Author: فاروق سمیع

  • حمیرا اصغر اور مالک مکان کے درمیان کرائے کا تنازع،  بڑا انکشاف سامنے آگیا

    حمیرا اصغر اور مالک مکان کے درمیان کرائے کا تنازع، بڑا انکشاف سامنے آگیا

    کراچی : اداکارہ حمیرا اصغر اور مالک مکان کے درمیان کرائے کے تنازع کے حوالے سے بڑا انکشاف سامنے آیا۔

    تفصیلات کے مطابق حمیرا اصغر اور مالک مکان کے درمیان کرائے کا تنازع 2019 سے جاری رہنے کا انکشاف سامنے آیا۔

    مالک مکان کی جانب سے حمیرا کے خلاف کیس کی تفصیلات سامنے آگئی ، جس میں بتایا گیا کہ حمیرا اور مکان مالک کے درمیان کرائے کا معاہدے 20 دسمبر 2018 کو ہوا تھا، معاہدہ مکمل ہونے پر مکان مالک نے حمیرہ کو فلیٹ خالی کرنے کی ہدایت کی۔

    مالک مکان کا دعویٰ ہے کہ حمیرا نے معاہدے کے مطابق سالانہ دس فیصداضافی رقم ادانہیں کی۔

    دستاویز میں کہا گیا کہ تین جون 2021 کو مکان مالک نے حمیرہ اصغر کو فلیٹ خالی کرنے کا پہلانوٹس بھیجا، 17 جون کو مکان مالک کی جانب سے دوسرا نوٹس بھیجاگیا۔

    دستاویز میں کہنا تھا کہ مکان مالک کی جانب سے اضافی کرایے کی وصولی کیلئے دو نوٹسز بھیجے گئے، 2019-2020 کے دوران حمیرا نے 40 ہزار روپے ادانہیں کیے، جس کے بعد 2020-2021  کے دوران یہ رقم بڑھ کر 92400ہوگئی۔

    سال 2019-2023 کے درمیان مجموعی طور پر واجب الادا رقم 5 لاکھ 35 ہزار 84 روپے ہوگئی، حمیرا نے متعدد عدالتی نوٹس کے باوجود جواب داخل نہیں کیا، عدالت نے مکان مالک کی درخواست پر 26 مارچ 2025 کو عملدرآمد کا حکم جاری کیا۔

    مکان مالک نے حمیرا کے زیر استعمال فلیٹ کا تالہ توڑ کر قبضہ دلوانے کیلئے درخواست دائر کی تھی۔

    پس منظر

    اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر، جن کی عمر بیالیس برس تھی، کی لاش 8 جولائی 2025ء کو کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز سکس میں ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ سے ملی۔ یہ دریافت بقایا کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر بے دخلی کے دوران ہوئی۔

    لاش انتہائی گل سڑی حالت میں تھی جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی وفات ممکنہ طور پر اکتوبر 2024ء میں ہوئی۔

    پولیس نے ابتدائی طور پر قتل کا امکان مسترد کر دیا ہے کیونکہ اپارٹمنٹ اندر سے بند تھا اور کوئی زبردستی داخلے کے آثار نہیں ملے، فورنزک رپورٹس کا انتظار ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے

  • کراچی میں شلوار قمیض پہنے شہری کو ریسٹورنٹ میں داخلے سے روک دیا گیا، ویڈیو رپورٹ

    کراچی میں شلوار قمیض پہنے شہری کو ریسٹورنٹ میں داخلے سے روک دیا گیا، ویڈیو رپورٹ

    کراچی میں قومی لباس پہنے نوجوان کو ریسٹورنٹ میں داخلے سے روک دیا گیا، ریسٹورنٹ کے منیجر نے شلوار قمیض کو ’’چیپ ڈریسنگ‘‘ قرار دیا، اور کہا ہم پینڈوؤں کو سروس نہیں دیتے، شہری نے اس عدم مساوات پر عدالت سے رجوع کر لیا۔

    We don’t serve pendu یہ کہنا ہے کراچی کے ایک نجی ریسٹورنٹ کا، شہری عبد الطیف ایڈووکیٹ کو! جو اپنے دوستوں کے ہمراہ وہاں کھانا کھانے گئے تھے۔

    شہری کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے ریسٹورنٹ میں احتجاج کیا تو منیجر نے انھیں کہا تماشا نہیں کرو چلے جاؤ ورنہ ہم زبردستی نکال دیں گے۔

    عبدالطیف ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اپنے خلاف اس رویے پر انھوں نے ہتک عزت کا نوٹس بھیجا، تاہم جواب نہیں آیا تو اب کورٹ سے رجوع کیا ہے، ماہرین سماجیا ت کے مطابق ایک اچھے سماج کے لیے انصاف، مساوات، احترام، اور رواداری جیسی اقدار کا ہونا ضروری ہے۔ کراچی جیسے شہر میں قومی لباس پہننے پر ریسٹونٹ سے نکالنے کا مبینہ واقعہ معاشرے میں عدم مساوات اور غیر امتیازی سلوک کو ظاہر کرتا ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • کراچی میں شلوار قمیض پہنے شہری کو ریسٹورنٹ سے نکال دیا گیا

    کراچی میں شلوار قمیض پہنے شہری کو ریسٹورنٹ سے نکال دیا گیا

    کراچی میں انتظامیہ نے شلوار قمیض پہنے شہری کو ریسٹورنٹ سے نکال دیا۔

    کراچی میں قومی لباس پہنے شہری کو ریسٹورنٹ میں داخلے سے روک دیا گیا، شہری عبداللطیف ایڈووکیٹ نے کنزیومر کورٹ سے رجوع کرلیا۔

    ویٹر نے شہری سے کہا کہ ہم اس ڈریس کوڈ پر کھانا فراہم نہیں کرسکتے۔

    درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ 18 مئی کو نجی ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے گیا تو ویٹر نے روک لیا، منیجر نے شلوار قمیض کو ’چیپ ڈریسنگ‘ قرار دیا۔

    شہری عبداللطیف نے کہا کہ منیجر نے کہا کہ تماشا نہ لگائیں ورنہ زبردستی نکالیں گے۔

    درخواست گزار شہری کے مطابق ہم نے اپنی بے عزتی پر ریسٹورنٹ کو لیگل نوٹس بھی بھیجا، لیکن انتظامیہ نے لیگل نوٹس کا بھی جواب نہیں دیا۔

    شہر چھپتے پھریں گے جنگل میں

  • ’حمیرا اصغر کی موت طبعی نہیں بلکہ اسے قتل کیا گیا‘

    ’حمیرا اصغر کی موت طبعی نہیں بلکہ اسے قتل کیا گیا‘

    کراچی: ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر علی کی لاش ڈی ایچ اے کے فلیٹ سے برآمد ہونے کا معاملہ کراچی کے سٹی کورٹ جا پہنچا ہے۔

    حمیرا اصغر 8 جولائی کو کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے کے فلیٹ سے مردہ حالت میں ملی تھیں، ابتدائی طور پر پولیس نے بتایا تھا کہ ان کی لاش 20 دن تک پرانی لگی ہے، تاہم بعد ازاں حیران کن انکشافات سامنے آئے۔

    پولیس نے 9 جولائی کو بتایا کہ ممکنہ طور پر حمیرا اصغر کی لاش 6 ماہ سے زائد عرصے سے پرانی تھی، لاش سے خون کے نمونے تک حاصل نہیں کیے جا سکے تھے جب کہ گھٹنوں سے بھی لاش گلنا شروع ہوگئی تھی۔

    تاہم اب اداکارہ کی لاش گھر سے برآمد ہونے کا معاملہ عدالت جاپہنچا جہاں شہری نے حمیرا اصغر کی موت کو قتل قرار دیا ہے، کراچی کے شہری شاہزیب سہیل نے واقعے کا مقدمہ درج کروانے کے لئیے درخواست دائر کردی۔

    حمیرا اصغر کیس سے متعلق تمام خبریں

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حمیرہ اصغر علی کی موت طبعی نہیں بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے، پولیس نے بھی واقعہ کو تشویش ناک بتایا ہے اس واقعہ کی وجہ سے عام لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے حمیرہ اصغر علی ایک میڈیا بااثر خاتون تھی وقوعہ کی ویڈیو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا انکا قتل کیا گیا ہو۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ اداکارہ کے خاندان کا انکے ساتھ قطع تعلق ہونے بھی حیرت میں مبتلا کرتا ہے عدالت سے استدعا ہے کہ مقدمہ میں انکے خاندان کو بھی نامزد کرکے تحقیقات کروائی جائیں۔

    درخواست گزار نے کہا کہ قانونی طور پر جو بھی ممکنہ کوشش کی جاسکتی ہے عدالت کی جانب سے کی جائے، درخواست میں ایس ایس پی ساوٴتھ اور ایس ایچ او گزری کو فریق بنایا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : حمیرا اصغر کی کئی روز پرانی لاش ڈیفنس میں فلیٹ سے برآمد

    پاکستانی اداکارہ و ماڈل حمیرا، جن کی عمر بیالیس برس تھی، کی لاش 8 جولائی 2025ء کو کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز VI میں ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ سے ملی۔ یہ دریافت بقایا کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر بے دخلی کے دوران ہوئی۔ لاش انتہائی گل سڑی حالت میں تھی، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی وفات ممکنہ طور پر اکتوبر 2024ء میں ہوئی۔ پولیس نے ابتدائی طور پر قتل کا امکان مسترد کر دیا ہے، کیونکہ اپارٹمنٹ اندر سے بند تھا اور کوئی زبردستی داخلے کے آثار نہیں ملے۔ فورنزک رپورٹس کا انتظار ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔

    فورنزک شواہد، جیسے کہ ستمبر 2024ء کی میعاد ختم ہونے والی خوراک، بجلی کی بندش، اور غیر فعال فون، سے ظاہر ہوتا ہے کہ حمیرہ کی وفات چھ ماہ قبل ہوئی تھی۔ پولیس ان کے فون کے کال ریکارڈز کی چھان بین کر رہی ہے۔ حمیرہ کے خاندان نے لاش وصول کرنے میں لاتعلقی دکھائی، تاہم ان کے بہنوئی نے حال ہی میں رابطہ کیا ہے۔

    حمیرا تماشا گھر اور فلم جلیی (2015) میں اپنے کرداروں کی وجہ سے مشہور تھیں۔ وہ ایک ماہر مصورہ اور مجسمہ ساز بھی تھیں، جن کے انسٹاگرام پر 715,000 فالوورز تھے۔ ان کی آخری پوسٹ 30 ستمبر 2024ء کو تھی۔ ان کی موت نے شوبز انڈسٹری میں صدمے کی لہر دوڑا دی، جہاں سونیا حسین، عتیقہ اوڈھو اور دیگر نے افسوس کا اظہار کیا۔ یہ کیس تنہائی اور ذہنی صحت کے مسائل پر بحث چھیڑ گیا ہے

  • مصطفیٰ عامر قتل کیس : کامران قریشی نے اسلحہ کہاں سے خریدا ؟

    مصطفیٰ عامر قتل کیس : کامران قریشی نے اسلحہ کہاں سے خریدا ؟

    کراچی : مصطفی عامر قتل کیس کے ملزم ارمغان کے والد کامران قریشی کے اسلحے سے متعلق تفتیشی رپورٹ پولیس نے عدالت میں جمع کرادی۔

    انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کی گئی پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزم ارمغان کے گھر سے برآمد ہونے والا اسنائپر سمیت جدید اسلحہ پشاور سے منگوایا گیا تھا۔

    پولیس رپورٹ کے مطابق جدید اسلحہ ارمغان کے والد  نے پشاور سے خریدا تھا، ملزم ارمغان قتل، اغوا برائے تاوان و دیگر مقدمات میں جوڈیشل کسٹڈی میں جیل میں ہے۔

    مرکزی ملزم کا والد بھی منشیات، اسلحہ کیس میں جوڈیشل کسٹڈی میں ملیر جیل میں ہے، اس سے اسنائپر، رائفل سمیت بھاری مقدار میں گولیاں برآمد کی گئی تھیں۔

    اس کے فون سے اسلحہ خریدنے، چیک کرنے کی ویڈیوز ملی ہیں، ملزم ویڈیو کال کے ذریعے اپنے بیٹے کو بھی اسلحہ دکھاتا رہا۔

    ملزم کو اس مقدمہ میں اسلحہ ایکٹ کی دفعہ کا اضافہ کرتے ہوئے نامزد کیا گیا ہے، جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت سے بھی ملزم کی تفتیش کیلئے این او سی حاصل کی گئی۔

    پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ مرکزی ملزم کا والد سے تفتیش کرنی ہے کہ اسلحہ کس سے خریدا ہے اور کس کے ذریعے سے کے پی سے کراچی منتقل کیا، ملزم کو ملیر جیل سے لینے کی اجازت دی جائے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے والد کامران قریشی کو پولیس مقابلے اور غیر قانونی اسلحہ کیس میں نامزد کیا گیا تھا۔

    تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم ارمغان عرف آرمی پہلے ہی اس مقدمے میں گرفتار ہے، ملزم اسلحہ پشاور سے خرید کے سندھ لایا۔

     

  • ملیر ہالٹ ٹینکر حادثہ، ڈرائیور کے خلاف عدالتی فیصلہ آ گیا

    ملیر ہالٹ ٹینکر حادثہ، ڈرائیور کے خلاف عدالتی فیصلہ آ گیا

    کراچی: شہر قائد کے علاقے ملیر ہالٹ میں تیز رفتار ٹینکر کے میاں، بیوی اور بچے کو کچلنے کے کیس میں ملزم ٹینکر ڈرائیور اور ہیلپر کو جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق تفتیشی پولیس نے ملیر ہالٹ ٹینکر حادثے کے ذمہ دار ڈرائیور رحیم بادشاہ اور اس کے ہیلپر عمر وقاص کو مجسٹریٹ شرقی کے جج کے روبرو پیش کیا، تفتیشی افسر منصور علی کی جانب سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

    تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے خلاف تھانہ ماڈل کالونی میں مقدمہ درج ہے، مقدمہ میں دفعہ 322 بھی شامل کر دی گئی ہے، اب ملزم سے تفتیش کرنی ہے کہ کہیں یہ واقعہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تو نہیں، جس کے لیے ملزم کا جسمانی ریمانڈ چاہیے، ہم نے ٹینکر مالک کا بھی معلوم کرنا ہے۔


    ملیر ٹینکر حادثے کو روکا جا سکتا تھا، مگر کیسے؟ کے راٹ کی رپورٹ میں انکشاف


    عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ ہیوی ٹریفک کا تو ان اوقات میں داخلہ بھی ممنوع ہے، تاہم ملزم کے وکیل نے بتایا کہ واٹر ٹینکرز کو سڑکوں پر آنے کی اجازت ہے، جس پر عدالت نے نکتہ اٹھایا کہ یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ جس روٹ سے ٹینکر آ رہا تھا وہاں اجازت تھی یا نہیں۔

    جج اشفاق پنہور نے ملزم ڈرائیور رحیم بادشہ کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

  • یوسف رضا گیلانی کو ٹڈاپ کرپشن کیس میں بڑا ریلیف مل گیا

    یوسف رضا گیلانی کو ٹڈاپ کرپشن کیس میں بڑا ریلیف مل گیا

    وفاقی اینٹی کرپشن عدالت چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کو ٹڈاپ کرپشن کیس میں 3 مقدمات میں بری کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ میں ٹڈاپ کرپشن کیس کی سماعت ہوئی، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی وفاقی اینٹی کرپشن عدالت میں پیش  ہوئے۔

    عدالت نے ٹڈاپ کرپشن کیس میں یوسف رضا کی جانب سے دائر بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں تین مقدمات میں بری کردیا۔

    چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک دلائل جمع کرواچکے تھے، ملزموں پر فریٹ سبسڈی کی مد میں قومی خزانے کو 6 ارب سے زائد نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔

    چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیس کا وعدہ معاف گواہ آج ملزم ہے اور ملک سے فرار ہے میں ہمیشہ قانون کے مطابق چلا ہوں مجھ پر کیس بنانیوالے ہماری اتحادی حکومت کا حصہ ہیں جو بھی کام کرتا ہوں آئین کے مطابق کرتا ہوں۔

    یوسف رضاگیلانی کا کہنا تھا کہ میں نے ایک معزز رکن سینٹ کے پرڈکشن آرڈر جاری کئے تھے معزز رکن سینٹ کا آئینی حق ہے کہ وہ سیشن میں آئے کل جس معزز رکن سینٹ کو گرفتار کیاگیا ہے اسے بھی سینٹ میں لایا جائے، نہروں کا معاملہ میرٹ حل ہونا چاہیئے۔

  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: ارمغان کیخلاف درج ایک اور مقدمہ سامنے آگیا

    مصطفیٰ عامر قتل کیس: ارمغان کیخلاف درج ایک اور مقدمہ سامنے آگیا

    کراچی: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں نامزد ارمغان کے خلاف ایک اور مقدمہ سامنے آگیا، مرکزی ملزم پر وکیل کو قتل کی دھمکیاں دینے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا۔

    پولیس حکام نے بتایا کہ وکیل سیف ایڈووکیٹ کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا تھا، ارمغان نے اپنے خلاف مقدمات میں پیش وکیل کو دھمکی آمیز میسج کیے تھے، ملزم کے خلاف 2 مقدمات میں مدعی کے وکیل کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔

    یہ بھی پڑھیں: ارمغان کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے سے متعلق تحقیقات شروع

    مدعی وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ 22 اپریل 2024 کو ارمغان نے واٹس ایپ پر میسجز کیے تھے کہ پیچھے نہ ہٹے تو جان سے جاؤ گے یا غائب کروا دوں گا، مجھے اور میری فیملی کو مغلظات بھی بکی گئی تھیں۔

    مقدمہ درج ہونے پر سٹی کورٹ نے مقدمے میں آئندہ سماعت پر ملزم کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

    گزشتہ روز قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی نے ہائی پروفائل کیس سے متعلق بڑا فیصلہ کرتے ہوئے ماہر ایف آئی اے افسران پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔

    اس متعلق ڈپٹی ڈائریکٹر سائبرکرائم سرکل کراچی کی جانب سے آفس آرڈر جاری کر دیا گیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر فرانزک اسلم منظور کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی۔

    اسسٹنٹ ڈائریکٹر فرانزک عامر زیب ٹیم میں بطور ممبر شامل ہوں گے جبکہ سب انسپکٹر شعیب شہاب بھی بطور ممبر تحقیقاتی ٹیم میں شامل ہیں۔

    قائمہ کمیٹی اجلاس میں مشاہدات کی روشنی میں کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

  • مصطفیٰ عامر قتل کیس : پولیس تفتیش کے دوران ملزم ارمغان کے باربار بیہوشی کا ڈرامہ کرنے کا انکشاف

    مصطفیٰ عامر قتل کیس : پولیس تفتیش کے دوران ملزم ارمغان کے باربار بیہوشی کا ڈرامہ کرنے کا انکشاف

    کراچی : مصطفیٰ عامر قتل کیس میں پولیس تفتیش کے دوران ملزم ارمغان کے بار بار بے ہوشی کا ڈرامہ کرنے کا انکشاف ہوا، رپورٹ میں بتایا گیا ملزم بار بار اپنے بیان تبدیل کررہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی منتظم عدالت میں مصطفی عامر کے اغواء اور قتل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی۔

    پولیس کی ملزم شیراز کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو اقبالی بیان ریکارڈ کرانے کی تیاری کرلی گئی، پولیس نے کیس تحقیقات کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کردیا اور پولیس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ حاصل کرلی۔

    پولیس کی جانب سے انسداددہشت گردی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ سامنے آگئی، جس میں پولیس تفتیش کے دوران ملزم ارمغان کے بار بار بیہوشی کا ڈرامہ کرنے کا انکشاف کیا۔

    ریمانڈ رپورٹ میں بتایا گیا کہ زوما نامی لڑکی سے تفتیش کرکے دیگر ساتھیوں کو گرفتار کرنا ہے، تفتیش میں ملزم شیراز نے بخوبی اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے۔

    رپورٹ میں کہنا تھا کہ ملزم ارمغان نہایت شاطر، چالاک اور عادی جرائم پیشہ ہے، ملزم ارمغان بار بار اپنے بیان تبدیل کررہا ہے، ملزم ارمغان بار بار بیہوش ہونے کی ایکٹنگ کرتا ہے،ملزم شیراز کا ویڈیو بیان بھی ریکارڈ کرایا گیا ہے۔

    ریمانڈ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مقتول مصطفیٰ کا ڈی این اے والدہ کے ڈی این اے سےمیچ ہوگیا، ڈی این اے میچ ہونے سے ثابت ہوتا ہے لاش مصطفیٰ عامر کی ہے۔

    ملزم شیراز کا متعلقہ مجسٹریٹ کےروبرو اقبالی بیان ریکارڈ کرانا ہے، ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو ملزمان سےتفتیش کرےگی۔

    ارمغان کےدیگر مقدمات کی معلومات کیلئےافسران کولیٹر بھیجےہیں، ملزم کال سینٹراورسافٹ ویئرہاؤس چلارہا تھا اور دیگرغیر قانونی سرگرمیوں بھی ملوث ہے، تفتیش کرکے غیر قانونی سرگرمیوں کی معلومات بھی حاصل کرنی ہے۔

  • مصطفی عامر کا  قتل: ملزم ارمغان کے گھر میں کام کرنے والے 2 افراد کے تہلکہ خیز انکشافات

    مصطفی عامر کا قتل: ملزم ارمغان کے گھر میں کام کرنے والے 2 افراد کے تہلکہ خیز انکشافات

    کراچی : مصطفی عامر قتل کیس میں ملزم ارمغان کے گھر کام کرنے والے دو افراد کے سسنی خیز انکشافات سامنے آئے۔

    تفصیلات کے مطابق سٹی کورٹ میں مصطفی عامر قتل کیس کی سماعت میں ملزم ارمغان کو گواہ نے شناخت کرلیا۔

    گواہ نے بیان میں کہا کہ میرانام غلام مصطفیٰ اور حیدرآباد کا رہائشی ہوں، میں بنگلے میں صفائی کا کام کرتا تھا، نیو ایئر کو 2 بجے کال آئی مجھے گھر بلایا تھا میں نے منع کردیا۔

    غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ یکم جنوری کو 3 بجے بنگلے پر آئے تو دیکھا  30 سے  40لوگ آئے ہوئے تھے، کھانا آن لائن منگوایا جاتا تھا اور ہمیں باہرجانے کی اجازت نہیں تھی۔

    گواہ نے کہا کہ جب کام ہوتاتھا تو باس ہمیں بلاتے تھے، گھر کا گیٹ ریموٹ سے کھلتا تھا۔

    گواہ نے بتایا کہ 6جنوری کو رات 9 بجے ایک لڑکا آیا جو اوپر چلا گیا، عدالت نے استفسار کیا لڑکا دیکھنے میں کیسا تھا تو غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ لڑکا دیکھنے میں دبلا پتلا تھا ، لڑکا اوپر گیا کچھ دیر گالم گلوچ اور فائرنگ کی آواز آئی، باس نے کیمرہ پر دیکھ ہمیں اوپر بلایا اور ہمیں کمرے میں رہنے کا کہا گیا اور کہا کہ ڈرو نہیں۔

    گواہ کا کہنا تھا کہ تھوڑی دیر بعد باس نے اوپر بلایا اور کہا کہ کپڑااور شاور لیکر آو، اوپر گیا توباس کے پاس چھوٹے قد کا چشمہ لگایا ہوا ایک لڑکا موجود تھا ، باس نے ہم سے خون صاف کرایا ، اس وقت وہ لڑکا نہیں تھا جو آیا تھا ، خون صاف کرکے رات ایک بجے ہم کھانا کھانے بیٹھ گئے، پھر میں نے دیکھا رات ایک بجے جو لڑکا آیا تھا اس کی گاڑی اور وہ موجود نہیں تھا۔

    غلام مصطفیٰ نے کہا کہ دن ایک بجے گیٹ کھولا تو دو لوگ موجود تھے ایک چشمہ والا اور ایک ہمارا باس، ہمارے باس نے ایک سے دودن بعد ہمیں چھٹی دے دی تھی، ہمیں اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

    مزید پڑھیں : مصطفی عامر قتل کیس سال 2025 کا ہائی پروفائل کیس بن گیا

    گھر پر چھاپے کے حوالے سے گواہ نے بیان میں بتایا کہ 5 فروری کو پولیس نے چھاپہ مارا توفائر نگ ہورہی تھی، فائرنگ میں 2بندے زخمی ہوگئے تھے اور ہم اس وقت چھپ کر باہر نکلے اور چلے گئے تھے ، پولیس نے ہم سے پوچھ گچھ کی اور ہم نے سب بتادیا کہ ایسا واقعہ ہوا۔

    گواہ نے مزید بتایا کہ پولیس اسی رات ہمیں بنگلے پر لے کر گئی موقع واردات پر پولیس کو خون کے نشانات بتائے ، قالین ہٹایا تو خون کے نشانات موجود تھے، پولیس نے سیمپل لئے اور میں نے گولیوں کے نشانات بھی دیکھائے ، جس کے بعد تھانے میں ہم سے نمبرلیاگیا اور پھر ہمیں چھوڑ دیاگیا، پولیس نے ہمیں کال کرکے بلایا اور آج میں یہاں موجود ہوں۔

    ملزمان کے وکلا نے گواہ کے بیان پرجرح کرنےکیلئے وقت مانگ لیا تاہم دوسرےگواہ زوہیب نے بھی ملزمان کو گواہی میں شناخت کرلیا۔

    دوسرے گواہ نے بیان میں بتایا کہ میرانام ذوہیب عمر17سال ہے، میں ارمغان کے پاس کام کرتاہوں، کام پر رکھنے کے دوران کہا گیا تھا فیملی والوں کاگھرہے لیکن بنگلےمیں فیملی نہیں تھی۔

    گواہ ذوہیب کا کہنا تھا کہ چھٹی کے بعد یکم جنوری کو آیا تو گھر میں بہت کچراتھا، صفائی کرنے کے بعد ہم چلے جاتے تھے، ہمیں اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی اور جب کوئی گھرمیں آتاتھا ہمیں ملنے کی اجازت نہیں تھی۔

    ذوہیب نے کہا کہ 5 جنوری کو کپڑے استری کرنے کے بعد اوپر لیکرگیا، وہاں لڑکی بھی بیٹھی ہوئی تھی، اور 6 جنوری کو گاڑی میں مصطفی نامی شخص تھا ، مصطفیٰ جب اندر آیا تو اس نے چہرا چھپایا ہوا تھا، مصطفیٰ اوپر گیا توگالم گلوچ اور فائرنگ کی آوازآئی، فائر کی آواز آئی تو ہم مین گیٹ کی طرف بڑھے۔

    گواہ کا مزید کہنا تھا کہ باس نے ہمیں تسلی دی کہ کوئی ایسی بات نہیں ، تھوڑی دیر بعد باس نے پانی کی بوتل اور کپڑے منگوائے، باس نے کہا یہ خون صاف کرو اور کمرے میں آرام کرو۔