Author: فواد رضا

  • صدر ممنون نے سب سے بڑی’ آن لائن اردو لغت‘ کاباضابطہ افتتاح کردیا

    صدر ممنون نے سب سے بڑی’ آن لائن اردو لغت‘ کاباضابطہ افتتاح کردیا

    اسلام آباد: صدر ِ پاکستان ممنون حسین نے اردو کی جامع ا ور جدید ترین اردو لغت کے آئن لائن ایڈیشن کاباضابطہ افتتاح کردیا ہے‘ 22 جلدوں پر مشتمل اردو ڈکشنری بورڈ کی اس لغت کا مفت آن لائن ورژن دنیا بھر میں اردو کے مداحوں کے لیے خوش خبری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق 22 جنوری 2018 کو ایوانِ صدر میں ہونےو الی ایک پروقار تقریب میں اس عظیم ای لغت کا افتتاح کیا گیا۔ کئی عشروں کی محنت سے تیار ہونے والی 22 جلدوں پر مشتمل اردو لغت کے آن لائن ایڈیشن کے ذریعے 22 ہزار صفحات اورتقریباً 2 لاکھ 64 ہزار الفاظ پر مشتمل علمی خزانہ اب انٹرنیٹ پردستیاب ہو گا‘ موبائل سے آسان رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک مخصوص ’’ایپ‘‘ بھی تیار کی گئی ہے۔

    اس موقع پر صدر مملکت ممنو ن حسین کا کہنا تھاکہ ثقافتی یلغارمنظم تہذیبوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اردو لغت کے ایک ہزار سال کی ثقافتی روایت کو محفوظ کر دیا جس سے مستقبل میں اردو کے قدردان جدید تقاضوں کے مطابق بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔

     

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہاکہ آج ہماری زبان تہذیبی جاہ وجلال کے ساتھ بڑی عالمی زبانوں کی صف میں شامل ہو گئی ہے۔ کامیابیوں کا یہ سفرمستقبل میں بھی جاری رہے گا اور ادب و ثقافت کا یہ پرچم پوری دنیا میں آب و تاب سے لہراتا رہے گا‘ اپنی ثقافت مضبوط ہو تو بیرونی ثقافتوں کی یلغار کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا ہے۔

    online Urdu Lughat

    انہوں مزید کہا کہ اردو لغت کے آن لائن ایڈیشن کے ذریعے پوری دنیا میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر نے یقین دلایاکہ حکومت لغت کے حوالے سے کام کرنے والوں کی ضرورت پوری کرتی رہے گی۔

    اردو لغت کے انٹرنیٹ ایڈیشن کے اجرا کی تقریب میں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویڑن عرفان صدیقی اور چیف ایڈیٹر اردو ڈکشنری بورڈ عقیل عباس جعفری نے    بھی خطاب کیا جن کی محنت ِ شاقہ کے نتیجے میں یہ ڈکشنری آن لائن کی دنیا میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔عقین عباس جعفری کے مطابق اردو لغت بورڈ نے  اس عظیم الشان لغت کی بائیس جلدیں دو سی ڈیزمیں  بھی منتقل کردیں ہیں ۔ ایک سی ڈی میں گیارہ جلدیں محفوظ کی گئی ہیں۔ یہ سی ڈیز کا سیٹ ان افراد کے لیے کارآمد ثابت ہوگا جو ہر وقت آن لائن نہیں رہ سکتے۔عنقریب انہیں بھی اہلِ علم کی خدمت پیش کردیا جائے گا ۔

    انہوں نے مسرت کا اظہار کیا کہ بائیس جلدوں پر مشتمل اردولغت نہ صرف زبان کی تاریخ اور اس کی دیگر تمام نزاکتوں کا پوری جامعیت سے احاطہ کرتی ہے بلکہ ہماری ایک ہزار برس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت کو بھی سامنے لاتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • لفظوں سے نشتر کا کام لینے والے منٹو کی آج 63 ویں برسی ہے

    لفظوں سے نشتر کا کام لینے والے منٹو کی آج 63 ویں برسی ہے

    آج اردو زبان کے منفرد اورنامورمصنف سعادت حسن منٹو کی 63 ویں برسی ہے، اپنے تلخ مضامین کے سبب معاشرے کی مزاحمت کا سامنا کرنے والے منٹو18 جنوری 1955 کو اس دنیا سے گزر گئے‘ ان کا بیباک اندازِتحریراور معاشرے کی منافقانہ روش سے بغاوت ان کی وجۂ شہرت بنا۔

    ‎ اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے بیباک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی کو 1912پنجاب ہندوستان کےضلع لدھیانہ کے شہرشملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری النسل ‘ خوبرو‘ فیشن ایبل‘ صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والے اور مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والے منٹو اپنے عہد کے ادیبوں میں انتہائی نمایاں شخصیت کا مالک تھے ‘ تاہم پاکستان آنے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے منٹو محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے۔

    ‎ منٹو کاقلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنےوالا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچارکیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر‘ دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کئےجاتے تھے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا اور اسی طرح مزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کر ان قلم رقم طراز ہوتارہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کاہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد‘ سیاہ حاشیے‘ لاؤڈ اسپیکر‘ ٹھنڈا گوشت‘ کھول دو‘ گنجے فرشتے‘ شکاری عورتیں‘ نمرود کی خدائی‘ کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمر کے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے   بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوی صفیہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں تھی۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کو سالگرہ مبارک

    قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کو سالگرہ مبارک

    آج اردو زبان کے شہرہ آفاق شاعراورپاکستان کے قومی ترانے کے خالق ابولاثرحفیظ جالندھری کی 118ویں سالگرہ منائی جارہی ہے ‘ آپ 82 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    حفیظ جالندھری ایک نامورشاعراورنثرنگارہیں آپ 14 جنوری 1900 کو ہندوستان کے شہر جالندھرمیں پیداہوئے اور آزادی کے وقت آپ لاہورمنتقل ہوگئے، آپ کا قلمی نام ’ابولاثر‘ تھا۔

    آپ کا فنی کارنامہ اسلام کی منظوم تاریخ ہے جس کا نام ’شاہ نامۂ اسلام‘ ہے لیکن آپ کی وجۂ شہرت پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کوشاعرِاسلام اورشاعرِپاکستان کے خطابات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دیگراعزازات میں انہیں ہلال امتیازاورتمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں
    کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

    آپ کا موضوع سخن فلسفہ اورحب الوطنی ہے آپ کی بچوں کے لئے لکھی تحریریں بھی بے حد مقبول ہیں۔

    آپ غزلیہ شاعری میں کامل ویکتاتھے، 1925 میں’نغمہ زار‘کے نام سے حفیظ کاپہلامجموعہ کلام شائع ہوا۔ ملکہ پکھراج کاگایاہوا شہرہ آفاق گیت ابھی’تومیں جوان ہوں‘بھی اسی مجموعے میں شامل تھا۔

    آخر کوئی صورت تو بنے خانہٴ دل کی
    کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے

    اس کے بعد سوزوساز، تلخابہ شیریں، چراغ سحر اوربزم نہیں رزم کے عنوانات سے ان کے مجموعہ ہائے کلام سامنے آئے۔

    دیکھا جو تیرکھا کہ کمیں گاہ کی طرف
    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

    حفیظ جالندھری21دسمبر 1982 کو انتقال فرماگئے تھے ‘ اس وقت آپ کی عمر82 سال تھی۔

    شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
    یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آج احمد فرازکا 87 واں یومِ پیدائش ہے

    آج احمد فرازکا 87 واں یومِ پیدائش ہے

    اسلام آباد: اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعر فرازاحمد فرازؔ کاآج87 واں یومِ پیدائش ہے‘ آپ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ءکو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔

    [ps2id url=’#heading1′]
    احمد فراز کے مشاعرے کی ویڈیو دیکھنے کے لئے نیچے اسکرول کیجئیے

    [/ps2id]

    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہردورمیں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اورجلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

    [ps2id_wrap id=’heading1′]

    [/ps2id_wrap]

  • بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے اقدامات

    بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے اقدامات

    پاکستانی معاشرہ اخلاقی طور پرانحطاط کا شکار ہے جس کے سبب معاشرے میں جرائم کی شرح بے پناہ بڑھ گئی ہے جن میں سرِفہرست بچوں کے ساتھ سرزد ہونے والے جنسی جرائم ہیں۔

    گزشتہ روز قصور میں آٹھ سالہ زینب کی آبرو بریدہ نعش کچرے کے ڈھیر سے ملی جس سے نہ صرف قصور میں بلکہ پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی‘ قصور شہر میں عوام نے ہڑتال کی اور ننھی زینب کے جنازے میں شریک ہوئے‘ جبکہ سوشل میڈیا پر ملک بھر سے ملزمان کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

    بتایا جارہا ہے کہ قصور شہر میں یہ اس نوعیت کا دسواں واقعہ ہے اور آج سے تین سال قبل بھی قصور کے ہی ایک واقعے کی گونج ساری دنیا میں سنی گئی تھی  جب انکشاف ہوا کہ کچھ با اثرملزمان نے نہ صرف یہ کہ 286 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی بلکہ انکی ویڈیو بنا کر طویل عرصے تک انہیں بلیک میل کرتے رہے۔

    اس نوعیت کے سنگین جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو کچھ باتیں احتیاطی تدابیرکو طور پرسکھائی جائیں اور والدین خود بھی اپنےبچوں کی سرگرمیوں پر سخت نظر رکھیں چاہے وہ ابھی کمسن ہوں یا تازہ تازہ سنِ بلوغت کوپہنچے ہوں۔


    احتیاطی تدابیر


    اپنی بچوں بالخصوص بیٹیوں کو خبردار کریں کہ کبھی کسی کی گود میں نہ بیٹھیں چاہے وہ ان کے قریبی رشتےدار کیوں نہ ہوں۔

    جیسے ہی آپ کے بچے دوسال کی عمر کو پہنچیں ان کے سامنے لباس تبدیل کرنا ترک کردیں اور ان کا لباس بھی تنہائی میں تبدیل کرائیں۔

    کبھی کسی بڑے کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کے بچے کو ’میری بیوی‘یا ’میرا شوہر ‘ کہہ کر پکارے یا دیگرکسی قسم کے رومانوی القابات آپ کے بچے کے لئے استعمال کرے۔

    جب بھی آپ کا بچہ اپنے دوستوں کے ہمراہ کھیلنے کے لئے باہر جائے تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس پرنظر رکھیں کہ وہ کس قسم کے لوگوں میں گھلتا ملتا ہے اورکیسے کھیلوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔

    اگر آپ کا بچہ کسی بڑے کے ساتھ کہیں باہرجانے میں یا تنہائی میں وقت گزارنے میں ہچکچاتا ہے تو کبھی بھی اس کو مجبور نہ کریں بلکہ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ بچہ ایسا کیوں کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نظر رکھیں کہ کہیں آپ کا بچہ بڑی عمر کے کسی مخصوص شخص کی صحبت تو پسند نہیں کرتا۔

    اگر بچے کے رویے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی محسوس کریں تو اسے نظر انداز مت کریں بلکہ کوشش کریں کہ مختلف نوعیت کے سوالات کے ذریعے آپ اس تبدیلی کی وجہ جان پائیں۔

    جب آپ کے بچے بالخصوص بیٹیاں سنِ بلوغت کو پہنچنےلگیں تو انہیں جنسی معاملات سے متعلق درست آگاہی فراہم کریں ، یاد رکھیں اگر آپ اپنے بچوں کوخود یہ سبق نہیں پڑھائیں گے تو پھر معاشرہ انہیں جنسی معاملات کی غلط اور بے ہودہ تشبیہات سے روشناس کرادے گا۔

    بچوں کو کوئی بھی نئی کتاب یا ویڈیو میٹیریل ( کارٹون ، مووی وغیرہ) دکھانے سے پہلے ایک بارخود ضرور پڑھیے یا دیکھئے اور ساتھ ہی ساتھ کیبل پر’پیرنٹل کنٹرول‘رکھئے ۔ نا صرف یہ بلکہ اپنے حلقہ احباب میں بھی ان تمام افراد پر یہی اقدامات کرنے پرزور دیجئے جن کے بچوں سے آپ کے بچے مسلسل ملتے ہیں۔

    جیسے ہی آپ کے بچے تین سال کی عمر کو پہنچیں‘ انہیں جسم کے مخصوص اعضاء کو دھونے کا طریقہ سکھائیں اور ساتھ میں یہ ہدایت بھی کریں کبھی کسی کو ان حصوں کو چھونے کی اجازت نہ دے چاہے وہ آپ خود کیوں نہ ہوں۔

    آپ کو اپنی معاشرت میں کچھ تبدیلیاں کرنا ہوں گی، ایسے مواد اور اشخاص کو اپنی زندگی سے خارج کردیں جو کہ آپ کے معصوم بچوں کے ذہن پرکسی منفی طورنظرانداز ہوسکے۔

    اگر آپ کا بچہ کسی مخصوص شخص کے بارے میں شکایت کرتا ہے تو اس معاملے میں خاموشی ہرگز اختیار نہ کیجئے۔

    اپنے گھر کا ماحول مذہبی رکھئے اور بچوں کو عبادت اور عبادت گاہوں سے مانوس کرائیے تا کہ ان کے خیالات میں پاکیزگی کی آمیزش ہوتی رہے۔

    خدا نخواستہ اگر کسی بچے کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجاتا ہے تو اسے ڈانٹنا مارنا تو دور کی بات بلکہ موردِالزام بھی نہ ٹھہرایے بلکہ انتہائی ملائمت اور پیار سے اسے سمجائیں کہ اس معاملے میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اس کا اثر اپنے ذہن پر ہرگز نہ لے۔

    یاد رکھیے کہ آپ کے بچے بے حد قیمتی ہیں اور ان کی حفاظت کرنا آپ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے لہذا معاشرے سے خوفزدہ ہوئے بغیر اپنے بچوں کی تربیت صحیح خطوط پر کیجئے۔

  • نواب ثنااللہ زہری – پیدائش سے استعفے تک

    نواب ثنااللہ زہری – پیدائش سے استعفے تک

    کوئٹہ: بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری آج اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں‘ انہوں نےعبدالقدوس بزنجو اورسیدآغامحمدرضا کی جانب سے اپنے خلاف پیش ہونے والی تحریکِ عدم اعتمادکے سبب استعفیٰ دیا۔

    نواب ثنا اللہ زہری کا تعلق بلوچستان کے زہری قبیلے سے ہیں ‘ وہ ضلع خضدار کے علاقے انجیرا میں 4 اگست 1961 کو پیدا ہوئے ۔ ان کے والد سردار ڈوڈا خان زہری تحریکِ پاکستان کے متحرک رہنما اور اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ بلوچستان میں تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں ان کا اہم کردار ہے۔

    سابق وزیراعلی ٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری نے سنہ 1983 میں بلوچستان اسمبلی سے پولیٹیکل سائنس میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔

    ثنا اللہ زہری مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے سنہ 1990 میں بلوچستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے‘ جبکہ سنہ 1997 میں سینٹ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے سنہ1999 تک بلوچستان کی نمائندگی کرتے رہے۔

    سنہ 2002 میں انہوں نے نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اورمنتخب ہوکر وزیر برائے جیل خانہ جات اور قبائلی امور کے عہدے پر سنہ 2003اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔سنہ 2008 میں نیشنل پارٹی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جس سے اختلاف کرتے ہوئے انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور فاتح قرار پائے۔

    وزیراعلیٰ‌ بلوچستان ثنا اللہ زہری نے استعفیٰ دے دیا

    خان آف قلات میر سلیمان داؤد جان نے اکبر بگٹی کی موت کے بعد لویہ جرگہ منعقد کیا تو اس میں انہوں نے اپنے قبیلے کی نمائندگی بھی کی۔

    چھ جنوری 2010 کو ثنا اللہ زہری ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے اور اگست 2011 میں انہیں پارٹی کے صوبائی ونگ کا نائب سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔

    مئی 2013 میں منعقد ہونے والے عام انتخابا ت میں انہوں نے اپنی نشست کا دفاع مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کیا اور وہ اس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے لیے اپنی جماعت میں مضبوط ترین امیدوار تھے تاہم اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بلوچستان نامزد کیا۔

    انہی انتخابات کی الیکشن مہم کے دوران ان کے قافلے پرخضدار میں ایک بم حملہ بھی ہوا جس میں ثنا اللہ زہری بال بال بچے تاہم ان کا بیٹا سکندر زہری‘ بھائی میر مہر اللہ زہری اور بھتیجا میر زید مارے گئے۔ حملے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

    جون 2013 میں صوبائی اسمبلی کی تشکیل کے بعد انہیں صوبے کا سینئر وزیر نامزد کیا گیا اور وہ اس عہدے پر 24 دسمبر 2015 تک کام کرتے رہے۔ دسمبر 2015 میں ایک معاہدے کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک وزیر اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہوگئے اور ان کی جگہ نواب ثنا اللہ زہری نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور اس عہدے پر آج نو جنوری 2018 تک فائز رہے۔

    تحریک ِ عدم اعتماد


    دو جنوری 2018 کو صوبے کے مسائل حل نہ ہونے کے سبب مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور ایم ڈبلیو ایم کے سیدآغامحمدرضا نے 14سیکرٹری بلوچستان اسمبلی کے پاس وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔

    وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی درخواست پرق لیگ، جمعیت علمائے اسلام سمیت 14ارکان کے دستخط موجود تھے۔تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میرعبدالقدوس بزنجو نے کہا تھا کہ زشتہ بجٹ میں ہمارے تحفظات تھے جنہیں دور نہیں کیا گیا۔

    وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع

    انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں مسلم لیگ ن کاحصہ ضرور ہوں، غلام نہیں، پارٹی میں جمہوریت ہے، میں اختلاف سامنے رکھ سکتا ہوں، بہت سےدیگرارکان نے ووٹنگ کےدن ساتھ دینےکا یقین دلایا ہے۔

    اس ساری صورتحال کے پیش ِنظر مسلم لیگ ن کے موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی بلوچستان پہنچے اور پارٹی کے صوبائی ارکانِ اسمبلی سمیت کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرتے رہے تاہم صورتحال بس سے باہر دیکھ کر انہوں نے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری کو عہدے سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا جس کے بعد آج نو جنوری 2018 کو انہوں نے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان محمود خان اچکزئی کو بھجوادیا ‘ جسے منظور کرلیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • وزیراعظم شاہد خاقان نے وائٹ آئل پائپ لائن منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ دیا

    وزیراعظم شاہد خاقان نے وائٹ آئل پائپ لائن منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ دیا

    کراچی: وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے وائٹ آئل پائپ لائن منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک حساس نوعیت کا منصوبہ ہے ‘ اس سے تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان دو روزہ دورے پر کراچی میں موجود ہیں‘ پورٹ قاسم پر انہوں نے وائٹ پائپ لائن منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا‘ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

    یہ منصوبہ 2019 میں مکمل ہوگا اور اس کی لاگت کا تخمینہ 13کروڑ 40لاکھ ڈالر ہے۔ منصوبےسےپیٹرولیم مصنوعات کی بذریعہ سڑک ترسیل میں کمی آئےگی جس سے حادثات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ یہ پائپ لائن ڈیزل کےساتھ پیٹرول لےجانےکی بھی صلاحیت کی حامل ہوگی اور اس کے ذریعے سے2لاکھ55ہزارٹن پیٹرول ،ڈیزل ذخیرہ کرنےکی صلاحیت حاصل ہوگی۔

    پورٹ قاسم پر اس حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 15 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا یہ منصوبہ 20 ماہ میں مکمل ہوگا اور اس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک سے دوروپے فی لیٹر کمی آئے گی۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک حساس نوعیت کا منصوبہ ہے اور پاکستان کی توانائی سلامتی سےمتعلق انتہائی اہمیت کاحامل ہے‘ وزیراعظم کا کہناتھا کہ پٹرولیم مصنوعات کےمعیارکوبھی بہتربنارہےہیں۔

    وزیراعظم نےکہا کہ اس وقت ملک میں 10ہزارسےزائدٹینکرزتیل کےمواصلاتی نظام کاحصہ ہیں۔ ٹرانسپورٹرزکےکاروبارکاخیال رکھاہے، انہیں نقصان نہیں پہنچےگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹینکرزکی بڑی تعدادنظام میں ہونےسے ہر وقت حادثات کاخطرہ درپیش رہتاہے ۔بہاولپورکےقریب ہونےوالاحادثہ اس کی المناک مثال ہے۔

  • آج قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی 35ویں برسی منائی جارہی ہے

    آج قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی 35ویں برسی منائی جارہی ہے

    آج اردو زبان کے شہرہ آفاق شاعراورپاکستان کے قومی ترانے کے خالق ابولاثرحفیظ جالندھری کی 35ویں برسی منائی جارہی ہے ‘ آپ 82 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    حفیظ جالندھری ایک نامورشاعراورنثرنگارہیں آپ 14 جنوری 1900 کو ہندوستان کے شہر جالندھرمیں پیداہوئے اور آزادی کے وقت آپ لاہورمنتقل ہوگئے، آپ کا قلمی نام ’ابولاثر‘ تھا۔

    آپ کا فنی کارنامہ اسلام کی منظوم تاریخ ہے جس کا نام ’شاہ نامۂ اسلام‘ ہے لیکن آپ کی وجۂ شہرت پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کوشاعرِاسلام اورشاعرِپاکستان کے خطابات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دیگراعزازات میں انہیں ہلال امتیازاورتمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں
    کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

    آپ کا موضوع سخن فلسفہ اورحب الوطنی ہے آپ کی بچوں کے لئے لکھی تحریریں بھی بے حد مقبول ہیں۔

    آپ غزلیہ شاعری میں کامل ویکتاتھے، 1925 میں’نغمہ زار‘کے نام سے حفیظ کاپہلامجموعہ کلام شائع ہوا۔ ملکہ پکھراج کاگایاہوا شہرہ آفاق گیت ابھی’تومیں جوان ہوں‘بھی اسی مجموعے میں شامل تھا۔

    آخر کوئی صورت تو بنے خانہٴ دل کی
    کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے

    اس کے بعد سوزوساز، تلخابہ شیریں، چراغ سحر اوربزم نہیں رزم کے عنوانات سے ان کے مجموعہ ہائے کلام سامنے آئے۔

    دیکھا جو تیرکھا کہ کمیں گاہ کی طرف
    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

    حفیظ جالندھری21دسمبر 1982 کو انتقال فرماگئے تھے ‘ اس وقت آپ کی عمر82 سال تھی۔

    شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
    یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

     شاعرِ بے بدل اور خاتم الشعراء کے القاب سے مشہور نوجوان دلوں کی آواز بننے والے جون ایلیا کی آج 86ویں سالگرہ ہے‘ ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے اورزندگی کی نئی جہتوں سے متعارف کراتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر، 1931ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک ‏نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود اہل تشیع خاندان سے تعلق رکھتے تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، “جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔”‏

    جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قراردیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنیفات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب
    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ ’یعنی‘ ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان ’گمان‘ 2004ء میں ، چوتھا مجموعہ ’لیکن‘ 2006 میں، اور پانچواں مجموعہ کلام ’گویا‘ سنہ 2008 میں شائع ہوا ۔

    انہیں مختلف رسائل کے لیے جو مضامین اور انشائیے تحریر کیے وہ اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ’فرنود‘ کے عنوان سے ان تحاریر کا مجموعہ سنہ 2012 میں منشۂ شہود پر آیا اور’راموز‘ کے نام سے الواح پر مشتمل ایک منفرد طرز کی شاعری کا مجموعہ منظرِر عام پر آیا۔

    خالد احمد انصاری کہتے ہیں کہ یہ کتاب جون کا ایک عظیم کارنامہ ہے جس پر جون نے برسوں کام کیا، اس کے ایک اک لفظ اور مصرعے کو کئی بار پرکھا اور خون تھکواد ینے والی ذہنی مشقت کے مرحلے سے گزارا جس سے گزر کر راموز بلاشبہ ایک شاہکار کا درجہ حاصل کرنے جارہی ہے اور جون کے بارے میں دنیا کا نظریہ تبدیل کرکے رکھ دے گی۔

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا
    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
    میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا
    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں
    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے
    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ پژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا
    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے
    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے‘وہ سخی حسن کے قبرستان میں اپنے خاندانی احاطے میں زیرِ زمین محوِ خواب ہیں۔ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آنے والے ان کے کلام ‘ اور مضامین کےمجموعے فرنود نے انہیں آج کے دور مقبول و معروف شاعر و فلسفی بنا دیا ہے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مرجائیں گے

  • آگاہی ایوارڈز 2017: اے آروائی نیوزایک بار پھر چینل آف دی ایئرقرار

    آگاہی ایوارڈز 2017: اے آروائی نیوزایک بار پھر چینل آف دی ایئرقرار

    اسلام آباد: سال 2017 کے آگاہی ایوارڈز برائے صحافت کا اعلان کردیا گیا۔ ایوارڈز میں عوامی رائے کی بنا پر اے آروائی نیوز مقبول ترین چینل قرار پایا‘ جبکہ آف دی ریکارڈ کے اینکر کاشف عباسی سب سے زیادہ با اعتبار اینکر کے ایوارڈ کے حقدار ٹھہرے۔

    تفصیلات کے مطابق آگاہی ایوارڈز2017 کی سالانہ تقریب اسلام آباد میں جاری ہے جس میں اے آر وائی نیوز کو عوامی سروے کی بنیاد پر پاکستان کے ’چینل آف دی ایئر‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

    اسی تقریب میں اے آر وائی نیوز کے فلیگ شپ شو ’آف دی ریکارڈ ‘ کے میزبان کاشف عباسی کے سب سے زیادہ’با اعتبار‘ اینکر کے ایوارڈکے فاتح قرار پائے ہیں ‘ کاشف عباسی طویل عرصے سے اے آروائی نیوز سے وابستہ ہیں اور ان کا شو عوام کے ہر طبقہ فکر میں یکساں مقبول ہے۔

    آگاہی ادارے نے حاصل ہونے والی درخواستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک 60 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی اراکین نے انتہائی سخت جانچ پڑتال کے عمل کے بعد فاتح صحافیوں کا فیصلہ کرتے ہوئے ایوارڈز کا اعلان کیا۔


     آگاہی ایوارڈز 2016: اے آر وائی نیوز مقبول ترین چینل قرار


    یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی اے آروائی نیوز چینل آف دی ایئر کے ایوارڈ کا فاتح تھا اور اس کے ساتھ ہی مختلف کیٹیگریز میں اے آروائی نیوز کے پانچ صحافی فاتح قرار پائے تھے۔


    یہ خبر ابھی اپ ڈیٹ کی جارہی ہے