Author: فواد رضا

  • کمسن بچوں میں خودکشی کے اسباب اوران کا تدارک

    کمسن بچوں میں خودکشی کے اسباب اوران کا تدارک

    گزشتہ روز شہرِ قائد میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا، فیڈرل بی ایریا میں واقع ایک نجی اسکول کے طالب علم نے زندگی کے ان دنوں میں اپنی جان دینے کافیصلہ کیا جن دنوں میں کوئی انسان جینے کے لیے نئے نئے مقاصد تلاش رہا ہوتا ہے، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی کمسن ذہن خودکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اس کے سدباب کے کیا طریقے ہیں؟۔

    حبیب اللہ کی عمر 11 سال تھی ، پانچویں جماعت کے اس طالب علم نے اسکول کی بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی، ذرائع کا کہنا ہے کہ بچہ شوگرکا مریض بھی تھا۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اسکول انتظامیہ بچے کے والدین کے ساتھ تعاون نہیں کررہی اور تاحال انہیں سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دکھائی گئی۔

    [bs-quote quote=”شوگر کے مریض تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، یہ حالتیں کسی بھی شخص کو خودکشی کی جانب مائل کرسکتی ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”ڈاکٹر روحی افروز”][/bs-quote]

    یقیناً یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ اسکول جہاں والدین اپنے بچے کو یہ سوچ کر چھوڑ کرجاتے ہیں کہ یہاں گزارے ہوئے وقت کے دوران ان کا بچہ اچھی تعلیم او رتربیت حاصل کرکے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنے گا، وہیں ایسا سانحہ پیش آجائے۔ یقیناً اسکول کے اوقات میں بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ انتظامیہ کو اس حادثے سے بری الذمہ قرار دیا جائے۔ ابھی تو یہ بات بھی زیرِ بحث ہے کہ آیا یہ خودکشی تھی یا قتل کی واردات ہے۔

    جب تک اس کیس کی تحقیقات آگے بڑھتی ہیں ، ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ایسی کونسی وجوہات ہیں جن کے سبب کوئی کم عمر یا ٹین ایجر بچہ اس حد تک دلبرداشتہ ہوجاتا ہے کہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائے۔

    کم عمربچوں میں خودکشی کے بنیادی اسباب


    دنیا کے نامور ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ کم عمر بچوں میں خود کشی کرنے کی وجوہات انتہائی کم ہوتی ہیں اور اگر کوئی بچہ خودکشی کررہا ہے تو اس کے لیے حالات یقیناً اس کے ارد گرد موجود افراد نے پیدا کیے ہیں۔

    اسکول میں بدمعاشی کا نشانہ بننا

    ہم میں سے اکثر اپنی اسکول لائف میں بڑے طالب علموں کی جانب سے بدمعاشی کی حد تک برے رویے کا سامنا کرچکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جس اسکول میں ہم اپنے بچے کو بھیج رہے ہیں وہاں طرح طرح کے خاندانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچےآتے ہیں۔

    ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کہیں کوئی بدمعاش آپ کے بچے کو بدمعاشی کا نشانہ تو نہیں بنا رہا۔ بعض بچے اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ ایسے واقعات پر اگر ان کی سنوائی نہ ہو تو موت کو گلےلگانا بہتر سمجھتے ہیں۔

    اچھے اسکول میں داخلہ نہ ملنا

    بعض بچوں کے والدین ان کی تعلیم کو لے کر حد سے زیادہ سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ عموماً پرائمری کے بعد ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بچہ کسی اچھے اسکول میں داخل ہوجائے۔ اگر بچہ ایسے اسکولوں کا امتحان پاس کرنے میں ناکام ہوجائے تو والدین نادانی میں بچے کو طنز و تشنع کا نشانہ بناتے ہیں ، جس سے بچے کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے، یہ بھی بچوں کو خودکشی پر راغب کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    بہن بھائیوں کا برا برتاؤ

    بعض گھروں میں بہن بھائیوں کے آپسی رویے پر توجہ نہیں دی جاتی اور ایسے ماحول میں کوئی ایک بچہ جو بہت زیادہ بولڈ نہیں ہوتا ، اپنے بہن بھائیوں کے برے رویے کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بہن بھائیوں کے خراب رویے خاندان میں تفریق کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات کچھ بچے اس حد تک دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں کہ خودکشی کرلیتے ہیں۔

    کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا

    یہ رویہ عموماً ان بچوں میں نشونما پاتا ہے جہاں الگ خاندان کا رواج رائج ہے ، اور ماں باپ فکر ِ معاش میں بدحال اپنے بچے پر توجہ نہیں دے پارہے ہوتے۔ ایسے ماحول میں بچے کے اندر شدت سے تنہائی کا احساس ابھر آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس بھری دنیا میں اسے پیار کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ احساس کبھی کبھار اس قدر توانا ہوتا ہے کہ بچہ خود کشی پر مائل ہوجاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ گاہے بگاہے بچے کو گلے لگا کر ، اسے پیار کرکے احساس دلائیں کہ آپ اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔

    جنسی یا جسمانی تشدد

    اگر کوئی بچہ جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوا ہے یا اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے تو یاد رکھیے ایسا بچہ شدید خطرے میں ہے ۔تشدد بالخصوص جنسی تشدد بچے کے ذہن میں انتہائی منفی خیالات کو فروغ دیتا ہے اور یہ خیالات بچے کو خودکشی کی جانب راغب کرتے ہیں۔

    برے والدین

    بچے پالنا یقیناً ایک بڑی ذمہ داری ہے، شادی کے بعد جوڑوں کو چاہیے کہ پہلے ایک دوسروں کو سمجھیں اور اپنے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیں، اسکے بعد بچے پیدا کرنے کا سوچیں ۔ جن والدین میں ہم آہنگی نہیں ہوتی اور وہ آپس میں ہر وقت آمادہ پیکار رہتے ہیں، تو لازمی امر کے بچے میں اس جنگ میں نشانہ بنتے ہیں۔ بعض اوقات اس سلسلے میں بچوں کو دونوں جانب سے تشد د کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ والدین کے خراب رویے بچے میں خود کشی کے خیال کو مہمیز کرتے ہیں۔

    احساس کمتری

    بعض رشتوں کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ دکھاوے کو ہی صحیح لیکن ہم اپنے بچے پر کسی دوسرے کے بچے کو ترجیح دے دیتے ہیں، یا اپنے بچے کے سامنے کسی اور کے بچے تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں۔ خبردار ! یہ رویہ آپ کے بچے میں احساس کمتری کو جنم دے گا جو اس کے لیے جینا دشوار کردے گی، والدین کے لیے ان کا بچہ ہی دنیا کا سب سے اہم بچہ ہونا چاہیےاور انہیں اس کا علی اعلان اظہار بھی کرنا چاہیے۔

    پسندیدہ شخصیت کی موت

    کسی قریبی شخصیت کی موت بھی بچوں کو خودکشی کی جانب راغب کرسکتی ہے ، خصوصاً ٹین ایج میں ایسے معاملات دیکھنے میں آتے ہیں ، ایسے کسی افسوس ناک سانحے کی صورت میں فوری اپنے بچے کو وقت دینا شروع کریں اور اسے زندگی کے معنوں سے روشناس کرائیں۔

    بچوں میں خود کشی کی شرح

    آپ نے اپنے سرکل میں آخری بار کسی بچے کی خودکشی کے بارے میں کب سنا تھا؟ شاید کئی سال پہلے یا کبھی نہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچے خودکشی نہیں کرتے، امریکا میں سنہ 1999 سے لے کر 2015 تک 1309 بچوں نے خود کشی کی، ان بچوں کی عمر 5 سے 12 سال کے درمیان تھی۔

    پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں خودکشی کو مذہب نے حرام اور بد ترین فعل قرار دیا ہو،ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق سنہ 2011 میں اقدام خودکشی کے 1،153 اور خودکشی کے 2،131 واقعات پیش آئے ، جن میں اکثریت 30 سال سے کمر عمر افراد کی تھی اور اس میں بھی اکثریت ٹین ایجر تھی، ہر گزرتے سال اس شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

    حبیب اللہ کی خودکشی


    کراچی نفسیاتی اسپتال سے وابستہ ماہر نفسیات ڈاکٹر روحی افروز نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاحال اس بچے کی خودکشی کے اسباب واضح نہیں ہیں کہ آیا اس پر اسکول کی جانب سے کوئی دباؤ تھا یا گھر کے حالات اس کی خودکشی کا سبب بنے لیکن اس کیس میں اہم بات اس بچے کو شوگر کا مرض لاحق ہونا ہے۔

    انہو ں نے بتایا کہ شوگر ایک ایسی بیماری ہے جو ایک جانب تو مریض کو جسمانی طور پر کمزور کردیتی ہے تو دوسری جانب اس کی ذہنی قوت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ڈاکٹر افروز کے مطابق شوگر کا مریض تناؤ کا شکار ہوتا ہے اور اکثر ڈپریشن کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ یہ دونوں حالتیں ایسی ہیں جو کہ خود کشی کے لیے ماحول تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ایسا مریض اپنی کمزور قوت فیصلہ کے سبب کبھی بھی خود کشی کیجانب مائل ہوسکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر


    اسکول کے زمانے میں ہم نے اساتذہ سے سنا تھا کہ بچوں کے سرمیں درد نہیں ہوتا، ایسا ہی کچھ رویہ ہمارا بچوں کے جذبات اور احساسات کے متعلق بھی ہوتا ہے کہ ’بچہ تو ہے اسے کیا پتا‘؟ وغیرہ وغیرہ۔ یاد رکھیے کہ بچوں میں جذبات زیادہ شدید ہوتے ہیں اوربڑوں کی نسبت انہیں زیادہ جذباتی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ درج ذیل تدابیر سے آپ اپنے یا اپنے ارد گرد کے کسی بھی بچے کو خود کشی کرنے سے بچا سکتے ہیں:

    بچے کو اس کی اہمیت کا اندازہ کرائیں، اسے بتائیں کہ وہ کتنا اہم اور ضروری ہے، کسی کو بھی اس پر فوقیت حاصل نہیں۔

    اپنے بچے سے پیار کا اظہار کریں، اسے چومیں اور گلے سے لگایا کریں، یاد رکھیں گلے لگانا ایک انتہائی سود مند نفسیاتی ٹانک ہے۔

    بچے پراسکول اور تعلیم کو مسلط نہ کریں، اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو اس کی کمزوری کے اسباب معلوم کرکے انہیں دور کرنے پر    کام کریں۔

    بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے سے گریز کریں، انہیں منفی واقعات نہ سنائیں اور نہ ہی ٹی وی اور انٹرنیٹ پر ایسا مواد دیکھنے دیں۔

    بچوں کی تنہائیوں کی حفاظت کریں، خیال رکھیں کہ آپ کا بچہ تنہائی میں کیا کرتا ہے، کیا سوچتا ہے اور کیسے عمل کرتا ہے؟۔ تنہائی کی صورت میں انہیں منفی خیالات میں الجھنے سے بچائے رکھنے کا اہتمام کریں۔

    آپ کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو زندگی کے معانی سےر وشناس کرائیں، زندگی کے مثبت اغراض و مقاصد اس کے سامنے رکھیں۔

    بچے سے ہر معاملے پر کھل کر گفتگو کریں اور اسے اتنا اعتماد دیں کہ وہ گھر سے باہر خود پر بیتنے والی ہر بات آپ کو بتاسکے۔


    یاد رکھیے! بچے تو پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں ، ان کی حفاظت اور بہترین ذہنی اور جسمانی نگہداشت بحیثیت والدین آپ کی ذمہ داری ہے جس سے آپ اپنی ذمہ داریوں کو آڑ بنا کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے، اگر آج آپ اپنے بچے کی تربیت اور حفاظت کو نظر انداز کریں گے تو خدانخواستہ کل کو پچھتاوا بھی آپ کا مقدر ہوسکتا ہے۔

  • پاکستانی ڈاکٹرجس کی کتابیں دنیا میں پڑھائی جارہی ہیں

    پاکستانی ڈاکٹرجس کی کتابیں دنیا میں پڑھائی جارہی ہیں

    سرزمینِ پاکستان زرخیز اذہان کی سرزمین ہے اور اس دھرتی کے ہونہار سپوت اپنے بل پر دنیا بھر میں اپنا لوہا منوانے میں مصروف ہیں، ایسی ایک سحر انگیز شخصیت ڈاکٹر فرقان علی خان ہے جو لاہور میں رہتے ہوئے خاموشی سے بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنانے میں مصروف ہیں۔

    ڈاکٹر فرقان علی کا تعلق اوکاڑہ سے ہے اور وہ دنیا کے کئی ممالک میں تعلیم کے سلسلے میں مقیم رہے ہیں ، لیکن وطن کی مٹی کی محبت انہیں واپس پاکستان لے آئی اور اب وہ لاہور میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

    اے آروائی نیوز نے ان کی خدمات کا جائزہ لیا اور ان سے گفتگو کرنے کے بعد ہم نےسوچا کہ اپنے قارئین کو بتایا جائے کہ ایسے بھی درِ نایاب اسی دھرتی کے مکیں ہیں جن سے ملک اور قوم کا اعتبار ساری دنیا میں مستحکم ہوتا ہے۔

    آئیے ان سے گفتگو کرتے ہیں۔

     فرقان علی خاناے آروائی نیوز: آپ طب کے شعبے سے وابستہ ہیں، ہمیں بتائیں کہ ایک میڈیکل سائنس کے طالب علم کو کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں؟۔

    فرقان علی خان: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میڈیکل سائنس کے نصاب کا شمار دیگر پیشوں کی نسبت مشکل ترین نصاب میں ہوتا ہے، اور ہر طالب علم کو اس سے نبرد آزما ہونا لازمی ہے۔ میرے لیے بھی یہ مرحلہ کبھی بھی آسان نہ تھا ، کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں کنکریٹ کی دیوار سے اپنا سر ماررہا ہوں لیکن بہرحال میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا کام جاری رکھا، نتائج آپ کے سامنے ہیں۔

    اے آروائی نیوز: فرقان ‘ آپ کئی ممالک میں رہے ہیں، ہمیں بتائیں کہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنا کیسا تجربہ رہا؟۔

    فرقان علی خان: میرے خیال میں یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور اس کی وجہ وہاں کا جدید ترین تعلیمی نظام اور ساتھ ہی عملی مشق کے لیے اعلیٰ ترین لیبارٹریز کی سہولت، دنیا کی بہترین سہولیات سے مزین اسپتال اور عالمی سطح پر پہچانے جانے والے میڈیکل پروفیسرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ہے۔

    جہاں تک میرے تجربے کی بات ہے تو یہ انتہائی خوش آئند تھا کہ آپ کو اس قدر اعلیٰ سطح پر جاکر کام کرنے کا موقع ملے، آپ قابل ترین اساتذہ کے زیرِ نگرانی سیکھیں اور یہی میں نے کیا ، یعنی میڈیکل سائنس کی ایڈوانس ترین تکنیک سیکھی۔

    اے آروائی نیوز: کیا آپ کو لگتا ہے کہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنا پاکستانی طالب علموں کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے؟۔

    فرقان علی خان: یقیناً پاکستانی طالب علموں کے لیے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنا ایک کھٹن مرحلہ ہے، سب سے پہلے تو ہمیں ان کے اسٹینڈرڈز کا مقابلہ کرنا پڑ تا ہے جو یقیناً پاکستان سے بہت بلند ہیں۔ صرف داخلہ ٹیسٹ ہی ایک مشکل مرحلہ ہے اور ساتھ ہی اس کی فیس بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جسے ادا کرنا بہت سے پاکستانی طالب علموں کے لیے کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔ اگر اس مرحلے سے بھی گز جائیں تو یہاں پاکستان میں ٹیسٹ کی تیاری کے لیے ضروری مواد دستیاب نہیں یہ ایک اور بڑی مشکل ہے۔

    دوسری سب سے بڑی دشواری ان کا نظامِ تعلیم ہے، ہم ایک بالکل الگ نظامِ تعلیم کے عادی ہوتے ہیں جبکہ بیرونِ ملک رائج طور طریقے پاکستان سے بالکل الگ ہیں۔

    تیسرا مرحلہ ویزا کا حصول ہے جس میں پاکستانیوں کو بھارت اور دیگر جنوب ایشیائی ممالک کی نسبت کہیں زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا سبب ہمارے ملک کے حالات ہیں۔

    چوتھا اور سب سے مشکل مرحلہ یہ ہے کہ یہاں پاکستان میں بہت زیادہ اسکالر شپس نہیں دی جاتیں اور نہ ہی ان کوئی گائیڈ لائن مہیا کرنے والا میسر ہوتا ہے۔ اس دشواری کو دور کرنے کے لیے میں اکثر لاہور کے میڈیکل کے طالب علموں سے ملاقاتیں کرتا ہوں اور انہیں ان دشواریوں پر قابو پانے کے طریقے بتاتا ہوں۔

    اے آروائی نیوز: پاکستان کے نظامِ تعلیم اور وہ ممالک جہاں آپ نے تعلیم حاصل کی ، ان کے نظامِ تعلیم میں کیا بنیادی فرق ہے؟۔

    فرقان علی خان: یورپ میں تعلیمی نظام انتہائی اعلیٰ کوالٹی کا اور ریسرچ پر مبنی ہے ، وہاں جدید تکنیک پر زور دیا جاتا ہے جبکہ یہاں پاکستان کا تعلیمی نظام رٹا لگانے پر مبنی ہے جس سے طالب علم کی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوپاتا۔ دیگر ممالک جہاں میں نے تعلیم حاصل کی ان میں تعلیمی نظام سیکھنے کے عمل پر مبنی ہے اور یہی پاکستان اور باقی دنیا کے تعلیمی نظام کا بنیادی فرق ہے۔

    پاکستان میں تعلیم کبھی بھی ترجیح نہیں رہی، ہم اپنے کل بجٹ کا محض دو فیصد تعلیم کے لیے مختص کرتے ہیں اور اس میں بھی کرپشن کے مسائل درپیش ہیں، اگر آپ ان ملکوں کی جانب دیکھیں جہاں ترقی کی رفتار بے حد تیز ہے ، وہاں آپ دیکھیں گے کہ تعلیم اور ریسرچ پر کثیر سرمایہ صرف کیا جارہا ہے۔

    مثال کے طور پر آکسفورڈ یونی ورسٹی کا کل بجٹ1.4 بلین پاؤنڈ ہے جبکہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کی جانے والی کل رقم 68 ملین پاؤنڈ بنتی ہے، اور اس کا بھی کثیر حصہ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔

    اے آروائی نیوز: آپ نے میڈیکل سائنس پر کتنی کتابیں تحری کی ہیں اور وہ کن ممالک میں پڑھائی جارہی ہیں؟۔

    فرقان علی خان: میں اب تک میڈیکل سائنس پر پانچ کتابیں تحریر کرچکا ہوں اور ان میں سے کچھ اس وقت برطانیہ، بھارت، ایران اور مصر میں پڑھائی جارہی ہیں اور کچھ وہاں اساتذہ کی جانب سے طالب علموں کو پڑھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ کیمبرج میں اپنے قیام کے دوران مجھے نیفرالوجی ( گردے) کے ماہر ترین ڈاکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور اسی سبب میں اس قابل ہوا کہ ان موضوعات پر کتب تحریر کرسکوں۔

    اے آروائی نیوز: اچھا فرقان ! آپ نے پاکستان میں سی ایس ایس ( مقابلے کا امتحان) کے طالب علموں کے لیے بھی کتابیں تحریر کی ہیں، ان کے بارے میں ہمیں بتائیں؟۔

    فرقان علی خان: جی بالکل! میں نے ماحولیاتی سائنس، صنفی علوم اور معلوماتِ عامہ کے موضوعات پر سی ایس ایس کے امتحان میں شرکت کے خواہش مند افراد کے لئے کتب تحریر کی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان موضوعات پر جو کتابیں پہلے سے موجود ہیں ان میں صرف کاپی پیسٹ سے کام چلایا گیا ہے اور اس مواد میں تحقیق کا فقدان بے پناہ نظر آتا ہے، حد یہ ہے کہ وہ مواد موجودہ رحجانات کے حساب سے اپ ڈیٹ بھی نہیں ہے۔ میں نے اس خلا کو پر کرنے کا بیڑہ اٹھا یا اور اللہ کا شکر ہے کہ سی ایس ایس امتحانات میں شریک ہونے والے ان کتابوں سے بے پناہ استفادہ کررہے ہیں۔

    اے آروائی نیوز: ہم جانتے ہیں کہ آپ ادب اور اس سے ملحقہ سرگرمیوں کے دلدادہ ہیں اور اکثر و بیشتر فنون لطیفہ کی ترویج کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں، اس بارے میں ہمارے قارئین کو کچھ بتائیں؟۔

    فرقان علی خان: پڑھنے اور پڑھتے رہنے کی عادت مجھے اپنے والد سے ورثے میں ملی ہے اور ان ہی کی طرح میں بھی کئی زبانوں پر عبور رکھتا ہوں۔ اسی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے میں نے فارسی، روسی، پولش اور لاطینی زبان کے کئی اہم ادب پارے اردو اور انگریزی میں ترجمہ کیے ہیں ، فی الحال وہ پبلش نہیں ہوسکے ہیں۔ میں نے فرنچ ٹی وی کی ایک مختصر دورانیے کی فلم میں بھی کام کیا تھا جو کہ ردیارڈ کپلنگ پر بنی تھی۔

    میرے پاس کئی نادر مخطوطات موجود ہیں جن میں 1884 کی ’ اے ڈائری آف برٹش سولجر‘ بھی شامل ہے۔ آپ سمجھ لیں کہ نادر ادب پاروں کو محفوظ کرنا میرا شوق ہے۔ اس کے علاوہ میں ماڈلنگ بھی کرتا رہا ہوں۔

    اے آروائی نیوز: جب ہم آپ کے کام اور آپ کی ڈگریز کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے مقابل آپ بہت جوان دکھائی دیتے ہیں، آخر اس کا راز کیا ہے؟۔

    فرقان علی خان: آپ کے اس سوال نے مجھے بے ساختہ ہنسنے پر مجبور کردیا ہے، اگر آپ تاریخ کے نامور کرداروں کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ قابلیت عمر کی محتاج نہیں ہوتی، یہ سب آپ کے سیکھنے کے رویے ، طریقے اور علوم کی جانب آپ کی معرفت پر منحصر ہوتا ہے۔

    مثال کے طور پر دنیا کا سب سے عظیم فاتح سکندراعظم، 24 سال کی عمر میں لگ بھگ آدھی دنیا فتح کرچکا تھا۔ شہرہ آفاق شاعر جان کیٹس نے اپنی سب شاندار جوانی کے اوائل میں لکھی، فیس بک کے بانی کی عمر دیکھیں آپ اور اسی طرح بہت سی اور بھی مثالیں ہیں جن سے تقابل کیا جائے تو ان کے مقابلے میں ہم نے ابھی کچھ بھی نہیں کیا۔

    میں یقین رکھتا ہوں کہ مثبت عادتیں، بڑے کام چھوٹے اور آسان طریقوں سے کرنے میں مدد دیتی ہیں ۔ساتھ ہی دوسروں کو بڑا سوچنے اور خوابوں کو حقیقت میں بدلنا سکھانابھی آپ کے بہت کام آتا ہے۔

     فرقان علی خان

    اے آروائی نیوز: پنجاب میں ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ ینگ ڈاکٹر آئے دن احتجاج کرتے رہتے تھے ، ان کی ڈیمانڈز اور حکومت جس طرح انہیں ہینڈل کرتی آئی ہے اس کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟۔

    فرقان علی خان: ینگ ڈاکٹرز اپنے اور مریضوں کے حقوق کے لیے یقیناً ایک جدوجہد کررہے ہیں۔ حکومت کی پاکستان میں صحت کے شعبے پر بالکل بھی توجہ نہیں ہے اور ، نہ صرف ینگ ڈاکٹرز بلکہ کئی نامور ڈاکٹرز بھی ملک میں صحت کے نظام کی بہتری کے لیے اس جدو جہد کا حصہ ہیں۔

    اے آروائی نیوز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی طالب علم بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنے آپ کو منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اس راہ میں ان کے لیے کیا مشکلات ہیں؟۔

    فرقان علی خان: جی ہاں ! پاکستانی طالب علم یقیناً یہ صلاحیت رکھتے ہیں اور ہمارے ہزاروں طالب علم بین الاقوامی مارکیٹ میں جاکر دنیا کی کئی اقوام سے زیادہ اچھی افرادی قوت ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ یہ جاننا ہے کہ اعلیٰ صلاحیتیں کس طرح حاصل کی جاتی ہیں اور انہیں تعمیری مقاصد میں کس طرح استعمال کرکے بین الاقوامی مقابلے میں اپنی جگہ بنائی جاتی ہے۔

    اے آروائی نیوز: بہت شکریہ ڈاکٹر فرقان! میڈیکل سائنس کے طالب علموں کے مستقبل کے حوالے سے انہیں کیا پیغام دینا چاہیں گے؟۔

    فرقان علی خان: میڈیکل سائنس کے طالب علموں سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک مقدس پیشہ ہے جس کا بنیادی مقصد انسانیات کی خدمت ہے۔ میڈیکل کے طالب علموں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ انسانوں میں انتہائی اہم شخصیت ہیں اور ان کی پہلی ترجیح ہمیشہ انسانیت ہونی چاہیئے۔ انہیں اپنی تربیت بہ طور مادہ پرست شخصیت کے بجائےا نسان دوست شخصیت کے طور پر کرنی چاہیے اور یہی راستہ انہیں کامیابی کی بلندیوں تک لے جائے گا۔

  • ایکوا مین – سمندروں کا دیوتا، اٹلانٹس پرراج کے لیے تیار

    ایکوا مین – سمندروں کا دیوتا، اٹلانٹس پرراج کے لیے تیار

    ڈی سی کامکس کے مداح ان دنوں بے صبری سے دسمبر میں ریلیز ہونے والی فلم ’ ایکوا مین‘ کا انتظار کررہے ہیں، اور اب ان کے انتظار کو مزید ہوا دینے کے لیے فلم کا ٹریلر جاری کردیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈی سی کامکس نے گزشتہ روز ’ ایکوامین‘ کا پانچ منٹ طویل ٹریلر جاری کیا ہے ، جس میں فلم اہم مناظر کی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔ ٹریلر کو دیکھ کر محسوس ہورہا ہے کہ یہ فلم ایکشن سے بھرپور ہوگی اور مداحوں کی دلچسپی کا سامان بنے گی۔

    فلم میں ایکوا مین کا مرکزی کردار ’جیسن موموا‘ ادا کررہے ہیں اور یہ ایک اوریجن اسٹوری ہے ، جس میں ایکوا مین کی پیدائش سے لے اٹلانٹس کے دوبارہ عروج کے لیے لڑی جانے والی جنگ کو مرکزی خیال بنایا گیا ہے۔

    ایکوا مین
    ایکوا مین اپنی ماں کی آغوش میں آخری بار

    اٹلانسٹس ایک افسانوی شہر ہے جس کا تذکرہ افلاطون کی تحریروں میں ملتا ہے، ایک ایسا شہر جو انتہائی زبردست بحری قوت کا حامل ہے اور ایتھنس کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہا ہے، کچھ مورخین اسے ایک ایسا شہر تصور کرتے ہیں جو کہ ماضی میں کبھی موجود تھا لیکن اب غرقاب ہوچکا ہے۔

    فلم کی کہانی گھومتی ہے اٹلانٹس کے تخت کے گرد ، جیسن اس فلم میں آرتھر یا ایکوا مین کا کردار نبھا رہے ہیں جو کہ سمندر کنارے واقع ایک لائٹ ہاؤس کیپر اور اٹلانٹس کی ملکہ کی محبت کی نشانی ہیں۔ اٹلانٹس کی ملکہ کا بیٹا ہونے کے سبب وہ اس افسانوی شہر کے تخت کے وارث قرار پاتے ہیں، حالانکہ اس سے قبل وہ ایک عام انسان کی سی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔

    ٹریلر میں دکھا یا گیا ہے کہ آرتھر اپنی ساتھی میرا کے ساتھ ایک اساطیری ترشول ( ٹرائی ڈینٹ) کی تلاش میں نکلتے ہیں جو کہ ممکنہ طور پر یونانی اساطیر کے مطابق سمندروں کے خدا ’پوسائڈن‘ کا ہے ۔ اس ترشول کے حصول سے اٹلانٹس کی تمام تر زوال پذیر سلطنتیں اکھٹی ہوکر ایک بار پھر عروج پا سکتی ہیں۔

    ایکوا مین
    ایکوا مین اور میرا – فلم کا فرسٹ لک

    لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں اور اس کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں اور دشمن ہیں۔ سب سے پہلے تو اٹلانٹس کا موجودہ بادشاہ ’اورم‘ ہی ایکوا مین کا دشمن ہوجائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے مقابلے پر ’بلیک منتا ‘ بھی اتر آئے گا جو کہ ایکوا مین کا روایتی دشمن ہے۔

    فلم کی ہدایت کاری کے فرائض جیمز وان انجام دے رہے ہیں جو اس سے قبل ’فاسٹ7‘بنا چکے ہیں۔ ٹریلر میں دکھائے گئے ایکشن مناظر نے انٹرنیٹ کی دنیا میں سنسنی مچادی اور امید کی جارہی ہے کہ ڈی سی کی سابقہ بلاک بسٹر ’ونڈروومن‘ کی طرح یہ فلم بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے گی اور ڈی سی کامکس کےمداحوں کو کئی سال سے طاری مایوسی اور نا امید ی کی فضا سے نجات ملے گی۔

    ایکوا مین 21 دسمبر ، 2018 کو دنیا بھر کے سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔ سو انتظار کیجئے ، سمندروں کے بادشاہ کی حکومت کے آغاز کا۔

  • اساتذہ کا عالمی دن:پاکستان میں علم کی شمع جلاتے پانچ غیرمعمولی اساتذہ

    اساتذہ کا عالمی دن:پاکستان میں علم کی شمع جلاتے پانچ غیرمعمولی اساتذہ

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’اساتذہ کا عالمی دن‘ منایا جارہا ہے، اس موقع پر ہم آپ کی ملاقات کرا رہے ہیں پانچ ایسے اساتذہ سے جو تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں

    اساتذہ کا عالمی دن ہر سال 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جس کی ابتداء 1994 سے ہوئی تھی۔ یونیسکو، یونیسف اور تعلیم سے منسلک دیگر اداروں کی جانب سے اس دن جہاں اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے وہاں ان مسائل کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے جو انہیں درپیش ہیں۔

    استاد ایک اچھے تعلیمی نظام کا بنیادی عنصر، اس کی روح ہیں اور جب تک اساتذہ کو معاشرے میں عزت نفس نہیں ملتی، وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں، وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے۔

    پاکستان میں تعلیم کا شعبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے ، اور یہاں ہنگامی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے آج تک کسی بھی حکومت نے ملک میں تعلیمی اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے بجٹ نافذ نہیں کیا ، جس کے سبب اساتذہ قلیل تنخواہ میں بنا کسی مناسب تربیت کے پڑھانے پر اور طالب علم بغیر سہولیات اور جدید ٹیکنالوجی کے پڑھنے پر مجبور ہیں۔

    ایسے حبس کے ماحول میں پاکستان میں بہت سے ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں ، جو حالات کو الزام دینے کے بجائے اپنی بساط سے بڑھ کر تعلیم کی شمع کو مسلسل روشن رکھے ہوئے ہیں ، ان بے شمار عظیم کرداروں میں سے چند سے ہم آپ کا تعارف کرارہے ہیں۔

    ماسٹرایوب


    محمد ایوب نامی یہ استاد ایک طویل عرصے سے دارالحکومت کی سڑک پر غریب و نادار بچوں کی تعلیم کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اسکول میں طلبا صاف ستھری سڑک پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

    ماسٹر ایوب دراصل فائر فائٹر تھے، اب اس کام سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ نادار بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔انہیں 2017 میں ویبی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا

    world teachers day 2018

    فریدہ پروین


    فریدہ پروین ایک مقامی اسکول میں معلمہ کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ لیکن ٹہریئے، بات اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آرہی ہے، فریدہ ہر روز اپنے گھر سے اسکول پہنچنے کے لیے 35 کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہیں، اور یہ سفر وہ موٹر سائیکل پر طے کرتی ہیں۔

    پاکستان میں جہاں بڑے شہروں میں کبھی کبھار خواتین بائیک چلاتی نظر آجاتی ہیں، وہاں ایک چھوٹے سے شہر میں خاتون کا بائیک چلانا ایک نہایت حیرت انگیز اور معیوب بات ہے ۔

    world teachers day 2018

    پاکپتن کے نواح میں واقع ان کے گاؤں بہاول میں موجود اسکول صرف پرائمری تک تھا لیکن اس کو جواز بنا کر فریدہ نے اپنی تعلیم کو خیرباد نہیں کہا۔ انہوں نے اپنے والد کی بائیک پر گاؤں سے دور ہائی اسکول جانا شروع کردیا اور اپنی تعلیم مکمل کی۔فریدہ سنہ 2014 سے گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول رام پور میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

    سلیمہ بیگم


    سنہ 2017 میں دبئی کے گلوبل ایجوکیشن اینڈ اسکل فورم میں سلیمہ بیگم کو نامزد کیا گیا، وارکیو فاونڈیشن نے دنیا بھر سے بیس ہزار ٹیچرز کو چناتھا ،اور ان اساتذہ میں گلگت کی ٹیچر سلیمہ بیگم بھی شامل ہیں، سلیمہ بیگم کو دس لاکھ ڈالر کے ایوارڈ نامزد کیا گیا تھا۔

    سلیمہ بیگم کا تعلق گلگت کے مضافاتی گاؤں اوشکھنداس سے ہیں،انہوں نے ایلمنٹر ی کالج ویمن گلگت میں پاکستان بھرسے پندرہ ہزار خواتین کو تربیت دی ہے۔

    اساتذہ کا عالمی دن

    عقیلہ آصفی


    گلوبل ٹیچرزپرائز 2016 کے لیے جن اساتذہ کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے کوشاں ’عقیلہ آصفی‘ بھی شامل تھیں۔عقیلہ کی نامزدگی کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان میں طالبان کی قید سے فراراختیارکرکے مہاجرکیمپ میں ایک ٹینٹ مانگ کر لڑکیوں کی تعلیم کا اہتمام کیا تھا۔

    اساتذہ کا عالمی دن

    مہاجر کیمپ میں مقیم افغان اور پاکستانی لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کا یہ پہلا موقع تھا اورآج عقیلہ کے اسکول سے ہزاروں لڑکیاں فارغ التحصیل ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    روحیل ورنڈ


    روحیل ورنڈ کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کا سولر نائٹ اسکول کا آئیڈیا تیزی سے ترویج پارہاہے اور اسے دنیا بھر میں سراہا گیا ہے ، پاکستان میں نائٹ اسکولز کا تصور تو طویل عرصے سے موجود ہے لیکن یہ وہیں ممکن تھا جہاں روشنی کا انتظام ممکن ہو ،تعلیم کی راہ کی اس سب سے بڑی رکاوٹ کو روحیل نے سولر بیگز استعمال کرکے دور کیا ہے۔

    اساتذہ کا عالمی دن

    ان کے دونوں اسکولوں میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے تو آراستہ کیا ہی جارہا ہے تاہم ان کی معاشی حیثیت کے سبب ہم ان کے لیے کپڑے ، جوتے ، گھر کا راشن ، اسکول میں موجودگی کے دوران کھانے کی اشیا، اسکول بیگ ، کتابیں اور اسٹیشنری کا انتظام بھی کرتے ہیں تاکہ ان پر سے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کو بوجھ کم ہو۔ روحیل کی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم دس لاکھ بچوں کی تعلیم کا انتظام کرسکیں۔

  • ملیں روحیل ورنڈ سے ، تعلیم کے فروغ کےلیے کوشاں محبِ وطن پاکستانی

    ملیں روحیل ورنڈ سے ، تعلیم کے فروغ کےلیے کوشاں محبِ وطن پاکستانی

    پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں روحیل ورنڈ ایک طویل عرصے سے تعلیمی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں اور ان کی خدمات کے اعتراف میں حال ہی میں ان کا نام ورلڈ سمٹ ایوارڈز کے ہال آف فیم میں شامل کیا گیا ہے۔

    روحیل ورنڈ کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کا سولر نائٹ اسکول کا آئیڈیا تیزی سے ترویج پارہاہے اور اسے دنیا بھر میں سراہا گیا ہے ، پاکستان میں نائٹ اسکولز کا تصور تو طویل عرصے سے موجود ہے لیکن یہ وہیں ممکن تھا جہاں روشنی کا انتظام ممکن ہو ،تعلیم کی راہ کی اس سب سے بڑی رکاوٹ کو روحیل نے سولر بیگز استعمال کرکے دور کیا ہے۔

    محمد روحیل ورنڈ فیصل آباد میں دن بھر مزدوری کرنے والے بچوں کو رات کے وقت شمسی توانائی سے تعلیم دیتے ہیں جبکہ انھوں نے لاہور میں بھی سولر اسکول بیگز مزدور بچوں میں تقسیم کئے، اس سلسلے کو پوری دنیا میں مانیٹر کیا جاتا ہے۔

    آئیے ان سے گفتگو کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے فروغ کا یہ سفر کیسا گزرا ، کیا رکاوٹیں پیش آئیں اور مستقبل کے کیا منصوبے ہیں۔


    سوال: اپنے بارے میں بتائیں ، فلاحی سرگرمیوں کی طرف آنے کا خیال کیسے آیا؟

    جواب: میرا نام محمد روحیل ورنڈ ہے اور میں ایک ایسا پاکستانی ہو ں جس کی آنکھوں میں اپنے ملک کے لیے کچھ خواب ہیں۔ گزشتہ کئی سال سےمیں ملک میں غربت ، جہالت ، بیروزگاری اور دہشت گردی کا سبب بننے والے عوامل سے جنگ کررہا ہوں ۔ آج سے دس سال پہلے میں نے ایک پراجیکٹ سے اپنے مشن کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد نوجوانوں کو آگاہی فراہم کرنا تھا، اس پراجیکٹ پر مجھے دنیا کا سب سے بڑا یوتھ ایوارڈ بھی دیا گیا تھا جس کے مقابلے میں دنیا کے 138 ملکوں سے دو ہزار سے زائد افراد شریک تھے۔

    ڈگری تو وہ رسید ہے جو آپ تعلیم کے حصول کے لیے صرف کردہ وقت کے

    نتیجے میں حاصل کرتے ہیں، تعلیم یافتہ وہ ہے جسے شعور حاصل ہوجائے

    سوال: آپ کتنے عرصے سے فلاحی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں، تعلیم کو پہلی ترجیح کیوں تصور کیا؟

    جواب: میں گزشتہ ۱۲ سال کے عرصے سے فلاحی سرگرمیوں سے وابستہ ہوں اور میرے نزدیک پاکستان کے تمام مسائل کا حل تعلیم میں پوشیدہ ہے ، اگر قوم کے اچھے طریقے سے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے تو قوم مشکلات کے بھنور سے نکل سکتی ہے۔ میرے نزدیک قوم کا کل بدلنے کا واحد طریقہ تعلیم کافروغ ہے جس کے لیے میں دن رات کوشاں ہوں۔

    یہاں میں یہ بھی بتادوں کہ میرے نزدیک ڈگری کا حصول تعلیم نہیں ہوتی، ڈگری تو درحقیقت رسید ہے اس سرمایہ کاری کی جو کوئی بھی شخص اپنی تعلیم پرکرتا ہے ۔ اصل چیز شعور ہے جس کا ہونا بہت ضرور ی ہے ، تعلیم یافتہ کہلانے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم انسان کے کردار سے جھلکے۔

    سوال : اس وقت کتنے بچے آپ کے قائم کردہ اسکول سے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور وہ کس قسم کے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں؟

    جواب: اب تک میں دو سلم اسکول قائم کرچکا ہوں جن میں لگ بھگ سو بچے مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ بچے بے گھر ہیں ، جھگیوں میں رہتے ہیں، سڑکوں سے کوڑا کرکٹ اٹھاتے ہیں ، ان میں سے کچھ بھیک مانگتےہیں ۔ یہ وہ بچے ہیں جن کےپورے خاندان میں کبھی کسی نے اسکول کی شکل نہیں دیکھی لیکن یہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

    سوال: آپ کے اسکول میں بچوں کو کونسی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، ان کے انتظامات کس طرح ہوتے ہیں؟

    جواب: ہمارے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے تو آراستہ کیا ہی جارہا ہے تاہم ان کی معاشی حیثیت کے سبب ہم ان کے لیے کپڑے ، جوتے ، گھر کا راشن ، اسکول میں موجودگی کے دوران کھانے کی اشیا، اسکول بیگ ، کتابیں اور اسٹیشنری کا انتظام کرتے ہیں تاکہ ان پر سے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کو بوجھ کم ہو۔ اس سب کے لیے ہم کسی سے نقد رقم نہیں لیتے ، وہ لوگ جو ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں ، ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ پیسوں سے ہم نے بھی سامان ہی خریدنا ہے تو آپ اپنے ہاتھ سے ہمیں سامان خرید دیں۔ ہماری بنیادی ضروریات میں لیپ ٹاپ ، ٹیبلٹ، کھانا ، راشن اور سولر کا سامان شامل ہے جس کے لیے ہم لوگوں سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔

    سوال: اسکول کے قیام میں ابتدائی مشکلات کیا پیش آئیں اور ان پر کیسے قابو پایا؟۔

    جواب: کوئی بھی کام اپنے آغاز میں آسان نہیں ہوتا، سو یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے سامنے سب سے بڑا مرحلہ بچوں کو جمع کرنا تھا، اس کے بعد ان کے والدین کو راضی کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا کہ خدارا اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں تاکہ کل کو یہ معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکیں ۔ اور نہ صرف ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں ، بلکہ اپنے خاندان کی معاشی حالت میں بہتری کے لیے موثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرسکیں۔

    جب یہ مرحلہ سر ہوگیا تو ان بچوں کو سمجھانا بھی ایک انتہائی مشکل امر تھا ۔ ہر بچے کی زبان یا لہجہ الگ ہے ، پسِ منظر میں دور دور تک کہیں تعلیم نہیں تھی ۔ ان بچوں کے پاس آغاز میں وہ بنیادی معلومات بھی نہیں تھیں جو کسی بھی بچے کے پاس ہونا بے حد ضروری ہیں۔

    اس کے بعد یہ اپنے معاشرتی پسِ منظر کے سبب نشست و برخواست اور گفتگو کے قرینے سے بالکل نا واقف تھے ۔ ہم ان بچوں کو نہ صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں بلکہ انہیں تمیز و تہذیب سکھا کر مہذب معاشرے کے قدم سے قدم ملا کر چلنا بھی سکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

    سوال : مستقبل کے کیا ارادے ہیں، اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے کیا لائحہ عمل ہے؟

    جواب: مستقبل کا ارادہ یہ ہے کہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھاتے ہوئے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے، میں مرنے سے قبل کم از کم اس ملک کے دس لاکھ بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتاہوں ، یہی سبب ہے کہ گزشتہ دو سال سے میں تعلیم کو بالکل نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈتا ہوں جن میں سے ایک یہ سولر اسکول کا منصوبہ ہے جو اب کامیابی کے ساتھ علم کی روشنیاں بکھیر رہا ہے۔

  • ٹھگزآف ہندوستان کا ٹریلر، کپتان جیک اسپیروکی یاد تازہ

    ٹھگزآف ہندوستان کا ٹریلر، کپتان جیک اسپیروکی یاد تازہ

    بالی وڈ فلموں کے مداح آج کل جس فلم کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں ، وہ ٹھگز آف ہندوستان‘ ہے، فلم بینوں کے جذبات کو مہمیز کو کرتا فلم کا ٹریلر جاری کردیا ہے جسے دیکھ کر ہالی وڈ فلم سیریز ’پائریٹس آف دی کیریبئن‘( پی او سی) کی یاد تازہ ہوگئی۔

    یش راج فلمز کے بینر تلے بننے والی فلم ‘ ٹھگز آف ہندوستان‘ کا ٹریلر آن لائن ریلیز کردیا گیا ہے۔ یقیناً یہ ٹریلرانٹرنیٹ کی دنیا کی سنسنی خیزی میں تواضافہ کرے گا لیکن فلم بینی کے شوقین افراد کی توقعات اب کچھ مدہم پڑگئی ہیں۔

    ٹریلرکے لیے اسٹوری کے آخرمیں اسکرول کیجئے

    ٹریلردیکھ کرلگتا ہے کہ امیتابھ بچن اورعامرخان جیسی اسٹار کاسٹ کو لے کربننے والی یہ فلم ، ہالی وڈ کی مشہورِ زمانہ فلم سیریزپائریٹس آف دی کیریبئن کا بھرپورچھاپا ثابت ہوگی۔ ہالی وڈ فلم ( پی او سی) بحری قذاقوں پربننے والی سیریز ہے اورجن فلم بینوں نے وہ سیریز دیکھ رکھی ہے، ٹھگز آف ہندوستان کاٹریلردیکھتے ہوئے ان کے ذہن میں ہالی وڈ بلاک بسٹرکے سین چلنے لگے ہیں۔

    ٹریلرکو دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ فلم کے ویژولزپربے پناہ محنت کی گئی ہے اور شائقین کواس کے ایکشن پرمبنی مناظر پسند آئیں گے، لیکن جب اس کا موازنہ والٹ ڈزنی جیسی مشہورِ زمانہ اینی میشن کمپنی کی فلم سے کیا جارہاہے تو کہنا پڑے گا کہ سی جی آئی ٹیکنالوجی کا ہالی وڈ کے درجے پر استعمال ابھی ہندوستانیوں کے بس کی بات نہیں ہے۔

    فلم کی کہانی ہندوستان میں انگریز راج کے آغاز اور آزادی کی جدوجہد شروع ہونے سے پہلے کے دور کے گرد گھومتی ہے جب  امیتابھ بچن (خدا بخش نامی بحری قذاق) انگریزوں کی حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے برٹش سپاہیوں کے مدمقابل ڈٹ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہم پائریٹس آف دی کیریبئن میں بھی دیکھ چکے ہیں ، جہاں بحری قذاق سمندروں پرانگریزوں کی اجارہ داری تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مسلسل ان کے ساتھ مقابلے کے ماحول میں رہتے ہیں۔

    امیتابھ بچن اس فلم میں ایک ایسے باغی قذاق کا کردار نبھا رہے ہیں جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بالادستی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں تباہ و برباد کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ایسا ہی کچھ کیپٹن جیک اسپیرو ( جانی ڈیپ) بھی ایسٹ انڈیا کمپنی اور ہسپانوی سلطنت کے خلاف کرتے نظر آتے تھے۔ تاہم ہندوستانی پسِ منظر کے سبب یہ فلم برصغیر کے فلم بینوں کو ’پی او سی‘ سے زیادہ متاثر کرسکتی ہے۔

    ٹھگز آف ہندوستان کے ٹریلر میں ہمیشہ کی طرح امیتابھ بچن اپنے کردار کے ساتھ پوری طرح انصاف کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان کے سپاہیوں میں سے ایک بے مثال لڑاکے کا کردار فاطمہ ثنا شیخ کرتی نظر آتی ہیں اور اپنے حصے کے ایکشن مناظر واقعی انہوں نے انتہائی خوبصورتی سے نبھائے ہیں۔

    ٹریلر میں سمندری جہازوں کی لڑائی ، تلواروں کی جنگ اور بہت سے مناظر دیکھ کر آپ با ر بار کیپٹن جیک اسپیرو کو یا د کرنے پر مجبور ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سب میں ہندوستان کا روایتی تڑکہ شامل ہے جوکہ فلم کو شائقین کے لیے دلچسپ اور مصالحے دار بنا رہا ہے۔

    فلم میں مسٹر پرفیکشنسٹ کہلائے جانے والے عامر خان بھی اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہورہے ہیں۔ ایک مقام پر عامر خان آپ کو برطانوی حکام کے ساتھ اپنی خدمات کے عوض بھاؤ تاؤ کرتے نظر آئیں گے ، یہاں آپ کو ایک بار پھر کپتان جیک اسپیرو اور برطانوی افواج کے درمیان ہونے والی دلچسپ اور پر مزاح سودے بازی یاد آئے گی۔

    فلم کے ٹریلر کو دیکھ کر اس میں جو نیا کچھ نظر آرہا ہے ، وہ یہ ہے کہ عامر خان بار بارخدا بخش کو برطانوی افواج کے لیے دھوکہ دیں گے اور اس دھوکہ دہی کا انجام کیا ہوگا، فی الحال اس پرسے پردہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔ ویسے پائریٹس آف دی کیریبئن میں بھی کپتان جیک اسپیرو اورکیپٹن ہیکٹرباربوسہ ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل دھوکے بازی جاری رکھتے ہیں۔

    اس سب کے باوجود ’ٹھگز آف ہندوستان کا ٹریلر اس وقت انٹرنیٹ پر ہلچل مچانے میں مصروف ہے اور امید کی جارہی ہے کہ یہ فلم برصغیر کے فلم بینوں کی توجہ مکمل طور پر اپنی جانب مبذول کراتے ہوئے کم از کم باکس آفس پر تو کامیابی کے جھنڈے گاڑ ہی دے گی ، آخر کو عامر خان اور امیتابھ بچن کا کسی فلم میں ایک ساتھ جلوہ گر ہونا بھی تو کوئی اہمیت رکھتا ہے ، خصوصاً ایسی فلم جو کہ ہندوستان کی تحریک ِ آزادی کے موضوع پر بنی ہو۔ یہ فلم رواں سال آٹھ نومبر کو سینما گھروں میں پیش کی جائے گی۔

  • سیاحت کا عالمی، پاکستان میں سیاحت کے 12 بہترین مقامات

    سیاحت کا عالمی، پاکستان میں سیاحت کے 12 بہترین مقامات

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، آج کے دن کو منانے کا مقصد سیاحت کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور اس کی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن ہے، پاکستان میں سیاحت کے لیے وسیع ترمواقع میسر ہیں۔

    سیاحتی مقامات اپنے اندر قدرتی طورپرایسی کشش رکھتے ہیں کہ زمانہ قدیم سے سیاحت کے شوقین افراد ان کا مشاہدہ کرنے کے لئے دوردرازکے سفراختیار کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا شماراپنے جغرفیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب وسیع وعریض زرخیزمیدان بھی موجود ہیں۔

    دنیا کے بیشترممالک میں ایک بھی دریا نہیں بہتا جبکہ پاکستان کی سرزمین پر17 بڑے دریا بہتے ہیں، یہاں سبزہ زار بھی ہیں اور ریگ زار بھی، ہمارے وطن عزیز میں چاروں موسم آتے ہیں اور اپنی چھب دکھاتے ہیں ۔الغرض ہرمزاج کے ملکی اورغیر ملکی سیاحوں کے لئے قدرت نے یہاں دل پذیری کا بھرپورانتظام کررکھا ہے۔

    آج ہم آپ کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں سےمنتخب سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کررہے ہیں تاکہ آپ طے کرسکیں کہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لئے آپ کےمزاج کے مطابق موزوں ترین علاقہ کون ساہے۔

    گورکھ ہل


    سندھ کے شہردادوکے شمال مغرب کوہ کیرتھر پرگورکھ ہل اسٹیشن واقع ہے، یہ صوبہ سندھ کا بلند ترین مقام ہے اور سطح سمندر سے5،688فٹ بلند ہے جوکہ پاکستان کے مشہور ترین ہل اسٹیشن مری کا ہم پلہ ہے۔ کراچی سے گورکھ ہل اسٹیشن کا فاصلہ 400 کلومیٹرہے ۔

    گورکھ ہل کا حسین منظر

    مہرانو وائلڈ لائف


    سندھ کے علاقے کوٹ دیضی سے دو کلومیٹر کے فاصلے پرمہرانو وائلڈ لائف سینچری واقع ہے یہ ایک وسیع و عریض محفوظ جنگل ہے جہاں مختلف اقسام کی جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں جنگلی ہرن موجود ہیں جبکہ تیزی سے معدوم ہوتے کالے ہرن کو بھی یہاں تحفظ فراہم کیا جارہاہے اور اب انکی تعداد لگ بھگ 650 ہوگئی ہے۔

    مہرانو میں تحفظ یافتہ کالے ہرن

    ہنگول نیشنل پارک


    بلوچستان میں واقع ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو 6،19،043 ایکڑرقبے پرپھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلومیٹر دوریہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر،لسبیلہ اورآواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اسکا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہندوؤں کا معروف ہنگلاج مندربھی اس پارک میں‌واقع ہے

    یہ پارک کئی اقسام کے جنگلی درندوں ، چرندوں آبی پرندوں ، حشرات الارض دریائی اور سمندری جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔امید کی دیوی یا پرنسز آف ہوپ کہلایا جانے والا 850سال قدیم تاریخی مجسمہ بھی اسی نیشنل پارک کی زینت ہے۔

    پیرغائب


    بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پرپیرغائب نامی مقبول تفریح گاہ ہے جہاں بلاشبہ بلوچستان کا سب سے خوبصورت آبشارواقع ہے۔ آبشار سے بہنے والا پانی چھوٹے تالابوں کی صورت جمع ہوتا ہے اور کھجور کے درختوں کے ساتھ مل کر انتہائی دل آویز منظر تشکیل دیتا ہے۔ یہاں آنے کے سبی روڈ سے جیپ لینا پڑتی ہے۔

    پیر غائب کا فضائی منظر

    کھیوڑہ کی نمک کی کانیں


    پاکستان کے ضلع جہلم میں کھیوڑہ نمک کی کان واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریبا 250 کلومیٹرفاصلہ پرہے۔

    کھیوڑہ میں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیا میں قدیم ترین ہے اور دنیا میں دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم 322 ق م میں اس علاقے میں آیا تو اس کے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایک فوجی نے پتھرکو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا۔

    کھیوڑہ کی کان میں بنی نمک کی مسجد

    یوں اس علاقے میں نمک کی کان دریافت ہوئی۔ اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجہ نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔

    روہتاس کا قلعہ


    شیرشاہ سوری کا تعمیرکردہ قلعہ روہتاس 948ھ میں مکمل ہوا، جو پوٹھوہار اورکوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان اور تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لئے تعمیر کرایا تھا۔

    دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کی بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔

    روہتاس – کٹاس راج مندر اور اس کی جھیل

    ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے بھی اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے، جبکہ قلعہ کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر پھیلے ہوئے ہیں۔

    ملکہ کوہسارمری


    ملکہ کوہسارمری پاکستان کے شمال میں ایک مشہوراورخوبصورت سیاحتی تفریحی مقام ہے۔ مری شہردارالحکومت اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پرواقع ہے۔ مری کا سفرسرسبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اوردوڑتے رقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں سے بھرپور ہے۔ گرمیوں میں سرسبز اورسردیوں میں سفید رہنے والے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش کاباعث ہیں۔

    ملکہ کوہسار – جب وہ برف اوڑھ لیتی ہے

    مری سطح سمندر سے تقریباً 2300 میٹر یعنی 8000 فُٹ کی بلندی پرواقع ہے۔ مری کی بنیاد 1851 میں رکھی گئی تھی اور یہ برطانوی حکومت کا گرمائی صدرمقام بھی رہا۔ ایک عظیم الشان چرچ شہرکے مرکزکی نشاندہی کرتا ہے۔ چرچ کے ساتھ سے شہر کی مرکزی سڑک گزرتی ہے جسے’مال روڈ‘ کہا جاتا ہے۔

    ایوبیہ


    ایوبیہ نیشنل پارک مری سے 26 کلومیٹر دور صوبہ سرحد، پاکستان میں واقع ہے۔ سابق صدر پاکستان جناب ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔ چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور خانسپور کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔

    ایوبیہ چیئر لفٹ

    ٹھنڈیانی


    ٹھنڈیانی ضلع ایبٹ آباد کے جنوب میں واقع ہے۔ ایبٹ آباد شہر سے اسکا فاصلہ تقریبا 31 کلو میٹر ہے۔ اسکے مشرق میں دریائے کنہار اور کشمیر کا پیر پنجال سلسلہ کوہ واقع ہے۔ شمال اور شمال مشرق میں کوہستان اور کاغان کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ شمال مغرب میں سوات اور چترال کے برف پوش پہاڑ ہیں۔ ٹھنڈیانی سطح سمندر سے 9000فٹ (2750 میٹر) بلند ہے۔

    ٹھنڈیانی

    ملکہ پربت اورسیف الملوک


    جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے علاقے ناران میں 3224 میٹر/10578 فٹ کی بلندی پرمیں واقع ہے اوراس کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ صبح کے وقت ملکہ پربت اوردوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

    جھیل سیف الملوک

    جھیل سے انتہائی دلچسپ لوک کہانیاں بھی منسوب ہیں جو یہاں موجود افراد کچھ روپے لےکرسناتے ہیں اوراگر آپ جھیل سے منسوب سب سے دلچسپ کہانی سننا چاہتے ہیں تو جھیل پر کالے خان نامی نوے سالہ بزرگ کو تلاش کیجئے گا۔

    منٹھوکا آبشار


    بلتستان کے مرکزی شہر اسکردو سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر مادو پور نامی گاؤں ہے جس کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا آبشار منٹھوکا ہے جس کی اونچائی لگ بھگ 140 فت ہے۔ یہاں آنے کے لئے آپ کواسکردو سے گاڑی کرایے پر لینی ہوگی اور اگر آپ کے پاس اپنی ذاتی گاڑی ہے تو بھی آپ باآسانی یہاں پہنچ سکتے ہیں۔

    منٹھوکا آبشار کا حسین منظر

    دیوسائی


    دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے 13،500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ پارک 3000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے مئی تک پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔

    دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے ‘دیو’ اور ‘سائی’ یعنی ‘دیو کا سایہ۔’ ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں۔ آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔

    یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کے باوجود انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواؤں، طوفانوں، اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔

    دیوسائی – جھیل کا ایک نظارہ

     

  • آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ

    آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ

    معروف شاعر شبیر نازش کا مجموعہ کلام ’ آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘ ان کے مداحوں کے شعری ذوق کی تسکین کررہا ہے ، دو دہائیوں سے زائد عرصے سے شعرو شاعری سے وابستہ شبیر ایک منفرد لب ولہجے کے شاعر ہیں۔

    آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ شبیر نازش کے نوجوانی کے رت جگوں اور جوانی کی ریاضتوں کا ثمر ہے، ان کا یہ شعری مجموعہ دو دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ان کے شعری سفر کی مختلف جہتوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ ان کا بنیادی میدان غزل ہے ، لیکن نظم اور نثری نظم کے معاملے میں بھی انہوں نے اپنے مداحوں کو مایوس نہیں کیا۔

    حال ہی میں شائع ہونے والا ان کا یہ شعری مجموعہ ’آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘ شائع ہوا ہے ۔ کتاب میں صفحات کی تعداد 168 ہے، اسے فکشن ہاؤ س نے شائع کیا ہے ۔ سرورق دیدہ زیب اور جاذب نظر ہے جبکہ طباعت میں معیاری کاغذ کاا ستعمال کیا گیا ہے۔ اس کی قیمت 300 روپے متعین کی گئی ہے۔

    کتاب میں غزلوں کی تعداد 52ہے جبکہ16 نظمیں بھی اس مجموعے کا حصہ ہیں۔ آج کا جد ت پسند شاعر نثری نظم کو نظر انداز نہیں کرسکتا تو 5نثری نظمیں بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔

    شبیر نازش کے بارے میں


    شبیرنازش سندھ کے شہر ڈگری کے نواح ’’کچھیوں والی گوٹھ‘‘ کے ایک مزدور گھرانے میں 17اکتوبر1980 کو پیدا ہوئے۔ 5 برس ٹنڈوالہیار میں رہے پھر پنجاب ہجرت کرگئے اور میاں چنوں کے قریب چک نمبر132 سولہ ایل میں سکونت اختیار کی۔

    شاعری میں شفیق استاد مرزا نصیرخالد(مرحوم) کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے۔ مادری زبان پنجابی ہے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ 23مارچ2004 کو ایک بارپھر رختِ سفر باندھا اور کراچی آگئے اور تب سے اب تک یہیں رہائش پذیر ہیں۔غزل،پابند نظم، نظمِ معریٰ، آزاد نظم اور نثری نظم کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔

    شبیرکی شاعری


    دو دہائیوں تک شعر گوئی کے فن کو اپنا خونِ جگر پلانے والے شبیر نازش کی شاعری جدید و قدیم کے درمیان کی راہ پر گامزن ہے ، وہ ادب کی ہیت ، لفظوں کی ساخت اور اسلوب کے حسن پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے ہم عصر شعراء کی طرح الفاظ کر برتنے میں بے احتیاطی سے کام نہیں لیتے ۔ ان کے اشعار میں ان کے اندر کا تخلیق کار پوری قوت سے انگڑائیاں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔

    اپنی الگ ہی سمت میں نئی راہیں نکال کر
    وہ لے گیا ہے جسم سے سانسیں نکال کر

    شبیر کی شاعری احساسات کی شاعری ہے ، ان کے اشعار میں ان کی زندگی میں بیتے حالات اور واقعات اور مشکلات کی نمائندگی کرتے ہیں ، وہ اپنے اشعار میں اس کرب کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جس کا ادراک ایک حقیقی شاعر ہی کرسکتا ہے۔

    دیکھے ضعیف کاندھوں پہ محنت کے جب نشاں
    بچوں نے کچھ بھی باپ سے مانگا نہ پھر کبھی

    شعر گوئی یقینا ً ایک الہامی امر ہے اور شاعر کے لیے اپنے خیال پر یقین ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی عام انسان کے زندہ رہنے کے لیے سانس ، اگر آپ جو سوچتے ہیں اس پر خود یقین نہیں رکھتے تو کسی بھی مستعد قاری کو ان الفاظ میں اعتبار کی کمی واضح دکھائی دے گی اور وہ اشعار کسی بھی قسم کی تحریک کا سبب بننے سے قاصر رہیں گے ، شبیر کی شاعری میں ہمیں یہی اعتماد بدرجہ اتم نظر آتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس پر اسے یقین ہے۔

    کم ترے ضبط کی قیمت نہیں کرنے والے
    ہم تری آنکھ سے ہجرت نہیں کرنے والے

    کربلا کے لیے مخصوص ہے بس ایک ہی شخص
    دوسرا کوئی بھی شبیر نہیں ہوسکتا

    شبیر اپنے بعض اشعار میں معروف شاعر جون ایلیاء کی طرح وسعت خیال کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے ، وہ اپنے الفاظ کے ذریعے بتاتا ہے کہ اس کا تخیل کس قدر زور آور ہے ،اور یہ کہ وہ اس طاقت ور قوت ِ تخیل کا ادراک بھی رکھتا ہے۔

    پر نہ کھولے اسی تردد میں
    کم نہ پڑجائے کائنات مجھے

    اک نظر دیکھنے پہ یہ عالم
    اک نظر اور دیکھ لیتے تو؟

    شبیر اپنے اشعار میں کئی طرح کے موضوعات کے برتنے پرعبوررکھتا ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے ہاں عشق و محبت ایک مخصوص انداز و معانی لیے ہوئے ہیں اور وہ روایتی عشق و محبت کے بجائے خود پر بیتے حالات بیان کرتا نظر آتا ہے ، ہجر اور وصل کے موضوعات یقیناً کسی بھی غزل گو شاعر کے لئے ضروری ہیں، اور ان میں انفرادیت ہی کسی شاعر کو ممتاز بناتی ہے، شبیر اپنی اس کوشش میں کسی حد تک ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔

    کیسا آزاد کیا باندھ کے دل سے اس نے
    چلنےلگتا ہوں تو زنجیر نظر آتی ہے

    میرے کفن کے بند نہ باندھو !ابھی مجھے
    ملنا ہے ایک شخص سے بانہیں نکال کر

    غزل کی طرح شبیر کی نظم بھی معاشرتی اقدار، سماجی رویوں اور معروضی حالات کے حقائق سے مزین ہے ، اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے شبیر کہیں بھی حقیقت سے آنکھیں نہیں چراتا اور حالات کی تلخی کو اتنی سچائی سے بیان کرتا ہے جتنا کہ وہ تلخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس کے اشعار میں اس کا اپنا تجربہ اور گئی عمر کے تجربوں کی تلخیاں بھی امڈ آتی ہیں۔ جیسا کہ اس کی نظم جس کا عنوان ’ترقی ‘ ہے ، میں دیکھتے ہیں کہ:

    کتنی ترقی کرلی ہم نے
    اور کہاں تک جانا ہے
    ہر کوئی مصروف ہے اپنی دنیا میں
    آج کسی کے پاس نہیں ہے فرصت کا اک لمحہ بھی
    وہ لمحہ
    جس لمحے بیٹا
    بوڑھی ماں سے پوچھ سکے
    ماں!۔۔۔ کیسی ہو؟

    معروف نقاد خرم سہیل نے آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر کہا تھا کہ غزل اور نظم دونوں میں یکساں مہارت رکھنے والے اس شاعر نے معیار پر بھی سمجھوتہ نہیں،کم لکھا مگر اچھا لکھا، کیونکہ برا لکھنے کے لیے بہت سارے شاعر ان کے ہم عصروں میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور انجام کو پہنچ رہے ہیں۔

    یقیناً شبیر نازش کو ابھی شعری افق کے اور بہت سے مدارج طے کرنے ہیں ، ان کے سامنے ایک طویل تخلیقی سفر ہے جس کی پر خار راہ پر حسبِ سابق انہیں تنہا ہی سفر کرنا ہے ، لیکن امید ہے کہ اس مجموعے کی اشاعت کی بعد اس راہ ِ خاردار میں دھوپ کی تمازت پہلے سے کچھ کم ہوگی۔

    درپیش تھا سفر کسی صحرا میں شام کا
    شبیر نے قیام کیا اور چل پڑا

  • نشانِ حیدرحاصل کرنے والے شیردل سپوت

    نشانِ حیدرحاصل کرنے والے شیردل سپوت

    نشانِ حیدر افواجِ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو کہ وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے شیر دل فوجیوں کو دیا جاتا ہے، اب تک پاکستان کے دس سپوت یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔

    پاکستان میں نشانِ حیدر حاصل کرنے والے دس فوجیوں میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل کیا ان کی عمریں 40 سال سے

    بھی کم تھیں جبکہ سب سے کم عمر نشان حیدر پانے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس تھے جنہوں نے دورانِ تربیت 20 سال 6 ماہ کی عمر میں شہادت کے منصب پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔ اب تک بری فوج کے حصہ میں 9 جبکہ پاک فضائیہ کے حصے میں ایک نشان حیدر آیا ہے۔

    نشانِ حیدر کے مساوی ’ہلال کشمیر ‘ ہے جو کہ آزاد کشمیر کی فوج سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو دیا جاتا ہے ، اب تک یہ اعزاز صرف ایک فوجی سیف اللہ جنجوعہ کے حصے میں آیا ہے۔

    نشانِ حیدر


    نشان حیدر کا اجراء 16 مارچ 1957 سے کیا گیا، اور سنہ 1947 سے اس وقت تک اس نشان کے حق دار شہدا ء کو اس اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ پاکستان میں دیے جانے والے تمام سول اور ملٹری اعزازوں میں سب سے بڑا امتیازی نشان ہے۔

    یہ اعزاز پیغمبر اسلام ﷺ کے نامور صحابی اور خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے جن کا لقب حیدرِ کرار ہے اوران کا شمار جلیل القدر، جری اور دلیرصحابہ کرام میں ہوتا ہے۔

    فوج کے کسی بھی رینک اور شعبے سے تعلق رکھنے والے بہادر کو اس اعزاز سے نوازا جاسکتا ہے، اسے حاصل کرنے کا معیار حالت ِ جنگ میں انتہائی خطرے کے مقام پر جرات وبہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوجانا ہے۔

    نشانِ حیدر پاکستان منٹ میں وزارتِ دفاع کے خصوصی آرڈر پر تیار کیا جاتا ہے اور اس کی تشکیل میں دشمن سے چھینے گئے اسلحے کی دھات کو استعمال کیا جاتا ہے، نشانِ حیدر 88 فیصد کاپر ، 10 فیصد ٹن اور 2 فیصد زنک کے امتزاج سے تشکیل دیا جاتا ہے۔

    کیپٹن محمد سرور شہید


    کیپٹن سرور 1910 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان سے قبل 1944 میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی ، 1948 میں کشمیر آپریشن میں ہندوستان کی فوج کے مقابلے میں اوڑی کے مقام پر 50 گز کے فاصلے پر فائرنگ کی زد میں آئے، اس وقت وہ خاردار تاریں کاٹ کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کیپٹن سرور کی شہادت کے وقت عمر 38سال تھی۔

    میجر طفیل محمد شہید


    طفیل محمد 1914 میں پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1943 میں پاک و ہند کی تقسیم سے قبل فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔1958 میں مشرق پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ہندوستان کی فوج نے بین الاقوام سرحد کی خلاف ورزی کی اور ایک گاؤں میں داخل ہوئی، اس گاؤں کو انہوں نے ہندوستان کی فوج سے واگزار کروالیا، مگر اس دوران وہ دست بدست بھی مخالف فوج سے لڑنے سے شدید زخمی ہونے کے باعث ان کی شہادت ہوئی۔میجر طفیل شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 44 سال تھی، وہ سب سے زیادہ عمر میں نشان حیدر حاصل کرنے والے فوجی ہیں۔

    میجر راجہ عزیز بھٹی شہید


    راجہ عزیز بھٹی 1928 میں ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق گجرات سے تھا، عزیز بھٹی نے 22 سال کی عمر میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔1965 کی جنگ میں مشہور زمانہ بی آر بی نہر کے کنارے برکی میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے، نہر کے کنارے ایک مقام پر ہندوستان کی فوج قابض ہو گئی تھی، انہوں نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج سے علاقہ واگزار کروا لیا مگر ہندوستانی فوج کے ٹینک کا ایک گولہ ان کو آ کر لگا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔ میجر عزیز بھٹی شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 37 سال تھی۔ یاد رہے کہ راجہ عزیز بھٹی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ماموں تھے۔

    میجر محمد اکرم شہید


    محمد اکرم 4 اپریل 1938 کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1959 میں فوج میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے 1965 کی جنگ میں شرکت کی اور کئی محاذوں پر ہندوستان کی فوج کا مقابلہ کیا۔1971کی جنگ میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ڈسٹرکٹ دیناج پور اپنے علاقے کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے خیال رہے کہ دیناج پور جنگ اسی علاقے میں شامل تھا جہاں 23 نومبر 1971 سے 11دسمبر 1971 تک بوگرہ جنگ لڑی گئی، اس جنگ میں محمد اکرم کو ہیرو کا درجہ ملا۔31 سال 8 ماہ کی عمر میں شہید ہونے والے میجر محمد اکرم کو مشرقی پاکستان (موجود بنگلہ دیش) میں ہی دفنایا گیا، البتہ بعد ازاں ان کے آبائی علاقے جہلم میں یاد گار تعمیر کی گئی۔

    پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید


    راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 13 مارچ 1971 کو پاک فضائی میں شمولیت اختیار کی، اسی سال 20 اگست کو دوران تربیت ان کے استاد (انسٹرکٹر) مطیع الرحمن نے پاکستان کے جہاز کواغواء کرکے پندوستان لے جانے کی کوشش کی تو جہاز کے کاک پٹ میں پہلے دست بدست لڑائی ہوئی ،بعد ازاں راشد منہاس نے جہاز کو ہندوستان کے بارڈر سے 51 کلومیٹر دور ہی زمین سے ٹکرا دیا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔

    راشد منہاس فوج کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر پانے والے کم عمر ترین فوجی ہیں شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 20 سال اور6ماہ تھی جبکہ ان کو پاکستان ائر فورس کا حصہ بنے بھی صرف 5 ماہ ہوئے تھے۔

    میجرشبیرشریف شہید


    شبیر شریف 28 اپریل 1943 کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1964 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی، ان کے والد شریف احمد بھی فوج میں میجر رہے تھے۔1965 کی جنگ میں وہ بحیثیت سیکنڈ لفٹیننٹ شریک ہوئے ان کو کشمیر میں تعینات کیا گیا تھا۔

    سنہ 1971 میں جب مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں جنگ جاری تھی، تو پنجاب میں ہیڈ سلیمانکی کو ہندوستان کی فوج کے قبضے سے واگزار کروانے میں کامیابی حاصل کی اس جنگ میں ہندوستان کے 4 ٹینک تباہ، 42 فوجی ہلاک اور 28 قیدی بنائے گئے۔ملک کے بڑے رقبے کو پانی فراہم کرنے والے بند ہیڈ سلیمانکی پر حفاظت کے دوران ان کو ہندوستان کے ٹینک کا گولہ لگا جس سے28 سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی۔ آپ سابق آرمی چیف راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔

    جوان سوار محمد حسین شہید


    سوار محمد حسین جنجوعہ 18 جون 1949 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، وہ 17 سال کی عمر میں پاک فوج میں بحیثیت ڈرائیور شامل ہوئے۔1971 کی جنگ میں سیالکوٹ میں ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ جنگ پر گولہ بارود کی ترسیل کرتے رہے، ان کی نشاندہی پر ہی پاک آرمی نے ہندوستان کی فوج کے 16 ٹینک تباہ کیے، 10 دسمبر 1971 کو ہندوستانی فوج کی شیلنگ کی زد میں آکر سوار محمد حسین شہید ہوئے۔

    جس وقت سوار محمد حسین کی شہادت ہوئی ان کی عمر محض 22 سال اور 6 ماہ تھی۔وہ پاک فوج کے پہلے سب سے نچلے رینک کے اہلکار یعنی سپاہی تھے جن کو ان کی بہادری پر نشان حیدر دیا گیا۔

    لانس نائیک محمد محفوظ شہید


    محمد محفوظ 25 اکتوبر 1944 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو ٹھیک 16 سال کی عمر میں فوج میں بحیثیت سپاہی شمولیت اختیار کی۔1971 کی جنگ میں ان کی تعیناتی واہگہ اٹاری سرحد پر تھی، وہلائٹ مشین گن کے آپریٹر تھے، ہندوستان کی فوج کے شیلنگ سے ان کی مشین گن تباہ ہوئی جبکہ ان کی کمپنی (فوجی داستہ) مخالف فوج کی زد میں آگیا۔

    شیلنگ سے لانس نائیک محمد محفوظ کی دونوں ٹانگیں زخمی ہو گئیں انہوں نے اسی زخمی حالت میں ہندوستان کے ایک بنکر (جہاں سے پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا جا رہا تھا) میں غیر مسلح حالت میں گھس کر حملہ کیا اور ایک ہندوستانی سپاہی کو گلے سے دبوچ لیا، البتہ ایک اور ہندوستانی فوجی نے ان پر خنجر سے حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا۔لانس نائیک محمد محفوظ کی بہادری کا اعتراف ہندوستان کے فوجیوں نے بھی کیا۔

    ان کی شہادت کے بعد 23 مارچ 1972 کو بہادری پر سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر انہوں سے نوازا گیا۔بعد ازاں ان کے گاؤں پنڈ مایکان کو محفوظ آباد کا نام بھی دیا گیا۔

    کیپٹن کرنل شیر خان شہید


    کرنل شیر خان یکم جنوری 1970 کو خیبر پختونخوا کے علاقے صوابی میں پیدا ہوئے۔1999 میں جب کارگل میں جنگ شروع ہوئی تو 17 ہزار فٹ کی بلندی پر انہوں نے ہندوستان کی فوج پر اس وقت حملہ کیا جب وہ با آسانی پاک فوج (کیپٹن کرنل شیر خان کی بٹالین) کی نقل و حرکت کو باآسانی دیکھ سکتے تھے، ان کا حملہ مخالف فوج کے لیے نہ صرف حیران کن تھا بلکہ انڈین آرمی کو بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ اس طرح سے بھی کوئی فوجی افسر حملہ کرسکتا ہے۔ ہندوستان کی فوج نے پاکستان کی چوکیوں کو گھیرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج پر حملہ کردیا۔

    شیر خان کے ہمراہ ان کی دو بٹالین نے ہندوستان کی فوج سے نہ صرف اپنے 5 چوکیوں کو محفوظ بنایا بلکہ ان کی کئی چوکیوں پر بھی قبضہ کیا اور ہندوستانی فوج کو ان کے بیس کیمپ تک واپس دھکیل دیا البتہ 5 جولائی 1999 کو کرنل شیر خان کی چوکی ایک بار ہندوستانی فوج کی زد میں آئی، اس دوران وہ مشین گن کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے اور ان کی شہادت ہوگئی۔کرنل شیر خان خیبر پختونخوا سے پہلے فوجی اہلکار تھے جن کو نشان حیدر دیا گیا، شہادت کےوقت ان کی عمر 29 سال 7 ماہ تھی۔

    حوالدار لالک جان شہید

    لالک جان یکم اپریل 1967 کو گلگت بلتستان کےضلع غذر میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1984 میں پاک فوج میں 17 سالہ کی عمر میں سپاہی کی حیثیت میں شمولیت اختیار کی۔1999 میں جب کارگل جنگ کا آغاز ہوا تو وہ ناردرن لائت انفنٹری ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات تھے انہوں نے زمینی جنگ کی اطلاع ملنے پر اصرار کرکے اپنی تعیناتی جنگ کے محاذ پر کروائی۔

    7 جولائی 1999 کو شہادت سے قبل لالک جان نے اپنی پوسٹ پر 3 دن کے دوران ہونے والے ہندوستانی فوج کے 17 حملوں کو ناکام بنایا۔7 جولائی کو تین اطراف سے ہونے والے حملے میں لالک جان کو کمپنی کمانڈر کی جانب سے پوسٹ چھوڑنے کی بھی تجویز دی گئی مگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا اور ہندوستانی فوج سے مقابلہ کیا، اس دوران ان کے سینے پر مشین گن کا برسٹ لگا البتہ زخمی حالت میں بھی انہوں نے تین گھنٹوں تک مخالف فوج کا مقابلہ کیا، بعد ازاں جب پاک فوج کی نفری چوکی پر پہنچی تو ان کی شہادت ہوچکی تھی۔

    جس وقت لاک جان کی شہادت ہوئی ان کی عمر 32سال تین ماہ تھی، وہ نشان حیدر حاصل کرنے والے اب تک کے آخری فوجی اہلکار ہیں۔

    سیف اللہ جنجوعہ ( ہلالِ کشمیر)۔


    سیف اللہ جنجوعہ 1922 کو نکیلا میں پیدا ہوئے، 18 سال کی عمر میں 1940 میں پاک وہند کی تقسیم سے قبل فوج میں شمولیت حاصل کی۔1948 میں کشمیر رجمنٹ کی جانب سے لڑتے ہوئے انہوں نے مشین گن سے ہندوستان کا طیارہ مار گرایا تھا جبکہ توپ کا گولہ ان کی پوسٹ پر لگا، ان کو ہلال کشمیر سے نوازا گیا جو کہ پاکستان کے نشان حیدر کے مساوی ہے۔جس وقت نائیک سیف اللہ جنجوعہ کی شہادت ہوئی ان کی عمر 26 سال 6 ماہ تھی۔

  • ڈاکٹرعارف علوی – طلبہ سیاست سے ایوانِ صدرتک

    ڈاکٹرعارف علوی – طلبہ سیاست سے ایوانِ صدرتک

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیراعظم عمران خان کے دیرینہ رفیق ڈاکٹرعارف علوی آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے ہیں، ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے 13 ویں صدر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آج ملک کی قومی اسمبلی ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ملک کےآئندہ صدر کے لیے انتخابات کا انعقاد ہوا، ڈاکٹر عارف علوی کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزازاحسن اورمتحدہ اپوزیشن کے مولانا فضل الرحمن میدان میں تھے۔

    ڈاکٹرعارف علوی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مجموعی طورپر 212 ووٹ حاصل کیے،  پنجاب سے 186، سندھ سے 56، بلوچستان سے 45 اور خیبرپختونخواہ سے 78ووٹ حاصل کیے ، مجموعی طور پر ڈاکٹرعارف علوی نے ووٹ حاصل کیے۔

    ڈاکٹرعارف علوی – تعلیم سے صدارت تک


    ایک عرصے تک پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل رہنے والے عارف علوی کا شمار پاکستان کے ممتاز ڈینٹسٹ میں ہوتا ہے۔انھوں نے ”پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن“ کے پلیٹ فورم سے فعال کردارادا کیا۔ اِس کے صدر بھی رہے۔ ’ورلڈ ڈینٹل فیڈریشن‘ کے منتخب کونسلر بھی رہے۔ وہ اِس منصب پر فائز ہونے والے پہلے پاکستانی تھے۔

    تعلیم

    وہ اپنے زمانے کے معروف ڈینٹسٹ اور سیاست داں، ڈاکٹر الٰہی علوی کے بیٹے ہیں، جو تقسیم سے قبل یوپی کی سطح پر مسلم لیگ کے صدر تھے۔بٹوارے کے بعدیہ خاندان کراچی آگیا۔ یہیں 29 اگست 1949 کو دو بہنوں، چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے عارف علوی کی پیدایش ہوئی۔

    کراچی سے انٹر کرنے کے بعد ڈینٹل کالج لاہور کا رخ کیا۔ سنہ 1970ءمیں بی ڈی ایس کا مرحلہ طے کیا۔ 75ءمیں یونیورسٹی آف مشی گن، امریکا سے Prosthodontics میں ماسٹرز کیا۔ 1982ءمیں سان فرانسسکو سے یونیورسٹی آف پیسفک سے Orthodontics میں ماسٹرز کا مرحلہ طے کیا۔ واپس آنے کے بعد وہ والد کے کلینک میں پریکٹس کرتے رہے۔ بعد ازاں ’علوی ڈینٹل ہاسپٹل‘ کی بنیاد ڈالی۔

    سیاست کی ابتدا

    سیاست کی جانب ابتدا ہی سے رجحان تھا، مولانا مودودی اور بھٹو صاحب سے متاثر تھے۔ اسٹوڈنٹ سیاست کرتے رہے۔ ایوب خان کے خلاف چلنے والی طلبا تحریک میں بھی پیش پیش رہے۔ 7 جنوری 1977ءکو جب بھٹو صاحب نے الیکشن کا اعلان کیا، تووہ ایک بار پھر متحرک ہوگئے۔1979ءمیں جماعت اسلامی نے اُنھیں اپنا صوبائی امیدوار نام زد کیا تھا، لیکن الیکشن منعقد نہیں ہوئے۔

    دھیرے دھیرے جماعت سے دور ہوگئے۔1996ءمیں پی ٹی آئی کے قیام کے وقت زیادہ پرامید نہیں تھے، مگر عمران خان سے ملاقاتوں کے بعد اس کا حصہ بنے اور1997ءمیں تحریک انصاف، سندھ کے صدر منتخب ہوگئے۔

    سنہ 1997ءمیں وہ ڈیفنس سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کھڑے ہوئے، نومولود جماعت کو ناکامی ہوئی۔2001 میں وہ تحریک انصاف کے نائب صدر ہوگئے۔ 2007 میں سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ پارٹی کا آئین تشکیل دینے والی دس رکنی کمیٹی میں بھی شامل رہے۔

    سنہ 2013 کے انتخابات میں این اے 250سے، خاصے تنازعات کے بعد انھوں نے کامیابی حاصل کی، 2018 کے الیکشن میں کراچی کے حلقے این اے 247 سے انہوں نے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو شکست دی تھی۔