پاکستان کے قلب لاہور میں واقع مینارپاکستان ملک کی ایک اہم قومی یادگار ہے جسے لاہور میں عین اسی جگہ تعمیرکیا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔
مینارِ پاکستان کو یادگارِپاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آج اقبال پارک کے نام سے یاد کیا جانے وال یہ پارک برطانوی دورِ حکومت میں منٹو پارک کہلاتا تھا۔
تعمیر
مینارکی تعمیرکے لیے 1960ء میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کی منظور کردہ سفارشات اورڈیزائن پراس مینارکی تشکیل ہوئی تھی۔
مینارکا ڈیزائن ترک ماہرتعمیرات نصرالدین مرات خان نے تیار کیا تھااورتعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا۔ 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔
تعمیر سے تکمیل تک
خصوصیات
یہ 18 ایکڑرقبے پرمحیط ہے۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے اورمینار کے اوپر جانے کے لیے 324 سیڑھیاں ہیں جبکہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔
مینارکا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشہابہت رکھتا ہے اوراس کی سنگِ مرمر کی دیواروں پرقرآن کی آیات، قائد اعظم محمد علی جناح اورعلامہ محمد اقبال کے اقوال اور برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی مختصرتاریخ کندہ ہے۔ اس کے علاوہ قراردادِ پاکستان کا مکمل متن بھی اردو اوربنگالی دونوں زبانوں میں مینارکی دیواروں پرکندہ کیا گیا ہے۔
مینار کے اندرونی مناظر
پاکستان کے محسن فنکار
مینار پرجو خطاطی کی گئی ہے وہ حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم، محمد صدیق الماس رقم، ابن پروین رقم اور محمد اقبال کی مرہونِ منت ہے
حفیظ جالندھری کا مزار
مینار پاکستان کے احاطے میں پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا مزاربھی ہے۔
قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی آخری آرام گاہ
مینار کا محلِ وقوع
مینار پاکستان کے اردگرد واقع اقبال پارک انتہائی خوبصورت سبزہ زار، فواروں، راہداریوں اورایک جھیل سے مزین ہے۔
مینارِپاکستان قومی اور سیاسی سرگرمیوں کا انتہائی اہم مرکز ہے اور پاکستان کے عوام اسے اپنی قومی شناخت کی علامتوں میں سے ایک علامت بھی سمجھتے ہیں۔
اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب کی آج 25 ویں برسی منائی جارہی ہے‘ ان کی بیٹی طاہرہ جالب نے اس موقع پرکہا کہ آج بھی مسائل وہی ہیں لیکن آج کوئی جالب نہیں ہے۔
آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِخرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔
آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ نظم کرنے پرہوئی۔ آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اورنشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔
جالب نے زندگی کے بارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیے‘ حوالات تو ان کا آنا جانا لگا ہی رہتا تھا
جب کوئی نیا افسرآتا تو کہتا تھا کہ باغی جالب کی فائل لے آؤ
جالب غربت کے ماحول میں جیے اور غریب کے عالم میں ہی دنیا سے گزر گئے لیکن اردو کے دامن میں مظاہمتی شاعری کا اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑگئے کہ جب بھی اردو بولنے والے نظام کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کریں گے تو رجز میں جالب کے اشعار ہی پڑھے جائیں گے۔
ان کی بیٹی طاہرہ جالب اپنے والد کے مشن سے بے پناہ متاثر ہیں اور اسے آگے بڑھانے کے لیے ان دنوں ’فکر جالب فاؤنڈیشن‘ کے نام سے ایک این جی اوکے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔
اے آروائی نیوز نے ان کی برسی کے موقع پر ان کی بیٹی ’طاہرہ جالب ‘ کا خصوصی انٹرویو کیا جس میں وہ اپنے والد کی جدوجہد اوراپنے اوران کے رشتے کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہارکررہی ہیں۔
طاہرہ جالب
طاہرہ جالب سے خصوصی گفتگو
اے آروائی نیوز: اپنے اورحبیب جالب کے رشتے کے بارے میں بتائیے‘ بحیثیت باپ آپ نے انہیں کیسا پایا؟۔
طاہرہ جالب: پہلا سوال ہی انتہائی مشکل ہے‘ ایک باپ اور بیٹی کے رشتے کو کبھی بھی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آج مجھے جو بھی عزت‘ شرف اورمحبتیں ملتی ہیں یہ سب ان کے تعلق سے ہیں۔ ان کی ساری زندگی انتہائی مصروف گزری اور ہمارے پاس مستقل طورپروہ عمر کے ان دنوں میں آئے جب ان کی طبعیت انتہائی ناساز رہنے لگی تھی۔ اس وقت میں ان کے سارے کام میں بہت شوق سے کیا کرتی تھی‘ انہیں نہلانا‘ ان کے بالوں میں کنگا کرنا۔ انہیں شدید ناگوار گزرتا تھا کہ میں انہیں جوتی پہناؤں لیکن علالت کے سبب انہیں یہ برداشت کرنا پڑا جب کہ میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔
جالب بیماری کے ایام میں امین مغل کے ہمراہ
اے آروائی نیوز: جالب نے ہتھکڑی نامی ایک نظم لکھی تھی اس کا پسِ منظر بتائیے؟
طاہرہ جالب: انہوں نے یہ نظم ہماری بڑی بہن جمیلہ نورافشاں کو مخاطب کرکے لکھی تھی اور باپ بیٹی کے وہ جذبات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہماری وہ بہن اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔
اے آروائی نیوز: جالب کئی شہروں میں مقیم رہے‘ کراچی اور لاہور میں زندگی کیسی گزری؟
طاہرہ جالب: میری پیدائش تو خیر لاہور کی ہے‘ جالب صاحب تقسیم کے بعد کراچی آئے تو ان کے بڑے بھائی مشتاق حسین مبارک جو کہ محکمہ اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر تھے۔ کراچی میں جیکب لائن میں انہیں کوارٹر ملا ہوا تھا۔ جالب صاحب انہی کے دفتر میں پیون کی حیثیت سے کام کرتے تھے ‘ وہ انتہائی مشکل دور تھا۔ تایا کے اپنے پانچ بچے تھے اورپھر ہم لوگ بھی انہی کے ساتھ اس کوارٹر میں رہا کرتے تھے۔ لاہور آئے تو یہاں پہلے سنت نگر میں رہے تو وہاں بھی مشکلات درپیش رہیں الغرض آرام دہ زندگی کبھی نہیں گزری۔
اے آر وائی نیوز: جالب صاحب جن دنوں جیل میں ہوا کرتے تھے تو ان مشکل ایام میں کون لوگ ساتھ دیا کرتے تھے؟
طاہرہ جالب: ابو نے کُل 12 سال کا عرصہ جیل میں گزارا ہے اور سب سے طویل وقت جو ان کا جیل میں گزرا وہ ضیا الحق کے دور کا تھا جب انہوں نے پونے دو سال جیل میں گزارے۔ اس عرصے میں ان کے جیل سے پیغامات اپنے دوستوں کے نام ‘ محلے کے دوکانداروں کےنام آتے تھے کہ میرے گھر والوں کا خیال رکھنا انہیں راشن وغیرہ کی کمی نہ ہو‘ میں باہر آتے ہی قرضہ ادا کردوں گا تو یہ سارے لوگ بہت خیال رکھتے تھے۔
جالب کی گرفتاری کا منظر
اس کے علاوہ جن نامور لوگوں نے ان مشکل اوقات میں ہماری مدد کی ان میں کشور ناہید آنٹی کو میں کبھی نہیں بھول سکتی‘ احسان صاحب تھے‘ منٹو انکل کی طرف سے پیغامات آتے رہتے تھے اور وہ مالی مدد بھی کردیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ اعتزاز احسن بھی اکثرآیا کرتے تھے اورجب جالب صاحب رہا ہوجاتے تو یہی سارے افراد ہمارے ڈیڑھ کمرے کے کچے گھر میں جمع رہتے اور ہمارے ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھاتے پیتے تھے۔
اے آروائی نیوز: کہتے ہیں کہ ایک کامیاب شخص کی پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘ کیا بیگم ممتاز جالب وہ خاتون ہیں جنہوں نے جالب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا؟
طاہرہ جالب: جی! یقیناً ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام مرد کے پیچھے عورتوں کا لیکن جالب کا معاملہ الگ ہے ان کی کامیابی کے پیچھے تین خواتین کا ہاتھ ہے۔
سب سے پہلے تو میری دادی اور جالب صاحب کی والدہ رابعہ بصری جن کی تربیت نے جالب کو حق گوئی کا عادی بنایا اور اتنا بے باک بنایا کہ مصائب کا سامنا کرکے بھی کلمۂ حق نہ چھوڑا جائے۔
دوسری جالب کی بہن اور میری پھوپی رشیدہ بیگم کہ جن کی محنت کے سبب جالب کا پہلا مجموعہ کلام برگِ آوارہ ممکن ہوا ورنہ جالب خود اس قدر لاپرواہ تھے کہ اپنا کلام کاغذ کے ٹکڑوں اور سگریٹ کے ڈبوں پر لکھ کر ادھر ادھر رکھ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اس سب کلام کو سنبھال کر رکھا اور جالب کو فکری تحریک بھی دیتی رہیں۔
بیگم ممتازجالب کا کردار
اور اب بات کرتے ہیں میری والدہ بیگم ممتاز جالب کی‘ یقیناً ان کا بہت بڑا کردار ہے اور میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہی کہ وہ میری ماں ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں بہت ایثار کیا۔ جالب کبھی بھی کسی بھی ایسے موقع پر موجود نہیں ہوتے تھے جب ایک بیوی کو اپنے شوہر کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے خصوصاً بچوں کی پیدائش کے موقع پر بھی۔ لیکن انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا اور والد کو کبھی روز مرہ کی ضروریات کمانے کے لیے مجبورکیا بلکہ ہمیشہ اپنے پھٹے کپڑوں اور تنگی پر راضی رہیں اور ہمیں بھی یہی تربیت دی۔
یقین کریں کہ والد کی وفات کے بعد اگر کسی موقع پر ہم نے حکومت کی جانب سے کوئی امداد حالات کے تقاضے کے تحت قبول کی تو ہمارے گھرمیں لڑائی ہوجاتی تھی اوروالدہ یہی کہا کرتی تھیں کہ ’یہ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا جالب ہوتے تو وہ کبھی نہیں لیتے‘۔
اےآروائی نیوز: کیا آج بھی عوام کو بیدار کرنے والی جالب کی شاعری کے اثرات موجود ہیں؟
طاہرہ جالب: دیکھیں! صورتحال ایسی ہے کہ سب اچھے بھی نہیں اور سب برے بھی نہیں۔ میں جالب کی بیٹی ہوں مجھے ورثے میں ملا ہے کہ میں کسی بھی طور آمریت کو قبول نہیں کرسکتی۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ جمہوری دور ہو یا آمرانہ ‘ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے رولز اینڈ ریگولیشن آتے تھے اور جالب ان کے خلاف بغاوت کرتے تھے۔ آج بھی جمہوری دور ہے اور ایسے قوانین آتے ہیں لیکن اب کوئی ساغر نہیں‘ کوئی ساحرنہیں اورنہ ہی کوئی جالب ہے کہ جو بغاوت کا علم بلند کرے‘ آج عوام کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔
اے آروائی نیوز: برسرِاقتدار حلقے جب جالب کی نظمیں پڑھتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟
طاہرہ جالب: ہنستے ہوئے! دیکھے اب اگرکوئی جالب کو پسند کرتا ہے اوران کا کلام پڑھتا ہے تو میں اسے روک نہیں سکتی لیکن مجھے اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ جالب کا کلام پڑھ کر حکمراں طبقے ان کی روح کو کچوکے لگاتے ہیں‘ کیونکہ جالب جن محلات کے خلاف تھے وہ انہیں حکمرانوں کے ہیں۔ انہوں نے پرائیویٹائزیشن کے نام پر مزدور کے منہ سے روٹی چھینی ہے‘ کیا وہ جانتے ہیں کہ محنت کش کے پسینے میں گندھی روٹی کاذائقہ کیسا ہے؟ نہیں نہ تو پھر انہیں جالب کا کلام نہیں پڑھنا چاہیے۔
لاہور: شہر کے علاقے شمالی چھاؤنی میں ڈولفن اسکواڈ نے بروقت کارروائی کر تے ہوئے کمسن بچے کے اغوا کی کوشش ناکام بنا دی ‘ ایک ملزم گرفتار جبکہ اس کا ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ۔
ڈولفن پولیس کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ملزم اظہر اپنے ساتھی کے ساتھ بچے کو اغوا کرکے فرار ہورہا تھا کہ لوگوں کے شور پر ڈولفن سکواڈ موقع پر پہنچی اور اغوا کار کو دبوچ کر بچے کے اغوا کی کوشش ناکام بنا دی۔
ذرائع ڈولفن سکواڈ کا کہنا ہے کہ اغوا کار کا ایک ساتھی جس کا نام ندیم ہے موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ ڈولفن سکواڈ نے مغوی بچے کو بازیاب کروا کے اس کے والدین کے حوالے کر دیا۔
ڈولفن سکواڈ نے ملزم اظہر کو حراست میں لے کر متعلقہ تھانے کی پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔پولیس کے مطابق ملزم اظہر مری کا رہائشی ہے اور اس کے فرار ہونے والے ساتھی کی معلومات مقامی پولیس کو فراہم کر دی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سنہ 2016 میں شاہدرہ کے علاقے میں رکشہ ڈرائیور سات سالہ امجد کو رکشے میں اغواءکر کے لے جا رہا تھا کہ شاہدرہ چوک میں ڈیوٹی پر مامور ٹریفک وارڈن نے بچے کو زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر رکشے کو روکا اور بچے کو بازیاب کرا کے رکشہ ڈرائیور کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔
دوسری جانب 8سالہ فیضان داتا دربار کے اطراف پریشان حال میں گھوم رہا تھا کہ قریب ڈیوٹی پر موجود ٹریفک وارڈن نے شناخت نہ بتا پانے پر بچے کو متعلقہ تھانے پہنچادیا،پولیس کا کہنا ہے کہ بچہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی شناخت درست طریقے سے نہیں بتا پا رہا ہے اس لیے حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ بچہ اغواء ہوا تھا یا گمشدہ تھا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔
آوٗپھرجوش کو دے کرلقبِ شاہ ِسخن
دل و دینِ سخن، جانِ ہنرتازہ کریں
جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔
انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔
عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے
جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔
رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں
اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں
کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔
اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے
ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔
22 فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔
کراچی: آج بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دوسری زوجہ مریم جناح المعروف رتی جناح کی 118 ویں سالگرہ اور89 ویں برسی ہے‘ آپ بیماری کے سبب کم عمری میں انتقال کرگئی تھیں۔
پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والی رتن بائی 20 فروری 1900کو پیدا ہوئی تھیں اورقائداعظم محمد علی جناح کی دوسری بیوی تھیں۔ شادی سے ایک دن قبل انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرکےاسلام قبول کیا تھا اور ان کا اسلامی نام مریم جناح رکھا گیا تھا۔ان کا نکاح مولانا حسن نجفی نے پڑھایا تھا۔
رتی جناح سرڈنشا پٹیٹ کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ان کا خاندان کپڑے کی صنعت میں بہت بڑا نام تھا۔
رتی جناح شاعری اورسیاست میں انتہائی شغف رکھتی تھیں اور ان کے انہی مشاغل کی وجہ سے ان کی ملاقات قائداعظم سے ہوئی۔
قائد اعظم اور رتی جناح کی شادی 19 اپریل 1918 کو بمبئی میں ہوئی جس میں صرف قریبی احباب کو مدعو کیا گیا تھا۔ شادی کی انگوٹھی راجہ صاحب محمودآباد نے تحفے میں دی تھی۔
برصغیر کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال نے قائداعظم کی سیاسی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا اور اکثر انہی مصروفیات کی وجہ سے شہر سے باہر بھی رہا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں میاں بیوی میں اختلافات رونما ہونے لگے اور ایک وقت وہ آیا جب رتی اپنا گھر چھوڑ کر ایک ہوٹل میں منتقل ہوگئیں۔ 1928ء میں وہ شدید بیمار پڑیں اور علاج کے لیے پیرس چلی گئیں۔
قائداعظم کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ بھی ان کی تیمارداری کے لیے پیرس پہنچ گئے اور ایک ماہ تک ان کے ساتھ رہے۔ یوں ان دونوں کے تعلقات ایک مرتبہ پھر بحال ہوگئے۔ چند ماہ بعد رتی جناح وطن واپس آ گئیں مگر ان کی طبیعت نہ سنبھل سکی اور 20 فروری 1929ء کو انکی 29 ویں سالگرہ کے دن ان کا انتقال ہوگیا۔
قائد اعظم ایک انتہائی مضبوط اعصابی قوت کے مالک شخصیت تھے اورانہیں عوام میں صرف دو مواقع پرروتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایک بارتب جب انہیں ان کی چہیتی زوجہ کی قبر پر مٹی ڈالنے کا کہا گیا‘ اور ایک باراگست 1947 میں کہ جب وہ آخری مرتبہ اپنی شریکِ حیات کی قبر پر تشریف لائے تھے۔
اُن کی واحد اولاد‘ دینا جناح کی پیدائش 15 اگست 1919ء کو لندن میں ہوئی اور انہوں نے گزشتہ سال 2 نومبر 2017ء کو نیویارک میں وفات پائی ۔
رتی جناح پر لکھی جانے والی کچھ اہم کتابیں
تصاویر بشکریہ : معروف محقق اور اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری
بر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
اے آروائی کے پروگرام جیتو پاکستان کے خصوصی پروگرام میں کراچی کنگز کی ٹیم لانچنگ اور تھیم سانگ لانچنگ کی خصوصی تقریب منعقد ہوئی‘ اس موقع پر ٹیم انتظامیہ‘ کھلاڑی اور معزز اسپانسرز بھی موجود تھے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے گیم شو’جیتو پاکستان‘ کے خصوصی پروگرام کی میزبانی فہد مصطفےٰ اور وسیم بادامی نے کی ‘ اس موقع پر ٹیم کے مالک سلمان اقبال کا کہنا تھا کہ کراچی کنگز محض ایک ٹیم نہیں بلکہ ایک خاندان ہے۔
لانچنگ کی تقریب سے قبل ٹیم مالکان ‘ انتظامیہ اور کھلاڑیوں نے اپنے مداحوں اور اسپانسرز کے ساتھ بھرپور وقت گزارا۔ اس موقع پر کراچی کنگز کے مالک سلمان اقبا ل اور ان کی مکمل ٹیم، صدر شاہد خان آفریدی، کپتان عماد وسیم، بابر اعظم، عثمان خان، اسامہ میر، تابش خان، حسن محسن، خرم منظور، محمد رضوان، مشتاق کلہوڑو، سیف اللہ بنگش، محمد طحہٰ، محمد عرفان اور روی بوپارا موجود تھے۔
کراچی کنگز کی جانب سے سجائی گئی اس رنگا رنگ تقریب میں ٹیم اینتھم ’دے دھنادن‘ کی لانچنگ بھی کی گئی جس پر معروف گلوکار شہزاد رائے نے پرفارم کیا ۔گانے کی ویڈیو میں بوم بوم شاہد آفریدی، عماد وسیم، محمد عامر اور بابر اعظم نے بھی اپنا جلوہ دکھایا ہے
‘کراچی کنگز محض ٹیم نہیں بلکہ ایک خاندان ہے’
اس موقع پر ٹیم کے مالک جناب سلمان اقبال کا کہنا تھا کہ ’’کراچی کنگز ہم سب کا ہے ‘ یہ ٹیم سے بڑھ کر ایک خاندان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر یقین ہیں کہ یہ خاندان پی ایس ایل کے اس سیزن میں اپنے جذبے اور محنت سے کامیابی حاصل کرے گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فائنل کا انعقاد کراچی میں ہوگا اور ہمارے لیے یہ فخر کا مقام ہوگا کہ ہم اپنے گھر کے میدان میں اپنے لوگوں کے درمیان فاتح کے طور پر کھڑے ہوں۔ انہوں نے اس موقع پر روی بوپارا کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ وہ ٹیم کی لانچنگ کے لیے کراچی تشریف لائے‘ اس سے پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے ابھرے گا۔ جو کہ ہمیشہ سے ہمارا مقصد رہا ہے‘‘۔
اس خوبصورت شام کو یاد گار بنانے کے لیے فیصل قریشی اور صنم بلوچ بھی موجود تھے۔ دی آرکیڈین کے چیئرمین عقیل کریم ڈھیڈی، فوجی فاؤنڈیشن کے شعبہ کارپوریٹ کمیونیکیشن کے سربراہ بریگیڈیر مجتبیٰ۔ کراچی کنگز کے سی ای او طارق وصی اور ٹیم ڈائریکٹر راشد لطیف خصوصی طور پر موجود تھے۔
اس خوبصورت شام کو یادگار بنانے کے لیے کراچی کنگز ٹیم کی انتظامیہ اور ممبران اپنے مداحوں کی محبت کے شکرگزار ہیں اور اس موقع پر اپنے اسپانسرز کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ’بحریہ ٹاؤن ‘ – کراچی کنگز کا ٹائی ٹینیم اسپانسر ہے جبکہ’نور پور‘ اور’دی آرکیڈین‘ کراچی کنگز کے پلاٹینیم اسپانسرز ہیں۔ ٹیم کی آفیشل سپر مارکیٹ -’امتیاز سپر اسٹور‘ہے ، ’برائیٹو پینٹ‘ ہمارے پینٹ پارٹنر ہیں جبکہ ہمارا ہوم گراؤنڈ پارٹنر ’نیا ناظم آباد‘ہے۔
ایونٹ کی تصویری جھلکیاں
ٹیم کے مالک جناب سلمان اقبال تقریب سےخطاب کرتے ہوئےشاہد خان آفریدی دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ خوش گوار انداز میںگفتگو کا ایک منظرصنم بلوچ اور فہد مصطفیٰ – شرکاء کو محضوظ کرتے ہوئےوسیم بادامی – پرجوش انداز میںاے آروائی انتظامیہ
بیجنگ: چین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سالِ نوکا جشن منایا جارہا ہے‘ اس سال کو ’کتے کا سال‘ قرار دیا گیا ہے۔تقریبات لگ بھگ دو ہفتے تک جاری رہیں گی۔ اس موقع پر چینی قوم اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتی ہے اور وہاں سالانہ دعوتوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چین میں قمری تاریخ سے شروع ہونے والے سالِ نو کی تقریبات کا آغاز ہوچکا ہے‘ اس سال یہ 16 فروری سے شروع ہورہا ہے‘ عمومی طور پر اس کا آغاز 21 جنوری سے 20 فروری کے درمیان کسی دن ہوتا ہے۔ اس سال کو قدیم چینی روایات کے اعتبار سے ’کتے کا سال‘ قراردیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں موجود چینی اس موقع پر آتش بازی اور روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں‘ گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں اور شیروں کا روایتی رقص بھی منعقد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر چینی اپنے گھروں کی مکمل صفائی کرتے ہیں‘ ان کا عقیدہ ہے کہ ایسا کرنےسے ’بدقسمتی‘ کو ان کے گھر میں جگہ نہیں ملتی۔
چینی خاندان اس موقع پر سالانہ دعوت کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنے آبائی علاقوں کا رخ کیا جاتا ہے جہاں سال میں ایک مرتبہ سب مل کر بیٹھتے ہیں اور اپنے رشتوں کی تجدید کرتے ہیں۔ اس اہم تہوار پر بچوں کو نقد رقم (عیدی) بطور تحفہ دی جاتی ہے‘ چین کے بچے اب تحفہ قبول کرنے کے لیے ڈیجیٹل موبائل ایپ کا بھی استعمال کررہے ہیں۔
نئےچینی سال کےآمدکی تقریبات کے سلسلے میں چین کے علاوہ تھائی لینڈ ‘ تائیوان اور جاپان میں بھی تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے ۔تھائی لینڈکےمحکمہ سیاحت کے حکام پرامید ہیں کہ اس سال چین سےتین لاکھ سیاح آئیں گے اس جشن میں شرکت کے لیے تھائی لینڈ آئیں گے یعنی اس سال اٹھارہ فیصد زائدچینی سیاحوں کی آمد متوقع ہے۔ تھائی لینڈکے محکمہ سیاحت کو اس موقع پر ڈھائی ارب ڈالر سےزائد کی آمدنی ہوگی۔
چینی ہرسال کو کسی جانور سے منسوب کرتے ہیں‘ اس سال کو ’کتے کا سال ‘ قرار دیا گیا ہے۔چینیِ سال نو یا آمد بہار کا تہوار تائیوانی تہذیب کے تہواروں میں سے سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے، اس لیے اسے چین سے باہر رہنے والے لوگ تائیوانی سال نو بھی کہتے ہیں۔ مشرقی ایشیائی ممالک میں منایا جانے والا یہ تہوار چینی کیلنڈر کے پہلے قمری مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع ہوتا ہے اور پندرہ تاریخ کو ختم ہوتا ہے۔
یہ تہوار جہاں چین میں روایتی جوش و خروش اور تقاریب کے انعقاد سے منایا جاتا اسی طرح چین سے باہر رہنے والے چینی بھی اپنے رہائشی ممالک میں یہ تہوار مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ تہوار اور اس سے متعلقہ تقاریب کے اثرات چین کے دیگر ہمسایہ ممالک تھائی لینڈ ، کوریا، جاپان، نیپال، بھوٹان، ویت نام، فلپائن، سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا کی روایتی تقاریب پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
قدیم چینی روایات کے مطابق جیڈ نامی شہنشاہ جو کہ سب سے قدیم بادشاہ اور ہر قسم کی طاقتوں کا منبع ہے ‘ اس نے تمام جانوروں کو ایک دوسرے سے ریس لگانے کا حکم دیا اور دوڑ میں سب سے آگے رہنے والے بارہ جانوروں کے نام پر سال کے بارہ مہینوں کے نام رکھے اور ہر نئے چینی سال کو انہی میں سے کسی جانور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ قدیم روایات میں جیڈ شہنشاہ کو کائنات کا پردادا بھی تصور کیا جاتا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
وزارتِ داخلہ اورایف آئی اے نے اعلان کیا ہے کہ دوہری شہریت کے حامل اوورسیز پاکستانی اپنے نائیکوپ ( بیرون ملک مقیم شہریوں کو جاری کیا جانے والا کارڈ)کارڈکے بغیر بھی پاکستان میں بغیر ویزے کے انٹری حاصل کرسکیں گے۔
تفصیلات کےمطابق وزارتِ داخلہ اور ایف آئی اے امیگریشن ونگ کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی پاسپورٹ پر وطن عزیز آنے والے پاکستانی ‘ ملک میں بغیر ویزے کے انٹری حاصل کرسکیں گے‘ اور اپنا نائیکوپ یہی سے حاصل کرسکیں گے۔
انٹری کے لیے جو شرائط وضع کی گئی ہیں ان کے تحت مسافر کے پاس بیرونِ ملک سے نائیکوپ کارڈ کی تجدید کے لیے دی گئی درخواست کی رسید ہونا بھی کافی ہے۔
ایک اور صورت یہ ہے کہ مسافر ایئر پورٹ پر ایف آئی حکام سے رابطہ کرے اور اپنی پاکستانی شہریت ثابت کرکے لینڈنگ پرمٹ حاصل کرے۔ یہ پرمٹ آئندہ 72 گھنٹے کے لیے کارآمد ہوگا۔ اس اثنا ء میں مسافر کو نادرا سنٹر جاکر اپنے نائیکوپ کی تجدید کرانا ہوگی‘ اس سلسلے میں مسافر ایئرپورٹ پر موجود نادرا سنٹر سے بھی رابطہ کرسکتا ہےاور اپنے قریبی مرکز بھی جاسکتا ہے۔
پاکستانی شہریت ثابت کرنے کے لیے زائد المعیاد نائیکوپ کارڈ‘ شناختی کارڈ ‘ والدین کے شناختی کارڈ ‘ پاکستانی شریکِ حیات کا شناختی کارڈ اور میرج سرٹیفکٹ یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری دستاویز پیش کرنا ہوگی جو کہ مسافر کا پاکستان کا شہری ثابت کرتی ہوں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملک و قوم کا اثاثہ ہیں اور انہیں پاکستان میں خوش آمدید کہا جائے گا اور بھرپور کوشش کی جائے گی کہ ملک میں داخلے اور اخراج کے وقت انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
ہوا پرصوتی لہروں کا سفر زیادہ پرانی بات نہیں اور آج ساری دنیا کا نظام ہی ہوا میں قائم برقی لہروں کے جال کی مدد سے چل رہا ہے۔ اس سب کی شروعات سنہ 1880 میں ہوئی جب مشہور موجد گگلیلمو مارکونی نے اپنے پیشرو ہرٹز کے برقی لہروں کے نظام کو پڑھنا شروع کیا۔ بعد میں مارکونی نے ایک اور سائنسدان ٹیسلا کے کام کو بھی آگے بڑھایا۔
بالاخر مارکونی اپنے بنائے ہوئے نظام کے تحت پہلے اپنی تجربہ گاہ میں گھنٹی بجانے، اور پھر اپنی تجربہ گاہ سے 322 میٹر دور واقع اپنی رہائش گاہ پر صوتی لہروں کو نشرکرنے میں کامیاب ہوگیا۔
دو مارچ سنہ 1897 میں مارکونی نے اپنی ایجاد کو برٹش پیٹنٹ نمبر 12039 کے تحت اپنے نام پر پیٹنٹ کروایا اور مارکونی لمیٹد نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہ کمپنی بعد ازاں وائر لیس ٹیلی گراف ٹریڈنگ سنگل کمپنی کے نام سے مشہور ہوئی۔
ابتدائی طور پر یہ کام صرف ٹیلی گراف بھیجنے تک محدود تھا۔ اس سلسلے میں طبیعات کا جو قانون استعمال کیا جاتا ہے اسے ’مارکونی لاء‘ کا نام دیا گیا۔
اسی عرصے میں کنگ ایڈورڈ ہشتم جو اس وقت پرنس آف ویلز تھے، شاہی کشتی پر ایک سفر کے دوران زخمی ہوگئے جس کے بعد ان کی درخواست پر مارکونی نے شاہی کشتی میں اپنا ریڈیو کا نظام نصب کیا۔ ٹائی ٹینک کے حادثے کے بعد ریڈیو کا استعمال ہر قسم کی جہاز رانی میں لازمی قرار دے دیا گیا۔
سنہ 1919 میں پہلی بار امریکی شہر میڈیسن میں واقع یونیورسٹی آف وسکنسن نے انسانی آواز کو صوتی لہروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر نشر کیا۔
امریکا کے شعبہ کامرس کے اعداد و شمار کے مطابق ریڈیو کا پہلا تجارتی لائسنس 15 ستمبر 1921 کو اسپرنگ فیلڈ میسا چوسٹس کے ڈبلیو بی زیڈ اسٹیشن کو دیا گیا۔ گویا 15 ستمبر 1921 ریڈیو کے بطور تجارتی مقاصد استعمال کا پہلا دن تھا یعنی اس کی ایجاد کے لگ بھگ 20 سال بعد۔
برصغیرمیں ریڈیو کی آمد
برصغیر پاک و ہند میں مارچ 1926 میں انڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نجی حیثیت میں قائم ہوئی اور اس نے جولائی 1927 میں بمبئی میں پہلا اسٹیشن قائم کر کے ہندوستان میں باقاعدہ نشریات کا آغاز کیا۔
ستمبر 1939 میں دہلی سے تمام زبانوں میں خبرنامہ نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
بارہ نومبر سنہ 1939 وہ تاریخ ساز دن تھا جب عید کے روز قائد اعظم محمد علی جناح نے انڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن جو اب آل انڈیا ریڈیو بن چکا تھا، اس کے بمبئی اسٹیشن سے تاریخ ساز خطاب کیا۔
تین جون 1947 کو قائد اعظم نے اس تاریخ ساز ادارے کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خود مختار ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔
آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو پاکستان کا سفر
چودہ اگست 1947 نہ صرف مسلمانان ہند کے لیے بلکہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے لیے بھی تاریخ ساز دن تھا، جب اس ادارے نے ایک نئے ادارے کی حیثیت سے مملکت خداداد پاکستان کے قیام کا اعلان کیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام تبدیل کرکے ریڈیو پاکستان رکھا گیا۔
آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان نے اپنی مستحکم شناخت بنائی اور اردو کے علاوہ 20 علاقائی زبانوں کو رابطے کے ذرائع کے طور پر استعمال کر کے اور جدید مواصلاتی مہارت کے استعمال کے ذریعے معلومات کی نشر و اشاعت، پاکستانی قومیت، اس کے نظام اور ثقافت کے احترام کے جذبات کو فروغ دیا۔
سنہ 2008 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اطلاعات کی ترسیل میں ریڈیو کے کردار کو سراہنے کے لیے 13 فروری کو ریڈیو کے عالمی دن کے طورپرمنانے کا اعلان کیا۔ یہ دن سنہ 1946 میں اقوام متحدہ کے ریڈیو کے قیام کا دن ہے۔
اردو ادب کی شاہکار تصنیف ’راجہ گدھ‘ اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ کی پہلی برسی منائی جارہی ہے‘ داستان سرائے کی اس مکین کے رخصت ہونے سے اردو ادب ایک بے مثال و بے بدل مصنف سے محروم ہوگیا۔
مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ 28 نومبر سنہ 1928 کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا۔
سنہ 1950 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اورمشہور افسانہ نگاراورڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ معروف مصنف ممتاز مفتی اپنی تصنیف ’الکھ نگری‘ میں ان کی شادی کا قصہ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ایک غیر پٹھان لڑکی سے ان کی شادی پر آمادہ نہیں تھا، اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔
شادی کے بعد بانو قدسیہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ میں ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔
بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔
ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہر لا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔
انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔
ممتاز مفتی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، ’پہلی مرتبہ میں نے بانو کو اس وقت سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا، امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائینگ روم میں چلی گئیں۔
پھرڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کر رہی تھی۔ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال، انداز بیان کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی۔
میں حیرت سے سن رہا تھا۔ اللہ اندر تو قدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کر رہی ہے۔ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، کون ہے کرتی تھی۔ تب مجھے پتہ چلا بانو کون ہے‘۔
اپنے ناول راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے ایک کردار پروفیسر سہیل کی زبانی حرام اور حلال کے نظریے کو نہایت انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے، لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہین پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں‘۔
بانو قدسیہ چار فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئی تھیں‘ جس کے بعد اردو ادب کا ایک اورباب بند ہوگیا۔ انہیں ان کے محبوب شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔