Author: فریحہ فاطمہ

  • زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    کراچی: روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک منفرد نمائش مصوری منعقد کی جارہی ہے جس میں 11 فنکاروں نے اپنے فن پارے پیش کیے ہیں۔

    زندگی اور اس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی اس نمائش میں اپنے فن پارے پیش کرنے والے تخلیق کار نو آموز بھی ہیں، اور تجربہ کار بھی، جو اپنے اندر کے احساسات و خیالات کو پیش کر رہے ہیں۔

    ان فنکاروں نے ایسی ہی ایک نمائش سنہ 2012 میں بھی پیش کی تھی۔ اب یہ فنکار اپنی سوچ کے ارتقا کو پیش کرنے کے لیے ایک بار پھر سے اکٹھے ہوئے ہیں۔

    ان فنکاروں میں عبداللہ قمر، اسد حسین، فہیم راؤ، فراز متین، نبیل مجید، محمد اسمعٰیل، نعمان صدیقی، رابعہ شعیب، راحیلہ ابڑو، سعدیہ جمال اور ایس ایم رضا شامل ہیں۔

    آرٹسٹ ۔ نعمان صدیقی
    آرٹسٹ ۔ محمد اسمعٰیل
    آرٹسٹ ۔ ایس ایم رضا

    ایس ایم رضا اپنی تخلیقات کے بارے میں بتاتے ہیں،  ’ہم جو دیکھتے ہیں وہ ایک فریب نظر ہوتا ہے۔ اس شے کے بارے میں جو سوچتے ہیں وہ دھوکہ ہوتا ہے۔ دراصل اس شے کی حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے اور یہی میں نے اپنے فن میں پیش کیا ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ فہیم راؤ
    آرٹسٹ ۔ سعدیہ جمال

    سعدیہ جمال اپنے فن پارے کے بارے میں کہتی ہیں، ’ہمارے ارد گرد بہت سی اشیا موجود ہیں جنہیں ہم سرسری سی نظر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں۔ کبھی ان کی معنویت پر غور نہیں کرتے۔ ہر خوبصورت شے کے اندر بدصورتی اور ہر بدصورت شے کے اندر کچھ خوبصورتی چھپی ہوتی ہے جو نظر انداز ہوجاتی ہے۔ میں نے اسی معنویت و گہرائی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ عبداللہ قمر
    آرٹسٹ ۔ راحیلہ ابڑو

    راحیلہ ابڑو کا فن پارہ دراصل پانی ہے جو فرش پر پینٹ کیا گیا ہے۔ وہ اپنے اس فن پارے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرتی ہیں، کہ پانی زندگی کے لیے ایک لازمی جزو ہے اور پانی کے بغیر زندگی کا وجود نہیں۔

    آرٹسٹ ۔ اسد حسین
    آرٹسٹ ۔ نبیل مجید

    نبیل مجید کہتے ہیں، ’ہم نے یہ تو سنا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن کبھی ہم نے اس جملے کی معنویت پر غور نہیں کیا۔ کبھی ہم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وہ ’ہاتھ‘ کس شکل میں اور کس کس طرح مرد کو آگے بڑھنے کی طاقت فراہم کرتا ہے‘۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں یہ نمائش 7 فروری تک جاری رہے گی۔

  • خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ

    خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ

    کراچی: دنیا بھر میں خواتین کی 49 فیصد سے بھی زائد آبادی اس بات کی متقاضی ہے کہ انہیں بھی وہ تمام سہولیات و مواقع دیے جائیں جو ان کی صنف مخالف کو حاصل ہیں۔

    جن معاشروں نے خواتین کی اہمیت کو مانتے ہوئے انہیں یکساں مواقع فراہم کیے، ان معاشروں نے اس کا دگنا منافع حاصل کیا۔ انسان کی اس زمین پر آمد سے لے کر جدید دور تک انہی معاشروں نے ترقی کی جن کی خواتین نے وقت کے حساب سے گھروں کے اندر رہتے ہوئے یا باہر نکل کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔

    پاکستان بھی اب ان ممالک میں شامل ہے جہاں کی خواتین کو کسی حد تک اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی آزادی حاصل ہے، لیکن یہ آزادی صرف بڑے شہروں، اور ان شہروں کے بھی ترقی یافتہ علاقوں کو حاصل ہے۔

    پاکستان کے غیر ترقی یافتہ علاقوں، شہروں اور دیہاتوں میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔

    یہاں خواتین کو وہ ماحول و آزادی میسر نہیں جو بڑے شہروں اور ترقی یافتہ علاقوں کی خواتین کو حاصل ہے۔ ترقی یافتہ علاقوں کی خواتین تعلیم بھی حاصل کرتی ہیں، عملی زندگی میں بھی آگے بڑھتی ہیں، اور انہیں تفریح کے بھی تمام مواقع و سہولیات حاصل ہیں۔ لیکن اسی شہر کے پسماندہ علاقوں کی خواتین ان تمام سہولیات سے محروم ہیں۔

    خواتین کی اسی محرومی کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی کے نہایت ہی پسماندہ اور تمام سہولیات سے عاری علاقے ماڑی پور میں ایک ایسا ڈھابہ قائم کیا گیا ہے جو صرف اور صرف خواتین کے لیے ہے۔

    پاکستان میں ڈھابوں پر خواتین کی موجودگی کا تصور کچھ عرصہ قبل سامنے آیا جب پوش علاقوں کی خواتین نے ڈھابوں پر بیٹھ کر اس جگہ سے صرف مردوں کے لیے مخصوص ہونے کا لیبل ہٹا دیا۔ سوشل میڈیا پر شروع کی جانے ’گرلز ایٹ ڈھابہ‘ نامی یہ تحریک خواتین کی خود مختاری کی طرف ایک قدم تھا۔

    لیکن جس ڈھابے کی ہم بات کر رہے ہیں، وہ ان خواتین کے لیے ہے جو اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، کجا کہ وہ خود مختاری کا مطالبہ کریں۔

    کراچی میں ویمن ڈولپمنٹ فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم کی جانب سے قائم کیا گیا یہ ڈھابہ ماڑی پور میں ان خواتین کا مرکز بن چکا ہے جنہیں یا تو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی، یا گھر سے باہر نکلنے کے لیے ان کے ساتھ کسی مرد کی موجودگی لازم ہے، یا پھر وہ خواتین جنہیں کچھ آزادی تو میسر ہے، لیکن ان کے لیے پورے علاقے میں کوئی تفریحی مرکز نہیں۔

    دراصل اس طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی کہ گھروں میں رہنے والی خواتین کو بھی ذہنی سکون و تفریح کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

    ڈھابے پر آنے والی ایک خاتون بختیار کہتی ہیں، ’یہ ڈھابہ ہمیں تفریح کا موقع تو فراہم کرتا ہے، لیکن اس ڈھابے سے اپنائیت کا احساس اس لیے بھی ہوتا ہے کہ یہ صرف ہمارے لیے قائم کیا گیا ہے۔ کسی نے تو ہمیں بھی کچھ سمجھا، اور ہمارے بارے میں سوچا۔ کسی کو تو خیال آیا کہ عورتوں کو بھی تفریح کی ضرورت ہے‘۔

    ڈھابے پر آنے والی بختیار

    ویمن ڈھابے یا خواتین ڈھابے پر چائے اور کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ لوڈو اور کیرم بھی رکھا گیا ہے جسے کھیل کر خواتین اپنے فرصت کے لمحات کو گزارتی ہیں۔

    اپنی نوعیت کا یہ منفرد ڈھابہ نہ صرف ان خواتین کو صحت مند تفریح فراہم کر رہا ہے، بلکہ یہاں خواتین کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

    مذکورہ خاتون بختیار بھی سلائی کڑھائی میں ماہر ہیں، اور ڈھابے پر بیٹھ کر وہ وہاں موجود کئی لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کے پیچ و خم بھی سکھاتی ہیں۔

    ان خواتین کی انفرادی کوششوں کے علاوہ ڈھابے کی انتظامیہ کی جانب سے بھی ایسی صحت مند سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں جن سے ان خواتین کی تعلیم و تربیت کا سامان بھی ہوجاتا ہے، جیسے دستاویزی فلمیں دکھانا، کسی کتاب کا مطالعہ، یا انہیں ہنر مند بنانے والی کسی سرگرمی کی کلاسیں وغیرہ۔

    ویمن ڈولپمنٹ فاؤنڈیشن کی صدر صبیحہ شاہ نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس ڈھابے کو قائم کرنے کا مقصد ان خواتین کو سکون کے چند لمحات فراہم کرنا ہیں جو کوئی تفریحی سرگرمی نہ ہونے کے باعث ایک گھٹن زدہ زندگی گزار رہی تھیں۔ ’گھروں میں کام کاج اور اپنے گھر والوں کے آرام کا خیال رکھنے کے بعد ان خواتین کو بھی ضرورت تھی کہ ان کی تفریح طبع یا ذہنی سکون کے لیے کوئی مقام ہو جہاں وہ جا سکیں‘۔

    وہ بتاتی ہیں کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ماڑی پور میں بھی حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ’اب لڑکیاں اسکول بھی جاتی ہیں، اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اگر چاہیں تو چھوٹی موٹی ملازمت بھی کر سکتی ہیں، جس کا تصور بھی صرف چند سال پہلے تک ناممکن تھا‘۔

    ڈھابے کی روح رواں صبیحہ شاہ

    صبیحہ اور ان کی ٹیم نے ڈھابے کے ساتھ ریڈنگ کارنر بھی قائم کیا ہے جہاں اسکول کے بچے اور بچیاں نہ صرف مطالعہ کر سکتے ہیں بلکہ وہاں موجود کمپیوٹر اور مفت انٹرنیٹ کی سہولت سے وہ ترقی یافتہ دنیا سے بھی جڑ سکتے ہیں۔

    علاقے کے افراد کیا اپنی خواتین کو وہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صبیحہ نے بتایا کہ اس مختصر عرصے میں انہوں نے علاقے کے لوگوں پر اپنا اعتماد قائم کیا ہے۔ ’اس ڈھابے پر آنے کے بعد خواتین کو ذہنی طور پر سکون حاصل ہوا جس کے بعد ان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئی۔ یہی نہیں بلکہ خواتین نے سلائی کڑھائی سمیت کئی مثبت سرگرمیاں شروع کیں جس سے ان کے گھروں کی معیشت کو بھی فائدہ پہنچا‘۔

    ان کے مطابق جب مردوں نے یہ مثبت تبدیلیاں دیکھیں تو وہ جان گئے کہ یہ ڈھابہ واقعتاً خواتین کی بہبود کے لیے نیک نیتی سے قائم کیا گیا ہے لہٰذا وہ بخوشی اپنی عورتوں کو یہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں۔

    ڈھابے پر آنے والی خواتین کا ماننا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ اس ڈھابے کی صورت میں انہیں ایک تفریحی سرگرمی میسر آگئی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ شہر کے دیگر پسماندہ علاقوں میں بھی ایسے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ کم تعلیم یافتہ خواتین کو بھی تفریح کا حق حاصل ہوسکے۔

  • عدنان صدیقی کی بھارتی ویزا ملنے کی تردید

    عدنان صدیقی کی بھارتی ویزا ملنے کی تردید

    چند دن قبل تک خبریں گرم تھیں کہ پاکستانی اداکاروں عدنان صدیقی اور سجل علی کو بھارت کا ویزا جاری ہوگیا ہے اور وہ بہت جلد اپنی بھارتی فلم ’مام‘ کی بقیہ شوٹنگ کے لیے بھارت روانہ ہوجائیں گے لیکن عدنان صدیقی نے ان خبروں کی تردید کردی۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عدنان صدیقی نے کہا کہ ویزا ملنے کی خبریں بھارتی میڈیا کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں، اور انہیں تاحال بھارتی ویزا جاری نہیں ہوا۔

    یاد رہے کہ فلم ’مام‘ ایک معاشرتی موضوع پر مبنی فلم ہے جس میں عدنان صدیقی بھارتی اداکارہ سری دیوی کے شوہر جبکہ سجل علی ان کی سوتیلی بیٹی کے کردار میں نظر آئیں گی۔

    بھارت میں پاکستانی اداکاروں پر پابندی کے حوالے سے عدنان صدیقی کا کہنا تھا کہ پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پابندی لگائی کس نے ہے۔ ’یہ دونوں جانب کی کسی حکومت نے نہیں لگائی بلکہ یہ بھارتی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کی لگائی ہوئی پابندی ہے‘۔

    انہوں نے کہا کہ یہ سب سیاست کا حصہ ہے۔ فی الحال دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں اور خراب حالات میں ایسے ہی فیصلے کیے جاتے ہیں۔

    عدنان صدیقی کو کیا اس سے قبل بھی بالی ووڈ سے کوئی پیشکش موصول ہوئی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں بالی ووڈ سے بے شمار آفرز موصول ہوئی تھیں لیکن وہ ان کے دل کو نہ بھائیں۔

    انہوں نے کہا کہ فلم ’مام‘ کی پیشکش کو قبول کرنے کی وجہ اس کا اسکرپٹ، اس میں شامل سینئر اور منجھے ہوئے بھارتی اداکار، فلم کی نئی ہدایت کارہ اور اے آر رحٰمن کی موسیقی ہے۔ ’اور خود سری دیوی کی موجودگی اور ان کے مقابل ان کے شوہر کا کردار ادا کرنا ایک بڑی وجہ تھی‘۔

    پاکستان میں اپنی مصروفیات کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بے شمار پروجیکٹس کے ساتھ ساتھ وہ لاہور میں ایک ڈرامے کی شوٹنگ کا آغاز کرنے جارہے ہیں جس میں سنہ 1948 کا دور دکھایا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ عدنان صدیقی سنہ 2007 میں ہالی ووڈ کی فلم ’آ مائٹی ہارٹ‘ میں بھی ایک کردار ادا کر چکے ہیں۔ فلم میں مرکزی کردار اداکارہ انجلینا جولی نے ادا کیا تھا۔

  • گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    پشاور: ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی لہر اور اس کے خلاف مسلح افواج کی جنگ نے جہاں ایک طرف تو ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دی وہیں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے دخلی پر مجبور ہوگئے تھے۔ گو کہ ان میں سے بیشتر افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، لیکن اب ان کے لیے زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ یہاں کی خصوصاً خواتین، جو کبھی آئی ڈی پیز تھیں مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکی ہیں۔

    سنہ 2009 میں شروع کیے جانے والے سوات آپریشن کے باعث 30 لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ اس وقت اندرونی طور پر ہجرت کرنے والے افراد (انٹرنلی ڈس پلیسڈ پرسن) کی سب سے بڑی تعداد تھی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

    یہ لوگ برسوں کا جما جمایا گھر چھوڑ کر خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں وانا، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم کیے جانے والے کیمپوں میں آ بسے اور یہاں سے ان کی زندگی کا ایک تلخ دور شروع ہوا۔

    اپنے علاقوں میں خوشحال اور باعزت زندگی گزارنے والے افراد ایک وقت کی روٹی کے لیے لمبی قطاروں کی خواری اٹھانے اور دھکے کھانے پر مجبور ہوگئے۔ باپردہ خواتین کو بے پردگی کی اذیت سہنی پڑی، اور بچے تعلیم، کھیل اور صحت کی سہولیات سے محروم ہوگئے۔

    یہ وہ حالات تھے جن کا انہوں نے زندگی بھر کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    سنہ 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ یہ آپریشن شمالی وزیرستان، اور فاٹا کے علاقوں میں شروع کیا گیا اور اس بار یہاں کے لوگوں کو دربدری اور ہجرت کا دکھ اٹھانا پڑا۔

    آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں 20 لاکھ کے قریب افراد کو اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ یہ دربدری، بے بسی اور بے چارگی کا ایک اور دور تھا تاہم اس بار انتظامات کچھ بہتر تھے۔

    ایک سال کے اندر ہی متاثرین کی واپسی کا عمل بھی شروع کردیا گیا۔ تمام متاثرین کی حتمی واپسی کے لیے دسمبر 2016 کا وقت دیا گیا تھا تاہم ابھی بھی آپریشن سے متاثر ہونے والے قبائلین کی واپسی کا عمل جاری ہے۔

    کیا واپس جانے والوں کے لیے زندگی پہلے جیسی ہے؟

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ اپنے گھروں کو واپس جانے والوں نے حکومتی امدادی رقم سے اپنے گھر بار تعمیر کر کے نئی زندگی کا آغاز کردیا ہے۔ اکثر کی زندگی آپریشن سے پہلے جتنی خوشحال تو نہیں، تاہم وہ ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔

    لیکن درحقیقت سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہے۔

    مینگورہ کی 29 سالہ خدیجہ بی بی آپریشن سے قبل اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوش باش زندگی گزار رہی تھیں۔ اپنے گھر کو خوبصورتی سے سجائے کبھی انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس گھر کو انہیں چھوڑنا پڑے گا، اور چھوڑنا بھی ایسا جو ان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دے گا۔

    جب آپریشن شروع ہوا تو خدیجہ بی بی اپنا اور اپنے خاندان کا ضروری سامان اٹھائے ڈیرہ اسماعیل خان کے کیمپ میں آ بسیں، لیکن رکیے، وہ بسنا نہیں تھا، وہ تو خدیجہ بی بی کے لیے مجبوری کی حالت میں سر چھپانے کا ایک عارضی ٹھکانہ تھا جو ان کے لیے ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔

    ساری عمر بڑی سی چادر میں خود کو چھپائے خدیجہ بی بی نے بہت کم گھر سے قدم باہر نکالا تھا۔ اگر وہ گھر سے باہر گئی بھی تھیں تو باعزت طریقے سے، اپنے شوہر کے ساتھ باہر گئی تھیں۔ اس طرح بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑی میں لد کر آنے، اور ایک خیمے میں پڑاؤ ڈال لینے کا تو انہوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔

    فوج کی جانب سے فراہم کی جانے والی خوراک اور دیگر اشیا کے لیے قطاروں میں لگنا، چھینا جھپٹی، خوراک کے لیے ہاتھا پائی اور تکرار، اور رہنے کے لیے کپڑے سے بنا ہوا ایک خیمہ جہاں رہ کر صرف انہیں یہ اطمینان تھا کہ کوئی غیر مرد اندر جھانک نہیں سکے گا۔

    ان تمام حالات نے خدیجہ بی بی کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کو بالکل تبدیل کردیا۔ پچھلی زندگی کا سکون، اطمینان اور خوشی خواب و خیال بن گئی۔ بالآخر برا وقت ختم ہوا، ان کے علاقے کو کلیئر قرار دے دیا گیا اور خدیجہ بی بی کے خاندان اور ان جیسے کئی خاندانوں نے واپسی کی راہ اختیار کی، لیکن یہ خوف، بے سکونی اور نفسیاتی الجھنیں اب ان کی زندگی بھر کی ساتھی بن چکی تھیں۔

    اور ایک خدیجہ بی بی پر ہی کیا موقوف، ٹوٹے پھوٹے تباہ حال گھروں کو واپس آنے والا ہر شخص کم و بیش انہی مسائل کا شکار تھا، اور خواتین اور بچے زیادہ ابتر صورتحال میں تھے۔

    واپسی کے بعد بھی زندگی آسان نہیں

    خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم و صحت کے لیے سرگرم ادارے اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ گھروں کو واپس لوٹنے والے آئی ڈی پیز کو صحت کے حوالے سے جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہے صدمہ وہ جو انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے کی وجہ سے سہنا پڑا۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن 2009 میں شروع ہوا جس کے اثرات عام لوگوں کی زندگی میں ابھی تک برقرار ہیں، وہاں کے لوگ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہوچکے ہیں اور اس میں مرد و خواتین سمیت بچے بھی شامل ہیں۔

    اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ کسی ناقابل یقین حادثے یا سانحے کے ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس سانحے کی تلخ یادیں، ان کی وجہ سے مزاج، صحت اور نیند میں تبدیلیاں اور مختلف امراض جیسے سر درد، ڈپریشن یا بے چینی کا شکار ہونا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کہلاتا ہے۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ایک جما جمایا گھر چھوڑ کر، جہاں آپ نے ایک طویل عرصے تک پرسکون زندگی گزاری ہو، کسی انجان مقام پر جا رہنا آسان بات نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے ان آپریشنز نے بھی ان امن پسند لوگوں کو دربدر کردیا جس کے باعث یہ گھر واپسی کے بعد بھی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔

    فطری حاجت کے مسائل

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ان کیمپوں میں رہائش کے دوران قبائلی خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایسے مسائل تھے جن کا کبھی اس سے پہلے انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران ایک آئی ڈی پی کیمپ کے دورے کے دوران انہیں پتہ چلا کہ خواتین کو فطری حاجت سے متعلق بے شمار مسائل ہیں۔ خواتین نے شکایت کی کہ ان کے لیے بنائے گئے واش رومز یا پانی بھرنے کی جگہیں ان کے کیمپوں سے بہت دور تھیں، وہاں پر اندھیرا ہوتا تھا اور بعض اوقات باتھ روم کے دروازوں کی کنڈیاں درست نہیں تھیں۔

    گلالئی کے مطابق ان پردہ دار خواتین کے لیے ایسے غیر محفوظ بیت الخلا کا استعمال مشکل ترین امر تھا، نتیجتاً بے شمار خواتین گردوں کے امراض میں مبتلا ہوگئیں، ہر روز جو ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی تھی وہ الگ تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ان غیر محفوظ باتھ رومز کی وجہ سے جنسی ہراسمنٹ کے بھی بے شمار واقعات پیش آئے۔

    گھریلو تشدد میں اضافہ

    ایک اور مسئلہ جو ان خواتین نے اس دربدری کی زندگی میں سہا، وہ تشدد تھا جو ان کے مردوں نے ان پر کیا۔

    گلالئی کے مطابق انہیں خواتین نے بتایا کہ جب وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں مہاجروں جیسی زندگی گزارنے لگے تو ان کی زندگی سے سکون اور اطمینان کا خاتمہ ہوگیا جس کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ ان کے مردوں نے انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

    خواتین نے بتایا کہ جب مرد کیمپ سے باہر نامساعد حالات سہہ کر آتے تو ان کی فرسٹریشن اور ڈپریشن اپنے عروج پر ہوتی جو انہوں نے اپنی خواتین اور بچوں پر تشدد کر کے نکالنی شروع کردی۔

    بیشتر خواتین نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ اپنے گھروں میں ایک پرسکون زندگی گزارتے تھے تو اس وقت کبھی ان کے مردوں نے ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔

    دماغی و نفسیاتی امراض میں اضافہ

    خیبر پختونخواہ میں معمولی پیمانے پر دماغی صحت کے حوالے سے کام کرنے والے ایک ادارے کے ترجمان کے مطابق مہاجر کیمپوں سے لوٹ کر آنے والے شدید دماغی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق لوگ ہر وقت ایک نامعلوم خوف اور بے چینی کے حصار میں رہنے لگے۔ ان کے لیے راتوں کو سونا مشکل ہوگیا تھا اور وہ ڈر کر اٹھ جایا کرتے تھے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ فطری سخت جانی کے سبب مردوں نے تو ان مسائل پر کسی حد تک قابو پالیا، تاہم خواتین اور بچے مستقل مریض بن گئے۔

    اس حوالے سے گلالئی نے بتایا کہ ایک بار جب انہوں نے بچوں سے ان کی تعلیم کے حوالے سے بات کی، تو بچوں نے انہیں بتایا کہ ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پڑھنے کے دوران ان کے سر میں مستقل درد ہوتا ہے، وہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے، جبکہ رات کو سونے کے دوران بھی انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور وہ ڈر کر اٹھ جاتے ہیں۔

    اور صرف بچے ہی نہیں خواتین بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔ خانہ جنگی نے ان کی نفسیات و مزاج کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور وہ ہنسنا بھی بھول گئی ہیں۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن کے بعد اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ جنگ کے نقصانات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ادارے (ری ہیبلی ٹیشن سینٹر) قائم کیے جاتے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام افراد کو صحت کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں، اس طرح کے اداروں کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔

    پھر سنہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوگیا اور اس بار مختلف قبائلی علاقوں کی بڑی آبادی کو دربدری اور اس کے بعد کم و بیش سوات آپریشن کے متاثرین جیسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ’ہماری پرانی عادت ہے ہم ماضی کے تجربات سے کبھی سبق نہیں سیکھتے‘۔ گلالئی نے کہا۔

    جنگ سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل جاری ہے، اور بہت جلد یہ پھر سے خوشحال اور آباد علاقے بن جائیں گے جہاں شاید پہلے سے جدید سہولیات موجود ہوں، لیکن اس جنگ میں معصوم لوگوں نے جو اپنے پیاروں سے محرومی کے ساتھ ساتھ، اپنی جسمانی و نفسیاتی صحت کا خراج ادا کیا، اس کے اثرات تا عمر باقی رہیں گے۔

  • سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    جیسے جیسے دنیا میں قدرتی آفات و مختلف موسمیاتی عوامل سامنے آرہے ہیں ویسے ویسے ماحولیات کا تحفظ اور موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی بڑھتی جارہی ہے۔

    تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں کلائمٹ چینج کے باعث جن شدید خطرات کا سامنا ہوگا، ان کے مقابلے میں ہمارے اقدامات نہایت معمولی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کو ہنگامی بنیادوں پر کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، بصورت دیگر یہ دنیا کی ترقی، امن اور فلاح کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔

    رواں برس پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس سلسلے میں کیا کیا اقدامات کیے گئے، اور دنیا نے مزید کن ماحولیاتی خطرات کا سامنا کیا، آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    پاکستان ۔ کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سے ایک

    جنوری تا جون

    پاکستانی پارلیمنٹ مکمل طور پر شمسی توانائی پر انحصار کرنے والی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ بن گئی۔

    مارچ میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے سرسبز پاکستان پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت ملک بھر میں 5 سال کے اندر 10 کروڑ درخت لگانے کا ہدف رکھا گیا۔

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) نے قومی پالیسی برائے جنگلات کا حتمی مسودہ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کردیا۔ مسودہ تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

    وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔

    پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 3 سابق فوجی افسران نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں تجویز دی گئی کہ تینوں ممالک مل بیٹھ کر کلائمٹ چینج سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے پائیدار منصوبوں پر کام کریں اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں۔

    انہوں نے متنبہ کیا کہ دوسری صورت میں یہ تینوں ممالک آپس میں مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    جولائی تا دسمبر

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے مطابق شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جس کے باعث چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں 5000 کے قریب گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے۔

    مقامی افراد کے مطابق برفانی پہاڑی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 30 سے اوپر کبھی نہیں گیا لیکن رواں برس یہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

    ڈپٹی کمشنر تھر پارکر ڈاکٹر شہزاد تھیم نے تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد کردی۔

     کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے شہر میں ماحول دشمن درخت کونو کارپس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔

    وفاقی حکومت نے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

    رواں سال پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بدترین دھند دیکھی گئی جسے ماہرین نے اسموگ قرار دیا۔ عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق لاہور میں زہریلی اسموگ کی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلایا جانا تھا جو ایک غیر معمولی عمل تھا۔

    اس فوگ کی وجہ سے مختلف حادثات میں پنجاب میں 15 سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے۔

    لاہور ہائیکورٹ نے بھی حکومت سے اسموگ کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی توثیق کردی جس کے بعد پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا جو دنیا بھر کو موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر عمل کریں گے۔

    پنجاب کے ضلع لیہ کے نواحی علاقے بکھری احمد کے مقام پر دریائے سندھ نے آگے بڑھنا شروع کردیا جس کے بعد ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ دریا کے آگے بڑھنے کے باعث اس مقام پر تیزی کے ساتھ زمین کا کٹاؤ جاری ہے اور زمین دریا برد ہورہی ہے۔

    وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد نے اعلان کیا کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    برطانوی باکسر عامر خان نے سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر میں 200 کنویں بنانے کا اعلان کیا۔

    وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر نایاب پرندے تلور اور ہجرت کر کے آنے والے دیگر پرندوں کے تحفظ و افزائش نسل کے لیے 25 کروڑ روپے جاری کردیے گئے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے مقامی حکومت نے پانی ضائع کرنے والے گھروں پر جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    ٹھٹھہ اور بلوچستان کے ساحل پر غیر معمولی جسامت کی جیلی فش دیکھی گئی جو اس سے قبل پاکستان میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔

    عالمی ادارے جرمن واچ نے گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس 2017 جاری کیا جس میں کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کو ساتویں نمبر پر رکھا گیا۔

    رواں برس آخری عشرے میں تلور کا شکار بھی موضوع بحث رہا۔ قطر سے آنے والے شہزادوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں دل بھر کر تلور کا شکار کیا۔ ان کے جانے کے بعد بھی انہیں شکار کی اجازت دینے کا معاملہ مختلف اداروں اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی کا سبب بن رہا ہے۔

    سائنس آف دی ٹوٹل انوائرنمنٹ نامی جریدے میں شائع کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والی 40 فیصد آبادی پارے (مرکری) کی آلودگی اور اس کے نقصانات کے خطرے کا شکار ہے۔

    دنیا نے کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟

    جنوری تا اپریل

    یورپین خلائی ایجنسی نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے سیٹلائٹ لانچ کردیا۔

    کینیا میں ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے قائم کیے جانے والے فورم ’جائنٹ کلب‘ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں شرکا کی جانب سے زور دیا گیا کہ ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت پر فوری پابندی عائد کی جائے۔

    مئی تا اگست

    متحدہ عرب امارات کی حکومت نے بارشوں میں اضافے کے لیے مصنوعی پہاڑ بنانے کا فیصلہ کیا۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل مکمل طور پر معدوم ہوگئی جس کی سائنسدانوں نے تصدیق کردی۔ یہ کلائمٹ چینج کے باعث معدوم ہونے والا پہلا ممالیہ ہے۔

    دوسری جانب معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کے تحفظ کے لیے نہایت منظم اقدامات اٹھائے گئے جن کے باعث چین میں خطرے کا شکار پانڈا، اور کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آئے۔

    دنیا بھر میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا جس کے بعد عالمی خلائی ادارے ناسا نے متنبہ کیا کہ جنگلات میں لگنے والی آگ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔

    آسٹریلیا کے حکومتی سائنسی ادارے کے مطابق آسٹریلیا نے اپنے جغرافیہ میں ایک میٹر کی تبدیلی کرلی۔

    ماہرین کے مطابق آسٹریلیا اپنی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہر سال 7 سینٹی میٹر شمال کی جانب حرکت کر رہا ہے اور سنہ 2020 تک اس کے جغرافیے میں 1.8 میٹر کی تبدیلی ہوچکی ہوگی۔

    ناروے دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا جہاں ملک بھر میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی۔

    قطب شمالی اور گرین لینڈ میں برف گلابی ہونا شروع ہوگئی۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    ستمبر تا دسمبر

    امریکی صدر بارک اوباما نے بحرالکاہل میں قائم کی گئی سمندری جانداروں کی حفاظتی پناہ گاہ (ریزرو) کو وسیع کرنے کے منصوبے کی منظوری دی جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ بن جائے گی۔ یہاں 7000 آبی جاندار رکھے گئے ہیں جن میں معدومی کے خطرے کا شکار ہوائی کی مونگ سگ ماہی اور سیاہ مونگے شامل ہیں۔

    امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دور میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بے شمار اقدامات کیے اور جانے سے قبل انہوں نے کلائمٹ چینج کو سیاسی ایجنڈے میں شامل کرلیا تھا۔

    انڈونیشیا میں علمائے دین نے جنگل میں جان بوجھ کر لگائی جانے والی آگ کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے اسے حرام قرار دے دیا۔

    عالمی عدالت برائے انصاف نے ماحولیاتی نقصانات سے متعلق کیسوں کی سماعت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    فرانس نے ملک بھر میں پلاسٹک سے بنے برتنوں جیسے کپ، پلیٹ اور کانٹوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    سنہ 1975 میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف منظور ہونے والے معاہدے سائٹس کی کانفرنس میں مختلف ممالک نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کلائمٹ چینج کے باعث وہاں موجود برف پگھل رہی ہے اور اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    سات نومبر کو مراکش میں ماحولیات کی عالمی سالانہ کانفرنس کوپ 22 کا آغاز ہوا۔ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد رواں برس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات اٹھانا تھا۔

    نو نومبر کو امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت کر نئے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کیے جانے والے کاموں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

    صدر ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج بھی کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے تھے۔

    عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او نے فیصلہ کیا کہ وہ اب دنیا بھر میں ماحول دوست مصنوعات پر سرمایہ کاری کرے گا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 24 اہم موسمیاتی مظاہر کا ذکر کیا گیا جو کرہ ارض پر آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں۔

    ایسے موسمیاتی مظاہر کا اس سے پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔

    سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ایک ایسی شارک کو حرکت کرتے دیکھا گیا جس کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ ڈائنو سارز سے بھی پہلے سے ہماری زمین پر موجود ہے۔

    اب تک اس شارک کو کسی نے نہیں دیکھا تھا جس کے باعث یہ شارک ایک تخیلاتی حیثیت اختیار کر گئی تھی اور اس کے بارے میں مصدقہ طور پر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ آیا یہ موجود ہے بھی یا نہیں۔

    فرانس میں دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح کردیا گیا۔

    دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا، براعظم افریقہ کے صحرائے اعظم میں 37 سال بعد برفباری ہوئی۔

    رواں برس دنیا بھر میں فضائی آلودگی میں بھی خطرناک اضافہ دیکھا گیا اور پیرس، میڈرڈ، تہران، نئی دہلی اور لاہور وغیرہ میں تاریخ کی بلند ترین فضائی آلودگی کی شرح ریکارڈ کی گئی۔

  • سال 2016: دنیا پر انمٹ نقوش مرتب کرنے والی خواتین

    سال 2016: دنیا پر انمٹ نقوش مرتب کرنے والی خواتین

    دنیا کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی شمولیت کے بغیر ادھورا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں یہ بات ایک حقیقت بن چکی ہے جب ہمیں ایسے شعبوں میں بھی خواتین نظر آتی ہیں جنہیں اس سے پہلے صرف مردوں کے لیے ہی مخصوص سمجھا جاتا تھا۔

    سال 2016 میں کئی پاکستانی خواتین نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ترقی یافتہ شہروں سے لے کر پسماندہ اور روایت پسند علاقوں تک کئی خواتین اپنے عزم و حوصلے کے سبب دنیا کی نظروں کا مرکز بنیں اور یہ پیغام دیا کہ وقت بدل رہا ہے، خواتین کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنے والوں کو اب اپنا ذہن بدلنا ہوگا۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سال کن خواتین نے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کیا۔


    حوصلے اور انتھک جدوجہد کی مثال پاکستانی خواتین

    پاکستانی نژاد خاتون نرگس ماولہ والا نے اس وقت پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا جب انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ خلا میں کشش ثقل کی لہروں کی نشاندہی کرنے کا کارنامہ انجام دے ڈالا۔

    فروری کی ایک روشن صبح پاکستان کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ شخصیت شرمین عبید چنائے دوسرا آسکر ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ان کی ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ’آ گرل ان دی ریور ۔ پرائس آف فورگیونیس‘ غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بنائی گئی جس نے پاکستانی قوانین پر بھی واضح اثرات مرتب کیے۔

    ساؤتھ ایشین گیمز 2016 میں دو پاکستانی لڑکیاں رخسانہ اور صوفیہ پاکستان کے لیے باکسنگ کے میدان میں میڈلز جیتنے والی اولین خواتین بن گئیں۔

    اپریل میں پاک نیوی کی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ذکیہ جمالی پاکستان نیوی کی پہلی کمیشن آفیسر بن گئیں۔

    اسی ماہ سوات سے تعلق رکھنے والی تبسم عدنان کو خواتین کے حقوق کے لیے انتھک جدوجہد پر کولمبیا میں نیلسن منڈیلا ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    پاکستان کی پہلی خاتون شوٹر مناہل سہیل نے ریو اولمپکس 2016 میں حصہ لیا۔

    کوئٹہ کے اسلامیہ گرلز کالج میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورینہ شاہ نے اس وقت ملک بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی جب علم فلکیات پر اپنے مطالعے اور تجزیے کے باعث اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دنیا بھر کے ماہرین فلکیات نے ان کی مہارت کو سراہا۔

    اگست میں ہونے والے ریو اولمپکس کے مقابلوں میں پاکستانی نژاد مادیہ غفور نے یوں تو نیدر لینڈز کی نمائندگی کی، تاہم وہ اولمپک مقابلوں میں شریک ہونے والی پہلی بلوچ خاتون کھلاڑی تھی۔

    اگست میں ہی 2 پائلٹ بہنوں مریم مسعود اور ارم مسعود نے بطور کو پائلٹ بیک وقت 777 بوئنگ طیارے اڑا کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔

    ستمبر میں پاکستانی طالبہ شوانہ شاہ کو امریکا میں محمد علی ہیومنٹیرین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شوانہ شاہ سنہ 2012 سے معاشرے کی پسماندہ خواتین کی بحالی، ان پر تشدد اور جنسی ہراسمنٹ کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

    اسی ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ منعقد کیے جانے والے گلوبل گولز ایوارڈز میں ایک پاکستانی ادارے ’ڈاکٹ ۔ ہرز‘ نے بہترین اور کامیاب کوشش کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔ یہ ادارہ پسماندہ علاقوں کی خواتین کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    پاکستانی خاتون ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا۔ اس عہدے کی دوڑ میں کل 6 امیدواروں میں صرف 2 خواتین شامل تھیں جن میں سے ایک ڈاکٹر ثانیہ نشتر تھیں۔

    اکتوبر میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والی نویں جماعت کی طالبہ حدیقہ بشیر کو ایشیائی لڑکیوں کے حقوق کی سفیر کا ایوارڈ دیا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی لڑکی ہیں۔

    چودہ سال قبل اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی اس وقت ایک بار پھر سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں جب فیشن پاکستان ویک 2016 میں انہوں نے ریمپ پر واک کی۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف خواتین کو بااختیار بنانے کے اقدام کی حمایت کرنا تھا، بلکہ لوگوں کی توجہ ریپ جیسے گھناؤنے جرم کی طرف دلانا بھی تھا۔

    نومبر میں پاکستان کی ڈیجیٹل حقوق فاؤنڈیشن کی بانی نگہت داد کو ہالینڈ حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کے ٹیولپ ایوارڈ 2016 سے نوازا گیا۔

    اسی ماہ سوات سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیوں گلالئی اسمعٰیل اور صبا اسمعٰیل کے قائم کردہ سماجی ادارے ’اویئر گرلز‘ کو سابق فرانسیسی صدر سے منسوب شیراک پرائز سے نوازا گیا۔ اویئر گرلز گزشتہ 14 سال سے پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم وصحت کے لیے سرگرم عمل ہے۔

    دسمبر میں رافعہ قسیم بیگ بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بننے والی پہلی پاکستانی اور ایشیائی خاتون بن گئیں۔ وہ اس سے قبل خیبر پختونخوا کی پولیس فورس میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔


    ایک اہم سنگ میل

    پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے سب سے اہم اقدام 7 اکتوبر 2016 کو اٹھایا گیا جب پارلیمنٹ میں غیرت کے نام پر قتل اور زنا بالجبر کے واقعات کی روک تھام کا بل منظور کرلیا گیا۔

    ترمیمی بل کے مطابق غیرت کے نام پر قتل فساد فی الارض تصور ہوگا اور صلح یا معافی کے باوجود 25 سال سزائے قید ہوگی۔

    بل میں عصمت دری کے مقدمات میں ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا جبکہ متاثرہ خاتون کی شناخت کسی بھی سطح پر ظاہر نہ کرنے کی شق شامل کی گئی۔


    عالمی سیاست میں خواتین کا کردار

    دنیا بھر میں جہاں کئی شعبوں میں خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، وہیں شعبہ سیاست میں بھی خواتین کی تعداد میں اضافہ نظر آیا اور کئی اہم سیاسی عہدوں پر خواتین کی تقرری عمل میں آئی۔

    مئی میں جرمنی کی ایک ریاستی اسمبلی میں پہلی بار اسپیکر کے عہدے کے لیے مسلمان خاتون مہتریم آراس کو منتخب کیا گیا۔

    اسی ماہ تائیوان میں پہلی خاتون صدر سائی انگ ون کی حکومت کا آغاز ہوا۔

    جون میں ورجینیا راگی روم کی تاریخ میں ڈھائی سو سال بعد خاتون میئر منتخب ہوئیں۔

    جولائی میں تھریسا مے نے برطانوی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ آئرن لیڈی کہلائی جانے والی مارگریٹ تھیچر کے بعد وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی دوسری خاتون ہیں۔

    اگست میں ٹوکیو کی عوام نے اپنی پہلی خاتون گورنر یوریکو کوئیکے کا انتخاب کیا۔ اس سے قبل وہ ملک کی پہلی خاتون وزیر دفاع بھی رہ چکی تھیں۔

    امریکا میں رواں برس ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے سابق خاتون اول اور سابق سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن بھی میدان میں کھڑی ہوئیں، لیکن قسمت نے اس بار بھی ان کا ساتھ نہ دیا۔

    وہ اس سے قبل سنہ 2008 میں بھی بارک اوباما کے مدمقابل بطور صدارتی امیدوار کھڑی ہوئی تھیں۔ گو کہ وہ امریکا کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار تو نہ تھیں، تاہم اگر وہ صدر منتخب ہوجاتیں، جس کے امکانات بہت زیادہ تھے، تو وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر کہلاتیں۔

    صومالیہ میں سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ایک خاتون فڈومو ڈیب بھی امیدوار ہیں۔ اگر وہ صدر منتخب ہوگئیں تو صومالیہ کی پہلی خاتون صدر کہلائی جائیں گی۔


    دیگر اہم واقعات

    ریو اولمپکس 2016 میں امریکی ایتھلیٹ ابتہاج محمد وہ پہلی امریکی مسلمان خاتون بنیں جنہوں نے باحجاب ہو کر کھیلوں میں شرکت کی۔ ریو 2016 میں انہوں نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔

    بھارت میں تیزاب گردی کا شکار ریشما قریشی نے نیویارک فیشن ویک میں ریمپ پر واک کر کے یہ پیغام دیا کہ تیزاب سے مسخ ہوجانے والے چہروں کو بھی زندگی جینے کا حق ہے۔

    داعش کی خوفناک قید سے جان بچا کر بھاگ آنے والی کرد خاتون 23 سالہ نادیہ مراد طحہٰ کو اقوام متحدہ کا خیر سگالی سفیر مقرر کیا گیا اور انہیں یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے سخاروف انعام سے نوازا گیا۔

    بھارت کی مشہور درگاہ حاجی علی میں خواتین کے داخلے پر عائد پابندی 4 سال بعد ختم کردی گئی۔

    سعودی شہزادے ولید بن طلال نے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر ایک طویل عرصے سے عائد پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔

    امریکا کی کیسنڈرا ڈی پیکول نامی سیاح نے دنیا کے تمام ممالک کی سیاحت کرنے والی واحد خاتون کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔

  • پاکستانی سماجی تنظیم کے لیے اعلیٰ فرانسیسی اعزاز

    پاکستانی سماجی تنظیم کے لیے اعلیٰ فرانسیسی اعزاز

    پیرس: صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے سرگرم عمل تنظیم اویئر گرلز کو فرانس میں شیراک پرائز سے نوازا گیا۔ یہ انعام ان اداروں یا افراد کو دیا جاتا ہے جو تنازعات کا شکار علاقوں میں اپنی جانوں پر کھیل کر قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

    فرانس کے سابق صدر جیکس شیراک کے نام سے منسوب یہ پرائز رواں برس پاکستانی تنظیم اویئر گرلز اور ایک موسیقار طائفے پونٹینیما کوئر کو دیا گیا۔ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں پر مشتمل یہ طائفہ بوسنیا ہرزگوینیا میں تمام طبقوں کی روایتی موسیقی کو پیش کرتا ہے۔

    دوسری جانب اویئر گرلز خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے مصروف عمل ہے۔ اس کی منفرد بات اس تنظیم کا صرف لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہونا ہے اور اس میں کوئی مرد شامل نہیں۔ فیصلہ سازی سے لے کر نچلی سطح کے کارکنان تک، اویئر گرلز کے صوبے میں موجود نیٹ ورک میں صرف لڑکیاں اور خواتین ہیں۔

    یہ تنظیم گزشتہ 14 سال سے پختونخواہ میں خواتین کی صحت و تعلیم پر کام کر رہی ہے اور معاشی خود مختاری کے عمل میں ان کی مدد کر رہی ہے۔

    تقریب میں فرانسیسی صدر فرانسس اولاندے نے بھی شرکت کی اور قیام امن کے لیے دونوں اداروں کی خدمات کو سراہا۔

    اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسمعٰیل نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں اپنے اس سفر کا احوال بتایا۔

    سنہ 2002 میں جب اس ادارے نے عالمی یوم خواتین کے دن سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو اس وقت گلالئی کی عمر صرف 16 سال تھی۔

    گلالئی کو اس سے قبل بھی کئی اعزازات مل چکے ہیں جن میں ڈیموکریسی ایوارڈ 2013 بھی شامل ہے۔ انہیں 30 سال سے کم عمر 30 رہنما نوجوانوں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جبکہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن نے انہیں ’تبدیلی کا استعارہ‘ قرار دیا۔

    اپنے سفر کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہوئے گلالئی نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی قدامت پسند معاشرتی روایات نے، جس میں عورت کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، انہیں ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی طرف متوجہ کیا جو خواتین کے لیے کام کر سکے۔ ’یہاں پر سب کچھ مردوں کے مزاج کے حساب سے ہوتا ہے۔ گھر کے مرد چاہیں گے تو اس گھر کی خواتین پڑھ سکیں گی اور کوئی کام کرسکیں گی۔ لیکن اگر مرد نہیں چاہیں گے تو عورتوں کو ان کی مرضی کے مطابق چلنا ہوگا‘۔

    گلالئی کا کہنا ہے کہ یہاں کے معاشرے میں، اور اس جیسے دنیا کے دیگر کئی معاشروں میں تعلیم بنیادی حق نہیں، ایک سہولت ہے جو صرف قسمت سے مل سکتی ہے۔

    وہ بتاتی ہیں کہ اس ادارے کے لیے ان کے عزم کو پختہ ان کی کزن کے ساتھ ہونے والے واقعہ نے کیا۔ ان کی ایک کزن جو ان کے ساتھ اسکول میں زیر تعلیم تھی، اسے پائلٹ بننے کا بہت شوق تھا۔ ’اس کے عزائم بہت بلند تھے اور وہ آسمان کو چھونا چاہتی تھی لیکن میٹرک میں جانے سے قبل ہی اس کی شادی کردی گئی‘۔

    گلالئی نے بتایا کہ جس شخص سے اس کی شادی کی گئی، وہ نہ صرف عمر میں اس سے دگنا تھا بلکہ شادی کے بعد وہ ایک تشدد پسند شخص ثابت ہوا جس نے بیوی کو حقیقی معنوں میں پاؤں کی جوتی سمجھا۔

    گلالئی کے مطابق اس واقعہ نے انہیں بہت دکھ پہنچایا اور انہوں نے سنجیدگی سے پختونخواہ کی لڑکیوں کے لیے ایسا ادارہ قائم کرنے کے لیے کام شروع کردیا جو انہیں ان کے بنیادی حقوق دلوا سکے۔

    خواتین پر زیادتیاں ایک معمول کی بات

    گلالئی نے بتایا کہ خواتین کے بنیادی حقوق ان سے چھن جانے سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ خواتین ان زیادتیوں کو اپنی زندگی کا حصہ تسلیم کر چکی ہیں۔ بقول گلالئی، وہ ان تمام زیادتیوں کی اس قدر عادی ہوچکی ہیں کہ اسے بدلنے کی خواہش تک نہیں رکھتیں۔

    وہ بتاتی ہیں، ’میری کزن کی شادی کردی گئی جس کے باعث وہ اپنی تعلیم بھی نہ مکمل کر سکی۔ جبکہ اس کے بھائی تاحال زیر تعلیم ہیں اور وہ جو پڑھنا چاہتے ہیں انہیں پڑھنے دیا جارہا ہے۔ یہ ہماری طرف ایک عام بات ہے‘۔

    گلالئی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ادارے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے لڑکیوں کو اس بات کا شعور دلانا شروع کیا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو زیادتی سمجھیں اور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔

    غیر ملکی ایجنٹ

    گلالئی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ادارے کا آغاز کیا تو حسب روایت ان کے بارے میں اس قسم کی باتیں پھیلائی گئیں کہ یہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں، اور بیرونی عناصر کی معاونت سے پاکستانی ثقافت کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ ’لیکن اب آہستہ آہستہ لوگوں کو ہماری نیک نیتی کا یقین ہوگیا ہے۔ اب لوگ ہمارے بارے میں خود کہتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ کی اقدار و ثقافت کے اندر رہتے ہوئے ہم نے کام کیا اور کبھی اخلاقی حدود سے تجاوز نہیں کیا‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارے کی مقبولیت کا ایک سبب اس کے ارکان کا صرف لڑکیوں پر مشتمل ہونا بھی تھا۔ ’بے شمار لڑکیوں نے اسی لیے ہمارے ساتھ شمولیت اختیار کی کہ انہیں اپنے گھروں سے کام کرنے کی مشروط اجازت تھی کہ وہ مردوں سے میل جول نہیں رکھیں گی۔ اسی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کر پارہی تھیں۔ اویئر گرلز کے پلیٹ فارم سے انہیں موقع مل سکا کہ وہ کام کرسکیں‘۔

    گلالئی کے مطابق خیبر پختونخواہ کی روایات تو اب بھی برقرار ہیں تاہم خیالات میں بتدریج تبدیلی آرہی ہے۔ کئی والدین نے گلالئی سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کو اس ادارے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک کار آمد حصہ بن سکیں۔

    یہی نہیں، گلالئی اور ان کی ٹیم جب مخلوط ( کو ایجوکیشن) اسکولوں میں ٹریننگ دینے کے لیے جاتی ہے تو اسکول کی انتظامیہ اصرار کرتی ہے کہ صرف لڑکیوں کو ہی نہیں لڑکوں کو بھی آگاہی دی جائے، تاکہ یہ آگے چل کر اپنے گھر کی خواتین کو خود مختار بنائیں۔

    گلالئی اور ان کی ٹیم کے کام کا دائرہ کار مختلف اسکولوں اور کمیونٹیز میں پھیلا ہوا ہے جہاں یہ کچھ لڑکیوں یا خواتین کو منتخب کر کے ٹریننگ دیتی ہیں۔ وہ لڑکی یا عورت بعد ازاں مزید 10 لڑکیوں کو سکھانے کی پابند ہوتی ہے۔

    خود مختاری کا مطلب بے راہ روی نہیں

    گلالئی نے بتایا کہ خواتین کی خود مختاری کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باہر جائیں۔ ایسی خواتین جو غربت کا شکار ہیں، معاشی طور پر خود مختار ہو کر اپنے خاندان کا کارآمد حصہ بن سکتی ہیں۔ ’ہمارے ادارے نے خواتین کو معاشی امداد دینے کے بجائے انہیں خود مختار بنایا۔ انہیں سکھایا کہ کس طرح مختلف کام کر کے وہ معاشی خود مختاری حاصل کرسکتی ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان خواتین کو نہ صرف خود مختار بلکہ با اعتماد بھی بنایا گیا جس کے بعد اپنے مسائل کے حل کے لیے انہوں نے ضلعی حکومت سے خود رابطہ کیا اور اپنے مسائل ان کے سامنے رکھے۔

    گلالئی کا ماننا ہے کہ خواتین اور نوجوان، معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو معاشروں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا ادارہ بھی انہی دو طبقوں کو رہنمائی اور حتیٰ الامکان مدد فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

  • ہمت ہے تو آگے بڑھو، میں ناقابل شکست ہوں!!

    ہمت ہے تو آگے بڑھو، میں ناقابل شکست ہوں!!

    کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے حقوق نسواں بل میں ’بیویوں پر ہلکا پھلکا تشدد‘ کی شق شامل کرنے کی سفارش کی گئی جس کے بعد پاکستانی خواتین نے اس سفارش کو نہایت سنجیدگی سے لیا اور مردوں کو ’دعوت‘ دینی شروع کردی کہ وہ ان پر ہلکا پھلکا تشدد کریں۔

    پنجاب اسمبلی میں حقوق نسواں بل منظور ہونے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے اپنی سفارشات پیش کی تھیں جس میں شامل شوہروں کی جانب سے بیویوں پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کی اجازت دینے کی شق سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنی۔

    اس شق پر نہ صرف خواتین بلکہ عقل رکھنے والے مرد بھی چیخ اٹھے جن کا اصل مقصد کونسل کو یہ باور کروانا تھا کہ بیوی انسان ہے، کوئی ملکیت میں رکھا جانور نہیں جسے سدھارنے کے لیے اس قسم کی تجاویز پیش کی جائیں۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    اس شق کے بعد ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا جس میں لاکھوں لوگوں نے اس شق کی مخالفت میں آواز اٹھائی جبکہ کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے اس کی حمایت کی۔

    حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین پاکستان نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں ملک کی مشہور خواتین مردوں کو ’بیٹ کرنے‘ کا چیلنج دے رہی ہیں۔

    بظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ خواتین مردوں کو خود پر ہاتھ اٹھانے کا چیلنج دے رہی ہیں، لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ چیلنج دراصل اس کام کو کر دکھانے کا ہے جو ان خواتین نے سرانجام دیا۔

    ویڈیو میں ایتھلیٹ نسیم حمید مردوں کو ’پیروں سے ہرانے‘ کا چیلنج دے رہی ہیں۔ نسیم حمید کو سنہ 2010 میں ڈھاکہ میں ہونے والی 100 میٹر کی ریس جیتنے پر ایشیا کی تیز ترین خاتون ہونے کا اعزاز ملا تھا۔

    معروف گلوکارہ میشا شفیع مردوں کو اپنی آواز سے جبکہ معروف صحافی اور براڈ کاسٹر ثنا بچہ اپنے الفاظ سے شکست دینے کا چیلنج دے کر اس پہلو کی طرف توجہ دلوا رہی ہیں تشدد صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ زبان سے بھی ہوتا ہے۔

    ثمینہ خیال بیگ کی دعوت ہے کہ مرد انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر مات دے کر دکھائیں۔ ثمینہ بیگ پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین مسلمان خاتون ہیں جو دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر چکی ہیں۔

    یہی نہیں وہ دنیا کے ساتوں براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔

    ویڈیو میں ثروت گیلانی، مومنہ مستحسن اور آمنہ شیخ بھی شامل ہیں جو مردوں کو للکار رہی ہیں کہ اگر تم وہ کرسکتے ہو جو ہم نے کیا تو کر کے دکھاؤ۔

    یہ ویڈیو دراصل اقوام متحدہ کی اس 16 روزہ مہم کے تناظر میں جاری کی گئی ہے جو دنیا بھر میں خواتین پر جنسی و جسمانی تشدد کے خاتمے اور اس کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لیے چلائی جارہی ہے۔

    اقوام متحدہ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کے ذریعہ نہ صرف خواتین پر مردوں کی جانب سے ذہنی و جسمانی تشدد کے خلاف آگاہی دی گئی بلکہ ان خواتین کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے شعبوں میں حیرت انگیز کمالات دکھائے اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی امتیاز کی غلط تشریح

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمولی عمل سمجھا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ پاکستان کی جاری کی گئی ویڈیو میں ایک حاملہ خاتون کو بھی دکھایا گیا ہے جو مردوں کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ ایک زندگی کو اس دنیا میں لانا سب سے زیادہ طاقت اور جرات کا کام ہے جس کا کوئی مرد تصور بھی نہیں کرسکتا۔

    ویڈیو میں شامل تمام خواتین کی دعوت ہے کہ، ’اگر ہمت ہے تو آگے بڑھو، کیونکہ میں تمہیں بتانے کی منتظر ہوں کہ میں ناقابل شکست ہوں‘۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد کا رجحان ایک ’وبائی‘ صورت اختیار کر رہا ہے اور دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

  • حسن ۔ کاملیت اور توازن یا بصیرت کے اظہار کا نام؟

    حسن ۔ کاملیت اور توازن یا بصیرت کے اظہار کا نام؟

    حسن یا خوبصورتی کی تعریف ہر شخص کی نظر میں مختلف ہوتی ہے۔ آپ خوبصورتی کی کیا تعریف کریں گے؟ 

    بعض افراد کے مطابق خوبصورتی کاملیت کا نام ہے۔ کسی چیز کی زیادتی یا کمی اسے بدصورت بنادیتی ہے۔ ان کی نظر میں مکمل شے خوبصورت کہلاتی ہے۔

    بعض افراد اسے ذہن پر ایک خوشگوار تاثر چھوڑنے والی شے کہتے ہیں۔ بعض فلسفیوں کا کہنا ہے کہ انسانی بصیرت اور عقل و شعور کے اظہار کا نام حسن ہے۔ بعض کے مطابق خوبصورتی وہ بھی کہلائے گی جو کسی کو بدصورتی کو چھپا دے۔

    جس طرح ہر شخص کی نظر میں خوبصورتی کا معیار اور پیمانہ مختلف ہے، اسی طرح ہر مصور بھی خوبصورتی کی الگ الفاظ میں تشریح کرتا ہے۔ مصور کے خیالات اس کے برش اور کینوس سے تخلیق کی جانے والی تصویر سے جھلکتے ہیں۔ ایک فن پارہ اپنے تخلیق کار کی فکر کا بہترین عکاس ہوتا ہے۔

    ایسے ہی ایک مصور عمران زیب بھی ہیں جن کے فن پارے نہ صرف فطرت کی خوبصورتی کو بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں، بلکہ اپنے بنانے والے کے خیالات کی خوبصورتی کا بھی اظہار ہیں۔

    عمران زیب خوبصورتی کی تکمیل کے لیے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور وہ ہے محبت۔ ان کے مطابق جس شے کو محبت، اور لطف کی نظر سے دیکھا جائے وہ خوبصورت معلوم ہوتی ہے۔

    ان کا ماننا یہ بھی ہے کہ خوبصورتی توازن کا دوسرا نام ہے۔ ہر وہ شے جو توازن میں ہوگی خوبصورتی کہلائے گی۔

    پاکستان اور بیرون ملک اپنے فن پاروں کی پذیرائی حاصل کرنے والے عمران زیب اس وقت پاکستانی مصوری کا ایک اہم نام ہیں۔ انہیں اب تک سندھ ثقافتی ایوارڈ اور صادقین ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈز مل چکے ہیں جبکہ پاکستان اور پاکستان سے باہر ان کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں۔

    اپنے بارے میں بتاتے ہوئے عمران زیب کا کہنا تھا کہ ان کے نانا کو مصوری اور دادا کو شاعری سے شغف تھا، لہٰذا گھر کا ماحول فن و ادب کی پرورش کے لیے نہایت موزوں تھا۔ ان کے بڑے بھائی انعام راجا بھی مصور تھے اور عمران نے مصوری کی باریکیاں و پیچدگیاں انہی سے سیکھیں۔

    عمران نے بچپن میں روایتی رسمی تعلیم حاصل کی۔ بچپن سے ان کا رجحان آرٹ کی طرف تھا جس کا اظہار وہ مکی ماؤس اور ڈونلڈ ڈک وغیرہ کے کارٹون بنا کر کیا کرتے۔

    انہوں نے مصوری کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ بقول ان کے، وہ کراچی کے ایک آرٹ اسکول میں داخلہ لینے کی غرض سے گئے تو پرنسپل صاحبہ ان کی مصوری کی صلاحیت دیکھ کر متاثر تو بہت ہوئیں، مگر انہوں نے نہایت ہی بچگانہ سوالات شروع کردیے۔ ’حتیٰ کہ انہوں نے پوچھا کہ میں تصویر دن کی روشنی میں بناتا ہوں یا رات میں۔ میں ان کے یہ سوالات سن کر الٹے قدموں پلٹ آیا اور دوبارہ وہاں کا رخ نہیں کیا‘۔

    عمران کے فن پاروں میں خوبصورتی کا بڑا دخل ہے۔ بقول ان کے، ان کے آس پاس موجود حسن نے انہیں مصوری پر مہمیز کیا۔ اب چاہے وہ حسن صنف نازک کا ہو، قدرت کا یا کسی خوبصورت جذبے کا۔

    بقول ان کے انہیں مصوری کی تحریک اس خوبصورتی نے ہی دی تاہم وہ اسے ’تحریک‘ ماننے کی نفی کرتے ہیں۔ ’مصوری جنون ہے جو حسن جمالیات اور حسن لطافت سے پروان چڑھتا ہے‘۔

    وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ کے مصداق صنف نازک کے بغیر خوبصورتی کی تعریف ادھوری ہے اور عمران کے فن پارے بھی بارہا یہ باور کرواتے ہیں۔

    یہاں بھی وہ توازن کو حسن کا لازمی جز خیال کرتے ہیں اور بار بار اس کا اظہار کرتے ہیں۔

    صادقین ایوارڈ حاصل کرنے والے عمران زیب صادقین کے بھی بہت بڑے مداح ہیں۔ وہ ان کے فن سے بے حد متاثر ہیں۔

    عمران نے ڈیجیٹل آرٹ میں بھی طبع آزمائی کی اور اس کے ذریعہ ملالہ یوسفزئی، عبدالستار ایدھی اور فیض احمد فیض کا پورٹریٹ بھی تخلیق کیا ہے۔

    بعض مصور اس فن میں اب بھی روایتی طریقوں کے حامی ہیں اور اس شعبہ میں آنے والی جدید ٹیکنالوجی سے نالاں نظر آتے ہیں، تاہم عمران اس ٹیکنالوجی کو اپنے فن کو نکھارنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ’گرافکس، اینی میشن یا ڈیجیٹل پینٹنگ، یہ وہ ذرائع ہیں جس کے باعث مصور کی محنت اور کمپیوٹر کی مہارت یکساں ہوکر آرٹ کا ایک شاہکار تخلیق کر ڈالتی ہے‘۔

    وہ اسے شارٹ کٹ تو نہیں مانتے، لیکن کسی مصور کی کامیابی کے لیے محنت اور مشق کو ہی اصل جز قرار دیتے ہیں۔


    مصور کے بارے میں

    عمران زیب کراچی سے تعلق رکھنے والے مصور ہیں۔ انہوں نے مصوری کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تاہم انہیں مصوری کی خداداد صلاحیت حاصل ہے۔

    ان کے بھائی انعام راجا بھی مصور ہیں۔ ان کی مصوری پر مبنی کتابیں پڑھ پڑھ کر اپنی صلاحیت کو مہمیز کرنے والے عمران زیب کو اب تک سندھ ثقافتی ایوارڈ اور صادقین ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ان کے فن پاروں کی نمائش نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی کی جاچکی ہے۔

    انہیں انجینئر بننے کا شوق تھا، لیکن کوٹہ سسٹم کی وجہ سے انہیں انجینئرنگ میں داخلہ نہ مل سکا، جس کے بعد انہوں نے اپنے شوق کو آگےبڑھانے کا سوچا۔

  • عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    طبی و نفسیاتی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی و نفسیاتی امراض کی شرح ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور ان کا شکار مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح عموماً ترقی پذیر ممالک میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جہاں صنفی امتیاز کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ صنفی امتیاز کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں۔ وہ زندگی بھر مختلف مشکلات اور نا انصافیوں کا سامنا کرتی ہیں جن میں سرفہرست گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی ہے۔

    مزید ستم یہ کہ، ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو اپنے دکھ اور تکلیف کا کھل کر اظہار کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی نتیجتاً ان کی دماغی کیفیات تبدیل ہونے لگتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ منفی تبدیلیاں دماغی یا نفسیاتی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔

    مردوں کی بالادستی پر قائم معاشروں میں خواتین زندگی بھر کس قدر تکالیف، درد اور کرب کا شکار ہوتی ہیں، اس کی جھلک آپ ان تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

    خواتین کے اندرونی کرب کو آشکار کرتیں یہ تصاویر صرف ایک جھلک دکھاتی ہیں کہ بظاہر نازک اور کمزور سمجھنے والی خواتین کو کس قدر زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    خواتین کی طبی سہولیات پر کام کرنے والی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم کا کہنا ہے کہ خواتین سے ناانصافیوں کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے جب ان کے والدین ان پر، ان کے بھائیوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اچھا کھانا، اچھی تعلیم اور اچھی طبی سہولیات پہلے ان کے بھائی کے حصہ میں آتی ہیں۔

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔ رشتے اور چہرے بدلتے جاتے ہیں، عورت اور اس کی برداشت کی صلاحیت وہی رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد کو ایک معمولی بات سمجھا جاتا ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    لیکن یہ ناانصافیاں، ظلم و جبر اور دباؤ ان کی اندرونی کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نتیجتاً خواتین ذہنی و نفسیاتی امراض میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔

    ان فن پاروں کی تخلیق کار سائرہ انور نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اپنے آس پاس موجود خواتین پر ہوتی ناانصافیوں اور امتیاز کو دیکھتے ہوئے انہیں اس قسم کے فن پاروں کی سیریز پیش کرنے کا خیال آیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان پینٹنگز کے ذریعہ ایک طرف تو خواتین کے اندرونی کرب کی عکاسی کی گئی ہے، دوسری طرف دیگر افراد کو بھی اس درد اور کرب سے آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ایک آرٹسٹ کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے تلخ و درد ناک پہلوؤں کو محسوس کرے اور دیگر افراد کی توجہ بھی اس طرف دلانے کی کوشش کرے‘۔


    مصورہ کے بارے میں

    سائرہ انور لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا۔ وہ لاہور کی بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    سائرہ کو بچپن سے مصوری کا شوق تھا اور اس کا باقاعدہ آغاز انہوں نے اپنے زمانہ طالبعلمی سے کیا۔ سائرہ اپنے فن کے اظہار کے لیے فی الحال آئل پینٹنگ اور آکریلکس کا استعمال کرتی ہیں، البتہ وہ اس فن میں مزید تجربات کرنا چاہتی ہیں۔


    سائرہ نے اپنے فن پاروں میں زیادتی کا شکار خواتین کے خوف اور کرب کو بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

    اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف 65 ممالک سے حاصل کیے گئے جبکہ یہ صرف وہ شرح ہے جو منظر عام پر آسکی۔ لاکھوں ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں کیے گئے، جنہیں مجرمان کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد یا متاثرہ کے خاندان کی عزت کی خاطر دبا دیا گیا یا دنیا کے خوف سے چھپایا گیا۔

    اقوام متحدہ نے اس شرح کو ’ڈارک فگرز‘ کا نام دیا ہے جو نہ صرف اعداد و شمار کی جانب سے لاعلمی کا اظہار ہے بلکہ معاشروں میں چھپی کالک کی طرف بھی اشارہ ہے۔

    جہاں تک صنفی امتیاز کا تعلق ہے، تو اس سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے طاقتور ترین اداروں میں سے ایک وائٹ ہاؤس تک محفوظ نہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والی خواتین کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    سائرہ نے اپنی پینٹنگز کے بارے میں مزید بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے معروف مفکر رومی کو پڑھا جس نے ان کے خیالات اور بعد ازاں ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    سائرہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے رومی کی شاعری، اقوال اور ان کے اندر چھپے وجدان کو اپنے آرٹ میں بیان کرنے کی کوشش کی، اور اس کوشش سے ان کا آرٹ عام انداز سے بنائی گئی پینٹنگز سے ہٹ کر گہری معنویت رکھنے والا فن بن گیا۔

    سائرہ کا عزم ہے کہ وہ اپنے آرٹ کے ذریعہ معاشرے کو مثبت پیغام پہنچائیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ ایسا آرٹ تخلیق کریں جو معاشرے کو اخلاقی تربیت اور آگہی و شعور فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔