Author: فریحہ فاطمہ

  • مشرق سے مغرب تک تباہ کن سیلاب اور طوفان، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    مشرق سے مغرب تک تباہ کن سیلاب اور طوفان، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    سال 2017 موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے حوالے سے ایک تباہ کن سال ثابت ہوا۔ فرسٹ ورلڈ امریکہ سے لے کر تیسری دنیا کے جنوبی ایشیا تک طوفانوں اور سیلابوں نے وہ تباہی مچائی کہ دنیا لرز اٹھی۔

    یہ بات اب دنیا کو سمجھنی ہوگی کہ گو کہ ہم نے زمین سے مماثلت رکھنے والے کئی سیارے دریافت تو کرلیے ہیں، لیکن فی الحال ہمارے پاس رہنے کے لیے صرف ایک ہی سیارہ زمین ہے جہاں باقاعدہ زندگی ہے اور انسانی زندگی کو مطلوب مکمل ضروریات موجود ہیں، اور بدقسمتی سے اب اس زمین کا کوئی بھی حصہ قدرتی آفات سے محفوظ نہیں رہا جسے عاقبت نا اندیش انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے دعوت دی۔

    اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر چند بین الاقوامی ماہرین سے گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ قدرتی آفات میں اور ان کی تباہ کن شدت میں اس قدر اضافہ کیوں ہوگیا ہے، اور ان سے نمٹنا یا ان کی شدت کو کم کرنا ممکن ہے۔

    اس سے قبل ہم گزشتہ 2 ماہ میں دنیا کے کئی ممالک کو متاثر کرنے والے سمندری طوفانوں، سیلابوں اور ان سے ہونے والے نقصانات کا مختصراً جائزہ لیں گے۔

    جنوبی ایشیا کا تباہ کن مون سون

    بارشوں کا سیزن مون سون ایک قدرتی عمل ہے جو جنوبی ایشیا میں جون سے ستمبر تک ہر سال آتا ہے تاہم سینٹر فار ریسرچ آن دا ایپیڈ مولوجی آف ڈیزاسٹر کے مطابق 2017 کے مون سون کا آخری سائیکل جس کا آغاز اگست میں ہوا، نے جنوبی ایشیائی ممالک نیپال، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں بے تحاشہ تباہی مچائی۔

    اس  اسپیل نے چاروں ممالک میں لگ بھگ 13 سو افراد کو لقمہ اجل بنایا جبکہ مجموعی طور پر 4 کروڑ افراد اس سے براہ راست متاثر ہوئے اور ناقابل تلافی نقصانات کا شکار بنے۔

    اس آخری سائیکل نے بیک وقت بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال کو اپنا نشانہ بنایا۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں اس نوعیت کی تباہی دیکھنے میں نہیں آئی جیسی ان 3 ممالک میں نظر آئی۔

    بھارت

    مون سون کی یہ معمول کی بارشیں جب غیر معمولی صورت اختیار کر گئیں تو انہوں نے بھارت کے شمالی حصے بشمول ممبئی اور بھارتی ریاستوں آسام، مغربی بنگال، بہار اور اتر پردیش کو بدترین طور پر متاثر کیا۔

    اس سیلاب نے 3 کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا، 8 لاکھ سے زائد گھر بہہ گئے جبکہ ریاست آسام میں واقع نایاب نسل کے گینڈوں اور چیتوں پر مشتمل کازی رنگا نیشنل پارک بھی سیلاب کی زد میں آگیا۔

    بعد ازاں وہاں کئی گینڈوں اور چیتوں کی لاشیں بھی تیرتی ہوئی پائی گئیں۔

    بھارتی شہر ممبئی بھی مذکورہ سیلاب سے بے حد متاثر ہوا، لگاتار پورا دن ہونے والی بارش کے نتیجے میں شہر میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، ممبئی کے ریلوے ٹریکس بھی زیر آب آگئے۔

    بھارت میں امدادی کاموں میں تاخیر اور غفلت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنوب ایشیائی شہری ہونے کی حیثیت سے یہ اس خطے کا معمول کا حکومتی رویہ ہے اور خود عوام بھی اس رویے کو سہنے کی عادی ہے۔

    بنگلہ دیش

    بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ اور مختلف شمالی و مشرقی حصوں میں معمول کی بارشیں اچانک شدت اختیار کرنے سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی جس سے 60 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ 7 لاکھ گھر تباہ ہوئے، جبکہ 46 لاکھ 80 ہزار ہیکٹرز پر کھڑی فصلیں بہہ گئیں۔

    ڈھاکہ بارشوں کے بعد

    نیپال

    نیپال میں ان تباہ کن بارشوں نے 143 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جبکہ مجموعی طور 17 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوئے۔ 4 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے جبکہ 34 ہزار مکانات بالکل تباہ ہوگئے۔

    سب سے بڑا نقصان مہندرا ہائی وے کو ہوا جو ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ تھی اور یہ ہائی وے ان بارشوں میں بہہ گئی۔

    سیلاب سے برات نگر ایئرپورٹ کا رن وے بھی زیر آب آگیا جس کے باعث ایئرپورٹ کو بند کرنا پڑا۔

    سیلاب کے بعد برات نگر ایئرپورٹ کا ایک منظر

    زرعی ماہرین کے مطابق بارشوں اور سیلاب میں چاول کی فصلیں بھی بہہ چکی ہیں جو نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے، اور نیپال میں بہت جلد ایک غذائی قلت اور مہنگائی کا عفریت سر اٹھانے والا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیپال کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا اور کم ترقی یافتہ اور دیہی علاقے خاص طور پر اس کا نشانہ بنے۔

    پاکستان

    پاکستان میں مون سون کے اس آخری سائیکل نے اس نوعیت کی تباہی تو نہ مچائی تاہم سندھ کے کئی دیہی علاقے زیر آب آگئے جبکہ کراچی جیسا میٹرو پولیٹن شہر بھی اربن فلڈ کی زد میں آگیا۔

    مزید پڑھیں: کراچی کا اربن فلڈ

    یاد رہے کہ رواں سال مون سون شروع سے پاکستان کے لیے کچھ اچھا نہ تھا اور مختلف سائیکل ملک کے مختلف حصوں میں تباہی مچاتے رہے جن میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے نشیبی اور دیہی علاقے شامل ہیں۔ لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سیلاب ہر سال ہی پاکستانی مون سون کا حصہ ہیں۔

    ماہرین روز اول سے چیخ رہے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب خود ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ سال کا آدھا حصہ ہم پیاس سے مرتے ہیں جبکہ بقیہ سال سیلاب ہمیں مارتا ہے۔

    اگر سیاسی جھگڑوں کو چھوڑ کر دانشمندانہ حکمت عملی سے کام لیا جائے تو ڈیمز اور دیگر جدید ذرائع سے اس پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے جو سیلابی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس طرح نہ تو سیلاب پیدا ہوں گے اور نہ سال کے کسی حصے میں کہیں خشک سالی کی صورتحال ہوگی۔

    شہر کراچی میں آنے والا اربن فلڈ بھی صوبائی و شہری حکومتوں کی غفلت اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت تھا جنہوں نے نکاسی آب کے راستوں کو کچرے اور غلاظت سے بھر رکھا ہے، نتیجتاً معمول سے زیادہ ہونے والی بارشیں نکاس نہ ہوسکیں اور سیلاب کی شکل اختیار کر گئی۔

    مزید پڑھیں: کراچی میں اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    ماہرین کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اربن فلڈ آتے ہی اس وقت ہیں جب کسی شہر کو بغیر منصوبہ بندی کے بساتے چلے جایا جائے اور مستقبل اور موسمی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی منصوبہ بندی نہ کی جائے۔

    معمول سے ذرا سی زیادہ بارش نے شہر کراچی کا یہ حال کردیا

    مغربی ممالک کے خوفناک طوفان

    امریکا میں بحر اوقیانوس میں سب سے پہلے ہاروی طوفان مشاہدے میں آیا اور اس سے قبل ہی امریکی ماہرین خبردار کرچکے تھے کہ اوقیانوس میں اس وقت 3 فعال طوفان موجود ہیں جن کی شدت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    امریکا میں ہریکین ہاروی کی نوعیت کا شدید اور تباہ کن طوفان اس سے قبل سنہ 2005 میں آیا تھا جس کا نام ولما تھا۔ رواں برس آنے والے سمندری طوفان لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بھی بنے جس نے نقصان کی شدت میں اضافہ کردیا۔

    یاد رہے کہ بحر اوقیانوس 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا بحر ہے اور یہ بحر الکاہل کے بعد زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔

    متعدد افریقی، امریکی و یورپی ممالک اس کے کناروں پر واقع ہیں لہٰذا اوقیانوس میں معمولی سی ہلچل کا مطلب ہے کہ متعدد مغربی و افریقی ممالک میں نقصانات کا خدشہ۔

    ہریکین ہاروی

    گزشتہ ماہ 215 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں اور اس کے نتیجے میں 100 سینٹی میٹر کی ہونے والی بارشوں نے امریکا میں تباہی کی تاریخ رقم کردی۔

    اوقیانوس میں ایک بڑی لہر سے شروع ہونے والا یہ طوفان 17 اگست کو بدترین سمندری طوفان کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک معمولی نوعیت کے طوفان کی حیثیت سے یہ سب سے پہلے ونڈ ورڈ جزائر سے گزرا اس کے بعد کیریبیئن جزائر کے ملک بارباڈوس پہنچا لیکن ابھی بھی یہ ایک کم شدت کا طوفان تھا۔

    تاہم کم ترقی یافتہ کیریبیئن ملک بارباڈوس اس طوفان کو سہہ نہ سکا اور بے تحاشا نقصان دیکھنے میں آیا۔

    کیریبیئن جزائر سے لے کر کولمبیا کے سفر تک اس طوفان کی شدت میں کبھی کمی اور کبھی اضافہ دیکھا جاتا رہا۔ بعد ازاں 24 اور 25 اگست کی رات یہ اچانک درجہ 4 کےطوفان میں تبدیل ہوگیا، اس وقت یہ امریکی ریاست ٹیکسس میں داخل ہوچکا تھا۔

    ہاروی طوفان اور بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب نے ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا۔

    طوفان اور سیلاب کے دوران ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کا ایک منظر

    اس دوران یہ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی داستان رقم کرتا چلا آرہا تھا۔ اس کے بعد یہ بحر اقیانوس کے ساحلی نشیب گلف میکسیکو میں داخل ہوا جہاں اس کی شدت ابھی برقرار تھی۔

    ہاروی نے وہاں پر واقع امریکی ریاست لوزیانا میں بے حد نقصان بشمول لینڈ سلائیڈنگ برپا کی، اس کے بعد کمزور ہوتا چلا گیا اور پھر یکایک اوقیانوس کی گہرائیوں میں گم ہوگیا۔

    ہریکین ہاروی نے ونڈ ورڈ آئی لینڈز، سوری نام، گیانا، نکارا گوا، ہنڈراس، اور جنوبی اور مغربی امریکی ریاستوں خصوصاً ٹیکس اور لوزیانا کو بری طرح متاثر کیا۔ طوفان میں کل 83اموات رپورٹ ہوئیں جن میں 82 امریکی ریاستوں میں تھی۔

    طوفان نے ان ممالک و جزائر کی معیشتوں کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 200 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔

    ہریکین ارما

    ابھی ہاروی طوفان کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیا جارہا تھا اور امدادی کام جاری تھا کہ ارما طوفان بھی سر پر آ پہنچا۔ امریکی ماہرین ارما کے گرداب اور لہروں کا مشاہدہ سنہ 2007 سے کر رہے تھے تاہم ہاروی نے اس کو بے پناہ تقویت دی اور یہ چیختا چھنگاڑتا سمندر کے کناروں سے باہر اچھل آیا۔

    پہلے درجے سے شروع ہوتا ہوا 6 ستمبر کو یہ پانچویں درجے تک جا پہنچا جس میں ہواؤں کی شدت 295 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔

    ذرا سے مختلف راستوں سے گزرتا ہوا یہ کیپ ورڈی، لی وارڈ جزائر، اور کیریبیئن جزائر کے ملک کیوبا میں تباہی مچاتا جس وقت امریکی ریاست فلوریڈا پہنچا اس وقت یہ اپنےعروج پر تھا۔

    امریکی ریاست فلوریڈا میں طوفان کے بعد تباہی

    اس دوران یہ کم ہو کر چوتھے درجے پر بھی پہنچا لیکن ایک بار پھر پانچویں درجے پر پہنچ کر بدترین لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بنا۔ تاہم اس کے بعد اس کی شدت میں کمی آتی گئی۔

    ارما نے کیریبیئن جزائر کے علاقوں بارباڈوس، سینٹ بارتھیلمی، سینٹ مارٹن اور برطانوی ورجن جزائر اور ہیٹی میں خوب تباہی مچائی جس میں سے بارباڈوس پہلے ہی ہاروی سے تباہ حال تھا۔

    مقامی حکام کے مطابق بربودہ یا بارباڈوس میں ارما اور ہاروی کی وجہ سے 95 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ جزیرہ پورٹو ریکو کے نصف سے زائد مکانات گر گئے جبکہ سینٹ مارٹن جزیرے کا 95 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا تھا۔

    بالآخر جب طوفان ختم ہوا تو یہ 101 افراد کی زندگیاں نگل چکا تھا جن میں 44 کیریبیئن جزائر اور 57 امریکی ریاستوں میں ہوئیں۔ ارما نے امدادی کاموں کو بھی متاثر کیا جو ہاروی کے بعد کیا جارہا تھا۔

    ہریکین ماریا

    بحر اوقیانوس میں آنے والا تیسرا خوفناک شدت کا طوفان ہریکین ماریہ تھا جو فی الحال جاری ہے۔ اس طوفان نے کیریبیئن جزائر کے ملک ڈومنیکا کو شدید نقصان پہنچایا جب اس جزیرے سے یہ 5 درجے کے طوفان کی حیثیت سے ٹکرایا۔

    ڈومنیکا میں اس طوفان نے 33 افراد کو موت کے منہ میں پہنچایا۔ مقامی افراد گھر، بجلی، پانی سب سے محروم ہوچکے ہیں۔

    اس کے بعد یہ ڈومنیکا کے قریب دوسرے جزیرے پورٹو ریکو پہنچا۔ گو کہ یہاں سے اس طوفان کو گزرے ایک ہفتہ ہوچکا ہے تاہم یہاں کے لوگ تاحال امدادی کاموں کے منتظر ہیں۔

    جزیرے میں 16 لاکھ افراد بجلی سے تاحال محروم ہیں جبکہ 16 افراد اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

     بعد ازاں یہ ورجن آئی لینڈز کی جانب بڑھا۔ یہاں تاحال 48 ہزار افراد بجلی سے محروم ہیں جبکہ مذکورہ جزیرے سمیت کیریبیئن کے متعدد جزائر میں تباہی کی عبرت ناک داستان رقم ہوچکی ہے۔

    دونوں دنیاؤں کے طوفانوں میں فرق کیا ہے؟

    دنیا کے 2 مختلف حصوں میں آنے والے دو مختلف نوعیت کے طوفانوں نے مختلف تباہی مچائی۔

    اس بارے میں سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دونوں ادوار میں وائٹ ہاؤس آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے ڈائریکٹر اور صدر اوباما کے ماحولیاتی مشیر پروفیسر جان پی ہولڈرن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیا میں آنے والے سیلاب ٹائی فون تھے جبکہ امریکا کو متاثر کرنے والے طوفان ہریکین تھے۔

    پروفیسر جان پی ہولڈرن فی الحال جان ایف کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ میں ماحولیاتی شعبہ کے پروفیسر ہیں جبکہ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس اینڈ پالیسی ڈیپارٹمنٹ برائے ارتھ اینڈ پلینٹری سائنس شعبہ سے بھی منسلک ہیں۔

    ان کے مطابق بیان کیے گئے ان دونوں طوفانوں کا فرق سمجھنے کے لیے آپ کو زمین کے دو بڑے بحروں کے بارے میں جاننا ہوگا۔

    بحرالکاہل یا پیسیفک اوشین زمین کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر ہے جس کا رقبہ 16 کروڑ 50 لاکھ اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ شمالی اور جنوبی بحر الکاہل کے نام سے جانے جانے والے اس بحر کے کناروں پر ایک طرف ایشیائی ممالک واقع ہیں جبکہ اس کی وسعت کی دوسری جانب امریکی براعظم کے کچھ ممالک بھی موجود ہیں۔

    یہ زمین کے کل رقبے کے 30 فیصد سے زائد حصے پر محیط ہے۔

    دوسری جانب بحر اوقیانوس یا انٹلانٹک اوشین کے بارے میں آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ بحر زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔

    اب بات آتی ہے ہریکین اور ٹائی فون میں کیا فرق ہے۔

    عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق مغربی شمالی اوقیانوس، بحر الکاہل کے مرکزی اور جنوب شمالی حصے، کیریبیئن سمندر اور گلف میکسیکو میں آنے والے طوفان ہریکین کہلاتے ہیں۔

    مغربی شمالی بحر الکاہل کے حصے میں آنے والے طوفان ٹائی فون کہلاتے ہیں۔

    تاہم یاد رہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو سیلاب کا شکار کرنے والا کوئی ٹائی فون یا سمندری طوفان نہیں تھا بلکہ یہ معمول کی مون سون بارشیں تھیں جو شدت اختیار کر گئیں تاہم انہوں نے سمندر کی لہروں کو بھی متاثر کر کے انہیں غیرمعمولی بنا دیا۔

    اس بارے میں اسلام آباد میں مقیم کلائمٹ چینج ایکسپرٹ عارف رحمٰن کہتے ہیں کہ یہ موازنہ کرنا غلط ہوگا کہ دونوں میں کون سا زیادہ شدید ہے۔

    ہاشو فاؤنڈیشن سے بطور سینئر پروگرام مینیجر برائے کلائمٹ چینج منسلک عارف رحمٰن کا کہنا تھا کہ بظاہر دیکھا جائے تو ٹائی فون ہریکین سے زیادہ شدید ہوتے ہیں تاہم اگر ہریکین اپنی پوری شدت پر ہوں تو ٹائی فون سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں جیسا کہ حالیہ امریکی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔

    ان کے مطابق ایک اور فرق ٹائی فون کی درجہ بندی نہ ہونا ہے۔ جبکہ ہریکین کی درجہ بندی ہوتی ہے اور اس درجہ بندی کے حساب سے وہ شدت اختیار کرتا ہے۔ مختلف عوامل جیسے ہوا کا دباؤ، مذکورہ علاقے پر پڑنے والے موسمیاتی تغیرات اور مذکورہ علاقے کی زمین کی نوعیت بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو طوفان کی شدت کا تعین کرتے ہیں۔

    ہریکین کی درجہ بندی

    اب ہم آتے ہیں ہریکین کی درجہ بندی کی طرف جس سے آپ کو علم ہوگا کہ کون سا درجہ کتنا شدید ہے۔

    درجہ 1: کیٹگری 1 کے ہریکین میں ہوا کی رفتار 119 سے 153 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جب ہوا کی رفتار 119 کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز کر جائے تویہ طوفان ہے جو کہیں ٹائی فون اور کہیں ہریکین کا سبب بنتا ہے۔

    یہ کچھ حد تک نقصان پہنچاتا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی میں تعطل کا سبب بنتا ہے۔

    درجہ 2: اس درجے میں ہوا کی رفتار 154 سے 177 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور یہ شدید نقصان کا سبب بنتا ہے۔

    درجہ 3: ہوا کی رفتار 178 سے 208 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جو پختہ تعمیر کیے گئے مکانات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

    درجہ 4: ہوا کی رفتار 209 سے 251 کلومیٹر فی گھنٹہ جو زمین میں مضبوطی سے گڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔

    درجہ 5: ہوا کی رفتار 252 کلو میٹر فی گھنٹہ یا اس سے زائد، یہ طوفان کی شدید ترین قسم ہے جو عمارتوں کو تباہ کردیتی ہے اور اس کے آخر میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

    طوفان کے راستے کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟

    پروفیسر جان پی ہولڈرن کے مطابق جب طوفان شروع ہوتا ہے تو اس پر پڑنے والے دباؤ جسے کوریولس فورس کہا جاتا ہے اس کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔

    یہ فورس طوفان کو دائیں یا بائیں طرف گھمانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی کی بنیاد پر تعین کیا جاتا ہے کہ آنے والا طوفان کن مقامات پر کتنی شدت سے آئے گا۔

    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    امریکی میڈیا کے مطابق گزشتہ برس جب دنیا صدر ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہمات میں مگن تھی اس وقت سائنس دان مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ شدید نوعیت کے طوفان امریکا کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ ان طوفانوں کی شدت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ ان طوفانوں میں اتنی شدت آ کیوں رہی ہے؟

    اس بارے میں اے آر وائی نیوز نے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے زمینی و آبی سائنس (ارتھ اینڈ میرین سائنسز) شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک سے رابطہ کیا تو انہوں نے ساری صورتحال کو ایک جملے میں سمود یا۔

    ان کا کہنا تھا، ’سمندروں میں آنے والا گرم پانی (جو مختلف دریاؤں سے آتا ہے) سمندر کے پانی کو گرم کرتا ہے، جس سے پانی مزید تیزی سے بخارات بن کر بادلوں اور پھر بارشوں کو تخلیق کرتا ہے‘۔

    ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک کے مطابق سمندروں کا گرم درجہ حرارت پہلے سے موجود طوفانوں کو تقویت دیتا ہے، نئے طوفان پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، اور یہ طوفان بارشوں کا سبب بنتے ہیں جو بڑے پیمانے پر سیلاب اور جانی و معاشی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک براہ راست تعلق نہیں، بلکہ بالواسطہ تعلق ہے، یعنی کہ کوئی شے کسی سے جڑی ہے اور وہ مزید کسی شے سے جڑی ہے، لیکن اس کا بنیادی سبب ہےعالمی درجہ حرات میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ۔

    یہ بات قطعاً سمجھنا مشکل نہیں کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے نہ صرف خود سمندر کا پانی گرم ہورہا ہے، بلکہ مختلف دریاؤں کا گرم ہونے والا پانی بھی سمندر میں آکر مل جاتا ہے یوں یہ عمل عظیم تباہیوں کا سبب بنتا ہے۔

    اس بات کی مزید وضاحت پروفیسر جان پی ہولڈرن نے کی۔

    پروفیسر ہولڈرن کے مطابق یہ تاریخی تباہ کن آندھیاں یا طوفان کوئی اتفاقیہ یا اچانک نہیں ہیں۔ ’ہم انسان جس قسم کی ترقی کر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے اور سائنس و ماحولیات کے ماہرین نہ صرف یہ بات جانتے ہیں بلکہ چیخ چیخ کر دنیا کو خبردار بھی کر رہے ہیں‘۔

    انہوں نے بھی یہی بات دہرائی کہ اس قسم کے طوفان اور آندھیاں گرم پانیوں کی وجہ سے طاقت پارہے ہیں اور یہ گلوبل وارمنگ ہے جس کی وجہ سے سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جب گرم پانیوں کے بخارات اوپر اٹھتے ہیں تو یہ گرم ہواؤں کا سبب بھی بنتے ہیں جو سطح سمندر کو مزید گرم کرتے ہیں اور اس مقام پر ہوا کا دباؤ کم کرتے ہیں۔

    اب یہ سب کچھ سمندر کے اندر ہو رہا ہے جو پانی کو زور آور بنا رہا ہے جو طوفان کی شکل میں کسی نہ کسی دن باہر نکلے گا اور یہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ گرم ہوائیں اور گرم پانی سمندر کی جتنی گہرائی تک جائیں گی یہ ٹھنڈے پانی کی مقدار کو اتنا ہی کم کرتی جائیں گی نتیجتاً ہمارے پاس سمندر کی گہرائی میں بھی گرم پانی موجود ہوگا۔

    انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گو کہ ان طوفانوں اور ان کے بننے کی دیگر کئی وجوہات ہیں تاہم بنیادی وجہ گلوبل وارمنگ ہے جو فضا اور سمندروں کو گرم کر رہی ہے۔ گرم پانی ہی سمندری طوفانوں اور آندھیوں کو جنم دیتے ہیں۔

    جنوبی ایشیا میں صورتحال پر کیسے قابو پایا گیا؟

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف ایشیائی ماہرین سے بھی گفتگو کی اور سیلاب کے بعد امدادی کارروائیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔

    بھارت میں مقیم سماجی کارکن راکھی سوریا پرکاش اپنی قائم کردہ تنظیم سن شائن ملینیئم کے ذریعے بھارت میں ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کرتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس جب بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنئی میں سیلاب آیا تھا تو اس کے کچھ عرصے بعد ایک کانفرنس میں سابق بھارتی وزیر ماحولیات پرکاش جاویدکر نے متنبہ کردیا تھا کہ آنے والے برسوں میں مزید شدید سیلابوں اور طوفانوں کا خطرہ ہے۔

    راکھی کے مطابق اس ضمن میں مودی سرکار ماحولیاتی و موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہے اور ملک بھر میں شجر کاری مہمات اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کر رہی ہے۔

    چند روز قبل ہی بھارت نے سنہ 2030 تک اپنے تمام جدید ذرائع آمد و رفت بجلی کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فاسل فیولز یعنی پیٹرول اور ڈیزل کی لعنت سے چھٹکارہ پا کر فضائی آلودگی میں کمی کی جاسکے۔

    انہوں نے بتایا کہ گو کہ ارلی وارننگ سسٹم کے تحت قبل از وقت پیشن گوئی جاری کردی گئی تھی اور امدادی ٹیمیں ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں میں موجود تھیں تاہم نقصان ان کی توقعات سے کہیں زیادہ تھا۔

    اس کے بعد اے آر وائی نیوز نے نیپال میں مقیم بنود پارا جولی سے خصوصی گفتگو کی۔ بنود ایک محقق ہیں اور ہائی اویئر پروجیکٹ کے تحت ہمالیہ اور اس کے پانیوں پر مختلف تحقیق سر انجام دے رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ نیپال کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ مہندرا ہائی وے کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا ہے۔

    ان کے مطابق چاول کی فصل نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے اور ان کے بہہ جانے کے بعد اب ایک غذائی بحران منہ کھولے نیپال کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    بنود کے مطابق قبل از وقت پیشن گوئیاں جاری کردیے جانے کے باوجود حکام نے سستی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ’یہ ہم جنوبی ایشیائی شہریوں کا المیہ بن چکا ہے‘۔

    بنگلہ دیش سے شائلہ محمود نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔ شائلہ محمود انٹرنیشنل سینٹر فار کلائمٹ چینج اینڈ ڈویلپمنٹ سے منسلک ہیں جبکہ وہ اس سے قبل اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے ساتھ بھی کام کر چکی ہیں۔

    شائلہ کے مطابق بنگلہ دیش کے شمالی اور مشرقی حصوں میں سیلاب نے بہت سے نواحی گاؤں دیہاتوں کو متاثر کیا ہے جہاں بدقسمتی سے تاحال امداد نہیں پہنچائی جاسکی۔

    تاہم قابل رسائی علاقوں میں حکومتی طور پر یا نجی سطح پر جس طرح بھی ممکن تھا امداد پہنچائی گئی، اس ضمن میں مقامی افراد نے بھی بے حد تعاون کیا اور اپنے سیلاب متاثرین ہم وطنوں کی ہر ممکن مدد کی۔

    انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش پیرس معاہدے کا بھی دستخط کنندہ ہے اور اس ضمن میں مختلف ماحول دوست منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔


    مذکورہ بالا تمام صورتحال اور تجزیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہنا بے حد آسان ہے، اور ماہرین بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری زمین اور دنیا کو دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے، اور اگر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ہم نے دفاعی ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے تو ’ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘۔


    اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل اداروں و شخصیات سے مدد لی گئی۔

    Center for Research on the Epidemiology of Disasters

    National Hurricane Center – USA

    National Oceanic and Atmospheric Administration – USA

    World Meteorological Organization

    Australian National University


    Mr. John P. Holdren

    Teresa and John Heinz Professor of Environmental Policy

    John F. Kennedy School of Government & Professor of Environmental Science and Policy Department of Earth and Planetary Sciences, Harvard University

    Formerly Science Advisor to President Obama and Director, White House Office of Science and Technology Policy (January 2009 – January 2017)

    Dr. Bradley Opdyke

    Department of Earth and Marine Sciences, Australian National University

    Raakhee Suryaprakash

    Sunshine Millennium – India

    Binod Parajuli

    Researcher at HI-AWARE – Nepal

    Shaila Mahmud

    Research Officer at International Centre for Climate Change & Development (ICCCAD) – Bangladesh

    Mr. Arif Rahman 

    Senior Program Manager Climate Change at Hashoo Foundation – Pakistan

    Mr. Nadeem Ahmed

    Policy Manager at Water Aid – Pakistan

  • جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    ذرا اس تصویر کو غور سے دیکھیئے۔

    یہ آپ کو کون سا جانور لگتا ہے؟ شاید اسے کوئی بیماری ہے، بیمار سا لگ رہا ہے، آنکھوں میں بھی بے بسی کے تاثرات ہیں۔

    یہ جانور برفانی لومڑی یا آرکٹک فاکس کہلاتا ہے۔ کیا آپ اس کی اصل تصاویر دیکھنا چاہیں گے؟ ذرا دیکھیئے۔

    اور اب اس بیمار لومڑی کی مکمل حالت ملاحظہ فرمائیں۔

    کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معصوم اور بے ضرر جانور کی یہ حالت کس نے اور کیوں کی؟ یقیناً جاننا چاہیں گے۔

    دعا دیجیئے ہماری جدید ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم کو، جس نے حضرت انسان کو اپنے فائدے کے لیے جانوروں پر ظلم کے ایسے ایسے طریقے دریافت کروا دیے، کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

    دراصل اس لومڑی میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جینیاتی تبدیلیاں کردی گئی ہیں، چنانچہ اس کے جسم پر موجود فر میں اضافہ ہوگیا جو عمر کے ساتھ ساتھ مزید جاری ہے۔

    اس اضافی فر نے ایک طرف تو اس جانور کو بد ہیئت بنا دیا، دوسری جانب اسے بے انتہا جسمانی تکلیف میں بھی مبتلا کردیا۔ غیر فطری تبدیلیوں سے گزرنے والی حیات یقیناً کسی صورت صحت مند نہیں رہ سکتی۔

    یہ کام یورپی ملک فن لینڈ میں سر انجام دیا گیا جہاں اس نرم فر کی خرید و فروخت نہایت منافع بخش صنعت ہے اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    جانوروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے چھپ کر ان کی ویڈیو بنائی جس کے بعد یہ لرزہ خیز ظلم سامنے آیا۔

    فن لینڈ یورپ میں فر کا سب سے بڑا پیداوار کنندہ ہے اور سنہ 2014 میں اس فر کے حصول کے لیے 18 لاکھ سے زائد لومڑیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

    گو کہ مختلف ممالک میں مختلف تنظیمیں فر کی مصنوعات خصوصاً لباسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان خوبصورت لومڑیوں کا قتل عام رکوانے کی کوششیں کر رہی ہیں، تاہم یورپ کے کئی ممالک میں یہ کام قانونی یا غیر قانونی طور پر جاری ہے۔

    برطانیہ میں سنہ 2010 میں ان لومڑیوں کی اس ظالمانہ فارمنگ پر پابندی عائد کردی گئی، تاہم بیرون ملک سے فر کی درآمد تاحال جاری ہے۔

    تنظیم کے مطابق ایک عام آرکٹک لومڑی جو 3 سے 4 کلو وزنی ہوتی ہے، جینیاتی تبدیلی کے بعد اضافی فر کی وجہ سے 20 کلو وزنی ہوجاتی ہے۔

    یہ لومڑی اس قدر وزن اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی، چنانچہ اسے سانس لینے اور دیکھنے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے نازک پاؤں بھی اس کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوجاتے ہیں جس کے باعث یہ بہت کم اپنی جگہ سے حرکت کر پاتی ہے۔

    جینیاتی تبدیلیوں کرنے کے بعد لومڑی کی 3 سال تک اذیت ناک پرورش کرنے کے بعد بجلی کے کرنٹ کے ذریعے اس کے منہ یا بڑی آنت کے نچلے حصے (جہاں سے فضلے کا اخراج ہوتا ہے) سے ایک ہی جھٹکے میں سارا فر کھینچ لیا جاتا ہے تاکہ فر بے داغ رہے اور اس پر کوئی خراش نہ آئے۔

    اس لرزہ خیز اور درد ناک ظلم کی داستان سننے کے بعد کیا آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرمندگی تو محسوس نہیں ہو رہی؟

    تصاویر بشکریہ: ڈیلی میل

  • کراچی میں سیلاب کا خطرہ، بچاؤ کیسے ممکن؟

    کراچی میں سیلاب کا خطرہ، بچاؤ کیسے ممکن؟

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں محکمہ موسمیات نے موسلا دھار بارشوں کے سبب اربن فلڈ کے خطرے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات نے آئندہ 2 روز میں ہونے والی بارشوں کے پیش نظر اربن فلڈ (شہری سیلاب) کا خدشہ ظاہر کردیا۔

    مزید پڑھیں: کراچی میں اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    اربن فلڈ کیا ہے؟

    عام سیلاب اور شہری سیلاب (اربن فلڈ) میں کیا فرق ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر ماحولیات رفیع الحق نے بتایا کہ عام سیلاب اس وقت آتا ہے جب کسی دریا یا نالے کے کنارے بھر جائیں، پانی ابل پڑے اور آس پاس کی آبادیاں زیر آب آجائیں۔ یہ ایک قدرتی عمل اور قدرتی آفت ہے۔

    تاہم ان کے مطابق اربن فلڈ ناقص شہری منصوبہ بندی کے باعث رونما ہوتا ہے اور یہ سراسر انسانی ہاتھوں کی کارستانی ہے۔

    انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا، ’جہاں کہیں سڑکوں پر نشیب واقع تھا اور پانی بہہ کر ایک طرف ہو جاتا تھا، وہاں کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی یا اسپیڈ بریکر بنا دیا گیا جس کے باعث پانی کی آمد و رفت رک گئی۔ اب جب اس جگہ پر بے تحاشہ پانی کھڑا ہوجائے گا تو وہ مقام زیر آب آجائے گا‘۔

    انہوں نے کہا کہ پورے شہر میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے پھیلاؤ جاری ہے، کہیں نہر ہے، نالہ ہے یا دریا ہے وہاں گھر بنا کر پانی کا بہاؤ روک دیا گیا۔ ’پورا شہر کچرے سے اٹا ہوا ہے، نکاسی آب کے ذرائع کچرے سے بھرے پڑے ہیں، ایسی صورت میں پانی جمع ہو کر شہر میں سیلاب ہی لاسکتا ہے‘۔

    کراچی کا گجر نالہ

    رفیع الحق نے بتایا کہ اربن فلڈ آنے کی ایک وجہ درختوں کا نہ ہونا بھی ہے کیونکہ درخت کسی مقام کی مٹی کو تھام کر رکھتے ہیں یوں زمین کے اوپر کوئی بڑا نقصان نہیں ہونے پاتا، ’لیکن ہم نے درختوں کو بھی کاٹ دیا، پورا شہر عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے‘۔

    مستقبل کو مدنظر رکھنا ضروری

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اب بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’بظاہر سعودی دارالحکومت ریاض بہت منصوبہ بندی سے بنایا ہوا شہر ہے لیکن جب وہاں غیر معمولی بارشیں ہوئیں تو شہر میں سیلاب آگیا اور پورا شہر زیر آب آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سائنسی بنیادوں پر طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ان کے خیال میں کم بارشیں ساری زندگی ہوتی رہیں گی‘۔

    انہوں نے کہا کہ ’پہلے کراچی میں بارش کی چھینٹ پڑنے کی دیر تھی کہ اسکول اور دفاتر میں چھٹیاں ہوجایا کرتی تھیں اور لوگ خوشی خوشی بارش کا لطف اٹھانے سڑکوں پر نکل آیا کرتے تھے، لیکن اب یہ حال ہے کہ بارشیں ہوتے ہی ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی خبریں سامنے آتی ہیں‘۔

    انہوں نے ایک بار پھر موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر وقت ہر قسم کے حالات سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صحرا میں برف باری ہو یا خشک ترین شہروں میں بارشوں اور سیلابوں کا آنا، اب ہر جگہ کے لوگوں کو، ہر قسم کے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

    تحفظ کیسے ممکن ہے؟

    رفیع الحق نے ارلی وارننگ یعنی قبل از وقت انتباہ کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اسی صورت میں فائدہ مند ہوسکتی ہیں جب ان پر عمل کر کے آنے والے وقت سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں بارش شروع ہونے سے قبل ہنگامی بنیادوں پر کسی حد تک صفائی کر کے نکاسی آب کے راستوں کو بحال کردیا جائے تو آنے والے سیلاب کا خدشہ خاصی حد تک کم ہوجائے گا۔

    یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں میں بھی بارش کی پیشگوئی کی ہے۔ بدھ سے جمعہ تک ٹھٹہ، بدین، سجاول، مٹھی، تھر پارکر اور نواب شاہ میں بھی بارش کا امکان ہے۔

  • کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوا بظاہر ایک سست مگر ہمارے ماحول کے لیے نہایت فائدہ مند جانور ہے۔ اس کی حیثیت پانی میں ویسی ہی ہے، جیسے خشکی میں گدھ کی ہے، جسے فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے۔

    گدھ دراصل جابجا پھینکے جانے والے مردہ اجسام (جانور، انسان) کو کھا جاتا ہے جس کے باعث ان اجسام سے تغفن پھیلنے یا خطرناک بیماریاں پھوٹنے کا خدشہ نہیں رہتا۔

    یہی کام کچھوا پانی کے اندر کرتا ہے۔ یہ پانی کے اندر مضر اشیا اور جراثیم کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔

    سندھ وائلڈ لائف میں کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان کے مطابق کراچی میں کچھ عرصہ قبل عفریت کی طرح پھیلنے والا نیگلیریا وائرس دراصل ان کچھوؤں کی عدم موجودگی کے باعث ہی پھیل سکا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ

    ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک کچھوؤں کی تعداد میں بے تحاشہ کمی واقع ہوگئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب پانی میں نیگلیریا وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ تاہم کچھوؤں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد ان کی آبادی مستحکم ہوگئی۔

    کچھوے کی اسی خصویت کے باعث اسے چاول کی کھڑی فصلوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے جب فصلوں میں کئی فٹ تک پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کے مختلف کیڑے یا جراثیم فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاہم کچھوے کی موجودگی ان کیڑوں یا جراثیموں کو طاقتور ہونے سے باز رکھتی ہے۔

    کچھوا ہمارے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حیران کن جانور بھی ہے۔ آج ہم آپ کو اس کی زندگی کے متعلق ایسے ہی کچھ حقائق بتانے جارہے ہیں جو آپ کے لیے معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہیں۔

    زمین کے قدیم جانوروں میں سے ایک

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    طویل العمر جاندار

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے ٹونگا جزیرے میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔

    پیٹ پر خول

    کچھوا اپنی پشت پر سخت خول کی وجہ سے مشہور اور منفرد سمجھا جاتا ہے، لیکن شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ ایک خول کچھوے کے پیٹ پر بھی موجود ہوتا ہے جو پلاسٹرون کہلاتا ہے۔

    کچھوے کے دونوں خول بے شمار ہڈیوں سے مل کر بنتے ہیں۔

    تمام براعظموں پر پایا جانے والا جانور

    کچھوے دنیا کے تمام براعظموں پر پائے جاتے ہیں سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    گو کہ کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

    انڈے دینے کا عمل

    تمام کچھوے بشمول سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں۔

    انڈے دینے کے لیے مادہ کچھوا جب ریت پر آتی ہے تو سب سے پہلے ریت میں گڑھا کھودتی ہے۔ اس عمل میں اسے لگ بھگ 1 گھنٹہ لگتا ہے۔ گڑھا کھودنے کے بعد وہ اندر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔

    مادہ کچھوا ایک وقت میں سے 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ گڑھے کو ریت یا دوسری اشیا سے ڈھانپ کر غیر نمایاں کردیتی ہے تاکہ انڈے انسانوں یا جانوروں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔

    انڈے دینے کے بعد مادہ کچھوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی۔ بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے اور اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

    سمندری کچھوے چونکہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اندازاً 100 میں سے 1 یا 2 سمندری کچھوے ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔

    اس کے برعکس خشکی پر رہنے والے کچھوؤں میں زندگی کا امکان اور زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

    جائے پیدائش کی طرف واپسی

    یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔

    آپ کو ایک اور دلچسپ بات سے آگاہ کرتے چلیں۔ کراچی کے ساحل پر سندھ وائلڈ لائف اور ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف، جو کچھوؤں کے تحفظ کے لیے قابل تعریف اقدامات کر رہے ہیں، ننھے کچھوؤں کے سمندر میں جانے کے دوران علاقے کو روشنیوں سے نہلا دیتے ہیں۔

    یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ رات کے وقت سمندر میں جانے والے ننھے کچھوے تیز روشنی میں اس علاقے کو اچھی طرح دیکھ لیں اور وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجائے۔ بعد میں مادہ کچھوؤں کو انڈے دینے کے لیے اپنی جائے پیدائش کی طرف لوٹتے ہوئے بھٹکنے، یا بھولنے کا خطرہ نہ رہے۔

    افزائش نسل کی انوکھی خصوصیت

    مادہ کچھوا نر کچھوے سے ملاپ کے کافی عرصے بعد بھی انڈے دے سکتی ہے۔ یہ اسپرمز کو اپنے جسم کے مخصوص حصوں میں کئی سالوں تک محفوظ رکھ سکتی ہے اور حالات موافق ہونے کے بعد انڈے دے سکتی ہے۔

    موسم جنس کی تعین کا ذمہ دار

    کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔

    اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔

    یہ انوکھی خصوصیت کچھوؤں کے علاوہ کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتی۔

    ننھے کچھوؤں پر پروٹین کا خول

    کیا آپ جانتے ہیں، ماں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ننھے کچھوے اپنی غذائی ضروریات کیسے پوری کرتے ہیں؟ قدرت نے ان معصوموں کے لیے غذا کا نہایت بہترین انتظام کر رکھا ہے۔

    پیدائش کے وقت ننھے کچھوؤں کی پیٹھ پر جو خول موجود ہوتا ہے وہ پروٹین سمیت مختلف غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے پروٹین اسپاٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کچھوؤں کو غذا فراہم کرتا ہے۔

    جیسے جیسے کچھوے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے خول کی ساخت مختلف ہوتی جاتی ہے۔ کچھوؤں کے اپنی غذا خود تلاش کرنے کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ خول صرف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دینے لگتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    میٹھے پانی کے شوقین

    کچھوے اپنے پیئے جانے والے پانی کو قدرتی طریقے سے میٹھا بنا دیتے ہیں۔

    دراصل سمندری کچھوؤں کے گلے میں خصوصی قسم کے غدود موجود ہوتے ہیں جو اس پانی سے نمک کو علیحدہ کردیتے ہیں، جو کچھوے پیتے ہیں۔

    حساس ترین جانور

    کچھوؤں کی دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت نہایت تیز ہوتی ہے۔ ان کی لمس کو محسوس کرنے اور سننے کی صلاحیت بھی اول الذکر دونوں صلاحیتوں سے کم، تاہم بہترین ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ گہرے رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی مقاصد یا تحفظ کے اقدامات کے سلسلے میں کچھوؤں پر گہرے رنگوں سے نشانات لگائے جاتے ہیں۔

    بقا کی جدوجہد میں مصروف

    بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔

    کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔

  • کراچی میں اچانک اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    کراچی میں اچانک اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    گزشتہ چند سالوں سے کراچی میں بارشوں کے نہ ہونے یا بہت کم ہونے کے بعد اب یکایک کراچی میں بہت زیادہ بارشیں ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ سال موسم سرما کے بعد اب رواں سال بھی معمول سے زیادہ بارش ہوئی۔

    ان بارشوں نے ایک طرف تو کراچی والوں کو خوشی سے نہال کردیا دوسری جانب یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ شاید اب کراچی کا موسم معمول پر آرہا ہے اور اب کراچی میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بارشیں ہوں گی۔

    لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔

    کراچی کے موسم میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ جاننے کے لیے اے آر وائی نیوز نے سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم سے رابطہ کیا اور انہوں نے اس کی جو وجوہات بتائیں وہ زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔

    کلائمٹ چینج سب سے بڑی وجہ

    سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم کے مطابق موسم میں اس اچانک تبدیلی کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو موسمیاتی تغیرات کلائمٹ چینج ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں کلائمٹ چینج بہت تیزی سے واقع ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے ہرخطے کا موسم غیر متوقع طور پر تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    توصیف عالم کے مطابق، ’کلائمٹ چینج نے دنیا بھر کے موسم کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ صحراؤں میں برف باری اور بارشیں ہورہی ہیں، شدید سرد علاقوں میں گرمی پڑنے لگی ہے۔ جو علاقے گرم ہوتے تھے وہاں بھی اب ناقابل برداشت سردی پڑتی ہے۔ یہ سب کلائمٹ چینج کی کرامات ہیں‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیز رفتار ترقی نے فطرت کو تبدیل کردیا ہے جس کے نتائج اب غیر متوقع موسموں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    موسم کی پیش گوئی دشوار

    توصیف عالم کے مطابق کلائمٹ چینج نے اب دنیا بھر کے موسم کو بالکل غیر متوقع، ناقابل بھروسہ اور ناقابل پیشن گوئی بنا دیا ہے۔ ’اب یہ ناممکن ہے کہ آپ قطعیت کے ساتھ کہہ دیں کہ اگلے برس اس شہر میں ایسا موسم ہوگا، بارشیں ہوں گی یا نہیں، اور آئندہ آنے والے چند برسوں کے موسم کی پیشن گوئی کرنا تو بالکل ناممکن ہے‘۔

    یہی صورتحال کراچی کے موسم کی ہے۔ کراچی میں بارشوں کا سلسلہ اب باقاعدہ طور پر جاری رہے گا یا نہیں، اس بارے میں بھی ماہرین اندھیرے میں ہیں۔ ’کچھ کہہ نہیں سکتے کہ آیا اگلے برس بھی ایسی ہی بارشیں ہوں گی یا نہیں۔ ہوسکتا ہے اگلے برس اس سے زیادہ بارشیں ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل بارش نہ ہو‘۔

    ان کے مطابق یہ صورتحال صرف کراچی پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے موسم پر لاگو ہوتی ہے۔

    ایل نینو کا اثر

    توصیف عالم کے مطابق بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی کی ایک وجہ ایل نینو بھی ہے۔

    ایل نینو بحر الکاہل (پیسیفک) کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث بحر الکاہل میں پانی غیر معمولی طور پر گرم ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط، خشک سالیوں اور سیلاب کا سبب بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ایل نینو کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ایل نینو دنیا بھر کے موسم پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے مون سون کے سائیکل بھی متاثر ہوتے ہیں۔

    سب سے زیادہ بارشیں کہاں ہوتی ہیں؟

    ایک عام خیال ہے (جو پاکستان میں ابھی تک سائنس کی کتابوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے) کہ سب سے زیادہ بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اوپر جاتا ہے، وہ بخارات بادل بنتے ہیں پھر وہی بادل بارش برساتے ہیں۔

    لیکن ماہرین اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سمندر سے بادل بننے تک کا عمل تو درست ہے، لیکن یہ بادل بارش برسانے جیسے نہیں ہوتے۔ یہ زیادہ اونچائی تک نہیں جاسکتے علاوہ ازیں سمندری ہوا کی وجہ سے یہ بکھر بھی جاتے ہیں لہٰذا یہ بارش برسانے کے قابل نہیں ہوتے۔

    اس بارے میں توصیف عالم کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ بارشیں پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے ہوا اوپر (پہاڑ) کی طرف جاتی ہے ویسے ویسے ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔

    ان کے مطابق دنیا بھر کے پہاڑوں اور بلندی پر موجود علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

    اس کے بعد زیادہ بارشیں جنگلات والے علاقوں میں ہوتی ہیں۔ کسی علاقے میں موجود جنگل اور ہریالی بارش لانے کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے برساتی جنگلات (رین فاریسٹ) میں بے تحاشہ بارشیں ہوتی ہیں جن میں سرفہرست برازیل کے امیزون کے جنگلات ہیں۔

    امیزون کے جنگلات دنیا بھر کے برساتی جنگلات کا ایک تہائی حصہ ہیں اور یہاں سالانہ 15 سو سے 3 ہزار ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں۔

    سب سے کم بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں جن میں کراچی بھی شامل ہے۔

    فطرت کی رفو گری

    کراچی کی حالیہ بارشوں سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موسم کے درست ہونے کا یہ عمل قدرتی ہے۔ گویا فطرت اپنے آپ کو درست کر رہی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

    اس بارے میں ماہر ماحولیات شبینہ فراز کہتی ہیں، ’فطرت کا اپنے آپ کو رفو کرنا قابل فہم بات تو ہے، لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں۔ اول تو یہ کہ ہم جس قدر تباہی و بربادی پھیلا چکے ہیں اس حساب سے اگر فطرت اپنے آپ کو درست کر بھی رہی ہے تو اس کی شرح بہت کم ہے جسے ہم صفر اعشاریہ چند فیصد کہہ سکتے ہیں‘۔

    ان کے مطابق، ’یہ درستی اگر ہو بھی رہی ہے تو قابل مشاہدہ نہیں ہے کیونکہ جس وقت فطرت اپنے آپ کو رفو کرتی ہے، ہم اس سے اگلے ہی لمحے دوگنی چوگنی خرابی پیدا کردیتے ہیں‘۔

    شبینہ فراز کا کہنا ہے، ’جب زمین پر رہنے والے جاندار بہت زیادہ تباہی مچادیں تو فطرت اپنی اصل کی طرف پلٹنے کے لیے ایک خوفناک سرجری کے عمل سے گزرتی ہے اور اب بھی ایسا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے سب کچھ ٹھیک ہونے سے قبل بے شمار طوفان آئیں، سمندر کناروں سے باہر نکل کر ہر شے کو تباہ کردے، ہر وہ شے جو فطرت کو نقصان پہنچا رہی ہے تباہ ہوجائے، اس کے بعد فطرت اپنی اصل حالت پر تو واپس آجائے گی، درخت بھی ہوں گے، موسم بھی ٹھیک ہوگا، اور سمندر بھی اپنی حدوں میں ہوگا لیکن پھر انسان کہیں نہیں ہوگا‘۔

    ماہرین کے مطابق کراچی سمیت پورے ملک کا موسم اب ایسے ہی ناقابل پیشن گوئی رہے گا اور اس سے نمٹنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ہر لمحہ ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔

  • مزاح کے عالمی دن پر مزاحیہ اردو ادب سے چند شہ پارے

    مزاح کے عالمی دن پر مزاحیہ اردو ادب سے چند شہ پارے

    آج دنیا بھر میں مزاح کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ آج کا دن زندگی کی پریشان کن مصروفیات میں سے کچھ لمحے نکال کر ایک دوسرے سے خوشگوار باتیں کرنے اور ہنسنے سے منسوب ہے۔

    ہمارا اردو ادب نہایت زرخیز ہے جس میں ہر موضوع کے مصنف و شاعر موجود ہیں۔ اسی طرح اردو ادب میں مزاح کی بھی کوئی کمی نہیں۔

    اردو زبان کے وجود میں آںے سے لے کر اب تک بے شمار مصنفوں و شاعروں نے مزاح لکھا جنہیں پڑھنے کے لیے آج کے دن سے بہتر موقع اور کوئی نہیں۔

    تو پھر آئیں مزاح کے عالمی دن پر اردو میں لکھے گئے مزاح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    مشتاق احمد یوسفی

    مشتاق احمد یوسفی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ معروف مصنف ابن انشا نے، جو بذات خود ایک بڑے مزاح نگار ہیں، ان کے بارے میں کہا تھا، ’ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘۔

    یوں تو یوسفی صاحب کا لکھا گیا ہر جملہ ہی باغ و بہار ہے، ان میں سے کچھ ہم نے آپ کے لیے منتخب کیے ہیں۔

    انسان کتنا ہی ہفت زبان کیوں نہ ہو جائے، گالی، گنتی، گانا اور گندا لطیفہ اپنی زبان میں ہی لطف دیتا ہے۔

    بڑھیا سگرٹ پیتے ہی ہرشخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔

    دنیا میں جتنی لذیذ چیزیں ہیں ان میں سے آدھی تو مولوی حضرات نے حرام کردی ہیں، اور بقیہ آدھی ڈاکٹر صاحبان نے۔

    مونگ پھلی اور آوارگی میں یہ خرابی ہے کہ آدمی ایک دفعہ شرع کرے تو سمجھ نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے۔

    مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

    پطرس بخاری

    پطرس بخاری کا مضمون ’ہاسٹل میں پڑنا‘، اور ’سائیکل کی سواری‘ ہم سب ہی نے اپنی نصابی کتب میں پڑھ رکھا ہے۔

    اپنی کتاب مضامین پطرس کے دیباچہ میں وہ لکھتے ہیں۔

    اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے، اب بہتر یہ ہے کہ آپ اسے اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔

    اپنے مضمون سویرے جو کل آنکھ میری کھلی میں اپنے پڑوسی کے لیے، جنہیں خود پطرس نے اپنے آپ کو جگانے کے کام پر معمور کر رکھا ہے، لکھتے ہیں۔

    یہ سوتوں کو جگا رہے ہیں یا مردوں کو اٹھا رہے ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی تو واجبی طور پر ہلکی سی قم کہہ دیا کرتے ہوں گے۔ زندہ ہوگیا تو ہوگیا نہیں تو چھوڑ دیا، کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کر تھوڑی پڑجایا کرتے تھے، توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے۔

    اپنے پہلی بار سینما جانے کا احوال وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

    تھوڑی دیر بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگے، جہاں ذرا تاریک سا دھبہ دکھائی دے جائے وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہوگی۔ خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں اس کے پاؤں کو پھاند، اس کے ٹخنوں کو ٹکرا، خواتین کے گھٹنوں سے دامن بچا آخر کار کسی کی گود میں جا بیٹھتا ہوں۔ وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی وجہ سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں۔

    شوکت تھانوی

    شوکت تھانوی کی شہرہ آفاق تخلیق چاچا چھکن ہے جس کی بیوقوفیوں اور بد حواسیوں نے ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔

    اپنے ایک مضمون میں شوکت تھانوی لکھتے ہیں۔

    جس بیکاری (بے روزگاری) سے ایک دنیا چیخ اٹھتی ہے اس سے ہندوستان کیوں گھبراتا ہے، ہندوستان تو بقول ہمارے خداوندان نعمت کے ایک جاہل، وحشی، غیر مہذب اور کالے آدمیوں کا ملک ہے، یہاں اگر بیکاری ہے تو کیا تعجب۔ جب یورپ ایسے متمدن، تعلیم یافتہ، مہذب اور گورے آدمیوں کے ملک میں یہ حال ہے کہ بے چارے صاحب لوگ ہر طرح ناکام ثابت ہو کر وہاں کے ہر شعبہ ملازمت سے علیحدہ کر دیے گئے ہیں اور ان کی جگہ میم صاحبات براج رہی ہیں۔

    اگر خدانخواستہ ہندوستان میں بھی یہی صورت ہوجاتی کہ اندرون خانہ ایک دم سے بیرون خانہ اور بیرون خانہ ایک دم سے اندرون خانہ ہو کر رہ جاتے تو شاید یہاں کے لوگ ہندوستان کو حوا کی بیٹیوں کے لیے چھوڑ کر یا تو کسی اور دنیا میں چلے جاتے جہاں ابن آدم کی حکومت ہو یا خود کشی کر لیتے۔

    اس لیے کہ یہ انقلاب ہندوستان کے مردوں کے لیے ناقابل برداشت ہے کہ ان کی بیویاں تو کچہری عدالت کریں اور وہ خود گھر داری کریں، بچوں کو کھلائیں، یعنی مرد پیدا ہو کر عورت کے فرائض انجام دیں۔

    اپنے ایک مضمون نے شوکت تھانوی نے قلم سے ازار بند ڈالنے کی اصطلاح بھی تخلیق کی۔

    ابن انشا

    اردو مزاح نگاری میں ایک اہم نام ابن انشا کا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور ان سفر ناموں کو نہایت پر مزاح انداز سے تحریر کیا۔

    ان کی مشہور زمانہ کتاب اردو کی آخری کتاب ہے جس میں ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

    کوئی پوچھتا ہے، الگ ملک کیوں بنایا تھا؟ ہم کہتے ہیں، غلطی ہوئی معاف کیجیئے گا، آئندہ نہیں بنائیں گے۔

    ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

    بھینس دودھ دیتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا۔ لہٰذا باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

    کرنل شفیق الرحمٰن

    اردو مزاح میں ایک اور اہم نام کرنل شفیق الرحمٰن کا ہے جن کے افسانوں کی کتاب حماقتیں نہایت مشہور ہے۔

    اپنے ایک افسانے میں شفیق الرحمٰن لکھتے ہیں۔

    بچوں کا غبارہ اڑ گیا تو وہ یہ دریافت فرما رہے تھے کہ کشش ثقل نے غبارے کو روکا کیوں نہیں؟ کشش ثقل سے ان کا اعتبار اٹھ چلا تھا۔

    ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

    ایک بار ایک بزرگ نے فرمایا، ’جب میں چھوٹا سا تھا تو اس قدر نحیف تھا، اتنا کمزور تھا کہ میرا وزن چار پونڈ تھا۔ مجھے دنیا کی بیماریوں نے گھیرے رکھا‘۔


    مزاحیہ اردو شاعری

    میر تقی میر اور غالب سے لے کر جدید شاعروں نے متفرق معاشرتی موضوعات پر لطیف پیرائے میں چوٹ کرتے ہوئے اپنی شاعری کو مزاح کا رنگ دیا تاہم اردو مزاحیہ شاعری میں سب سے بڑا نام اکبر الہٰ آبادی کا ہے۔

    اکبر الہٰ آبادی

    سرسید کی ترقی پسند تحریک اور ہندوستان میں تبدیلی کی ہواؤں سے بیزار اکبر الہٰ آبادی جا بجا اپنی شاعری کے ذریعے نئے رجحانات پر چوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
    اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
    پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
    کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

    ان کا ایک اور شعر ہے۔

    بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
    لیکن نہ آئے موت تو بوڑھے بھی کیا کریں

    سید ضمیر جعفری

    سید ضمیر جعفری کو اردو مزاحیہ شاعری کا سالار کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں۔

    اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے نجد
    قیس ہے دراصل اک مشہور پٹواری کا نام

    ان کا ایک اور شعر ہے۔

    حضرت اقبال کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا
    اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

    دلاور فگار

    دلاور فگار جدید اردو کے مزاحیہ شاعر ہیں۔ فگار خاصے خود پسند شاعر تھے اور اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں گردانتے تھے۔

    وہ کون ہیں کہ شاعر اعظم کہیں جسے
    میں نے کہا ’جگر‘ تو کہا ڈیڈ ہو چکے
    میں نے کہا کہ ’جوش‘ کہا، قدر کھو چکے

    انور مسعود

    موجودہ دور میں انور مسعود کا نام مزاحیہ شاعری میں سرفہرست ہے جن کے قطعات مختلف اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں۔

    ان کا کئی برس قبل لکھا گیا ایک قطعہ پڑھیں جو بالکل تازہ معلوم ہوتا ہے۔

    چاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہل ہمت
    اب ارادہ ہے کہ وہ جانب مریخ بڑھیں
    ایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیں
    ہم اسی سوچ میں ہیں، عید پڑھیں یا نہ پڑھیں

  • کراچی کا ان دیکھا چہرہ ۔ نواحی علاقوں کی خواتین کی زندگی کیسی ہے؟

    کراچی کا ان دیکھا چہرہ ۔ نواحی علاقوں کی خواتین کی زندگی کیسی ہے؟

    آپ کے خیال میں کراچی کی حد کہاں پر ختم ہوتی ہوگی؟ ٹول پلازہ؟ نیشنل ہائی وے؟ یا پھر حب ریور روڈ پر کراچی اختتام کو پہنچ جاتا ہوگا؟ اگر آپ واقعی ایسا سوچتے ہیں تو چلیں آج آپ کو کراچی کی ایک ایسی حد پر لے چلتے ہیں جس کا آج سے قبل آپ نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔

    اس کے لیے آپ کو کراچی سے باہر نکلنے کے راستے پر سفر کرتے رہنا ہوگا، آپ کے سفر میں سنسان راستے ہوں گے، جہاں آپ کے علاوہ کوئی ذی روح نہ دکھائی دیتا ہوگا، بنجر زمین ہوگی، صحرا ہوگا، پتھریلے اور مٹی کے پہاڑ بھی دکھائی دیں گے، اور ہاں راستے میں آپ کو 1 فٹ لمبی چھپکلیاں بھی ملیں گی جنہیں مقامی زبان میں ’نوریڑو‘ کہا جاتا ہے۔

    اس سفر میں آپ کو لگ بھگ 3 گھنٹے گزر جائیں گے، اور بالاآخر آپ جس جگہ پہنچیں گے، آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ وہ بھی کراچی کا ہی حصہ ہوگا۔

    یہ ایک خاصا ’عجیب و غریب‘ سفر ثابت ہوسکتا ہے، اور اس وقت مزید عجیب ہوجائے گا جب آپ کو علم ہوگا کہ کراچی سے بہت دور آنے کے بعد ایسا صحرا، جہاں کوئی انجان شخص بھٹک جائے تو ساری زندگی بھٹکتا رہے، ایک جیسے پتھریلے راستوں سے کبھی صحیح سمت کا اندازہ نہ لگا سکے، ضلع ملیر کا حصہ ہے۔

    مجھے یقین ہے کہ اس مقام کا علم کراچی کے میئر اور ملیر کے بلدیاتی و صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کو بھی نہ ہوگا۔ جب کسی شے کا اکثریت کو علم نہ ہو، تو وہ گمنام ہوجاتی ہے، اور جدید دنیا سے اس کا تعلق کٹ جاتا ہے۔

    کراچی سے کئی میل دور ۔ ایک اور کراچی

    کراچی کے مرکز سے شروع ہونے والا یہ سفر جب اختتام پذیر ہوتا ہے تو اس سفر کو لگ بھگ 4 گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں۔ راستے کی ویرانی، بنجر پن، صحرا، اور صحرا میں جا بجا بکھرے ببول کے پودوں کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید ہم راستہ بھٹک چکے ہیں۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر واقعی صحیح راستے پر جارہے ہیں، تو وہ کون لوگ ہیں جو دوسری طرف رہتے ہیں اور جنہیں شہر کی سہولیات تک پہنچنے میں ہی گھنٹوں گزر جاتے ہوں گے۔

    یہ سفر کراچی (کے مرکز) سے تقریباً 170 کلومیٹر دور احسان رضا گوٹھ پر اختتام پذیر ہوتا ہے، اور یہاں سے دکھوں، غربت، بے بسی اور لاچاری کا نیا سفر شروع ہوتا ہے۔

    گاؤں کا سربراہ احسان رضا برفت نامی شخص ہے جو پہلی بات کرتے ہی ایک نہایت مہذب، باشعور اور ذہین شخص معلوم ہوتا ہے۔

    چار خانوں والا رومال آدھا کندھے اور آدھا سر پر ڈالے، اور سندھی ٹوپی پہنے یہ شخص نہ صرف اپنے بلکہ آس پاس موجود دیگر گاؤں کی فلاح کے لیے بھی نہایت متحرک اور سرگرم عمل ہے۔

    جس وقت ہم وہاں پہنچے اس وقت گاؤں والے سخت دھوپ میں اپنی جھونپڑیوں سے باہر کھلی دھوپ میں راشن تقسیم کیے جانے کے انتظار میں بیٹھے تھے جو چند مخیر حضرات کی مہربانی سے انہیں میسر آیا تھا۔

    راشن کے منتظر ان افراد میں بزرگ خواتین و مرد اور عورتیں بھی تھیں۔ کچھ لوگ ایک اور قریب موجود گاؤں سے بھی آئے تھے۔

    تقسیم کے اس عمل کے دوران میں نے وہاں موجود جھونپڑیوں کا جائزہ لیا۔ ایک ہی دائرے میں پھیلے 20 سے 25 گھروں میں ایک ہی خاندان کے افراد آباد تھے۔

    گاؤں کے سربراہ احسان رضا کے بقول اس گاؤں سمیت دیگر کئی گاؤں میں آبادی اسی طرح خاندانوں پر مشتمل تھی۔ کچھ جھونپڑیوں کے اندر نہایت ہی ضعیف خواتین موجود تھیں جو ناتوانی کے باعث راشن کی لائن میں نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔

    جھونپڑیوں کا جائزہ لینے کے دوران ایک خاتون میرے ہمراہ ہوگئیں۔ مجھے پتہ چلا تھا کہ وہاں موجود افراد شہر سے کم تعلق کے باعث نہایت ٹوٹی پھوٹی اردو میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن یہ خاتون نہایت صاف اردو میں بات کر رہی تھیں۔

    گفتگو شروع ہوئی تو میں نے وہاں پر بنیادی ضرورتوں، اسپتال اور اسکول وغیرہ کے بارے میں دریافت کیا، لیکن بانو نامی اس خاتون کے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب تھا، نفی میں ہلتا ہوا سر اور ’کچھ بھی نہیں‘۔

    پوچھنے پر پتہ چلا کہ گاؤں والے چھوٹی موٹی بیماریوں کا تو خود ہی علاج کر لیتے تھے، البتہ کسی شدید تکلیف دہ صورتحال یا خواتین کی زچگی کے موقع پر ’شہر‘ سے مدد بلوائی جاتی تھی۔

    معروف مصنف مشتاق احمد یوسفی اپنی ایک کتاب میں رقم طراز ہیں، ’پرانے زمانوں میں ڈاکٹر کو اسی وقت بلوایا جاتا تھا جب یقین ہوجاتا تھا کہ اب مریض کے انتقال کو بس تھوڑی ہی دیر باقی ہے‘۔

    یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی جب مریض درد سے تڑپتا موت کی سرحد پر پہنچ جاتا، تو اپنی یا شاید مریض کی تسلی کے لیے شہر سے ڈاکٹر یا ایمبولینس بلوائی جاتی لیکن عموماً مریض مسیحا کی مسیحائی سے پہلے ہی موت سے شکست کھا جاتا تھا۔

    شہر سے مدد بلوانے کے لیے پی ٹی سی ایل کا ایک عدد ٹیلی فون وہاں نصب تھا۔ اس ٹیلی فون سے شہر میں ایمبولینس کو کال کی جاتی جس کے بعد شہر سے ایمبولینس روانہ ہوتی اور صحرا کے پتھریلے راستوں پر ڈولتی، ہچکولے کھاتی، یہاں تک پہنچتی، اس وقت تک اگر مریض میں جان ہوتی تو اسے لے کر دوبارہ اسی جھٹکے کھاتی 3 گھنٹے کے طویل سفر پر روانہ ہوجاتی۔

    اگر کوئی مریض سفر کی طوالت اور اذیت ناک جھٹکوں کے باوجود شہر کے اسپتال پہنچنے تک زندہ رہتا (اور ایسا بہت کم ہوتا تھا) تو سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر تک پہنچنے کا انتظار اسے ماردیتا، گویا ہر صورت موت ہی اسے نصیب تھی۔

    یہ اذیت ناک کرب اور انتظار کی تکلیف مختلف مریضوں کے علاوہ ہر اس زچہ خاتون کو بھی اٹھانی پڑتی جن کا دائی کے ہاتھوں کیس بگڑ جاتا اور وہ یا ان کا بچہ موت کے دہانے پر پہنچ جاتا۔ موت اور درد سے لڑتی ایک عورت کا ان جان لیوا راستوں پر سفر اور ایسے وقت میں جب ایک لمحہ بھی ایک عمر بن کر گزرتا محسوس ہوتا ہے، 3 سے 4 گھنٹوں کے طویل عبرت ناک انتظار کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    لیکن ان عورتوں میں سے بمشکل ہی کوئی ڈاکٹر تک پہنچ پاتی ہے۔ عام حالت میں بھی انسانی برداشت کی حد سے گزرنے والا تخلیق کا درد جب اپنے عروج پر پہنچتا ہوگا تو ایسے میں اس تکلیف کو سہنے سے زیادہ آسان ملک الموت کا آنا ہی ہوتا ہوگا اور قدرت بھی یہ بات جانتی ہے لہٰذا ایسی عورتیں نصف راستے میں ہی دم توڑ کر ابدی نجات پالیتی ہیں۔

    بانو کے بقول گاؤں میں عموماً گھروں میں ہی زچگی کا عمل انجام پاتا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے اور جب گاؤں میں کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو وہ اور اس کے گھر والے دعا مانگتے ہیں کہ شہر سے مدد بلوانے اور اسپتال جانے کی ضرورت نہ پیش آئے۔

    وہ جانتے ہیں کہ شہر سے ایمبولینس آنے کے بعد جو اس ایمبولینس میں لیٹ کر ان راستوں کی طرف جاتا ہے، وہ شاذ ہی واپس آتا ہے۔ شہر کی طرف جانے والے یہ راستے ان کی لیے گویا موت کی وادی میں جانے کے راستے تھے۔

    گاؤں کے بیچوں بیچ ’پبلک‘ باتھ روم

    اس سے قبل میں نے جتنے بھی گاؤں دیہاتوں کے دورے کیے تھے وہاں کا ایک اہم مسئلہ بیت الخلا کی عدم موجودگی بھی ہوتا تھا، لیکن شاید وہ میرے لیے اہم تھا، وہاں رہنے والوں کے لیے نہیں، کیونکہ بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا کہ گاؤں والوں کو بیت الخلا کی موجودگی یا عدم موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔

    البتہ خواتین کے لیے باتھ روم کا استعمال ایک پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ جہاں باتھ روم نہیں ہوتے وہاں خواتین کو علیٰ الصبح اور شام ڈھلنے کے بعد کھیتوں میں جانا پڑتا تھا، یا جہاں ٹوٹے پھوٹے باتھ روم موجود ہوتے تھے، وہ شام ڈھلتے ہی سانپوں اور مختلف کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ بن جاتے تھے لہٰذا خواتین شام ہونے کے بعد واش رومز استعمال کرنے سے احتیاط ہی برتتی تھیں۔

    احسان رضا گوٹھ میں البتہ مجھے چند باتھ روم ضرور دکھائی دیے۔ گاؤں میں مصروف عمل ایک فلاحی تنظیم کاریتاس کی معاونت سے بنائے گئے یہ باتھ روم تعداد میں 2 سے 3 تھے اور ہر باتھ روم چند گھروں کے زیر استعمال تھا۔

    کچے گھروں سے دور صحرا کے وسط میں کھڑے یہ باتھ روم بہت عجیب دکھائی دیتے تھے لیکن گاؤں والوں کی زندگی کا اہم حصہ تھے۔ اس کی بدولت مرد و خواتین دونوں کو کھیتوں میں جانے کی زحمت سے چھٹکارہ حاصل تھا۔

    خواتین اور بچے معاشی عمل کا حصہ؟

    گاؤں میں اسکول کے بارے میں دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ وہاں کوئی اسکول یا استاد نہیں تھا جو بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتا۔

    دراصل گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی تھا۔ یہاں پر پانی کا ذریعہ اس علاقے میں ہونے والی بارشیں تھیں جو گزشتہ 2 سال سے نہیں ہوئی تھیں۔ تاہم یہ مسئلہ اب خاصی حد تک حل ہوچکا تھا۔

    کاریتاس کی کوششوں کے سبب چند ایک ارکان صوبائی اسمبلیوں نے یہاں کا دورہ کیا تھا اور ان کی ذاتی دلچسپی کے سبب اب یہاں پانی کی موٹر نصب کردی گئی تھی جو زمین سے پانی نکال کر گاؤں والوں کی ضروریات کو پورا کر رہی تھی۔ کچھ ضرورت ہینڈ پمپس سے بھی پوری ہورہی تھی۔

    اس اہم مسئلے کے حل کے بعد اب گاؤں والوں کی زندگی خاصی مطمئن گزر رہی تھی اور انہیں اپنی زندگی میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

    میں نے خواتین سے دریافت کیا کہ کیا وہ معاشی عمل کا حصہ ہیں اور کوئی کام کرتی ہیں؟ تو جواب نفی میں ملا۔

    بانو نے بتایا کہ خواتین سندھ کی روایتی کڑھائی سے آراستہ ملبوسات اور رلیاں (جو مختلف رنگین ٹکڑوں کو جوڑ کر بستر پر بچھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے) بناتی تو ہیں مگر وہ خود ہی استعمال کرتی ہیں، انہیں شہر لے جا کر فروخت نہیں کیا جاتا۔

    گفتگو کے دوران ایک اور خاتون نے شامل ہوتے ہوئے کہا، ‘ کڑھائی کرنا مشکل کام ہے یہ ہاتھ سے نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ہمیں سلائی مشینیں لا دیں تو ہم انہیں بنا کر شہر میں بیچیں گے’۔

    خاتون کے مطابق بہت پہلے گاؤں کے کسی ایک گھر میں سلائی مشین ہوا کرتی تھی جس پر تمام خواتین سلائی سیکھا کرتیں اور اپنے لیے خوبصورت ملبوسات تیار کرتیں، تاہم اب وہ واحد سلائی مشین خستہ حال اور ناکارہ ہوچکی ہے۔

    پہاڑ کے اوپر ایک اور دنیا

    احسان رضا گوٹھ کے بالکل سامنے ایک پہاڑ نظر آرہا تھا جس کے دوسری طرف صوبہ بلوچستان کا مول نامی قصبہ واقع ہے۔

    ہمیں پتہ چلا کہ اس پہاڑ کے اوپر بھی چند گاؤں واقع ہیں۔ ’اوپر والے ضروریات زندگی کے لیے نیچے کیسے آتے ہیں؟‘ یہ پہلا سوال تھا جو ہمارے ذہنوں میں آیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ پہاڑ کے اوپر ایک کچا راستہ تعمیر کیا گیا ہے جس کے بعد گاؤں والوں کی زندگی اب نسبتاً آسان ہوگئی ہے۔

    پہاڑ کے اوپر کو لے جانے والے راستے کی تعمیر بھی بذات خود ایک کہانی ہے۔ اس کچے راستے کی تعمیر سے قبل گاؤں والے پیدل پہاڑ سے اترا کرتے تھے۔ احسان رضا گوٹھ میں چند ایک افراد کے پاس موٹر سائیکل تھی جو اس موقع پر کام آتی۔

    اس پہاڑ کے اوپر رہنے والے بیماروں اور میتوں کی تدفین کے لیے پلنگ اور رسی کا استعمال کرتے تھے اور مریضوں اور مردہ شخص کو پلنگ سے باندھ کر نیچے لایا جاتا جس کے بعد اسے اسپتال یا قبرستان لے جایا جاتا۔

    مذکورہ پہاڑ سے نیچے اتر کر 1 سے 2 گھنٹے میں احسان رضا گوٹھ تک پہنچنا، اس کے بعد مزید 3 گھنٹوں کا سفر کر کے شہر تک پہنچنا، درمیان میں راستے کی اونچ نیچ، پتھر، صحرا یہ سب جاں بہ لب مریض کے دنیا سے منہ موڑنے کے لیے کافی تھے۔ ہاں جو مرجاتے وہ نسبتاً سکون میں تھے کیونکہ ان کے لیے گاؤں والوں نے ذرا دور ایک قبرستان بنا رکھا تھا۔

    تاہم یہ مشکل کچھ آسان اس طرح ہوئی کہ کاریتاس کی وساطت سے سابق رکن سندھ اسمبلی فرزانہ بلوچ نے یہاں کا دورہ کیا اور ان کے احکامات کے بعد پہاڑ سے نیچے اترنے کے لیے ایک کچا راستہ تعمیر ہوسکا۔

    اس ساری داستان کو جاننے کے بعد اب ہمارا سفر پہاڑ کے اوپر کی طرف تھا۔ ہم گاڑی میں سوار ہچکولے کھاتے، رکتے، چلتے اور صحرا کے حیرت انگیز نظارے دیکھتے اوپر پہنچے۔ یہ راستہ 5 سے 6 کلومیٹر کی طوالت پر مشتمل ہے۔

    پہاڑ کے اوپر سب سے پہلا گاؤں مٹھو (سندھی زبان میں میٹھا) گوٹھ تھا۔ مٹھو گوٹھ سمیت یہاں کوئی 5 سے 6 گاؤں موجود تھے جن میں مجموعی طور پر 200 کے قریب گھر آباد تھے۔

    ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی دور تک غربت، بیماری اور مسائل کا راج تھا۔ جگہ جگہ زمین پر مختلف بانس گاڑ کر ان سے گائے بیلوں اور بکریوں کو باندھا جاتا تھا۔ یہ مویشی گاؤں والوں کے لیے صرف اتنے مددگار تھے کہ انہیں بیچ کر کچھ عرصے کا راشن خریدا جاسکتا۔

    مٹھو گوٹھ میں 2 کمروں پر مشتمل اسکول کی ایک عمارت بھی کھڑی تھی جو اس وقت کھنڈر کا منظر پیش کر رہی تھی۔ کیونکہ اول تو حکومت کا مقرر کردہ کوئی استاد یہاں آتا ہی نہیں تھا، اور اگر کوئی آ بھی جاتا تو گاؤں کے مردوں کو اس سے کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہوجاتی یوں وہ چند دن بعد وہاں سے جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا۔

    محرومیوں کا شکار لیکن مطمئن لوگ

    گاؤں کی خواتین نے مجھے اپنے ہاتھ سے کڑھی ہوئی چادریں، ملبوسات اور رلیاں وغیرہ دکھائیں۔

    میں نے دریافت کیا کہ وہ ان اشیا کو شہر میں فروخت کر کے اپنی معاشی حالت میں بہتری کیوں نہیں لاتیں؟ آخر راشن لانے اور جانوروں کو فروخت کرنے کے لیے بھی تو ان کے مرد شہر کی طرف جاتے ہی ہیں، تب ان خواتین کا جواب ٹالنے والا سا تھا۔ صائمہ نامی ایک خاتون نے کہا، ’ہمارے مرد نہیں لے کر جاتے‘۔

    صائمہ کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ خود تو گردوں کے مرض کا شکار ہے اور بیمار رہتی ہے، لہٰذا وہ زیادہ کام نہیں کر سکتی البتہ جو دیگر عورتیں ہیں وہ بس اپنے لیے ہی سلائی کڑھائی کرتی ہیں۔ ‘ہم بس نہیں بیچتے۔ ہم بنا کر خود ہی استعمال کرتے ہیں’۔

    اس کے پاس اس بات کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی، شاید وہ سب اپنی غربت اور مسائل سے گھری زندگی میں مگن اور خوش تھے۔

    واپسی میں پھر وہی کئی گھنٹوں کا سفر تھا، صحرا تھا، ویرانی تھی، اور اونچے نیچے راستے تھے۔ ان سب کو پاٹ کر جب ہم ’شہر‘ میں داخل ہوئے تھے تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک کا سفر نہیں تھا، بلکہ دو زمانوں کا سفر تھا۔

    ایک جدید دور کا تمام سہولیات سے آراستہ زمانہ، اور دوسرا کئی صدیوں قبل کا جب سائنس عام افراد کی پہنچ سے بہت دور تھی اور ہر طرف دکھ تھے، مسائل تھے، جہالت تھی، تکلیفیں تھیں، اور شام ڈھلتے ہی گھپ اندھیرا ہوا کرتا تھا۔

  • بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے  لیے سب سے کم رقم

    بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے لیے سب سے کم رقم

    اسلام آباد: پاکستان میں پہلی بار گزشتہ 2 سال سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور بجٹ میں ایک بڑی رقم اس کے لیے مختص کی جارہی ہے۔

    تاہم پاکستان کو کلائمٹ چینج کے حوالے سے جن نقصانات کا سامنا ہے اس حوالے سے یہ رقم نہایت قلیل ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ بھی ناکافی ہیں اور پاکستان کو مزید بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

    گزشتہ سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے 4 منصوبوں کے لیے 1 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے تاہم رواں برس کے اقتصادی جائزے کے مطابق وزارت برائے کلائمٹ چینج نے اس میں سے صرف 58 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

    اس امر کو وزارت کی نا اہلی کہیں یا غفلت، البتہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس شعبے میں (حکومت کی حد تک) ماہرین کی بے حد کمی ہے جو صورتحال کا درست جائزہ لے کر صحیح منصوبہ بندی کرسکیں، اور جو ماہرین پاکستان میں موجود ہیں، حکومت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ضروری نہیں سمجھتی۔

    پاکستان کا کلائمٹ چینج ’445 الفاظ‘ پر مشتمل

    سنہ 2015 میں 2 سال قبل جب دنیا کے بہت سے ممالک کلائمٹ چینج سے نمٹنے کا عزم لیے پیرس میں جمع تھے (کوپ 21 کانفرنس کے لیے) اور دنیا کو بچانے کے لیے ایک تاریخ ساز معاہدہ اپنی تشکیل کے مراحل میں تھا تب اس معاہدے میں شامل ہونے کے لیے ہر ملک نے ایک حکمت عملی کی دستاویز جمع کروائی تھی جسے آئی این ڈی سی کا نام دیا گیا۔

    اس دستاویز میں ہر ملک نے کلائمٹ چینج سے ہونے والے اپنے داخلی نقصانات اور ان کے ممکنہ سدباب کا تفصیلی ذکر کیا۔ علاوہ ازیں اس میں یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ مستقبل میں کون سا ملک اپنے کاربن اخراج پر کس قدر قابو پائے گا۔

    مختلف ممالک نے ضغیم آئی این ڈی سی جمع کروا کر کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے اپنی سنجیدگی ظاہر کی اور بتایا کہ ان کے لیے یہ معاہدہ کس قدر اہمیت کا حامل رکھتا ہے۔

    اس وقت پاکستان کا آئی این ڈی سی فقط 445 الفاظ یعنی بہ مشکل ایک صفحے پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں اس یک صفحی دستاویز کی وضاحت یہ پیش کی گئی کہ پاکستان کے صنعتی شعبہ کو ابھی پھلنا پھولنا ہے، لہٰذا ابھی یہ کہنا کہ، ہم اپنے کاربن اخراج میں کتنی کمی کریں گے، قبل از وقت ہوگا۔

    شجر کاری اور کوئلے کے بجلی گھر ۔ متضاد ترقیاتی منصوبے

    یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ صرف چند روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا افتتاح کر چکے ہیں جو کاربن کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ سال وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کا تحفظ کیا جانا ہے۔

    ایک طرف تو گرین پاکستان پروگرام اور بڑے پیمانے پر شجر کاری کا منصوبہ، اور دوسری جانب کوئلے کے بجلی گھروں کی تکمیل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم کو ایسے مشیران کی ضرورت ہے جو ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے پائیداری، تحفظ ماحول، اور صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھیں جو اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں کوئلے کے بجلی گھر چین کے مشترکہ تعاون سے بنائے جارہے ہیں جو اس وقت دنیا میں کوئلے کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے۔

    چین اپنی توانائی کی 69 فیصد ضروریات کوئلے سے پوری کرتا ہے۔ کوئلے کے اس بے تحاشہ استعمال کے باعث چین کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ ہر روز 4 ہزار چینیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔

    موجودہ بجٹ میں ماحول کے لیے کیا ہے؟

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بچوں کے ڈائپرز اور سگریٹ کی قیمتوں میں کمی بیشی کا تو ضرور بتایا، تاہم انہوں نے مستقبل قریب میں پاکستان کو لاحق دہشت گردی سے بھی بڑے خطرے کلائمٹ چینج کا ذکر بھی کرنا گوارہ نہیں کیا۔

    بعد میں جاری کی گئی بجٹ دستاویز تفصیلات کے مطابق رواں برس موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 6 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 81 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

    جیومیٹرک سینٹر کی بنیاد رکھنے کے لیے: 3 کروڑ 38 لاکھ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2019 تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔

    خشک سالی کے سدباب کے لیے پائیدار زمینی انتظام (سسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ): ڈھائی کروڑ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2020 تک مکمل ہوگا۔

    وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر شروع کیا گیا گرین پاکستان پروگرام: اس منصوبے کے تحت جنگلات کے تحفظ اور ان میں اضافے کے لیے 60 کروڑ 51 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کا طے کردہ ہدف سنہ 2021 تک حاصل کرلیا جائے گا۔

    تحفظ جنگلی حیات: گرین پاکستان پروگرام ہی کے تحت اس ضمن میں 10 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

    اسلام آباد میں نباتاتی و حیاتیاتی گارڈن: 1 کروڑ 50 لاکھ روپے۔

    زولوجیکل سروے آف پاکستان: 3 کروڑ 60 لاکھ روپے۔ یہ سروے پاکستان کی خطرے کا شکار جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔

    دیگر منصوبے

    ان منصوبوں کے علاوہ تحفظ ماحولیات کے نام سے بھی کچھ رقم بجٹ میں شامل ہے جو 11 کروڑ سے زائد (1141 ملین) ہے جو ویسٹ واٹر مینجمنٹ پر خرچ کی جائے گی۔

    ایک خصوصی پروگرام ‘پینے کا صاف پانی ۔ سب کے لیے’ کی مد میں 12 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔ یہ رقم ملک بھر میں پینے کے پانی کو صاف کرنے کے اقدامات اور دور دراز علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے خرچ کی جائے گی۔

    وزیر خزانہ کی تقریر میں وزیر اعظم کے ایک پائیدار ترقیاتی اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز) منصوبے کا بھی ذکر کیا گیا جو تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    علاوہ ازیں تحفظ ماحول کے لیے بجٹ میں کچھ اور وعدے بھی کیے گئے ہیں جن کے مطابق

    حکومت تمام بڑے شہروں میں پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس کا پانی زراعت اور باغبانی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    صنعتوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ پانی کا کم سے کم اخراج کریں۔ یاد رہے کہ کافی عرصہ قبل امریکا سمیت اکثر ممالک میں صنعتوں کو مختلف قوانین کے تحت پابند کیا جاچکا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل یعنی دوبارہ سے استعمال کریں تاکہ پانی کی بچت ممکن ہوسکے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت کلائمٹ چینج کا مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر شہری حدود میں توسیع کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے تاکہ شہروں کو ایک حد تک پھیلایا جائے اور بے ہنگم پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔

    رواں سال بجٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کلائمٹ چینج کو منصوبہ بندی اور مالیات کے شعبہ سے منسلک کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ ہر شعبہ میں کسی بھی منصوبہ کے آغاز اور اس کی تکمیل میں کلائمٹ چینج (کے نقصانات) کو مدنظر رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    ماہرین ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ صرف 1 سے 2 سال کے اندر پاکستان کو کلائمٹ چینج کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ دہشت گردی کے نقصانات کے تخمینہ سے بھی تجاوز کرجائے گا۔

    اگر صرف مذکورہ بالا وعدوں کو ہی پورا کرلیا جائے، اور مختص کی گئی رقم کو دانش مندی اور ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو ہم کلائمٹ چینج کے نقصانات سے خاصی حد تک نمٹ سکتے ہیں۔

  • بجٹ 18-2017: صحت کے شعبے میں جدید اقدامات کی ضرورت

    بجٹ 18-2017: صحت کے شعبے میں جدید اقدامات کی ضرورت

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ آیا ہی چاہتا ہے اور ہر بار امیدیں پوری نہ ہونے کے باوجود عوام نے ایک بار پھر سے امیدیں لگا لی ہیں کہ شاید اس بار بجٹ میں عوام کا بھی خیال رکھا جائے۔

    لوگوں کی مسیحائی کا مقدس فریضہ انجام دینے والے لاکھوں ڈاکٹرز بھی پر امید ہیں کہ اس بار بجٹ میں نہ صرف ان کی ذاتی بلکہ شعبہ طب کی بہتری پر بھی توجہ دی جائے گی اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی طب میں کی جانے والی نئی ایجادات اور ٹیکنالوجیز کو متعارف کروایا جائے گا تاکہ معمولی بیماریوں کے ہاتھوں مرنے والے لاکھوں افراد کی جانیں بچائی جاسکیں۔

    پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ایسوسی ایشن طویل عرصے سے کوشش کر رہی ہے کہ بجٹ میں صحت کے لیے اعشاریوں پر مبنی بجٹ کے بجائے کل بجٹ کا 6 فیصد حصہ مختص کیا جائے۔

    انہوں نے کہا، ’لوگوں کی صحت، معاشروں اور ملکوں کی ترقی کی ضامن ہے۔ اگر لوگ صحت مند نہیں ہوں گے تو وہ کس طرح قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے‘؟

    ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ صحت جیسے اہم شعبے کے لیے بجٹ کا معقول حصہ مختص کرنا، اور اس رقم کو دانش مندی سے استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔

    انہوں نے اچانک پھیلنے والے وبائی امراض جیسے ڈینگی اور چکن گونیا کو صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے اقدامات پر زور دیا۔ ’ہم نے کئی سال پہلے خبردار کردیا تھا کہ ڈینگی کا مرض پاکستان میں پھیلے گا، تاہم اس وقت اس بات پر توجہ نہیں دی گئی‘۔

    ڈاکٹر قیصر نے دل دہلا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں زیکا وائرس بھی موجود ہے۔ یہ اچانک ایسے ہی ابھر کر سامنے آئے گا جیسے ڈینگی یا چکن گونیا سامنے آئے ہیں۔

    انہوں نے ان جان لیوا امراض کے درست طریقے سے سدباب کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا۔ ’اب جبکہ چکن گونیا پھیل گیا ہے، تو خطیر رقم خرچ کر کے اس کی کٹ منگوائی جارہی ہے۔ جبکہ مرض کی جڑ پر کسی کی توجہ نہیں‘۔

    ڈاکٹر قیصر کے مطابق ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس مچھر کی ایک ہی قسم سے ہوتے ہیں تو بجائے ان تینوں امراض پر بے تحاشہ رقم خرچ کرنے کے، اگر اس مچھر کے خاتمے پر توجہ دی جائے تو یہ تینوں خطرناک امراض خود ہی ختم ہوجائیں گے۔

    ڈاکٹرز کو سہولیات کی فراہمی

    اقوام متحدہ کی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ طب سے وابستہ افراد کو سہولیات کی فراہمی اور مراعات میں اضافہ سب سے زیادہ ضروری ہے اور ہمارے دیہی علاقوں میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی کی وجہ یہی ہے۔

    انہوں نے کہا، ’ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تنخواہیں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے ڈاکٹرز کے برابر ہونی چاہئیں‘۔

    ان کے مطابق سرکاری اسپتالوں میں لیبارٹریز اور مختلف امراض کے تشخیص کی مشینوں کی بھی ازحد ضرورت ہے۔ ’کئی امراض کو غلط تشخیص کیا جاتا ہے جس کے باعث بعض اوقات معمولی مرض بھی، جس کا بآسانی علاج کیا جاسکتا ہے، بڑھ کر جان لیوا صورت اختیار کرلیتا ہے‘۔

    انہوں نے ایک اور امر کی طرف اشارہ کیا کہ چھوٹے علاقوں، قصبوں اور گاؤں دیہاتوں میں صرف ڈسپنسریز بنانا کافی نہیں جہاں معمولی سر درد اور بخار کی ادویات موجود ہوں۔ بلکہ مختلف امراض کی باقاعدہ اسپیشلائزڈ ویکسین اور ادویات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔

    خواتین اور بچے مختلف امراض کا آسان ہدف

    ڈاکٹر سارہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں کی صحت کسی بھی ملک کی اول ترجیح ہونی چاہیئے کیونکہ یہ دونوں صحت مند ہوں گے تو ہی نئی نسل معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے گی، ’لیکن ہمارے یہاں صورتحال الٹ ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں بچوں کی پیدائش میں خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا ہوتا ہے جن پر دانش مندانہ حکمت عملی اپنا کر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔

    ان کے مطابق گاؤں دیہاتوں میں سرگرم عمل دائیوں، مڈ وائفس اور نرسز کی درست تربیت ضروری ہے تاکہ ان کے ہاتھوں کسی کی زندگی برباد نہ ہو۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق طب کے شعبے میں خواتین اور بچوں کے لیے مندرجہ ذیل خصوصی اصلاحات کی جانی بے حد ضروری ہیں۔

    حمل شروع ہونے سے لے کر بچے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد تک خواتین کے لیے خصوصی طبی سہولیات کی فراہمی اور دیکھ بھال۔

    نومولود بچوں کی تربیت یافتہ نرسز کے ہاتھوں دیکھ بھال۔

    ڈیلیوری کے لیے آسان اور کم قیمت پیکجز۔

    سرکاری اسپتالوں میں ماہر اطفال کی تعیناتی۔

    پیدائش سے قبل ماں کے لیے اور پیدائش کے بعد نومولود بچے کے لیے ضروری تمام ویکسین اور ٹیکوں کی دستیابی۔

    دور دراز گاؤں دیہاتوں میں موجود سرکاری اسپتالوں میں حاملہ خواتین کے لیے تمام ضروری سہولیات جیسے مطلوبہ ادویات، الٹرا ساؤنڈ مشینوں اور پیدائش کی بعد کسی پیچیدگی کی صورت میں وینٹی لیٹرز کی موجودگی۔

    صفائی ستھرائی کا فقدان

    ڈاکٹر سارہ نے مختلف پیچیدگیوں کے بڑھنے کی اہم وجہ صفائی ستھرائی کے فقدان کو قرار دیا۔

    ان کا کہنا تھا، ’گھروں میں اسپتال کھول لیے گئے ہیں جہاں ڈیلیوریز کروائی جارہی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں قائم سرکاری ڈسپنسریوں میں بھی صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا‘۔

    ان کے مطابق، ’چونکہ دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان ہے، لہٰذا ایک کم عمر لڑکی جس کا جسم کمزور ہو، اور جس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی کمزور ہو، مختلف جراثیموں کا آسان ہدف بن سکتے ہیں جو جان لیوا انفیکشنز پیدا کرسکتے ہیں‘۔

    شعور و آگاہی بھی ضروری

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق صحت سے متعلق بڑے پیمانے پر شعور و آگاہی کے پھیلاؤ کی بھی ضرورت ہے اور اس ضمن میں خصوصی پروگرامز بنا کر حکومت اور عوام دونوں اپنا کردار ادا کریں۔

    انہوں نے کہا، ’دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ یہ عمل ایک کم عمر لڑکی کو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے کیونکہ کم عمری میں بچوں کی پیدائش نہ صرف ماں بلکہ بچے کی صحت کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے‘۔

    ان کے مطابق کم عمری کی شادیاں بے شمار امراض میں مبتلا کرسکتی ہیں۔ بعض اوقات نو عمر لڑکیاں بچوں کی پیدائش کے دوران جان کی بازی بھی ہار جاتی ہیں۔

    انہوں نے کہا، ’نہ صرف حکومت بلکہ معاشرے میں بسنے والے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہم ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں‘۔

    ذہنی امراض کا سدباب اولین ترجیح

    ملک کے بدلتے حالات، دہشت گردی، غربت، بے روزگاری اور مختلف معاشرتی مسائل کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہی ہے اور ماہرین کے مطابق ان امراض کے سدباب کو اولین ترجیح دینی ضروری ہے۔

    کراچی میں ذہنی امراض کے اسپتال کاروان حیات کے ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے، ’یوں تو صحت ویسے ہی ایک نظر انداز شدہ شعبہ ہے لہٰذا باوجود اس کے، کہ ذہنی امراض کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے، یہ توقع کرنا بے فائدہ ہے کہ حکومت اس شعبے کی طرف خصوصی توجہ کرے‘۔

    انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے جو سب سے عام ذہنی مرض ہے۔ اس شعبے میں ہنگامی طور پر اصلاحات کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت جلد یہ دنیا کی بڑی بیماریوں میں سے ایک بن جائے گی۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق ذہنی امراض پر کام شروع کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی کا فروغ ہے۔ ’آج بھی کسی سے کہا جائے کہ کسی ماہر نفسیات کے پاس جاؤ، تو وہ ناراض ہوجاتا ہے کہ کیا تم مجھے پاگل یا نفسیاتی سمجھتے ہو‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ذہنی امراض کے حوالے سے بڑے پیمانے پر لوگوں میں شعور پھیلانے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی ہوا نہیں، عام اور قابل علاج مرض ہے۔ ’آج بھی اگر کوئی شخص کسی دماغی بیماری کا شکار ہوجائے تو اسے جن بھوت کا اثر سمجھ کر جعلی پیر فقیروں کے چکر لگائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو علم ہی نہیں کہ دماغی امراض بھی اب ایسے ہی عام ہوگئے ہیں جسیے نزلہ، زکام یا بخار‘۔

    ان کے مطابق جس طرح حکومت خاندانی منصوبہ بندی، ایڈز یا ڈینگی سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہمات چلاتی ہے، اسی طرح ذہنی امراض کے بارے میں بھی معلومات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ اگر ابتدائی مرحلے میں ذہنی امراض کی تشخیص کرلی جائے تو باآسانی ان کا علاج ہوسکتا ہے جس کے بعد مریض صحت مند ہو کر معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔ ’لیکن بات وہی کہ ذہنی مرض کو عام مرض کی طرح سمجھ کر ڈاکٹر کے پاس جایا جائے‘۔


    ماہرین طب کو امید ہے کہ اگر حکومت شعبہ صحت کو اہم خیال کرتے ہوئے نہ صرف بجٹ کا ایک خطیر حصہ اس مد میں مختص کرے، بلکہ اس بجٹ کے استعمال میں ذہانت، دور اندیشی اور ایمانداری سے بھی کام لے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ شعبہ بہتری کی طرف گامزن ہوجائے۔

  • عالمی یوم ارض: تحفظ ماحول کی تعلیم وقت کی ضرورت

    عالمی یوم ارض: تحفظ ماحول کی تعلیم وقت کی ضرورت

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ماحولیات اور کلائمٹ سے متعلق تعلیم اور شعور و آگاہی کا فروغ ہے۔ ماحولیات اور خاص طور پر کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیرات) کے بارے میں تعلیم اور آگاہی حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ دن بدن بڑھتے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سدباب کیے جاسکیں۔

    تحفط ماحولیات کا شعور پاکستان میں کس طرح ممکن؟

    ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ایک حقیقیت ہے اور حقیقت کا ادارک نہ کیا جائے، اس سے آگاہی حاصل نہ کی جائے تو وہ نقصان دہ بن جاتی ہے۔ ’ماحولیات اور خصوصاً کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی کا فروغ وقت کی ضرورت بن چکا ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں شدید گرمی کی لہریں، غیر معمولی بارشیں، سیلاب وغیرہ یہ سب موسمیاتی تغیرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ ایسے میں ہم مشکل صورتحال پیش آنے کے بعد اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کرتے ہیں جبکہ یہ کام سارا سال ہونا چاہیئے۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہماری جامعات میں انوائرنمنٹ اسٹڈیز کے الگ سے شعبے بنا دیے گئے ہیں۔ یہ تعلیم اس شعبے میں مہارت تو فراہم کرتی ہے لیکن صرف چند لوگوں کو، ان کے علاوہ ہماری عوام کی بڑی تعداد ماحولیات کی بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے‘۔

    ان کے مطابق اب جبکہ یہ وقت کی ضرورت بھی بن چکی ہے، تو ماحولیات کو ایک الگ مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کیا جانا ضروری ہے تاکہ ہمارے بچوں میں پہلے دن سے تحفظ ماحولیات اور تحفظ فطرت کا شعور اجاگر ہو سکے۔

    آگاہی کے ذرائع

    رفیع الحق نے ایک اور امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ جب ہم اخبارات کے ذریعہ آگاہی کو فروغ دیتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری عوام کی اکثریت اخبار نہیں پڑھ سکتی۔ ’ہمیں ابلاغ کے ایسے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا ہوگا جو سب کی پہنچ میں ہوں‘۔

    اس ضمن میں ٹی وی پر اشتہارات، دستاویزی فلمیں نشر کرنا، اور ایسے پسماندہ علاقوں میں جہاں ٹی وی بھی میسر نہ ہوں، مسجدوں سے اعلان کروانا، یا وہاں موجود سرکاری محکموں کے توسط سے آگاہی مہمات چلانا ضروری ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ان کا کہنا ہے، ’اگر ہم یہ سب نہیں کریں گے، تو پھر وہی صورتحال ہوگی جو سنہ 2015 میں کراچی کی ہیٹ ویو کے دوران پیش آئی اور 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘۔

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ ان کے شہر میں آفت کی صورت نازل ہونے والی یہ گرمی کیا ہے، اور کس قدر خطرناک ہے، تو وہ کیوں گھر سے باہر نکل کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے؟

    زمین کے تحفظ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنی زمین اور فطرت کا تحفظ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ چند معمولی باتیں جو بظاہر بہت عام سی لگتی ہیں بعض دفعہ ہمارے ماحول کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے کام کریں گے، تو یقیناً ہم اپنی ماں زمین کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    غیر ضروری روشنیاں بند کریں۔ مختلف ساکٹس کے بٹن بھی بند رکھیں۔ کھلے بٹنوں کی وجہ سے ساکٹس توانائی خارج کرتے ہیں جو بجلی کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔

    اپنے گھر اور گھر سے باہر جہاں ممکن ہو وہاں پودے اگائیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے جاری کیا گیا آگاہی پوسٹر

    بہت سارے پودے اگا کر انہیں خراب ہونے کے لیے چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ کم از کم ایک یا 2 پودے اگائے جائیں تاکہ ان کی دیکھ بھال کر کے انہیں تناور درختوں میں تبدیل کیا جائے۔

    جتنا ممکن ہو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ ہر شخص کی انفرادی گاڑی ماحول میں فضائی آلودگی اور زہریلی گیسیں شامل کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

    پرانے اخبارات کو ردی میں پھینکنے کے بجائے انہیں مختلف کاموں میں استعمال کریں۔ اس طرح سے آپ درختوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    کچرے کو بحفاظت ٹھکانے لگایا جائے اور جگہ جگہ کچرا پھینکنے سے گریز کیا جائے۔

    پانی کا احتیاط سے استعمال کریں۔ برش کرتے ہوئے نلکا بند کردیں۔

    گوشت کی نسبت پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار ہماری زمین کو نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس گوشت کے ذرائع مختلف جانور درخت اور پتے کھا کر ہمیں گوشت کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔

    کاغذ کم سے کم ضائع کریں۔ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں لہٰذا کاغذوں کا ضیاع کرنے سے گریز کریں۔ ایک صفحے کی دنوں جانب لکھائی کے لیے استعمال کریں۔

    مختلف اشیا کو ری سائیکل کریں یعنی انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنائیں۔

    پلاسٹک کی اشیا خصوصاً تھیلیوں کا استعمال کم سے کم کریں۔ یہ ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ان کی جگہ مختلف ماحول دوست میٹیریل سے بنے بیگز استعمال کریں۔

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    اپنے بچوں کو بچپن سے ماحول دوست بننے کی تربیت دیں۔