Author: فاروق سمیع

  • مصطفیٰ قتل کیس: ارمغان کے گھر سے ملنے والی رائفل سے متعلق بڑا انکشاف

    مصطفیٰ قتل کیس: ارمغان کے گھر سے ملنے والی رائفل سے متعلق بڑا انکشاف

    تفتیشی ذرائع نے مصطفیٰ قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان قریشی کے گھر سے ملنے والی رائفل سے متعلق سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اغوا کے بعد دوست ارمغان کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات کے دوران سنسنی خیز انکشافات سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

    تاہم اب تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ مصطفی قتل کیس میں گرفتار مرکزی ملزم ارمغان کے گھر سے ملنے والی ایک رائفل اسرائیلی ساختہ نکلی ہے، ارمغان کے گھر سے 3 ہتھیار ملے تھے جسے ایف ایس ایل کیلئے بھیجا گیا تھا، تفتیشی ٹیم کو ملنے والا ہتھیار اوزی اسرائیلی ساختہ ہیں، کروڑوں مالیت کے ہتھیاروں کے لائسنس تاحال پیش نہ کیے جاسکے ہیں۔

    مصطفیٰ عامر قتل کیس میں اہم پیش رفت

    واضح رہے کہ پولیس نے مصطفیٰ قتل کیس میں تحقیقات کے دوران ارمغان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا، اس دوران پولیس کو قتل کے ملزم ارمغان کے بنگلے سے کروڑوں روپے مالیت کے بھاری ہتھیار ملے تھے۔

    حکام نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ملزم اور اس کے والد کسی بھی ہتھیار کا لائسنس پیش نہیں کر سکے ہیں جس پر برآمد ہتھیاروں کی محکمہ داخلہ سے تصدیق کرانے کا فیصلہ کیا گیا، تفتیشی حکام نے کہا تھا کہ ملزم سے ممنوعہ بور کے ہتھیار بھی برآمد کیے گئے ہیں۔

  • مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ایک اور لڑکی کا نام سامنے آگیا، ملزمان کے مزید سنسنی خیز انکشافات

    مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ایک اور لڑکی کا نام سامنے آگیا، ملزمان کے مزید سنسنی خیز انکشافات

    کراچی : مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ایک اور لڑکی کا نام سامنے آگیا، ملزمان نےدوران تفتیش مزید سنسنی خیز انکشافات کئے۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس میں پولیس نے مزید 2 سہولت کاروں اورایک لاپتہ لڑکی کا نام ظاہر کردیا۔

    پولیس کی جانب سےعدالت میں جمع کرائی گئی ریمانڈ رپورٹ میں مزید انکشافات سامنے آئے، ملزمان نے واقعے سے ایک روز قبل زومانامی لڑکی پر بھی تشدد کا اعتراف کیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ارمغان کے بنگلے سے بلڈ صواب اور کار پیٹ کے ٹکڑے کے ڈی این اے کروائے گئے، ایک کارپیٹ کے ٹکڑے پر لگا خون مدعیہ کے خون سے میچ ہوا جبکہ دو کارپیٹ کے ٹکڑوں پر لگا خون کسی نامعلوم خاتون کے ہونے کا سامنے آیا۔

    ریمانڈ رپورٹ میں کہنا تھا کہ ملزمان نےدوران تفتیش ایک لڑکی کو مارپیٹ کرکے زخمی کرنے کا اعتراف کیا، ملزمان نےایک روز قبل اسی کمرےمیں لڑکی کو مارپیٹ کرکے زخمی کیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق ملزمان کی نشاندہی پر زوما نامی لڑکی کا بھی پتہ لگانا ہے، لڑکی کابیان لیناہے اور اس کے بلڈ سیمپل کا ڈی این اے بھی کرانا ہے۔

    ارمغان بوٹ تھانہ بیسن،کلفٹن، ساحل اور درخشان کے کئی مقدمات میں نامزد و مفرور ہے، وہ کال سینٹراور ویئرہاؤس چلارہا تھا،غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے، ملزم سےغیر قانونی سرگرمیوں اور ملوث نعمان و دیگر ساتھیوں کا پتہ لگانا ہے، ساتھ ہی منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کی بھی معلومات حاصل کرنی ہیں۔

  • مصطفیٰ عامر قتل کیس، ارمغان 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    مصطفیٰ عامر قتل کیس، ارمغان 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملزم ارمغان قریشی کو 4 روز جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ عامر اغوا و قتل کیس کی سماعت ہوئی، ملزم کو سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر اے ٹی سی عدالت میں پیش کیا گیا۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ملزم پر 4 ایف آئی آر ہیں؟ سرکاری وکیل نے کہا جی 4 مقدمات ہیں، عدالت نے ملزم سے پوچھا کیا نام ہے آپ کا؟ ملزم نے بتایا کہ اس کا نام ارمغان ہے والد کا نام کامران ہے۔

    عدالت نے ملزم سے پھر استفسار کیا کہ کیا وہ 10 تاریخ سے جیل میں ہے، ملزم نے جواب دیا جی میں دس تاریخ سے جیل میں ہوں، عدالت نے پوچھا آپ کو مارا تو نہیں، ملزم نے بتایا مجھے بہت مارا ہے۔

    بڑا فیصلہ، سندھ ہائیکورٹ نے ملزم ارمغان کے ریمانڈ کی چاروں درخواستیں منظور کر لیں

    ملزم کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم کی حالت ٹھیک نہیں ہے، اس کا میڈیکل کرایا جائے، عدالت نے تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل تو پہلے دن ہی ہو جانا چاہیے تھا پھر کیوں نہیں کرایا۔

    آئی او نے عدالت سے استدعا کی ہمیں 30 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے تاکہ تفتیش مکمل کر سکیں، تاہم عدالت نے ملزم کا صرف چار روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا، اور حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر مقدمے کی پیش رفت اور میڈیکل رپورٹ پیش کی جائے۔

    ملزم ارمغان عامر مصطفیٰ کے قتل سے مُکر گیا

    واضح رہے کہ ملزم ارمغان کمرہ عدالت میں گر کر بے ہوش ہو گیا تھا، جس پر کمرہ عدالت میں اسے بینچ پر لٹایا گیا۔

  • 2024: سندھ میں 20 ہزار خواتین نے خلع کے دعوے دائر کیے

    2024: سندھ میں 20 ہزار خواتین نے خلع کے دعوے دائر کیے

    معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت نے خاندانی نظام بھی متاثر کر دیا سندھ بھر کی ضلعی عدالتوں میں 20 ہزار سے زیادہ خواتین نے خلع کے دعوے دائر کیے۔ 

    معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت نے خاندانی نظام بھی متاثر کر دیا سندھ بھر کی ضلعی عدالتوں میں 20 ہزار سے زیادہ خواتین نے خلع کے دعوے دائر کیے۔ سارا سال ماتحت عدالتوں میں والدین خلع کے لیے عدالتوں کے چکر لگاتے رہے اور ان کے بچے خوار ہوتے رہے۔

    سندھ بھر میں رواں برس کے 11 ماہ میں 18757 سے زائد خواتین خلع حاصل کرنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کر چکی ہیں اور سال کے اختتام تک امکان ہے کہ یہ تعداد 20 ہزار کے قریب پہنچ جائے، جبکہ کراچی کی عدالتوں میں مجموعی طور پر 9 ہزار 266 کیسز داخل ہوئے ہیں۔

    رواں برس 8 ہزار 978 کیسز کے فیصلے سنائے گئے جبکہ 4 ہزار 76 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، عدم برداشت اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال خاندانی نظام کو کمزور کر رہا ہے۔

    کراچی کی ضلعی عدالتوں کی بات کریں تو ضلع شرقی میں سب سے زیادہ مقدمات داخل ہوئے، جہاں فیملی عدالتوں میں دو ہزار 738 مقدمات میں سے 2 ہزار 669 کیسز کے فیصلے سنائے گئے۔

    ضلع غربی کی عدالتوں میں ایک ہزار 979 خلع درخواستوں میں سے ایک ہزار 845 مقدمات کے فیصلے سنائے گئے جبکہ 919 کیسز زیر سماعت ہیں۔

    ضلع وسطی کی عدالتوں میں ایک ہزار 863 مقدمات میں سے ایک ہزار 845 درخواستوں پرفیصلے سنائے گئے اور اب 837 مقدمات زیر سماعت ہیں۔

    ضلع جنوبی میں ایک ہزار 346 کیسز میں اسے ایک ہزار 300 کیسز کے فیصلے سنائے گئے اور 444 درخواستوں زیر التوا ہیں۔ ضلع ملیر کی عدالتوں میں ایک ہزار 340 مقدمات میں ایک ہزار 319 کیسز کے فیصلے سنائے گئے ضلع ملیر میں اب بھی 698 کیسز زیر سماعت ہیں۔

    یاد رہے کہ سال 2023 کے دوران شہر قائد میں 8 ہزار خواتین نے اپنے شوہروں سے عدالتوں کے ذریعے خلع حاصل کی تھی۔

  • عزیر بلوچ پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں بری

    عزیر بلوچ پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں بری

    کراچی: لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل کے مقدمے سے بری کردیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عزیر بلوچ کے خلاف نیوٹاؤن تھانے میں پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں عزیر بلوچ کے ساتھ دیگر ملزمان سکندر، اکبر بلوچ، سرور بلوچ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے پولیس اہلکار لالہ امین، شیر افضل خان، غازی خان کو پکڑ کر عزیر بلوچ کے حوالے کیا جنہوں نے انہیں قتل کرنے کے بعد میوہ شاہ قبرستان میں دفن کردیا تھا۔

    تاہم پراسیکیوشن لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف جرم ثابت کرنے میں ناکام رہی جس پر اے ٹی سی نے عزیر بلوچ سمیت تینوں ملزمان کو قتل کیس سے بری کردیا۔

    واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے عزیر بلوچ کے خلاف یہ 58ویں مقدمہ کا فیصلہ سنایا ہے۔

    یاد رہے کہ 29 اکتوبر کو عزیر بلوچ نے وکیل کے توسط سے اپنی فیملی کے افراد سے ملاقات اور نماز کی ادائیگی کی سہولت فراہم کرنے کی درخواست خصوصی عدالت میں دائر کی تھی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ عزیر بلوچ کو اپنی فیملی کے افراد سے ہفتے میں ایک دن ملاقات کی اجازت دی گئی تھی مگر اب اسے اپنی کسٹڈی کے انچارج کی جانب سے اس سہولت سے محروم کیا جارہا ہے، نماز پڑھنے کی سہولت بھی مہیا نہیں کی جارہی ، لہٰذا عاجزانہ درخواست ہے کہ درخواست گزار کو مندرجہ بالا سہولتوں کی فراہمی کا حکم دیا جائے۔

  • کارساز حادثہ کیس: ملزمہ نتاشا کے خلاف منشیات استعمال کرنے کا مقدمہ درج

    کارساز حادثہ کیس: ملزمہ نتاشا کے خلاف منشیات استعمال کرنے کا مقدمہ درج

    کراچی: کراچی کے علاقے کارساز میں ہونیوالے حادثے کی ملزمہ نتاشہ کی میڈیکل رپورٹ آگئی، رپورٹ میں ملزمہ کے نشے میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد ملزمہ کے خلاف منشیات استعمال کرنے کامقدمہ درج کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے کارساز روڈ پر گاڑی کی ٹکر سے باپ بیٹی کی موت کے کیس میں گرفتار ملزمہ نتاشا کی میڈیکل رپورٹ پولیس کو موصول ہوگئی ہے۔

    رپورٹ ڈائریکٹر لیبارٹریز اینڈ کیمیکل ایگزامنر گورنمنٹ آف سندھ نے جاری کی ہے، جس میں ملزمہ نتاشا کے نشے میں ہونے کا انکشاف ہوا، میڈیکل رپورٹ میں لکھا ہے کہ یورین رپورٹ میں واضح طور پر میتھافیٹامائن آئس نشے کا پتا چلا ہے۔

    ملزمہ نتاشا کیخلاف میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر منشیات ایکٹ کے تحت دوسرا مقدمہ درج کیا گیا ہے، تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزمہ نتاشا سے تفتیش کی اجازت بھی طلب کرلی، جس کے بعد عدالت نے تفتیشی افسر کو جیل کے ضوابط کے مطابق تفتیش کی اجازت دیدی۔

    ملزمہ مرکزی مقدمے میں عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہے، ملزمہ نتاشا کے خلاف میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر گزشتہ روز امتناع منشیات ایکٹ کے تحت نیا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ 19 اگست کو کارساز روڈ پر گاڑی کی ٹکر سے باپ بیٹی کے جاں بحق ہونے کا واقعہ پیش آیا تھا، گاڑی میں سوار ملزمہ نتاشا نے موٹر سائیکل پر والد کے ساتھ سوار آمنہ عارف کو پیچھے سے زور سے ہٹ کیا تھا، جس کے نتیجے میں دونوں کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس واقعے میں 5 افراد زخمی تھے جن میں سے ایک کی حالت تشویش ناک ہے۔

  • کرنٹ لگنے سے والد کی ہلاکت : بیٹی کا کے الیکٹرک کیخلاف کروڑوں روپے  ہرجانے کا دعویٰ

    کرنٹ لگنے سے والد کی ہلاکت : بیٹی کا کے الیکٹرک کیخلاف کروڑوں روپے ہرجانے کا دعویٰ

    کراچی : کرنٹ لگنے سے جاں بحق شہری کی بیٹی کے الیکٹرک کیخلاف عدالت پہنچ گئی اور 3 کروڑ 92 ہزار روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق کرنٹ لگنے سے جاں بحق شہری کی بیٹی نے ہر جانے کا دعویٰ دائرکردیا ، کے الیکٹرک کیخلاف سٹی کورٹ میں 3 کروڑ 92 ہزار روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا گیا ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ کے ای کی نااہلی کے باعث والد کرنٹ لگنےسےجاں بحق ہوئے، لانڈھی کےرہائشی گلزار کو 20 جولائی کوکام سےواپسی پرمجید کالونی میں کرنٹ لگا۔

    مزید پڑھیں : طویل لوڈشیڈنگ سے باپ کی ہلاکت، بیٹے کا کے الیکٹرک کیخلاف 2 کروڑ ہر جانے کا دعویٰ

    درخواست میں کہا گیا کہ سڑک پرجمع پانی میں تار گرنے سے کرنٹ تھا، ویڈیوسوشل میڈیا پر موجود ہے، کے ای کی نااہلی کےباعث 6 بچوں کا باپ اور گھر کا واحد کفیل جان سے گیا۔

    درخواست گزا کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کیخلاف 3 کروڑ 92 ہزار ہرجانے کا دعویٰ کیاگیاہے، کےالیکٹرک کیخلاف مقدمےکی درخواست دی لیکن پولیس درج نہیں کررہی۔

  • ہیٹ ویو کی لہر، کراچی بار نے کالا کوٹ پہننے سے استثنیٰ مانگ لیا

    ہیٹ ویو کی لہر، کراچی بار نے کالا کوٹ پہننے سے استثنیٰ مانگ لیا

    کراچی میں ہیٹ ویو کی لہر کے سبب کراچی بار ایسوسی ایشن نے کالا کوٹ پہننے سے استثنیٰ مانگ لیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی بار ایسوسی ایشن نے سیشنز ججز کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موسم کی شدت کی وجہ سے وکلا کو دس روز کے لیے کالا کوٹ پہننے سے استثنیٰ دیا جائے۔

    بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کراچی ان دنوں غیر معمولی گرمی کی لہر کا شکار ہے اس ہیٹ ویو میں وکلا کے لیے کالا کوٹ پہننا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔

    کراچی بار کا کہنا ہے کہ ان دنوں میں وکلا کے لیے کالا کوٹ پہن کر کام کرنا مشکل ہوچکا ہے لہٰذا دس روز کے لیے کوٹ پہننے سے استثنیٰ دیا جائے۔

    واضح رہے کہ کراچی میں گرمی اور حبس کی شدت برقرارہے، گزشتہ روز سے اب تک مختلف علاقوں سے20  لاشیں سرد خانے لائی گئیں۔

    ریسکیو ادارے نے بتایا کہ 20  میں سے پانچ افراد طبی موت کا شکارہوئے جبکہ پندرہ نشے کے عادی افراد ہیں۔

    ریسکیو ذرائع کا کہنا تھا کہ لاشیں لیاری، ملیر، آئی آئی چند ریگر روڈ، لسبیلہ،کورنگی ،جہان آباد اور دیگر علاقوں سے ملیں۔

  • صولت مرزا: تختۂ دارسے آگے کی بات

    صولت مرزا: تختۂ دارسے آگے کی بات

    ‘‘جسٹ فارملیٹی ۔۔ کچھ نہیں ہوگا’’

    تین بار موت کی سزا پانے والے مجرم کے منہ سے نکلے ان الفاظ نے کمرۂ عدالت میں موجود تمام افراد کو ششدر کردیا تھا، قریب کھڑے پولیس اہلکار نے توخوف کی ایک لہر اپنی ہڈیوں میں محسوس بھی کرلی۔

    قلم ٹوٹ چکا تھا صولت مرزا نہیں ٹوٹا تھا، سر جھکائے گہری سوچ میں ڈوبا، صولت علی خان جیل کی گاڑی میں بیٹھا اور جیل روانہ ہو گیا، کرم فرمائوں کی طاقت سے مطمئن صولت شاید یہ بھول گیا تھا کہ ہرعروج کا زوال ہے۔

    یہ کراچی کی سیاست کے بدلتے دن تھے جب80 کی دہائی میں ملک بھرکی طرح کراچی میں بھی مذہبی اور نظریاتی ووٹ بینک ختم ہوکرقوم پرستی کی جانب مبذول ہورہا تھا اوراس کی کوکھ سے فاروق دادا، ریحان کانا، ذکی اللہ اورصولت مرزا جیسے باغی نوجوانوں نے بھی جنم لیا جو حقوق لڑ کر لینے اوراپنی شناخت کے لئے کسی حد تک بھی جانے کے لئے تیار تھے۔ وقت گزرتا گیا لیکن کراچی کی سیاسی تاریخ میں جوتشدد داخل ہوا تو اسے واپسی کا دروازہ نہیں ملا۔ اداروں نے گولیوں اورطاقت کے ذریعے اپنی رٹ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں نجانے کتنے ہی صولت جعلی یا حقیقی پولیس مقابلوں میں مارے گئے اورکتنے ہی صولت پابندِ سلال ہوئے کچھ تو ایسے ہیں جن کا کسی کومعلوم ہی نہیں کہ کہاں ہیں؟۔

    اوراسی دوران صولت علی خان المعروف صولت مرزا جو کہ جیل میں اپنی اپیلوں کے سبب تختہ دارکی رسی کواپنی گردن سے اتارنے کے لئے بھر پور کوشش کر رہاتھا، کراچی کی سیاست میں موضوعِ بحث بن گیا ہرکوئی اس کی طاقت کے گُن گانے لگا۔ واقفانِ حال تو یہ بھی جانتے ہیں کہ کئی مسائل کے فوری حل کے لئے لوگ اس سے رجوع بھی کرنے لگے تھے۔

    اس قدرطاقتورکہ جب سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پھانسیاں لگنا شروع ہوئیں توکراچی کے شہری یہ سو چتے تھے کہ اگرصولت مرزا کوپھانسی ہوگئی تو کیا ہوگا لیکن ان تمام خدشات کا خاتمہ اس وقت ہوا جب 11 مارچ کی صبح ایم کیوایم کے مرکزنائن زیرو پرچھاپہ پڑا اوراسی دن جب وقاص شاہ کے پراسرارقتل کی باز گشت فضا میں بلند ہورہی تھی تو ٹی وی چینلزصولت مرزا کے بلیک وارنٹ جاری ہونے کی بریکنگ چلا رہے تھے۔

    19مارچ کا بلیک وارنٹ جاری تو ہوا لیکن کچھ نامعلوم افراد کےذریعےصولت کی ایک تہلکہ خیز ویڈیو سامنے آگئی اورپاؤں تلے زمین کھینچے جانے کی مہلت میں اضافہ ہوگیا۔ ویڈٰیو کیا تھی ایک پنڈورا باکس تھا جس میں ناصرف اس نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا بلکہ بہت سےاہم سیاسی شخصیات اورایم کیوایم کوبھی نشانہ بنایا گیا نتیجتاً پھانسی ایک دفعہ نہیں دوددفعہ مؤخرہوئی اس دوران ملزم کی جے آئی ٹی بھی بنی اس کی سفارشات بھی سامنے آئیں اوراس نے کچھ ایسے سوال جنم لئے جن کا جواب ملنا چاہئیے۔

    صولت مرزا نے بغیرکسی ذاتی دشمنی کے قتل کیوں کیےاورکیا ان تمام قتل کا ذمہ داروہ تنہا تھا؟

    وہ کون لوگ تھے جن کی مدد سے صولت کو جیل میں فون سمیت دیگر آسائش حاصل تھیں اورکیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟

    صرف صولت کوپھانسی دینامقصود تھی اوردیگرملزمان نہیں پکڑنا تھا توکیا ویڈیوبیان اورجے آئی ٹی کا مقصد صرف کسی کی سیاسی تذلیل تھا؟۔

    یہ یقینا ایک تلخ حقیقت ہوگی کہ آج کے بعد کوئی دہشت گرد اورسیا سی کارکن مرتا مرجائے گا لیکن اسٹیبلشمنٹ اورریاست پراعتبارنہیں کرے گا کیوں کے آگے کھائی پیچھے کنواں۔ صولت ایک ٹیسٹ کیس تھا اوراس مقدمے نے ثابت کردیا کہ مرجاؤ لیکن کبھی اعتبارنہ کرنا۔

    کال کوٹھری میں قید صولت یقینا یہ سوچ رہا ہوگا کہ اس کوبڑا دھوکہ کس نے دیا 17 سال قدم بقدم ساتھ چل کہ چھوڑنے والوں نے یا انھوں نے جو اسے آسرا دے کراس کواوراس کے خاندان کواپنوں اوران افراد سے جو اس سے ہمدردی رکھتے تھے ان میں اجنبی کرگئے؟، اورکیا ریاست اس کے خاندان کو اس غصے سے بچا پائے گی جوا س کے ویڈیو بیان کے بعد جنم لے رہا ہے؟۔

    اب جبکہ صولت ریاست کی طے کردہ سزا سود سمیت بھگت چکا ہے تو مقتولین کے بین اور زخموں کو محسوس کرتے ہوئے بھی یہ سوچنے پرمجبور ہوں کہ ریاست کی وہ کون سی غلطیاں ہیں کہ صولت کومجرم جاننے کے باوجود بھی ایک بڑا طبقہ اس کا گرویدہ تھا، وہ ان کا ہیروتھا۔ دوران طالبِ علمی میں بھی میں ایسے کئی نوجوانوں کوجانتا تھا جواسے چی گواویرا سے کم اہمیت نہیں دیتے تھے۔

    سیاسی، سماجی اورنفسیات کے علوم پرعبوررکھنے والوں کا کہنا ہے کہ صولت ریاست پاکستان کا نہ پہلا نوجوان تھا اورنہ آخری ہوگا کیوں کہ ہم سوگ منانے والی قوم بن گئے ہیں روگ کا خاتمہ کرنے کی ہم کوشش ہی نہیں کرتے اوروہ جنہیں محبت کے زریعے سدھارا جا سکتا ہے ہم انھیں نفرت سے سدھارنا چاہتے ہیں، اوررکھئیے نفرت مزید نفرت کوجنم دیتی ہے۔

    اے آروائی نیوز کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

  • ایک بد کردار شخص جس نے مردہ عورتوں کوبھی نہ بخشا

    ایک بد کردار شخص جس نے مردہ عورتوں کوبھی نہ بخشا

    سال 2011 کی ایک سرد رات تھی جب پولیس وائرلیس پر خبر چلی کہ ایک شخص کو موقعِ واردات سےفرار ہوتے ہوئے گرفتارکیا گیا ہے۔ اسےنارتھ ناظم آباد پولیس کی اسنیپ چیکنگ پارٹی نے پکڑا تھا۔معلوم ہوا کہ وہ عورتوں کی تازہ میتوں سے زناکرتا ہے اور پاپوش نگر کے قبرستان میں‌ اسی غرض سے آج ایک خاتون کی قبر کھودی تھی ۔ پولیس وائرلیس پر خبر چل جائے تو صحافیوں سے کیسے بچ سکتی ہے۔ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔

    یہ الیکڑونک میڈیا کے عروج کا دور تھا۔ کراچی میں حالات خراب رہتے تھے اور بدامنی کی خبریں عام تھیں، لیکن ان تمام خبروں میں یہ ایک دل دہلا دینے والی خبر تھی۔ مجھے یاد ہے ان دنوں میں کٹی پہاڑی پر ذمہ داریاں انجام دے رہا تھا جہاں ایم کیو ایم (الطاف گروپ) اور اے این پی کے کارکن اکثر ایک دوسرے الجھتے رہتے تھے۔ گو کہ میں کورٹ رپورٹر تھا، لیکن کیوں کہ الیکٹرونک میڈیا میں نیا تھا، اس لیے ‘رگڑا’ یا اضافی کام بھی ضروری تھا۔ دفتر سے مجھے جو اضافی کام تفویض کیا گیا تھا، وہ کرائم رپورٹنگ تھی۔ خیر اس وقت واٹس ایپ گروپس اس قدر فعال نہیں ہوتے تھے۔ ایک میسج میں کچھ ٹوٹی پھوٹی خبر آئی تو میں نے فوراً نارتھ ناظم آباد میں ایک سورس کو فون کیا، میں اس سے تفصیلات سن رہا تھا اور مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی ایک سرد لہر اترتی محسوس ہورہی تھی۔

    واقعہ کچھ یوں تھا کہ پاپوش کے قبرستان میں گورکن کو عورتوں کی میتیں قبر سے باہر مل رہی تھیں یا بعض قبروں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے انھیں کھودا ہے۔ ایک دو سال نہیں، اس کے مطابق سات آٹھ سال سے یہ سلسلہ جاری تھا اور کبھی اس کا شک جادو ٹونے اور عملیات کرنے والوں پر جاتا تو کبھی مردوں‌ کی ہڈیاں نکال کر فروخت کرنے والوں پر۔ مگر جب وہ ایسے کسی مردے کو دیکھتا تو محسوس ہوتا کہ اس حوالے سے جو کچھ وہ سوچ رہا ہے، درست نہیں‌ ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور نہ ایسا کوئی واقعہ رپورٹ ہوا، نہ ہی اس کے ذمہ دار کبھی قانون کے شکنجے میں آئے، لیکن پھر ایک گناہ گار قانون کی گرفت میں آگیا اور یوں‌ یہ معاملہ کھلا۔

    ایک دن گورکن عبد الواحد بلوچ کو کسی تازہ قبر کے قریب کچھ شور اور گڑبڑ کا احساس ہوا۔ اس قبر میں‌ ایک عورت کی تدفین کی گئی تھی۔ وہ فوراً اس قبر کی طرف بڑھا جہاں ایک آدمی گورکن کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اٹھا اور بھاگنے لگا اور اس پر گورکن عبد الواحد بلوچ اور اس کا ساتھی طفیل اسے پکڑنے کے لیے پیچھے بھاگے۔ قبرستان کے باہر روڈ پر نارتھ ناظم آباد تھانے کی موبائل اسنیپ چیکنگ پر تھی۔ اہلکاروں نے اچانک شور سنا اور اسی دوران بدحواسی کے عالم میں‌ ایک شخص کو قبرستان سے باہر نکلتا ہوا دیکھا تو اسے خبردار کیا اور فوراً ہاتھ اوپر اٹھانے کا حکم دیا۔ اس مشکوک آدمی کے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔ اسے رکنا پڑا۔

    ابتدائی سوالات میں‌ پولیس کو معلوم ہوا کہ اس کا نام محمد ریاض ہے اور ملزم کے مطابق وہ یہاں سے گزر رہا تھا کہ یہ لوگ (گورکن) اس کے پیچھے لگ گئے، لیکن جب پولیس نے سختی سے پوچھا تو اس نے سب اگل دیا۔ وہ تازہ قبر دیکھی گئی تو ثابت ہوگیا کہ محمد ریاض ایک ایسا بدخصلت شخص ہے جو مردہ عورتوں‌ سے اپنی شہوانی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے اور رات کے وقت تازہ قبر کو کھود کر یہ شیطانی فعل انجام دیتا ہے۔

    پولیس نے جب ملزم کی تلاشی لی تو اس سے آدھا کلو چرس بھی برآمد ہوئی اور اس کے کپڑوں پر اس کی نجاست بھی تازہ تھی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر میں پھیل گئی۔ تمام نجی چینلوں کے نمائندے اور اینکر پرسن تھانے پہنچ گئے جہاں انھوں نے ملزم سے بھی بات کی۔ اے آر وائی نیوز سمیت دیگر چینل پر ملزم کا انٹرویو بھی آن ایئر ہوا جس میں اس نے اپنے گھناؤںے فعل کی تفصیل بتائی اور اعترافِ جرم کیا۔ ملزم نے تفتیشی افسر کو اور خود میڈیا کو اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ وہ قبرستان کے قریب ہی گھومتا پھرتا رہتا ہے اور جب معلوم ہوتا ہے کہ کسی عورت کی تدفین کی گئی ہے تو اندھیرا چھانے کا انتظار کرتا ہے اور پھر یہ مکروہ فعل انجام دینے کے لیے اس کی قبر پر پہنچ جاتا ہے۔ تفیشی افسر اور میڈیا چینلوں کے نمائندوں کے استفسار پر اس نے بتایا کہ یہ جاننا مشکل نہیں‌ ہوتا کہ میّت کسی عورت کی ہے کیوں کہ خواتین کی تدفین کا طریقۂ کار کچھ مختلف ہوتا ہے، اس کے ورثا تدفین کے وقت قبر پر بڑی سی چادر پھیلا دیتے ہیں‌ اور رات ہو جانے کے بعد میں تازہ قبر کو کھود دیتا تھا۔

    تفتیشی افسر کے مطابق ملزم نے قبر کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ 29 نومبر 2011 کو جب وہ ایک قبر میں گھس کر مکروہ فعل انجام دے رہا تو اسے قریب سے باتوں کی آواز آنے لگی، وہ گھبرا گیا اور لمحوں میں‌ قبر سےباہر نکلنے کا فیصلہ کیا، اس بدصفت نے بتایا کہ وہ شلوار اتار کر اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل کررہا تھا، تو آوازیں‌ سن کر عجلت میں‌ کفن کے ایک ٹکڑے سے اپنی نجاست صاف کی اور آدھا کلو چرس جسے وہ رات کے وقت قبرستان میں فروخت کرتا تھا، اپنے نیفے میں‌ چھپائی اور شلوار باندھ کر قبر سے نکل کر بھاگا، لیکن گورکن کی وجہ سے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ ملزم کو پاپوش نگر کے قبرستان کی دیوار کے قریب پکڑا گیا تھا۔ تفتیشی افسر کے مطابق ملزم سے چرس برآمد کی گئی اور قبر کی مٹی کے علاوہ اس کے کپڑوں پر اسپرم بھی تازہ تھے، جن کا نمونہ اور قبر سے کفن کے چند ٹکڑے بھی لے لیے گئے تاکہ جرم ثابت کیا جاسکے۔

    ملزم کی جانب سے ابتدائی تفتیش میں‌ معاونت اور اس کے اعترافی بیان کے بعد اکثریت کا خیال تھا کہ ملزم عدالت میں‌ بھی آسانی سے اپنا جرم قبول کرلے گا اور میڈیا ہائپ اور اس قدر شور کے بعد مکر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں‌ ہوتا، لیکن ہر شاطر اور بے ضمیر کی طرح اس کیس میں بھی ملزم نے پینترا بدلا اور پہلے یہ کیس پاکستان کے قانونی نظام میں‌ موجود سقم کی وجہ سے التوا کا شکار رہا اور بعد ازاں ملزم نے اوپن کورٹ میں جرم قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مگر جب گواہوں کے بیانات ہوں یا کیمیکل تجزیاتی رپورٹیں سب ملزم کے خلاف آئیں اور اس کیس کے سب سے اہم گواہ اور عینی شاہد گورکن عبدالواحد بلوچ نے بھی عدالت میں اس ملزم کے خلاف بیان دیا تو ایڈیشنل سیشن جج ذبیحہ خٹک نے اپنی آبزوریشن دی کہ ملزم کا جرم انتہائی سنگین نوعیت کا ہے اور چوں‌ کہ ملزم خوفِ خدا سے بھی عاری ہے تو وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں، ملزم کو سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ وہ دوسروں کے لیے مثال بنے۔ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر محمد ریاض کو مجرم قرار دیتے ہوئے دو مرتبہ عمر قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

    پاکستان میں جنسی زیادتیوں کے واقعات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے 2006 میں ایک ترمیم کی گئی جس کے تحت جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور کم از کم 25 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں کسی کی تدفین میں مداخلت اور لاش کی بے حرمتی پر 295 کی دفعہ اور اس کے تحت ملزم کو جرمانہ یا ایک سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ عدالتی ریمارکس تو کسی بھی کیس کی حساسیت کو اجاگر کرتے ہی ہیں لیکن سنگین مقدمات میں سزائیں معاشرے کے بد کردار اور بے حس لوگوں کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہیں اور محمد ریاض‌ کے کیس میں‌ بھی فاضل جج کی جانب سے سنائی گئی سزا بہت سے بد کردار لوگوں کے لیے ایک سبق ثابت ہوئی گی۔