Author: فواد رضا

  • آج لیاقت علی خاں کا 66 واں یومِ شہادت منایا جارہا ہے

    آج لیاقت علی خاں کا 66 واں یومِ شہادت منایا جارہا ہے

    کراچی : پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت لیاقت علی خان کا66 واں یومِ شہادت آج منایا جارہا ہے‘ آپ پاکستان میں طویل ترین عرصے تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے حکمران ہیں۔

    سولہ اکتوبر پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے، جس روز قائد ملت لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا، شہید ملت کے قتل کا معمہ 66 سال بعد بھی حل نہ ہوسکا۔

    لیاقت علی خاں کی برسی کے موقع پر ان کے صاحبزادے اکبر لیاقت نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وطن عزیزپوری قوم کی جدوجہداورقربانیوں کانتیجہ ہے‘ تحریک پاکستان میں قائداعظم اورلیاقت علی نےشانہ بشانہ جدوجہدکی تھی


    وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کا شہیدملت لیاقت علی خان کی برسی پرپیغام


    وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے شہید ملت لیاقت علی خان کی 66 ویں برسی پراپنے پیغام میں کہا کہ لیاقت علی خان نے تحریک پاکستان کے دوران گرانقدر خدمات انجام دیں اور پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے قوم کی خدمت کی۔

    شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ لیاقت علی خان قائداعظم محمد علی جناح کے مخلص اور قابل اعتماد دوست تھے اور انہوں نے قائداعظم کی رحلت کے بعد نوائیدہ مملکت کی مضبوطی میں کیلدی کردار ادا کیا۔

    وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ قوم قائداعظم، علامہ اقبال، شہید ملت لیاقت علی خان کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کرے۔

    اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ شہیدملت کی گرانقدرخدمات کوخراج تحسین پیش کرتےہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دن قائداعظم ،علامہ اقبال اور شہیدملت کےنقش قدم پرچلنےکااعادہ کرناہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں بانیان پاکستان کےتصورکےمطابق ملک کوخوشحال اورترقی یافتہ بناناہے‘ ہمیں پاکستان کی ترقی کےلیےبےلوث اورانتھک کام کرناہے۔

    نوازشریف بھی لیاقت علی خاں کا ریکارڈ توڑنے میں ناکام*

    لیاقت علی خان کا قتل کس نے کرایا تھا؟*

    لیاقت علی خان یکم اکتوبر اٹھارہ سو چھیانوے میں مشرقی پنجاب کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے اور 1918 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ چلے گئے۔

    pm-post-2

    ہندوستان واپس آتے ہی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی.لیاقت علی خان اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث جلد ہی قائداعظم کے قریب ہو گئے اور تحریک پاکستان کے دوران ہر اہم سیاسی معاملے میں قائداعظم کی معاونت کی۔

    انیس سو تینتیس میں بیگم رعنا لیاقت علی خان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔

    قائد ملت لیاقت علی خان برٹش راج کی عبوری حکومت کے پہلے وزیرِ خزانہ بھی منتخب ہوئے، قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمدعلی جناح نے انھیں ملک کا پہلا وزیراعظم نامزد کیا، جس پر قائد کے انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لئے انھوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کے خلاف روزِ اول سے ہونے والی سازشوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔

    لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر انیس سو اکیاون کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا تھا۔

    pm-post-15

    پاکستان کی تاریخ کا یہ سیاہ واقعہ انیس سو اکیاون کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسہ عام میں اس وقت پیش آیا، جب لیاقت علی خان خطاب کے لیے ڈائس پر پہنچے،اسی دوران سید اکبر نامی شخص نے ان پر ریوالور سے گولیاں برسانا شروع کردیں،ان کے آخری الفاظ تھے’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘، شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو پولیس نے گولیوں سے اڑا دیا۔

    اس عظیم رہنما کی یاد میں راولپنڈی کے کمپنی باغ کو ’’لیاقت باغ‘‘ کے نام سےمنسوب کر دیا گیا ۔لیاقت علی خان کراچی میں مزار قائد کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔

  • آج نصرت فتح علی خاں کا 69 واں جنم دن ہے

    آج نصرت فتح علی خاں کا 69 واں جنم دن ہے

     سروں کے سلطان استاد نصرت فتح علی خاں کی آج 69 ویں سالگرہ ہے ‘ آپ اپنی وفات کے لگ بھگ20 سال بعد بھی بے پناہ پسند کیے جانے والے اور سنے جانے والے موسیقار ہیں، کانوں میں رس گھولتے ان کے سریلے نغموں نے انہیں آج بھی ہمارے درمیان زندہ رکھا ہوا ہے۔

    استاد نصرت فتح علی خاں 13 اکتوبر 1948ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام فتح خاں تھا وہ خود بھی نامور گلوکار اور قوال تھے۔ نصرت فتح علی خاں بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    Nusrat Fateh Ali Khan

    ان کے آباؤ اجداد نے کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص قوالی کے حوالے سے بڑا نام کمایا تھا اور انہیں مقبول بنانے میں ان کے والد استاد فتح علی خاں نے بے پناہ کام کیا تھا۔ نصرت فتح علی نے موسیقی کی ابتدائی تربیت اپنے والد اور اپنے تایا استاد مبارک علی خاں سے حاصل کی اور اپنی پہلی باقاعدہ پرفارمنس اپنے والد کے انتقال کے بعد استاد مبارک علی خان کے ساتھ گاکر دی۔

    وہ طویل عرصے تک روایتی قوالوں کی طرح گاتے رہے مگر پھر انہوں نے اپنی موسیقی اور گائیکی کو نئی جہت سے آشنا کیا اورپاپ اور کلاسیکی موسیقی کو یک جاں کردیا۔

    نصرت فتح علی خاں کی عالمی شہرت کا آغاز 1980ءکی دہائی کے آخری حصے سے ہوا جب پیٹر جبریل نے ان سے مارٹن اسکورسس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ کا ساؤنڈ ٹریک تیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، یہ ان کے فنی سفر کا نیا رخ تھا۔ 90 کی دہائی میں انہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں اپنی موسیقی کی دھوم مچادی۔ انہیں کئی بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دینے اور ان میں گائیکی کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔

    نصرت فتح علی خاں کی معروف قوالیاں*

    ٹائم میگزین نے 2006 میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال اپنے کریئر کے آغاز میں اس فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

    قوال کی حیثیت سے ایک سو پچیس آڈیو البم ان کا ایک ایسا ریکارڈ ہے، جسے توڑنے والا شاید دوردورتک کوئی نہیں، جن کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی، دم مست قلندر مست ، علی مولا علی ، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، میرا پیاگھر آیا، اللہ ہو اللہ ہو اور کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا، جیسے البم ان کے کریڈٹ پر ہیں، ان کے نام کے ساتھ کئی یادگار قوالیاں اور گیت بھی جڑے ہیں‘ اس کے علاوہ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ۔

    خاں صاحب کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی، جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا مینگیشکر، آشا بھوسلے اور اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔

    یورپ میں ان کی شخصیت اور فن پر تحقیق کی گئی اور کئی کتابیں لکھی گئیں، 1992 ء میں جاپان میں شہنشاہ قوالی کے نام سے ایک کتاب شائع کی گئی۔

    قوالی کے اس بے تاج شہنشاہ نے دنیا بھر میں اپنی آواز کا جادو جگایا ۔حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا‘ اس کے علاوہ دیگر کئی ممالک اور اقوام متحدہ نے ان کی شاندار فنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں متعدد سرکاری اعزازات سے نوازا۔

    جگر و گردوں کے عارضہ سمیت مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے باعث صرف 49سال کی عمر میں 16اگست 1997 کو شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خاں لندن کے ایک اسپتال میں وفات پاگئے، ان کی یادیں آج بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔

     

  • ایو 2000 – ایک خوبصورت اور حساس ڈرامہ

    ایو 2000 – ایک خوبصورت اور حساس ڈرامہ

    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی! ملتان سے تعلق رکھنے والے ظہور حسین کا انگریزی ڈرامہ ’ایو 2000‘ اس مصرعے کی تفسیر ہے۔

    برصغیر پاک وہند یقیناً ادب پرست سرزمین ہے اور اس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ فنونِ لطیفہ کی ہر صنف کو یہاں خوش آمدید کہا جاتا ہے‘ ڈرامہ نگاری کا فن یہاں انگریزوں کے ساتھ آیا اور ارتقاء کے مراحل طے کرتا رہا یہ تک کہ بات ظہور حسین تک آگئی۔

    ظہور حسین بہاالدین ذکریا یونی ورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں اور اب وہ سرائیکی لوک کہانیوں میں پی ایچ ڈی جیسا مشکل کام انجام دے رہے ہیں‘ اس سے قبل ان کی انگریزی نظموں کا مجموعہ ’ اے سانگ آف اے لائنڈ برائڈ‘ ( نابینا دلہن کا نغمہ ) شائع ہوچکا ہے۔

    ایو 2000


    زیر نظر کتاب’ ایو 2000‘ انگریزی ادب میں ان کی ایک اور کاوش ہے‘ یہ ایک سنگل ایکٹ پلے ہیں جس میں موجود کردار حوا کی بیٹی کے ارتقاء‘ اسے میسر معاشرتی حقوق اور پدرسری معاشرے میں اس کی انسانی حیثیت کی نشاندہی کرتے نظر آرہے ہیں۔

    پانچ مناظر پر مشتمل یہ ڈرامہ کل چار کردار وں پر مشتمل ہے‘ جن میں شوہر‘ بیوی ‘ ملازم اور ایک بچہ شامل ہیں۔یہ ڈرامہ ایک ہی گھر کی چاردیواری کے اندر شروع ہوکرپروان چڑھتاہے اور ایک انتہائی دلچسپ موڑ پر آکر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

    مصنف کے مطابق یہ داستاں کسی ایک گھر کی نہیں بلکہ بنتِ حوا کے معاشرےمیں ارتقاء کے تمام تر ادوار کی داستاں ہے‘ جو کہ معاشرےمیں سوشل سائنسز کو سمجھنے والے یا اس پر کام رکھنے والے ہر شخص کو اپنی جانب راغب کرے گا۔

    اس کھیل کی کہانی ایسے شادی شدہ جوڑے کے گرد گھومتی ہے جو رشتہ ٔ ازدواج جیسے عمرانی معاہدےمیں عورت کے حقوق کی اہمیت کو سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اسے دنیا بھر میں پھیلانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

    قاری کو ابتدا میں لگے گا کہ وہ انجام سے واقف ہے لیکن چوتھے اور پانچویں منظر میں ڈرامے کا ٹوئسٹ قارئین کو حیران کردے گا۔

    یہ کتاب پاکستان ادب پبلشر نے شائع کی ہے اور اس میں کل باون صفحات ہیں۔ اس کی قیمت 150 روپیہ ہے۔


    اگر آپ نے کوئی کتاب شائع کی ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ منظرِ عام پر آئے تو مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس پر رابطہ کریں

    [email protected]

  • قیامت خیز زلزلے کو 12 برس بیت گئے

    قیامت خیز زلزلے کو 12 برس بیت گئے

    اکتوبر 2005‘ کی آٹھ تاریخ کی قیامت خیز سحر کو گزرے بارہ برس بیت گئے‘ اس ہولناک دن کی یاد میں اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

    آزاد کشمیر اور اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور ز پر قائم یادگارِ شہدا پر آج خصوصی تقاریب منعقد ہورہی ہیں‘ آٹھ بجکرباون منٹ پر پر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی‘ اس موقع پرٹریفک بھی روک دی گئی، زلزلے میں شہید ہونے والوں کے مزاروں اوریادگاروں پر شمعیں روشن کی گئیں اور پھولوں کی چادریں بھی چڑھائی گئیں۔

    اکتوبر 2005 کا ہولناک زلزلہ اس قدر خوفناک قدرتی آفت تھی کہ اس سے بچ جانے والے لوگ آج بھی سکتے کے عالم میں ہیں، اس سانحے کے زخم ابھی تازہ ہیں، اس زلزلے نے کئی انسانی المیوں کو جنم اور کئی افراد کو عمر بھر کے لیے اپاہج کر دیا‘ آج بھی سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں ۔

    پاکستان کی تاریخ کا یہ ناقابل فراموش زلزلہ 8 اکتوبر 2005 کو صبح 8 بجکر 50 منٹ پر آیا، جب آزاد کشمیر، اسلام آباد، ایبٹ آباد، خیبرپختونخوا اور ملک کے بالائی علاقوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی. اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر7.6 تھی اور اس کا مرکز اسلام آباد سے 95 کلو میٹر دور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا۔

    اٹھ اکتوبر 2005 زلزلے میں تقریباً اسی ہزار سے زائد افراد جاں بحق جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے، لاکھوں مکانات منہدم اور اربوں روپے کی املاک تباہ ہوگئی، اسلام آباد جیسے شہر میں مارگلہ ٹاورز کے علاوہ بہت سے دفاتر ‘ عمارات اور دکانیں اس زلزلے کی نذر ہوگئے جبکہ بالاکوٹ جیسا شہر مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔

    زلزلہ متاثرین کے مطابق زلزلہ کو 12 سال گزرنے کے باوجود وہ آج بھی امدادی چیکوں کےلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، بالاکوٹ کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ کئی اسکول آج بھی تعمیر کے منتظر ہیں، کھربوں روپے کے فنڈ جاری ہوئے لیکن متاثرین آج بھی دربدر پھر رہے ہیں۔

    زلزلہ متاثرین کو ریسکیو کرنے کے ساتھ ساتھ زلزلہ متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو میں باسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہا ۔ سعودی عرب کی جانب سے بالاکوٹ کے متاثرین کیلئے 4 ہزار گھروں کی تعمیر کی گئی جبکہ مظفر آباد اور باغ میں بھی 4400 گھر تعمیر کر کے زلزلہ متاثرین کو دیئے گئے ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں یورپی اقوام بھی پیچھے نہ رہیں اور امدادی سامان کے ڈھیر لگادیے گئے اور کھربوں ڈالر اس زلزلے سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے پاکستان بھیجے گئے۔

    پاکستان میں آنے والے ہولناک زلزلے


    چار ستمبر 2013 کو زلزلے نے بلوچستان کے شہر آواران کو کھنڈر میں تبدیل کردیا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چار سو افراد رزقِ خاک ہوئے جبکہ سینکڑوں گھر زمین بوس ہوگئے۔

    بیس جنوری 2011 کو سات عشاریہ سات کے زلزلے سے خاران لرز اٹھا، جس میں دو سو سے زائد مکانات ملیا میٹ ہوگئے.

    آٹھ اکتوبر 2005 کی صبح زلزلے نے کشمیراور شمالی علاقوں میں تباہی پھیلا دی، سات اعشاریہ چھ شدت کے زلزلے سے اسی ہزار سے زائد افراد جان سے گئے جبکہ کئی شہر اور دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، ڈھائی لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے، قیامت خیز سلسلے کے متاثرین آج بھی غم و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں.

    چودہ فروری، 2004 کو ریکٹر اسکیل پر 5.7 اور 5.5 کی شدت سے آنے والے دو زلزلوں کے نتیجے میں خیبر پختونخواہ اور شمالی علاقہ جات میں چوبیس افراد ہلاک جبکہ چالیس زخمی ہو گئے تھے۔

    تین اکتوبر، 2002 کو ریکٹر اسکیل پر 5.1 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں تیس افراد ہلاک جبکہ ڈیڑھ ہزار کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

    اکتیس جنوری انیس سو اکیانوے کا زلزلہ چترال میں تین سو سے زائد شہریوں کی جان لے گیا، دسمبرانیس سو چوہتر میں زلزلے نے مالاکنڈ کے دیہات تباہ کئے، سات عشارہ سات شدت کا زلزلہ پانچ ہزارسے زیادہ افراد موت کا سبب بنا۔

    ستائیس نومبر انیس سو پینتالیس کو بلوچستان کے ساحل مکران میں زلزلہ سے دو ہزار لوگ ہلاک ہوئے.

    تیس مئی انیس سو پینتیس کو کوئٹہ زلزلے سے مکمل تباہ ہوگیا، سات عشاریہ پانچ شدت کے جھٹکوں نے تیس ہزار افراد کو ابدی نیند سلادیا.

     

  • آج حیدر آباد میں انگریز ’ ایلی کاٹ‘ کا تعزیہ نکلے گا

    آج حیدر آباد میں انگریز ’ ایلی کاٹ‘ کا تعزیہ نکلے گا

    کیا آپ جانتے ہیں کہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں آج آٹھ محرم کو ایک ایسا جلوسِ تعزیہ برآمد ہوتا ہے جس کی بنیاد’ایلی کاٹ ‘نامی ایک نو مسلم انگریز نے رکھی تھی۔

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق ایلی کاٹ ایک ’انگریز ‘ تھے اور وہ ہر سال محرم الحرام میں سیاہ کپڑے زیب تن کئے عزا داری میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقع کربلا سن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انہوں نے گھر بار بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم ِحسینؑ‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔

    Elikaat ka Tazia
    چارلی ایلی کاٹ بیلے ڈانسر گروپ کے ساتھ

    چارلی ایلی کاٹ عرف علی گوھر کا جنم کہاں ہوا اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے تاہم انہیں ایلی کاٹ سے علی گوہر بنے آج ستر سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے ۔ ان کی والدہ لیڈی ڈفرن ہسپتال حیدرآباد میں ڈاکٹر تھیں اور والد فاریسٹ آفیسر تھے‘ جو کہ ہمیشہ شکار میں مصروف رہتے تھے۔چارلی کی ماں کا تعلق کلکتہ سے تھا اور وہ بھی انگریز تھیں۔

    چارلی کی والدہ حیدرآباد کے ہر ماتمی جلوس پر نذر و نیاز کرتیں تھیں۔ چارلی اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے۔ وہ خود محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر تھے۔ عبدالغفور چانڈیو جو ان کا ڈرائیور تھا۔ اُس سے ’امام علی ؑاور امام حسینؑ‘ کی شہادت اور ان کی زندگی کے بارے میں سن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلے میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔

    عبدالغفور کے بیٹے غلام قادرچانڈیو بتاتے ہیں کے ایلی کاٹ نے ان کے والد عبدالغفور سے کہا کہ وہ بھی ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں‘ ان کی خواہش کے بموجب حیدرآباد کے پکے قلعہ میں چانڈیوں کی امام بارگاہ سے پہلی بار ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی تیاری کی گئی۔

    یکم محرم الحرام کو جب یہ جلوس روانگی کے لئے تیار تھا تو عجیب اتفاق ہوا کہ چارلی کی والدہ انتقال کر گئیں۔ غلام قادر کے مطابق ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع’ گورا قبرستان ‘میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہوگیا۔

    Elikaat ka Tazia

    غلام قادر جو ایلی کاٹ کے ساتھی رہے ہیں‘ بتاتے ہیں کہ ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی کو بتایا کہ وہ مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ بھی مسلمان ہو جائے اور دوسرا یہ کہ واپس انگلینڈ چلی جائیں۔ ان کی بیوی نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور وہ دو بیٹیوں سمیت انگلینڈ چلی گئیں۔ جہاں سے وہ کبھی بھی چارلی کے لئے لوٹ کر نہیں آئیں۔

    چارلی اب علی گوھر بن چکے تھے۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چلےگئے جہاں انہوں نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔ چھ ماہ بعد حیدرآباد لوٹ آئے اور بقیہ تمام زندگی اپنے ڈرائیور عبدالغفور کے پاس رہ کر گزار دی۔

    چار ربیع الاول بمطابق17اپریل 1971ء کو چارلی عرف ایلی کاٹ انتقال کر گئے اور انہیں اسی ماتمی گنبد میں دفن کر دیا گیا جہاں وہ رہتے تھے۔

     

  • ہمارے بستے ہماری کمر توڑ رہے ہیں

    ہمارے بستے ہماری کمر توڑ رہے ہیں

    آج دنیا کی کثیر آبادی کمردرد کا شکار نظرآتی ہے اور اس کا بنیادی سبب وہ بستے ہیں جو ہم دورانِ تعلیم اپنی کتابیں رکھنے کے لیے یا پیشہ ورانہ زندگی میں اپنی ضروریات کا سامان رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    امریکن ایسو سی ایشن آف نیورولوجیکل سرجن کے مطابق اس وقت 75 سے 85فیصد امریکی زندگی کے کسی نا کسی حصے میں کمر درد کی تکلیف کا شکار ہوتے ہیں‘ سنہ 2012 میں ہونے والے ایک سروے لگ بھگ 20 فیصد کمر درد کا شکار ہیں‘ 14 فیصدامریکیوں کو گردن کا درد ستا رہا ہے جبکہ 10 فیصد عرق النساء کی تکلیف جھیل رہے ہیں۔

    کمر درد سے نجات دلانے والی آسان ورزشیں

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں فی الحال اس قسم کے کوئی اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں ‘ لیکن آرتھو پیڈک ڈاکٹرز اور فزیو تھراپسٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے پاس آنے والے مریضو ں کا رش اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ صورتحال یہاں بھی کچھ بہتر نہیں ہے‘ بلکہ اگر اعداد و شمار نکالے جائیں تو شاید یہ شرح امریکہ سے زیادہ ہو‘ جس کا سبب ہمارا تھکا دینے والا اندازِ زندگی ہے۔

    کمر درد کی بنیادی وجوہات


    جدید دنیا کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے آج کے انسان اپنی صحت کے آپ دشمن بنے ہوئے ہیں‘ کمردرد کی بنیادی وجہ استعداد سے زیادہ وزن اٹھانا ہے جس کی شروعات کم عمری سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔

    دیکھنے میں آیا ہے کہ اسکول کے بچے اس وقت اپنی استعداد سے بہت زیادہ وزن اٹھارہے ہیں ‘ ان کے بستے منہ تک کتابوں اور دیگر ضروری سامان سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔

    Backache

    پیشہ ورانہ زندگی میں ہمیں لیپ ٹاپ ‘ فائلز اور کئی دیگر اشیا اپنے ساتھ لےکر گھر اور دفتر سےنکلنا پڑتا ہے ‘ انہیں اٹھانےکے لیے منتخب کردہ غیر موزوں بستے بھی کمر میں تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔

    ہم میں سے اکثر کے لئے ہمارا بٹوہ قیمتی کاغذات اور اہم شخصیات رکھنے کی جگہ ہوتا ہے جس کے سبب وہ بھرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بسا اوقات وہ دو انچ کی موٹائی بھی اختیار کرلیتا ہے ‘ یہ بٹوہ آپ کی ریڑھ کی ہڈی کے لیے شدید مسائل پیدا کرسکتا ہے۔

    ہم میں سے اکثر افراد بیٹھنے کے لیے مناسب نشست کا اہتمام نہیں کرتے جس کے سبب ہماری کمر کے زیریں حصے میں اکثر اوقات شدید تکالیف پیدا ہوجاتی ہے۔

    Backache

    کمر درد سے کیسے بچا جائے؟


    نیویارک میں پروفیشنل فزیکل تھریپی کے ڈائریکٹر نتالی لووٹز کہتی ہیں کہ غیر موزوں طریقے وزن اٹھانا کمر درد کا بنیادی سبب ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندازِ زندگی میں تبدیلی لائیں اور غیر ضروری بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کریں۔

    اسکول کے بستے

    نتالی کے مطابق اسکول جانے والے طالب علموں کے بستوں کا وزن ان کے اپنے وزن کا 10 سے 15 فیصد ہونا چاہیے لیکن بد قسمتی سے ہم دیکھتے ہیں کہ بچے اس سے کہیں زیادہ وزن روزانہ کی بنیاد پر اٹھارہے ہیں‘ یہاں تک کہ بعض اوقات تو وہ دوگنا وزن اٹھاتے ہیں‘ جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی پر دور رس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    Backache

    اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو ان کے اسکول ٹیچر سے بات کی جائے اور ٹیچر سے ان کا شیڈول حاصل کیا جائے تاکہ بچے وہی کتابیں لے کر جائیں جو اس دن کے لیے ضروری ہے‘ غیر ضروری کتب گھر پر چھوڑدی جائیں۔

    بستے کا انتخاب بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘ ہم عموماً اپنے بچوں کے لیے بڑا بستہ لیتے ہیں کہ اس میں ان کی ضرورت کی تمام تر اشیا سما جائیں۔یہ رویہ غلط ہے‘ بڑے بستے اکثر غیر ضروری اشیا سے بھرجاتے ہیں لہذا چھوٹے بستے لیے جائیں اور صرف وہی کتابیں اس میں رکھی جائیں جو ضروری ہیں۔ اس کے لیے بستے کو روزانہ کی بنیاد پر چیک کرنا ضروری ہے۔

    بستوں کے اسٹیپ وزن اٹھانے میں اہم کردار ادار کرتے ہیں‘ آپ کو دیکھنا ہوگا کہ آپ کے بچے کے اسکول بیگ کے اسٹیپ اسکی جسامت کے حساب سے ہیں کہ نہیں‘ اگر وہ زیادہ بڑے یا زیادہ چھوٹے ہوں گے تو بچے کا پوسچر خراب کریں گے جس سے انہیں مسائل پیش آئیں گے۔

    دفتر کا بیگ

    دفتر میں ہمیں ایسی بہت سی چیزو ں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں گھر پر بھی درکار ہوتی ہیں اس لیے ہم اکثر انہیں ساتھ لیے پھرتے ہیں جیسے لیپ ٹاپ ‘ حوالہ جات کے لیے کتابیں‘ پلانر وغیرہ وغیرہ۔

    Backache

    یاد رکھیے کہ دفتر کے بیگ میں ہر شے کام کی نہیں ہوتی‘ کچھ اشیا ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں ہم کام کا سمجھ کر بلاوجہ ساتھ لیے پھرتے ہیں اس لیے بیگ کو جلدی جلدی درست کرنا اور اس میں سے فاضل اشیا کم کرنا ضروری ہے۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں آپ ڈیجیٹل طریقے سے بھی استعمال کرسکتے ہیں جیسا کہ آپ کا پلانر یا کاروباری رابطوں کی ڈائری ۔ انہیں سافٹ فارمیٹ پر منتقل کیجئے اور محض ایک یو ایس بی میں لے کر آرام سے سفر کریں۔

    بٹوے کی صفائی ضروری ہے

    بہت سے افراد کئی قیمتی کاغذات اس لیے بٹوے میں رکھتے ہیں کہ وہاں وہ محفوظ رہیں گے ‘ جیسے خریداری کی رسیدیں‘ وزیٹنگ کارڈز وغیرہ۔ مقررہ معیاد گزرنےکے بعد وہ اشیا بیکار ہوجاتی ہیں اور بلاوجہ آپ کی کمر کے لیے مسائل کا سبب بنتی ہیں۔

    Backache

    یاد رکھیے آپ بٹوہ صرف پیسے ‘ بینک کارڈ اور شناختی دستاویز رکھنے کےلیے ہے لہذا اسے بریف کیس نہ بنائے بلکہ ہر ہفتے چھانٹی کرکے فضول اشیا ختم کریں اور اپنے بٹوے کو پتلے سے پتلا رکھیں۔

    اگر آپ بٹوہ ہپ پاکٹ میں رکھتے ہیں تو کہیں بھی بیٹھتے وقت اسے باہر نکال لیں ‘چاہے آپ ددفتر کی کرسی پر بیٹھے ہوں‘ ڈرائیونگ کررہے ہوں یا موٹرسائیکل چلا رہے ہوں۔ ورنہ یہ بٹوہ آپ کی کولہے کی ہڈی کو اوپر نیچے کرکے آپ کو عمر بھر کے لیے معذور کرسکتا ہے۔

    بیٹھنے کی نشست

    بیٹھنے کے لیے آپ کی نشست یا کرسی آپ کمر پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے لہذا خیال کیجئے کہ آپ نے جو نشست مقرر کی ہے وہ نہ صرف آرام دہ ہےبلکہ وہ کمر کے لیے موزوں بھی ہے۔

    Backache

    اگر آپ کی کرسی مناسب نہیں ہے تو فی الفور انتظامیہ سےمطالبہ کریں کہ آپ کو مناسب چیئر مہیا کریں اور اگر وہ نہیں کرتے تو آپ خود اس کا انتظام کرلیں کہ یہ سودا ساری عمر کمر میں درد پالنے سے پھر بھی سستا ہے۔

    یاد رکھیے ! کمر یقینا بہت مضبوط ہوتی ہے اگر آپ درست طریقے وزن اٹھائیں گے یا دیگر افعال سرانجام دیں گے تو یہ بڑھاپے تک آپ کا ساتھ دے گی لیکن اگر آپ اس کا خیال نہیں رکھیں گے تو یہ کم عمر میں ہی آپ کے لیے شدید مسائل پیدا کرسکتی ہے‘ لہذا اپنی کمر کا خیال رکھیں او ر خوشحال زندگی گزاریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

  • ہزاروں سال قبل ’کشمیری‘ کس فن میں ماہر تھے

    ہزاروں سال قبل ’کشمیری‘ کس فن میں ماہر تھے

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ہزاروں سال قدیم کشمیری ‘ اپنے ہم عصر شہروں سے زیادہ ہنرمند ‘ قابل اور خوشحال تھے ‘ موہن جو دڑو اور ہڑپہ سے ان کے تجارتی رشتے تھے۔

    کشمیریوں کی جرات و بہادری سے تو ساری دنیا ان کی طویل جدوجہدِ آزادی کے سبب واقف ہے لیکن آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کی تحقیق کے مطابق کشمیر کے رہنے والے آج سے پانچ ہزار سال قبل پارچہ بافی اور ہاتھ سے بنائے جانے والی اشیاء کے ماہر کاریگر تھے۔ واضح رہے کہ آج بھی کشمیری دستکاری کی مصنوعات دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

    یہ تحقیق بھارتی مقبوضہ وادی ٔ کشمیر کی ’برزوہام‘ نامی آرکیالوجیکل سائٹ پر کی گئی ہے اور اسے ادارے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف ایس فونیا نے مرتب کیا ہے۔

    اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ پتھر کے دور کے کشمیری ایک عام سے ابتدائی انسان کی سی زندگی گزارتے تھے لیکن طویل تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ لوگ نہ صرف ماہر کاریگر تھے بلکہ کئی دیگر خطوں سے ان کے تجارتی تعلقات بھی تھے۔

    سائٹ سے ملنے والے آثارِ قدیمہ پر کی جانے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ ٹیکسٹائل کی صنعت پر اجارہ داری رکھتے تھے اور اس وقت کے پڑوسی ممالک جن میں چین ‘ ہمالیہ کی آغوش میں آباد علاقے اور ہڑپہ تہذیب کے شہروں سے تجارتی تعلقات تھے‘ یاد رہے کہ اس زمانے میں ہڑپہ اور موہن جو دڑو اس قدیم تہذیب کے عالیشان شہر تھے جن میں سے موہن جو دڑو کے آثار پاکستان کے صوبہ سندھ میں لاڑکانہ کے قریب موجود ہیں۔

    تحقیق سے ثابت ہوا کہ نہ صرف ان کشمیریوں نے ہڑپہ اور چین سے کئی فنون سیکھے بلکہ انہوں نے اپنی فنی مہارت کے اثرات ان دونوں خطوں پر مرتب کیے۔

    برزوہام نامی سائٹ پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ایک ترقی کرتے ہوئے شہر کے آثار ہیں‘ جو کہ ابتدائی انسان کے دور سے آباد تھا جب انسان محض شکار پر گزارا کرتا تھا‘ رفتہ رفتہ یہ خطہ ترقی کرتا رہا‘ حتیٰ کہ انسانوں نے از خود اپنی خوراک پیدا کرنا شروع کردی۔


    کشمیری آج سے پانچ ہزار سال قبل ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اہم مقام رکھتے تھے

    اوراس وقت کے کئی ممالک اور اس وقت کے کئی ممالک سے ان کے تجارتی تعلقات تھے


    کئی سال جاری رہنے والی تحقیق میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ ماہر کاریگر تھے جس کی گواہی وہاں سے دریافت ہونے والی اشیاء بہم فراہم کرتی ہیں ‘ جن میں ہڈی سے بنی ہوئی سوئیاں‘ کاٹن‘ اون اور پارچہ بافی سے متعلق دوسری اشیا ان کے ٹیکسٹائل کی تجارت پر اجارہ داری کی نشاندہی کرتی ہیں۔

    دوسری جانب یہاں سے بڑی تعداد میں گلے کے ہار‘ چکنی مٹی کی بنی ہوئی چوڑیاں جو کہ اس علاقے میں نہیں بنائی جاتی تھیں‘ گواہی دیتی ہیں کہ ان کے موجودہ پاکستان اور چین سے تجارتی روابط موجود تھے۔

    موسم کی سختی سے بچنے کے لیے بنائےگئے زیرِ زمین گھر جو کہ اوپر سے ڈھکے ہوئے ہوتے تھے‘ ان سے کشمیریوں کی تکنیکی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے‘ دوسری جانب سے برآمد ہونے والی دو دھاری کرپیاں‘ دھاگہ لپیٹنے کے لیے بنائی گئی ریلیں‘ نیزوں کے سر‘ تانبے کے بنے ہوئے تیر‘ ہل اور چاقو آج سے پانچ ہزار قبل ان کے ایک ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی سے لیس قوم ہونے کا پتا دیتے ہیں۔

    یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس زمانے میں کشمیریوں کے لیے کتا اور بھیڑ سب سے اہم جانورتصور کیے جاتے تھے یہاں تک کہ انہیں انسانوں کے ساتھ دفن بھی کیا جاتا تھا ‘ یقیناً یہ اہمیت گلہ بانی کی وجہ سے رہی ہوگی جو کہ اس زمانے میں اون کے حصول کے لیے انتہائی اہم ذریعہ تھا۔

    برزوہام نامی یہ سائٹ کیمبرج کے کے دو ماہرینِ آثارِ قدیمہ ایچ ڈی ٹیرا اور ٹی ٹی پیٹرسن نے سنہ 1935 میں دریافت کی تھی‘ اس پر مزید کام سنہ 1960 سے 1971 تک ٹی این خزانچی نے کیا تھا‘ تاہم وہ کوئی حتمی رپورٹ مرتب کئے بغیر انتقال کرگئے۔ ان کے بعد فونیا نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور دس سال کی انتھک محنت سے یہ رپورٹ مرتب کی۔

  • ملیے‘ آٹھ کتب تحریر کرنے والے مصنف سے

    ملیے‘ آٹھ کتب تحریر کرنے والے مصنف سے

    حال ہی میں ایک کتاب  ’ان کنوزیشن ود لیجنڈز‘ شائع ہوئی ہے جس میں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی نامورشخصیات کے انٹرویو ہیں‘ اس کتاب کے مصنف خرم سہیل آٹھ کتابیں مرتب کرچکے ہیں‘ آئیے ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    خرم سہیل گوجرانوالہ میں پیداہوئے،پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدوالدین کے ہمراہ تلاشِ معاش کے سلسلے میں کراچی آگئے۔ میٹرک سائنس سے کیا،اس کے بعد سوشل سائنسز میں دلچسپی کی وجہ سے ان مضامین کی طرف رجحان ہوگیا۔اردوایڈوانس ،تاریخ جیسے موضوعات کوبحیثیت مضمون لیااور2009میں جامعہ کراچی کے شعبے ”ماس کمیونیکیشن“سے ماسٹرزکیا۔یونیورسٹی کی سطح پر تھیٹرڈرامیٹک سوسائٹی بنائی،مختلف بین الجامعاتی مقابلوں میں جامعہ کراچی کی نمائندگی کی اورمتعدد فتوحات حاصل کیں۔


    پاکستان کی شناخت‘50 نامور شخصیات کےانٹرویوزپرمشتمل کتاب 


    خرم سہیل نے پیشہ ورانہ زندگی کاآغاز شعبہ صحافت سے کیا۔2007میں روزنامہ آج کل سے بحیثیت فورم انچارج وابستہ ہوئے اورفنون لطیفہ کے متعلق ممتاز شخصیات کے انٹرویوزکیے،جوبعدمیں کتابی شکل میں شائع بھی ہوئے۔یہ اپنے مختصر صحافتی کیرئیر میں اب تک متعدد اخباروں اور جرائد میں کل وقتی اورجز وقتی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ان دنوں مختلف آن لائن ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔

    خرم سہیل 8کتابوں کے مصنف ہیں،جن میں سے دوکتابیں ان کے کیے ہوئے انٹرویوز کے مجموعے ہیں،جبکہ ایک انٹرویوز کا مجموعہ انگریزی زبان میں شایع ہوا ہے۔پاکستان اورجاپان کے مابین قدیم ثقافتی وادبی مراسم ہیں، دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے پچاس سال مکمل ہونے پر سنہ 2012 میں انہوں نے ایک کتاب لکھی۔

    انہوں نے بی بی سی اردو سے وابستہ معروف ادیب ”رضاعلی عابدی “کی سوانح حیات بھی لکھی،جبکہ جاپان کے ایک ممتاز ناول ،جس کاترجمہ دنیا کی پینتیس زبانوں میں ہوا،اس کو اردوزبان میں ترجمہ کیاہے۔اس کے علاوہ، ان کی ایک کتاب کاتعلق فاطمہ ثریابجیا کی ڈرامانگاری سے ہے۔

    خرم سہیل نے تھیٹر اورریڈیوکے شعبے میں بھی کام کیا۔انہوں نے پانچ سال ریڈیوپاکستان،کراچی اورایف ایم 101کراچی اسٹیشن پر خدمات انجام دیں اوربراڈکاسٹنگ کے تمام اوقات کے شوزکی میزبانی کی۔بین الاقوامی نشریات کابھی حصہ رہے۔

    جامعہ کراچی کے ریڈیوکاافتتاح ہوا،تواس کے بھی ابتدائی طالب علم‘ پروڈیوسرزاورمیزبانی میں پیش پیش رہے۔مختلف اداروں کے لیے تھیٹر کے ڈراموں کی ہدایت کاری اوراسکرپٹنگ بھی کرچکے ہیں۔

    خرم سہیل صحافتی حلقوں میں ایک معروف نام ہیں۔فنون لطیفہ سے متعلق نہ صرف پاکستانی بلکہ بین الاقوامی شخصیات کے انٹرویوز کرچکے ہیں۔ بین الاقوامی سینمامیں پاکستانی شہریت رکھنے والے یاپاکستانی نژاد فنکاروں کے بارے میں تحقیقی کام کررہے ہیں،جو قسط وارمقامی اخبارات میں شائع ہورہا ہے۔

    اس کے علاوہ دنیا بھر کے فنون لطیفہ پر لکھتے ہیں۔ادب ،فلم ،موسیقی،مصوری،ڈراماسمیت دیگر موضوعات پر تسلسل سے لکھتے رہتے ہیں۔شعروادب اورشوبز میں ان کی خدمات کاوسیع کینوس ہے۔پاکستان کی ثقافت اور بین الاقوامی فنون لطیفہ کو یہاں متعارف کروانے کے لیے یہ شب وروزعملی طورپر کوشاں ہیں،جس کی جھلک ان کے کام میں دیکھی جاسکتی ہے۔

    زیرِ نظر نظم ان کے اپنے الفاظ میں ان کی زندگی کی جدودجہد پر نظر ڈالتی ہے جو کہ انہوں نے آج کے لیے نہیں بلکہ’مستقبل کے مورخ کے لیے‘ لکھی ہے اور یہی اس کا عنوان ہے

    مستقبل کے مورخ کے لیے


    غربت میں آنکھ کھولی اوربے سروسامانی میں ہوش سنبھالا
    وہ بولے، مزدور کا بیٹا ہے،پڑھ نہیں سکتا
    بچپن، جوانی،ہجر،وصال میں یاربیلی کہتے رہے
    کیسے ہوگا ممکن،آگے بڑھ نہیں سکتا
    گھرکی دہلیزپراخبارپڑارہ گیااورکتابیں مطالعے کی میزپر
    مادرعلمی کے سارے موسموں سے ،دال پر روٹی گھسیٹنے کی مشقت تک
    وہ خوش گمان تھے ،خواب دیکھنے والا لڑنہیں سکتا
    سیٹھ کی دنیا،ادب کے کباڑی
    سیاست و مذہب اورثقافت کے مداری
    منظر،متن،معنی،چہرے،لہجے،پڑھتے پڑھتے
    میں جینے لگا،پڑھنے ،لکھنے اوربولنے لگا
    کھرے کے ساتھ کھوٹے ،بد کے ساتھ نیک
    پتھر اورہیرے چننے لگا
    اردگردہی تھے وہ گوشہ نشیں،عالم بے خودی والے بھی
    سادہ،بے بدل،روشن،بے غرض،شفاف آئینے کی طرح
    پتھر کے جنگل میں انسانوں سے ملنے لگا
    میر،منٹو اورجون صاحب تک آتے آتے،خود سے بھی ملاقات ہوگئی
    خاموشی کے شورمیں،اپنے حصے کی سچائی لکھنے لگا
    زندگی کی محبوبہ روٹھ جانے تک
    اپنے عہد کی سچی گواہی رقم کرتارہوں گا
    مستقبل کے مورخ کے لیے

  • این اے 120 کہاں سے ہجرت کرکے پاکستان آیا؟

    این اے 120 کہاں سے ہجرت کرکے پاکستان آیا؟

    لاہور کے حلقہ این اے 120 میں آج ضمنی انتخابات ہورہے ہیں‘ کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور آنے سے پہلے یہ حلقہ کہاں ہوا کرتا تھا اور کس طرح یہ لاہور تک پہنچا۔

    مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاناما کیس میں نااہلی کے سبب خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں سابق وزیراعظم کی اہلیہ کلثوم نواز‘ تحریک انصاف کی یاسمین راشد اور پیپلز پارٹی کے فیصل میر سمیت کل 29 امیدوار میدان میں ہیں۔

    این اے 120 لاہور کا ایک بڑا اور اہم حلقہ ہے اور اس کے قابلِ ذکر علاقوں میں امین پارک، کریم پارک، گنج کلاں، بلال گنج، انارکلی، گوالمنڈی، قلعہ گوجر سنگھ، مزنگ، جناح ہال، اسلام پورہ، چوہان پارک، ساندہ کلاں، موہنی روڈ، شیش محل روڈ اور بیڈن روڈ شامل ہیں۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ این اے 120 ہمیشہ سے یہاں نہیں تھا بلکہ اس کی ایک تاریخ ہے اور مختلف شہروں سے ہوتا ہوا یہ حلقہ لاہور پہنچا ہے ‘ قیام پاکستان کے بعد حلقہ این اے 120 مشرقی پاکستان کے علاقے ’سلہٹ‘ کے حصے میں آیا تھا ۔سنہ 1970 کے عام انتخابات میں این اے120 سلہٹ ون سے مصطفیٰ علی کامیاب ہوئے تھے۔

    این اے 120 کی مشرقی پاکستان سے ہجرت

    مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے جب ملک کا نقشہ ہی بدل گیا تو حلقہ بندیاں بھی تبدیل کی گئیں۔ ان نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں حلقہ این اے 120 سابقہ مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے موجودہ پاکستان کے شہر ملتان پہنچ گیا۔

    سنہ 1972 سے 1977 تک قومی اسمبلی میں 120 سے پیپلز پارٹی کے مخدوم زمان طالب نمائندگی کرتے رہے۔ سنہ 1977 کے عام انتخابات میں این اے ایک سو بیس ملتان دس سے پیپلز پارٹی کے تاج محمد بطور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

    ضیا الحق کی آمریت کے دوران جب سنہ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد ہوا تو این اے 120 میں رانا شوکت حیات نون فاتح قرار پائے تھے۔

    سنہ 1988 میں ایک بار پھر حلقہ بندی کی گئی جس کے نتیجے میں حلقہ این اے120 میں ملتان اور خانیوال کے کچھ علاقے شامل کیے گئے۔ اسی برس ہونےوالے انتخابات میں این اے 120 ملتان کم خانیوال سے پیپلز پارٹی کے چوہدری عبدالرحمان واہلہ کامیاب ہوئے۔

    این اے 120 کی تاریخ‘ کون کب جیتا؟

    انیس سو نوے کے انتخابات میں این اے 120 کم خانیوال سے آئی جے آئی کے جاوید ہاشمی جبکہ انیس سو ترانوے میں پیپلز پارٹی کےشاہ محمود قریشی منتخب ہوئے۔ انیس سو ستانوے کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے جاوید ہاشمی نے دوبارہ اس نشست پرکامیابی حاصل کی۔

    این اے 120 کی حالیہ شکل


    موجودہ این اے 120 ماضی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 95 کے زیادہ تر اور این اے 96 کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے‘ اسے موجودہ شکل سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کرائے گئے انتخابات سے قبل کی گئی حلقہ بندیو میں دی گئی ۔

    موجودہ این اے 120 کے زیادہ تر علاقے ‘ جنرل ضیا الحق کے گیارہ سالہ آمرانہ دور سے شریف برادران کے زیر اثر ہیں سنہ 1988 کے عام انتخابات سے وہی یہاں فتح یاب ہورہے ہیں ‘ ا س سے قبل یہ دونوں نشستیں پیپلز پارٹی کے امید وار جیتا کرتے تھے اور پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے آخری مرتبہ جہانگیر بدر این اے 96 کے انتخابات میں کامیاب قرار پائے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • این اے 120 کی تاریخ‘ کون کب جیتا؟

    این اے 120 کی تاریخ‘ کون کب جیتا؟

    اتوار کے روز لاہور کے حلقہ این اے 120 کا انتخابی معرکہ منعقد ہونے جارہا ہے قومی اسمبلی کی یہ نشست سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاناما کیس میں نا اہلی کے نتیجے میں خالی ہوئی تھی۔

    این اے 120 لاہور شہر کے قلب میں واقع ایک وسیع و عریض حلقہ ہے اور سابق وزیراعظم کی نا اہلی کے بعد ملکی منظرنامے پر سب سے زیادہ زیر گفتگو موضوع بھی یہی ہے۔

    NA 120 History

    الیکشن کمیشن آف پاکستان نے این اے 120 کے ضمنی انتخابات کے لیے 17 ستمبر کا دن مقرر کیا ہے اورمسلم لیگ ن کی جانب سے بیگم کلثوم نوازاور تحریکِ انصاف کی جانب سے ڈاکٹر یاسمین راشد اس نشست کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔

    پیپلز پارٹی کی جانب سے فیصل میر میدان میں ہیں جبکہ 19 آزاد نمائندوں سمیت کل 29 امید وار اس نشست کے لیے میدان میں ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں سابق وزیراعظم نواز شریف 91 ہزار چھ سو چھیاسٹھ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔

    آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں لاہور کے اس حلقے کی انتخابی تاریخ پر جس سے اندازہ ہوگا کون سی جماعت یہاں عموماً فاتح رہی ہے۔

    الیکشن 2013


    مسلم لیگ ن کے رہنما اور پاناما کیس میں ناا ہل ہونے والے سابق وزیراعظم نواز شریف یہاں سے 91 ہزار چھ سو چھیاسٹھ ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے‘ ان کے مدمقابل تحریکِ انصاف کی امید وار ڈاکٹر یاسمین راشد 52 ہزار تین سو اکیس ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار زبیر کاردار محض چھبیس سو چار ووٹ لے سکے۔

    الیکشن 2008

    مسلم لیگ ن کے بلال یاسین 65 ہزار نو چھیالیس ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر نے 24 ہزار تین سو اسی ووٹ لیے۔ پاکستان مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے طاہر ضیا 4 ہزار دو سو ستر ووٹ حاصل کرسکے۔

    الیکشن 2002


    سنہ 2002 میں سابق صدر پرویز مشرف کے زیرِ نگرانی ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد پرویز ملک 33 ہزار سات سو اکتالیس
    ووٹ لےکر فاتح قرار پائے جبکہ پیپلز پارٹی کے الطاف احمد قریشی نے 19 ہزارچار سو تراسی ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ ق کے امیدوار میاں اشرف 15 ہزار پچاسی ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

    پہلے یہ حلقہ ملتان میں ہوا کرتا تھا‘ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی جانے والی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں یہ حلقہ لاہور کے دوسابقہ حلقوں( این اے پچانوے اور این اے چھیانوے) کے علاقوں کر ملاتشکیل دیا گیا۔

    الیکشن 1997


    این اے 95 سے مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف 50 ہزار پانچ سوبانوے ووٹ لے کرفاتح قرار پائے تھے تاہم انہوں نے یہ نشست خالی کردی تھی اور ان کی جگہ انہی کی جماعت کے محمد پرویزملک یہاں سے جیتے۔

    دوسری جانب این اے 96 سے میاں محمد شہباز شریف نے 47 ہزار چھ سو چودہ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تاہم انہوں نے بھی یہ نشست خالی کردی اور ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن ہی کے امیدوار کامل علی آغا فاتح قرار پائے۔

    الیکشن 1993


    این اے 95 سے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف 57 ہزار نو سو انسٹھ ووٹ لے کر نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے تاہم انہوں نے یہ نشست خالی کردی تھی اور ان کی جگہ انہی کی جماعت کےاسحاق ڈار یہاں سے جیتے۔

    دوسری جانب این اے 96 سے میاں محمد شہباز شریف نے 55 ہزار آٹھ سو سرسٹھ ووٹ  لے کر کامیابی حاصل کی تاہم انہوں نے بھی یہ نشست خالی کردی اور ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مخدوم جاوید ہاشمی نے کامیابی حاصل کی۔

    الیکشن 1990


    این اے 95 سے اس وقت اسلامی جمہوری اتحادی کے پلیٹ فار م سے میاں نواز شریف نے 59 ہزارنو سو چوالیس نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ دوسری جانب این اے 96 سے میاں محمد شہباز شریف نے 54 ہزار پانچ سو چھ  ووٹ لے کراسلامی جمہوری اتحادی کے پلیٹ فار م سے الیکشن لڑا اورکامیابی حاصل کی۔

    الیکشن 1988


    سابق ملٹری صدر ضیا الحق کے طیارہ حادثے کے فوری بعد ہونے والے انتخابت میں این اے 95 سےاسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے میاں نواز شریف 49 ہزار تین سو اٹھارہ  ووٹ لے کر یہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے‘  تاہم انہوں نے یہ نشست خالی کردی تھی اور ان کی جگہ میاں اظہر یہاں سے فاتح قرار پائے۔

    دوسری جانب این اے 96 سے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے جہانگیربدر 63 ہزار تین سو اڑسٹھ ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے ‘ انہوں نے آئی جےآئی کے سلمان بٹ کو شکست دی تھی۔

    الیکشن 1985


    سنہ 1985 میں سابق ملٹری صدر ضیاالحق کے زیرِ اثر ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں این اے 95 سے میاں شمیم حیدر فاتح قرار پائے جبکہ این اے 96 سے ملک سرفراز احمد نے کامیابی حاصل کی۔

    الیکشن 1977


    این اے 95 سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے محمد عارف اعوان قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے جبکہ این اے 96 سے پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما شمیم حیدر کامیاب قرار پائے۔

    الیکشن 1972


    این اے 95 سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد صادق فاتح قرار پائے تھے جبکہ این 96 سے راؤ خورشید علی خاں نے کامیابی حاصل کی تھی۔

    ان انتخابی نتائج کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حلقہ پیپلز پارٹی کا تھا جہاں سے مسلم لیگ ن نے ان کا صفایا کردیا‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ کل ہونے والے انتخابات میں یہاں کے عوام کس جماعت پر اپنے اعتماد کا اظہا رکرتے ہیں۔