Author: فواد رضا

  • بےمثل وبے نظیرافسانہ نگار‘ سعادت حسین منٹو کی آج 106ویں سالگرہ ہے

    بےمثل وبے نظیرافسانہ نگار‘ سعادت حسین منٹو کی آج 106ویں سالگرہ ہے

    آج اردو زبان کے منفرد اورنامورمصنف سعادت حسن منٹو کی 106ویں سالگرہ ہے، منٹو کا بیباک اندازِتحریراور معاشرے کی منافقانہ روش سے بغاوت ان کی وجۂ شہرت بنا۔

    ‎ اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے بیباک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی کو 1912پنجاب ہندوستان کےضلع لدھیانہ کے شہرشملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری نسل کا یہ خوبصورت فیشن ایبل صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا ادباء میں نمایاں شخصیت کا مالک انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محرومی اور دشمنوں کے نرغے میں گہرا ہوا شخص محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کرگیا۔

    manto-post-01

    ‎ منٹو کاقلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنےوالا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچارکیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کئےجاتے تھے۔

    manto-post-02

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اورمزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کرقلم طراز ہوتارہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کاہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناونی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناونا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، سیاہ حاشیے، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمر کے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوسناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔

    manto-post-03

  • آج شیرِمیسور ٹیپو سلطان کا 219 واں یوم شہادت ہے

    آج شیرِمیسور ٹیپو سلطان کا 219 واں یوم شہادت ہے

    آج برصغیر کے دلیرحکمران اور ایسٹ انڈٰیا کمپنی کے بڑھتے ہوئے سیلِ رواں کے سامنے آخری دیوار ’’شیر میسور‘‘ ٹیپو سلطان کی شہادت کو 219 برس بیت گئے۔

    ‘ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا، آپ ہندوستان کے شہربنگلور میں 20 نومبر 1750ء کو اس وقت کے حکمران حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان حیدرعلی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بارانگریزافواج  کو شکست فاش بھی دی۔

    tipu-post-5

    آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ہندوستان میں ایک مضبوط مزاحمت کاسلسلہ جاری رکھا اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کیلئے سنجیدہ و عملی اقدامات کیے۔ سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا۔ سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ برصغیر کی بدقسمتی کہ نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلئے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔


    ٹیپو سلطان کے والد امریکا کی آزادی کے ’ہیرو‘ قرار


    tipu-post-3

    برصغیر کی شان فتح علی عرف ٹیپو سلطان کا قول ہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ اور وہ تادمِ شہادت اپنے اسی قول پرعمل پیرا رہے۔


    مزید پڑھیں: ٹیپو سلطان کے زیراستعمال اسلحہ لندن میں نیلام


    ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی اور وہ مذہبی تعصب سے پاک تھے یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا، حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے۔

    ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔

    Tipu-post-1

    ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا ۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔

    میسور کی چوتھی جنگ سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غداروں میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا۔


     ٹیپوسلطان کا یوم پیدائش منانے پر انتہاپسندوں کی ہنگامہ آرائی


    2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارت برسراقتدار آنے کے بعد سے دیگر کئی مسلم حکمرانوں کی طرح ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی پر مذہبی عدم رواداری اور بڑے پیمانے پر ہندوؤں کے قتل کاالزام عائد کیا جانے لگا۔

    TIPU 4

    نومبر 2015ء میں کرناٹک کی برسراقتدار سدارمیا کی زیرقیادت کانگریس حکومت نے حسب سابق ٹیپوسلطان کے یوم پیدائش کا جشن منایا تو ریاست کے مَدِیْکیرِی علاقے میں ایک مسلم تنظیم اور وشوا ہندو پریشد کے بیچ پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جن میں ایک ہندو اورایک مسلم شخص ہلاک ہوا۔

  • فیصل آباد میں دو روزہ سائنس فیسٹیول کا آغاز

    فیصل آباد میں دو روزہ سائنس فیسٹیول کا آغاز

    فیصل آباد: پاکستان  کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے صنعتی شہر فیصل آباد کی زرعی یونی ورسٹی میں سائنس فیسٹیول کا آغاز ہوگیا ہے، یہ فیسٹیول دو روز تک جاری رہے گا۔

    تفصیلات کے مطابق  فیصل آباد سائنس فیسٹیول 2018 کا آج سے آغاز ہورہا ہے، دو روزہ فیسٹیول کا انعقاد یونی ورسٹی آف ایگریکلچر کے ایکسپو سنٹر میں کیا جارہا ہے۔سائنس فیسٹیول میں پورے شہر سے اسکول اور دیگر یونی ورسٹیز کے طلبہ و طالبات حصہ لے رہے ہیں جبکہ متعدد سائنس سوسائٹیز بھی اس اہم فیسٹیول میں شریک ہیں۔

    دو روزہ سائنس فیسٹیول کے انعقاد کا مقصد شہر کے طلبہ و طالبات میں سائنس سے متعلق دلچسپی کا فروغ ہے اور انہیں یہ بات باور کرانا ہے کہ سائنس  دیگر روایتی مضامین سے ہٹ کر ایک عملی مضمون ہے  ، سائنس میلے کے انعقاد سے بچوں کو وہ بہت سی اشیا جن کے بارے میں وہ صرف کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں انہیں ان کا عملی زندگی میں مشاہدہ کرنے کا موقع بھی ملے گا۔

    ڈی سی فیصل آباد سائنس میلے کا دورہ کرتے ہوئے

     سائنس میلے کے آغاز پر ڈی سی فیصل آباد نے بھی فیسٹیول کا افتتاحی دورہ کیا اور ایونٹ میں شریک طلبہ طالبا ت کی حوصلہ افزائی کی۔ دو روز تک جاری رہنے والے اس فیسٹیول میں شہر کی نمایاں شخصیات شرکت کریں گی۔

    فیصل آباد سائنس فیسٹیول میں خوارزمی سائنس سوسائٹی بھی اپنا متحرک کردار ادا کررہی ہے ‘ یہ سائنس سوسائٹی دو سال سے لاہور  میں کامیاب سائنس میلہ کا انعقاد کرارہی ہے۔ رواں سال  ۲۷اور۲۸ جنوری ، ۲۰۱۸ کو لاہور میں سائنس میلے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ میلہ سائنسی کرشموں کا دوسرا بڑا جشن تھا جس میں  ملک بھر سے  اور دنیا کے دیگر ممالک سے سائنس دان آئے اور میلے میں شرکت کی؛ ان سائنس دانوں میں خانہِ ریاضیات ، اصفہان سے شرارہ دستجردی اور بوسٹن یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد حامد زمان شامل تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • خواجہ آصف: اقامے سے نااہلی کا سفر

    خواجہ آصف: اقامے سے نااہلی کا سفر

     مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیرِخارجہ  خواجہ محمد آصف کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے تاحیات نا اہل قراردے دیا ہے، ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں۔

    کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی شامل تھے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔اس سے قبل سپریم کورٹ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہونے والی نااہلی کو تاحیات قرار دے چکی ہے۔ خواجہ آصف کی نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد اب وہ وزیر خارجہ نہیں رہے اور آئندہ انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکتے۔

    خیال رہے کہ خواجہ آصف کی نا اہلی کے لیے درخواست تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے دائر کی تھی ۔عثمان ڈار نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر خارجہ دبئی میں ایک پرائیویٹ کمپنی کے ملازم ہیں جہاں سے وہ ماہانہ تنخواہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ غیر ملکی کمپنی میں ملازمت کرنے والا شخص وزیر خارجہ کے اہم منصب پر کیسے فائز رہ سکتا ہے۔

    آئیے خواجہ آصف کی سیاسی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں


     خواجہ محمد آصف  پنجاب  کے معروف سیاست داں خواجہ محمد صفدر کے بیٹے ہیں  ۔ خواجہ صفدر نے  1947سے قبل تحریک پاکستان میں متحرک کردار ادا کیا تھا ۔ وہ  جنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان کے مجلس شوریٰ کے چیئرمین بھی بنے ۔ وہ 1962میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس کے بعد وہ حزب اختلاف کے راہنما بن گئے ۔ 1965 میں وہ دوبارہ صوبائی اسمبلی کے رکن بنے ۔ خواجہ محمد صفدر 1970کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سے شکست کھا گئے تھے ۔

    خواجہ محمد آصف کئی سال تک متحدہ عرب امارات میں رہنے کے بعد اپنے والد کی وفات کے بعد پاکستان میں واپس آئے اور1991 میں اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا ۔1991 میں وہ پہلی مرتبہ وہ تین سال تک مسلم لیگ ن کی نشست پر پاکستان کے سینیٹ کے رکن رہے ۔سنہ 1993 میں وہ پاکستان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 110 (سیالکوٹ) سے پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔

     انہوں نے دوسری مرتبہ عام انتخابات میں 1997میں کامیابی حاصل کی اور دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ 1999میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں نواز حکومت کے خاتمے کے بعد خواجہ آصف کو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا لیکن بعد عدم ثبوت کی بنا پر انہیں رہا کردیا گیا ۔ 2002میں وہ تیسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔

     وہ چوتھی مرتبہ 2008قومی اسمبلی کے رکن بنے اور یوسف رضا گیلانی کی وفاقی کابینہ میں انہیں مختصر وقت کیلئے پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے قلمدان کے تحت کام کرنے کا موقع ملا ۔ مسلم لیگ (ن) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری تحریک کے باعث پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت سے الگ ہوئی تو خواجہ محمد آصف نے بھی استعفیٰ دیدیا ۔

     جون 2012میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا کہ خواجہ محمد آصف دوہری شہریت رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی آئینی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے ۔ چونکہ درخوست گزار نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی اس لئے سپریم کورٹ نے انہیں با عزت بری کردیا ۔ 2013میں خواجہ آصف پانچویں مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔

    نواز شریف تیسری دفعہ ملک کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے وفاقی کابینہ میں خواجہ آصف کو وفاقی وزیر پانی و بجلی مقرر کیا جبکہ وفاقی وزیر دفاع کی اضافی ذمہ داری بھی ان کے کندھوں پر ڈالی ۔ جولائی 2017میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تو شاہد خاقان عباسی نے ان کی جگہ وزیر اعظم کا حلف اٹھا یا ۔ خواجہ محمد آصف کو نئی کابینہ میں وزیر خارجہ کا قلمدان سونپا گیا ۔ اس سے قبل پاکستان میں کوئی وزیر خارجہ کام نہیں کررہا تھا کیونکہ وزیر خارجہ کا منصب وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔

    مختلف وزارتوں میں خدمات


    خواجہ محمد آصف اگست 2017کے بعد سے پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں ۔اس سے قبل وہ وفاقی وزیردفاع کے منصب پر ذمہ داریاں سر انجام  دے رہے تھے۔ وہ 2013سے 2017کے دوران وفاقی وزیر پانی و بجلی بھی رہے جبکہ یہ نواز شریف کا تیسرا دور حکومت تھا ۔

     نواز شریف کے دوسرے دور  1997میں انہوں نے وفاقی کابینہ میں مختلف عہدوں پر کام کیا ۔ وہ 1997سے 1999تک پاکستان نجکاری کمیشن کے چیئرمین رہے ۔ 2008 میں انہوں نے یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں پٹرولیم اور قدرتی وسائل میں مختصر طور پر خدمات سر انجام دیں ۔

    سنہ 2009 میں مسلم لیگ (ن) نے جسٹس افتخار بحالی تحریک میں پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑا تو خواجہ آصف نے بھی اپنی ذمہ داریوں سے استعفیٰ دے دیا ۔  ایف آئی آر 2014میں انقلاب مارچ کے دوران پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مداخلت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران شہید ہونے والے 14 افراد کے قتل اور 90 سے زائد شدید زخمی شہریوں کو انصاف دلانے کے لیے  وزیر دفاع خواجہ محمد آصف سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔

    حالاتِ زندگی


    خواجہ آصف 9اگست 1949کو سیالکوٹ میں خواجہ محمد صفدر کے گھر پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کیڈٹ کالج حسن ابدال میں حاصل کی ۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجو ایشن اور لاہور یونیورسٹی آف لاء سے ایل ایل بی کیا ۔ خواجہ آصف پیشے کے لحاظ سے ایک بینکر ہیں اور انہوں نے متحدہ عرب امارات کے مختلف بینکوں میں کام کیا ہے ۔ ۔  وہ پیشے کے لحاظ سے ایک بینکر ہیں اور انہوں نے 1970میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے ایل ایل بی بی کا امتحان پاس کیا تھا ۔ ان کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں  ہیں اور ان کے  بچے انتہائی تعلیم یافتہ اور بیرون ملک مقیم  ہیں ۔

  • کتاب کا عالمی دن‘ 5 انتہائی دلچسپ کتابیں پڑھیں

    کتاب کا عالمی دن‘ 5 انتہائی دلچسپ کتابیں پڑھیں

    دنیا بھر میں آج کتاب کا عالمی دن منایا جارہا ہے اورعلم دوست معاشروں میں ایسے دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، جن معاشروں کے اذہان بوسیدہ ہوجاتے ہیں وہاں کتب بینی کا رجحان ختم ہونے لگتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو نے آج سےاکیس سال قبل آج کے دن کو کتاب کا عالمی دن کے طور پرمنانے کا فیصلہ کیا تھا‘ آج کا دن منتخب کرنے کی ایک وجہ آج کے دن کا عظیم مفکر اورادیب ولیم شیکسپئر کے انتقال سے منسوب ہونا بھی ہے۔

    آج کے دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں کتب بینی کے رحجان کو ترویج دینا ہے بالخصوص آئندہ نسل جو کہ ڈیجیٹل دنیا میں پیدا ہوئی ہے اسے کتاب پڑھنے کا ذوق اورشوق ودیعت کرنا ہے۔

    اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کی آئندہ نسلیں کتاب سے دور نہ ہوں تو ضروری ہے کہ انہیں کتب بینی کا عادی بنایا جائے‘ انہیں ترغیب دی جائے کہ زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھیں‘ انہیں کتابیں مہیا کی جائیں اور مہنگی اور معیاری کتب تک انہیں آسان رسائی دی جائے۔

    آج کے دن کی مناسبت سے ہم آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں کچھ ایسی کتابوں کا تعارف جو یقیناً حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔


    راموز – جون ایلیا


    راموز‘ بے مثل و بے بدل شاعر ادیب اور فلسفی جون ایلیا کی معرکتہ الآرا تصنیف کا نام ہے، جون محض ایک شخص نہیں بلکہ اردو ادب کا ایک دور ہیں جن سے آج اور آنے والے وقت کے اردو دانوں کو مفر ممکن نہیں ہوسکے گا۔

    کہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں ہی شہرت کے بام ِعروج پرپہنچے والے ادیب زمان ومکاں کی سرحدوں سے ماورا صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور جب بات جون ایلیا جیسے مصنف کی ہو تو ان کے مداح اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ جون وہ شاعرو ادیب ہیں کہ جو اپنی زندگی میں لازوال شہرت کے حامل تھے۔

    جون ایلیا کی کتاب ’راموز‘ کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ جون ایلیا کی زندگی کی یہ کتاب اردو ادب میں تحقیق کے نئے ابواب وا کرے گی۔ راموز اٹھارہ الواح پرمشتمل ایک رزمیہ نظم ہے جو کہ اردو شاعری کو ایک نئی جہت اور نئی وسعت عطا کرے گی۔

    جل پری – سعود عثمانی

    جب کبھی اردو شاعری پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس کے دامن میں حقیقی قوت تخیل کے حامل اذہان کا قحط پڑ گیا ہے‘ تب تب ایسے شعرا ءسامنے آتے ہیں جو کہ ایسے الزامات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔معروف شاعر سعود عثمانی کا تیسرا شعری مجموعہ ’جل پری‘ بھی کچھ ایسا ہی تاثر پیش کرتا ہے۔

    سعود عثمانی اس سے قبل دو شعری مجموعے ’قوس ‘اور’بارش ‘شائع کرچکے ہیں اور ان کا تیسرا شعری مجموعہ جل پری ہے جو رواں برس منظرِ عام پر آیا ہے۔

    جل پری سعود عثمانی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے اور اس عنوان نے انہیں اس وقت سے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے جب وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے اور سردیوں کی کپکپاتی رات میں انگھیٹی کنارے بیٹھے جل پریوں کی ایک کہانی پڑھ رہے تھے۔

    سعود عثمانی اپنی کتاب کے دیباچے میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس عمرمیں بھی وہ ( کم عمر سعود عثمانی) جل پری کے سحر سے زیادہ اس کی دل گرفتہ اداسی اور کرب سے آشنا ہوا۔ دو جہانوں میں رہنے والی جل پری کسی ایک جہان میں نہیں رہ سکتی تھی اور یہ بہت الگ زندگی تھی‘‘۔

     ڈیورنڈ لائن کا قیدی – فیض اللہ خان

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی نامی یہ کتاب معروف صحافی فیض اللہ خان کی یادداشتوں پر مبنی ہے جس میں وہ تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ کے انٹرویو کے لیے افغانستان جانے اور پھر وہاں قید ہونے سے لے کر رہائی تک کی اپنی داستاں بیان کررہے ہیں۔

    فیض اللہ خان بنیادی طور پر صحافی ہیں اور سادہ زبان لکھنے کے عادی ہیں۔ ان کا یہی اندازِ تحریر کتاب میں بھی نظر آتا ہے ۔ کتاب میں انہوں نے اپنی داستان انتہائی سادہ اور سلیس اندازمیں بیان کی ہے اور ادبی اصلاحوں اور تصنع کے بغیر کتاب عام قاری کے لیے انتہائی آسان فہم ہے۔

    فیض اللہ نے کو شش کی ہےکہ ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی ‘ میں خود پر بیتے جانے والے واقعات کو وہ من و عن ایسے ہی بیان کردیں کہ جس طرح سے وہ ان پر بیتے‘ اوریقینی طور پر وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔

    ضرور پڑھیں رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم

    امرتا اپنی زندگی میں ایک بے باک ‘ نڈر اور صاف گو شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھیں اور یہی لہجہ انہوں نے اپنی پہلی آپ بیتی ’رسیدی ٹکٹ‘ مرتب کرتے ہوئے اپنایا ہے اور اس میں وہ تمام باتیں بھی تحریر کی ہیں جن کا اعتراف شائد اس کتاب کے شائع ہونے کے اکتالیس سال بعد کی عورت بھی کرنے سے گریزکرتی ہے۔

    امرتا کی زندگی دکھوں سے عبارت تھی اور یہی دکھ ان کی نظموں اورناولوں سےجھلکتے ہیں اور جب وہ اپنی آپ بیتی لکھنے بیٹھیں تو گویا دل چیرکررکھ دیا اور اپنے حزیں قلب پر لگا ہر ایک داغ اپنے قارئین کے سامنے کردیا کہ دنیا جان لے کہ وہ مصنف اورشاعرجوان کے غموں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے لاتی ہے اور انہیں نئے سرے سے جینےکا حوصلہ دیتی ہے اس کی اپنی زندگی کتنے دکھوں سے عبارت ہے۔

    رسیدی ٹکٹ کو امرتا نے آپ بیتی لکھنے کے مروجہ طریقہ کار سے انحراف کرتے ہوئے خیالات کے بہاؤ کو ضبطِ تحریر کیا ہے اور یہ کمال ’پنجر‘ جیسے معروف ناول کی مصنف ہی دکھا سکتی تھیں۔ا مرتا کی آب بیتی ہمیں تقسیم کے قبل کے پنجاب میں لے جاتی ہے جہاں کا ایک مخصوص معاشرتی نظام تھا اور ہم امرتا کے ساتھ اس سفر میں شریک ہوکر گجرانوالہ میں آباد سکھوں کی بود وباش جینے لگتے ہیں اورجس لمحے کمسن امرتا کے لبوں سے رب العزت کے حضور یہ دعانکلتی ہے کہ’ میری ماں کو نا مارنا‘‘ – کہتے ہیں کہ بچوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں لیکن اس دن امرتا کی دعا عرش سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے اورماں مرجاتی ہے۔ اس لمحے امرتا کے ساتھ ہم بھی اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس کرتے ہیں اوردل میں ایسا کرب اٹھتا ہے جسے بیان کرنا انہی کا خاصہ ہے۔

    الجھے سلجھے انور – عمرانہ مقصود

    معروف ادیب و افسانہ نگار انور مقصود کی سوانح حیات پر مبنی کتا ب ’’الجھے سلجھے انور‘‘کی رونمائی کی گئی۔ کتاب کی مصنفہ ان کی شریکِ حیات عمرانہ مقصود ہیں‘ جنہوں نے انور مقصود کی 75 سالہ زندگی کا تفصیلی جائزہ انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مکتبۂ دانیال کی جانب سے شائع کردہ معروف ڈرامہ و افسانہ نگار اور کمپیئر انور مقصود کی سوانح حیات کی رونمائی کراچی میں ہوئی، یہ کتاب انور مقصود کی اہلیہ نے تحریر کی اور اسے ’’الجھے سلجھے انور‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ناقدین کی رائے ہے کہ انور مقصود کے اس سے زیادہ مستند سوانح حیات نہیں ہوسکتی۔

    اس موقع پر انور مقصود کا خود بھی یہی کہنا تھا کہ ’’میری سوانح عمری میری ہمسفر نے تحریر کی‘ میرے بارے میں میری بیگم سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا۔ تقریب کے شرکاء نے کتاب کی رونمائی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری زندگیوں میں سیکھنے کے عمل کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

  • قائد اعظم اوررتی جناح – شادی کی سوویں سالگرہ

    قائد اعظم اوررتی جناح – شادی کی سوویں سالگرہ

    کراچی: آج بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی دوسری زوجہ مریم جناح المعروف رتی جناح کی شادی کی سوویں سالگرہ ہے‘ آپ بیماری کے سبب کم عمری میں انتقال کرگئی تھیں۔

    پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والی رتن بائی 20 فروری 1900کو پیدا ہوئی تھیں اورقائداعظم محمد علی جناح کی دوسری بیوی تھیں۔ شادی سے ایک دن قبل انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرکےاسلام قبول کیا تھا اور ان کا اسلامی نام مریم جناح رکھا گیا تھا۔ان کا نکاح مولانا حسن نجفی نے پڑھایا تھا۔

    رتی جناح سرڈنشا پٹیٹ کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ان کا خاندان کپڑے کی صنعت میں بہت بڑا نام تھا۔رتی جناح شاعری اورسیاست میں انتہائی شغف رکھتی تھیں اور ان کے انہی مشاغل کی وجہ سے ان کی ملاقات قائداعظم سے ہوئی۔

    قائد اعظم اور رتی جناح کی شادی 19 اپریل 1918 کو بمبئی میں ہوئی جس میں صرف قریبی احباب کو مدعو کیا گیا تھا۔ شادی کی انگوٹھی راجہ صاحب محمودآباد نے تحفے میں دی تھی۔

    قائداعظم محمد علی جناح کی نایاب اوریادگارتصاویر

    برصغیر کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال نے قائداعظم کی سیاسی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا اور اکثر انہی مصروفیات کی وجہ سے شہر سے باہر بھی رہا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں میاں بیوی میں اختلافات رونما ہونے لگے اور ایک وقت وہ آیا جب رتی اپنا گھر چھوڑ کر ایک ہوٹل میں منتقل ہوگئیں۔ 1928ء میں وہ شدید بیمار پڑیں اور علاج کے لیے پیرس چلی گئیں۔

    قائداعظم کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ بھی ان کی تیمارداری کے لیے پیرس پہنچ گئے اور ایک ماہ تک ان کے ساتھ رہے۔ یوں ان دونوں کے تعلقات ایک مرتبہ پھر بحال ہوگئے۔ چند ماہ بعد رتی جناح وطن واپس آ گئیں مگر ان کی طبیعت نہ سنبھل سکی اور 20 فروری 1929ء کو ان کی 29 ویں سالگرہ کے دن ان کا انتقال ہوگیا۔

    قائد اعظم ایک انتہائی مضبوط اعصابی قوت کے مالک شخصیت تھے اورانہیں عوام میں صرف دو مواقع پرروتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایک بارتب جب انہیں ان کی چہیتی زوجہ کی قبر پر مٹی ڈالنے کا کہا گیا‘ اور ایک باراگست 1947 میں کہ جب وہ آخری مرتبہ اپنی شریکِ حیات کی قبر پر تشریف لائے تھے۔

    اُن کی واحد اولاد‘ دینا جناح کی پیدائش 15 اگست 1919ء کو لندن میں ہوئی اور تقسیم کے وقت وہ ممبئی میں اپنے سسرال میں آباد تھیں، انہوں نے گزشتہ سال 2 نومبر 2017ء کو نیویارک میں وفات پائی ۔

  • آج جلیاں والا باغ کے سانحے کو ننانوے سال ہوگئے

    آج جلیاں والا باغ کے سانحے کو ننانوے سال ہوگئے

    برصغیر کی تحریکِ آزادی میں ایک اہم موڑثابت ہونے والے واقعے ’جلیاں والا باغ‘ کو 99 سال بیت گئے ہیں‘اس واقعے نے برصغیرمیں آزادی کی مہم کو مہمیزکیا تھا‘ سنہ 1997 میں بھارت کے دورے پرملکہ برطانیہ نے اس تاریخ کا افسوس ناک باب قراردیا تھا۔

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق’’ اپریل 1919ءمیں جب رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تو پنجاب اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ ان دنوں پنجاب کا گورنر سر مائیکل فرانسس او ڈائر تھا ‘جس نے پنجاب میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کرکے بریگیڈیئر جنرل ریگنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نامی ایک سخت گیر اور ظالم شخص کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ ”نافرمان عوام“ کی سرکوبی کے لیے مامور کردیا‘‘۔

    دس اپریل 1919ءکو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے میں دو سیاسی رہنماﺅں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کرلیا اور ان کی گرفتاری پر جب عوام نے جلوس نکالنا چاہا تو ان پر گولی چلا دی گئی۔

    تیرہ اپریل 1919ءکو امرتسر کے عوام ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی اسیری کے خلاف جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے۔ یہ باغ انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک درباری پنڈت جلانے بنوایا تھا اور اسی کے نام سے موسوم تھا۔ یہ باغ کوئی دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے، باغ سے باہر جانے کے چار پانچ راستے تھے مگر کوئی بھی چار پانچ فٹ سے زیادہ چوڑا نہ تھا۔

    جب اس جلسے کا علم جنرل ڈائر کو ہوا تو وہ مشین گنوں اور رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچ گیا اور اس نے بغیر کسی انتباہ کے عوام پر فائرنگ کا حکم دے دیا۔ یہ فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک اسلحہ ختم نہیں ہوگیا۔

      انگریز مورخین کے مطابق اس سانحہ میں 379 افراد ہلاک اور 1203 زخمی ہوئے۔ سنگدلی کی انتہا یہ تھی کہ سانحہ کے فوراً بعد کرفیو نافذ کرکے زخمیوں کو مرہم پٹی کا انتظام بھی نہ کرنے دیا گیا۔اس سانحے نے پورے پنجاب میں آگ لگا دی جس پر قابو پانے کے لیے دو دن بعد پورے پنجاب میں مارشل لاءنافذ کردیا گیا۔

    ملکہ برطانیہ جلیا والا باغ کی یاد گار کا دورہ کرتے ہوئے

    سنہ 1997 میں برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھارت کا دورہ کیا تو وہ جلیاں والا باغ بھی گئیں تھی‘ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ میں کچھ افسوس ناک واقعات بھی ہیں تاہم تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اس موقع پر بھارت میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم  اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کمار گجرال  کہتے نظر آئے تھے  کہ’’اس  سانحے کے وقت ملکہ پیدا نہیں ہوئی تھیں لہذا انہیں معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

    گزشتہ سال ایک موقع پر اے آر وائی نیوز سے ٹیلی فونک گفت گو کرتے ہوئے بھارت میں موجود خالصتان تحریک کے رہنما امرجیت سنگھ نے کہا کہ سانحہ جلیاں والا باغ میں 400 سکھوں کو قتل اور 900 کو زخمی کیا گیا جب کہ 1984ء میں اس سانحے سے بھی بڑی کارروائی کی گئی، جمہوریت کے نام پر کئی جلیاں والا باغ جیسے مظاہرے ہوئے گویا ماضی کا جو طریقہ کار تھا وہ آج بھی بھارت میں رائج ہے۔

    سکھ رہنما امرجیت سنگھ

    امر جیت سنگھ کا کہنا تھا کہ سکھوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھاکہ بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایسا خطہ آپ دیا جائے گاجہاں آپ نمو پاسکیں لیکن وہ وعدہ آج تک وفا نہ ہوا۔خالصتان پرامن تحریک تھی لیکن 84ء تا96 بارہ برس کے دوران ڈیڑھ لاکھ سے زائد سکھوں کو قتل کیا گیا، سکھوں کی ایک نسل ختم کردی گئی اور دوسری کو نشے کی راہ پر لگادیا گیا۔

    انہوں نے یہ  بھی  کہا تھا  کہ ناگا پور اور منی لینڈ سمیت اس وقت 10 سے زائد ریاستوں میں آزادی کی تحاریک جاری ہیں، دلت اور قبائلیوں کے ساتھ بدترین سلوک ہوتا ہے،طلبہ کی خودکشی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا واقعہ سب کے سامنے ہے لیکن یہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کی رسائی نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ  بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بہت سے واقعات ریکارڈ پر ہیں یعنی آزادی کے بعد بھی بھارت میں آزادی میسر نہیں ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • اندھی گولی کا شکار‘ مفلوج طالب علم نویں جماعت کے امتحان دے رہا ہے

    اندھی گولی کا شکار‘ مفلوج طالب علم نویں جماعت کے امتحان دے رہا ہے

    کراچی: سنہ 2016 میں اندھی گولی کا نشانہ بن کر معذور ہوجانے والا عمران معذوری کے عالم میں بھی نویں جماعت کے امتحانات دے کرعزم و حوصلے کی نئی داستانیں رقم کررہا ہے‘ اندھی گولی چلانے والا مجرم آج بھی قانون کی گرفت سے باہر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے جمشید روڈ کا رہائشی عمران فروری 2016 کو ایک اندھی گولی کا نشانہ بنا تھا‘ آج تک نہ تو واقعے کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت ہوئی ہیں اور نہ ہی عمران مکمل طور پر صحت یا ب ہوسکا ہے‘ اس کے باوجود وہ علم کو اپنا نصب العین بنائے اپنی تعلیمی قابلیت کو آگے بڑھانے کے لیے جدو جہد کررہا ہے۔

    وقوعہ کے وقت موجود عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عمران گھر سے نیچے آیا تو ایک دم گر کر بے ہوش ہوگیا‘ جب اسے اٹھایا گیا تو اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا‘ تیرہ سالہ بچے کو ایمرجنسی میں شہرقائد کے ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا تو وہاں ہونے والے ایکسرے اور ایم آرآئی رپورٹ میں انکشا ف ہوا کہ اس کے دماغ میں ریوالور کی گولی لگی ہے اور وہیں پھنس گئی ہے۔

    اس واقعہ کی متعلقہ تھانے میں رپورٹ بھی درج کرائی گئی لیکن آج تک تفتیش کی گاڑی اسی مقام پر رکی ہوئی ہے جہاں وہ روزِ اول تھی ‘ پولیس کے تحقیقاتی افسران اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اس اندھی گولی چلانے والے مجرم کا سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں‘ دوسری جانب تب سے آج تک عمران شدید جسمانی اور اس کے اہل خانہ معاشی مشکلات سے گزررہے ہیں۔

    [bs-quote quote=”چاہتا ہوں کہ جلد صحت یاب ہوکر نارمل زندگی گزارنا شروع کروں اور اپنے والدین کا سہارا بنوں” style=”default” align=”left” author_name=”طالب علم عمران” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/04/aaj-2.jpg3_.jpg”][/bs-quote]

    دوماہ اسپتال میں زیرِعلاج رہنے کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی حالت میں مزید بہتری کے امکان سے انکار کرتے ہوئے والدین کو گھر پر ہی اس کی فزیو تھراپی اور اسپیچ تھراپی کرانے کا مشورہ دیا‘ عمران تقریباً معذور ہے اور اسے بولنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ اس تمام عرصے میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین نے اپنا سب کچھ بچے کے علاج معالجے پر خرچ کردیا اور کئی قرابت داروں کے مقروض بھی ہوگئے۔ عمران تقریباً اپاہج ہوچکا تھا لہذا ایک تربیت یافتہ تھراپسٹ کو اس کی چوبیس گھنٹے نگہداشت کے لئے رکھا گیا جو معاشی طور والدین پر ایک مزید بوجھ تھا لیکن کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا‘ لہذا یہ اضافی بوجھ بھی قبول کرنا پڑا اور تقریبا ایک لاکھ روپے ماہانہ اس مد میں صرف ہورہے ہیں۔

    ان تمام مشکلات اور معذوری کے باوجود عمران کے حوصلے بلند ہیں اور وہ گھر سے باہر گراؤنڈ میں آکر دوسرے بچوں کی طرح کھیلنا چاہتا ہے ۔ وہ پہلے کی طرح اسکول جانا اور اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے اسی شوق اور جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے والدین نے ایک پرائیوٹ ٹیوٹر رکھا جس نے عمران کی نویں کلاس کے امتحان کی تیاری کرائی ۔ عمران سمجھ بھی لیتا ہے اور بمشکل کچھ بول بھی لیتا ہے لیکن خود لکھ نہیں سکتا کیونکہ ہاتھوں میں شدید رعشہ ہے ۔اس کے شوق کو دیکھتے ہوئےتعلیمی بورڈ سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا گیا کہ عمران امتحان دے سکے اور اسے لکھنے کے لیے ایک مددگار کی بھی اجازت مل گئی جو اس بتائے گئے جوابات کے مطابق پرچہ حل کرسکے( بورڈ کے قوانین کے مطابق مدد گار کی تعلیمی قابلیت ایک درجہ کم ہونا ضروری ہے)۔ اب عمران نویں کلاس کا امتحان پرائیوٹ امیدوار کے طور پر دے رہا ہے اور ایک بہت مستقبل کے لیے پر امید ہے‘ اسے امید ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوگا اور مشکل وقت میں اپنی تمام تر جمع پونجی اس پر لٹادینے والے والدین کا سہارا بنے گا۔

    عمران کی داستان سنانے کا مقصد یہ پیغام دینا کہ حوصلہ اور جذبہ اگر باقی ہو تو کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی ۔۔۔۔ عمران اس معذوری اور مشکلات کے باوجود اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہے اور مزید تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل خود سنوارنا چاہتا ہے تاکہ والدین اور معاشرے پر بوجھ نہ بنے ۔

    خیال رہے کہ عمران اپنے والدین کا سب سے بڑا بیٹا ہے اور اس کے کے والدین کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے جو بمشکل اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھے ہوئے تھے لیکن اس اچانک افتاد نے انہیں توڑ کے رکھ دیا۔ معاشی بربادی کے علاوہ ذہنی اور روحانی کرب الگ اور وہ خواب کہ کل عمران بڑا ہوکر والدین کا سہارا بنے گا اب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔مشکلات اور مسائل کے باوجود مسلسل علاج اور نگہداشت سے عمران میں کچھ بہتری تو آئی لیکن وہ اب بھی کھڑا ہونے بغیر سہارے چلنے اور دوسرے کی مدد کے بغیر کچھ کرنے سے معذور ہے ۔

    اس مشکل سفر میں کچھ نیک لوگ اس کے والدین کا دکھ بانٹنے کے لیے آگے آئے اور انہوں نے اپنے طور پر ہر ممکن مدد بھی کی ‘ تاہم ابھی بھی عمران کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘ اس تمام سفر میں ریاست نے کہیں بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا‘ نہ تو عمران کو واپس صحت مند زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے اقدامات کیے گئے اور نہ ہی اس اندھی گولی چلانے والے شخص کو قانون کے کٹہرے میں پہنچایا گیا کہ عمران اور اس کے والدین کے دکھوں کا کچھ تو مداوا ہوتا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • آج مسیحی برادری ایسٹر کا تہوار منارہی ہے

    آج مسیحی برادری ایسٹر کا تہوار منارہی ہے

    کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھرمیں مسیحی برادری آج ایسٹر(جی اٹھنے) کا تہوار مذہبی جو ش و خروش اور عقیدت سے منارہی ہے، اس مناسبت سے ملک بھر کے گرجا گھروں میں دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق مسیحی تہوار وں میں مرکزی اہمیت رکھنے والا تہوار ایسٹر آج دنیا بھر میں منایا جارہا ہے‘ یہ تہوار 22 مارچ سے 25 اپریل کے درمیان ہر سال الگ الگ تاریخوں پر منایا جا تا ہے‘ 21 مارچ کے بعد آنے والے پہلے اتوار کے بعد آنے والے اتوار کو ایسٹر منایا جاتا ہے۔

    اس موقع پر عالمِ عیسائیت کی اہم ترین مذہبی تقریبات مشرق وسطیٰ میں یروشلم اورکیتھولک عیسائی عقیدے کے مرکز ویٹی کن میں منعقد ہوں گی‘ کیتھلوک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پاپائے روم خصوصی دعا کر وائیں گے۔پاکستان میں ایسٹر کے تہوار کی مناسبت سے تقریبات کا آغاز رات ہی سے ہوگیا۔

    اس موقع پر ملک بھر میں گرجا گھروں میں خصوصی عبادات کا اہتمام کیا گیا ہے ، گرجاگھروں میں شمعیں روشن کی گئیں اور خصوصی گیت بھی گائے گئے ہیں ۔ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں۔

    ایسٹرکی تاریخ


    ایسٹر کو عیسائیوں کا دوسرے سب سے بڑے تہوار کی حیثیت حاصل ہے جوکہ ان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پھر سے جی اٹھنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ مدتوں‌ اس کی تاریخ میں اختلاف رہا۔

    سنہ 325ء میں رومی بادشاہ، قسطنطین اول نے ایشیائے کوچک (ترکی) کے مقام پرازنک میں عیسائی علما کی ایک کونسل بلائی جسے نائسیا کی پہلی کونسل کہتے ہیں۔ لیکن یہ کونسل بھی ، مشرقی اور مغربی کیلنڈوں ‌میں اختلاف کے باعث کوئی متفقہ تاریخ مقرر نہ کرسکی۔

    آرتھوڈاکس ایسٹرن چرچ ایسٹرکی تاریخ کا تعین جولین کیلنڈر سے کرتا ہے۔ مغربی ممالک میں یہ تہوار 22 مارچ سے 25 اپریل تک کسی اتوار کو منایا جاتا ہے۔

    کچھ محققین کے مطابق ایسٹر موسم بہار کی اینگلو سیکسن دیوی تھی اور یہ جشن دراصل بہار کا جشن ہے جو یسوع مسیح کی ولادت سے قبل بھی منایا جاتا تھا۔ ہندوستان میں یہ تہوار ہولی کے نام سے، انہیں دنوں اوراسی طریقے سے منایا جاتا ہے۔ ایران میں اسے نوروز کہتے ہیں اور وہاں یہ 21 مارچ کو منایا جاتا ہے۔

    خرگوش اورانڈوں کی روایت


    ایسٹر کے تہوار سے جُڑی سب سے دلچسپ روایت’ ایسٹر ایگز‘ اور ’ ایسٹربنی ‘کی ہے۔ ایسٹر پربچے نہایت شوق اور دلچسپی کے ساتھ انڈوں کو قوس و قزاح کے رنگوں میں رنگ دیتے ہیں جس کے بعد عزیز و اقارب کے ساتھ کھیل کے مقابلوں میں انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ’ ایسٹر بنی‘ جرمن تارکین وطن کی جانب سے امریکا میں متعارف کرایا گیا تھا، اسی طرح انڈوں پر سجاوٹ کا آغاز17 ویں صدی میں جرمنی سے ہی ہوا تھا اور دو سو سال گزر جانے کے بعد بھی یہ روایت آج تک زندہ ہے۔

    ایسٹر پرانڈوں اور خرگوش کی روایات کا تعلق مسیحی مذہب سے نہیں ہے اور ان کا ذکر مسیحی برادری کی مقدس کتاب انجیل میں بھی نہیں ملتامگرصدی در صدی ایسٹرسے جڑی یہ روایات پروان چڑھتی گئی۔

    اِنسائیکلوپیڈیا میں ایسٹر کے دو مشہور نشانوں یعنی انڈے اور خرگوش کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ”‏انڈا ایک نئی زندگی کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو خول توڑ کر ایک مجازی موت پر غالب آتی ہے۔‏ اِس میں یہ بھی بتایا گیا:‏ ”‏چونکہ خرگوش ایک ایسے جانور کے طور پر جانا جاتا تھا جس میں بہت زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اِس لیے وہ موسمِ‌بہار کی زرخیزی کی طرف اِشارہ کرتا تھا‘‘۔‏‏


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • تھیٹرکا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    تھیٹرکا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    پاکستان سمیت دنیا بھرمیں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے‘ وقت بدلنے کے ساتھ تھیٹر بھی اپنی جہت تبدیل کررہا ہے۔

    تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

    برصغیرکا تھیٹر


    برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے’شکنتلا‘نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    شکنتلا ڈرامے سے ماخوذ عکس

    سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔

    ملزم یامجرم- کسی کی زندگی داؤ پر ہے

    آغا حشر کا ڈرامہ یہودی کی لڑکی

    برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے‘ جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

    آغا حشر کے ڈرامے ’یہودی کی لڑکی‘ کا منظر

    بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔

    تھیٹر میں نئی جہت


    گزشتہ سال لندن میں پیش کیے جانے والے ایک ڈرامے میں روبوٹ اداکار کو پیش کر کے اس شعبے میں نئی جہت اور نئی جدت پیش کردی گئی۔ ڈرامے میں اداکاری کرنے والے فنکاروں کا کہنا ہے کہ گو روبوٹ انسانوں جیسے تاثرات تو نہیں دے سکتا، تاہم اداکاری کے شعبے میں سائنسی مشین کی شمولیت فن، محبت اور جدید ٹیکنالوجی کا بہترین امتزاج ہے۔ لندن کے بات جاپان میں بھی اس جہت ک بھرپور پذیرائی ملی اور جاپانی تھیڑ میں روبوٹ کا بکثرت استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔

    جاپانی تھیٹر کا ایک منظر

    یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی جدید فلمی دنیا میں بھی تھیٹر اپنے آپ میں ایک سحر رکھتا ہے اور اس کے اداکار و فنکار ‘ اپنے چہرے کے اتار چڑھاؤ ‘ ڈائیلاگ کی ادائیگی اور نپی تلی حرکات و سکنات سے جو ماحول تشکیل دیتے ہیں ‘ وہ ماحول دیکھنے والے کو مبہوت کردیتا ہے۔