Author: فواد رضا

  • آئندہ ہفتے سے کراچی میں سڑکوں کی دھلائی شروع ہوجائے گی، بیرسٹرمرتضیٰ وہاب

    آئندہ ہفتے سے کراچی میں سڑکوں کی دھلائی شروع ہوجائے گی، بیرسٹرمرتضیٰ وہاب

    کراچی: سندھ حکومت کے ترجمان مشیر قانون ، ماحولیات و ساحلی ترقی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ احتساب کے خلاف نہیں مگر احتساب بلا تفریق ہو، کام اگر کہیں ہورہا ہے تو وہ سندھ صوبہ ہے، آئندہ ہفتہ سے کراچی میں سڑکوں کی دھلائی شروع ہوجائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو گزری فلائی اوور کے نیچےقومی ادارہ امراض قلب (این آیی سی وی ڈی)کے تحت چیسٹ پین یونٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر تنقید کی جاتی ہے۔یہ چیسٹ پین یونٹ اٹھارویں آئینی ترمیم کا رزلٹ ہے۔پیپلزپارٹی فیڈریشن اور بائیس کروڑ عوام کی خدمت کررہی ہے۔

    بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ کراچی سندھ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔یہاں کے لوگ کسی کو بھی ووٹ دیں کام صرف پیپلزپارٹی نے کیا ہے۔یہ چیسٹ پین یونٹ شہریوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کررہے ہیں۔ لیاری میں چیسٹ پین یونٹ کو سیٹلائیٹ سینٹر میں تبدیل کررہے ہیں۔چییئرمین بلاول بھٹو زرداری خود اسکا اعلان اور افتتاح کریں گے۔ بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ ہم مفت اور معیاری طبی سہولت فراہم کررہے ہیں۔یہ سندھ حکومت کا تحفہ ہے۔

    ان کا کہناتھا کہ ڈبوں میں ووٹ کسی اور کے نکلے مگر ہم نے اپنا ایک اور وعدہ آج پورا کردیا۔پیپلزپارٹی آپ کے مسائل حل کرے گی۔ بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہاکہ وزیراعلی سندھ کی صفائی مہم جاری ہے۔کوئی نالوں میں کچرا اور بوریاں ڈالتا ہے تو اس کے خلاف قانون تو حرکت میں آئے گا۔عوام کچرا کچرا کنڈیوں میں ڈالیں ۔اگلے ہفتے سے سڑکوں کی دھلائی شروع ہوجائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ کوئی چھاپے مارے یا کوئی گرفتاریاں کرے ہم کام کرتے ہیں اور کام کرتے رہیں گے ۔ہم احتساب کے خلاف نہیں مگر احتساب بلا تفریق ہو۔کام اگر کہیں ہورہا ہے تو وہ سندھ صوبہ ہے۔بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی مذمت کرتے ہیں۔۔سندھ حکومت کی طرف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لیں ۔اس موقع این آئی سی وی ڈی کےایگزیکٹیوڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم قمر نے کہا کہ پورے کراچی میں مزید چیسٹ پین یونٹ کھولیں گے۔

    کراچی کے شہریوں کو خوش خبری دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ فیڈرل بی ایریا میں کے ایم سی کے تحت چلنے والے ہارٹ ڈیزیز ہسپتال کو سندھ حکومت چلائے جس پر مئیر کے ایم سی نے بھی رضا مندی ظاہر کردی ہے کوشش ہے کہ یہ ہسپتال ادارہ امراض قلب کے تحت چلایا جائے تاکہ شہریوں کو صحت کی زیادہ سے زیادہ اور بہتر سہولتیں میسر ہوں۔

  • کتا کاٹ لے تو پلٹ کر اسے کاٹنا نہیں، ویکسین لگوانا چاہیے

    کتا کاٹ لے تو پلٹ کر اسے کاٹنا نہیں، ویکسین لگوانا چاہیے

    دو روز قبل شکار پور کا ایک بچہ لاڑکانہ میں مبینہ طور پر کتے کے کاٹنے ( اینٹی ریبیز) ویکسین نہ ملنے کے سبب جاں بحق ہوگیا، سگ گزیدگی کے واقعات پاکستان میں عام ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف سندھ میں ہر سال 1500 لوگ مختلف جانوروں کے کاٹنے سے ریبیز کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    حالیہ واقعے میں سندھ حکومت کا موقف ہے کہ بچے کو کئی دن قبل کتے نے کاٹا تھا ، گھر والے گھر میں ہی مختلف طریقوں سے علاج کرتے رہے جس سے وہ صحت یاب نہیں ہوا، اور جب اسے اسپتال لایا تو اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے ویکسین دی جاسکتی۔

    اس مخصوص واقعے میں کیا ہوا اور اصل غفلت کس کی ہے ، اس کا تعین تو تحقیقاتی کمیٹیاں کریں گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو معلوم ہونا چاہیے کہ کتے کے کاٹنے کی صورت میں کیا کام فوری طور پر کرنے چاہیے ، یہ بنیادی معلومات کسی انسانی جان کے بچاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔

    یاد رکھیں کہ ہر کتے کے کاٹنے سے ریبیز نہیں ہوتا لیکن کتے کے کاٹنے کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ، یہ ایک سنگین واقعہ ہے اور اس میں ذرا سی غفلت جان سے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔

    کتے کے کاٹنے کے بعد فوری اختیار کی جانے والی تدابیر

    اگر کسی شخص کو کتا کاٹ لے تو چاہیے کہ فوری طور پر زخم کا معائنہ کیا جائے کہ آیا صرف جلد پر خراشیں ہیں یا کتے کے دانتوں نے گوشت کو پھاڑ دیا ہے۔ معمولی خراشیں ہوں تو ان کا علاج گھر میں کیا جاسکتا ہے لیکن اگر کتا دانت گاڑنے میں کامیاب ہوگیا ہے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔

    زخم کو دھونا کیوں ضروری ہے؟

    جس جگہ کتے کے کاٹنے کا زخم ہو، اس متاثرہ حصے کو بہت زیادہ صابن اور نیم گرم پانی سے کئی منٹ تک دھوئیں، اس عمل سے زخم میں موجود کتے کے منہ سے منتقل ہونے والے جراثیموں کو صاف کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے لیے کوئی بھی صابن استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم اگر جراثیم کش صابن موجود ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

    خون روکیں

    زخم کسی جانور کے کاٹے کا ہو یا کوئی اور ہر دو صورت میں زخم سے خون کا بہاؤ روکنا بے حد ضروری ہے ، بصورت دیگر زیادہ خون بہہ جانے سے بھی بعض اوقات جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ خون روکنے کے لیے زخم کو کسی صاف تولیے یا کپڑے سے دبائیں اور کچھ دیر دبائے رکھیں۔ خون کا بہاؤ رک جانے کے بعد اینٹی بایوٹک مرہم لگا کر بینڈیج کریں۔

    اگر خون کا بہاؤ نہیں رک رہا تو ایسی صورت میں کتے کے کاٹنے سے متاثرہ شخص کو فوری طبی امداد کی ضروری ہے ، جس کے لیے قریبی صحت مرکز یا اسپتال سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

    زخم کا باقاعدگی سے معائنہ

    ابتدائی طبی امداد اور ویکسینیشن کے بعد زخم بھرنے کے دورانیے میں انفیکشن کی دیگر علامات پر نظر رکھنا بے حد ضروری ہے، اگر زخم میں انفیکشن کا امکان نظر آئے تو ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں، عام طور پر انفیکشن کی علامات کچھ ایسی ہوسکتی ہیں؛ درد بڑھ جانا سوجن، زخم کے ارگرد سرخی یا گرمائش کا احساس، بخار اور پیپ جیسا مواد خارج ہونا۔

    ریبیز کیا ہے؟

    ریبیز ایک وائرس ہے جو کہ پالتو اور جنگلی جانوروں بالخصوص کتوں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہو کر سنٹرل نروس سسٹم کو تباہ کر دیتاہے اگر بروقت علاج نہ کروایا جائے تو دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور متاثرہ فرد کی موت ہو جاتی ہے۔ کتے کے علاوہ یہ بندر ، بلی ، گیدڑ، لومڑی اور چمگادڑ کے کاٹنے سے بھی انسان کے جسم منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ منتقل ہونے والا مرض ہے اور ریبیز کے متاثرہ مریض سے تعامل کی صورت میں یہ دوسرے انسان کو بھی منتقل ہوسکتا ہے۔

    علامات

    اس بیماری ابتدائی علامات میں بخار اورجانور کے کاٹنے سے متاثرہ مقام پر سنسناہٹ شامل ہو سکتی ہے اور ان علامات کے بعد پرتشدد سرگرمی، بے قابو اشتعال، پانی کا خوف، جسم کے اعضاء کو ہلانے کی ناقابلیت، ذہنی انتشار اور ہوش کھونا جیسی کوئی ایک یا کئی علامات ہو تی ہیں۔

    علامات ظاہر ہونے کے بعد، ریبیز کا علاج کافی مشکل ہوتا ہے ۔مرض کی منتقلی اور علامات کے آغاز کے درمیان کی مدت عام طور پر ایک سے تین ماہ ہوتی ہے۔ تاہم، یہ وقت کی مدت ایک ہفتے سے کم سے لے کر ایک سال سے زیادہ تک میں بدل سکتی ہے۔

    اینٹی ریبیز ویکسین

    کتے کے کاٹنے کی صورت میں متاثرہ شخص کو اینٹی ریبیز ویکسین دینا بے حد ضروری ہے ، یہ صرف اسی صورت میں نہیں دی جاتی جب متاثرہ شخص کو حتمی طور پر معلوم ہو کہ جس کتے نے اسے کاٹا ہے ، اس کی ویکسینیشن ہوچکی ہے اور بالخصوص اسے اینٹی ریبیز ویکسین لگائی گئی ہے ، پاکستان جیسے ممالک میں جہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہے وہاں مریض کو اینٹی ریبیز ویکسین نہ لگانے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔

    ویکسین کا پہلا شاٹ جانور کے کاٹنے کے بعد جس قدر جلد ممکن ہو مریض کو لگ جانا چاہیے ، جتنی زیادہ تاخیر کی جائے گی اتنا زیادہ مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ویکسین کی مقدار اور شاٹس کی تعداد کا تعین ڈاکٹر مریض کی جنس ، عمر اوراس کے جسمانی خدو خال جیسا کہ قد اور وزن کو دیکھتے ہوئے طے کرتا ہے ، لہذا ویکسین کسی مستند ادارے سے ہی لگوانی چاہیے۔


    یاد رہے کہ ریبیز کی ویکسین مرض کی علامت ظاہر ہونے سے پہلے لگوانا ہوتی ہیں ، یہ وائرس دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے ، ایک بار اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے تو پھر مریض کی جان بچانا انتہائی مشکل ہوتا ہے ، دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جنہوں نے علامات ظاہر ہونے کے بعد ویکسین لی اور وہ بچ گئے۔

    اگر مریض کو گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں ٹیٹنس کا انجکشن نہیں لگا ہے اورزخم کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں انفیکشن کا امکان ہوسکتا ہے تو ضروری ہے کہ اینٹی ریبیز ویکسین کے ساتھ مریض کو ٹیٹنس کا انجکشن بھی دیا جائے۔

    اس معاملے میں سب سے زیادہ ضرورت آگاہی کی ہے ، اکثر لوگ غربت یا اپنی ذمہ داریوں میں مشغول ہوکر متاثرہ شخص کو ویکسین لگوانے میں تاخیر کردیتے ہیں، ایک شخص جس کی جان بچائی جاسکتی ہے وہ محض اس لیے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے کہ اس کے لواحقین نے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

    دوسری جانب سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں کو بھی چاہیے کہ جب کوئی سگ گزیدگی سے متاثرہ مریض ان کے پاس آئے تو بے شک اس کا زخم چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، کتے کے کاٹنے کے بعد علاج کا جو مروجہ پراسس ہے ا سے پورا کریں اور مریض کے لواحقین کو مکمل آگاہی فراہم کریں کہ یہ معاملہ کس قدر سنجیدہ ہے اور انہیں اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرنا ہے۔

    یاد رکھیں! اینٹی ریبیز کی بروقت ویکسین ایک قیمتی انسانی جان بچا سکتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر شخص اپنے حصے کی ذمہ داری بروقت ادا کرے۔

  • آج جمہوریت کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    آج جمہوریت کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    دنیا بھر میں آج جمہوریت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس موقع پر پاکستان سمیت تمام جمہوری ممالک میں عوامی حکمرانی کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا جارہا ہے۔

    جمہوری اداروں کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں جمہوریت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ یہ دن 2007 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کردہ متفقہ قرارداد کے تحت دنیا بھر میں 15 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔

    اس موقع پر اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتیریس نے اقوام عالم کے نام اپنے پیغام میں تھاکہ میں تمام حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جمہوریت میں متحرک اور بامعنی شمولیت کا احترام کریں، اور میں سلام پیش کرتا ان سب کو جو جمہوریت کے فروغ کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔

    گو کہ یونان کے شہر ایتھنز کو جمہوریت کی جائے پیدائش مانا جاتا ہے مگر مؤرخین کا ماننا ہے کہ رومن تہذیب حقیقی معنوں میں ایک جمہوری تہذیب تھی جہاں عوامی حکمرانی تھی۔

    یونان میں جمہوریت کی اصطلاح جس کا مطلب ’لوگوں کی حکومت‘ ہے سکوں پر بھی کندہ کیے گئے تھے جس کا مقصد اس وقت کی حکومت کو عوامی حکومت کو ظاہر کرنا تھا۔یہ دور 430 قبل مسیح کا دور تھا۔

    آج جدید دور میں اس دن کو منانے کا مقصد شہریوں کو اپنی خواہشات کے آزادانہ اظہار اور آزادی سے جینے کے حق کو فروغ دینا ہے۔

    رواں برس کا موضوع ’جمہوریت اور تنازعوں سے بچاؤ‘ ہے جس کا مقصد دنیا کے مختلف ممالک میں جاری جنگوں، خانہ جنگیوں، بغاوتوں اور تنازعوں کو حل کر کے جمہوری حکومتوں کو فروغ دینا ہے۔

    پاکستان میں چند سال قبل تعلیمی نصاب میں جمہوریت سے متعلق ابواب کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاکہ نئی نسل ملک میں مسلط آمرانہ ادوار حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوری حکومتوں اور جمہوری تحاریک کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کرسکے۔

    جمہوریت کا سراغ سب سے پہلے ہندوستان میں ملتا ہے۔ سو برس قبل مسیح یعنی گوتم بدھ کی پیدائش سے قبل ہندوستان میں جمہوری ریاستیں موجود تھیں جنہیں "جن پد” کہا جاتا تھا۔ یونان میں بھی جمہوریت موجود رہی ہے لیکن وہاں جمہوریت کا تصور سادہ اور محدود تھا۔ سادہ اس معنی میں کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں وہ شہری ریاست کہلاتی تھی۔ یہ چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔

    اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں اس تصور کا دوبارہ احیا ہوا۔ اس وقت جمہوریت نے ایک منضبط شکل اختیار کی اور وہ جمہوریت وجود میں آئی جو آج موجود ہے۔ اسے لبرل ڈیموکریسی اور اردو میں "آزاد خیال جمہوریت” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    جن مفکرین نے جمہوریت کی صورت گری کی اور جن کو آزاد خیال جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ والٹیئر، مونٹیسکو اور روسو ہیں۔ یہ تینوں فرانس کے فلسفی ہیں، انہی کے افکار ونظریات کے ذریعہ جمہوریت وجود پذیر ہوئی۔

  • سنہ 1965 کی جنگ کے ہیرو، میجرعزیز بھٹی کا یومِ شہادت

    سنہ 1965 کی جنگ کے ہیرو، میجرعزیز بھٹی کا یومِ شہادت

    سنہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں مادر ِوطن کے دفاع کی خاطر اگلے مورچوں پر اپنی جان قربان کرنے والے میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کا آج 54 واں یومِ شہادت ہے ۔

    شہید راجہ عزیز بھٹی 6 اگست1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے تھے ، وہ اکیس جنوری 1948 میں پاک فوج میں شامل ہوئے تو انہیں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن دیا گیا، انہوں نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیرِاعزازی و نارمن گولڈ میڈل حاصل کیا اور ترقی کرتے ہوئے انیس سو چھپن میں میجر بن گئے۔

    سن 1965 میں بھارت نے پاکستان کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی تو قوم کا یہ مجاہد سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوا، سترہ پنجاب رجمنٹ کے 28 افسروں اور سپاہیوں سمیت عزیز بھٹی شہید نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔

    6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔

    ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔

    9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔

    میجرعزیز بھٹی شہید کی لوحِ مزار

    انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجا عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دباؤ کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔

    میجرراجہ عزیز بھٹی بارہ ستمبر کو صبح کے ساڑھے نو بجے دشمن کی نقل وحرکت کا دوربین سے مشاہدہ کررہے تھے کہ ٹینک کا ایک فولاد ی گولہ ان کے سینے کو چیرتا ہوا پار ہوگیا ، انہوں نے برکی کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا۔

    میجرراجہ عزیز بھٹی کی جرات و بہادری پر انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا، راجا عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔

    راجہ عزیز بھٹی شہید اس عظیم خاندان کے چشم و چراغ تھے کہ جس سے دو اور مشعلیں روشن ہوئیں، ایک نشان حیدر اور نشان جرات پانے والے واحد فوجی محترم میجر شبیرشریف جب کہ دوسرے جنرل راحیل شریف جو سابق آرمی چیف رہ چکے ہیں اور اب 41 ملکوں کے اسلامی اتحاد کی قیادت کررہے ہیں۔

  • سرپہ باندھے کفن آگے بڑھے صف شکن

    سرپہ باندھے کفن آگے بڑھے صف شکن

    قوموں اورملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں، یہ دن اپنی مٹی کے فرزندوں سے وطن کی حفاظت کے لئے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں، ماؤں سے ان کے جگر گوشے اور بوڑھے باپوں سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کامطالبہ کرتے ہیں۔

    قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن رزم گاہ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں ،آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر بھی آیا تھا جب بھارت نے پانچ اور چھ ستمبر 1965ء کی درمیانی شب پاکستان پر شب خون مارا تھا، بھارتی جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور ناشتہ لاہور جیم خانہ میں کریں گے لیکن انہیں پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت اور پاکستانی قوم کے جذبے کا درست اندازہ نہیں تھا ۔ افواج پاکستان اور عوام نے مل کر دیوانہ وار دشمن کا مقابلہ کیا اورسروں پر کفن باندھ کر دشمن کے مد مقابل ڈٹ گئے، جسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔

    وہ جنگ جو بھارتی فوج ایک رات میں ختم کرنے کے ارادے رکھتی تھی تئیس ستمبر یعنی سترہ روز تک جاری رہی اور اس جنگ میں بھارت کو چھ سو سے زائد ٹینکوں اور ساٹھ طیاروں اور دیگر فوجی سازو سامان سمیت بے پناہ جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کے سب سے بڑی لڑائی اسی جنگ میں لڑی گئی جس میں میجر عزیز بھٹی شہید کانام سنہرے حروف سے لکھ جائے گا تو دوسری جانب فضائی معرکے میں دنیا کا کوئی ملک محمد محمود عالم جیسا شاہین پید انہیں کرسکا جس نے ایک منٹ کے قلیل عرصے میں بھارت کے پانچ جہاز مار گرائے اور ان میں سے بھی چار پہلے تیس سیکنڈ کے قلیل عرصے میں گرائے گئے ۔ آج تک دنیا کا کوئی ہوا باز اس ریکارڈ کو نہیں توڑ سکا۔

    جب بھارت اس جنگ میں اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکا اور اپنے بیشتر علاقے پاکستان کے ہاتھوں گنوا بیٹھا تو جارح اپنی جان چھڑانے کے لئے اقوام ِ متحدہ میں پہنچ گیا اور جنگ بندی کی اپیل کی، اقوام ِ متحدہ کی مداخلت پر پاکستان عالمی قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنی افواج کو واپس چھ ستمبر 1965 والی پوزیشن پر لے آیا۔

    اس جنگ میں جہاں پاک فوج نے لازاوال قربانیاں دے کر دفاع ِ وطن کو ناقابل ِ تسخیر بنایا وہیں عوام بھی اپنی افواج کے شانہ بشانہ جنگ میں شامل تھی اور عام لوگوں نے اسپتالوں میں اور فوج کے لئے سپلائی جمع کرنے کے لئے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دیں اور شہری دفاع کا منظم محمکہ نہ ہونے کے باوجود بھارت کی جانب سے ہونے والے نقصانات کا سد باب بھی کیا اور بر وقت امدادی کاروائیاں بھی جاری رکھیں۔

    چھ ستمبر کا دن پاکستانیوں کی رگوں میں لہو کو گرما دیتا ہے اوراس دن ہونے والی تقریبات بھی اپنے شہیدوں سے ایفائے عہد کے لئے منعقد کی جاتی ہیں۔ اس سال حکومت اور افواجِ پاکستان نے آج کے دن کو یوم دفاعِ کشمیر کےعنوان سے منانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد بھارتی غاصب افواج کے جبر کا نشانہ بنے نہتے کشمیری شہریوں سے اظہارِ یکجہتی اور انہیں یقین دلانا ہے کہ حکومت عوام اور پاک فوج آخری سانس تک ان کے ساتھ ہیں۔

    آج جی ایچ کیو میں ہونے والی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سالار جنرل قمر باجوہ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ کشمیر کی خاطر آخری گولی ، آخری سپاہی اور آخری سانس تک لڑیں گے۔ پاکستان اس وقت کشمیر کے لیے سفارتی جنگ لڑرہا ہے اور اقوام عالم کے سامنے بھارتی مظالم کو آشکار کررہا ہے ، یہ پاکستان کی جانب سے امن پسندی کی واضح دلیل ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر جنگ مسلط کردی جائے تو ہم جواب دینے میں چوکتے نہیں ہیں بلکہ اپنی مرضی کے وقت اور میدان میں جواب دیا جائے گا۔

    رواں برس 27 فروری کو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھارت کے د وطیارے گرا کر اور ایک پائلٹ کو قبضے میں لے کر ایک بار پھر سنہ 1965 کی یادیں تازہ کردی تھیں اور دشمن کو واضح جواب دیا تھا کہ ہم وہی سیسہ پلائی دیوار ہیں جو سنہ 1965 میں تھی بلکہ 18 سال دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ہمیں مزید کندن بنادیا ہے۔

  • ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے پیس آپریشنز سے ملاقات

    ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے پیس آپریشنز سے ملاقات

    نیویارک: ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے قائم مقام انڈر سیکرٹری جنرل برائے پیس آپریشنز خالد خیری سے ملاقات کرکے انہیں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے آگاہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے قائم مقام انڈر سیکرٹری جنرل کو کشمیر کی تازہ صورتحال سے آگاہ کیا۔۔ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کشمیر میں کرفیو اور انسانیت سوز پابندیاں چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئی ۔

    انہوں نے خالد خیری کو یہ باور کرایا کہ اس وقت عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔بھارتی فورسز راتوں میں چھاپے اور گرفتاریاں کر کے مقبوضہ وادی میں خوف و ہراس مزید بڑھا رہی ہے۔

    ملیحہ لودھی نے قائم مقام انڈر سیکرٹری جنرل کو بتایا کہ کشمیر میں بھارتی بربریت سے حالات مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے ۔ اقوام متحدہ کو کشمیر میں صورتحال کو ابتر ہونے سے روکنا ہوگا۔

    انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ لائن آف کنٹرول کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ امن مشن کی تعداد بڑھا کر اسے مزید فعال بنایا جائے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ڈاکٹرملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی صدر ماریہ فرنینڈا سے ملاقات کی تھی اور انہیں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کیا تھا۔

    اس اہم ملاقات میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا تھا کہ بھارت نے کشمیریوں کی تمام آزادی سلب کررکھی ہے، بھارت کے غاصبانہ تسلط نے کشمیریوں کو اندھیرے میں دھکیل دیا۔

    اس سے دو روز قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں مواصلات کی بندش ختم کرنے اور پرامن مظاہروں کے خلاف کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کیاتھا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ حکومت کا انٹرنیٹ اور مواصلات کے نظام کو بغیر کسی وجہ کے بند کرنا بنیادی جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔

  • جڑواں بچوں کی 77 دن کے فرق سے پیدائش ،  دنیا حیران

    جڑواں بچوں کی 77 دن کے فرق سے پیدائش ، دنیا حیران

    نورسلطان: قازقستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے 11 ہفتوں (77 دن) کے فرق سے جڑواں بچوں کو جنم دے کر ڈاکٹروں کو حیران کردیا، پہلی بیٹی مئی میں پیدا ہوئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق 29 سالہ لیلی کونووالوا نامی خاتون جب حاملہ ہوئیں تو انہیں توقع نہیں کہ انہیں بچوں کی پیدائش کے لیے 2 بار ہسپتال جانا ہوگا۔پہلی بار مئی میں جب ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش حمل کے 25 ویں ہفتے میں ہوئی اور دوسری بار اگست میں جب بیٹے کی پیدائش ہوئی۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ چونکہ بیٹی کی پیدائش بہت جلد ہوگئی تھی تو اس کا وزن محض ایک پونڈ سے کچھ زیادہ تھا اور اسی وجہ سے اسے کئی ماہ تک آئی سی یو میں رکھا گیا۔

    میڈیارپورٹس کے مطابق خاتون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ میرے بیٹے کو دنیا میں آنے کی جلدی نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے جو کیا وہ کرشمہ تھا، انہوں نے خود کو حقیقی پروفیشنل ثابت کیا۔ جڑواں بہن بھائیوں کے درمیان 11 ہفتے کا فرق ہے اور جڑواں بچوں میں اتنا وقفہ ہوتا نہیں مگر یہ پہلی بار نہیں، درحقیقت اس حوالے سے ورلڈ ریکارڈ 2012 میں بنا تھا جب بچوں کی پیدائش میں 87 دن کا فرق ہوا۔

    درحقیقت قازقستان میں پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کی تاریخ پیدائش ہی الگ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خاتون کے حمل کے دوران 2 مختلف بچہ دانیوں میں رہے تھے۔اس طرح کے حمل کا امکان 5 کروڑ میں سے ایک ہوتا ہے، یعنی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    ایسا تو لگ بھگ ناممکن ہوتا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش الگ تاریخوں میں ہو اور درمیان میں 11 ہفتوں کا فرق ہو یا ایسا جب ہوتا ہے جب ایک بچے کی پیدائش وقت سے بہت زیادہ پہلے ہوجائے۔ لیلی اور ان کے جڑواں بچے دونوں صحت مند ہیں اور اب وہ بیٹے کے ساتھ ہسپتال سے گھر جانے کے لیے تیار ہیں۔

  • فلسطینی شہری نے دو یہودی آباد کار گاڑی تلے روند ڈالے

    فلسطینی شہری نے دو یہودی آباد کار گاڑی تلے روند ڈالے

    بیت المقدس: فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی صہیونی بستی غوش عتصمون میں ایک فلسطینی کی گاڑی کی گاڑی کی ٹکر سے دو صہیونی آبادکار زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق کار حادثے میں 17 سالہ مرد صہیونی آبادکار اور 20 سالہ آبادکار عورت زخمی ہوگئے۔نوجوان کے سر میں سنگین نوعیت کی چوٹیں لگنے کی وجہ سے اس کی حالت سنگین ہے جبکہ خاتون آباد کار کو درمیانے درجے کے زخم آئے ہیں۔

    ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعے میں زخمی ہونے والے دونوں یہودیوں کو کو مقبوضہ بیت المقدس میں ھداسا ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب گاڑی کے ڈرائیور کو اسرائیلی فوجیوں نے گولی مار کے قتل کر دیا ہے۔

    قابض اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ ڈرائیور نے موقع سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔یہ واقع مغربی کنارے میں غوش عتصمون کی صہیونی بستی کے قریب ہائی وے 60 پر بیت لحم سے سات کلومیٹر دور ہوا۔سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ایک فوٹیج بھی جاری کی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی شہریوں کو گاڑی تلے روند نے کے واقعات سنہ 2015 کے اواخر میں شروع ہوئے تھے تاہم اب ان میں شدت آتی جارہی ہے۔

    اسرائیل نے 1967 سے مغربی کنارے پر اپنا غاصبانہ تسلط برقرار رکھا ہوا ہے، جبکہ فلسطینی شہری اس علاقے میں ، غزہ اور مشرقی یروشلم میں اپنی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔

  • سابق صدر جنرل ضیا الحق کو گزرے 31 برس بیت گئے

    سابق صدر جنرل ضیا الحق کو گزرے 31 برس بیت گئے

    آج پاکستان کے چھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق کی 31 ویں برسی ہے،وہ 17 اگست 1988 میں طیارہ حادثے میں انتقال کرگئے تھے، ان کے دور میں افغان جہاد کا آغاز ہوا تھا جو آج تک خطے کے امن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

    جنرل ضیا الحق نے سنہ 1977 میں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں ، وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کے لیے ایک معمہ ہے۔ وہ تادمِ مرگ، سپہ سالار اورصدارت، دونوں عہدوں پر فائزرہے ہیں۔

    سابق صدرمملکت اورسابق چیف آف آرمی سٹاف، اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1945ء میں فوج میں کمیشن ملا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں اور آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹرمقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولری رجمنٹ کی قیادت کی۔

    انہوں نے اردن کی شاہی افواج میں بھی خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں انہیں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اورپھربریگیڈیر بنادیا گیا۔ 1973 میں میجرجنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرترقی دے کرکورکمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پرترقی پاکرپاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    سنہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اورذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابترہوگئی۔ پیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا،تاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اورمارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے5 جولائی 1977 کو منتخب حکومت پر’آپریشن فیئر پلے‘کے نام سے شب خون مارکراقتدارپرقبضہ کرلیا۔

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف اور صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ 90 دن بھی طوالت پا کر11سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شدید مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو گرفتارکرلیاگیا اوران پرنواب احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائی کورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

    آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ،ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اورباربارالیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں انہوں نے اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔

    فروری 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پرآٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پرنااہلی اوربدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پرپانی پھرگیا ہے۔

    جنرل ضیا کے دورمیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے‘ جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاِسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیارکرکے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج ان کی موت کے 31 سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اورمنشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑرہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اور امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے اور ان کی گیارہ سالہ آمریت کا باب بند ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے طیاروں میں آم کی پیٹی میں بم رکھا گیا تھا۔

  • مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    آج تقریباً پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پاکستان اور بھارت کے درمیان ازل سے موجود مسئلہ کشمیر پر خصوصی اجلاس منعقد کرنے جارہی ہے، ساری دنیا اس وقت نیویار ک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز پر نظریں جمائیں بیٹھی ہے کہ وہاں آج کیا طے پاتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مسئلہ کشمیر اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ یہ دونوں ممالک خود، تقسیم کے فوراً بعد ہی یہ مسئلہ شروع ہوگیا تھا۔

    اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت اب تک چار بڑی جنگیں لڑچکے ہیں ، جن میں سے پہلی جنگ کے نتیجے میں پاکستان نے وہ علاقہ حاصل کیا تھا جو کہ اب آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر کہلاتا ہے جبکہ بٹوارے سے آج تک بھارت وادی ٔ جموں اور کشمیر اور لداخ کے علاقے پر قابض ہے جبکہ اسکائی چن اور شکسگام کا غیر آباد علاقہ چین کے زیرِ انتظام ہے۔

    پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اورچوتھی 1999ء میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی جسے دنیا کا سب سے بلند ، دشوار گزار اور مہنگا ترین میدانِ جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان عارضی سرحدی اہتمام جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ میں اکثر پاکستان کی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے، پاکستان کی جانب سے بھی بھارتی توپوں کو فی الفور جواب دیا جاتا رہا ہے۔

    رواں سال 27 فروری کو بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار کرکے پاکستان کے زیر اہتمام علاقوں میں فضائی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی جس کا بروقت جواب دیتے ہوئے پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے تھے اور پاکستانی حدود میں گرنے والے طیارے کے پائلٹ ابھیندن کو گرفتار بھی کرلیا تھا۔ بعد ازاں بھارتی پائلٹ کو امن کے پیغام کے طور پر واپس بھیج دیا گیا۔

    اب ذرا چلتے ہیں ماضی میں اور جائزہ لیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر در حقیقت ہے کیا اور آج تک کیوں یہ دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے؟؟۔

    برصغیر کی تقسیم کے وقت ایک برطانوی وکیل ریڈ کلف کو ہندوستان کے بٹوارے کا ٹاسک سونپا گیا، ریڈکلف نے ہندوستان کے دوصوبوں پنجاب اور بنگال کو آبادی کی بنیاد پر پاکستان اورہندوستان میں تقسیم کیا جبکہ ریاستوں کو اختیاردیا گیا کہ آیا وہ ہندوستان میں شمولیت اختیار کریں یا پھر پاکستان کا حصہ بن جائیں، ریاستوں کے اختیار میں بھی ریاست کی آبادی کے مذہب کو ملحوظ ِخاطررکھا گیا۔ اس کلیے کے تحت کشمیر جو کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن یہاں ہری سنگھ نامی سکھ راجہ کی حکومت تھی اور اس نے پہلے ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کی تاہم بعد میں بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کرلیا۔

    اس موقع پر 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے مجاہدین نے کشمیر پر بھارتی تسلط سے بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی جس کے جواب میں بھارت نے اپنی مسلح افواج میدان میں اتار دیں، قبائلی مجاہدین بھارت سے گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر کو چھین کر پاکستان کے ساتھ انضمام کرنے میں کامیاب رہے جبکہ بھارت اپنی بھاری بھرکم فوج کے ساتھ
    مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگیا۔

    دسمبر 1947 میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ایک ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب بھارت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تو یکم جنوری، 1948 کو یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان ( یو این سی آئی پی ) کی تشکیل کی
    گئی۔

    21اپریل، 1948 کوسلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 47 منظورکی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں دونوں ملکوں کی طرف سے فوری فائر بندی عمل میں لائی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں علاقے سے نکل جائیں، تاکہ وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے ’اور کشمیری لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ‘۔.

    تاہم، مکمل فائر بندی کا نفاذ یکم جنوری 1949 کو عمل میں آیا جب پاکستان کی طرف سے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی اور بھارت کی طرف سے ان کے ہم منصب جنرل رائے بوچر نے دستخط کیے۔ تاہم اس موقع پر بھی دونوں ملک سلامتی کونسل کی قرادداد کے مطابق فوجی انخلا پر متفق نہ ہو سکے۔ اتفاق نہ ہونے کا سبب بھارت کا اصرار تھا کہ پاکستان کو جارح ملک قرار دیا جائے، جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ برابری کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔

    اقوام متحدہ کے مذاکرات کار بھی برابری کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ تاہم، بھارت کے انکار کے بعد فوجی انخلا پر کوئی سمجھوتا نہ ہو سکا ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس مسئلے کے حل میں ناکامی کی کلیدی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ نے قانونی پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف سیاسی پہلو کو ملحوظ خاطر رکھا۔

    دسمبر 1949ء میں سلامتی کونسل نے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سلامتی کونسل کے صدر، جنرل مکنوٹن سے درخواست کی کہ تنازعے کے حل کے لیے دونوں ملکوں سے رجوع کریں۔

    مکنوٹن نے 22 دسمبر کو اپنی تجاویز پیش کیں۔ اور جب 29 دسمبر کو سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر ان کی میعاد مکمل ہو رہی تھی، انھوں نے کونسل کو اپنی سفارشات پیش کیں۔ اس پرسلامتی کونسل نے انھیں ثالثی جاری رکھنے کے لیے کہا۔ انھوں نے تین فروری 1950ء کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔

    انھوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ اپنی فوجیں واپس بلائیں۔ دونوں ملکوں کو تنازعے میں ’مساوی پارٹنر‘ قرار دیا گیا، جب کہ یہ تجویز بھارت کو قابل قبول نہیں تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ صرف اسےکشمیر میں موجود رہنا چاہیے۔ اس پر امریکہ نے بھارت کو تنبیہ کی کہ اسے یہ فیصلہ ماننا ہوگا۔

    سرد جنگ کے تاریخ نویس، رابرٹ مک ہان نے لکھا ہے کہ ’’امریکی اہل کاروں نے محسوس کیا کہ قانونی و تیکنیکی بہانوں سے بھارت ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مصالحت کی کوششوں کی مخالفت کرتا رہا ہے، جس کا مقصد یہ تھا کہ استصواب رائے سے بچا جا سکے‘‘۔

    اس کے بعد سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں علاقے سے پانچ ماہ کے اندر اندر فوج کو ہٹائے جانے کے لیے کہا گیا۔

    بعدازاں، 14 مارچ 1950 میں بھارت نے اس قرارداد کو تسلیم کیا۔ جس پر اقوام متحدہ نے دونوں ملکوں کے لیے نمائندہ خصوصی کے طور پر سر اوون ڈکسن کو تعینات کیا، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ جموں و کشمیر سے دونوں ملکوں کی فوجوں کو واپس بلایا جائے۔

    اقوام متحدہ نے اپنے اہلکار تعینات کیے۔ اگلے مرحلے میں ڈکسن نے دونوں ملکوں میں شیخ عبداللہ اور غلام عباس کی اتحادی حکومت تشکیل دینے یا پھر قلم دان مختلف سیاسی جماعتوں میں باٹنے کی سفارش کی۔

    پھر ڈکسن نے پاکستانی وزیر اعظم کے سامنے بھارتی ہم منصب، نہرو سے پوچھا کہ علاقے میں استصواب رائے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ بھارت نے اس تجویز کے حق کی حامی بھری۔

    دراصل نہرو نے ہی ’بٹوارہ اور استصواب رائے‘ کے پلان کی تجویز دی تھی، یعنی جموں اور لداخ بھارت کا ہوگا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پاکستان کے ساتھ ہوں گے۔ ڈکسن نے اس منصوبے کی حمایت کی۔

    ڈکسن کے جانشین، ڈاکٹر فرینک گراہم 30 اپریل، 1951 میں علاقے میں پہنچے۔ 16 جولائی، 1952ء کو گراہم نے تجویز دی کہ علاقے میں پاکستان اپنی فوجیں 3000 سے 6000 تک کر دے، جب کہ بھارت یہ تعداد 12000 سے 16000 کے درمیان کر دے۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کی قراردداد پر عمل درآمد کیا جب کہ بھارت نے کسی جواز کے بغیر اسے مسترد کردیا تھا۔

    گراہم نے تنازع میں مصالحت کی بھی کوشش کی۔ فوجیں کم کرنے کے معاملے پر گراہم کو کسی قدر کامیابی ہوئی۔ لیکن، اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت رک گئی۔

    اس کے بعد، گراہم نے حتمی رپورٹ پیش کی اور ثالثی کی کوششیں رک گئیں۔ فوجوں کی تعداد کم کرنے اور استصواب رائے کے منتظم کی تعیناتی کے معاملے پر دونوں ملک رضامند نہیں ہوئے۔

    اس سے قبل، 1948 میں سلامتی کونسل نے قرارداد 47 منظور کی تھی جس کے بعد 1951ء میں بھارت اور پاکستان نے ’کراچی معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے، جس میں جنگ بندی اور مبصرین کی تعیناتی کے لیے کہا گیا تھا۔

    سال 1951 میں قرارداد 91 منظور ہوئی جس کے تحت بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ قائم کیا گیا، تاکہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر کنٹرول کیا جا سکے۔

    سال 1971 کی بھارت پاکستان لڑائی کے بعد دونوں ملکوں نے 1972ء میں شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے، ساتھ ہی، کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کا مبصر گروپ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

    سنہ 1999 میں پاکستان اور بھارت کی افواج ایک بار پھر کارگل کے محاذ پر آمنے سامنے آئیں ، اس جنگ کے بارے میں آج تک حقائق ابہام کے پردے میں ہیں۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے ، تاہم جنگ کے اختتام پر دونوں ممالک سنہ 1972 کی طے شدہ کنٹرول لائن پر واپس چلے گئے اور کوئی بھی خطے کی ڈیموگرافی تبدیل نہیں کرپایا تھا۔

    مسئلہ کشمیر جنرل مشرف کے دور میں

    پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے کے بعد ابتدا میں دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے ۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی دوسری مدت کے دوران صدر مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی جہاں سنہ 2001 میں دونوں رہنماؤں میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں جامع مذاکرات ہوئے۔

    اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب ‘Neither a hawk nor a dove’ میں لکھا ہے کہ آگرہ سمجھوتے میں دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے جس قدر قریب پہنچ گئے تھے، اس سے قبل کبھی نہیں پہنچے تھے۔

    امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ واجپائی اور مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے خد و خال طے کر لیے تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان یہ دیرینہ مسئلہ حتمی حل کے انتہائی قریب پہنچ گیا تھا۔ تاہم پاکستان میں حکومت پر مشرف کی گرفت کمزور پڑنے اور بھارت میں واجپائی کی اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں انتہا پسند مؤقف رکھنے والوں کی مزاہمت کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

    جولائی 2015 میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف اے ایس دولت نے انکشاف کیا تھا کہ آگرہ سمٹ کا ناکام بنانے میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    اس کے بعد سے آج تک ایل او سی پردونوں ممالک کی جھڑپیں جاری ہیں اور سنہ 2016 میں مقبوخہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوان برہان وانی کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر تحریک آزادی میں نئی جان پڑ گئی اور بھارت کے خلاف احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے ۔

    آرٹیکل 370 کی منسوخی

    حال ہی میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذآرٹیکل 370 اے جو کہ کشمیر کو ایک جداگانہ حیثیت دیتا تھا، اسے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو اپنی یونین ٹیریٹری قرار دے دیا۔

    آرٹیکل 370 ختم ہونے سے کشمیر کی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے اور اب غیر کشمیری افراد علاقے میں جائیدادیں خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کرسکیں گے۔

    بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔

    اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔

    اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں کرفیو

    اس بل کو لانے سے قبل ہی بھارت نے بھاری تعداد میں اپنی تازہ دم فوجیں مقبوضہ کشمیرمیں اتاردی تھیں جس کے سبب وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے ، لوگ گھروں میں محصورہوکررہ گئے، کشمیری رہنما محبوبہ مفتی،عمرعبداللہ اورسجاد لون سمیت دیگر رہنماؤں کوبھی نظربند کردیاگیا ہے۔

    مقبوضہ وادی میں 4 اگست کو دفعہ ایک چوالیس کے تحت کرفیو نافدکر کےوادی میں تمام تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بنداور لوگو ں کی نقل وحرکت پربھی پابندی عائد کردی گئی ہے، سری نگر سمیت پوری وادی کشمیرمیں موبائل فون،انٹرنیٹ،ریڈیو، ٹی وی سمیت مواصلاتی نظام معطل کردیاگیا ہے جبکہ بھارتی فورسز کےاہلکاروں نےپولیس تھانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    پاکستان نے اس معاملے پر فوری ردعمل دیتے ہوئے تیز ترین سفارت کاری شروع کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس حوالے سے چین کا ہنگامہ دورہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں موثر آواز رکھنے والے ممالک سے بھی رابطے تیز کردیے، پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے 14 اگست کوآزاد کشمیر کا دورہ کیااور وزیر اعظم پاکستان نے کشمیری عوام کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ساری دنیا میں کشمیر کےسفیر بن کرجائیں گے۔

    اقوام متحدہ میں تعینات پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے لیے درخواست دی جسے قبول کرلیا گیا، اقوام متحدہ ، امریکا ، برطانیہ اور چین سمیت کئی اہم ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ آج اس اجلاس میں پچاس سال بعد سلامتی کونسل کے مستقل ممبران
    مسئلہ کشمیر پر گفتگو کریں گے۔

    سلامتی کونسل کا طریقہ کار

    سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کردیتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کونسل چاہتی ہے۔

    قرارداد پاس کرنے کا طریقۂ کار بہت ہی پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔

    کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔

    غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔

    جب یہ ممالک ایک حل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے۔


    پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ سلامتی کونسل میں کوئی بھی ہمارے لیے پھولوں کے ہار لے کر نہیں کھڑا ہوگا، لیکن پچاس سال بعد اس مسئلے کا ایک بار پھر سلامتی کونسل میں آجانا، یقیناً پاکستان کی جانب سے کامیاب سفارت کاری کی نوید ہے کیونکہ بھارت شروع سے کشمیر کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا آیا ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اسے ایک بین الاقوامی تنازعہ قراردیا ہے اور اقوام متحدہ کی اس پر پہلے سے موجود قراردادوں کی تائید کی ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی طاقتیں کشمیر کے عوام کو بھارت کے ریاستی ظلم و جبر سے بچانے اور کشمیریوں کو آزادی ٔ استصوابِ رائے کا حق دلانے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔