Author: فواد رضا

  • پائیدار ترقی کانفرنس2017: اے آر وائی نیوز کو ملا ایک اور اعزاز

    پائیدار ترقی کانفرنس2017: اے آر وائی نیوز کو ملا ایک اور اعزاز

    اسلام آباد: خواتین کی خودمختاری کے لیے کوشاں اے آر وائی نیوز کو ملا ایک اور اعزاز‘ 20 ویں پائیدار ترقی کانفرنس میں ’اے آروائی نیوز کی رپورٹر‘ رابعہ نور کو ویمن امپاورمنٹ کے لیے اس سال کی بہترین رپورٹر کا اعزاز دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق 20 ویں پائیدار ترقی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پائیدار ترقی کے ضمن میں معاملات کو اجاگر کرنے میں میڈیا کلیدی کردار کا حامل ہے۔

    پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتما م 20ویں پائیدار ترقی کانفرنس کے دوسرے روز میڈیا ایوارڈز برائے پائیدار ترقی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ بڑھتی ہوئی انتہاپسندی ملک کو درپیش سنگین ترین چیلنج تھا‘ حکومت سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر پائیدار ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

    انہوں نے کہا کہ پہلی بار ترقیاتی اخراجات کی مد میں ایک ٹریلین روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ ہمیں آگاہ رہنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے مسائل ابھی ختم نہیں ہوئے ۔دہشت گردی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے لیے سنگین چیلنج ہے تاہم ہمیں امید ہے کہ حکومت 2025کے ویژن کے تحت ان تما م مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

    مریم اورنگزیب نے کہا کہ پائیدار ترقی کے ضمن میں معاملات کو اجا گر کرنے میں میڈیا کا کردار کلیدی ہے ۔ میں ان تما م صحافیوں کو مبارکباد پیش کرتی ہوں جن کی پائیدار ترقی کے حوالے سے خدمات کے ضمن میں آج انہیں ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سینئر صحافیوں کو بھی مبارکباد پیش کرتی ہوں جنہوں نے پائیدار ترقی کے موضوعات پر گفتگو کے فروغ میں کردار ادا کیا۔

    انہوں نے کہا کہ میں سینئر صحافی اور انسانی حقوق کی جدو جہد کی علامت آئی اے رحمان کو بھی مبارکباد پیش کرتی ہوں جنہیں ’لائف اچیومنٹ ایوارڈ 2017‘ دیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے پائیدار ترقی کے موضوعات کو فروغ دینے میں کردار ادا کرنے والے صحافیوں اور اداروں میں میڈیا ایوارڈ برائے پائیدار ترقی تقسیم کیے جس میں سے وویمن امپاورمنٹ کے اہم اور حساس موضوع پر اے آروائی نیوز ( لاہور) سے تعلق رکھنے والی رابعہ نور کو ایوارڈ سے نوازا گیا ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کاش ہم چکورنہ ہوتے

    کاش ہم چکورنہ ہوتے

    اردو ادب میں رومانیت کو انتہائی اہم مقام حاصل ہے‘ غزل گوئی ہو یا افسانہ نگاری- کوئی بھی تخلیق کارخود کو رومانیت سے د ور نہیں کرپاتا۔ زیر نظر ناول ’’ کاش ہم چکور نہ ہوتے‘‘ بھی ایک ایسی ہی کاوش ہے۔

    ناول نگاری کو اردو ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے اور ہر نثر نگار کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم ایک ایسا ناول ضرور تحریر کرے جو اسلوب کی صورت اختیار کرلے‘ اسی خواہش نے اردو کو کئی بڑے ناول نگار دیے ہیں۔

    زیر نظر ناول ’’کاش ہم چکور نہ ہوتے ‘‘ مصور لاشاری نامی نوجوان ادیب کی ذہنی قلابازیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ان کا پہلا ناول ہے جو کہ انتہائی منفرد عنوان رکھتا ہے اور نام کی مناسبت سے اس ناول رومانیت پر مبنی ایک کہانی کو ایک
    نئے انداز میں برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    یہ ناول ’’کاش ہم چکور نہ ہوتے‘‘ لاڑکانہ کے کنول پبلیکشن نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت 250 روپیہ ہے۔ طباعت میں دیدہ زیب مجلد سرورق اور نسبتاً بہتر کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔ ناول میں کتابت کی غلطیاں قابل ِ برداشت سے زیادہ ہیں اور کہیں کہیں قاری کو زچ کردیتی ہیں۔ آئندہ ایڈیشن میں اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

    کاش ہم چکور نہ ہوتے – ناول کے بارے میں


    یہ ایک رومانی ناول ہے جس میں عشقِ لاحاصل کو موضوع بنایا گیا ہے اور اسی نسبت سے اس کا عنوان چکور کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔ایشیائی علاقوں میں پایا جانے والا یہ پرندہ پاکستان کا قومی پرندہ اور مشرقی لاحاصل محبت کی
    علامت ہے۔

    کہا جاتاہے کہ چکور چاند سے محبت کرتا ہے اور اس کی جانب اڑ کر اسے حاصل کرنا چاہتا ہے‘ چکور خود بھی یہ جانتا ہے کہ اس کی خواہش عبث اور اس کی کوشش لاحاصل ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی کوشش جاری رکھتا ہے اوراسی جدوجہد میں کبھی کبھار اپنی جان بھی گنوا بیٹھتا ہے۔

    ناول کی کہانی ایک نوجوان طالب علم کے گرد گھومتی ہے‘ جو اپنی بہت سے تشنہ خواہشات کے ساتھ جوانی کے دہلیز پر قدم رکھتا ہے اور کالج میں کسی چکور کی طرح چاند کو دل دے بیٹھتا ہے۔ اور یہی سے اس لاحاصل محبت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کا انجام آپ کو حیرت میں ڈال دے گا۔

    روایتی عشق ومحبت کی داستانوں کی طرح یہ داستان بھی اپنے زمانے کی عکاسی کررہی ہے ‘ اپنے زمانے لوگوں کے رویے ‘ ان کی ترجیحات ‘ سماج اور اس کے مسائل کو سامنے لا رہی ہے۔

    کہانی میں دلچسپی کا عنصر یہ ہے کہ جہاں ایک جانب مرکزی کردار کی کہانی آگے بڑھ رہی ہے وہی ساتھ ہی ساتھ چکور کی داستاں بھی اس کے ہم قدم ہے ‘ لیکن کیا انسان اور چکور ایک سی قسمت لے کر محبت کرتے ہیں ‘ اس کا جواب آپ کو ناول کے اختتام سے قبل نہیں ملے گا۔

    جیسے جیسے ناول آگے بڑھتا جاتا ہے ‘ کرداروں کی بنت واضح ہوتی جاتی ہے اور قاری کو لگتا ہے کہ وہ سمجھ رہا ہے کہ یہ ناول کہاں جارہا ہے لیکن اختتام پر سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے ‘ جس سے پڑھنے والے کے ذہن کو ایک یقینی جھٹکا لگتا ہے۔

    اپنے آغاز سے درمیان تک ناول کا بہاؤ انتہائی مناسب ہےلیکن اختتام تک جاتے جاتے کچھ غلط ہوجاتا ہے۔۔ شاید مصنف نے اس ناول کو کم وقت یا صفحات کی زیادتی کے خوف سے عجلت میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور یہی وہ اپنے کردواروں کے ساتھ زیادتی کر گئے‘ اگر کچھ غیر ضروری تفصیلات حذف کرکے اختتامی لمحات کو بھرپور اندا ز میں بیان کیاجاتا تو یقیناً یہ ایک شاندار اور مکمل ناول قرار پاتا۔

    ناول میں سائیکولوجی جو کہ ایک اہم مضمون ہے اسے کہانی کی بنت کے لیے احسن طریقے سے استعمال کیا گیا ہے ۔اسی طرح ہم نے اے آروائی نیوز پر قسط وار شائع ہونےو الے ناول ’ دوام ‘ میں ماحولیاتی سائنس کو ناول کی بنت کرتے دیکھا ہے۔ دوام صادقہ خان کے زورِ قلم کانتیجہ ہے۔

    مصنف کےبارے میں


    اس ناول کے مصنف مصور لاشاری ہیں جو کہ لاڑکانہ سے تعلق رکھتے ہیں ‘ انہوں اپنی ابتدائی تعلیم لاڑکانہ کیڈٹ کالج سے حاصل کی اور اب کراچی کی ایک نجی یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔

    مصنف اپنی کتاب کےبارے میں پیش لفظ میں رقم طراز ہیں کہ ’’ میں نے آپ سب کے لیے یہ کہانی لکھی یہ وہ کہانی ہے جو کہیں نہ کہیں ہم سب کی ہے۔ ہم سب اپنی اپنی محبتیں گنوا بیٹھے ہیں اور کیوں گنوا بیٹھے ہیں اس کا جواب آپ کو ناول پڑھنے کے بعد ہی ملے گا‘‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خوشبوؤں کی شاعرہ کا آج 65واں یومِ ولادت ہے

    خوشبوؤں کی شاعرہ کا آج 65واں یومِ ولادت ہے

    محبت کی خوشبو بکھیرتی پروین شاکر کا65 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے‘ آپ نے روایات سے انکار کرتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی تصاویر بنائیں اوردکھوں اور کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اشعار کہے۔

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

    p2

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر چو بیس نومبر انیس سو باون کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں، وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔

    p4

    منفرد لہجہ اور ندرت خیال کے باعث جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں، الفاظ و جذبات کو انوکھے اندازمیں سمو کر سادہ الفاظ بیان کا ہنر انکا خاصہ تھا ، انہوں نے روایات سے انکار اور بغاوت کرتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی تصویریں بنائیں اوردکھوں اور کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اشعار کہے۔

    انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ

    مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔

    p3

    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔

    p1

    ابھی فن وادب کے متوالے پو ری طرح سیراب بھی نہ ہو پائے تھے کہ خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر سنہ 1994 کو ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

     

  • ربیع الاول‘ بہارآئی ہے توحید تیرے کعبے میں

    ربیع الاول‘ بہارآئی ہے توحید تیرے کعبے میں

    ربیع الاول اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینہ ہے ویسے تو میلاد النبی ﷺ اور محافلِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن خاص ماہِ ربیع الاول میں عید میلاد النبی ﷺکا تہوار پوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔

    یکم ربیع الاول سے ہی مساجد اوردیگرمقامات پرمیلاد النبیﷺ اورنعت خوانی اور مدحِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محافل شروع ہو جاتی ہیں جن میں علمائےکرام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں پرروشنی ڈالتے ہیں، اسی طرح مختلف شعراء اورثناء خواںِ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت اوردرودوسلام پیش کرتے ہیں۔


    ربیع الاول کا چاند نظرآگیا، عید میلادالنبی 12 دسمبر کو ہوگی


     12-post-1

    ربیع الاول کی 12کو کئی اسلامی ممالک میں سرکاری طورپرعام تعطیل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، کوریا، جاپان اور دیگر غیر اسلامی ممالک میں بھی مسلمان کثرت سے میلادالنبی ﷺاور نعت خوانی کی محافل منعقد کرتے ہیں۔

    12-post-6

    آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بروز پیر 571 عیسوی میں مکہ میں پیدا ہوئے‘ تاریخ پیدائش میں مورخین کے اختلاف ہے بعض 9 اور 12ربیع لاول بتاتے ہیں اور بعض کے نزدیک 17 ربیع الاول ہے لیکن امت کااجماع 12ربیع الاول پرہے۔

    شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شبِ میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شبِ قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہینوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب ِقرآن آیا وہ کیونکر شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟۔

    12-post-4

    صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا اورپوچھا مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔

    سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ’’جس سال نور ِمصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت‘ ترو تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی‘ سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے‘‘ ۔ مسلمان اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے‘ مٹھائی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔

    12-post-2

    عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موقع پر شمعِ رسالت ﷺکے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، ’’میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے‘‘۔ (مشکوہ)۔

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا نے ایک موقع پرتکمیلِ آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ولی الدین ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو یومِ عید مناتے۔ اس پرآپ نے فرمایا، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اورعیدِعرفہ (ترمذی) لہذا قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالٰی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔

    چونکہ عید الفطر اورعید الاضحی حضورﷺہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم ِولادت بدرجہ اولیٰ عید قرار پایا ہے اور امت کے لیے خوشی اور راحت کا سبب ہے۔





  • موٹروے پولیس نے زخمی کتے کی جان بچالی

    موٹروے پولیس نے زخمی کتے کی جان بچالی

    حیدرآباد: نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے اتھارٹی کے افسران نے زخمی کتے کو طبی امداد فراہم کرکے بے زبان جانور کی جان بچالی

    تفصیلات کے مطابق حیدرآبادسے ملحقہ سندھ کے ضلع مٹیاری کے ہائی وے پر موٹروے پولیس کے دو افسران کومعمول کی گشت کے دوران ایک لاوارث کتا سڑک کنارے زخمی حالت میں ملا جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔

    جان بچانے کے بارے میں 7 غلط تصورات*

    گشت پر معمور افسران ندیم خان اور طارق مسعود کے مطابق کتا کسی گاڑی سے ہٹ ہونے کے بعد سبب شدید زخمی تھا ‘ اس کی ٹانگ بری طرح متاثر ہو چکی تھی اور وہ حرکت کرنے سے قاصرتھا ۔

    Humanity

    نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کے افسران نے اس بے زبان کو بھی تکلیف کے عالم میں بے یارومدد گار نہیں چھوڑا اور ہر ممکنہ طبی امداد دینے کے بعد مزید دیکھ بھال کے لیے مقامی نوجوان کے حوالے کر دیا۔

    اس واقعے کے حوالے سے مذکورہ بالا افسران کا کہناہےکہ ہائی وے پر زخمی ہونے والے کسی جانور کو طبی امداد فرہم کرنا یقیناً ہمارےسرکاری فرائض میں شامل نہیں ہے لیکن مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا دین ہمیں جانوروں پر بھی رحم کھانے کا حکم دیتا ہے اور انسانیت کے ناطے بھی یہ ہمارا فرض بنتا تھا کہ ہم مصیبت میں مبتلااس بے زبان کی مدد کریں ۔

    تصاویر: عابد علی بھٹی


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی میں دو روزہ ’لوک میلہ ‘جاری

    کراچی میں دو روزہ ’لوک میلہ ‘جاری

    کراچی: پاکستان کا لوک ورثہ اجاگر کرنے کے لیے آرٹس کونسل میں میں دو روزہ لوک میلہ جاری ہے جس میں شہری کثیر تعداد میں شرکت کرکے فنونِ لطیفہ سے اپنی وابستگی کا ثبوت دے رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی آرٹس کونسل ‘ آئی ایم کراچی اور لوک ورثہ کے اشتراک سے ہونے والے اس لوک میلے کا مقصد لوگوں میں ثقافتی شعور اجاگر کرنا ہے۔اس ثقافتی میلے ،میں پاکستان بھر سے کئی فنکار شرکت کررہے ہیں جواپنی دلفریب پرفامنس سے لوگوں میں خوشیاں بکھیر رہے ہیں۔

    اس رنگا رنگ ثقافتی میلے میں سماجی اور سیاسی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی شرکت کی ۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ شہر قائد کے بغیر پاکستان ادھورا ہے ‘ کراچی میں لوک میلے کا انعقاد ہونا ایک خوش آئند اقدام ہے۔

    نامور شخصیات کے ساتھ عوام نے بھی بڑی تعداد میں اس ثقافتی میلے میں شرکت کی ۔ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے پروگرامز پاکستانی کلچرکے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔

    لوک میلہ آج شام تک جاری رہے گا جبکہ اسی سلسلے کا ایک ایونٹ محفلِ غزل کے عنوان سے 25 نومبر کو آرٹس کونسل میں منعقد ہوگا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مرجائیں گے

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مرجائیں گے

    کراچی: انوکھےفقرے اور نت نئی تاویلات برتنے والے شاعر ِ بے بدل جون ایلیا کو پیوند ِخاک ہوئے پندرہ برس کا عرصہ ہو گیا،ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک ‏نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، ’’جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتے تھے۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی‘‘۔‏

    جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنیفات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب
    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

     ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

    ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا
    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائلِ اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کرسکیں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
    میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا
    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں
    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے
    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ پژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا
    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے
    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

  • صحرا کی بلبل کو خاموش ہوئے چار برس بیت گئے

    صحرا کی بلبل کو خاموش ہوئے چار برس بیت گئے

     خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھنے والی معروف لوک گلوکارہ ریشماں کو مداحوں سے بچھڑےچار برس بیت گئے ‘ ان کے مداح آج بھی ان کے بکھیرے سروں پر سر دھن رہے ہیں ۔

    تفصیلات کے مطابق تقسیم ہند کے بعد 1947 میں پیدا ہونے والی اور خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ ریشماں نے 12 برس کی کمر عمر میں ریڈیو پاکستان سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔

    بعد ازاں انہیں فوک سنگر کے طور پر باقاعدہ پہچان ملی، ریشماں نے اپنے کیرئیر ویسے تو بہت سے گانے گائے تاہم اُن کے مشہور ہونے والے گانوں میں ’’چار دنا دا پیار او ربا، اکھیوں کے آس پاس، بانئیں اور لگ دا دل میرا‘‘ شامل ہیں۔

    غریب اور خانہ بدوش گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے گلوکارہ باقاعدہ تعلیم خاصل نہ کرسکیں تاہم وہ بہت کم عمری سے ہی صوفیاء کرام کے مزاروں پر منقبت پڑھتی تھیں۔ ریشماں کو پذیرائی اُس وقت ملی جب انہوں نے معروف صوفی بزرگ حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر ’’ہو لعل میری‘‘ قوالی پیش کی۔ علاوہ ازیں ان کے کئی گانے بھارتی فلموں میں بھی آئے۔

    ریڈیو پر کامیابیاں سمیٹنے کے بعد گلوکارہ کو ٹی وی میں آنے کا موقع ملا یہاں بھی انہوں نے انتھک محنت اور لگن سے پرفارم کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔ اُن کی پذیرائی اور کلاموں کو دیکھتے ہوئے بھارت کے سابق وزیر اعظم نے ریشماں کو بھارت آنے کی خصوصی دعوت دی تھی۔

    ریشماں کو 1980 میں طبیعت ناساز ہونے پر اسپتال منتقل کیا گیا تاہم رپوٹس آنے پر انہیں گلے کے کینسر کا انکشاف سامنے آیا۔ غربت کے باعث گلوکارہ اپنا مناسب علاج نہ کرواسکیں تاہم سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں انہیں بھرپور امداد فراہم کی۔

    طویل علالت کے بعد گلوکارہ 3 نومبر 2013 کو طویل علالت کے بعد انتقال کرگئی، اُن کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز اور ’’بلبلِ صحرا‘‘ کا خطاب عطاء کیا۔


    ‘ریشماں کے یادگارگانے’



    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • انصار الشریعہ کی دہشت گردی کی صلاحیت ختم کردی: کرنل فیصل

    انصار الشریعہ کی دہشت گردی کی صلاحیت ختم کردی: کرنل فیصل

    کراچی:سندھ رینجرز اور سی ٹی ڈی نے مشترکہ پریس بریفنگ کرتے ہوئے گزشتہ رات انصار الشریعہ کے دہشت گردوں کے ساتھ ہونے والے مقابلے کی تفصیلات فراہم کی‘ بتایا گیا ہے کہ انصارا لشریعہ کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیاہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز اتوار سندھ رینجرز کے کرنل فیصل اور انسدادِ دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے ڈی آئی جی نے گزشتہ رات ہونے والے مقابلے پر صحافیوں کو تفصیلی بریفنگ دی۔

    کرنل فیصل نے صحافیوں کو بتایا کہ انصارالشریعہ کی کراچی میں دہشت گردی کی صلاحیت تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ روپوش دہشت گردوں کی تلاش کے لیے انتھک کوششیں جاری ہیں‘ امید ہے مفرور دہشت گرد بھی گرفت میں ہوں گے۔

      انصارالشریعہ کےامیرسمیت 8 دہشت گرد ہلاک*

    صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کرنل فیصل کا کہنا تھا کہ ایک بڑی کامیابی دو ستمبر کو ملی تھی‘ دوسری گزشتہ رات ملی جب انصار الشریعہ کی موجود گی کی اطلاع پر کارروائی کی گئی‘ آپریشن میں 8دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ انصارالشریعہ گروہ دہشت گردی سےکراچی کا امن تباہ کرناچاہتاتھا‘ ابتدائی معلومات کے مطابق ان کے ٹھکانوں پر چھاپےماررہےہیں

    انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر حملے میں ملوث دہشت گرد عبدالکریم سروش کے گھر سے اہم شواہد ملے‘انصارالشریعہ 12سے15تعلیم یافتہ دہشت گرد افراد پرمشتمل گروہ تھا‘ جن میں 8 سے 10 ٹارگٹ کلرز شامل تھے۔

    انصارِ الشریعہ کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت


    ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی العمروف شہریار الوارثی اور ارسلان بیگ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی گروہ کا سرغنہ اور ماسٹر مائنڈ ہے ۔ دونوں دہشت گردوں نے افغانستان سے دہشت گردی کی تربیت لے رکھی تھی۔ گروہ کے لیے حسان نامی ایک ملزم ریکی کا کام انجام دیا کرتا تھا۔

    مقابلے میں ہلاک ہونے والا ملزم ارسلان بیگ دہشت گردی کے لیے فنڈ بھی اکھٹے کیا کرتا تھا جبکہ اسی مقابلے میں ہلاک ہونے والا ایک اور ملزم نہار الحق بھی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث،فنڈ اکٹھے کرتا تھا۔ گروہ میں سعدجمال،حسان ہارون،کامران،طلحہ انصار،ابو بکر بھی گروہ میں شامل تھے جو کہ مقابلے میں ہلاک ہوئے۔

    کرنل فیصل کے مطابق گروہ میں شامل دانش رشید، جنید رشید ، سروش اور مزمل تا حال مفرور ہیں ‘ جن میں سے دانش رشید ٹارگٹ کلنگ ٹیم کا اہم رکن ہے۔

    انصارِ الشریعہ کی دہشت گرد کارروائیاں


    انصار الشریعہ کی جانب سے کی گئی وارداتوں پر بھی بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ انصارالشریعہ نےگلستان جوہرمیں پولیس اہلکارکوقتل کرکےکارروائیوں کاآغا کیا۔ اس گروہ نے القاعدہ سے الحاق کا اعلان بھی کیا تھا۔

    مذکورہ گرو ہ نے 21مئی2017کو 3پولیس اہلکاروں کوشہید کیا‘ گروہ کے ملزمان نے 12اگست کو کراچی میں 2پولیس اہلکاروں کو شہید کیا۔ملزمان نے28اگست کوگلستان جوہر میں ایف بی آر گارڈز کو بھی شہید کیا۔ اسی گروہ نے سائٹ ایریامیں بھی 4پولیس اہلکاروں کو شہید کیاتھا جبکہ عزیز آباد میں ٹریفک پولیس کے ڈی ایس پی کو بھی نشانہ بنایا ۔

    ایم کیوایم رہنما خواجہ اظہارالحسن پرقاتلانہ حملہ*

     ڈی ایس پی ٹریفک اورکانسٹیبل شہید*

    پریس بریفنگ میں بتایا گیا کہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں سےملنےوالےہتھیارماضی کی کارروائیوں سےمماثلت رکھتےہیں ۔ ملزمان موٹرسائیکل پرریکارڈنگ ڈیوائس لگا کر ریکی کرتے تھے۔ انہوں نے اتوار بازار‘ الہٰ دین پارک اور پولیس کی چوکیوں پر حملے کی بھی ریکی کررکھی تھی۔پولیس ہیڈکوارٹر اور کچھ اوراہم مقامات بھی دہشت گردوں کی ٹارگٹ لسٹ میں شامل تھے۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دورانِ تفتیش کسی تعلیمی ادارے سے دہشت گردسرگرمی کےشواہدنہیں ملے‘ والدین سے درخواست ہے کہ بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ دہشت گرد اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جہاد کی غلط تشریح بیان کرتے ہیں۔

    ویڈیو دیکھیں

     


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی کے شیو مندر میں دیوالی کی رات کے خاص لمحے

    کراچی کے شیو مندر میں دیوالی کی رات کے خاص لمحے

    ہندو مذہب میں دیوالی کو خاص اہمیت حاصل ہے یہ روشنیوں کا تہوار ہے اور اس موقع پر ہندو برادری انتہائی عقیدت و احترام سے تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔

    دیوالی کی تاریخ بے حد قدیم ہے اورہندو مت کے قدیم پرانوں میں اس کا ذکر ’روشنی کی اندھیرے پر فتح کے دن‘ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ دیوالی در حقیقت 5 روزہ تہوار ہے جس میں اصل دن ہندو کلینڈر کے مطابق ’کارتیک‘ نامی مہینے کا پہلا دن ہے۔ تقریبات کا آغاز 2 روز پہلے کیا جاتا ہے اور یہ نئے چاند کے طلوع ہونے کے 2 دن بعد تک جاری رہتی ہیں۔

    ہندو برادری اس موقع پرخصوصی اہتمام کرتی ہے۔ نئے لباس زیب تن کیے جاتے ہیں، گھروں اور بازاروں کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے

    دیا اور رنگولی دیوالی کے تہوار کے اہم جزو ہیں اور بچے اس موقع پر آتش بازی کرتے ہیں جبکہ مندروں میں لکشمی پوجا کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پرساد تقسیم ہوتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کی ٹیم نے اس موقع یہ جاننے کے لیے ساحل سمندر کلفٹن کے کنارے واقع ’شری رت نیشور مہا دیو مندر‘ کا رخ کیا کہ پاکستان میں ہندو برادری دیوالی کی رات کس طرح گزارتی ہے۔

    مندرکے سامنے کئی بچے پٹاخے پھوڑنے اور پھلجھڑیاں جلانے میں مشغول تھے اور مندر میں داخل ہوتے ہی اگر بتی اور گلاب کی ملی جلی خوشبو اور ندیم نامی ایک خدمت گار نے ٹیم کا استقبال کیا۔

    شری رت نیشور مہا دیو مندر کم از کم ڈیڑھ صدی سے اس مقام پر قائم ہے اور اسے کراچی میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں ہندو مت کے لگ بھگ 100 بھگوانوں کی مورتیاں موجود ہیں جنہیں انتہائی خوبصورتی سے شیشے کی دیواروں میں آراستہ کیا گیا ہے۔

    مندر میں آنے والے زائرین اپنے عقیدے کے مطابق یہاں مختلف دیوی دیوتاؤں کے آگے اگر بتیاں جلا کر اپنی مذہبی شردھا (عقیدت) کا اظہار کر رہے تھے حالانکہ مندر انتظامیہ کی جانب سے جگہ جگہ بورڈ آویزاں تھے جن پر اگر بتی جلانے کی ممانعت درج تھی۔

    اس روز مندر میں آنے والے زائرین کے چہرے دیوالی کی خوشی سے تمتمارہے تھے اوران کے لباس اور آرائش و زینت سے اس بات کا اظہار ہو رہا تھا کہ آج ہندو برادری اپنا مذہبی تہوار منا رہی ہے۔

    مندر میں ہندو مت کے مختلف بھگوان موجود ہیں جن کے آگے زائرین اگر بتیاں جلاتے ہیں، پھول نچھاور کرتے ہیں اورگھنٹیاں بجا کر مذہبی سکون حاصل کرتے ہیں۔

    دیوالی کے موقع پر مندر میں جا بجا جلتے دیے، اگربتیوں سے اٹھتا ہوا دھواں اورارد گرد موجود دیوی دیوتاؤں کے قد آدم اور دیو ہیکل مجسمے مل جل کرماحول کو خوابناک اور پر کیف بنا رہے تھے جس کے سبب مندر میں موجود ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر ایک عجب مسرور کن کیفیت طاری ہو رہی تھی۔

    مندر میں جا بجا جلتے دیے، اگربتیوں سے اٹھتا ہوا دھواں اورارد گرد موجود دیوی دیوتاؤں کے قد آدم اور دیو ہیکل مجسمے مل جل کرماحول کو خوابناک اور پر کیف بنا رہے تھے جس کے سبب مندر میں موجود ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر ایک عجب مسرور کن کیفیت طاری ہو رہی تھی۔

    تصاویر: پیار علی امیر علی


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔