ اس کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی، موت اور خودکشی کی باتیں کرنا وغیرہ شامل ہے۔

    کہاں الرٹ ہونے کی ضرورت ہے؟

    ہنسی مذاق میں مرنے کی گفتگو کرنا علیحدہ بات ہے، لیکن جب آپ دیکھیں کہ سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے کوئی شخص موت کی باتیں کرنے لگے، کوئی پریشان شخص موت یا خودکشی کے بارے میں کہے تو یہ معمولی بات نہیں۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق اس سے اگلا مرحلہ خودکشی کا طریقہ سوچنے کا ہے۔ مریض اس بات پر غور کرتا ہے کون سا طریقہ مرنے کے لیے موزوں رہے گا۔ وہ آپ کو لوگوں سے زہر یا نیند کی گولیوں کے بارے میں بھی معلومات لیتا نظر آئے گا۔

    ’خودکشی کرنے والا عموماً خاموشی سے اپنے ارادے کی تکمیل نہیں کرتا، وہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ لاشعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سن کر اس پر دھیان دے اور اسے اس انتہائی قدم سے روک لے۔ وہ اپنے آس پاس کے افراد کو بار بار اس کا اشارہ دیتے ہیں جبکہ وہ واضح طور پر کئی افراد کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ وہ خودکشی کرنے والے ہیں‘۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرے شخص کو فوراً الرٹ ہو کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے۔

    اے آر وائی نیوز نے اس بارے میں ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر طحہٰ صابری سے بھی گفتگو کی۔

    ان سے پوچھا گیا کہ کیا خودکشی کسی فوری واقعے کا ردعمل ہوتی ہے؟ یا ماضی میں پیش آنے والے بہت سے حالات و واقعات مل کر کسی شخص کو خودکشی پر آمادہ کرتے ہیں؟

    اس بارے میں طحہٰ صابری کہتے ہیں کہ یہ کہنا تھوڑا سا مشکل ہوگا کہ کب کس شخص کے ذہن میں خودکشی کا خیال آجائے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں بہت سی تحقیقات ہوئی ہیں، ضروری نہیں کہ طویل عرصے سے مایوسی کا شکار رہنے والے ہی خودکشی کی کوشش کریں، یہ فوری طور پر بھی وقوع پذیر ہوسکتی ہے جیسے گھریلو لڑائیوں میں کسی شخص کا خودکشی کرلینا، امتحان میں فیل ہوجانا۔ ایسی صورت میں صرف ایک یا 2 دن میں متاثرہ شخص خودکشی کے بارے میں سوچ کر اس پر عمل کر ڈالتا ہے۔

    خودکشی کرنا کمزوری کی علامت؟

    کہا جاتا ہے کہ خودکشی کرنے والے افراد کمزور ہوتے ہیں، کیا اپنی ہی جان لینے کے ارادے پر عمل کرنا طاقت اور مضبوط قوت ارادی کی نشاندہی نہیں؟

    اس بارے میں ڈاکٹر طحہٰ بتاتے ہیں کہ یہ دونوں ہی تصورات غلط ہیں۔ کوئی انسان خودکشی اس وقت کرتا ہے جب اسے کسی سے کوئی مدد نہ مل رہی ہو اور وہ اپنی زندگی سے بے حد مایوس ہوچکا ہو۔ ایسے میں موت ہی اسے آسان راہ فرار اور ذریعہ نجات نظر آتی ہے۔ ’کمزور ہونے یا مضبوط ہونے کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘۔

    کیا کسی شخص کی خودکشی کا ذمے دار معاشرے کو قرار دیا جاسکتا ہے؟

    ڈاکٹر طحہٰ کہتے ہیں کہ یقیناً یہ معاشرے کی ہی ناکامی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کی مدد نہ کر سکی جب اسے لوگوں اور اداروں سے پہلے سے زیادہ مدد کی ضرورت تھی۔

    خودکشی کا رجحان کم کرنے میں ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

    بحیثیت معاشرہ خودکشی کسی ایک فرد کا عمل نہیں۔ ایک خودکشی سے پورا خاندان ذہنی دباؤ میں آجاتا ہے خصوصاً بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی معاشرے میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے تو اس کے لیے ہر شخص ذمہ دار ہے۔

    تو پھر انفرادی طور پر ہم کسی کو خودکشی کی نہج پر پہنچنے سے بچانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

    اس بارے میں ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ڈپریشن اور پریشانی کا شکار لوگوں کی مدد کی جائے۔

    ڈاکٹر طحہٰ کے مطابق، ’ڈپریشن کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر سن بھی لے تو اسے معمولی کہہ کر چٹکی میں اڑا دیتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔ جو مسئلہ وجہ بن رہا ہے اس مسئلے کو سلجھانے پر زور دیا جائے، جیسے اوپر بیان کیے گئے احمد کے کیس میں اس کی رہنمائی کی جائے کہ وہ کس طرح سے اپنا قرض اتار سکتا ہے یا اس کے پاس کیا متبادل آپشن موجود ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب بھی کوئی شخص آپ کو اپنا مسئلہ بتائے تو اس کے کردار یا حالت پر فیصلے نہ دیں (جج نہ کریں) نہ ہی اس کے مسئلے کی اہمیت کو کم کریں۔ صرف ہمدردی سے سننا اور چند ہمت افزا جملے کہہ دینا بھی بہت ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک صحت مند دماغ ہی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتا ہے چنانچہ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دیں۔

    اگر کسی نے خودکشی کا ارتکاب کر بھی لیا ہے تو اس کو مورد الزام نہ ٹہرائیں، نہ ہی ایسا ردعمل دیں جیسے اس نے کوئی بہت برا کام کر ڈالا ہو۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ ایک بار خودکشی کا ارتکاب کرنے والے افراد میں دوبارہ خودکشی کرنے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ پہلی بار میں ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور انہیں مدد دیں۔

    ایسی صورت میں بہت قریبی افراد اور اہلخانہ کو تمام رنجشیں بھلا کر متاثرہ شخص کی مدد کرنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی انا اور ضد کسی دوسرے شخص کی جان لے لے۔

    کیا مذہب سے تعلق اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟

    اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام میں خودکشی کو حرام کہا گیا ہے۔ کیونکہ انسان ناامیدی اور مایوسی کی آخری حد پر پہنچ کر خودکشی کرتا ہے اور مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔

    ’خدا سے قریب ہونا آپ کو ایک امید دیتا ہے کہ نہیں کوئی نہ کوئی ہے جو مسئلے کا حل نکال دے گا، آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ برا وقت جلد ختم ہوگا اور اچھا وقت بھی آئے گا‘۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق عبادت کرنا اور خدا کے آگے گڑگڑانا کتھارسس کا ایک ذریعہ ہے جو انسان کو بہت ہلکا پھلکا کردیتا ہے۔

    خودکشی کی روک تھام کا عالمی ادارہ

    دنیا بھر میں خودکشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے آئی اے ایس پی (انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پریوینشن) کے سربراہ اس وقت ایک پاکستانی ڈاکٹر مراد موسیٰ ہیں۔ ڈاکٹر مراد اس ادارے کی سربراہی کرنے والے پہلے ایشیائی اور پہلے پاکستانی شخص ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ذہنی صحت، صحت کی پالیسی میں ترجیح نہیں ہے، اس بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے لہٰذا پاکستان میں خودکشی کی درست شرح بھی مصدقہ نہیں۔

    ان کے مطابق ہر سال ملک میں تقریباً ڈیڑھ سے 3 لاکھ کے قریب افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے 13 سے 15 ہزار کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اندازاً پاکستان کی 20 فیصد آبادی ذہنی امراض کا شکار ہے جن میں سے 80 فیصد علاج اور درست رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔

    ڈاکٹر مراد کے مطابق ذہنی صحت کے بارے صحیح معنوں میں توجہ سنہ 2016 کے بعد سے دینی شروع کی گئی جب آرمی پبلک اسکول کے بھیانک حادثے میں بچ جانے والوں کی ذہنی کیفیت خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ اس وقت ذہنی صحت کی بہتری کی طرف توجہ دی گئی اور حکومت نے بھی اس سلسلے میں اقدامات شروع کیے۔

    خودکشی کی روک تھام کے عالمی ادارے کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر مراد کا کہنا تھا کہ یہ سوسائٹی دنیا بھر میں ذہنی صحت کی آگاہی اور شعور کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ادارے کی ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جہاں مریض فون کر کے اپنے مسائل بتا سکتے ہیں۔

    ان کے مطابق ’پاکستان میں ذہنی صحت ایک متنازعہ اور نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، اور اس مسئلے کو ایک قدم آگے بڑھ کر سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

  • جیل میں قید خواتین اپنا جرم بے گناہی ثابت ہونے کی منتظر

    جیل میں قید خواتین اپنا جرم بے گناہی ثابت ہونے کی منتظر

     35 سالہ شاہدہ گزشتہ 10 سال سے کراچی سینٹرل جیل کی مکین ہے۔ اسے اغوا کے جرم میں 13 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ جب اسے سزا سنائی گئی تو اسے جیل میں اتنے سال ہوچکے تھے کہ وہ بھول گئی تھی کہ کھلی فضا میں سانس لینا کیسا ہوتا ہے۔

    شاہدہ کی سزا کے مزید 3 سال باقی ہیں۔ جیل سے باہر اس کے 3 بچے ہیں جو اپنی ماں کی آزادی کی راہ تک رہے ہیں۔

    اپنے بچوں کے ذکر پر شاہدہ کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ’وہ رشتے داروں کے گھر رہتے ہیں، اب تو اسکول بھی جاتے ہیں، ان کی فیس میں ہی دیتی ہوں، جی چاہتا ہے کہ جلدی سے قید کا عرصہ ختم ہو اور میں اپنے بچوں کے ساتھ جا کر رہوں‘۔

    ایک شاہدہ ہی نہیں، کراچی سینٹرل جیل میں اس جیسی بے شمار خواتین ہیں جو اپنی رہائی کی منتظر ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ شاہدہ کو معلوم ہے اسے گھر کب واپس جانا ہے، زیادہ تر خواتین نہیں جانتیں کہ ان کے کردہ یا ناکردہ جرم کی سزا کب ختم ہوگی اور وہ کب گھروں کو لوٹ سکیں گی۔

    یہ وہ خواتین ہیں جو انڈر ٹرائل ہیں یعنی ان کے مقدمات زیر تفتیش ہیں۔ کراچی سینٹرل جیل میں اس وقت 125 خواتین موجود ہیں جن میں سے صرف 23 سزا یافتہ ہیں، بقیہ سب اپنے مقدموں کے فیصلوں کی منتظر ہیں۔

    زرینہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ زرینہ گزشتہ 5 سال سے جیل میں ہے اور تاحال اسے علم نہیں کہ اس پر جو الزام لگایا گیا ہے آیا وہ جھوٹا ثابت ہوگا اور وہ بری ہوسکے گی، یا الزام ثابت ہونے کے بعد اسے مزید ایک طویل عرصہ جیل میں ہی گزارنا ہوگا۔

    زرینہ کے اوپر قتل کا الزام ہے، لیکن بقول اس کے وہ قتل اس نے نہیں کیا۔ ’قتل میرے بھائی نے کیا، سب نے اس کو بچانے کے لیے مجھے پولیس کے حوالے کردیا۔ شاید ان کے لیے اس کی زندگی اہم تھی میری نہیں‘۔

    ہر دوسرے تیسرے ماہ زرینہ اپنے کیس کی سماعت کے لیے عدالت جاتی ہے، اور ہر بار ’سماعت ملتوی کی جاتی ہے‘ کے اذیت ناک الفاظ سن کر واپس جیل آجاتی ہے۔ ’ معلوم نہیں میں دوبارہ کھلی فضا میں سانس لے بھی سکوں گی یا نہیں‘۔

    کچھ ایسا ہی احوال بچہ جیل کا ہے۔ بچہ جیل میں بھی صرف چند سزا یافتہ ہیں جبکہ بقیہ سب انڈر ٹرائل ہیں۔

    16 سال سے کم عمر تک کے یہاں آنے والے بچے زیادہ تر منشیات فروشی کے جرم میں یہاں موجود ہیں۔ ایک آدھ ایسا بھی ہے جس نے ریپ کی ناکام کوشش کی۔

    ان بچوں کو وکیل کی خدمات زیادہ تر مختلف این جی اوز کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے۔ کچھ بچے ایسے بھی ہیں جن کے پاس جرمانے کی رقم دینے کے لیے پیسے نہیں چنانچہ انہیں مزید کچھ عرصہ جیل میں گزارنا پڑتا ہے۔

    ایسے موقع پر بھی مختلف این جی اوز ان کے جرمانے کی رقم ادا کردیتی ہیں۔

    یہ صرف کراچی سینٹرل جیل کا احوال نہیں۔ ملک کے طول و عرض میں ایسی بے شمار جیلیں ہیں جن میں لاتعداد قیدی موجود ہیں جو اپنے مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ عدالتی نظام اور پولیس کی تفتیش میں سقم ان کے معمولی سے جرم کی قید کو اس قدر طویل بنا دیتے ہیں کہ جیل سے نکل بھی آئیں تو سوچتے ہیں ’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں‘۔

    لیکن اس تاخیر کی وجہ کیا ہے؟

    لاہور کے ایک وکیل صفدر شاہین نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت پولیس کو 14 دنوں کے اندر سیکشن 173 کی رپورٹ یعنی چالان پیش کرنا لازمی ہے۔ اب یہاں پولیس کی کارکردگی کی بات آجاتی ہے اور یہیں سے تاخیر کا آغاز ہوتا ہے، یہ چالان بعض اوقات سالوں پر محیط ہوجاتا ہے اور پولیس مہینوں سالوں تک یہ چالان عدالت میں پیش نہیں کرتی۔

    اب اس چالان کو پیش نہ کرنے کی بھی بے شمار وجوہات ہیں۔ جہاں ذرا سا ملزم یا اس کے اہلخانہ نے پولیس کے مطالبات کو ماننے سے انکار کیا، یا ان سے تلخ کلامی کی، یہیں سے پولیس کی ان سے مخاصمت شروع ہوجاتی ہے۔

    صفدر شاہین کا کہنا تھا کہ ایسے موقع پر کسی بھی کیس میں اگر کوئی اکیلی عورت پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو سب سے پہلے پولیس کا جو مطالبہ ہوتا ہے وہ سب ہی جانتے ہیں۔

    یہ صورتحال دونوں صورتوں میں لاگو ہوتی ہے۔ پہلے پولیس مدعی یعنی شکایت کرنے والے سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ناکامی کی صورت میں ملزم کو پکڑنے میں تساہل دکھاتی ہے۔

    اسی طرح اگر مدعی صاحب حیثیت ہو تو بے شک اس نے کسی پر جھوٹا الزام لگایا ہو، پولیس ملزم سمیت اس کے پورے گھر والوں کو حوالات میں لا پٹختی ہے ورنہ انہیں اس اس طرح سے تنگ کیا جاتا ہے کہ ملزم کے اہلخانہ مرنے کا سوچنے لگتے ہیں۔

    اس کے ساتھ ساتھ ملزم پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس ذہنی اذیت سے باہر نہیں نکل پاتا۔

    دوسری وجہ گواہان کا عدالت میں پیش نہ ہونا ہے۔ ان کی عدالت میں نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ تو ان کی سیکیورٹی نہ ہونا ہے۔ اگر فریقین میں سے ایک شخص طاقتور ہو تو اس کے خلاف گواہی دینے والے کی جان اور عزت ویسے ہی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اسے دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے جن پر بعض اوقات عمل بھی ہوجاتا ہے۔

    صفدر شاہین نے بتایا کہ ہائی پروفائل کیسز میں تو یہ باقاعدہ چین چلتی ہے، ایک کے بعد ایک گواہ اپنی جان، مال یا عزت سے ہاتھ دھوتا رہتا ہے نتیجتاً بقیہ گواہ خود ہی منحرف ہوجاتے ہیں یا عدالت میں پیش ہی نہیں ہوتے۔

    ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پولیس اتنے عرصے بعد چالان پیش کرتی ہے، اور اتنے عرصے بعد گواہ کو طلبی کا سمن جاری ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے یہ تو 6 مہینے یا سال پہلے کا واقعہ ہے مجھے تو اب یاد بھی نہیں کہ میں نے کیا دیکھا تھا اور کیا نہیں۔

    بعض کیسز میں پولیس کو گواہی دینی ہو تو وہ کبھی بھی تیاری کر کے نہیں آتے جن کی وجہ سے یا تو ملزم کو شک کا فائدہ مل جاتا ہے یا کوئی بے گناہ جیل میں سڑتا رہتا ہے۔

    تفتیشی افسر کی غفلت

    کیسوں میں تاخیر، اصل ملزمان کی آزادی اور بے گناہوں کے جیل میں ہونے کی ایک وجہ پولیس کی تفتیش میں سستی اور غفلت بھی ہے۔

    صفدر شاہین نے اپنے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سنہ 2016 میں کالعدم تنظیم کے کچھ دہشت گرد گرفتار کیے گئے، لیکن اس بات کے شواہد اور ثبوت نہیں مل سکے کہ وہ واقعی اس تنظیم سے منسلک ہیں چنانچہ انہیں بری کردیا گیا۔

    اس میں تفتیشی افسر کی غلطی تھی کہ اس نے ثبوت جمع کرنے میں تساہل سے کام لیا یا واقعی اسے ثبوت نہ مل سکے۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ تفتیشی افسر نے درست طریقے سے تفتیش نہیں کی اور اس پر تفتیشی افسر کو معطل بھی کیا گیا۔

    صفدر کا کہنا تھا کہ ممکن ہو کہ گرفتار نوجوان واقعی تنظیم کے کارندے ہوں لیکن ان کے تنظیم سے تعلق کے ثبوت نہیں ملے، امکان یہی تھا کہ وہ عام طالب علم ہیں ایسی صورت میں سزا ہوجانے کے بعد ان کا پورا کیریئر برباد ہوسکتا تھا۔

    کیا ایسی صورت میں عدالت اس بات کی پابند نہیں کہ وہ پولیس کو دوبارہ تفتیش کا حکم دے؟ اس بارے میں صفدر شاہین نے کہا کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے، کوئی بہت ہی بڑا اور اثرانداز پہلو تفتیش میں نظر انداز کردیا گیا ہو جس کی وجہ سے ملزم کی گرفتاری یقینی ہو تو عدالت دوبارہ اس کی تفتیش کا حکم دیتی ہے ورنہ عموماً عدالت کے فیصلے حتمی چالان پر ہی منحصر ہوتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض سیاستدان کھلے عام کرپشن کے باوجود عدالت سے اسی لیے بری ہوجاتے ہیں کہ ان کے خلاف ثبوتوں کی کمی نہیں ہوتی، لیکن تحقیقاتی ادارے یا پولیس کی جانب سے ان ثبوتوں کو اکھٹا کرنے اور عدالت میں پیش کرنے میں غفلت برتی جاتی ہے۔

    اس کی ایک بدترین مثال کراچی کی اسما نواب کا کیس ہے۔ اسما نواب نے اپنے گھر والوں کے قتل کے جرم میں 20 سال جیل میں گزارے لیکن المیہ اس بات کا ہے کہ تاحال یہ تعین نہیں ہوسکا کہ آیا وہ واقعی مجرم تھی یا نہیں۔

    ٹرائل کورٹ نے اسما کو سزائے موت سنائی، تاہم اپیل دائر کی گئی کہ جن ثبوتوں کی بنا پر اسما کو سزا دی گئی وہ غیر مؤثر تھے۔ ہائی کورٹ میں کیس چلا اور عدالت نے قرار دیا کہ واقعی وہ ثبوت اسما کو سزا دلوانے کے لیے ناکافی تھے جس کے بعد عدالت نے اسے بری کردیا۔

    اس سارے عمل میں 20 سال کا عرصہ لگ گیا، یعنی 20 سال میں بھی ہماری پولیس ثابت نہیں کرسکی کہ آیا وہ واقعی مجرم تھی یا نہیں۔

    انصار برنی ٹرسٹ سے ایک خاتون وکیل شگفتہ خان نے بتایا کہ یہ ایک لمبی چین ہے جو پولیس سے شروع ہو کر، وکیلوں، بار اور عدالتوں تک جاتی ہیں۔ ہمارا نظام قانون خامیوں اور سقم سے بھرا پڑا ہے۔

    ان کے مطابق کیس کو طویل کرنے کا جو سلسلہ پولیس سے شروع ہوتا ہے تو وہ وکلا اور عدالتوں تک جاتا ہے۔ وکیل کی چھٹیاں، خود جج کی چھٹیاں، یوں تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے اور بے گناہوں کی زندگی جیل میں گزرتی رہتی ہے۔

    ایک اور وکیل امجد علی نے بتایا کہ لاہور میں ایک خاتون کو شوہر کے قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیا، بعد ازاں اسے عمر قید کی سزا ہوگئی۔ خاتون نے مزید کئی شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ اپنی اپیل ہائیکورٹ میں بھجوائی، لیکن وہ اپیل جیل میں ہی پڑی رہی اور ہائیکورٹ تک پہنچی ہی نہیں۔

    وہ اپیل 18 سال تک جیل میں پڑی رہی، بعد ازاں کسی طرح وہ اپیل مرحومہ عاصمہ جہانگیر تک پہنچی تو ان کی کوششوں سے ہائی کورٹ نے اپیل سنی، تب معلوم ہوا کہ خاتون پر جھوٹا الزام لگایا گیا، یوں 18 سال بعد اسے جرم بے گناہی کی سزا کاٹنے کے بعد رہا کردیا گیا۔

    اسی طرح ایک شخص کو سزائے موت دینے کے بعد جب اس کی اپیل سنی گئی تو اسے بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کردیا گیا، ’لیکن وہ پہلے ہی اپنے گناہ اور بے گناہی سے بے نیاز ہوچکا تھا‘۔

    ان کے مطابق بعض کیسز کے فیصلے بہت جلدی میں بھی کردیے جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کیسز میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ججز اپنی جان چھڑانے کے لیے، قطع نظر تفتیش اور جرم ثابت ہونے کے، وہ ایسا فیصلہ کردیتے ہیں جس کی میڈیا اور عوام کو توقع ہوتی ہے۔ ’شاید انہیں عام لوگوں کے ردعمل کا خوف ہوتا ہے‘۔

    امجد علی کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ چاہیئے جس میں پہلے تو ہمارے قوانین میں سے خامیاں دور کی جائیں تاکہ بے گناہ، بے گناہ ثابت ہوں اور اصل مجرم جیل میں جائیں۔ ’بعد ازاں تھانوں کا کلچر، پولیس میں اصلاحات، عدالتوں کا نظام ۔۔ گو کہ سفر لمبا ہے لیکن امید قائم رہنی چاہیئے‘۔

    کراچی سینٹرل جیل ۔ قیدیوں کا تربیتی ادارہ

    اگر بات کی جائے کراچی سینٹرل جیل کی، تو اس کا کم عمر قیدیوں (بچہ جیل) اور زنانہ حصہ ایک قید خانہ کم اور تربیت گاہ زیادہ لگتا ہے۔

    دوسری جیلوں کی نسبت یہاں کے بیرکس کھلے اور کشادہ ہیں۔ ایک بیرک میں 20 قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ بیرکس اتنی بڑی ہیں کہ سونے کے لیے سارے قیدیوں کے پلنگ بچھا دیے جاتے ہیں، تب بھی بیرک کا ایک حصہ خالی رہتا ہے جہاں قیدی بیٹھ کر کھانا پینا اور گپ شپ کرتے ہیں۔

    جیل میں دیا جانے والا کھانا بھی دیگر جیلوں کے برعکس صاف ستھرا اور غذائیت بخش ہے۔ یہاں قیدیوں کو تینوں وقت دالیں، سبزیاں، گوشت اور چاول میسر ہیں جس کی وجہ سے قیدیوں کو کھانے پینے میں کوئی شکایت نہیں۔

    بچوں کے لیے یہاں پر اسکول، مدرسہ، کمپیوٹر ٹریننگ سینٹر، ہیئر سیلون، جم اور کاریگری کا مرکز موجود ہے۔ اس سب کا مقصد بچوں کو تعلیم سے روشناس کروانا اور کاریگری کا کام سکھانا ہے تاکہ جب یہ جیل سے رہا ہوں تو جیل میں گزارا گیا وقت ان کے کسی کام آسکے۔

    خواتین کے لیے بھی یہاں پر سیلون، کمپیوٹر ٹریننگ روم اور سلائی کڑھائی کا مرکز موجود ہے جبکہ ان کے ساتھ موجود بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا اسکول بھی قائم ہے۔

    سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین جو کپڑے بناتی ہیں انہیں باہر لے جا کر فروخت کیا جاتا ہے جس کی آمدنی ان خواتین کو دی جاتی ہے۔ اسی آمدنی سے 35 سالہ قیدی شاہدہ اپنے بچوں کے اسکول کی فیسیں ادا کر پاتی ہے۔

    سلائی کڑھائی کی استانی سے گفتگو

    سلائی کڑھائی کے مرکز کی استانی ایک معمر خاتون نسیم احمد ہیں۔ وہ سنہ 1994 سے اس مرکز سے وابستہ ہیں۔ انہیں قانونی معاونت کے لیے کام کرنے والے ادارے لیگل ایڈ اور اپوا (آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن) کی جانب سے یہاں مقرر کیا گیا ہے۔

    نسیم احمد بتاتی ہیں کہ جیل میں انہیں بالکل گھر جیسا ماحول لگتا ہے، کوئی بھی خاتون قیدی کہیں سے بھی آئی ہو وہ کچھ عرصہ بعد بالکل گھل مل جاتی ہے۔ ’مجھے وہ اپنے بڑے کی حیثیت دیتی ہیں، مجھ سے اپنی باتیں بھی کہتی ہیں، اپنے دکھ سکھ بھی کہتی ہیں، روتی بھی ہیں‘۔

    نسیم احمد کا کہنا ہے کہ گو کہ قیدی خواتین کو جیل میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں لیکن بہرحال اپنا گھر، اور اپنے یاد آتے ہیں۔ ’سلائی کڑھائی کرنا ان کے فارغ وقت کو بامقصد بنانے کی کوشش کرنا ہے جبکہ خواتین قیدی منفی سوچوں سے بھی محفوظ رہتی ہیں اور ڈپریشن یا اداسی کا شکار کم ہوتی ہیں‘۔

    ماہرین طب بھی موجود

    جیل میں خواتین اور بچوں کے طبی مسائل کے حل کے لیے علیحدہ ڈاکٹرز بھی موجود ہیں۔

    ڈاکٹر نسیم لیاقت گزشتہ 6 سال سے سینٹرل جیل کے زنانہ حصے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جیل کی قیدیوں کو عموماً موسمی بخار، یا جسم کے مختلف حصوں میں درد کی شکایات ہوتی ہیں تاہم بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جو پہلے سے شوگر یا بلڈ پریشر کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسی قیدیوں کو باقاعدگی سے ان کی دوائیں فراہم کی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر نسیم کا کہنا ہے کہ بعض قیدی خواتین حاملہ بھی آتی ہیں۔ ان کے حمل کا عرصہ تو جیل ڈاکٹر کی زیر نگرانی گزرتا ہے تاہم ڈیلیوری کے لیے انہیں سول اسپتال بھیجا جاتا ہے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں فوری طور پر ماں یا بچے کا درست علاج کیا جاسکے۔

    انہوں نے بتایا کہ گھر سے دور بند ماحول میں رہنے والی خواتین ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ ’جیل میں ہفتے میں ایک بار ماہر نفسیات یہاں کا دورہ کرتے ہیں اور بہت شدید نفسیاتی پیچیدگی کا شکار مریضاؤں کے لیے علاج تجویز کرتے ہیں‘۔

    ڈاکٹر نسیم کے مطابق ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کاؤنسلنگ کے ذریعے خواتین کی ذہنی حالت میں بہتری لائی جاسکے اور دواؤں کی ضرورت نہ پڑے، تاہم سنجیدہ نوعیت کے کیس میں دوا بھی دی جاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ قیدی خواتین کے ساتھ جو بچے موجود ہیں ان کی بھی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کی ضروری ویکسی نیشن بھی کی جاتی ہے۔

    اسی طرح بچہ جیل کے لیے مختص ڈاکٹر روزانہ 35 سے 40 بچوں کو دیکھتی ہیں جنہیں موسمی بخار، الرجی، ایگزیما یا کھیلتے ہوئے چھوٹی موٹی چوٹ لگ جاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بچے چونکہ صفائی کا کم خیال رکھتے ہیں لہٰذا انہیں جلدی بیماریوں کی شکایت بھی ہوجاتی ہے جس کے لیے ہفتے میں دو بار ڈرماٹولوجسٹ جیل کا دورہ کرتے ہیں۔

    جیل میں ایمرجنسی یونٹ نہیں لہٰذا کسی سرجری یا آپریشن کی صورت میں بچوں کو بھی سول اسپتال بھیجا جاتا ہے۔

    جیل ملزم کو مجرم نہ بنا سکے

    جیل کی سپریٹنڈنٹ شیبا شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کو ایک ماڈل جیل بنایا جائے۔ عموماً جیلوں کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بے گناہ بھی آجائے تو وہ مجرم بن کر نکلے۔ ’یہاں آنے والے قیدیوں کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے جبکہ انہیں ہنر مند بھی بنایا جاتا ہے کہ جیل میں گزارے گئے ان کے سال ضائع نہ ہوں‘۔

    شیبا شاہ کا کہنا تھا کہ جیل میں آنے والے کم عمر خواتین یا بچے جب جیل سے باہر نکلیں تو ان کے پاس کوئی ہنر ہوگا اور وہ تعلیم یافتہ ہوں گے تو ہی گزرے وقت سے بڑھ کر آگے جاسکیں گے، ورنہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔

  • یومِ آزادی پر کراچی کے تاریخی مقامات کی سیر کریں

    یومِ آزادی پر کراچی کے تاریخی مقامات کی سیر کریں

    کراچی: رواں برس مادر وطن پاکستان کا یوم آزادی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز ہمارے وطن کی آزادی کو 71 برس مکمل ہوجائیں گے۔

    ہر سال یہ دن ہمیں ہمارے بزرگوں کی قربانیوں اور ان تھک جدوجہد کی یاد دلاتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ اس قدر طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے ملک کی خدمت اور حفاظت ہمارا فرض اولین ہے۔

    اس دن کی تاریخی اہمیت محسوس کرنے کا ایک بہترین طریقہ ان مقامات کی سیر کرنا بھی ہے جو قیام پاکستان سے منسوب ہیں یا اس کی یادگار کے طور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

    آج ہم آپ کو کراچی میں واقع ایسے ہی چند مقامات کے بارے میں بتا رہے ہیں جہاں یوم آزادی کے دن جانا نہ صرف آپ کے اس دن کو یادگار بنا دے گا بلکہ ایک آزاد وطن کے شہری ہونے کے احساس اور فخر کو بھی دوبالا کردے گا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کی 10 قومی یادگاریں

    مزار قائد

    کراچی اس حوالے سے ایک منفرد اہمیت کا حامل شہر ہے کہ یہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی، یہیں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اسی شہر میں وہ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

    یوم آزادی پر بابائے قوم کی آخری آرام گاہ پر حاضری، فاتحہ خوانی اور پاکستان کے قیام کے لیے دی جانے والی ان کی جدوجہد کو سلام پیش کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

    سفید سنگ مرمر سے تعمیر کردہ مزار قائد شہر کراچی کے وسط میں واقع ہے۔ مزار کے اندر نہایت خوبصورت فانوس نصب ہیں۔ رات میں جب روشنیاں جل اٹھتی ہیں تو مزار اور اس کے اطراف کا حصہ نہایت سحر انگیز دکھائی دیتا ہے۔

    مزار سے متصل باغ بھی بلاشبہ ایک خوبصورت مقام ہے جہاں شام کے وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں یہاں گزارے گئے وقت کو یادگار ترین بنا دیتی ہیں۔

    وزیر مینشن

    کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع وزیر مینشن نامی گھر قائد اعظم کی جائے پیدائش ہے۔

    سنہ 1953 میں حکومت پاکستان نے اس عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر قومی ورثے کا درجہ دے دیا جس کے بعد اس کی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا۔

    دو منزلوں پر مشتمل اس مکان میں قائداعظم کے زیر استعمال فرنیچر، لباس، اسٹیشنری، ذاتی ڈائری اور قائد اعظم کی دوسری اہلیہ رتی بائی کے استعمال کی اشیا نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔

    یہاں موجود سب سے اہم اثاثہ، جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں، قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔

    فلیگ اسٹاف ہاؤس

    کراچی کی شاہراہ فیصل پر واقع فلیگ اسٹاف ہاؤس جسے قائد اعظم ہاؤس میوزیم بھی کہا جاتا ہے، قائد اعظم نے 1946 میں خریدا تھا۔ ان کا ارادہ پاکستان کے وجود میں آنے یا ریٹائرمنٹ کے بعد اس میں قیام کا تھا۔

    تاہم قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح گورنر ہاؤس میں رہائش پذیر ہوگئے اور اپنے انتقال تک وہیں رہے۔

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق، ’قائد اعظم نے اپنی زندگی کا ایک روز بھی اس گھر میں نہیں گزارا۔ یہ گھر ان سے منسوب تو ضرور ہے تاہم اسے قائد اعظم ہاؤس کا نام دینا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے‘۔

    قائد اعظم کے انتقال کے صرف 2 دن بعد 13 ستمبر 1948 کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح گورنر ہاؤس سے فلیگ اسٹاف ہاؤس منتقل ہوگئیں۔ اس وقت وہاں موجود تمام نوادرات فاطمہ جناح سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی وہاں رہائش کے دوران ان کے زیر استعمال تھے۔

    فاطمہ جناح اس گھر میں 16 یا 17 سال تک رہائش پذیر رہیں۔

    موہٹہ پیلیس

    کلفٹن میں واقع یہ خوبصورت محل ایک ہندو تاجر چندر رتن موہٹہ نے تعمیر کروایا تھا۔

    سنہ 1963 میں یہ محل حکومت پاکستان نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھارت میں موجود ان کی جائیداد کے عوض الاٹ کردیا جس کے بعد وہ یہاں منتقل ہوگئیں اور اپنے انتقال تک یہیں رہیں۔

    خوبصورت محرابوں اور سرسبز باغ پر مشتمل یہ محل اب حکومت سندھ کی ملکیت ہے جہاں اکثر و بیشتر ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

    مشہور ہے کہ اپنے قیام کے دنوں میں محترمہ فاطمہ جناح محل کی بالائی منزل سے مرکزی دروازے کی چابی نیچے پھینکا کرتی تھیں جس کی مدد سے ان کا ملازم دروازہ کھول کر اندر آجاتا اور گھریلو امور انجام دیتا۔

    ایک دن انہوں نے مقررہ وقت پر چابی نہیں پھینکی۔ تشویش میں مبتلا ملازم پہلے مدد مانگنے پڑوسیوں کے پاس گیا بعد ازاں پولیس کو بلوایا گیا۔

    اس وقت کے کمشنر کی موجودگی میں دروازہ توڑ کر اندر کا رخ کیا گیا تو علم ہوا کہ محترمہ رات میں کسی وقت وفات پاچکی تھیں۔

    اکادمی قائد اعظم

    قائد اعظم محمد علی جناح کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر قائم کی جانے والی قائد اعظم اکیڈمی، بانی پاکستان اور قیام پاکستان کے بارے میں مصدقہ دستاویزات کی فراہمی کا معتبر ادارہ ہے۔

    یہ ادارہ وفاقی وزارت ثقافت و کھیل کے ماتحت ہے۔

    فریئر ہال

    کراچی کا سب سے مشہور اور نمایاں ترین تاریخی اور خوبصورت مقام فریئر ہال ہے جو صدر کے علاقے میں واقع ہے۔ اسے برطانوی راج میں سنہ 1865 میں ایک ٹاؤن ہال کی حیثیت سے قائم کیا گیا۔ اب اس ہال میں ایک خوبصورت آرٹ گیلری اور لائبریری موجود ہے۔

    فریئر ہال کے لیاقت نیشنل لائبریری کے نام سے جانے جانے والے کتب خانے میں 70 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں جن میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قدیم و تاریخی مخطوطے بھی شامل ہیں۔

    اسی طرح آرٹ گیلری بھی فن و مصوری کا مرکز ہے جسے صادقین گیلری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    پاکستان کے معروف مصور و خطاط صادقین نے فریئر ہال کی چھتوں اور دیواروں پر نہایت خوبصورت میورلز (قد آدم تصاویر) بنائی ہیں۔ یہاں صادقین کا ایک ادھورا فن پارہ بھی موجود ہے جس پر وہ اپنے انتقال سے چند دن قبل تک کام کر رہے تھے لیکن موت نے انہیں اسے مکمل کرنے کی مہلت نہ دی۔

    فریئر ہال کا طرز تعمیر نہایت خوبصورت ہے جو برطانوی اور برصغیر کے مقامی طرز تعمیر کا مجموعہ ہے۔ اس عمارت کی سیر کرتے ہوئے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے محسوس ہوں گے اور آپ خود کو متحدہ ہندوستان کے زمانے میں موجود محسوس کریں گے ۔

    قومی عجائب گھر

    کراچی کے علاقے برنس روڈ پر واقعہ برنس گارڈن کے اندر قومی عجائب گھر واقع ہے جو سنہ 1950 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس سے قبل اس عمارت میں وکٹوریہ میوزیم کے نام سے ایک عجائب گھر ہوا کرتا تھا جہاں آج سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی کی بلڈنگ واقع ہے۔

    اس عجائب گھر میں 6 گیلریز موجود ہیں جن میں وادی مہران اور گندھارا تہذیب کے نوادرات، منی ایچر فن پارے، اسلامی فن و خطاطی کے نمونے، قدیم ادوار کے سکے، مختلف عقائد کے مجسمے (بشمول گوتم بدھ، وشنو اور سرسوتی دیوی) وغیرہ رکھے گئے ہیں۔

    اس کے علاوہ ایک انتہائی خوبصورت قرآن گیلری بھی ہے جہاں پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک کے کئی نادرو نایاب قرآنی نسخے اپنی اصل حالت میں بحال کرکے رکھے گئے ہیں۔

    میوزیم میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے زیر استعمال گھڑیاں، قلم اور چھڑیاں بھی موجود ہیں۔

    خالق دینا ہال

    خالق دینا ہال سنہ 1906 میں بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) پر تعمیر کیا گیا جس کا مقصد یہاں سماجی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد تھا۔

    اس ہال کی تعمیر کے لیے سندھ کی ایک مخیر کاروباری شخصیت غلام حسین خالق دینا کے لواحقین کی جانب سے رقم فراہم کی گئی جس کے بعد اس ہال کو ان کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

    قیام پاکستان سے قبل جب ترکی میں خلافت ختم کی جارہی تھی تب برصغیر میں اسے بچانے کے لیے تحریک خلافت شروع کی گئی جس کے سرکردہ رہنماؤں میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی شامل تھے۔

    سنہ 1921 میں برطانوی حکومت نے دونوں رہنماؤں پر بغاوت کا مقدمہ دائر کردیا۔ مقدمے کی سماعت 26 دسمبر کو اسی ہال میں ہوئی اور دونوں بھائیوں کو 2، 2 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    یہاں ایک وسیع اور متنوع کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی موجود ہے۔

    منوڑہ لائٹ ہاؤس

    کراچی کی بندرگاہ کے جنوب میں واقع منوڑہ ایک جزیرہ نما ہے جو سینڈز پٹ کی پٹی کے ذریعے کراچی سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں موجود لائٹ ہاؤس کو دنیا کے طاقتور ترین لائٹ ہاؤسز میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    یہ لائٹ ہاؤس سنہ 1889 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت کراچی کی بندرگاہ مصروف ترین بندرگاہوں میں شمار ہوتی تھی۔

    سنہ 1909 میں اس لائٹ ہاؤس کو نئی روشنیوں اور لینسز سے آراستہ کیا گیا۔ یہ لائٹ ہاؤس جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے اور یہاں جدید آلات نصب ہیں۔

    پاکستان میری ٹائم میوزیم

    کراچی میں پی این ایس کارساز پر واقع پاک بحریہ کے میری ٹائم میوزیم کا دورہ بھی ایک معلوماتی دورہ ہوسکتا ہے۔ 6 گیلریوں اور آڈیٹوریم پر مشتمل اس عجائب گھر میں بحری فوج کے زیر استعمال اشیا، آلات اور لباس رکھے گئے ہیں۔

    یہاں آبدوز اور بحری جہاز کے ماڈل بھی موجود ہیں جن کے اندر جا کر ان کا معائنہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ میری ٹائم میوزیم کا دورہ بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں معلوماتی تفریح ثابت ہوسکتا ہے۔

    پی اے ایف میوزیم

    کراچی میں پاک فضائیہ کا عجائب گھر (پی اے ایف میوزیم) بھی موجود ہے جہاں فضائیہ کے زیر استعمال آلات، ہتھیار اور دیگر ساز و سامان نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    یہاں سنہ 1965 کی جنگ کے دوران بھارت کا گرفتار کیا گیا ایک طیارہ بھی رکھا گیا ہے جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال طیارہ بھی یہاں موجود ہے۔

    نشانِ پاکستان

    کراچی کے ساحل پر پاک فوج کی جانب سے بنائی جانے والی قومی یادگار ’نشان پاکستان‘ قومی اتحاد کی علامت ہے۔

    یادگار کے مرکزی چبوترے پر نشان حیدر پانے والے 11 شہدا کی مناسبت سے 11 کمانیں تعمیر کی گئی ہیں جبکہ اندرونی دیواروں پر شہدا کی تصاویر کے ساتھ ان کے بارے میں معلومات بھی درج ہیں۔

    یادگار کے مرکزی دروازے کے ساتھ 145 فٹ اونچائی پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے جس کا یوم آزادی کے موقع پر نظارہ کرنا یقیناً حب الوطنی کے جذبات کو گرما دے گا۔

    آرٹس کاؤنسل آزادی فیسٹیول

    اس یوم آزادی کی شام آرٹس کاؤنسل کے آزادی فیسٹیول میں شریک ہونا نہ بھولیں جہاں شہر بھر سے باصلاحیت نوجوان و بچے شریک ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔

  • ماحولیاتی تحفظ کے لیے گزشتہ حکومتوں کے اقدامات

    ماحولیاتی تحفظ کے لیے گزشتہ حکومتوں کے اقدامات

    ملک بھر کی وفاقی و صوبائی حکومتیں تحلیل ہوچکی ہیں اور انتخابات کا وقت قریب آتا جارہا ہے۔ یہ وقت گزشتہ حکومتوں سے سبق سیکھنے اور نئی حکومتوں سے بہتری کی توقعات وابستہ کرنے کا ہے۔

    پاکستان دنیا بھر میں رونما ہونے والے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے اور ان نقصانات میں اضافہ متوقع ہے۔

    چنانچہ اگر توقع رکھی جائے کہ کلائمٹ چینج اور ماحولیات تمام حکومتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

    آج ہم نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے اس سنگین مسئلے کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا اور اس کے خلاف اقدامات کرنے کی کوشش کی۔

    صوبہ خیبر پختونخواہ

    ماحولیات کے شعبے میں اس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ بلاشبہ سب سے آگے نظر آتا ہے۔ پختونخواہ میں شروع کیا جانے والا ایک ارب درختوں کا منصوبہ یعنی بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کامیابی سے اپنی تکمیل کی جانب پہنچ چکا ہے اور اس کی کامیابی کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جارہا ہے۔

    یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہےکہ دنیا کو کلائمٹ چینج کے نقصانات میں کسی حد تک کمی کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے۔

    کلائمٹ چینج کی سب سے بڑی وجہ صنعتوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور خطرناک گیسیں ہے جو زمین کی فضا میں موجود ہے۔ یہ گیسیں زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں اضافہ کر رہی ہیں یوں دنیا بھر کا موسم گرم ہورہا ہے۔

    یہ گیسیں ہماری زمین کے اوپر فضا میں قائم اوزون کی حفاظتی تہہ کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں جس سے سورج کی شعاعیں زیادہ مقدار میں زمین پر آرہی ہیں، گو کہ اوزون کی تباہی کی شرح کم ہے۔

    اس کا آسان حل گیسیں خارج کرنے والے ذرائع میں کمی کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ شجر کاری ہے۔ جیسے کہ ہم جانتے ہیں درخت کاربن گیس کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں۔ وسیع و عریض درختوں کے گھنے جنگل کو قدرتی ’سنک‘ کہا جاتا ہے جو اپنے آس پاس کی ساری کاربن چوس لیتے ہیں۔

    ایسے میں بلین ٹری سونامی پروجیکٹ وقت کی اہم ضرورت تھا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے۔

    بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر محمد طہماسپ اس منصوبے کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ مقامی آبادی کی شرکت کو قرار دیتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اتنے بڑے پروجیکٹ کے لیے ہزاروں افراد کی ضرورت تھی جنہیں ملازمتیں دینا ناممکن تھا۔ ایسے میں واحد حل مقامی افراد کی شرکت تھی اور اسی سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا تھا۔

    محمد طہماسپ نے بتایا کہ پورے منصوبے میں صرف 20 فیصد شجر کاری حکومت کی طرف سے تھی، باقی 80 فیصد کاوشیں نجی طور پر کی گئیں۔

    اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد، کمیونٹیز اور پرائیوٹ اداروں سے معاہدے کیے گئے جس کے تحت انہیں رقم دی گئی۔ معاہدے میں نہ صرف پودے لگانا بلکہ ان کی دیکھ بھال کر کے ایک مخصوص جسامت تک پہنچانا بھی شامل تھا اور اس کے بعد ہی انہیں رقم دی جانی تھی۔

    تمام متعلقہ افراد کو پہلی قسط دینے کے کچھ عرصے بعد ان کے لگائے گئے پودوں کا معائنہ کیا گیا، دیکھا گیا کہ آیا ان کی صحیح دیکھ بھال کی جارہی ہے یا نہیں، یہ دیکھنے کے بعد رقم کی دوسری قسط جاری کی گئی۔

    اس کے ایک سال بعد جب معاہدے میں پودے کو ایک مخصوص سائز تک پہنچانے کی شق شامل تھی، ایک بار پھر پودوں کا جائزہ لیا گیا اور اس کے بعد رقم کی تیسری قسط جاری کی گئی۔

    محمد طہماسپ نے بتایا کہ خواتین کو بھی شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں شرکت کی۔ پختونخواہ حکومت نے منصوبے میں پرانے تباہ شدہ جنگلات کو بھی بحال کرنے کا ہدف رکھا تھا جسے کامیابی سے مکمل کیا گیا۔

    اس ضمن میں پختونخواہ حکومت نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کو پورا کرتے ہوئے 35 لاکھ ایکڑ زمین پر جنگلات بحال کیے۔

    بون چیلنج کے تحت سنہ 2020 تک دنیا بھر کے تباہ شدہ جنگلات کے 15 کروڑ ایکڑ کے رقبے کو بحال کرنا تھا۔

    پاکستان میں ہر نئی آنے والی حکومت نئے منصوبے شروع کرتی ہے جن پر اس حکومت کے جاتے ہی کام بند ہوجاتا ہے اور یوں وہ منصوبہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ پختونخواہ میں اگر اگلی حکومت پاکستان تحریک انصاف کی نہ ہوئی جس نے بلین ٹری منصوبہ شروع کیا تو ان ایک ارب پودوں کا کیا ہوگا؟

    اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد طہماسپ نے بتایا کہ یہ خیال شروع سے سب کے ذہن میں تھا۔ ’یہ کسی سڑک کا منصوبہ نہیں جو کسی ایک حکومت کے دور میں شروع ہو، اور پھر کئی سالوں کے بعد وہی حکومت دوبارہ آئے تو اس منصوبے کو مکمل کرے، یہ تو پودے ہیں جو چند دن بھی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مر جائیں گے‘۔

    محمد طہماسپ نے بتایا کہ پختونخواہ حکومت کی کوششوں سے منصوبہ بندی کمیشن سنہ 2020 تک اس منصوبے کی منظوری دے چکا ہے جس کے بعد کوئی بھی حکومت آئے، وہ بجٹ میں اس منصوبے کے لیے رقم رکھنے کی پابند ہوگی۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے پر کامیاب عملدر آمد کے بعد خیبر پختونخواہ پاکستان کا واحد صوبہ بن گیا ہے جہاں وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے 35 لاکھ ایکڑ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم نے بھی منصوبے کو ملک کی سب سے بڑی ماحول دوست سرمایہ کاری قرار دیا تھا۔

    چند دن قبل قومی ادارے اسپیس اینڈ اپر ایٹمو سفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) نے بھی بلین ٹری سونامی منصوبے کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ جاری کرتے ہوئے اسے کامیاب قرار دیا تھا۔

    صوبہ بلوچستان

    بلوچستان کی ایجنسی برائے تحفظ ماحول کے ڈائریکٹر جنرل کیپٹن ریٹائرڈ طارق زہری کا دعویٰ ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے سب سے زیادہ کام صوبہ بلوچستان نے کیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد جب صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ اپنے قوانین بنائیں تو سب سے پہلے بلوچستان نے اپنا ماحولیاتی قانون بنایا۔

    ان کے دعوے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بقول ان کے سابق وزرائے اعلیٰ بلوچستان عبد المالک بلوچ اور ثنا اللہ زہری بظاہر تو سیاستدان ہیں، تاہم وہ ماحول دوست شخصیات بھی ہیں۔

    سنہ 2016 میں جب پیرس معاہدہ ہوا اور معاہدے کے تحت 195 ممالک کو ماحول دوست اقدامات کرنے کا پابند بنایا گیا تب پاکستان بھی اس معاہدے کا دستخط کنندہ بنا۔ طارق زہری نے بتایا کہ معاہدے کے بعد اس سے نکلنے والے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری تھا کہ اس شعبے پر زیادہ توجہ دی جائے۔ بلوچستان میں اس وقت ماحولیات کی وزارت، امور نوجوان اور کھیل کے ساتھ منسلک تھی تاہم اس کے بعد پھر اسے علیحدہ کردیا گیا۔

    زیارت میں واقع صنوبر کے جنگلات

    طارق زہری نے بتایا کہ گزشتہ 5 برسوں کے دوران بلوچستان میں ماحولیات کا ٹریبونل بنایا گیا، ماحولیاتی تحفظ کے لیے نئے قوانین بنائے گئے۔ ان کے مطابق قوانین بنانے کے بعد جتنا ان پر عملدر آمد کیا گیا اس میں گزشتہ برس 3 گنا زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔

    بلوچستان میں گزشتہ برس پلاسٹک کی تھیلیوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    طارق زہری کے مطابق بلوچستان اس وقت تلف ہوجانے والے یعنی بائیو ڈی گریڈ ایبل بیگز بنا رہا ہے جس کے 4 پلانٹس کوئٹہ میں لگائے گئے ہیں۔ یہ پلانٹس پورے بلوچستان کو یہ بیگز فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    بلوچستان اس وقت پلاسٹک کے حوالے سے نتیجہ خیز اقدامات کرنے کے ساتھ نئی نسل میں پلاسٹک کے خلاف شعور بھی بیدار کر رہا ہے۔

    طارق زہری کے مطابق چند روز قبل کوئٹہ میں 10 ہزار طلبہ و طالبات نے پلاسٹک کے خلاف آگاہی پھیلانے کے لیے ایک واک کی اور اس دوران پلاسٹک کا کچرا بھی سمیٹا۔

    اس سے قبل طلبا نے کوئٹہ کی ہنہ جھیل کی صفائی بھی کی۔

    ہنہ جھیل

    انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی ماحولیاتی تجزیہ کاری (انوائرنمنٹ امپکٹ اسسمنٹ) بھی کیا جارہا ہے۔

    شجر کاری کے حوالے سے طارق زہری کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی صنعت یا فیکٹری لگانے کا منصوبہ منظوری کے لیے بھجوایا جاتا ہے تو اس کے لیے شرط رکھ دی جاتی ہے کہ مذکورہ فیکٹری کو پودے لگانے کی صورت میں نو آبجیکشن سرٹیفکٹ (این او سی) دیا جائے گا۔

    مذکورہ صنعت کے لیے پودوں کی تعداد لاکھوں میں رکھی جاتی ہے جن کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی انہی کی ہوتی ہے۔ ’اس طرح سے تقریباً 70 سے 80 لاکھ پودے لگانے کی ذمہ داری بلوچستان کی مختلف صنعتوں کے پاس ہے‘۔

    طارق زہری نے بتایا کہ بلوچستان میں اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے پر بھی کام کیا جارہا ہے۔ یہ بھٹے نہایت آلودہ اور زہریلا دھواں خارج کرتے ہیں جو ماحول اور انسانی صحت کے لیے بے حد خطرناک ہوتی ہے۔

    زگ زیگ ٹیکنالوجی کے باعث اس دھوئیں کے اخراج میں 40 فیصد کمی ہوجاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ایک اور منصوبہ بہت جلد شروع کیا جانے والا ہے جس کے تحت وہ پودے جو عام پودوں کی نسبت زیادہ آکسیجن خارج کرتے ہیں، ایسے مقامات پر لگائے جائیں گے جہاں ہوا کا معیار بہت زیادہ خراب ہے۔

    طارق زہری کے مطابق بلوچستان نے اپنی کلائمٹ چینج پالیسی پر بھی کام شروع کردیا ہے جو بہت جلد عمل میں لائی جائے گی۔ اس پالیسی کا فوکس خواتین پر رکھا گیا ہے۔

    ’کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ خطرے میں خواتین ہوتی ہیں، جب بھی سیلاب آتا ہے تو خواتین پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہیں گھر کا سامان بھی بچانا ہے، بچوں کو بھی بچانا ہے اور اپنے آپ کو بھی بچانا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ جب بھی کسی منصوبے میں خواتین کو شامل کیا گیا تو اس منصوبے نے بہترین نتائج دیے۔ ’نئی نسل کا شعور و آگاہی ماؤں سے مشروط ہے۔ ماؤں کو آگاہی ہوگی تو وہ اپنے بچوں کو بھی تحفظ ماحول سکھا سکیں گی‘۔

    صوبہ پنجاب

    صوبہ پنجاب میں تحفظ ماحولیات کے لیے ہونے والے اقدامات کے بارے میں ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طاہر رشید نے گفتگو کی۔

    ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی صوبائی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والا ادارہ ہے۔

    طاہر رشید نے بتایا کہ پنجاب اپنی کلائمٹ چینج پالیسی تیار کرچکا ہے جو منظوری کی منتظر ہے۔

    گزشتہ 2 برس میں پنجاب کو زہریلی دھند یعنی اسموگ نے بھی بہت متاثر کیا جس کے بعد اسموگ پالیسی بھی بنائی جاچکی ہے، علاوہ ازیں وائلڈ لائف پالیسی بھی تشکیل کے مراحل میں ہے۔

    پنجاب میں چھانگا مانگا کے جنگلات

    طاہر رشید نے بتایا کہ پنجاب میں سب سے بڑا کام گراؤنڈ واٹر ایکٹ کی تیاری ہے جس کے بعد زمینی پانی کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے کے لیے اقدامات کیے جاسکیں گے۔ گراؤنڈ واٹر ایکٹ کی تیاری کرنے والا پنجاب پاکستان کا پہلا صوبہ ہے۔

    ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی ایک پروگرام کے تحت 1 لاکھ 34 ہزار 9 سو 95 ایکڑ زمین جزوی طور پر نجی ملکیت میں دے رہی ہے تاکہ ان پر شجر کاری کر کے پنجاب میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس زمین پر 4 کروڑ درخت لگائے جائیں گے۔

    صوبہ پنجاب سابق وزیر اعظم نواز شریف کے شروع کیے ہوئے گرین پاکستان پروگرام میں بھی فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

    علاوہ ازیں حکومت پنجاب پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال کو کم کرنے اور ان کی جگہ زمین میں تلف ہوجانے والے یعنی بائیو ڈی گریڈ ایبل بیگز کی تیاری پر بھی کام کر رہی ہے جبکہ اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔

    صوبہ سندھ

    گزشتہ کچھ عرصے میں تحفظ ماحول کے لیے صوبہ سندھ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

    اس بارے میں ایجنسی برائے تحفظ ماحول (ای پی اے) کے ڈائریکٹر وقار حسین نے بتایا کہ وسائل کی کمی کے باوجود ادارے نے اپنے طور پر بھرپور اقدامات کیے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 4 سال کے دوران 500 سے زائد ترقیاتی منصوبے منظوری کے لیے پیش کیے گئے جنہیں اس شرط پر منظوری دی گئی کہ وہ تحفظ ماحول کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

    ان منصوبوں کے مالکان اور منتظمین کو پابند کیا گیا کہ وہ مخصوص تعداد میں شجر کاری کریں۔

    کراچی کے ساحلی علاقے میں واقع تیمر کے جنگلات

    علاوہ ازیں بڑی صنعتوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے استعمال شدہ پانی کو براہ راست سمندر یا دریاؤں، نہروں میں پھینکنے کے بجائے ٹریٹ منٹ پلانٹس لگائیں تاکہ پانی کی زہر ناکی اور اس کے نقصان کو کسی حد تک کم کیا جاسکے۔

    وقار حسین کا کہنا تھا کہ صوبے میں پہلے سے موجود تحفظ ماحولیات ایکٹ میں نئی شقیں شامل کی گئیں اور ان پر سختی سے عملدر آمد بھی شروع کیا گیا۔

    اس سلسلے میں تحفظ ماحول کے قوانین کی خلاف ورزی پر کئی صنعتوں اور اداروں پر جرمانے عائد کیے گئے۔ سرکاری محکمے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہے اور ان کی خلاف ورزیوں پر بھی جرمانے لگائے گئے۔

    وقار حسین کے مطابق ان میں ڈی ایم سی ایسٹ کورنگی، ڈی ایم سی ایسٹ سینٹرل، کراچی واٹر بورڈ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ شامل تھے جبکہ کئی سرکاری اسپتالوں پر بھی جرمانے عائد کیے گئے۔

    ان کے مطابق اب تک سرکاری و نجی اداروں کو ملا کر کل 1 کروڑ 45 لاکھ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے، تاہم ان کی ریکوری نہ ہوسکی کیونکہ اس کا اختیار ایجنسی کے پاس نہیں۔ ’جرمانوں کی ادائیگی کی شرح صرف 1 فیصد ہے‘۔

    صوبہ بلوچستان کی طرح رواں برس صوبہ سندھ نے بھی پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کی ہے۔ وقار حسین کے مطابق تلف ہوجانے والے یعنی بائیو ڈی گریڈ ایبل بیگز کی تیاری کا کام بھی جاری ہے اور اب تک کئی بڑے اسٹورز کو یہ بیگز فراہم کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ای پی اے نے محکمہ جنگلات کی مدد کے بغیر کراچی کے ساحلی علاقوں میں 25 ہزار ایکڑ پر تیمر کے درخت لگائے ہیں۔ اسی طرح صحرائے تھر میں بھی بڑے پیمانے پر شجر کاری کی جارہی ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم تیمر

    تھر میں سرگرم عمل اینگرو کمپنی جو توانائی بنانے کے لیے کوئلے کی ڈرلنگ میں مصروف ہے، ای پی اے کی ہدایات پر کٹنے والے ایک درخت کی جگہ 5 سے 10 پودے لگا رہی ہے۔

    ان درختوں کی دیکھ بھال فی الحال اس کمپنی کے ہی ذمے ہے کیونکہ ابھی کچھ عرصہ اس کمپنی کو تھر میں ہی قیام کرنا ہے۔ اس کے بعد یہ درخت مقامی افراد کی ذمہ داری ہوں گے اور اس سلسلے میں ای پی اے ان کی معاونت کرے گا۔

    ان کے مطابق تھر میں اگلے ایک سے 2 برسوں میں 10 لاکھ پودے لگانے کا منصوبہ ہے۔

    وقار حسین نے بتایا کہ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ وسائل کی کمی ہے۔ ای پی اے کے پورے سندھ میں دفاتر نہیں ہیں بلکہ صرف چند ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں دفاتر موجود ہیں جو محدود وسائل میں پھرپور خدمات انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • الیکشن 2018: صحرا کی قسمت بدلنے کے لیے تھر کی خواتین اٹھ کھڑی ہوئیں

    الیکشن 2018: صحرا کی قسمت بدلنے کے لیے تھر کی خواتین اٹھ کھڑی ہوئیں

    کہا جاتا ہے کہ کسی مقام پر زندگی کا دار ومدار پانی پر ہوتا ہے، جہاں پانی ہوگا وہیں زندگی ہوگی۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کسی صحرا میں زندگی کا وجود ناممکن نظر آتا ہے۔

    تاہم ایسا ہے نہیں، دنیا بھر کے صحراؤں میں لوگ آباد ہیں جو اپنی مختلف ثقافت اور رسوم و رواج کے باعث منفرد تصور کیے جاتے ہیں۔

    گو کہ صحراؤں میں ان کی ضرورت کے حساب سے بہت کم پانی میسر ہوتا ہے، لیکن یہ جیسے تیسے اپنی زندگی اور روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔

    انہی صحراؤں میں سے ایک سندھ کا صحرائے تھر بھی ہے جو برصغیر کا سب سے بڑا صحرا اور دنیا بھر کے بڑے صحراؤں میں سے ایک ہے۔

    تقریباً 16 لاکھ سے زائد افراد کو اپنی وسعت میں سمیٹے صحرائے تھر ایک عرصے سے اپنے مسیحا کا منتظر ہے جو آ کر اس صحرا کو گلشن میں تو تبدیل نہ کرے، البتہ یہاں رہنے والوں کے لیے زندگی ضرور آسان بنا دے۔

    مختلف ادوار میں مختلف پارٹیوں کی حکومت کے دوران کوئی ایک بھی حکومت ایسی نہ تھی جو صحرائے تھر کے باشندوں کی زندگی بدل سکتی اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرسکتی۔

    چنانچہ اب تھر کے لوگ اپنی قسمت بدلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے ان بھاری بھرکم سیاسی جماعتوں کے مقابلے کا اعلان کردیا ہے۔

    کہتے ہیں کہ جب کوئی عورت اپنے خاندان کو بچانے کے لیے کسی مشکل کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوجائے تو وہ عزم وحوصلے کی چٹان بن جاتی ہے اور اس میں اتنی ہمت آجاتی ہے کہ وہ فرعون وقت کو بھی چیلنج کرسکتی ہے۔

    تھر کی عورتوں نے بھی ان سیاسی جماعتوں کے مدمقابل آنے کی ہمت کرلی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو ایک عرصے سے اپنے خاندانوں اور لوگوں کو ترستی ہوئی زندگی گزارتا دیکھ رہی ہیں۔

    یہ خواتین اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور ان پارٹیوں سے نجات چاہتی ہیں جو صرف ووٹ کے حصول کی حد تک تھر والوں سے مخلص ہیں۔

    صحرائے تھر قومی اسمبلی کی 2 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 4 نشستوں پر مشتمل ہے جن میں این اے 221 ڈاہلی نگر پارکر، این اے 222 ڈیپلو اسلام کوٹ، پی ایس 54 ڈاہلی، پی ایس 55 نگر پارکر، پی ایس 56 اسلام کوٹ، اور پی ایس 57 ڈیپلو شامل ہیں۔

    قومی اسمبلی کی نشست این اے 222 سے تلسی بالانی، پی ایس 55 سے نازیہ سہراب کھوسو اور پی ایس 56 سے سنیتا پرمار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

    ان خواتین کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدواروں سے ہے۔

    نازیہ سہراب کھوسو

    نازیہ سہراب کھوسو

    نازیہ سہراب کھوسو تھر کے علاقے نگر پارکر حلقہ پی ایس 55 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھر میں زندگی گزارنا ایسا ہے جیسے آپ اس دنیا میں لاوارث ہیں۔ ’لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، اور کوئی پوچھنے تک نہیں آتا‘۔

    نازیہ نے بتایا کہ تھر میں موجود اسکولوں میں کئی استاد ایسے ہیں جنہیں وڈیروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ استاد اپنے فرائض تو نہیں نبھا رہے البتہ ہر ماہ تنخواہ ضرور لیتے ہیں۔ ’وڈیروں کی وجہ سے کوئی ان کے خلاف ایکشن نہیں لیتا‘۔

    انہوں نے کہا کہ یہاں نہ خواتین کے لیے صحت کے مراکز ہیں، نہ پینے کا پانی، نہ سڑکیں نہ اسکول، ’امیر کے بچے کے لیے سب کچھ ہے، وہ شہر کے اسکول جا کر بھی پڑھ سکتا ہے، غریب کا بچہ کیا کرے‘؟

    ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟

    اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ گھر سے باہر نکلنے اور الیکشن لڑنے پر انہیں باتیں سننے کو ملیں، ’جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو یہ سب سننا ہی پڑتا ہے، ان باتوں پر اگر کان دھرا جائے تو کوئی عورت کچھ نہ کرسکے‘۔

    وہ کہتی ہیں کہ ان کے الیکشن میں حصہ لینے سے دیگر خواتین میں بھی حوصلہ پیدا ہوا ہے، ہوسکتا ہے کل مزید کئی خواتین اپنے علاقے کی قسمت بدلنے کے لیے میدان میں اتر آئیں۔

    ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے کیا انہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کسی قسم کے دباؤ کا بھی سامنا ہے؟

    اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ انہیں پارٹیوں کی جانب سے پیغام وصول ہوا کہ ہم بڑی بڑی مضبوط جماعتیں ہیں، ہمارے مقابلے میں آپ کیا کرلیں گی؟ بہتر ہے کہ الیکشن لڑنے کا خیال دل سے نکال دیں۔

    انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کو ووٹ دیں اور اس کے لیے انہیں دھمکیوں اور لالچ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

    مستقبل میں نازیہ کے الیکشن جیتنے کی صورت میں کیا اس بات کا امکان ہے کہ وہ کسی پارٹی میں شامل ہوجائیں؟ اس بات کی نازیہ سختی سے نفی کرتی ہیں۔

    ’بڑی اور پرانی سیاسی جماعتیں جو طویل عرصے سے تھر کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہی ہیں ان میں شامل ہونے کا قطعی ارادہ نہیں۔ یہ غریب لوگوں کے حقوق کی جنگ ہے جو یہ لوگ لڑ ہی نہیں سکتے، عام لوگوں کی جنگ عام لوگ ہی لڑیں گے‘۔

    سنیتا پرمار

    سنیتا پرمار

    تھر کے حلقہ پی ایس 56 اسلام کوٹ سے الیکشن میں حصہ لینے والی سنیتا پرمار وہ پہلی ہندو خاتون ہیں جو عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

    ان کا تعلق میگھواڑ برادری سے ہے جسے ہندو مذہب میں نچلی ذات سمجھا جاتا ہے۔

    سنیتا تھر کی حالت زار کی ذمہ دار پیپلز پارٹی سمیت دیگر حکمران جماعتوں کو قرار دیتی ہیں جو تھر والوں کو صحت اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔

    وہ کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 10 سال سے حکومت میں رہی اور اس عرصے کے دوران کبھی گندم کی بوریوں، سلائی مشین اور کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے نام پر تھری خواتین کی بے عزتی کی جاتی رہی۔

    سنیتا بھی انتخاب جیت کر تھر کے بنیادی مسائل حل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ فتحیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچیں تو سب سے پہلے تھر کی خواتین کی صحت اور یہاں کی تعلیم کے حوالے سے بل پیش کریں گی۔

    وہ کہتی ہیں کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے تھر سے کسی خاتون کو الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین دیانت دار ہوتی ہیں اور وہ ان پارٹیوں کی کرپشن میں ان کا ساتھ نہیں دیں گی۔

    سنیتا کی انتخابی مہم میں ان کے گھر والوں اور ہندو برادری نے ان کا ساتھ دیا اور پیسے جمع کر کے کاغذات نامزدگی کے اخراجات کو پورا کیا۔

    تلسی بالانی

    تلسی بالانی

    تھر کے علاقے ڈیپلو کے حلقہ این اے 222 سے انتخابات میں حصہ لینے والی تلسی بالانی بھی میگھواڑ ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔

    تلسی کا کہنا ہے کہ تھر میں کئی سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں، لیکن ان کی دلچسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ تھر کے باسیوں سے ووٹ لیں اور اس کے بعد اسمبلی میں جا کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی تھر اور اس کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام نہیں کرتا۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض پارٹیاں یہاں سے الیکشن میں ایسے افراد کو ٹکٹ دے دیتی ہیں جو تھر سے باہر کے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ تھر کے کیا مسائل ہیں اور انہیں کیسے حل کرنا چاہیئے۔

    تھر کے لوگوں کی بے بس زندگی کو دیکھتے ہوئے ہی تلسی نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتی ہیں کہ الیکشن جیت کر یہاں کے لوگوں کو کم از کم بنیادی ضروریات فراہم کرسکیں۔

    ’یہاں نہ ڈاکٹر ہے نہ اسکول ہے، جو چند ایک اسکول موجود ہیں وہاں پر استاد نہیں، اگر ہے بھی تو وہ صرف تنخواہ لیتا ہے، کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ کئی دیہاتوں میں سرے سے اسکول ہی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تھر کے لوگ جاگیں اور اپنے حالات کو بدلیں‘۔

    تلسی نے بتایا کہ ان کے خاندان میں عورتیں ہر وقت گھونگھٹ اوڑھے رکھتی ہیں اور کسی مرد کے سامنے نہیں آتیں۔

    ’میں نے باہر نکل کر لوگوں کے پاس جانا اور ان کے مسائل سننا شروع کیا تو ظاہر ہے مجھے پردہ اور گھونگھٹ چھوڑنا پڑا۔ لوگوں نے باتیں بنائیں کہ تم عورت ہو، کیا کرلو گی؟ لیکن کچھ لوگوں نے حوصلہ افزائی بھی کی‘۔

    تلسی کا ماننا ہے کہ اگر نیت صاف اور مخلص ہو تو تمام مشکلات کا سامنا کیا جاسکتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مشکلات آہستہ آہستہ آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔

  • راگ لطیفی ۔ محبت کا فیض آج بھی جاری ہے

    راگ لطیفی ۔ محبت کا فیض آج بھی جاری ہے

    شام کا وقت تھا، بھٹ شاہ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کی درگاہ زائرین سے بھری ہوئی تھی۔ لوگ اپنی اپنی منتیں اور دعائیں لیے درگاہ کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے عقائد کے مطابق محو عبادت تھے۔ کوئی سائیں لطیف کی ضریح کی جالیوں سے سر ٹکائے اپنی ناتمام حسرتوں کے پورا ہونے کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ کوئی حجرے کے باہر سر جھکائے، ہاتھ پھیلائے کسی معجزے کے انتظار میں تھا۔ ایسے میں شاہ لطیف کے طنبورے کی تان اور شاہ کا سر ہوا کی دوش پر لہرا رہا تھا۔ کوئی عورت ان عورتوں کی انتظار اور حسرت اپنے گیت میں بیان کر رہی تھی جن کے ملاح شوہر انہیں چھوڑ کر لمبے سفر پر جاچکے تھے، اور اب ان عورتوں کے پاس صرف واپسی کا انتظار تھا اور جدائی کا دکھ جو انہیں ادھ موا کیے ہوئے تھا۔

    یہ آواز شاہ لطیف کی درگاہ کے سامنے نو تعمیر شدہ ریزورٹ سے ابھر رہی تھی جہاں ایک طویل عرصے بعد چند خواتین شاہ کا کلام گا کر اور ان کا ایجاد کردہ طنبورہ بجا کر حاضرین کو انگشت بدنداں کیے ہوئے تھیں۔


    سُر کا مطلب ہے ’میٹھی شے‘۔ سُروں کے مجموعے کو راگ کہتے ہیں جس میں سُر بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ شاہ لطیف اپنے راگوں میں محبت کی لازوال داستانوں کے کردار سوہنی، سسی، مومل، رانو، سورٹھ، نوری، لیلیٰ اور مارئی (ماروی) کو ’سورمی‘ قرار دیتے ہیں جس نے اپنی جرات اور ہمت کی بے مثال داستان رقم کی ہو۔


    شاہ کا کلام گانے والی ان 4 نو عمر خواتین میں سے 3 تو صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک تائیوان سے آئی تھی جس کا نام پی لنگ ہنگ تھا۔

    لوک روایات کے مطابق راگ لطیفی گانے والی پہلی عورت مائی جیواں تھی۔ مائی جیواں اب سے ڈیڑھ سو سال قبل گجرات کے علاقے بھوج کے ایک راگی نہال فقیر کی بیوی ہوا کرتی تھی۔ نہال فقیر خود بھی شاہ لطیف کے درگاہ کا راگی تھا اور لطیفی راگ گایا کرتا تھا۔

    مائی جیواں بیٹے کی پیدائش کی منت لے کر شاہ لطیف کی درگاہ پر آئی اور اس نے منت مانگی کہ بیٹا ہونے کے بعد وہ 7 جمعوں تک درگاہ پر آ کر راگ گایا کرے گی۔ خدا نے اسے بیٹے سے نوازا جس کے بعد وہ راگ لطیفی سیکھ کر اپنی منت کے مطابق 7 جمعوں تک درگاہ پر راگ گاتی رہی

    اس کے ڈیڑھ سو سال بعد شاہ کا کلام ایک بار پھر خواتین کی آواز میں فضا میں گونج رہا تھا۔


    تائیوان سے بھٹ شاہ تک

    شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری نے صرف مقامی افراد کو ہی نہیں، بلکہ مذہب، علاقے اور خطے سے قطع نظر ہر شخص کو متاثر کیا تھا جس کا ثبوت تائیوان سے آنے والی طالب علم پی لنگ ہانگ تھیں جو لطیفی راگ پر تھیسس لکھ رہی ہیں۔

    پی لنگ ہانگ تائیوان نیشنل یونیورسٹی سے ثقافتی موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ سنہ 2012 میں انہوں نے لاہور میں ہونے والے صوفی فیسٹیول میں شرکت کی۔ یہیں ان کا پہلا تعارف لطیفی راگ سے ہوا۔ بعد ازاں 2014 میں انہوں نے بھٹ شاہ کا دورہ کیا اور درگاہ پر پہلی بار شاہ کا راگ سنا۔ اس کے بعد اپنے ریسرچ پروجیکٹ کے دوران بھی لطیفی راگ بار بار ان کی نظر سے گزرا۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جتنا زیادہ میں شاہ لطیف کی شاعری پڑھتی گئی، اتنی ہی زیادہ اس کی خوبصورتی اور معنویت مجھ پر وا ہوتی گئی‘۔ بالآخر انہوں نے اپنی تحقیق کا موضوع راگ لطیفی چنا جس کے لیے وہ پاکستان آگئیں۔ یہاں وہ راگ لطیفی سیکھنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک دستاویزی صورت میں محفوظ کر رہی ہیں جس میں درگاہ کے فقیروں اور دیگر متعلقہ افراد کے انٹرویو شامل ہیں۔

    ہانگ بتاتی ہیں کہ وہ سیاحت کی بے حد شوقین ہیں اور کئی ممالک کی سیاحت کرچکی ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اپنے پروجیکٹ کے لیے وہ کافی عرصے سے صوبہ سندھ میں مقیم ہیں جو ان کے لیے مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار تجربہ بھی ہے۔

    ہانگ کو سندھ کے لوگوں کی مہمان نوازی نے بے حد متاثر کیا۔ انہیں یہاں کا خاندانی نظام بھی بہت بھایا جس میں لوگ دن کا کچھ حصہ اہل خانہ اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ضرور گزارتے ہیں۔


    شاہ کی سورمیوں سے متاثر باپ

    راگ لطیفی گانے والی ان لڑکیوں کے استاد منٹھار فقیر ہیں جو شاہ لطیف کی درگاہ کے راگی ہیں۔ شاہ کا کلام سیکھنے والی غلام سکینہ اور صابرہ انہی کی بیٹیاں ہیں۔

    منٹھار فقیر کی بیٹیوں کا راگ سیکھنا نہ صرف ان نوعمر لڑکیوں کا شوق تھا بلکہ یہ خود منٹھار فقیر کا بھی خواب تھا جس کی تکمیل انہوں نے اپنی بیٹیوں کو یہ خوبصورت راگ سکھا کر کی۔ وہ اپنی برادری میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں کے شوق کو اس قدر اہمیت دی اور اس کی تکمیل میں ان کا ساتھ دیا۔

    شاہ لطیف کی شاعری میں 7 عورتوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں شاہ لطیف ’سورمیاں‘ کہتے ہیں۔ سورما یا سورمی ایسی شخصیت ہے جو غیر معمولی ہو اور ایسے کارنامے انجام دے جو کوئی عام انسان نہیں دے سکتا۔ یہ سورمیاں محبت کی لازوال داستانوں کے کردار سوہنی، سسی، مومل، رانو، سورٹھ، نوری، لیلیٰ اور مارئی (ماروی) ہیں۔

    شاہ لطیف نے اپنے کچھ سروں کے نام بھی ان سورمیوں کے نام پر رکھے ہیں جن میں وہ ان عظیم عورتوں کی خوبیاں اور حیران کن کارنامہ سناتے ہیں۔ جیسے سوہنی مہینوال کی سوہنی آدھی رات کو دریا پار کر کے اپنے محبوب سے ملنے جایا کرتی تھی، تو اس کی کہانی بیان کرتے سر کا نام بھی سوہنی ہے جبکہ اسے گایا بھی آدھی رات کے بعد جاتا ہے۔

    استاد منٹھار فقیر کہتے ہیں کہ جس طرح سائیں لطیف نے 7 عورتوں کو اپنی شاعری میں جگہ دی، اسی طرح وہ بھی اپنی زندگی میں 7 عورتوں کو راگ لطیفی سکھانا چاہتے ہیں۔ ’اب تک 4 کو سکھا چکا ہوں، مزید 3 کو سکھانا چاہتا ہوں‘۔

    منٹھار فقیر کا ماننا ہے کہ اب سے کئی صدیاں قبل مائی جیواں نے اپنی منت پوری کرنے کے لیے شاہ کا راگ گایا۔ ’پر تائیوان سے آنے والی یہ بچی شاہ کی موسیقی کی محبت میں اپنا وطن چھوڑ کر یہاں آئی ہے اور اجنبی دیس میں اس صوفی کا کلام سیکھ رہی ہے جس کی موسیقی نے تمام مذاہب کے لوگوں کو محبت کی زنجیر میں باند رکھا ہے‘۔


    لطیفی راگ سیکھنے والی بتول کا کہنا ہے کہ اس کے مضامین میں تاریخ کا مضمون بھی شامل ہے جس میں اس نے مائی جیواں کے بارے میں پڑھا۔ اسے شاہ لطیف کی شاعری بھی بہت پسند تھی اور اس کی معنویت اور گہرائی کو سمجھنے کے لیے اس نے لطیفی راگ سیکھنے کا فیصلہ کیا۔

    کسی خاتون کا درگاہ پر بیٹھ کر راگ گانا ایک غیر معمولی شے تھی جس پر ان خواتین کو مثبت اور منفی دونوں تاثرات ملے۔ کچھ افراد نے ان کے شوق پر ناگواری کا اظہار کیا، جبکہ کچھ نے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ ’جب آپ کسی چیز کے لیے جنونی ہوجاتے ہیں تو پھر آپ کے لیے تعریف یا تنقید بے معنی ہوجاتی ہے۔ آپ صرف اپنا جنون پورا کرنا چاہتے ہیں‘۔

    شاہ لطیف کی درگاہ کے سامنے قائم مدن فقیر ریزورٹ میں میوزک اسکول بھی قائم کیا گیا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ اسے جامشورو کی مہران یونیورسٹی سے منسلک کردیا جائے تاکہ موسیقی کے شائق اسے سیکھ کر باقاعدہ ڈگری بھی حاصل کرسکیں۔

    شاہ کا راگ سیکھنے والی بتول، غلام سکینہ، صابرہ اور تائیوان کی طالب علم پی لنگ ہانگ اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ سندھ کے صوفیائے کرام کا پیغام محبت کا عالمی پیغام ہے اور اگر اس کی معنویت کو سمجھا جائے تو دنیا سے نفرت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

  • آخری اسٹیشن: مختلف مشکلات سے نبرد آزما خواتین کی کہانیاں

    آخری اسٹیشن: مختلف مشکلات سے نبرد آزما خواتین کی کہانیاں

    ایک عام سی، بظاہر کمزور دکھنے والی عورت اس وقت بہت خاص بن جاتی ہے جب وہ کسی مقصد کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ چاہے وہ مقصد کسی اپنے کی حفاظت کرنا ہو یا پھر اپنی زندگی بدلنا، ایسے موقع پر اس کے عزم و حوصلہ کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل پر پیش کیا جانے والا ’آخری اسٹیشن‘ بھی ایسی ہی 7 عام سی خواتین کی بہت خاص کہانیوں پر مبنی ڈرامہ سیریل ہے جو کل 13 فروری سے نشر کیا جائے گا۔

    کشف فاؤنڈیشن کی جانب سے پیش کردہ اس ڈرامے کو آمنہ مفتی نے تحریر کیا ہے جبکہ اس کی ہدایت کاری کے فرائض سرمد کھوسٹ نے انجام دیے ہیں۔

    ڈرامہ ’آخری اسٹیشن‘ خواتین کے ان حساس موضوعات کو اجاگر کرتا ہے جس پر عموماً ہمارے یہاں بات نہیں کی جاتی، انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے یا پھر ان پر بات کرنا ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔

    کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کے گھر میں موجود خواتین باہر کی مشکلات کا سامنا نہ کرنے کے باوجود ڈپریشن کا شکار ہوسکتی ہیں؟ ان کا یہ مرض اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب اس پر توجہ نہ دی جائے اور اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے۔

    ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والی صنم سعید ایک ایسی ہی عورت کی مشکلات کو اجاگر کر رہی ہیں جو ڈپریشن سے نبرد آزما ہے۔

    ڈپریشن کے سلسلے میں اپنے حقیقی تجربات کے بارے میں انہوں نے بتایا، ’نوعمری میں، میں نہیں جانتی تھی کہ ڈپریشن کیا ہوتا ہے۔ میں اپنی والدہ کو اداس دیکھتی تھی تو ان سے پوچھتی تھی کہ آخر آپ کو کیا دکھ ہے؟ آپ کے پاس شوہر، بچے، دولت، گھر سب کچھ ہے پھر آپ کیوں اداس رہتی ہیں‘۔

    آہستہ آہستہ وقت کا پہیہ چلتا چلا گیا۔ جب صنم زندگی کے عملی میدان میں اتریں اور مصائب و مشکلات کا سامنا کیا تب انہیں علم ہوا کہ ڈپریشن کیا بلا ہے اور کس طرح سے زندگی سے مقصدیت کو چھین لیتا ہے۔ ’ڈپریشن کے وقت سب سے بڑی رحمت کسی سامع کا ہونا ہے جو بدقسمتی سے اکثر افراد خصوصاً خواتین کو میسر نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمیں ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ہماری بات سنے تاکہ ہم اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکیں، لیکن اس وقت ہمیں کوئی نہیں ملتا، سب مصروف ہوتے ہیں اور ہمارا ڈپریشن بڑھتا چلا جاتا ہے‘۔

    سات اقساط پر مبنی اس ڈرامہ سیریل کی ہر قسط ایک الگ کہانی ہے۔ یہ دراصل 7 مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین پر مشتمل ایک ڈرامہ ہے ہے جو ٹرین کے سفر میں اکٹھی ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کو اپنی کہانیاں سنانا شروع کرتی ہیں۔ یہاں سے ڈرامہ فلیش بیک میں چلنا شروع ہوتا ہے۔

    ڈرامے میں صنم سعید کے علاوہ نمرہ بچہ، مالکہ ظفر، عمان سلیمان، فرح طفیل، انعم گوہر، عمارہ بٹ، میکال ذوالفقار اور عرفان کھوسٹ نے بھی اہم کردار ادا کیے ہیں۔

    ڈرامے کا نام آخری اسٹیشن کیوں رکھا گیا؟ اس سوال کے جواب میں مصنفہ آمنہ مفتی نے بتایا کہ ہم اپنی زندگیوں میں بہت سے سمجھوتے کرتے ہیں، بہت کچھ برداشت کرتے ہیں، لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جہاں سب کچھ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ وہ فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے جس کے بعد آپ کو اپنی بقا کے لیے اپنی زندگی کی پٹری بدلنی پڑتی ہے۔ گویا ایک سفر کا آخری اسٹیشن آ پہنچتا ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ اس اسٹیشن سے کوئی نیا سفر ہے یا کچھ بھی نہیں۔

    چونکہ ہر عورت کی کہانی دوسری عورت سے مختلف ہے لہٰذا ہر عورت الگ الگ قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ کوئی گھریلو تشدد کا شکار ہے اور معاشرے کی عام روایت کے مطابق ’برداشت کرو‘ کی اذیت ناک صورتحال سے دو چار ہے۔

    اتنی صدیوں سے میں ڈھونڈتی ہوں اسے
    اک وہ بستی جہاں مجھ سے انصاف ہو
    بے بسی اور تشدد سے یکسر الگ
    ایک ایسی فضا جو کہ شفاف ہو
    آئینے کو میرے اب چمک چاہیئے
    مجھے اپنے جینے کا حق چاہیئے

    ایک عورت جسم فروشی پر مجبور کردی گئی ہے اور جب اس کی روح تار تار ہوچکی ہے تب اس نے بھی اپنی زندگی کی پٹری بدلنے کا تہیہ کیا اور ایک نامعلوم سفر پر چل پڑی۔

    کوئی عورت ایچ آئی وی سے نبرد آزما ہے جس کا نام بھی لینا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔

    ڈرامے کا ٹائٹل سانگ معروف شاعر امجد اسلام امجد کی نظم ہے جس کا عنوان ہے، ’مجھے اپنے جینے کا حق چاہیئے‘۔ نظم کو طاہرہ کاظمی نے اپنی مسحور کن آواز میں گایا ہے۔ ڈرامے کا ایک اور خوبصورت پہلو اس میں بھارتی معروف اداکارہ شبانہ اعظمی کی شمولیت ہے جنہوں نے مختلف مناظر میں پس پردہ میں اس نظم کو تحت الفظ پڑھا ہے۔

    تو میرا پیرہن میں تیری پیرہن
    راہبر تو میرا چارہ گر میں تیری
    نہ میں باندی کسی کی نہ جاگیر ہوں
    ہم نفس ہوں تیری ہم سفر ہوں تیری
    جس پہ مل کے چلیں وہ سڑک چاہیئے
    مجھے اپنے جینے کا حق چاہیئے

    خواتین کے حساس موضوعات پر گفتگو کرتا یہ ڈرامہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں یقیناً ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا جو خواتین کے حقوق اور ان کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں اضافہ کرے گا۔

    ڈرامہ آخری اسٹیشن 13 فروری کی شب سے ہر منگل کو رات 9 بجے اے آر وائی ڈیجیٹل پر پیش کیا جائے گا۔