Author: فاروق سمیع

  • شواہد کی عدم فراہمی، عزیر بلوچ 2 مقدمات میں بری

    شواہد کی عدم فراہمی، عزیر بلوچ 2 مقدمات میں بری

    کراچی: پراسیکیوشن کی جانب سے شواہد کی عدم فراہمی کے باعث لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو بری کردیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی مقامی عدالت میں عزیربلوچ کیخلاف پولیس مقابلے، اقدام قتل کے دو مقدمات کی سماعت ہوئی، عدالت کے استفسار پر پراسکیوشن عزیر بلوچ سے متعلق شواہد پیش نہ کرسکا۔

    شواہد کی عدم فراہمی پر عدالت نے دو مقدمات میں عزیر بلوچ کی بریت کی درخواست منظور کرلی، عدالت نے کلاکوٹ ،چاکیواڑہ تھانے کے دو مقدمات میں عزیر بلوچ کو بری کردیا۔ 

    دو ہزار بارہ میں پولیس مقابلے،اقدام قتل کی دفعات پر عزیر بلوچ کے خلاف یہ مقدمات درج ہوئےتھے،اس کے علاوہ ملزم عزیر بلوچ کےخلاف 58 سے زائد مقدمات کراچی کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

    گذشتہ سال ماہ نومبر میں عزیربلوچ سےبرآمد راکٹ لانچر اور دھماکہ خیزمواد جل جانے کا انکشاف سامنے آیا تھا، تفتیشی افسر نے کیس پراپرٹی جلنے سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  عزیربلوچ سے برآمد راکٹ لانچر اور دھماکہ خیزمواد جل جانے کا انکشاف

    بم ڈسپوزل کے اے ایس آئی نے انسداد دہشت گردی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے بتایا تھا کہ عزیر بلوچ سے ملنے والے 3 آر پی جی سیون راکٹ ، 6 رائفل گرینڈ ،دستی بم کوناکارہ کیا گیا، عدالت نے تفتیشی افسرسے سوال کیا کہ مقدمے کےکیس پراپرٹی کہاں ہے، جس پر تفتشی افسر نے جواب دیا کہ مقدمہ کی کیس پراپرٹی جل گئی ہے۔

  • سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل بحال کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل بحال کرنے کا حکم

    کراچی: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحالی کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں آج اہم کیسز کی سماعت جاری رکھے ہوئے ہیں، ان میں کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحالی کا کیسز بھی زیر سماعت آیا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ کے سی آر کہاں تک پہنچی، جس کے جواب میں ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ لوکل ٹرین ،کے سی آر الحمد اللہ ٹھیک چل رہی ہیں، سرکلر ریلوے کے لیے انڈر پاسز بنائے جا رہے ہیں ساتھ ہی ماس ٹرانزٹ پلان بھی بنایا جا رہا ہے۔

    اس موقع پر سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گرین لائن زیر تعمیر ہے، یہاں ریلوے اراضی کا کچھ تنازع ہے، ستر فیصد کراچی سرکلر ریلوے مکمل چل سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے سیکریٹری ریلوے کو حکم دیا کہ آپ کراچی سرکلر ریلوے چلائیں، سندھ حکومت سے بات کریں ، کےسی آر کو 100 فیصد چلائیں، کچھ تنازعات ہیں تو انہیں حل کرانا آپ کا کام ہے، کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل بحال کرنے کے اقدامات کریں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے ریلوے اراضی کی زمینوں پر قائم قبضے فوری ختم کرانے اور ریلوے کو تمام زمینیں واگزار کرانے کا بڑا حکم دیا، اپنے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ریلوے خود آپریشن کرے اور تمام اراضی واگزار کرائے۔

    عدالت عظمیٰ نے ڈی جی رینجرز کو ریلوے حکام کی مدد کرنے اور آئی جی سندھ کو بھی آپریشن میں سیکورٹی دینے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ریلوے کی لیز پر دی گئی اراضی بھی خالی کرائی جائیں۔

    عدالتی حکم میں کہا کیا کہ لیز پر دی گئی اراضی کو واپس لینے کا طریقہ کار بنایا جائے، اس موقع پر سیکریٹری ریلوے کا قبضے ختم کرانے پر اظہار بےبسی کرتے ہوئے بتایا کہ رینجرز کی مدد چاہیے ورنہ قبضے ختم نہیں کرائےجا سکتے، ریلوے کی زمینیں واگزار کرانے کے دوران ہمارے کئی ملازمین آپریشن زخمی بھی ہوچکے، ہمارے لیے بہت سے مسائل ہیں، دھمکی آتی ہیں۔

    سپریم کورٹ کا تیجوری ہائٹس کو تحویل میں لینے کا حکم

    دوران سماعت عدالت نے شہر کے قیمتی رہائشی منصوبے کے خلاف بڑا حکم دیا، سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی کا حکم دیا کہ تیجوری ہائٹس کو فوری طور پر تحویل میں لیا جائے، عدالت نے تیجوری ہائٹس منصوبےکی تعمیرات پر کام روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ حکم تک تیجوری ہائٹس کمشنر کراچی کی تحویل میں رہے گا۔

    اس سے قبل تیجوری ہائٹس بنانے کیخلاف ریلوے کی درخواست پر سماعت کے دوران ریلوے حکام، رضا ربانی اور بینچ میں گرما گرمی ہوئی، تیجوری ہائٹس منصوبے کی جانب سے رضا ربانی کیس کی پیروی کررہے تھے۔اس موقع پر سیکرٹری ریلوے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسٹیشن زمین پر عمارت بن گئی تو سرکلرریلوےنہیں بن سکتی، جس پر رضا ربانی نے کہا کہ یہ زمین ریلوے کی ہے ہی نہیں، رضا ربانی کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیا آپ اپنی پارٹی سےکوئی وعدہ کرکے آئے ہیں؟ رضاربانی نے کہا کہ میرے وقار اور عزت نفس پر ریمارکس نہ دیے جائیں، میں کیس لڑ رہا ہوں اور دلائل دینا چاہتا ہوں۔

    اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ رضا ربانی صاحب ہم وہی کہہ رہے ہیں جو آج کل عدالتوں میں ہورہاہے، وکلا پارٹیوں سےوعدہ کرکے عدالت آتے ہیں، پھر ہمیں کونسل کو کچھ یاد دلانا پڑتا ہے، دستاویز سے ثابت ہے کہ یہ زمین ریلوے کی ہے، رضا ربانی صاحب یہ سب جعلی دستاویزبنے ہوئے ہیں اور  ہمیں معلوم ہے یہ دستاویزات کیسے بنتے ہیں؟

  • تجاوزات کیس: چیف جسٹس پاکستان نے سعید غنی اور ناصرشاہ کو روک لیا

    تجاوزات کیس: چیف جسٹس پاکستان نے سعید غنی اور ناصرشاہ کو روک لیا

    کراچی: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں تجاوزات سے متعلق کیس میں صوبائی وزرا سعید غنی اور ناصر حسین شاہ کا عدالت سے باہر جانے سے روک دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں آج اہم کیسز کی سماعت جاری رکھے ہوئے ہیں، کراچی تجاوزات کیس میں معزز چیف جسٹس نے آج وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو طلب کیا۔

    مراد علی شاہ عدالتی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری پہنچے اور چیف جسٹس کے روبرو پیش ہوئے، اس موقع پر مرتضیٰ وہاب اور سعید غنی اور ناصر حسین شاہ بھی وزیر اعلیٰ کے ہمراہ تھے۔

    اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کا شکر گزار ہوں، پانچ مئی 2019 کے ایک آرڈر سےمتعلق پیشرفت سے آگاہ کیا، کےایم سی اور سندھ حکومت کےاختیارات کےمعاملے پر بات ہوئی، قانون کےتحت سندھ حکومت نے کےایم سی کو اختیارات دیئے۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ زمینی حقائق یہی ہیں کہ کراچی میں کچھ نہیں ہوا، مراد علی شاہ نے بتایا کہ فٹ ہاتھ تک کلیئر کرایا ، سی ایم ہاؤس کےپاس کنٹینرز ہٹا لئے، جس پر معزز چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وہ تو آپ کی سیکیورٹی کیلئےتھا اس سےہمارا کیا تعلق؟، وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا کہ ہم نے شہریوں کے لئے فٹ پاتھوں کوکلیئر کرایا، ہم نے کابینہ کی منظوری سے آپ کے حکم پر عمل درآمد کرایا، میئر کے پاس تجاوزات خاتمےکی ذمہ داری تھی انہوں نےنہیں کیا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے واضح کیا کہ میرے احکامات نہیں عدالت کا حکم تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کراچی کی بہتری اور اصل شکل میں بحالی کیلئے کیا قدم اٹھایا؟ مراد علی شاہ نے بتایا کہ شہید ملت سے طارق روڈ تک نئی سیوریج لائنز اور یونیورسٹی روڈ تعمیرکیا،

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ کراچی کے شہری تو گاؤں میں رہتے ہیں، سارا شہر گاؤں میں تبدیل ہوگیا ہے، نہ سڑکیں ہیں نہ پانی ،پارک ہیں نہ میدان کچھ بھی نہیں، جس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم پلانٹیشن کررہے ہیں ، سڑکوں کووسعت دےرہے ہیں، اہم شاہراہوں پر کام کیا گیا ہے کئی مقامات پر کام جاری ہے، کچھ مہلت مل جاۓ تو عمل درآمد رپورٹ پیش کردیں گے، جس پر عدالت نے کراچی تجاوزات سے متعلق عملدرآمد کیس میں وزیراعلیٰ سندھ کو ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا اور وزیراعلیٰ کو کہا کہ آپ جاسکتے ہیں۔

    وزیراعلیٰ کے سپریم کورٹ کراچی میں رجسٹری سے اجازت ملنے کے بعد صوبائی وزرا ناصر حسین شاہ اور سعید غنی بھی مراد علی شاہ کے ہمراہ جانے لگے تو چیف جسٹس نے دونوں وزرا کو عدالتی احاطے سے باہر جانے سے منع کردیا۔

    چیف جسٹس نے ناصر حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ناصر شاہ صاحب سامنے آئیں، آپ کے حوالے سے خبر ہے عمارتیں بنانے کی اجازت دیں، شہر میں کہاں جگہ ہے جو نئی عمارتیں بنیں گی ؟؟۔

    جس پر صوبائی وزیر ناصر شاہ نے کہا کہ کسی کو غیر قانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دینگے آپکےحکم کی تعمیل ہوگی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپکے آرڈر پر ایس بی سی اے والا بابا ویسےہی کانپ رہا ہے وہ کیاکرےگا ؟، وزیربلدیات سندھ ناصر شاہ نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق کام ہوگا یقین دلا رہا ہوں۔

  • کمشنر کراچی کو کل تک "کڈنی ہل ” سے تجاوزات ختم کرانے کا حکم

    کمشنر کراچی کو کل تک "کڈنی ہل ” سے تجاوزات ختم کرانے کا حکم

    کراچی: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی کو کل تک کڈنی ہل کی زمین سے تمام تجاوزات ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے، اگر کل تک کڈنی ہل کی زمین کلیئر نہ ہوئی تو کمشنر کو جیل بھیج دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کڈنی ہل کی زمین واگزار کرانے کے کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم پر ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوران سماعت عدالت نے کمشنر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کڈنی ہل کی زمین واگزار کے لئے ہمارے حکم پر کیا عمل درآمد ہوا ہے؟ اب بھی ملبہ پڑا ہوا ہے، ابھی آپ کو یہاں سے جیل بھیجتے ہیں آپ کو اتنا نہیں معلوم کیا کرنا ہے؟، اگر کل تک کڈنی ہل کی زمین کلیئر نہ ہوئی تو جیل بھیج دیں گے۔

    چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کمشنر کراچی تجاوزات کا مکمل خاتمہ کرکے رپورٹ دیں، کل تک عمل نہ ہوا توجیل بھیجنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔

    تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت

    سپریم کورٹ کراچی میں تجاوزات کیس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بتائیں، شہر کا کیا حال ہے؟ کے ایم سی کے پارک کون بحال کرے گا؟ لیاری، کھارادر اور دیگر علاقوں میں پارک کہاں گئے؟ موہٹاپیلس کے سامنے کھلا علاقہ تھا وہ کہاں گیا؟ بچوں کے پارک پر جعلی دستاویزات بنے ہوئے ہیں۔

    اس دوران میونسپل کمشنر، چیف سیکریٹری اور دیگر حکام عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے،ت جاوزات کےخاتمے پر مطمئن نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موہٹا پیلس کے سامنے کوئی زمین تھی کسی کو معلوم بھی ہے؟ یہاں تو کسی کو معلوم ہی نہیں؟ آپ لوگوں کو اصل میں کچھ معلوم نہیں؟، ایک زمانے میں وہاں بچے کھیلتے تھے، نظر پڑی اور جعلی کاغذ بن گئے، یہ افسران تو خود ڈرے ہوتےہیں، کہیں سے خطرہ ہوتا ہے ناراض ہوئے تو تبادلہ ہوجائےگا۔

  • ڈینئیل پرل کیس، ملزمان کی نظر بندی غیر قانونی قرار

    ڈینئیل پرل کیس، ملزمان کی نظر بندی غیر قانونی قرار

    کراچی: ڈینیل پرل کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے بڑا فیصلہ دیتے ہوئے ملزمان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کیس میں بریت کے بعد ملزمان کی نظر بندی کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی،عدالت نے فریقین کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے احمد عمر شیخ سمیت چار و ں ملزمان کی نظر بندی کانوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

    اپنے فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ملزمان بغیر کسی جرم کے اٹھارہ سال سے جیل میں ہیں، ملزمان کو جب عدالت طلب کرے گی تو پیش ہوں، ملزمان میں فہد نسیم، سیدسلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل شامل تھے، انسداد دہشتگردی کی عدالت نے احمد عمر شیخ کو اس کیس میں سزائےموت سنائی تھی، دیگر تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، سندھ ہائیکورٹ نےسزا کیخلاف اپیل منظور کرتے ہوئے ملزمان کو بری کردیا تھا۔

    فیصلے سے قبل اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ ملزمان کی نظر بندی کا اختیار صوبائی حکومت کا ہے، جس پر جسٹس امجد علی سہتو نے نظر بندی نوٹی فکیشن میں قانونی خامیاں ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ داخلہ پڑھے لکھے لوگ بھی رکھ لے، نوٹی فکیشن میں کیا لکھا ہے کبھی خود بھی پڑھا ہے، کہاں لکھا ہے کہ عمر شیخ دہشت گرد ہے؟ اگر کسی کو بند بھی رکھنا ہے تو قوائد تو پورے کریں۔

    جسٹس کریم الدین آغا نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے کہاں لکھا کہ عمر شیخ کا تعلق کسی کالعدم تنظیم سے ہے، نوٹی فکیشن میں کسی حساس ادارے کی رپورٹ کا ذکر نہیں، جمہوری معاشرے میں آپ کیسے کسی کو بند رکھ سکتےہیں۔اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے بینچ پر اعتراض عائد کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بینچ عمر شیخ کی اس درخواست کو نہیں سن سکتا، اس بینچ نے ڈینیل پرل کیس میں اپیلوں کافیصلہ سنایا ہے، جس پر جسٹس کریم الدین آغا نے ریمارکس دئیے کہ اس کیس کا تعلق اپیلوں سےبالکل مختلف ہے، جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ ملزمان کی پہلے چھ ماہ اور پھر 3، 3 ماہ نظر بندی کی گئی، نظر بندی کی وجہ بیان تو کریں، کیا خدشے پر کسی کو بھی اس طرح بند کردیں گے؟۔

    جسٹس کریم الدین آغا نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بہت سے دہشتگرد قتل اور اغوا کیس میں بری ہوئے، کیا آپ نے ان سب دہشت گردوں کونظر بند کیا؟، آپ صرف خدشے پرکسی کو کیسے نظر بند رکھ سکتے ہیں؟، آپ کہتے ہیں کہ ملزم کو رہا کردیا تو بم دھماکے کرے گا، کیا کسی کا کسی کالعدم تنظیم سےتعلق ہے؟

    عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر آپ نے نوٹی فکیشن جاری کرنا ہے تو لاجک بھی دینا ہوگی، آئین وقانون کسی شہری کےحقوق سلب کرنےکی اجازت نہیں دیتا۔SHC

    رواں سال اپریل میں امریکی صحافی ڈینیل پرل قتل کیس کے ملزمان کی اپیلوں پر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے تینوں ملزمان کو بری کر دیا تھا، سندھ ہائی کورٹ نے احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو بھی 7 سال قید میں تبدیل کر دیا، عدالت کا کہنا تھا کہ احمد عمر شیخ پر اغوا کا الزام ثابت ہوا ہے، تاہم ڈینیل پرل کے قتل کا الزام کسی ملزم پر ثابت نہیں ہوا جس پر دیگر تینوں ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  سندھ حکومت نے صحافی ڈینیل پرل قتل کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

    یاد رہے کہ برطانوی شہریت رکھنے والے احمد عمر شیخ کو انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے سزائے موت سنائی تھی، جب کہ ملزمان فہد سلیم، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی، یہ سزائیں ملزمان کو 15 جولائی 2002 کو سنائی گئی تھیں۔

    ملزمان پر امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا اور قتل کا الزام تھا، ڈینیل پرل امریکی جریدے وال اسٹریٹ جنرل جنوبی ایشیا ریجن کے بیورو چیف تھے۔

  • سندھ میں ایک اور پولیس مقابلہ جعلی قرار

    سندھ میں ایک اور پولیس مقابلہ جعلی قرار

    کراچی: سندھ پولیس کی جعلی مقابلوں کی فہرست طویل ہونے لگی، عدالت نے ایک اور پولیس مقابلہ جعلی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے سال دوہزار انیس میں سپر ہائی وے کراچی میں ہوئے مبینہ پولیس مقابلے میں گرفتار ملزمان کی بریت سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز پر ملزمان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ منگھوپیر پولیس نےدوہزار انیس میں سپر ہائی وے پر مقابلہ کیا، مقابلے کی کوئی انٹری تھی نہ متعلقہ تھانے کو اطلاع، پولیس نے جعلی مقابلہ کرکے عبداللہ مسعود کو قتل کیا اور میرے دونوں مؤکلوں کو فائرنگ کرکے زخمی کیا۔

    ملزمان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو5، پانچ سال قیدکی سزا سنائی تھی۔

    ملزمان کے وکلا کی دلائل کے بعد عدالت نے سندھ پولیس کے مقابلے کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی اسٹوری فکشن اسٹوری پر مبنی ہے، ملزم کو بارہ گولیاں سینے پر ماریں مگر سامنے سےایک گولی نہ چلی، تعجب ہے کوئی پولیس اہلکار زخمی تک نہ ہوا۔

    عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب مخالف سمت سے کوئی فائر نہ ہوا تو اتنی گولیاں کیوں برسائیں گئیں؟، ایس ایس پی سات دن میں پولیس پارٹی کےخلاف کارروائی کریں اور پندرہ دن میں انکوائری رپورٹ پیش کی جائے، ساتھ ہی عدالت نے اپنے حکم نامے میں ملزمان محمدسہیل اور شیراللہ کو بری کرنے کا حکم دیا۔

    اس سے قبل رواں ماہ سات دسمبر کو بھی سندھ پولیس کا ایک اور مقابلہ جعلی نکلا تھا، جہاں ہائی کورٹ نے پولیس پارٹی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

    عدالت نے ریمارکس دئیے کہ پولیس نے ملزمان کی جانب سے بھاری اسلحے سے فائرنگ کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم جائے وقوعہ سے گولیوں کے خول صرف تین برآمد ہوئے اور پولیس نے ملزمان سے جو اسلحہ برآمد کیا وہ بھی خول سے میچ نہیں کرتے، واقعے میں اے ایس آئی عمران، پولیس کانسٹیبلز عارف، سجاد، وقار اور فہد علی شامل تھے، بعد ازاں عدالت نے محکمہ جاتی کارروائی کا حکم ایس ایس پی ویسٹ کو دے دیا تھا۔

  • کرپشن کیسز: مشیر جیل خانہ جات سندھ کی درخواست ضمانت مسترد

    کرپشن کیسز: مشیر جیل خانہ جات سندھ کی درخواست ضمانت مسترد

    کراچی: آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس اور جیکب آباد ہائی وے کرپشن کیسز میں عدالت نے مشیر جیل خانہ جات کی درخواست ضمانت مسترد کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں مشیر جیل خانہ جات اعجاز جاکھرانی کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، اعجاز جاکھرانی عدالت میں پیش نہ ہوئے،جس پر عدالت نے اعجاز جاکھرانی کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ عبوری ضمانت بھی مسترد کردی۔

    دوران سماعت وکیل مشیر جیل خانہ جات نے عدالت میں موقف اپنایا کہ بدنیتی پر مبنی ریفرنس بنایا گیا، سیاسی مخالفین کی درخواست پر انکوائری شروع کی گئی۔جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ مشیر جیل خانہ جات سندھ کے خلاف ہائی وے جیکب آباد اور زائد اثاثے بنانےکی انکوائری چل رہی ہے، ان کے خلاف ریفرنس دائر ہوچکا ہے۔

    عدالت کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد نیب حکام اعجاز جاکھرانی کو گرفتار کرنے کیلئے متحرک ہوگئے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  اعجاز جاکھرانی کے گھر نیب کا چھاپہ

    نیب کے مطابق اعجازحسین جاکھرانی کیخلاف آمدن سے زائداثاثوں کی تحقیقات جاری ہیں۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اعجازجاکھرانی کو مشیرجیل خانہ جات کا قلمدان دیا ہوا ہے، اعجاز جاکھرانی نے گزشتہ دنوں ضمانت قبل ازگرفتاری حاصل کی تھی۔

  • اشیائےخورد ونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر وفاق سے جواب طلب

    اشیائےخورد ونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر وفاق سے جواب طلب

    کراچی: کراچی کی عدالت نے اشیائےخوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر وفاق سے جواب طلب کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سےجواب داخل نہ کرنےپر عدالت نے اظہار برہمی کیا، عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب سے استفسار کیا کہ وفاقی ادارےجواب کیوں جمع نہیں کراتے؟، باربارنوٹسز جاری ہوچکے،آخرکب جواب جمع کرائیں گے؟

    اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئندہ سماعت پر جواب کو یقینی بنائیں گے، جس پر عدالت نے وفاق سے آئندہ سماعت پرجواب طلب کرلیا۔

    اس سے قبل عدالت میں درخواست گزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا تھا کہ عوام کیلئے بنیادی اشیا کی خریداری مشکل ہوچکی، وفاق سے پوچھا جائے کہ مہنگائی کو کیوں نہیں روکا جارہا؟حکومتی ادارے ناکام ہوچکے، عدالت عمل داری کاحکم دے۔

  • ایدھی ہوم میں ڈکیتی کرنے والے ایدھی کی ایمبولینس میں اسپتال جا پہنچے

    ایدھی ہوم میں ڈکیتی کرنے والے ایدھی کی ایمبولینس میں اسپتال جا پہنچے

    کراچی: وقت بھی کیا کیا رنگ دکھاتا ہے، ملزمان نے کھبی سوچا بھی نہ ہوگا کہ جہاں ڈکیتی کی واردات کی، اسی ادارے کی ایمبولینس میں اسپتال جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سٹی کورٹ میں آج بالکونی گرنے کا واقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں پیشی پر آئے تین ملزمان زخمی ہوئے۔

    واقعے سے متعلق پولیس نے بتایا کہ بالکونی گرنے کا واقعہ سٹی کورٹ ساؤتھ کی عمارت میں پیش آیا، حادثے میں پیشی پر آئے تین ملزمان زخمی ہوئے، جنہیں طبی امداد کے لئے سول اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

    پولیس حکام نے حیران کن انکشاف کیا کہ بالکونی گرنے سے جو ملزمان زخمی ہوئے وہ ایدھی ہوم میٹھادر ڈکیتی کیس میں نامزد ہیں، زخمی ملزمان میں عمیر، سلیم اور جان اختر شامل ہیں۔

    تینوں ملزمان نے دوہزار چودہ میں ایدھی ہوم میٹھادر میں کروڑوں روپےکی ڈکیتی کی تھی اور آج سٹی کورٹ میں پیش آنے والے واقعے کے بعد انہیں ایدھی کی ایمبولینس کے زریعے ہی طبی امداد کے لئے سول اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں انہیں طبی امداد دی جارہی ہے۔

    پولیس کے مطابق حادثے کے باعث نیچے کھڑی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔

    یاد رہے کہ سال دو ہزار چودہ میں کراچی کے علاقے میٹھادر میں مسلح افراد معروف سماجی کارکن مرحوم عبدالستار ایدھی کو یرغمال بنا کر دو کروڑ روپے نقد اور 5 کلو سونا لوٹ کر فرار ہوگئے تھے۔

  • ملازمین برطرفی کیس: اسٹیل ملز وکیل آئندہ سماعت پر مطمئن کریں، لیبرکورٹ

    ملازمین برطرفی کیس: اسٹیل ملز وکیل آئندہ سماعت پر مطمئن کریں، لیبرکورٹ

    کراچی: پاکستان اسٹیل ملز کے پچاس فیصد زائد ملازمین کی برطرفیوں سے متعلق کیس میں اسٹیل ملز کے وکیل کو آئندہ سماعت پر عدالت کو مطمئن کرنے کا حکم دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لیبر کورٹ میں پاکستان اسٹیل سے پچاس فیصد سے زائد مزید برطرفیوں کے لئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی،عدالت میں برطرفیوں کی اجازت کیلئے سی ای او اسٹیل مل کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی۔

    لیبر کورٹ میں درخواست ویسٹ پاکستان انڈسٹریز ایکٹ سیکشن گیارہ اے کے تحت دائر کی گئی ، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز ملکی خزانہ پر بوجھ ہے، مزید چلانا ممکن نہیں رہا، اسٹیل مل میں مزید چھانٹیوں اور اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جبکہ وفاقی حکومت نے بھی اسٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔دوران سماعت عدالت نے اسٹیل ملز ملازمین کو عدالت میں شور شرابے سےاجتناب کرنے کا حکم دیا۔

    اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اسٹیل مل پاکستان کی بیک بون تھی، دیکھنا ہوگا کیا ایک دم اتنی برطرفیاں کی جا سکتی ہیں؟ کرونا صورتحال میں کیا ملازمین برطرف کئےجاسکتےہیں؟

    دوران سماعت عدالت نے اسٹیل ملز کے وکیل سے بھی استفسار کیا کہ کیا کوئی اسیٹیلمنٹ چل رہی ہے؟ کیاپاکستان اسٹیل مل لیبر کورٹ میں کیس داخل کرسکتی ہے؟ بعد ازاں لیبر کورٹ نے کیس کی مزید سماعت چھ جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے اسٹیل ملز کے وکیل کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر عدالت کومطمئن کریں۔

    یہ بھی پڑھیں:  اسٹیل ملز کے 4ہزار 544 ملازمین برطرف

    واضح رہے کہ گذشتہ ماہ ستائیس نومبر کو پاکستان اسٹیل ملز سے 4544ملازمین کو برطرف کیا تھا، تمام برطرف ملازمین کو برطرفی خطوط بھیجے گئے تھے، ترجمان پاکستان اسٹیل کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز سے 4ہزار544ملازمیں کو نکال دیاگیا ہے اور نکالے جانے والے ملازمین کی فہرست تیارکرلی گئی ہے۔

    ترجمان نے بتایا کہ گروپ2،3،4اورجوزکےملازمین کوفارغ کیاگیا ہے ان گروپس میں ٹیچرز، ڈرائیورز، فائرمین، آپریٹرز، صحت اور سیکیورٹی اسٹاف شامل ہیں۔