Author: فریحہ فاطمہ

  • دریائے سندھ میں ڈولفن شماری

    دریائے سندھ میں ڈولفن شماری

    سکھر: دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب نابینا ڈولفن کی معدومی کے خطرات کو دیکھتے ہوئے اور ان کے تحفظ سے متعلق اقدامات کے سلسلے میں ڈولفنز کی تعداد جاننے کے لیے سروے کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے محکمہ جنگلی حیات، ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) اور زولوجیکل سروے کے ماہرین نے سندھ میں نایاب نسل کی نابینا انڈس ڈولفن کی تعداد کے حوالے سے سروے کیا۔

    سکھر میں 5 سال بعد کیے جانے والے اس سروے کا آغاز 22 مارچ کو چشمہ بیراج سے کیا گیا جو سکھر بیراج میں اختتام پذیر ہوگیا. سروے ٹیم نے چشمہ بیراج، تونسا بیراج، گڈو بیراج اور سکھر بیراج میں ڈولفن کی تعداد کو مانیٹر کیا۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف میں مذکورہ سروے کی سربراہی کرنے والی مینیجر جنگلی حیات حمیرا عائشہ نے اس بارے میں بتایا کہ یہ سروے مختلف تکنیکوں کے ذریعے انجام دیا گیا۔ ڈولفنز کی تعداد کا حتمی ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے کم از کم 1 ماہ کا عرصہ درکار ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس عرصے میں مختلف بین الاقوامی طور پر رائج تکنیکوں کے ساتھ ساتھ پہلے کیے جانے والے مختلف سرویز کا آپس میں موازنہ کیا جائے گا جس کے بعد حتمی نتائج مرتب ہوسکیں گے۔

    حمیرا کے مطابق یہ سروے ہر 5 سال بعد ایک مخصوص وقت میں کیا جاتا ہے جس میں دریا کے بہاؤ، موسم اور دیگر عوامل کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ ڈولفنز شماری کے لیے کیا جانے والا یہ چوتھا سروے ہے۔ اس نوعیت کا سب سے پہلا سروے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے سنہ 2001 میں کیا گیا تھا جس کے مطابق دریائے سندھ میں ڈولفنز کی تعداد 11 سو تھی۔

    مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل پر ڈولفنز کی آمد

    اس سے قبل 2011 میں کیے جانے والے سروے نے دریائے سندھ میں ڈولفنز کی تعداد 1 ہزار 452 بتائی۔

    حمیرا عائشہ کا کہنا تھا کہ یہ سروے ڈولفن کے تحفظ کے اقدامات کو مزید بہتر کرنے کے سلسلے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    دنیا کی نایاب ترین ڈولفن

    واضح رہے کہ دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن جسے سندھی زبان میں بھلن بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی نایاب ترین قسم ہے جو صرف دریائے سندھ اور بھارت کے دریائے گنگا میں پائی جاتی ہے۔ یہ ڈولفن قدرتی طور پر اندھی ہوتی ہے اور پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی ڈولفنز کی نسل میں معمولی سا فرق ہے جس کے باعث انہیں الگ الگ اقسام قرار دیا گیا ہے۔

    نایاب نسل کی نابینا ڈولفن اکثر دریائے سندھ سے راستہ بھول کر نہروں میں آ نکلتی ہیں اور کبھی کبھار پھنس جاتی ہیں۔ اس صورت میں ان کو فوری طور پر نکال کر دریا میں واپس بھیجنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کی موت یقینی ہو جاتی ہے.

    راستہ بھولنے اور دیگر خطرات کے باعث اس ڈولفن کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہے اور ان کی تعداد میں تیزی سے کمی کے باعث عالمی ادارہ تحفظ فطرت آئی یو سی این نے اسے معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کی فہرست میں رکھا ہے۔

    سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ماہی گیر دریائے سندھ میں زیادہ سے زیادہ مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے زہریلے کیمیائی مواد کا استعمال کر رہے ہیں جو اس ڈولفن کی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    دوسری جانب ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں کیمیائی اور دیگر آلودگی کے ساتھ ساتھ ڈیموں کی تعمیر، ڈولفن کا مچھلیاں پکڑنے کے لیے بچھائے گئے جالوں میں حادثاتی طور پر پھنس جانا، میٹھے پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہونا اور گوشت اور تیل حاصل کرنے کے لیے ڈولفن کا شکار اس کی نسل کو ختم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

    مذکورہ سروے میں متعلقہ اداروں کے ساتھ مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا کو بھی شامل کیا گیا تاکہ ان میں اس نایاب نسل کے تحفط اور اہمیت کے متعلق شعور پیدا کیا جاسکے۔

  • موسم بہار میں منائے جانے والے تہوار

    موسم بہار میں منائے جانے والے تہوار

    سردیوں کا اختتام ہوتے ہی شاخوں پر نئی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوجاتی ہیں اور درخت دوبارہ سبز لباس پہننے لگتے ہیں۔ سردی کا اختتام موسم بہار کا آغاز ہے اور اس کے ساتھ ہی نئے پھول کھلنا اور اپنی بہار دکھانا شروع کردیتے ہیں۔

    موسم بہار کے شروع ہوتے ہی فضا میں نئے کھلنے والے پھولوں کی مہک پھیل جاتی ہے۔ اگر اسے ایک نئی زندگی کا آغاز کہا جائے تو غلط نہ ہوگا جس میں مرجھا جانے اور مر جانے والے درخت اور پودے پھر سے زندہ ہوجاتے ہیں۔

    دنیا بھر میں موسم بہار کا آغاز بانہیں کھول کر کیا جاتا ہے۔ کئی عقائد میں اسے سورج کی واپسی یا دوبارہ زندگی سے بھی تشبیہہ دی جاتی ہے جبکہ کئی ثقافتوں میں یہ نئے سال کا بھی آغاز ہوتا ہے۔

    یہ موسم دراصل اس زندگی کے پھر سے بحال ہونے کا اشارہ ہوتا ہے جو سخت سردی میں ٹھٹھر کر منجمد ہوچکی ہوتی ہے، چنانچہ اس موسم کو خوشی منا کر تہواروں کے ذریعے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

    آج ہم آپ کو موسم بہار کے آغاز میں منائے جانے والے ایسے ہی تہواروں کا حال بتا رہے ہیں جو دنیا بھر میں مختلف مذاہب یا ثقافتوں میں منائے جاتے ہیں۔

    جشنِ نوروز

    لفظ نوروز فارسی زبان کا لفظ ہے اوراس کے لغوی معنی ہیں نیا دن۔ ایرانی کلینڈر کے مطابق نو روز سال نو اور بہار کا ایک ساتھ استقبال کرنے کا دن ہے اور یہ دن مغربی چین سے ترکی تک کروڑوں لوگ 20 مارچ کو مناتے ہیں۔

    یہ دن ایران، افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، بھارت کے کچھ حصوں اور شمالی عراق اور ترکی کے کچھ علاقوں میں کیلنڈر سال کے نقطہ آغاز کا بھی دن ہے۔

    اس دن خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے، گھروں میں پھولوں کی سجاوٹ کی جاتی ہے اور خصوصی پکوانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    بسنت

    بسنت کا تہوار نہایت رنگوں بھرا تہوار ہے۔ قدیم روایات کے مطابق سرما میں سفید اور بے رنگی سے اکتائی آنکھوں کو بسنت میں مختلف رنگوں سے تقویت بخشی جاتی ہے۔

    گو کہ بسنت کی روایات اور بنیاد ہندو مت سے ماخوذ ہے تاہم قیام پاکستان سے قبل مسلمان بھی یہ تہوار منایا کرتے تھے جس کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد زندہ دلان لاہور میں اب تک جاری ہے۔

    اس تہوار کی خاص بات پتنگ بازی ہے۔ ہر رنگ اور ہر سائز کی پتنگوں سے آسمان سج جاتا ہے اور فضا بو کاٹا کے نعروں سے گونجنے لگتی ہے۔

    اس تہوار میں ڈھول تاشوں، بھنگڑوں اور موسیقی کا اہتمام بھی ہوتا ہے جبکہ پورا خاندان کسی ایک چھت پر جمع ہو کر پتنگیں اڑاتا ہے جس کے بعد ان کی تواضع لذیذ پکوانوں سے کی جاتی ہے۔

    ہولی

    ہندو مت کا مشہور تہوار ہولی بھی موسم بہار کے آغاز پر منایا جاتا ہے۔ اس روز لوگ سفید لباس پہن کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر محفوظ ہوتے ہیں۔

    اس دن رقص و موسیقی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جو ہندو مت کا ایک لازمی جز ہے۔

    رواں برس پاکستان میں بھی ہندو افراد نے بھرپور انداز میں ہولی منائی اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے ہولی کی تقریب میں شرکت کر کے اس تہوار کے رنگوں اور خوشیوں کو دوبالا کردیا۔

    چترال کا چلم جوش تہوار

    پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں واقع ضلع چترال میں موسم بہار کی آمد پر چلم جوش کا تہوار منایا جاتا ہے جسے چلم جوشت بھی کہا جاتا ہے۔

    چلم جوش کو وادی میں مذہبی تقریب کا درجہ حاصل ہے۔ اس دن خاص اہتمام کے ساتھ کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔ تہوار کے پہلے روز آپس میں بکری کا دودھ بانٹا جاتا ہے۔

    تہوار کے تینوں دن وادی کے لوگ رقص و موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    تقریب کے آخری دن ایک دوسرے سے محبت کرنے والا لڑکا اور لڑکی سب کے سامنے اپنی محبت کا اقرار کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتے ہیں اور شادی کا اعلان کرتے ہیں۔

    بلغاریہ کا سرخ و سفید پھندنوں کا تہوار

    بحیرہ اسود کے کنارے واقع ملک بلغاریہ میں موسم بہار کے آغاز پر یکم مارچ کو بابا مارٹا کا دن منایا جاتا ہے۔

    یہ ایک تصوراتی کردار ہے جو کرسمس کے سانتا کلاز کی طرح سردیاں ختم ہونے کی خوشی میں سرخ و سفید دھاگوں سے بنے پھندنے یا گڑیائیں چھوڑ جاتا ہے۔

    بابا مارٹا کی یاد میں لوگ ایک دوسرے کو یہی سرخ و سفید دھاگوں سے بنی اشیا بطور تحفہ دیتے ہیں۔ درختوں پر بھی یہ دھاگے لٹکائے جاتے ہیں۔

    یہ رنگ اور دھاگے دراصل بقیہ پورے سال کے لیے خوشی اور صحت مندی کی خواہش ہے۔

    چیری بلاسم فیسٹیول

    جاپان میں موسم بہار کا استقبال چیری بلاسم فیسٹیول سے کیا جاتا ہے جسے ہانامی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جاپان نے ایک سو سال قبل امریکیوں کو بھی چیری بلاسم تحفے میں دیے تھے جس کی وجہ سے اب واشنگٹن بھی بہار کے موسم میں چیری بلاسم سے بھر جاتا ہے۔

    جاپان اور امریکا دونوں جگہ موسم بہار کے آغاز پر چیری بلاسم فیسٹیول منایا جاتا ہے جب چیری کے درخت پھولوں سے ایسے لد جاتے ہیں کہ ان کی ٹہنیاں ان کے بوجھ سے جھکی جاتی ہیں۔

    ان درختوں کے بے تحاشہ حسن کو آنکھوں میں سمونا مشکل ہوجاتا ہے۔

    تھائی لینڈ کا آبی میلہ

    تھائی لینڈ میں موسم بہار کے آغاز پر ایک دوسرے پر پانی پھیکنے کا تہوار سونگ کران واٹر فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے۔

    پانی سے سڑکوں اور لوگوں کو دھو ڈالنا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ لوگ اب پاک صاف ہوکر نئے سال کا آغاز کریں گے۔

    مگر پانی کی اس جنگ میں احترام اور احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچائے بغیر ایک دوسرے پر پانی ڈالتے ہیں۔

    اس دوران بدھا کے مجسموں کو بھی احترام سے غسل دیا جاتا ہے۔

    میکسیکو کا اسپرنگ ایکونوکس

    میکسیکو میں موسم بہار کے آغاز میں ایک تہوار اسپرنگ ایکونوکس منایا جاتا ہے جس کی تاریخ قدیم مایا دور سے ملتی ہے۔ مایا عقیدے کے مطابق اس روز دن اور رات کا دورانیہ یکساں ہوتا ہے۔

    اس دن کو سورج کی واپسی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یعنی سردیوں کے طویل موسم کے بعد سورج کی واپسی۔

    اس موقع پر میکسیکن افراد میکسیکو کے مشہور اہرام چیچن عتزا پر جمع ہوتے ہیں۔ بہار کے پہلے دن سورج کی روشنی اس اہرام پر اس زاویے سے پڑتی ہے جس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اہرام پر کوئی طویل القامت سانپ رینگ رہا ہو۔

    مایا عقیدے کے مطابق یہ ایک مذہبی مظہر ہے اور اسے دیکھ کر لوگ مذہبی کلمات دہرانا شروع کر دیتے ہیں۔

    اسکاٹ لینڈ کا امبولک تہوار

    یونین آف آئر لینڈ اور اسکاٹ لینڈ میں موسم بہار کے آغاز پر امبولک نامی تہوار منایا جاتا ہے۔

    اس دن آگ اور روشنیاں جلا کر، اور رقص کر کے نئے سال کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

    وینس کارنیول

    دنیا کے مشہور ترین کارنیول، کارنیول آف وینس کی تاریخ 900 سال پرانی ہے۔ یہ دنیا کا مشہور ترین میلہ ہے۔

    موسم بہار کے شروع میں منعقد کیے جانے والے اس میلے کی خاص بات اس میں شریک افراد کے پہنے جانے والے ماسک ہیں جو اس میلے کا اہم حصہ ہیں۔

    دراصل یہ ماسک لوگوں کی شناخت چھپانے کے لیے پہنے جاتے ہیں۔ اطالویوں کا عقیدہ ہے کہ اس میلے میں آپ وہ تمام کام سر انجام دے سکتے ہیں جو سارا سال دنیا کے خوف سے نہیں کر سکتے۔

    چونکہ ماسک کے پیچھے آپ کی شناخت پوشیدہ ہوگی لہٰذا کوئی نہیں جان سکے گا کہ آپ نے کیا کیا۔ 18 روزہ طویل اس میلے میں رنگ، خوشبو، رقص، موسیقی اور خوشیاں سب ہی ہوتے ہیں۔

    آپ کو کون سا تہوار سب سے خوبصورت لگا؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جنگلات کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے۔

    رواں برس یہ دن جنگلات اور توانائی کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔ جب ہم جنگلات اور توانائی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں پہلا خیال درختوں کی لکڑی کا آتا ہے جسے ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کی موجودگی کسی ملک کے ماحول، معیشت، شہری ترقی اور وہاں رہنے والے انسانوں کو مختلف جہتوں سے توانائی فراہم کرتی ہے۔

    forest-1

    جنگلات ماحول کی آلودگی میں کمی کرتے ہیں جبکہ درختوں پر لگے پھلوں کی تجارت کسی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بڑے اور پرہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے۔

    کراچی میں جنگلات اور درختوں کی کمی کی وجہ سے سنہ 2015 میں قیامت خیز گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) آئی جس نے ایک ہزار سے زائد افراد کی جانیں لے لیں۔

    وزیر اعظم کا پیغام

    جنگلات کے عالمی دن پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پیغام دیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ درخت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے آئندہ نسل پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت آئندہ نسلوں کو سر سبز مستقبل دینے کے لیے کوشاں ہے۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی کے باعث ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کے لیے گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 10 کروڑ مقامی پودے لگائے جائیں گے۔

    پاکستان کے 2 نایاب جنگلات

    پاکستان میں جنگلات کی 2 ایسی نایاب اقسام موجود ہیں جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔

    صنوبر کے جنگلات

    بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔

    forest-2
    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔

    یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔

    پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    forest-3
    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔

    اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔

    تیمر کے جنگلات

    کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    forest-5
    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا۔

    forest-6
    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔

     پاکستان میں درختوں کی کٹائی

    وفاقی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 سے 2005 تک پاکستان کے جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی گئی۔ اس بے دریغ کٹائی کی وجہ شہروں کا تیز رفتار اور بے ہنگم پھیلاؤ، زراعت کے لیے درختوں کو کاٹ دینا، اور گلوبل وارمنگ (درجہ حرارت میں اضافہ) ہے۔

    ماہرین کے مطابق جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس مقام سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔

    وہاں پر صحرا زدگی کا عمل شروع ہوجاتا ہے یعنی وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے، جبکہ وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔

    اگلے 100 سال میں جنگلات کا خاتمہ؟

    اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.8 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

  • زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    ہماری ماں، زمین جس پر ہم رہتے ہیں اس کی عمر ساڑھے 4 ارب سال ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران لاکھوں کروڑوں سال پر مبنی کئی ادوار آئے اور مٹ گئے۔

    زمین پر زندگی کی موجودگی سے لے کر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ ان معدومیوں میں زمین کی 70 فیصد (جنگلی و آبی) حیات ختم ہوجاتی۔ کچھ عرصے (ہزاروں یا لاکھوں سال بعد) ایک بار پھر زندگی وجود میں آتی اور حیات کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔

    مزید پڑھیں: معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    زمین پر بسنے والے انسانوں کی عمر تو کچھ زیادہ نہیں، البتہ ہماری دنیا میں بے شمار ایسے جانور موجود ہیں جو لاکھوں کروڑوں سال سے زمین پر ہیں۔ ان کی نسل کا ارتقا جاری رہا، شکل اور جسامت بدلتی رہی، لیکن ان کی نسل کئی صدیوں سے یہاں موجود ہے۔

    آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کون سا جانور کتنے عرصے سے زمین پر موجود ہے۔

    اس وقت زمین پر موجود سب سے قدیم جانور جیلی فش ہے۔ زمین پر آخری معدومی اب سے 6.6 کروڑ سال پہلے رونما ہوئی تھی اور جیلی فش اس سے بھی قدیم تقریباً 55 کروڑ سال قدیم ہے۔

    شارک کی ایک نایاب نسل گوبلن شارک 11.8 کروڑ سال قدیم ہے۔

    ہاتھی: ماہرین نے ہاتھی کے سب سے قدیم دریافت کیے جانے والے رکازیات کی عمر 5.5 کروڑ سال بتائی ہے۔ ہاتھی اس وقت زمین پر موجود تمام جانوروں میں سب سے قوی الجثہ جانور ہے۔

    معلومات بشکریہ: ارتھ لائف ڈاٹ نیٹ

    گوریلا: ماہرین کی ایک دریافت کے مطابق گوریلا 1 کروڑ سال قبل بھی زمین پر موجود تھا۔

    چیتا: 20 لاکھ سال قدیم ۔ چیتے کے قدیم ترین رکاز جو ماہرین نے دریافت کیے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ چیتوں کی ابتدائی نسل آج کے چیتوں سے جسامت میں نہایت چھوٹی تھی۔

    معلومات بشکریہ: ٹائیگرز ورلڈ

    پانڈا: پانڈا کے سب سے قدیم رکاز (فوسلز) 20 لاکھ سال قدیم ہیں۔

    معلومات بشکریہ: سائنس ڈیلی

    زرافہ: زمین پر موجود لمبا ترین جانور جس کے قدیم ترین رکاز 15 لاکھ سال پرانے ہیں۔

    معلومات بشکریہ: اینیمل کارنر

    کتا: کتے کے سب سے قدیم آثار 31 ہزار 7 سو سال قدیم ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم نہایت تیزی سے چھٹی عظیم معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں ایک بار پھر زمین پر آباد 70 فیصد سے زائد جانوروں کے مٹ جانے کا خدشہ ہے۔

    لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس بار یہ عمل قدرتی نہیں ہوگا، بلکہ انسان کا اپنا پیدا کردہ ہوگا۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    ان کے مطابق جانوروں کے بے دریغ شکار، ان کے گھروں (جنگلات) کی کٹائی، ہماری صنعتی ترقی کی وجہ سے زہریلے دھوئیں کا اخراج، اس کی وجہ سے ہونے والی فضائی و آبی آلودگی، اور مجموعی طور پر پوری دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) ایسے عوامل ہیں جو نہ صرف جانوروں بلکہ نسل انسانی کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔

  • آپ کی پسندیدہ کافی آپ کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

    آپ کی پسندیدہ کافی آپ کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

    کافی ایک پسندیدہ اور سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ ڈیڑھ بلین سے زائد کافی کے کپ پیے جاتے ہیں۔

    بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ کافی کا اصل وطن مشرق وسطیٰ کا ملک یمن ہے۔ یمن سے سفر کرتی یہ کافی خلافت عثمانیہ کے دور میں ترکی تک پہنچی، اس کے بعد یورپ جا پہنچی اور آج کافی یورپ کا سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔

    انسانی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح انسان کی ہر عادت اس کی پوری شخصیت کی عکاس ہوتی ہے، اسی طرح کسی انسان کی پسندیدہ کافی کے ذریعے بھی اس کی شخصیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ کس قسم کی کافی پینے والے افراد کن عادات و مزاج کے مالک ہوتے ہیں۔

    اسپریسو

    سیاہ کافی اور اس کے ساتھ ذرا سی کریم کی آمیزش والی کافی پسند کرنے والے افراد قائدانہ صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ کسی حد تک خود پسند بھی ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا سب سے بڑا جھول ان کا موڈ ہے جس کے یہ بے حد تابع ہوتے ہیں۔

    ایسے افراد نہایت نفاست پسند بھی ہوتے ہیں اور اپنی ظاہری شخصیت لباس، بال، جوتوں وغیرہ میں کوئی نقص برداشت نہیں کرتے۔

    کیپی چینو

    کافی میں دودھ کی یکساں آمیزش کر کے کیپی چینو پینے والے افراد دوستانہ مزاج کے حامل ہوتے ہیں اور لوگوں سے میل جول پسند کرتے ہیں۔

    یہ افراد تخلیقی صلاحیت کے بھی حامل ہوتے ہیں اور مختلف شعبوں کے فنکاروں سے تعلق رکھنا پسند کرتے ہیں۔

    لیٹے

    دودھ، کریم اور چینی کی آمیزش سے بنائی جانے والی لیٹی کافی پینے والے افراد فیصلے کرتے ہوئے تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    یہ نہایت سخی اور دوسروں کی مدد کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی دوسروں کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہوتی ہے۔

    یہ زندگی کی تلخیوں کو مختلف طریقوں سے کم کرتے ہیں، ویسے ہی جیسے تلخ کافی کو چینی اور کریم کے ذریعے کم کرتے ہیں۔ یہ نہایت آرام پسند اور اپنی ذات سے بے حد لاپرواہ ہوتے ہیں۔

    کولڈ کافی

    کولڈ کافی پسند کرنے والے افراد اپنی صحت کے متعلق نہایت لاپرواہ ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کی طرح خوش ہوجانے والے ہوتے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے ہیں۔

    سیاہ کافی

    سادہ سیاہ کافی یعنی امیرکنو پینے والے افراد زندگی سے متعلق سیدھے سادے خیالات رکھتے ہیں اور ایک معمول پر کاربند رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ اپنی زندگی میں خطرات سے کھیلنے اور مہم جوئیوں سے پرہیز کرتے ہیں۔

    فریپی چینو

    کافی میں مختلف فلیورز (چاکلیٹ، ونیلا) کے سیرپ کی آمیزش کے ساتھ فریپی چینو پینے والے افراد باتونی اور مہم جو ہوتے ہیں۔ یہ نہایت فیشن ایبل ہوتے ہیں اور اپنے فیشن، اور دیگر اشیا کی نہایت تشہیر کرتے ہیں۔

    آرٹیسن کافی

    مختلف طرح سے سجائی جانے والی کافی کو آرٹیسن کافی کہا جاتا ہے۔ یہ کافی عام طور پر دستیاب نہیں ہوتی اور خصوصی طور پر بنائی جاتی ہے۔ اسے پینے کے شوقین افراد، پینے سے زیادہ اس کی سجاوٹ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

    اکثر و بیشتر اسے پینے والے افراد ہر جدید فیشن کو اپنانا ضروری سمجھتے ہیں قطع نظر اس کے، کہ وہ ان پر جچ رہا ہے یا نہیں۔ اس وجہ سے بعض اوقات وہ بھونڈے بھی نظر آتے ہیں۔

    کافی پیتے ہوئے دیکھنے کا انداز

    جس طرح کافی کی مختلف اقسام پینے والے کی شخصیت کی عکاس ہوتی ہیں، اسی طرح کافی یا چائے پینے کے دوران پینے والا کیا دیکھ رہا ہے، یہ بھی اس کے اندر کے رازوں کو ظاہر کرتا ہے۔

    وہ افراد جو چائے یا کافی پیتے ہوئے اپنے کپ کو دیکھتے ہیں، وہ عموماً سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں، البتہ ہر کام پر مکمل توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ ایسے افراد خیالوں کی دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتے۔

    جو افراد جو چائے پینے کے دوران کپ کے پار کہیں اور دیکھتے ہیں، وہ عموماً لاپرواہ ہوتے ہیں لیکن اپنے ارد گرد کے حالات سے باخبر رہتے ہیں۔

    آنکھیں بند کر کے چائے یا کافی پینے والے افراد عموماً کسی جسمانی یا جذباتی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ تصور کرتے ہیں کہ کافی کی حرارت اور اس کا دھواں ان کی تکلیف کو مندمل کردے گا۔

    آپ کون سی کافی پینا پسند کرتے ہیں؟

  • لاہور لہو لہو: اب تک ہونے والے دہشت گرد واقعات

    لاہور لہو لہو: اب تک ہونے والے دہشت گرد واقعات

    لاہور: ملک بھر میں ایک طویل عرصے سے جاری دہشت گردی نے کوئی شہر ایسا نہ چھوڑا جہاں کے لوگ اپنے پیاروں کی کسی بم دھماکے میں ہلاکت کو نہ روتے ہوں۔ صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور بھی دہشت گردوں کی زد میں رہا ہے اور ان کارروائیوں میں اب تک سینکڑوں لاہوری اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔

    لاہور میں ہونے والے مختلف دھماکوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    فروری 2017: رواں سال کے آغاز کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر اٹھی جس کا نشانہ لاہور بھی بنا۔

    آج صبح لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ایک غیر ملکی ریستوران میں ہونے والے دھماکے میں 8 افراد جاں بحق جبکہ 21 زخمی ہوئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیق کے مطابق بم کو ریستوران کے اندر نصب کیا گیا تھا۔

    دوسری جانب حکومتی عہدیداران مصر ہیں کہ دھماکہ جنریٹر پھٹنے یا تعمیراتی کام کے سبب کسی اور وجہ سے ہوا۔

    کچھ روز قبل بھی 13 فروری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر دھماکہ ہوا تھا جس میں ڈی آئی جی ٹریفک اور ایس ایس پی سمیت 13 افراد شہید اور 70 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

    مارچ 2016: 27 مارچ کو پاکستان کی تاریخ کا خوفناک ترین خود کش دھماکہ گلشن اقبال پارک میں ہوا۔ دھماکہ اتوار کے روز ہوا جب لاہوریوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ چھٹی کا دن گزارنے پارک آئی تھی۔

    خوفناک دھماکے میں بچوں سمیت 71 افراد جاں بحق ہوئے۔

    مارچ 2015: 15 مارچ کو لاہور میں فیروز پور روڈ سے ملحقہ علاقے یوحنا آباد میں کرائسٹ چرچ اور کیتھولک چرچ میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔ خودکش حملہ آور عبادت گاہوں کے اندر جانا چاہتے تھے تاہم دروازے پر روکے جانے کے بعد انہوں نے وہیں خود کو اڑا لیا۔

    دھماکوں کے وقت مسیحی افراد اپنی ہفتہ وار عبادت میں مصروف تھے۔ واقعے میں 15 افراد جاں بحق جبکہ 70 کے قریب زخمی ہوئے۔

    واقعے کے فوری بعد مشتعل ہجوم نے 2 افراد کو ملزم سمجھ کر زندہ جلادیا تاہم بعد ازاں دونوں افراد بے قصور نکلے۔

    فروری 2014: 17 فروری کو لاہور کے علاقے قلعہ گجر سنگھ میں پولیس لائن میں ہونے والے دھماکے میں 7 افراد جاں بحق ہوئے۔

    نومبر 2014: 2 نومبر کو پاک بھارت سرحد واہگہ بارڈر پر خودکش دھماکے میں 73 افراد جاں بحق اور رینجرز اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ دھماکہ اس وقت ہوا تھا جب سرحد پر پرچم اتارنے کی تقریب جاری تھی۔

    جولائی 2013: 6 جولائی کو لاہور کے علاقے پرانے انار کلی میں واقع فوڈ اسٹریٹ پر بم دھماکے میں 5 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔

    اپریل 2012: 24 اپریل کو لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر دھماکہ ہوا جس میں 5 افراد جاں بحق ہوئے۔

    جولائی 2012: 12 جولائی کو 6 سے 8 مسلح حملہ آوروں نے لاہور کے پولیس ٹریننگ ہاسٹل پر حملہ کیا۔ حملے میں 9 پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 8 زخمی ہوگئے۔

    ستمبر 2010: یکم ستمبر کو لاہور یکے بعد دیگرے 3 بم دھماکوں سے گونج اٹھا جس میں 38 افراد جاں بحق اور 300 کے قریب زخمی ہوئے۔ دھماکوں کا ہدف محرم الحرام کا جلوس تھا۔

    جولائی 2010: یکم جولائی کو دہشت گردوں نے لاہور کی پہچان داتا دربار پر خودکش حملہ کیا۔ مزار کے احاطے میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 50 افراد جاں بحق اور 200 زخمی ہوگئے۔

    مارچ 2010: سنہ 2010 میں مارچ کا مہینہ لاہور کے لیے نہایت المناک رہا جس میں 8 اور 12 مارچ کو خوفناک حملے ہوئے۔ 8 مارچ کو شہر کے سخت سیکیورٹی زون میں واقع ایف آئی اے کی عمارت سے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی ٹکرا دی گئی۔

    واقعے میں عام شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق اور 90 زخمی ہوگئے۔

    اسی ماہ کی 12 تاریخ کو رائل آرٹلری بازار کے قریب 2 خودکش حملہ آوروں نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔ حملہ آوروں کا ہدف وہاں سے گزرنے والا سیکیورٹی فورسز کا قافلہ تھا۔

    واقعے میں عام افراد اور 10 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 59 افراد جاں بحق جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے۔

    اسی شام لاہور میں اقبال ٹاؤن مارکیٹ میں بھی کم شدت کے 5 بم دھماکے ہوئے جن میں چند افراد معمولی زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں کا مقصد لرزہ خیز دھماکوں سے سہمی ہوئی عوام کو مزید خوف میں مبتلا کرنا تھا۔

    دسمبر 2009: 7 دسمبر کو علامہ اقبال ٹاؤن کی پرہجوم مون مارکیٹ میں 2 بم دھماکے اور فائرنگ میں 54 افراد جاں بحق ہوئے۔ دہشت گردی کے بدترین واقعے میں 150 افراد زخمی ہوئے۔

    اکتوبر 2009: 15 اکتوبر کو لاہور شہر میں 3 حساس اداروں کی عمارتوں کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں ایف آئی اے، مناواں پولیس ٹریننگ اسکول، اور ایلیٹ پولیس اکیڈمی کی عمارت شامل ہیں۔

    تینوں حملوں میں 38 افراد جاں بحق ہوئے۔

    مئی 2009: 27 مئی کو لاہور میں سٹی پولیس ہیڈ کوارٹر میں بم دھماکے میں 35 افراد جاں بحق اور 250 سے زائد زخمی ہوگئے۔ حملے کی نیت سے داخل ہونے والے تینوں دہشت گرد مارے گئے۔

    مارچ 2009: 3 مارچ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے خاتمے کا وہ سیاہ دن تھا جب اس دن سری لنکن کرکٹ ٹیم کو حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

    مذکورہ روز 12 مسلح افراد نے سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر دہشت گردانہ حملہ کرتے ہوئے شدید فائرنگ کی۔ سری لنکن ٹیم پاکستان سے میچز کی سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان آئی تھی اور واقعے کے روز یہ ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے ہوٹل سے قذافی اسٹیڈیم کی جانب جارہی تھی۔

    حملے میں سری لنکن ٹیم کے 6 کھلاڑی زخمی ہوئے۔ ٹیم کو بچاتے ہوئے 6 پولیس اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ واقعے میں 2 راہ گیر بھی مارے گئے۔

    مارچ 2008: 11 مارچ کو دھماکہ خیز مواد سے بھری دو گاڑیاں لاہور میں ایف آئی اے کی بلڈنگ، اور ایک نجی کمپنی کی عمارت سے جا ٹکرائیں۔ واقعے میں 28 افراد جاں بحق جبکہ 350 سے زائد زخمی ہوئے۔

    زخمیوں میں اسکول کے 40 بچے بھی شامل تھے جو دھماکے کے باعث اسکول بس کے شیشے ٹوٹنے کے نتیجے میں زخمی ہوئے۔

  • مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    آپ نے مغل بادشاہوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا۔ ان کے مزاج، ان کی عادات، ان کے طرز حکمرانی اور طرز زندگی کے بارے میں ہزاروں کی تعداد میں دستاویز موجود ہیں جو ان کی زندگی کے ایک پہلو پہلو کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔

    لیکن آج ہم جن مغل بادشاہوں کا آپ سے تعارف کروانے جارہے ہیں، وہ آپ کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے۔ یا یوں کہہ لیجیئے، بادشاہ تو وہی ہوں گے جن کے بارے میں ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں، لیکن جس انداز میں آپ انہیں دیکھیں گے وہ بہت انوکھا اور اچھنبے میں ڈال دینے والا ہوگا۔

    کیا آپ نے کبھی کسی مغل بادشاہ کو شاہی لباس میں، تمام سازو سامان اور زیورات سے آراستہ سائیکل چلاتے سنا ہے؟ یا آپ نے سنا ہے کہ مغل بادشاہ پتنگ بازی کر رہے ہوں، لیکن ان کے ہاتھ میں موجود ڈور کے دوسرے سرے پر پتنگ کے بجائے کوئی زندہ جیتی جاگتی مچھلی موجود ہو جو ہوا میں اڑ رہی ہو؟

    یہ سب سننے میں تخیلاتی اور تصوراتی لگے گا، اور اگر یہ سب کسی تصویر کی صورت آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو آپ کو بھی اسی تصوراتی دنیا میں کھینچ کر لے جائے گا۔

    لیکن ذرا رکیے، اس تصوراتی دنیا میں جانے سے پہلے اسے تخلیق کرنے والے سے ملیے۔

    اپنی رنگ برنگی تصوراتی دنیا، اس میں موجود بادشاہوں، ملکاؤں، پھلوں سے لدے درخت اور سبزے کو کینوس پر پیش کرنے والے یہ فنکار محمد عاطف خان ہیں۔

    ماضی کا قصہ بن جانے والے مغل دور کی، عصر حاضر کی ایجادات و خیالات کے ساتھ آمیزش کرنے والے عاطف خان کا خیال ہے کہ ان کے یہ فن پارے اس نظریے کی نفی کرتی ہیں کہ نئے دور سے مطابقت کرنے کے لیے پرانی اشیا کو ختم کر دیا جائے۔

    یہی نہیں بلکہ یہ اس بات کا بھی واضح ثبوت ہیں کہ دونوں وقت نہ صرف ایک ساتھ پا بہ سفر ہو سکتے ہیں، بلکہ اگر انہیں خوبصورتی سے برتا جائے تو یہ بے ڈھب بھی معلوم نہیں ہوں گے۔

    تخیلاتی دنیا میں رہنے والا مصور

    صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیدا ہونے والے عاطف خان نے پاکستان کے مشہور زمانہ نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی۔ وہ اب تک پاکستان کے مختلف شہروں اور برطانیہ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، اردن، متحدہ عرب امارات اور بھارت میں اپنی مصوری کی کامیاب نمائشیں منعقد کر چکے ہیں۔

    عاطف خان اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ایش برگ برسری ایکسچینج پروگرام میں بھی منتخب کیے گئے جبکہ اردن، ویلز، لندن اور گلاسکو میں آرٹ کے مختلف پروگرامز میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔

    سنہ 2007 میں انہیں کامن ویلتھ آرٹس اینڈ کرافٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فی الحال وہ اپنی مادر علمی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

    فن و مصوری کے میدان میں عاطف خان چینی فنکار آئی وی وی اور برطانوی فنکار انیش کپور سے بے حد متاثر ہیں۔ پاکستانی فنکاروں میں انہیں عمران قریشی کا کام پسند ہے۔

    مغل دور اور تصاویر کی ری سائیکلنگ

    عاطف خان کہتے ہیں، ’مغل دور (یا یوں کہہ لیجیئے کہ کسی بھی قدیم دور) کو اپنی مصوری میں پیش کرنے سے میرا کینوس وقت کی قید سے ماورا ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھنے والوں کو بھی زمان و مکان کی قید سے آزاد کر کے ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے‘۔

    وہ مانتے ہیں کہ ان فن پاروں کو دیکھنے والوں کا ایک تصوراتی دنیا میں قدم رکھنا لازمی ہے، ’کیونکہ اگر وہ کسی ٹائم مشین کے ذریعے مغل دور میں پہنچ بھی گئے، تب بھی وہ مغلوں کو یہ سب کرتے نہیں دیکھ سکتے جو ان تصاویر میں دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ درحقیقت اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں‘۔

    خان کہتے ہیں کہ یہ مناظر تصوراتی ہونے کے ساتھ ان میں موجود کردار بھی فرضی ہیں۔ ’گو یہ پرانے دور کے حقیقی بادشاہوں سے ماخوذ تو ضرور ہیں، مگر فرضی ہیں‘۔

    ان کی تخلیق کردہ تصاویر میں صرف مغل بادشاہ ہی نہیں، بلکہ ملکہ برطانیہ الزبتھ کا عکس بھی ملتا ہے جبکہ ایک اور جگہ ایک ملکہ میں آپ ملکہ نور جہاں سے مشابہت دیکھ سکتے ہیں۔

    عاطف خان اپنے تخلیق کردہ فن پاروں کو مختلف تصاویر کی ’ری سائیکلنگ‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ ہر فن پارے میں وہ مختلف تصاویر کے مختلف پہلوؤں کو شامل کر لیتے ہیں۔

    انہوں نے مغل دور کی وہ تصاویر جو کسی اور نے بنائی تھیں، پاکستانی ٹرک آرٹ، یہاں تک کہ کتابوں، پوسٹرز اور کرنسی نوٹوں تک پر چھپے نقوش کی اپنی تصاویر میں آمیزش کردی۔ اب خان کے مطابق یہ فن پارے نئے سرے سے تخلیق ہو کر نئے مطالب وا کرتے ہیں۔

    امریکا کی ایک آرٹ کی نقاد لیزا پول مین نے اپنے ایک مضمون میں عاطف خان کے فن کے بارے میں لکھا، ’برصغیر کے مغل بادشاہوں کی رنگ برنگی تصویر کشی فنکار کے دل کی رنگین دنیا کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کا فن ماضی کے کرداروں سے ابھرا ہے‘۔

    لاشعور کی رنگین دنیا

    خان کی تخلیق کردہ دنیا انوکھی، غیر معمولی یا کسی حد تک عجیب و غریب اور منفرد تو ضرور ہے مگر جمالیاتی اعتبار سے نہایت خوبصورت ہے۔

    وہ ایک تخیلاتی شہر میں رہتے ہیں جو مغلوں کے دور جیسا ہے اور نہایت سر سبز ہے۔ ان کے فن پاروں میں گھنے جنگلات، سر سبز باغات، رنگ برنگی بھول بھلیاں، خوشنما پرندے، رنگین مچھلیاں اور خوبصورت بادل نظر آتے ہیں۔

    دراصل خان کا یہ شہر اس تحریک سے ابھرا ہے جو ان کے لاشعور نے ان کی قوت تخیل کو دی۔ بعض غیر ملکی ناقدین فن نے ان کے آرٹ کو سریئل ازم آرٹ قرار دیا۔ آرٹ کی یہ قسم 1920 کی اوائل میں اس وقت سامنے آئی جب فن و ادب میں لاشعور کو شعور میں لا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تحریک چلی۔

    اس تحریک کے تحت جو آرٹ سامنے آیا اس میں زیادہ تر تحیر العقل (عموماً لاشعور کی پیدا کردہ) دو متضاد چیزوں کو ملا کر پیش کیا گیا۔

    لاشعور پر کام کرنے والی ایک امریکی پروفیسر ڈاکٹر میگی این بوورز کہتی ہیں، ’سریئل ازم اور جادو یا جادوئی حقیقت دو مختلف چیزیں ہیں۔ سریئل ازم کا مادی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق لاشعور، تصور اور تخیل سے ہے اور یہ انسانی نفسیات اور کسی انسان کے ’لاشعور کی زندگی‘ کو بیان کرتی ہے۔

    گویا عاطف خان کے لاشعور میں بسا شہر، ماضی اور حال کے تضاد کے ساتھ ایک دنگ کردینے والی صورت میں سامنے آتا ہے۔

    آئیے ہم بھی ان کے ساتھ ان کے لاشعور کے شہر میں قدم رکھتے ہیں۔

    لینڈ اسکیپ آف دا ہارٹ نامی پینٹنگ سیریز میں ایک بادشاہ اپنے شاہی لباس میں ملبوس دل پر سوار ہو کر کسی شے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جس تالاب میں اس بادشاہ کی کشتی (دل) تیر رہی ہے وہ دراصل خون ہے۔

    ایک اورفن پارے ڈیپ ڈریم میں شیش محل کی طرز پر ایک باغ دکھایا گیا ہے جس میں بادشاہ تیر اندازی کر رہا ہے۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ شیش محل کی مخصوص آئینہ کاری کے سبب باشاہ کے تیر کی زد میں خود اس کا اپنا ہی عکس ہے۔

    منفرد فنکار کی ایک اور پینٹنگ میں ایک پل پر ایک رقاصہ محو رقص ہے اور ذرا سے فاصلے پر بادشاہ ایک جدید کیمرہ ہاتھ میں لیے اس کی تصویر کھینچ رہا ہے۔ حال اور ماضی کے تضاد کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی۔۔

    ایک اور تصویر میں مغل بادشاہ پا بہ سفر ہے۔ اس تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ بادشاہ کا پورا سفر اسی ایک فن پارے میں بیان ہوجاتا ہے۔

    اس کا پیدل، سائیکل پر یا دل نما کشتی پر سفر کرنا، جبکہ اسی فن پارے میں آس پاس جنگلات، پہاڑ، ان میں موجود جانور، پانی اور آبی حیات، حتیٰ کہ آسمان پر اڑتے پرندے بھی نہایت ترتیب اور خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔

    ایک اور خوبصورت فن پارے میں مغل بادشاہ شکار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی فن پارے میں آپ کو جدید لاہور کا پورا نقشہ نظر آتا ہے جہاں پر مغل بادشاہ اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر محو سفر ہے۔

    کئی فن پاروں میں بادشاہ مچھلی پر سواری کرتا ہوا، یا اسے پتنگ بنا کر ہوا میں اڑاتا ہوا دکھائی دے گا۔

    جن پینٹنگز میں عاطف خان نے تاریخی عمارتوں کو پیش کیا ہے یا علامتی طور پر مغلوں سے تعلق رکھنے والے باغات اور محل دکھائے ہیں، ان فن پاروں میں انہوں نے مغل دور کے فن تعمیر اور روایتی بصری آرٹ کو یکجا کردیا ہے۔

    ان کے فن پاروں کی یہ خاصیت بھی ہے کہ وہ اپنے اندر بہت وسعت رکھتے ہیں اور ایک فن پارہ ایک خیال کے مختلف مراحل، اور کئی جہتوں کو بیان کرتا ہے۔

    شہر در شہر

    صرف ایک یہ مغل تصویر کشی ہی نہیں، عاطف خان کی انفرادیت کا ایک اور ثبوت ان کا وہ شہر ہے جو لاہور کے بیچوں بیچ کبوتروں کے لیے قائم ہے۔

    لاہور کے استنبول چوک پر نصب یہ چھوٹا سا شہر بلاشبہ کبوتروں کا شہر کہلایا جاسکتا ہے، اگر کبوتر اسے اپنا گھر سمجھ کر قبول کریں۔

    سنہ 2015 میں کمشنر لاہور، لاہور بنالے فاؤنڈیشن، اور پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی لاہور کی جانب سے اس چوک کی آرائش کے لیے تخلیقی آئیڈیاز طلب کیے گئے تھے۔ عاطف خان نے اس میں اپنا آئیڈیا ’شہر کے اندر شہر‘ بھجوایا جسے پسندیدگی کا درجہ دیتے ہوئے قبول کرلیا گیا، اور عاطف خان نے اس پر کام شروع کردیا۔

    لاہور کا یہ استنبول چوک قدیم ثقافت و تاریخ کا مظہر ہے۔ اس چوک کے اطراف میں لاہور میوزیم، نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنگٹن مارکیٹ، ٹاؤن ہال، جبکہ پاکستانی فن و ادب پر اہم اثرات مرتب کرنے والے شاعروں، مفکروں اور مصنفوں کی مادر علمی گورنمنٹ کالج واقع ہے۔

    اس چوک پر جنگوں کی 3 یادگاریں بھی نصب ہیں۔

    اس چوک کی ایک اور خاص بات یہاں کبوتروں کے وہ غول ہیں جو روزانہ دانہ پانی چگنے کے لیے یہاں اترتے ہیں۔ بقول عاطف خان، یہ لاہوریوں کا اظہار محبت ہے جو وہ کبوتروں کے لیے دانہ اور پانی رکھ کر کرتے ہیں۔

    عاطف خان کا کہنا ہے کہ جب انہیں اس چوک کی سجاوٹ کے بارے میں علم ہوا تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ تضاد آئے، جنگوں کی یادگاریں اور امن کی علامت کبوتر، تاریخی اور جدید عمارتیں۔ گویا یہ چوک حال اور ماضی، اور جنگ اور امن کا دوراہا ہے۔

    چنانچہ ان کبوتروں کے لیے ہی انہوں نے ایک علامتی شہر بنانا شروع کردیا۔

    جب ان سے کمشنر لاہور نے پوچھا، ’کیا آپ کو لگتا ہے کبوتر ان گھروں کو پسند کر کے یہاں رہیں گے؟‘ تو عاطف خان کا جواب تھا، ’ہرگز نہیں! اگر میں ان کبوتروں کی جگہ ہوتا تو شہر سے دور اپنے پرسکون گھونسلوں کو چھوڑ کر کبھی شہر کے بیچوں بیچ، دھویں، آلودگی اور ٹریفک کے شور میں رہنا پسند نہ کرتا‘۔

    نیشنل کالج آف آرٹ میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے عاطف خان کہتے ہیں کہ وہ اپنے طالب علموں سے بھی سیکھتے رہتے ہیں۔ خان فن مصوری میں نئی آنے والی تکنیکوں اور آلات کے استعمال کو برا نہیں سمجھتے۔ بقول ان کے، ان جدید تکنیکوں کے ذریعہ اپنے فن میں نئی جہت پیدا کی جاسکتی ہے۔

    نئے مصوروں کے لیے ان کا پیغام ہے، ’نئے مصوروں کو صبر اور محنت سے کام لینا ہوگا۔ کامیابی کا راستہ کبھی مختصر نہیں ہوتا۔ کامیابی کی منزل پر پہنچنے کے لیے سخت محنت کا طویل راستہ اختیار کرنا ہی پڑتا ہے‘۔

  • صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کو آج ہم سے بچھڑے 30 برس گزر گئے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کا ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے۔

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو

  • بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    کیا آپ جانتے ہیں؟ جس وقت آپ اپنے آرام دہ گھر یا دفتر میں گرما گرم کافی یا کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس وقت دنیا کے کسی کونے میں کوئی بچہ بھوک سے مر جاتا ہے؟

    آپ کے کھانے پینے اور کام کرنے کے دوران ہر 10 سیکنڈ بعد دنیا میں ایک بچہ بھوک سے لڑتا ہوا موت کی وادی میں اتر رہا ہوتا ہے۔ ہر رات جب آپ کھانا کھا کر ایک پرسکون نیند سونے جارہے ہوتے ہیں، آپ کے ارد گرد ہر 8 میں سے 1 شخص بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ پوری دنیا بھر میں 85 کروڑ افراد بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوارک و زراعت ایف اے او کے مطابق اس تشویش ناک حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے، اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    پاکستان ایک ایسا خوش نصیب ملک ہے جو دنیا میں خوراک اگانے والا آٹھواں بڑا ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی بدقسمتی دیکھیں کہ پاکستان کی کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے۔

    ملک میں 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار جبکہ 8 فیصد سے زائد بچے بھوک کے باعث 5 سال سے کم عمری میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    دنیا میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس ساری صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں اور آگے بڑھ کر بھوک کے اس عفریت کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال رابن ہڈ آرمی ہے جو پاکستان اور بھارت سمیت 13 ممالک میں بھوک کے خلاف برسر پیکار ہے۔

    اس ’فوج‘ کی بنیاد کا سہرا نیل گھوش نامی نوجوان کے سر ہے جو پرتگال میں رہائش پذیر تھا۔ وہاں اسی مقصد کے لیے کام کرتے ایک ادارے ’ری فوڈ‘ سے متاثر ہو کر نیل نے ایسا ہی قدم بھارتی عوام کے لیے بھی اٹھانے کا سوچا۔

    ابھی وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسے فیس بک پر اپنے ہم خیال کچھ پاکستانی دوست ٹکرائے۔ اور پھر ان سب نے بیک وقت پاکستان اور بھارت میں بھوک مٹانے کے اس سفر کا آغاز کیا۔

    مستحق افراد کو کھانا پہنچانے اور بھوک کو ختم کرنے کا عزم لیے اس تحریک کا آغاز ڈھائی سال قبل اس دن سے کیا گیا جب ورلڈ کپ 2014 میں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ نئی دہلی اور کراچی میں 6 رضا کاروں نے مختلف ریستورانوں سے کھانا جمع کر کے کچی آبادی کے غریب افراد کا پیٹ بھرا۔

    ان نوجوانوں کا مقصد اور طریقہ کار بہت سادہ تھا۔ مختلف ریستورانوں اور ہوٹلوں سے بچ جانے والا کھانا جمع کرنا اور انہیں نادار و مستحق افراد میں تقسیم کرنا۔ 6 رضا کاروں سے شروع ہونے والی یہ تحریک ڈھائی سال بعد اب 13 ممالک کے 41 شہروں میں پھیل چکی ہے اور اس میں شامل رضاکاروں کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

    اس تحریک کے بانیوں نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے کام، اس کے طریقہ کار اور تجربے کے بارے میں بتایا۔

    تحریک کا نام غریبوں کے ہمدرد لٹیرے رابن ہڈ کے نام پر کیوں رکھا گیا؟ اس سوال کے جواب میں نیل گھوش کا کہنا تھا کہ انگریزی تخیلاتی کردار رابن ہڈ امیروں کو لوٹ کر غریبوں کو بخش دیا کرتا تھا۔

    جب انہوں نے اس کام آغاز کیا تو وہ اس بات پر افسردہ تھے کہ خوارک کی ایک بڑی مقدار کو ضائع کردیا جاتا ہے۔ ریستوران، ہوٹل اور خصوصاً شادیوں میں بے تحاشہ کھانا ضائع کیا جاتا ہے جو ہزاروں افراد کا پیٹ بھر سکتا ہے۔

    خوشحال افراد کے ضائع شدہ اسی کھانے کو کام میں لا کر غریب اور مستحق افراد کے پیٹ بھرنے کا خیال رابن ہڈ کے نظریے سے کسی قدر ملتا جلتا ہے، لہٰذا اس تحریک کو رابن ہڈ آرمی کا نام دیا گیا۔ تحریک میں شامل رضا کاروں کو بھی رابنز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    کس طریقہ کار کے تحت اس کھانے کو مستحق افراد تک پہنچایا جاتا ہے؟ اس بارے میں تحریک کے ایک اور بانی رکن نے بتایا کہ آرمی میں شامل ہر رضا کار کو کچھ مخصوص ریستوران اور اسی علاقے کی قریبی غریب آبادیوں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔

    ہر رضا کار اکیلا، یا 2 سے 3 کی تعداد میں اپنے طے کردہ ریستوران سے کھانا جمع کرتے ہیں، (جو ان کے لیے پہلے سے تیار رکھا ہوتا ہے) اس کے بعد وہ انہیں قریب میں موجود مستحق افراد تک پہنچا دیتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ تحریک کسی قسم کی چندے یا عطیات کی محتاج نہیں۔

    ابتدا میں انہیں ریستورانوں اور ہوٹلوں کی انتظامیہ کو کھانا دینے کے لیے بہت گفت و شنید کرنی پڑی۔ اب کئی ریستوران خود ہی ان سے رابطہ کر لیتے ہیں کہ وہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو مستحق افراد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کراچی اور لاہور میں بے شمار ریستوران ہیں جو اس کام میں ان کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں۔

    ایک رابن کا کہنا تھا کہ جب وہ کھانا جمع کرتے ہیں تو وہ ہر قسم کی غذا ہوتی ہے۔ پھل، سبزیاں بھی، مرغن اور چکنائی بھرے کھانے اور کیک، مٹھائیاں وغیرہ بھی جو بعض اوقات صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ لیکن وہ کھانے کی غذائیت کو نہیں دیکھتے۔ ’ہمارا مقصد بھوکے افراد کا پیٹ بھرنا ہے، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے بمشکل اپنی زندگی میں کچھ اچھا کھایا ہوگا۔ ایسے میں اگر ان کی صحت اور غذائیت کے بارے میں سوچا جائے تو یہ کھانے سے بھی محروم ہوجائیں گے جو ان کے ساتھ ظلم ہوگا‘۔

    تحریک کے بانی نیل گھوش نے بتایا کہ بھارت میں ان کے رضا کار شادیوں سے بھی بچ جانے والا کھانا جمع کرتے ہیں اور ان دنوں میں ان کی مصرفیات بے تحاشہ بڑھ جاتی ہیں جب شادیوں کا موسم چل رہا ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے ان کے رضا کار آدھی رات کو بھی کھانا جمع کرنے پہنچتے ہیں اور اسی وقت مستحق آبادیوں میں تقسیم کر دیتے ہیں تاکہ صبح تک یہ کھانا خراب نہ ہوجائے۔

    نیل نے بتایا کہ بھارت میں عموماً بہت پر تعیش شادیاں منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں ضائع ہونے والے کھانے کا شمار کرنا نا ممکن ہے۔ ایک بار حیدرآباد دکن میں ایک شادی سے بچ جانے والے کھانے سے 970 غریب افراد کو کھانا کھلایا گیا۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    اس تحریک سے منسلک رابنز کا کہنا ہے کہ جب وہ کھانا لے کر انہیں مستحق افراد تک پہنچانے جاتے ہیں تو انہیں ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی ملتا ہے اور تب ان پر زندگی ایک نئے پہلو سے ظاہر ہوتی ہے۔

    کھانے کا انتظار کرنے والے غریب بچے بے حد خوشی، محبت اور شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں جبکہ بڑے انہیں دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ یہ سب انہیں خوشی تو فراہم کرتا ہے لیکن وہ دنیا میں وسائل کی غیر مصنفانہ تقسیم اور انسانی غیر ذمہ داری اور چشم پوشی کے بارے میں سوچ کر افسردہ ہوجاتے ہیں۔

    رابن ہڈ آرمی پاکستان میں اس وقت کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سرگرم ہے جبکہ بھارت کے کئی شہروں میں کام کر رہی ہے۔

    یہ رضا کار اب ان غریب علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر اسکول قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہ غریب بچے اپنی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہو سکیں۔

  • خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    جس طرح دنیا کا کوئی شعبہ اب خواتین کی کامیاب شمولیت سے مبرا نہیں، اسی طرح خواتین خلا میں بھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکی ہیں۔ آج اکیسویں صدی میں جب کئی پسماندہ ممالک میں خواتین اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں، ترقی یافتہ ممالک کی خواتین خلا تک کو تسخیر کر چکی ہیں۔

    امریکا کا خلائی ادارہ ناسا اپنے خلائی مشنز میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اولیت دیتا ہے۔ ناسا نے آج سے 38 سال قبل اپنے ادارے میں خواتین کے ایک گروپ کو ملازمت دی جن میں سے ایک نے بعد ازاں خلا میں جانے والی پہلی امریکی خاتون کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    روس اس سے پہلے ہی بازی لے جا چکا تھا۔ 60 کی دہائی میں جب روس اور امریکا خلا کو تسخیر کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں تھے، تب روس نے ویلینٹینا ٹریشکووا کو خلا میں بھیج کر پہلی خاتون خلا باز بھیجنے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔

    دنیا کی پہلی خاتون خلا باز

    ڈاکٹر ویلینٹینا نے جب خلا کی طرف اپنا پہلا سفر کیا اس وقت وہ صرف 26 برس کی تھیں۔ انہوں نے 3 دن خلا میں گزارے اور اس دوران 48 مرتبہ زمین کے گرد چکر لگایا۔

    ان کا خلائی جہاز ووسٹوک 6 ایک منظم خلائی پروگرام کا حصہ تھا جس کے تحت خلا کی مختلف تصاویر اور معلومات حاصل کی گئیں۔

    پہلی امریکی خاتون خلا باز

    ویلینٹینا کے خلا میں سفر کے 20 برس بعد سنہ 1983 میں امریکا کی سیلی رائڈ نے خلا میں سفر کر کے پہلی امریکی خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    ان کا سفر اس لیے بھی منفرد رہا کہ ویلینٹینا کے برعکس انہوں نے خلائی جہاز سے باہر نکل خلا کی فضا میں چہل قدمی بھی کی جسے اسپیس واک کا نام دیا جاتا ہے۔

    پہلی افریقی خاتون خلا باز

    سنہ 1992 میں مے جیمیسن نامی افریقی نژاد خاتون خلا میں جانے والی پہلی افریقی خاتون بن گئیں۔

    مے نے 8 دن خلا میں گزارے۔

    پہلی ایشیائی خاتون خلا باز

    کسی ایشیائی ملک سے کسی خاتون کا پہلی بار خلا میں جانے کا اعزاز سنہ 1994 میں جاپان نے اپنے نام کیا۔ پہلی ایشیائی اور جاپانی خاتون خلا باز چکائی مکائی تھیں جنہوں نے خلا میں 23 دن گزارے۔

    وہ اس سے قبل طب کے شعبہ سے وابستہ تھیں اور کارڈیو ویسکیولر سرجری کی تعلیم مکمل کر چکی تھیں۔

    پہلی خاتون خلائی پائلٹ

    اس سے قبل خلا میں جانے والی تمام خواتین نے خلائی جہاز کے اندر مختلف تکنیکی و تحقیقاتی امور انجام دیے تھے تاہم سنہ 1995 میں ایلن کولنز وہ پہلی خاتون بن گئیں جنہوں نے پہلا خلائی جہاز اڑانے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    وہ اس سے قبل امریکی فضائیہ میں بھی بطور پائلٹ اپنی خدمات سر انجام دے چکی تھیں۔

    پہلی بھارتی خاتون خلا باز

    کلپنا چاولہ خلا میں جانے والی پہلی بھارتی خاتون ہیں۔ وہ سنہ 1997 میں پہلی بار ناسا کے خلائی مشن کے ساتھ خلا میں گئیں۔

    سنہ 2003 میں جب وہ اپنے دوسرے خلائی سفر کے لیے روانہ ہوئیں تو ان کا خلائی جہاز تکنیکی پیچیدگی کا شکار ہوگیا۔ اس خرابی کو بر وقت ٹھیک نہ کیا جاسکا نتیجتاً واپسی میں جیسے ہی ان کا خلائی جہاز زمین کی حدود میں داخل ہوا اس میں آگ بھڑک اٹھی اور کلپنا سمیت اس میں موجود ساتوں خلا باز مارے گئے۔

    خلا میں جانے کے بعد خواتین پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

    خواتین کو خلا میں بھیجنے سے قبل اس بات پر کافی عرصہ تک بحث جاری رہی کہ خلا میں جانے کے بعد ان پر کیا جسمانی و نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔ سنہ 1963 میں جب ووسٹوک 6 کو لانچ کیا گیا جو پہلی بار کسی خاتون کو خلا میں لے کر جارہا تھا، تب اس میں جسمانی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی آلات نصب تھے۔

    پہلی خاتون خلا باز ڈاکٹر ویلینٹینا کی واپسی کے بعد دیکھا گیا کہ خلا میں خواتین پر کم و بیش وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو مردوں پر ہوتے ہیں۔ خلا میں کشش ثقل کی غیر موجودگی کا عادی ہونے کے بعد زمین پر واپسی کے بعد بھی خلا بازوں کو توازن برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے جبکہ ان کے وزن میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔

    علاوہ ازیں عارضی طور پر ان کے خون کے سرخ خلیات بننے میں کمی واقع ہوجاتی ہے (جو وقت گزرنے کے ساتھ معمول کے مطابق ہوجاتی ہے)، نظر کی کمزوری یا کسی چیز پر نظر مرکوز کرنے میں مشکل اور سونے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    ماہرین کے مطابق خواتین کے ساتھ ایک اور پیچیدگی یہ پیش آسکتی ہے کہ ماہواری کے ایام میں کشش ثقل نہ ہونے کے باعث خون جسم سے باہر کے بجائے اندر کی طرف بہنے لگے۔ گو کہ ایسا واقعہ آج تک کسی خاتون خلا باز کے ساتھ پیش نہیں آیا تاہم یہ عمل جسم کے اندرونی اعضا کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

    اب تک خلا میں جانے والی خواتین نے خلائی سفر سے قبل عارضی طور پر اپنی ماہواری ایام کو ختم کرنے کو ترجیح دی اور طبی ماہرین کے مطابق اس میں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں۔

    ایک اور پہلو خلا میں حاملہ خواتین کے سفر کا ہے۔ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی جہاز اور اس تمام عمل میں موجود تابکار لہریں حاملہ خواتین کے بچوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین خلا باز حمل کے دوران کسی خلائی سفر کا حصہ نہ بنیں۔