Author: فواد رضا

  • کون ہوگا ایوانِ صدر کا اگلا مکین؟

    کون ہوگا ایوانِ صدر کا اگلا مکین؟

    پاکستان میں کل صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوگا جس کے لیے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں رائے شماری ہوگی، صدر کے عہدے کے لیے پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن، تحریک انصاف کے عارف علوی اور متحدہ اپوزیشن کے امید وارمولانا فضل الرحمان میدان میں ہیں۔

    صدر پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ ہوتا ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق صدر کو ماضی میں قومی اسمبلی کوتحلیل کرنے( سپریم کورٹ کی منظوری سے مشروط)، نئے اتخابات کروانے اور وزیر اعظم کو معطل کرنے جیسے اختیارات دئے گئے ۔ ان اختیارات کو فوجی بغاوتوں اور حکومتوں کے بدلنے پر با رہا مواقع پر تبدیل اور بحال کیا گیا۔ لیکن 2010ء کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعہ پاکستان کو نیم صدراتی نظام سے دوبارہ پارلیمانی نظام، جمہوری ریاست کی جانب پلٹا گیا۔اس ترمیم کے تحت صدر کے اختیارات میں واضح کمی کی گئی اور اسے صرف رسمی حکومتی محفلوں تک محدود کیا گیا جبکہ وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔

    سنہ 1956ء میں گورنر جنرل کی جگہ صدرِ مملکت کے عہدے کا قیام عمل میں آیا ، تب سے اب تک اس عہدے پر 13 صدور فائز ہوچکے ہیں جبکہ مختصر عرصے کے لیے دو افراد نگران صدر بھی رہے ہیں۔ 1956 کے آئین میں جب اس عہدے کو تخلیق کیا گیا تو اسکندر مرزا ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ صدر کا عہدہ پانچ سال پر مبنی ہوتا ہے۔ صدر کے عہدے کی میعاد ختم ہونے پر یا ان کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینٹ یہ عہدہ سنبھالتا ہے۔

    آئیے دیکھتے ہیں کون سی شخصیت کتنے عرصے کے لیے ایوانِ صدر کی مکین رہی ہیں۔

    اسکندر مرزا


    پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا تھے ، ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا اور انہوں نے 23 مارچ 1956 کو صدرِ مملکت کا عہدہ سنبھالا ، اور 27 اکتوبر 1958 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے قبل ملک میں صدر ِمملکت کا عہد ہ موجود نہیں تھا بلکہ گورنر جنرل ان اختیارات کا حامل ہوا کرتا تھا۔

    ایوب خان


    فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے27اکتوبرسنہ 1958ء نے سویلین حکومت کو برطرف کرکے پاکستان کی قیادت سنبھالی۔ وہ 25 مارچ 1969 تک ملک کے صدرمملکت کے عہدے پر فائز رہے ، اس دوران سنہ 1962 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی ، سنہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کی قیادت بھی کی۔

    یحییٰ خان


    جنرل یحییٰ خان نے اپوزیشن کے پرزور احتجاج کے بعد مستعفی ہونے والے صدر ایوب کی جگہ 25 مارچ 1969 کو اقتدار سنبھالا ، ان کا دور سیاسی ابتلا اور کشمکش کا دور تھا ، انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب میں کشمکش جاری تھی ، سقوط ڈھاکہ کے چار دن بعد یعنی 20 دسمبر 1971 میں جنرل یحییٰ نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔

    ذوالفقارعلی بھٹو


    پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 کو منصبِ صدارت سنبھالا اور وہ 13 اگست 1973 تک اس عہدے پر فائز رہے، انہی کے دور میں پاکستان کا تیسر ا اورمتفقہ آئین تشکیل دیا گیا جس میں صدر کے بجائے وزیراعظم کے عہدے کو قوت دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صدارت سے استعفیٰ دے کر وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

    فضل الہیٰ چودھری


    فضل الہیٰ چودھری کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا اور وہ 14 ا گست 1973 سے لے کر 16 ستمبر 1978 تک صدر کے عہدے پر فائز رہے، ان کے دور میں صدرِ مملکت کا اختیار انتہائی محدود تھا۔

    جنرل ضیا الحق


    سنہ 1977 میں فوجی حکومت کے قیام کےبعد 16 ستمبر 1978 کو فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا، وہ 17 اگست 1988 تک تاحیات اس عہدے پر فائز رہے ، ان کے دور میں طاقت کا تمام تر مرکز صدر مملکت کی ذات تھی۔

    غلام اسحاق خان


    چیئرمین سینٹ غلام اسحاق خان نے 17 اگست 1988 کوفضائی حادثے میں جنرل ضیا الحق کے جاں بحق ہونے کے بعد ہنگامی حالات میں صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا ، وہ دسمبر 1988 تک بیک وقت چیئرمین سینٹ اور صدرِمملکت کی ذمہ داری نبھاتے رہے ، اور دسمبر 1988 میں چیئرمین سینٹ کا عہدہ چھوڑ کر18 جولائی 1993 تک صدر کے عہدے پر فائز رہے۔

    فاروق لغاری


    پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق لغاری نے 14 نومبر 1993 میں صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا اور 2 دسمبر سنہ 1997 تک اس عہدے پر فائز رہے ، اس دوران انہوں نے کرپشن کے الزامات کے سبب اپنی ہی پارٹی کی حکومت برطرف کردی۔

    محمد رفیق تارڑ


    پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے محمد رفیق تارڑ نے 1 جنوری 1998 میں عہدہ سنبھالا اور 20 جون 2001 تک اس عہدے پر فائز رہے ، ان کی صدارت کے دوران جنرل پرویز مشرف نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف ایمرجنسی کا نفاذ کردیا۔

    جنرل پرویز مشرف


    جنرل پرویز مشرف ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے ، 20 جون 2001 کو رفیق تارڑ کے استعفے کے بعد انہوں صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا یا اور بعد ازاں اپنے عہدے کو قانونی بنانے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد بھی کرایا۔ پرویز مشرف 18 اگست 2008 تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔

    آصف علی زرداری


    بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین کا عہدہ سنبھالنے والے آصف علی زرداری9 ستمبر2013 تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے ، ان کے دور میں آئین میں اٹھارویں ترمیم لائی گئی جس کے تحت صدرِ مملکت نے 58 ٹو بی ( اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار) جیسے اختیارات پارلیمنٹ کو سرینڈر کردیے۔

    ممنون حسین


    پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین نے 9 ستمبر 2013 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور رواں ماہ ستمبر میں ان کے عہدے کی مدت ختم ہورہی ہے ، ممنون حسین کا تعلق کراچی سے ہے اورانہیں پاکستان کی تاریخ میں ایسے صدر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے اپنا دامن سیاسی تنازعات سے دور رکھا۔

    اس کے علاوہ تین ادوار میں چیئر مین سینٹ کچھ عرصے تک صدرِ مملکت کے فرائض انجام دیتے رہے،

    یہ مواقع تب پیش آئے جب صدر نے اپنی آئینی مدت مکمل کیے بغیر استعفیٰ دیا۔

    وسیم سجاد


    صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے استعفے کے بعد چیئرمین سینٹ وسیم سجاد نے 18 جولائی 1993 میں قائم مقام صدر کےعہدے کا حلف اٹھایا اور وہ 14 نومبر 1993 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ دسمبر 1997 میں صدر فاروق لغاری کے استعفے کے سبب چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے ایک بار پھر قائم مقام صدر کے عہدے کا حلف اٹھایااور 1 جنوری 1998 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    محمد میاں سومرو


    پاکستان مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے محمد میاں سومرو نے صدر پرویز مشرف کے استعفے کے سبب صدرِ مملکت کے عہدے کاحلف اٹھایا اور وہ اس عہدے پر 9 ستمبر 2008 تک فائز رہے۔

  • زمیں کیوں کانپتی ہے، زلزلے کیوں آتے ہیں؟

    زمیں کیوں کانپتی ہے، زلزلے کیوں آتے ہیں؟

    لاہور: پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ، تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے، پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی زلزلہ محسوس کیا گیا ، ا ٓپ کی معلومات کے لئے بتاتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔

    گزرے وقتوں میں جب سائنس اورٹیکنالوجی کا وجود نہیں تھااور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوار میں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھی. کسی قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل وعریض چھپکلی زمین کواپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کی حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہے. مذہبی عقیدے کی حامل قوم کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کوزمین ہلا کر ڈراتا ہے. اسی طرح ہندودیو مالائی تصوریہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اسکے نتیجے میں زمین ہلتی ہے جبکہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کچھ ملتے جلتے تھے جن کے مطابق زمین کی تہوں میں موجود ہوا جب گرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے توزلزلے آتے ہیں۔

    لاہوراورگردونواح میں زلزلے کے شدید جھٹکے

    سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اوراس طرح ہرنئے سا نحے کے بعد اس کے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجونے پرانے نظریات کی نفی کردی ہے. یوں تو بہت سی قدرتی آفات کے ظہور پذیرہونے سے پہلے پیشگی اطلاع فراہم ہوجاتی ہواوراحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باعث کافی بڑے جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہےمثلاً سمندر میں بننے والے خطرناک طوفانوں، انکی شدت اوران کے زمین سے ٹکرانے کی مدت کا تعین سٹلائیٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے اوراس سے بچاؤ کی تدابیر بروقت اختیار کی جاسکتی ہیں مگر زلزلے کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ۔۔ایک داستان رقم کرکے جاچکا ہوتا ہے۔

    بیشک ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو زلزلے گزرنے کے بعد انکی شدت، انکے مرکزاورآفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں؛ ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں ایک وجہ زیر زمیں پلیٹوں (فالٹس) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اوردوسری آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے. زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوامادہ جسے میگما کہتے ہیں موجود ہوتا ہے .میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیداہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوت کا شکار ہوجاتی ہیں.ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دھنس جاتا ہے اورکچھ اوپرکو ابھر جاتا ہے جس سے زمیں پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے.

    زلزلے کی شدت اور دورانیہ کا انحصار میگما کی حرارت اور اس کے نتیجے میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پرمنحصر ہے اسی طرح جب آتش فشاں پھٹتے ہیں تو لاوا پوری شدت سے زمین کی گہرائیوں سے سطح زمیں کی بیرونی تہوں کو پھاڑتا ہوخارج ہوتا ہے جس سے زمیں کی اندرونی پلیٹوں میں شدید قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لہریں زیر زمین تین سے پندرہ کیلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفرکرتی ہیں اورماہیت کے حساب سے چار اقسام میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

    دو لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دو لہریں جن میں سے ایک پرائمری ویو اور دوسری سیکنڈری ویو ہے زیر زمین سفر کرتی ہیں.پرائمری لہریں آواز کی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیر زمین چٹانوں اور مائعات سے گزر جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوز کی رفتار پرائمری ویوز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور وہ صرف زیر زمین چٹانوں سے گزر سکتی ہے. سیکنڈری ویوز زمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیں مگر وہ جب چٹانوں سے گزرتی ہے توایل ویوز بنکر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اور زلزلے کا سبب بنتی ہیں. ایل ویوز جتنی شدید ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ زمین پر محسوس ہوگا۔

    زلزلے اگر زیر سمندر آتے ہیں تو انکی قوت سے پانی میں شدید طلاطم اور لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور کافی طاقتور اور اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کیلومیٹر کی رفتار سے بغیر اپنی قوت اور رفتار توڑے ہزاروں میل دور خشکی تک پہنچ کرناقابل یقین تباہی پھیلاتی ہے جس کی مثال 2004 ء کے انڈونیشیا کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی ہے جس کی لہروں نے ہندوستان اور سری لنکا جیسے دور دراز ملکوں کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی جس کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے۔

  • اردو کی کائنات میں ایک نیا ستارہ

    اردو کی کائنات میں ایک نیا ستارہ

    میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل ہوں کہ بحیثیت زبان اردو کے دامن میں بے پناہ گنجائش ہے اوراس میں وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو کسی بھی زبان کو بین الاقوامی زبان بننے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ اردو ادب پر ناقدین کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہاں موضوعات کی قلت ہے اور عموماً ناول لگے بندھے موضوعات کے گرد گھومتے ہیں۔

    ناقدین کی رائے قابلِ احترام صحیح لیکن کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی نوجوان مصنف صادقہ خان اس رائے کی نفی کرتی نظر آتی ہیں۔ پہلی بار جب انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر ایک ناول لکھا ہے تو میرے اندر موجود قاری کی تمام تر حسیات یک دم بیدا ر ہوگئیں کہ یہ ایک منفرد خیال ہے جسے شاید اردو ادب میں پہلی مرتبہ برتا جارہا ہے۔ طے یہ پایا کہ اس ناول کو اے آروائی نیوز کی اردو ویب سائٹ پر قسط وار شائع کیاجائےاور پھر یہی کیا گیا۔

    صادقہ خان اس سے قبل میری فرمائش پر سائنسی موضوعات پر مضامین تحریر کرتی رہی تھیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہےاور میرا ذاتی خیال یہ تھا کہ یہی ان کی مہارتوں کا میدان ہے تاہم جب مجھے ناول کا مسودہ موصول ہوا تو اندازہ ہوا کہ پہاڑوں میں گھرے شہر میں رہنے والی یہ نوجوان نہ صرف سائنسی موضوعات پر دسترس رکھتی ہے بلکہ ادب کو بھی عمدہ پیرائے میں قلم بند کرنااچھی طرح سے جانتی ہے۔

    دوام – کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی، جس کا مسکن پاکستان ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اس کے ملک کا نام افلاک کی رفعتوں سےبلند ہوکر خلاؤں میں لکھا اور سنا جائے اور یہی خواہش اس لڑکی کو امریکا کے خلائی تحقیقات ادارےناسا تک لے جاتی ہے۔ تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کو صرف ایک مخصوص نوعیت کے ڈرامے اور ناول پسند ہیں اور وہ ان سے باہر نکلنا نہیں چاہتیں تاہم اس ناول کو پڑھتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تنقید قطعی طور پر غلط ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہاں خواتین کو عشق ومحبت کی داستانوں سے ہٹ کر کسی تجرباتی ناول کا مرکزی کردار بنانے کی ہمت کبھی کسی مصنف نے کی ہی نہیں۔

    صادقہ خان اپنے ناول دوام میں آپ کی ملاقات’منتہا’ نام کی ایک ایسی لڑکی سے کرا رہی ہیں جس کے پاس روایتی عشق و محبت جیسے موضوع کے لیے بالکل بھی وقت نہیں ہے بلکہ وہ زندگی میں کچھ اہم مقاصد لے کر آگے بڑھ رہی ہے اور اس کا ہر قدم کامیابی کی جانب اٹھتا ہے ، مصنف آپ کو یہ بھی دکھائیں گی کس طرح پاکستان کی ایک لڑکی خلاؤں تک اپنے لیے راستے بناتی ہے۔ ناول میں ایک موڑ ایسا آتا ہے جب آپ کو لگے گا سب کچھ ختم ہوگیا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، وہ موڑ تو شروعات ہے نئی انتہاؤں کی جہاں منتہا جانا چاہتی ہے، جہاں صادقہ خان جانا چاہتی ہے اور یہ بھی چاہتی ہےکہ پاکستان کی ہر لڑکی ان رفعتوں تک پہنچے۔

    یہ ناول یقیناً اردو ادب کو ایک نئی سمت عطا کرے گا اور یقیناً اس کے بعد مزید مصنفین کو نئے تجربے کرنے کی ہمت ہوگی، یاد رکھیے ادب کی دنیا میں تجربہ ہی سب کچھ ہے۔ صرف وہی مصنف عوام میں مقبول ہوتا ہے جو روایت سے ہٹ کر تجربے کی راہ اپنائے ۔ صادقہ خان کو اس ناول کی اشاعت کے لیے ڈھیروں مبارک باد اور ناول کی کامیابی کے لیے نیک تمنائیں۔

  • حج اورعید الاضحیٰ- حضرت ابراہیم ؑ کے گھرانے کی یادگار

    حج اورعید الاضحیٰ- حضرت ابراہیم ؑ کے گھرانے کی یادگار

    فریضہ حج امتِ مسلمہ کے بنیادی اور انتہائی اہم فرائض میں سے ایک ہے اور اس کی تکمیل عید الاضحیٰ پر ہوتی ہے، حج کی ابتدا سے قربانی تک ہر رکن خلیل اللہ حضرت ابراہم علیہ السلام اور ان کے گھرانے کے کسی نہ کسی عمل کی پیروی کا نام ہے۔

    ‘عیدالاضحی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی ایک نہایت مخلصانہ عبادت کی یادگار ہے۔ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلواة والسلام کے اعمالِ حیات اور وقائع زندگی کو ایک خاص عظمت وشرف اور اہمیت دی گئی ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی دعوت کو ملت ِابراہیمی اور دین حنیفی کے مترادف قرار دیا ہے: {ملة أبیکم إبراہیم} ”یہ ملت تمہارے باپ ابراہیم ہی کی ہے۔” اور دوسری جگہ فرمایا:

    ”کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے ربّ نے سیدھا راستہ دکھایا ہے کہ وہی ٹھیک دین ہے۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ کہ وہ ایک ہی خدا کے ہورہے تھے۔”

    خانہِ کعبہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام سے آج تک

    اور اسی لئے حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو ‘اُسوۂ حسنہ’ کے طور پرقرآن کریم میں پیش کیا تاکہ ان کے اعمالِ حیات ہمیشہ کیلئے محفوظ رہیں اور اُمت مسلمہ ان کی اقتدا کرتی رہے۔

    صفاومرویٰ کی سعی


    حضرت اسماعیل علیہ السلام انتہائی محبوب اور چہیتے تھے۔ ابھی دودھ پینے کی ہی عمر تھی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیوی ہاجرہ اور شیر خواربچہ اسماعیل کو حجاز مقدس کی بے آب وگیاہ سرزمین پر لے آئے جہاں پینے کیلئے پانی تک کا نام و نشان نہ تھا ۔ یہاں وہ ان دونوں ماں بیٹے کو چھوڑ کر جانے لگے تو بیوی نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔

    کچھ ہی عرصہ بعد جب کھا نا پانی ختم ہوگیا اور بچہ پیاس کی شدت سے رونے لگا تو ماں بے باتاب ہوگئی اور اضطراب و بے چینی کے عالم میں صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی پہاڑی کی طرف دوڑنے لگیں کہ شاید کہیں کوئی چشمہ یا کوئی قافلہ نظر آجائے جس سے پانی طلب کیا جاسکے ۔ اسی دوڑنے کو اللہ نے سعی کا نام دیا اور اسے حاجیوں پر لازم قرار دیا۔

    خانہ کعبہ کی تصویر پیش کرتا قرآن کا قدیم نسخہ

    زم زم


    حضرت ہاجرہ علیہ السلام اسی تگ و دو میں تھیں کہ دیکھا کہ عرب کی تپتی زمین پر جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لٹا کر گئی تھیں وہاں پیاس کی شدت سے ان کے ایڑیاں رگڑنے پر ایک چشمہ نمودار ہوا، یہ وہی چشمہ زمزم ہے جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی دنیا جہاں کو سیراب کررہا ہے اور بیت اللہ کے زائرین کے لیے سب سے اہم تبرک کا درجہ بھی رکھتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ اس پانی میں شفا ہی شفا ہے اور سوائے موت کی سختی کے ہر مرض کا علاج اسی پانی سے ممکن ہے۔

    قربانی


    کچھ مدت بعد جب اسماعیل چلنے پھرنے لگے اور دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچے تو ابوالنبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھا ، انبیاء کا خواب وحی کے حکم میں ہوتا ہے ۔ وہ منشائے الٰہی سمجھ گئے ۔بلا تامل بیٹے کو اللہ کے نام پر قربان کرنے کیلئے فلسطین سے مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے۔ بیٹے کو ذبح کرنا تو کیا اس کا تصور کرنا بھی آسان نہیں لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم الٰہی کی تعمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بیٹا بھی برضا و رغبت تیار ہوگیا اور باپ کو صبر و استقامت کا پیغام سنایا ۔ آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیٹے کی گردن پر چھری پھیردی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کو ذبح ہونے سے بچا لیا ،ان کے عوض مینڈھا بھیج کرچھری کو حکم دیا کہ اسے ذبح کردیا جائے۔

    قرآن میں اللہ سورہ صافات میں اس واقعے کو کچھ یوں بتاتا ہے۔

    وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ (107)۔

    اور ہم نے اسے ذبح عظیم (عظیم قربانی )سے تبدیل کردیا۔

     

    کچھ مورخین کے نزدیک اس کا مطلب دنیا بھر میں ہر سال ہونے والی قربانیاں ہیں ، کچھ کے نزدیک یہ آیت رسول اللہ کے نواسے حضرت حسین ؓ کی شان میں اتری ہے، جو کربلا کے میدان میں قتل کیے گئے تھے۔

    شیطان کو کنکریاں مارنا


    جب آپؑ بیٹے کو قربانی کرنے کیلئے ا نہیں ساتھ لے چلے تو راستے میں 3مقامات پر شیطان نے آپؑ کو ورغلایا اور حکم الٰہی کی تعمیل سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ان جگہوں پر آپ ؑنے شیطان کو 7،7کنکریاں ماریں۔ اللہ نے اسے دین اسلام کی اہم ترین عبادت حج کا رکن قراردے کر نہ صرف یہ کہ سیدنا ابراہیم ؑکے تذکرہ اور ان واقعات کو باقی رکھا بلکہ اسے باطن کی صفائی ، قلوب کے تزکیہ اور قرب الٰہی کا ذریعہ بنا دیا ۔

    بیت اللہ کی تعمیر


    ابھی قربانی کے واقعے کو کچھ مدت ہی گزری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا۔حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام ذوق و شوق سے کعبہ کی دیواریں اٹھاتے اور ساتھ ہی خلوص وعقیدت سے دعا کرتے جاتے تھے کہ اے اللہ !ہماری یہ خدمت قبول فرما اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا(البقرہ 127) ۔

    جب کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ لوگوں میں اس گھر کی زیارت ( حج کرنے) کا اعلان کردو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار!اس ویرانے سے باہر آبادیوں تک میری آواز کیسے پہنچے گی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کے’’ اعلان کرنا تمہارا کام ہے اور اسے لوگوں تک پہنچانا ہمارا کام ہے‘‘۔

    چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے پہاڑی پر چڑھ کر آواز لگائی اور لوگوں کواللہ کے گھر کی زیارت کا حکم دیا اور اللہ نے نہ صرف دنیا میں اس وقت موجود لوگوں تک یہ اعلان پہنچایا بلکہ عالم اروا ح میں قیامت تک دنیا میں آنے والی روحوں نے بھی یہ اعلان سنا اور جس کی قسمت میں حج کی سعادت مقدر تھی اس نے لبیک کہا۔حج کا تلبیہ’ لبیک اللھم لبیک‘ دراصل اسی ندائے ابراہیمی کا جواب ہے جو دنیا بھر کے صاحبِ استطاعت مسلمان اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہر سال ادا کرتے ہیں۔

  • عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب

    عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان کے انتخاب کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ، تحریک انصاف ک سربراہ عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔

    تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے ووٹنگ میں 176 ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف نے  96 ووٹ حاصل کیے۔


    لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ


     شام 5:38: عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب ہوگئے

    شام 5:30: وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل ختم ہوگیا، ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔

    شام 5:07:  شہباز شریف کی آخری لمحات میں پیپلز پارٹی کو منانے کی کوشش، بلاول بھٹو کی نشست پر گئے اور ووٹنگ میں حصہ لینے کی درخواست کی، لیگی رہنما بھی ساتھ موجود تھے، پیپلز پارٹی اپنے فیصلے پر برقرار

    شام 4:57:  ممبران رجسٹر میں اپنے نام کا اندراج کرکے دائیں اور بائیں پولنگ کے لیے مختص کی گئی  لابیوں میں جارہے ہیں ، دائیں ہاتھ والی لابی میں عمران خان کے حق میں ووٹنگ ہوگی اور بائیں ہاتھ کی لابی میں شہباز شریف کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے۔

    پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکانِ اسمبلی پولنگ کے عمل میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔

    شام 4:51: اسپیکر نے وزارتِ عظمیٰ کے امیداروں کےنام کا اعلان کیا، تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان اور مسلم لیگ ن کی جانب سے شہباز شریف میدان میں ہیں، ایوان کو ووٹنگ کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

    شام 4:41 : اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کے ارکان کو وزیراعظم کے انتخاب کے لیے رائے دہی کے لیے مروجہ طریقہ کار سے آگاہ کیا، اور اس کے اصول و ضوابط بیان کیے۔

    شام 4:35: اسپیکر اسد قیصر نے گیلری میں موجود مہمانوں سے گزارش کی کہ نعرے بازی سے گریز کیا جائے ، اور گیلری کے راستے خالی کیے جائیں۔

    شام 4:26: اسپیکر اسد قیصر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ، ان کے آتے ہی تلاوت سے اجلاس کا آغاز ہوگیا

     سہ پہر3:39: تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف، اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے

     

    پاکستان کے وزرائے اعظم


    قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے رفیق نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیر اعظم نامزد کیا جنہوں نے 15اگست 1947 ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ انہیں 16اکتوبر1951ء کو اس وقت کے کمپنی باغ اور آج کے لیاقت باغ راولپنڈی میں قاتل سید اکبرعلی نے گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

    ان کے بعد پاکستان کا دوسرا وزراعظم خواجہ ناظم ا لدین کو بنایا گیا جو اس وقت قائد کی وفات 1948ء کے باعث ان کے خالی ہونے والی نشست پر 14ستمبر1948ء کو بحثیت گورنر جنرل پاکستان مقرر ہوئے او رنوبزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 19 اکتوبر1951ء کو ملک کے دوسرے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ ان کی نرم دلی کے باعث حکومت کو بہت سے مشکل مسائل سے دوچار ہونا پڑا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد نے 17اپریل1953ء کو ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا۔

    ان کی جگہ محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کر دیا جنہوں نے 18اپریل1953ء کو حلف اٹھایا۔ ان کا تمام عرصہ گورنر جنرل کے زیر سایہ اطاعت میں گزرا۔ وہ ایک ایسی حکومت تھی جس میں کوئی اسمبلی ہی نہیں تھی۔ ان کے دور میں ہی نئی دستور ساز اسمبلی تشکیل پائی۔ اسمبلی منتحب ہونے پر وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نئی کابینہ بنانے میں ناکام ہونے پر 11اگست1955ء میں مجبوراً مستعفی ہو گئے۔

    پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر چوہدری محمد علی نے 11اگست کو ہی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور 12ستمبر1956ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے ہی دور میں مارچ 1956ء کو پاکستان کا پہلا آئین بنایا گیا۔ انہوں نے حکومت سے اختلافات کے باعث 8ستمبر کو استعفیٰ دے دیا۔

    ان کے بعد پانچویں وزیر اعظم کی حیثیت سے سید حسین شہید سہر وردی کو گورنر جنرل اسکندر مرزا نے نامزد کیا۔ انہوں نے 12ستمبر1956ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا لیکن گورنر جنرل اسکندر مرزا سے اختلافات اور ان کی بے ایمانی کے باعث کیونکہ اس نے 24اکتوبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی بجائے اسمبلی توڑ دی اور یوں ان کا دور ختم ہوا۔

    پاکستان کے چھٹے وزیر اعظم کے طور پر اسماعیل ابراہیم چندریگر نے 18اکتوبر کو حلف اٹھایا وہ حکومتی جماعت سے اختلاف کے باعث گیارہ دسمبر1957 ء کو از خود مستعفی ہو گئے۔

    ان کے بعد 16 دسمبر1957 ء کو ملک فیروز خان نون نے ساتویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا۔ اسکند ر مرزا سے اختلافات شدید ہونے کے باعث ملک میں پارلیمانی نظام کو ختم کرتے ہوئے ملک فیروز خان نون کی حکومت ختم کرکے 8 اکتوبر کو ملک میں مارشل لانافذ کر دیا اور 1956 ء کا آئین منسوخ کر دیا۔ اس طرح وہ پاکستان کے پہلے پارلیمانی دور کے آخری وزیر اعظم بھی تھے۔

    آٹھ اکتوبر کو جنرل محمد ایوب خان جو اس وقت افواج پاکستان کے سربراہ تھے نے چیف ماشل لا ایڈمنسٹریٹر اور حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ سربراہ مملکت کے طور پر اسکندر مرزا کو برقرار رہنے دیا۔ 24اکتوبر کو اسکندر مرزا نے جنرل محمد ایوب خان کو با ضابطہ طور پر پاکستان کا آٹھواں وزیر اعظم نامزد کر دیا ان کا یہ عہدہ 2نومبر 1958تک برقرار رہا۔ 2نومبر1958ء کو اسکندر مرزا کو جبراً ملک بدر کر دیا گیا اور ایوب خان نے صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا جو 25مارچ1969ء تک برقرار رہا۔ عوامی دباؤ اور احتجاج کے باعث انہوں نے مجبوراً عہدہ چھوڑ دیا۔ ان کی جگہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد یحیٰ خان نے لے لی اور نورالامین کو7دسمبر1971ء کو پاکستان کا نواں وزیر اعظم نامزد کیا گیا۔

    قومی اسمبلی کے انتخابات دسمبر1970 میں مکمل ہو چکے تھے، اس کے باوجود جنرل یحیےٰ خان نے اقتدار منتقل نہیں کیا۔ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ جس کے باعث 16دسمبر1971کو پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اس طرح نورالامین 7دسمبر سے 22دسمبر تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ صرف چودہ دن ان کی وزارت قائم رہ سکی۔

    اس کے بعد پاکستان کے دسویں وزیراعظم کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے 21دسمبر کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا اور ان کے ہی نامزد کردہ سربراہ افواج پاکستان ضیاء الحق 4اور 5جولائی1977ء کی درمیانی شب بھٹو حکومت کو ختم کرکے ملک میں ایک بار پھر ماشل لا نا فذ کر دیا اور نوے دن میں الیکشن کرانے کے اعلان کے باوجود ضیاالحق نے انتخابات مقررہ وقت پر نہ کرائے ۔

    سنہ 1985 ء میں غیر جماعتی الیکشن کرائے گئے جس کے بعد رکن قومی اسمبلی محمد خان جونیجو سے30مارچ1985ء کو بحثیت وزیر اعظم حلف لیا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے29مارچ1988ء کو نہ صرف محمد خان جونیجو کو برطرف کر دیا بلکہ تمام اسمبلیاں بھی توڑ دیں۔

    پاکستان کے بارہویں وزیر اعظم کی حیثیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2دسمبر1988ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔6اگست 1990ء کواس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم بے نظیر پر بدعنوانی اور کرپشن کے شدید الزامات عائد کرکے نہ صرف انہیں بلکہ قومی و صوبائی اسمبلیاں بھی برخاست کر دیں۔

    ان کے بعد میاں محمد نواز شریف نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باعث بطور وزیر اعظم2نومبر 1990ء کو پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا جو ان سے صدر غلام اسحاق خان نے لیا۔ میاں محمد نواز شریف کا پہلا دور حکومت اسحاق خان سے اختلافات کے باعث ان کی برطرفی پر 17اپریل1993ء کو اختتام پذیر ہوا۔

    سنہ 1993 انتخابات میں محترمہ بے نطیر بھٹو کے منتخب ہونے کے باعث19اکتوبر کو اقتدار محترمہ کو منتقل کر دیا۔ اس طرح بے نظیر بھٹو نے ایک بار پھر پاکستان کی 17 وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا لیکن خود ان کی پارٹی کے صدر فاروق احمد لغاری نے بد عنوانی اور کرپشن کے شدید الزامات لگا کر ان کی مدت پوری ہونے سے بہت پہلے انہیں اور ان کے ساتھ پارلیمنٹ کو بھی رخصت کر دیا ۔

    سنہ 1997 میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو دوسری مدت کیلئے سونپ کر رخصت ہوئے لیکن اکتوبر1999 ء میں میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف میں ہونے والے اختلافات نے انہیں اقتدار سے محروم کر دیا اور انہیں جبری طور پر حکومت سے نکال دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے الیکشن کراکر پارلیمنٹ تشکیل دی۔

    سنہ 2002 میں وزیراعظم ظفراﷲ جمالی کے نام وزارت عظمیٰ کا قرعہ فال نکلا تاہم جلد ہی مسلم لیگ کی قیادت سے اختلاف کے باعث انہیں ہٹا کرمسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے مختصر مدت کے لیے وزیراعظم کے طور پرحلف لیا ۔

    ا سکے بعد شوکت عزیز نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا اور ساڑھے تین سال اقتدار میں رہنے اور اپنی مدت جو پارلیمنٹ سے مشروط تھی پوری ہونے پر رخصت ہوئے۔

    سنہ 2208 کے انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی 25مارچ2008ء سے 2012ء تک آئینی وزیر اعظم رہے۔ ان کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں جون2012ء میں نااہل قرار دیا جس کے بعد وہ عہدے پر برقرار نہ رہے۔

    گیلانی کی برطرفی سے اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوئیں اور ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے جو22جون2012ء سے2013ء تک اس عہدہ پر رہے۔

    نواز شریف وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تین بار وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کی تا ہم تینوں بار وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔تیسری بار وہ 5جون 2013ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔سپریم کورٹ نے پانامہ لیک اسکینڈل کیس میں انہیں62اور63کے تحت 28جولائی کو نااہل قرار دیا۔

    نواز شریف کی نا اہلی کے بعد قومی اسمبلی نے شاہد خاقان عباسی کو28ویں وزیراعظم کے طور پر یکم اگست2017ء کومنتخب کیا جو کہ اپنے عہدے کی مدت 31 مئی 2018 کو ختم کرکے رخصت ہوگئے۔

    نگراں وزرائے اعظم


    اس تمام عرصے میں حکومتوں کے خاتمے پر نگراں حکومتیں قائم ہوتی رہیں جن کی نگرانی کے لیے نگراں وزیر اعظم کا انتخاب کیا جاتا رہا ہے، اس عہدے پر سب سے پہلے غلام مصطفیٰ جتوئی فائز ہوئے ، اس کے بعد بلخ شیر مزاری، معین الدین قریشی، معراج خالد، محمد میاں سومرو، میر ہزار خان کھوسو، اور ناصر الملک بالترتیب فائز رہے۔

    نگراں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کا کام صرف یہ ہوتا تھا کہ ایک حکومت سے دوسری حکومت تک انتقالِ اقتدار کے عرصے میں ملک کا نظم و نسق سنبھالے رکھا جائے اور بروقت انتخابات کا انعقاف ممکن بنایا جائے۔

  • سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق طیارہ حادثے کو 30 برس بیت گئے

    سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق طیارہ حادثے کو 30 برس بیت گئے

    آج پاکستان کے سابق فوجی آمراورچھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق کی 30 ویں برسی ہے،وہ 17 اگست 1988 میں طیارہ حادثے میں انتقال کرگئے تھے، انہوں نے  فوج کے سربراہ کی حیثیت سے 1977ء میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں ، وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کے لیے ایک معمہ ہے۔ وہ تادمِ مرگ، سپاہ سالار اورصدارت، دونوں عہدوں پر فائزرہے ہیں۔

    سابق صدرمملکت اورسابق چیف آف آرمی سٹاف، اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سن 1945ء میں فوج میں کمیشن ملا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں اور آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹرمقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولری رجمنٹ کی قیادت کی۔

    انہوں نے اردن کی شاہی افواج میں بھی خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں انہیں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اورپھربریگیڈیر بنادیا گیا۔ 1973 میں میجرجنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرترقی دے کرکورکمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پرترقی پاکرپاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    سنہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اورذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابترہوگئی۔ پیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا،تاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اورمارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے5 جولائی 1977 کو منتخب حکومت پر’آپریشن فیئر پلے‘کے نام سے شب خون مارکراقتدارپرقبضہ کرلیا۔

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف اور صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ 90 دن بھی طوالت پا کر11سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شدید مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو گرفتارکرلیاگیا اوران پرنواب احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائیکورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

    آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ،ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اورباربارالیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں انہوں نے اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔

    فروری 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پرآٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پرنااہلی اوربدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پرپانی پھرگیا ہے۔

    جنرل ضیا کے دورمیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے‘ جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاِسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیارکرکے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج ان کی موت کے ستائیس سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اورمنشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑرہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اورامریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے اور ان کی گیارہ سالہ آمریت کا باب بند ہوگیا۔

  • یومِ آزادی ۔ زندہ دلانِ لاہورکہاں جشن منائیں گے؟

    یومِ آزادی ۔ زندہ دلانِ لاہورکہاں جشن منائیں گے؟

     یومِ آزادی کا جشن ہرپاکستانی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے‘ اوربات اگر زندہ دلانِ لاہورکی ہو تو اس جشن کا رنگ اور بھی گہرا ہوتا ہے‘ اسی لیے ہم بتارہے ہیں آپ کو لاہور کے وہ خاص مقامات جہاں 14 اگست کے دن جانا کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔

    یوں تو لاہور کے متوالوں کے لیے مال روڈ‘ گریٹر اقبال پارک اور واہگہ کوئی نئی چیزیں نہیں ہیں لیکن یومِ آزادی کی مناسبت سے ان تاریخی جگہوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

    اگر آپ جشنِ آزادی منانے کے کے لیے گھر سے باہر نکل رہے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک جگہ تو یقیناً آپ کے ذوق کے عین مطابق ہوگی جہاں جاکر آپ اپنی خوشی سے آزادی کے اس حسین دن کا جشن مناسکیں گے۔

    سوچ کیا رہے ہیں جشن آزادی کا دن گھر میں بیٹھ کر گزارنے کے لیے نہیں ہے ‘ مندرجہ ذیل میں سے اپنی پسند کی جگہ منتخب کیجئے اور ہمیں بھی کمنٹ میں بتائیں کہ آپ آزادی کا جشن کہاں منارہے ہیں۔


     یومِ آزادی – کراچی کے 14 تاریخی مقامات کی سیر کریں


    مزارِاقبال


    لاہور کے قلب میں بادشاہی مسجد اور قلعے کے درمیان واقع حضوری باغ میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اپنی آخری آرام گاہ میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ اس سادہ لیکن پروقار عمارت کاطرز ِتعمیر افغان اور مورش طرز تعمیر سے متاثر ہے اور اسے مکمل طور پر لال پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔

    یوم ِ آزادی پر یہاں گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد ہوتی ہے جس کے بعد ہزاروں لوگ شاعر اور فلسفی علامہ محمد اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔

    مینارِ پاکستان


    ماضی میں منٹو پارک کہلانے والاوسیع و عریض پارک کے عین وسط میں قراردادِ پاکستان کی یادگار کا درجہ رکھنے والا ’مینارپاکستان‘ ایوب دور میں تعمیر کیا گیا۔ اس وقت سے اسے اقبال پارک کہا جانے لگا‘ اب اسے اور بادشاہی مسجد اور قلعے کو ملا کر ’گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا ہے۔

    مینارِ پاکستان کا ڈیزائن ترک ماہر ِتعمیرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا اور 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔

    یہ 18 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے اور مینار کے اوپر جانے کے لیے 324 سیڑھیاں ہیں جبکہ اس کے علاوہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔

    مینار کا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشہابہت رکھتا ہے۔ اس کی سنگ ِمرمر کی دیواروں پر قرآن کی آیات، قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے اقوال اور پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ کندہ ہے۔ اس کے علاوہ قراردادِ پاکستان کا مکمل متن بھی اردو اور بنگالی دونوں زبانوں میں اس کی دیواروں پر کندہ کیا گیا ہے۔

    قلعہ لاہور


    قلعۂ لاہور شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ اس عظیم قلعے کی تاریخ زمانۂ قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ نوتعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605ء-1556ء) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی اس کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔

    یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل‘ عالمگیری دروازہ‘ نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔سنہ 1981 ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

    یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعۂ لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکی ہیں‘ شاید ہمیشہ کے لئے۔ تاہم محکمٔہ آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1025ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔

    independence day

    مرقدِ حفیظ جالندھری


    پاکستان کے قومی ترانہ اور شاہنامہ اسلام کے خالق حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982ء کو لاہور پاکستان میں 82 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودہ خاک ہیں۔

    حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔

    واہگہ بارڈر


    لاہور سے 24 کلو میٹر اور بھارتی شہر امرتسر سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع واہگہ نامی گاؤں پر پاکستان اور ہندوستان کا مشہور واہگہ بارڈر قائم ہے‘ جی ٹی روڈ پر واقع یہ بارڈر اپنی مشہور ِ زمانہ پرچم کشائی کی تقریب کے سبب ایک ثقافتی مرکز کی اہمیت اختیا ر کرگیا ہے۔ خصوصاً قومی تہواروں کے موقع پر یہاں ہونے والی تقریب میں شریک عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔

    independence day

    قائد اعظم لائبریری ( باغ جناح )۔


    باغ ِجناح لاہور کے خوشگوار ماحول میں قائم قائد اعظم لائبریری ہمارے شاندار ماضی، تاریخی ورثے اور درخشاں روایت کی عکاسی کرتا ہے۔ صوبہ پنجاب کے اعلیٰ ترین اداروں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی ذہنی نشوونما میں یہ کتب خانہ اہم کردار اداکر رہا ہے۔ وطن عزیز کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین اپنے تحقیقی و تکنیکی منصوبہ جات کی تکمیل کے لیے اس کتب خانے کے وسائل سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔

    کتب خانے کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر مختلف تعلیمی اداروں کے وفود بھی اکثر کتب خانے کا مطالعاتی دورہ کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ کتب خانہ ایک تعلیمی، تفریحی اور ثقافتی مرکز کا روپ دھار چکا ہے۔

    کتب خانے میں اس وقت انگریزی، اردو، فارسی اور عربی کی ایک لاکھ بیس ہزار معیاری کتب موجود ہیں اور تقریباً سالانہ اڑھائی ہزار نئی کتب کا اضافہ ہو رہا ہے۔ علم دوست شخصیات کے لیے یومِ آزادی قائد اعظم لائبریری میں گزارنے سے بہتر کوئی مصرف نہیں ہوسکتا۔

    independence day

    جاوید منزل (اقبال میوزیم)۔


    شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اپنی ساری زندگی میں محض ایک گھر قائم کرپائے جس کا نام انہوں نے جاوید منزل رکھا‘ اور ا ن کی اہلیہ نے یہ گھر اپنے بیٹے جاوید اقبال کے نام حبہ کردیا تھا۔ علامہ اقبال نے یہ جگہ 25,025 روپے میں خریدی اور کل 16,000 ہزار روپے کی لاگت سے اس پر جاوید منزل نامی کوٹھی تیار کی۔

    علامہ اقبال کو اس گھر میں منتقل ہوتے ہی پہلا اور شدید صدمہ اپنی اہلیہ کی وفات کا لگا اور خود وہ بھی 1938ء میں اسی مکان میں انتقال کرگئے۔ ان کے وصال کے 38 سال بعد بھی ان کا خانوادہ اسی مکان میں رہائش پذیر رہا۔

    اگست 1961 ء میں آثارِ قدیمہ نے علامہ محمد اقبال کی سابقہ رہائش گاہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کو حاصل کر اس کی بھی تزئین و آرائش کی۔یہ دو کنال کے رقبے پر محیط عمارت جو کہ میکلوڈ روڈ پر رتن سینمے کے ساتھ ہی واقع ہے ۔اس یادگار کی بوسیدہ چھتوں کو نکال کر دوبارہ لگایا گیا ۔عمارت تو تیار ہو گئی لیکن میوزیم نہ بن سکا ۔یہاں ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کر دی ۔

    independence day

    لاہور میوزیم


    لاہور میوزیم 1894ء میں تعمیر کیا گیا جو جنوبی ایشیاء کے چند اہم ترین تاریخ کے مراکز میں سے ایک ہے۔ لاہور میوزیم کو مرکزی میوزیم بھی کہا جاتا ہے اور یہ لاہور کی معروف شاہراہ مال روڈ لاہور پر واقع ہے۔

    یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس میوزیم میں مغل اور سکھوں کے دور کی نوادرات ہیں، جس میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے اور دوسرے نوادرات جو مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔

    اس میوزیم میں چند آلات موسیقی بھی رکھے گئے ہیں، اس کے علاوہ قدیم زیورات، کپڑا، برتن اور جنگ و جدل کا ساز و سامان شامل ہیں۔ یہاں قدیم ریاستوں کی یادگاریں بھی ہیں جو سندھ طاس تہذیب کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بدھا دور کی یادگاریں بھی ہیں۔

    سارا سال یہاں مختلف قسم کی تقریبات جاری رہتی ہیں لیکن یومِ آزادی کے موقع پر یہاں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں کثیر تعداد میں شہری شرکت کرتے ہیں۔

    independence day

    ایوانِ اقبال


    وزارتِ اطلاعات و نشریات اور قومی ورثہ کے تحت ایوانِ اقبال کے نام سے تعمیر کردہ یہ عمارت ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے۔

    یہاں پر دیگر تقریبات کے ساتھ پاکستان کے ہر اہم قومی دن پرتحریکِ پاکستان اور علامہ اقبال کے کردار کے حوالے سے تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں عوام کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔

    لاہور کے ایجرٹن روڈ پر واقع یہ ایوان ایک وسیع و عریض کنونشن ہال‘ تین دیگر عمارات‘ میٹنگ رومز‘ بینکوئٹ ہال اور علامہ اقبال کی تصویروں سے مزین تین گیلریز پر مشتمل ہے ۔ اس کا افتتاح سن 1989ء میں کیا گیا تھا۔

    independence day

     

  • کراچی کے نوجوان شجرکاری کے لیے مشینری استعمال کرنے لگے

    کراچی کے نوجوان شجرکاری کے لیے مشینری استعمال کرنے لگے

    کراچی: شہر قائد کے نوجوانوں نے شہر کو سرسبز و شاداب بنانے کے لیےاپنی مدد آپ کے تحت جدید مشینری کا استعمال شروع کردیا ہے، مشینری کے استعمال سے پودے لگانے پر صرف ہونے والے وقت اور لاگت دونوں کی بچت ہوگی۔

    تفصیلات کےمطابق اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت کراچی کے نوجوانوں کی ایک تنظیم ’امیدبہار‘ شہر کے مختلف علاقوں میں مقامی درخت لگارہی اور ان کی باقاعدہ دیکھ بھال بھی کررہی ہے اور اب اس مقصد کے لیے وہ مشینری بھی استعمال کررہے ہیں۔

    شہر قائد کے ان نوجوانوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ انہوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں اپنے ہم خیال لوگوں کی ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جو کہ ہر اتوار کو شجر کاری کرتی ہیں۔ تاہم یہ نوجوان پودے لگا کر انہیں یونہی نہیں چھوڑدیتے بلکہ جہاں بھی یہ شجر کاری کرتے ہیں ، اس سے پہلے وہاں باقاعدہ کسی شخص یا ادارے کو اس پودے کی دیکھ بھال اور پانی فراہم کرنے کی ذمہ داری تفویض کرتے ہیں۔

    شجر کاری میں سب سے مشکل کام زمین میں گڑھا کرنا ہوتا ہے جس کے لیے عموماً کسی مزدور کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور اس میں وقت بھی صرف ہوتا ہے، تاہم ان نوجوانوں کی مشکل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مخیر شخص نے انہیں لاہور سے ایک مشین منگوا کر دی ہے جس سے گڑھا کرنا منٹوں کی بات ہوگئی ہے۔

    کراچی کے یہ نوجوان اب تک عائشہ منزل، کنیز فاطمہ سوسائٹی اور دیگر علاقوں میں 400 سے زائد مختلف اقسام کے پودے لگا چکے ہیں جن میں نیم، پیپل، مورنگا، کنیر ،فارس بیلیا وغیرہ شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سب پودوں کا کوئی نہ کوئی شخص ذمہ دار ہے ، لہذا یہ پودے بخوبی پروان چڑھ رہے ہیں۔

    یہ نوجوان پر امید ہیں کہ ایک دن ان کے لگائے یہ درخت نہ صرف انسانوں کو سایہ اور آکسیجن فراہم کریں گے بلکہ ماضی میں ہیٹ اسٹروک کا شکار بننے والے کراچی شہر کو درپیش موسمیاتی چیلنجز پرقابو پانے میں بھی مدد دیں گے، ان کا ارادہ ہے کہ مستقبل میں یہ اور جدید مشینری حاصل کرکے اپنے کام کی رفتار کو بڑھائیں۔

  • پاکستان کے جمہوری نظام کی 5 کمزوریاں

    پاکستان کے جمہوری نظام کی 5 کمزوریاں

    جمہوریت ایک جدید طرزِ حکومت ہے جس میں عوام کی حکومت ، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے چلائی جاتی ہے، پاکستان میں چند دن بعد عام انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے جس میں پاکستان کے عوام اپنے لیے حکمرانوں کا تعین کریں گے۔

    آج کی دنیا میں جب کے وسیع و عریض مملکتیں قائم ہیں، ایسے میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی ہے۔

    اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی جہاں ہر شخص کے مجلسِ قانون ساز میں حاضر ہونے کی بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں۔ جو ووٹروں کی جانب سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔

    جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکینِ مملکت کا انتخاب صحیح ہو۔

    پاکستانی جمہوریت کے کچھ کمزور پہلو


    پاکستان میں 1970 کے انتخابات میں پہلی بار عام آدمی کو براہ راست ووٹ دے کر اپنے نمائندے چننے کا اختیار ملا ، 1973 میں یہ طریقہ کار آئین کا حصہ بن گیا تاہم ابھی بھی اس نظام میں کچھ کمزوریاں ہیں ، جن کے سبب پاکستان کا عوام شہری آج بھی جمہوری ثمرات سے اس طرح بہرہ مند نہیں ہوپارہا ہے، جیسا کہ دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں کے شہری ہوتے ہیں۔

    ووٹ کس کو دیں؟

    پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ آج تک یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ انہیں ووٹ منشور اور کاکردگی کی بنیاد پر دینا ہے اور ناقص کاکردگی دکھانے والے کو آئندہ انتخابات میں رد کرنا ہے، آج بھی یہاں ذات برادری ، قبیلہ ، فرقہ اور زبان کے نام پر لوگ ووٹ مانگتے ہیں اور عوام میں سے بہت سے ان کھوکھلے نعروں پر ووٹ دے کر ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ میں پہنچادیتے ہیں جو کہ کارکردگی کی بنا پر کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتے۔

    پارٹیوں کی اجارہ داری

    پاکستان کیونکہ ایک بڑا ملک ہے اس لیے یہاں ناممکن ہے کہ کوئی آزاد امید وار، از خود وزیراعظم بن سکے ، یہاں سیاسی جماعتیں کثیر تعداد میں نشستیں حاصل کرتی ہیں اور اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ایسے آزاد امیدوار جو الیکشن میں فاتح رہے ہوں ،ا نہیں اپنی جماعت میں شمولیت کی ترغیب دیتی ہیں۔ ایسے حالات میں آزاد امیدوار پارٹی منشور کےبجائے آفر کو ترجیح دیتا ہے اور بالخصوص حکمران جماعت کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔

    ہارنے والے کے ووٹ

    پاکستانی جمہوری نظام میں زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت ہی عموماً حکومت تشکیل کرتی ہے ، انتخابی معرکے میں اکثر اوقات فاتح امید وار چند سو یا چند ہزار ووڑ کے مارجن سے جیت جاتا ہےاور وہ تمام افراد جنہوں نے ہارنے والے امید واروں کو ووٹ دیے تھے ان کی آواز پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ پاتی، اس کا ایک حل یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ نشستوں کی تقسیم فاتح امیدواروں کےبجائےپورے ملک سے حاصل کردہ کل ووٹوں کی بنیاد پر کی جائے، تاہم اس کے لیے آئین سازی اور پورے ملک سے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔

    ممبران کے فنڈ

    کسی بھی ملک میں پارلیمان کے ممبران کا بنیادی کام قانون سازی ہے ، یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے قانون بنائےا ور انہیں نافذ کرائے ۔ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لیے ترقیاتی فنڈ مختص ہیں ، جو کہ حلقے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ فنڈز جہاں ایک جانب ممبران کی توجہ پارلیمانی امور سے ہٹاتے ہیں ، وہیں اس پیسے کے سبب بہت سے ایسے افراد بھی انتخابی عمل کا حصہ بن جاتے ہیں جن کا مقصد محض فنڈزا ور عہدوں کا حصول اور ان میں کرپشن کرنا ہے ، ان عوامل کے نتیجے میں ملکی معیشت اور معاشرت دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

    جدید تکنیک سے دوری

    ہمارے پڑوسی ملک بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ کے لیے مشین یا ای پیپر کا استعمال ہورہا ہے، تاہم پاکستان آج کے جدید دور میں بھی قدیم پولنگ کے طریقے استعمال کررہا ہے ، جن میں دھاندلی کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور ان پر بے پناہ لاگت بھی ہے، دوسری جانب ووٹر کو بھی طویل قطاروں میں لگ کر ووٹ ڈالنے کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے جس کے سبب رجسٹرڈ ووٹر ز کی کثیر تعداد الیکشن والے دن گھر سے نہیں نکلتی اور ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہتا ہے۔ اسی سبب بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی اپنے حقِ رائے دہی سے محروم رہتے ہیں۔

    بہرحال پاکستان میں جمہوریت کو تسلسل کے ساتھ کام کرتے ہوئے دس سال ہوچکے ہیں اور اس عرصےمیں دو سیاسی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرکے عوام میں جاچکی ہیں۔ سنہ 2018 کے انتخابات کے لیے یہ سیاسی جماعتیں ایک بار پھر میدان میں ہیں۔

    گزشتہ دس سالوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کے سبب عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے، پہلے وہ علاقے جو کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کا گھر سمجھے جاتے تھے ، انہی علاقوں میں اب سیاسی جماعتوں سے عوام سوال کررہے ہیں کہ ان کے حقوق کہاں ہیں۔ جمہوریت اسی طرح اپنا سفر آگے بڑھاتی رہی تو امید ہے کہ یہی کرپشن زدہ امید وار ایک نہ ایک دن عوامی دباؤ سے خوف زدہ ہوکر از خود ملک کی بہتری کے لیے اقدامات کرنا شروع کردیں گے اور اس کی کئی مثالیں ہمیں گزشتہ دس سال میں نظر بھی آئی ہیں، جن میں اٹھارویں آئینی ترمیم ، سول حکومت میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات کا انعقاد، اور عہدے پر موجود وزرائے اعظم کی کرپشن پر اسی مدت میں ان کا احتساب اور سزا کا عمل شامل ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • گل مکئی سے نوبل انعام کا سفر ۔ دنیا آج ملالہ کا عالمی دن منا رہی ہے

    گل مکئی سے نوبل انعام کا سفر ۔ دنیا آج ملالہ کا عالمی دن منا رہی ہے

    کراچی: قوم کی بیٹی، پاکستان کی پہچان اور دنیا کی سب سے کمسن نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسفزئی آج اپنی 21 ویں سالگرہ منا رہی ہیں۔ ملالہ سنہ 2012 میں طالبان کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئیں تھیں۔

    گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھ کر شہرت پانے والے ملالہ 12 جولائی 1997 کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات کے علاقے مینگورہ میں پیدا ہوئیں جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

    ملالہ کا نام ملال سے نکلا ہے، اور وجہ تسمیہ میوند کی ملالہ تھی جو جنوبی افغانستان کی ایک مشہور پشتون شاعرہ اور جنگجو خاتون تھی۔


    کل رات میں نے فوجی ہیلی کاپٹروں اور طالبان سے متعلق بھیانک خواب دیکھا۔ وادی سوات میں فوجی آپریشن کے آغاز سے ہی مجھے ایسے خواب آ رہے ہیں۔ امی نے ناشتہ بنایا اور میں کھا کر اسکول چلی گئی۔ اسکول جاتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ 27 میں سے صرف 11 لڑکیاں ہی اسکول آئی تھیں کیونکہ انہیں طالبان سے خطرہ تھا۔ میری کئی سہیلیاں اپنے خاندان والوں کے ساتھ پشاور منتقل ہو گئی ہیں۔

    ملالہ کے بی بی سی کے لیے لکھے گیے پہلے بلاگ سے اقتباس


    سنہ 2010 میں 9 اکتوبر کو جب ملالہ گھر سے اسکول امتحان کو جانے کے لیے بس میں سوار ہوئی تو ایک مسلح طالبان نے اس پر حملہ کر دیا۔ نقاب پوش حملہ آور نے پہلے پوچھا کہ ’تم میں سے ملالہ کون ہے؟ جلدی بتاؤ ورنہ میں تم سب کو گولی مار دوں گا‘۔ جب ملالہ نے اپنا تعارف کروایا تو اس شخص نے گولی چلا دی۔

    ملالہ کو لگنے والی گولی کھوپڑی کی ہڈی سے ٹکرا کر گردن سے ہوتی ہوئی کندھے میں جا گھسی۔

    دیگر دو لڑکیاں بھی اس حملے میں زخمی ہوئیں جن کے نام کائنات ریاض اور شازیہ رمضان ہیں تاہم دونوں کی حالت خطرے سے باہر تھی اور انہوں نے حملے کے بارے میں رپورٹرز کو بتایا۔

    ملالہ پر قاتلانہ حملے سے متعلق تفصیلات دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا پر ظاہر ہوئیں اور عوام کی ہمدردیاں ملالہ کے ساتھ ہو گئیں۔ پاکستان بھر میں ملالہ پر حملے کی مذمت میں مظاہرے ہوئے۔ تعلیم کے حق کی قرارداد پر 20 لاکھ افراد نے دستخط کیے جس کے بعد پاکستان میں تعلیم کے حق کا پہلا بل منظور ہوا۔

    ملالہ کے والد نے بیان دیا، ’چاہے ملالہ بچے یا نہ، ہم اپنا ملک نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا نظریہ امن کا ہے۔ طالبان ہر آواز کو گولی سے نہیں دبا سکتے‘۔

    چھ روز بعد 15 اکتوبر کو اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عالمی خواندگی اور سابقہ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اسپتال میں ملالہ کی عیادت کی اور ملالہ کے حق میں ایک قرارداد شروع کی جس کا عنوان تھا ’میں ملالہ ہوں‘۔ اہم مطالبہ یہ تھا کہ 2015 تک تمام بچوں کو اسکول کی سہولیات تک رسائی دی جائے۔

    اگلے برس 12 جولائی کو جب ملالہ کی 16ویں سالگرہ تھی تب ملالہ نے اقوام متحدہ سے عالمی خواندگی کے بارے میں خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو ملالہ ڈے یعنی یوم ملالہ قرار دے دیا۔ حملے کے بعد یہ ملالہ کی پہلی تقریر تھی۔

    دس اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور نوجوانوں کے حق تعلیم کے لیے جدوجہد پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ 17 سال کی عمر میں ملالہ یہ اعزاز پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت ہے۔

    اس اعزاز میں ان کے شریک بھارت سے کیلاش ستیارتھی تھے جو بھارت میں بچوں اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کررہے ہیں۔

    ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری جبکہ نوبل انعام برائے امن پانے والی پہلی پاکستانی بن گئی ہیں۔

    ملالہ یوسفزئی کو اب تک دنیا بھر سے 40 عالمی اعزازات مل چکے ہیں جو ان کی جرات و بہادری کا اعتراف ہیں۔

    اسے اقوام متحدہ اپنا خیر سگالی سفیر برائے امن بھی مقرر کرچکی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔