معروف گلوکار شفقت امانت علی کی خوبصورت آواز میں نئے ملی نغمے نے دھوم مچادی‘ عوام میں’تو سلامت وطن ‘کو بے پناہ پذیرائی مل رہی ہے۔
پاک فوج کے شعبہ نشرو اشاعت ’آئی ایس پی آر کی جانب سے یومِ دفاع کی مناسبت سے نیا ملی نغمہ تو سلامت وطن جاری کیا گیا ہے‘ جس کے مرکزی گائیک شفقت امانت علی ہیں جبکہ ان کے ساتھ حنا نصر اللہ ‘ فاخر اور ساحر علی بھگا بھی اپنی آواز کے جادو جگارہے ہیں۔
تو سلامت وطن نامی اس گانے میں آئی ایس پی نے وطنِ عزیز کے لیے اپنی جاں قربان کرنے والے افراد کو سلامِ عقیدت پیش کیا ہے ‘ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر اسے شیئر کیا ہے۔
گانے کی ویڈیو میں جہاں ایک جانب پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارتوں کی حقیقی ویڈیوز استعمال کی گئی ہیں‘ وہی فوج کے شہداء کے ساتھ وطنِ عزیز کے لیے اپنی جان قربان کرنے والے سویلین شہریوں کو بھی یاد کیا ہے جن میں شہید اعتزاز حسن‘ سی آئی ڈی افسر چودھری اسلم‘ بشیر احمد بلور‘ شہید صحافی نصر اللہ آفریدی ‘ شہید ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور اے پی ایس کی پرنسپل طاہرہ سمیت دیگر شامل ہیں۔
پاک فوج کے شہداء میں سے پس منظر میں نشانِ حیدر پانے والے شہدا کی تصاویر نمایاں ہیں جبکہ شہید فلائنگ آفیسر مریم مختیار‘ شہید اسٹنٹ ڈائریکٹر آئی ایس آئی اسامہ لاشاری اور دیگر شہداء کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔
عوام میں اس نئے ملی نغمے کو بے پناہ پسند کیا جارہا ہے اور لوگ اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرکے اپنے وطن اور اپنے شہداء سے محبت کا اظہار کررہے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
کراچی: ملک بھرمیں یوم فضائیہ ملی جوش وجذبے سے منایا جارہاہے، انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں شہید ہونے والے پاک فضائیہ کے جانبازوں کی قربانیاں فضائیہ کی تاریخ میں نا قابل فراموش ہیں۔
پاک بھارت انیس سوپینسٹھ کی جنگ میں پاک فضائیہ کے ناقابلِ فراموش کردار کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے سات ستمبر کو یوم فضائیہ ملی جوش وجذبے سے منایاجاتا ہے، یوم فضائیہ یاد دلاتا ہے کہ جب بزدل بھارتی افواج نے اچانک پاکستان پر حملہ کیا تو کس طرح ہمارے جاں باز دلیر شاہینوں نے دشمن کے حملے کو پسپا کرکے وطن عزیزکی آن بان اورشان کو قائم رکھا۔
پاک فضائیہ نےبھارتی فضائیہ کے خلاف اپنی کارروائی چھ ستمبر کی شام کو شروع کی اور سات ستمبرکو شام پانچ بجے سے پہلے دشمن کے تریپن طیارے تباہ کرکے ناقابل شکست فضائی برتری حاصل کی۔
جھپٹ کر پلٹنا ‘پلٹ کرجھپٹنا اورپھر دشمن کو بھاگنے پرمجبورکردینا یہی وہ عزم ہے جسے یومِ فضائیہ کے دن ہمارے شاہین دہراتے ہیں، پاکستانی قوم اپنےجاں بازشاہینوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آج کے دن تقریبات کا انعقاد کرے گی، سرکاری عمارات پر پرچم لہرائے جاتے ہیں اور شہداء کی قبروں پر پھول چڑھائے جائیں گے۔
جنگِ ستمبر میں پاک فضائیہ کے اس ہیرو سکواڈرن لیڈر محمد محمودعالم کو یہ اعزازحاصل ہے کہ انھوں نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں سرگودھا کے محاذ پرپانچ انڈین ہنٹرجنگی طیاروں کوایک منٹ کے اندراندرمارگرایا جن میں سے چارابتدائی تیس سیکنڈ کے اندر مارگرائے گئے تھے اوریہ ایک عالمی ریکارڈ تھا۔
اس مہم میں ایم ایم عالم صاحب ایف 86 سیبرطیارہ اڑا رہے تھے۔
آج کے دن پاکستان ایئر فورس کے جواں سالہ شہید پائلٹ راشد منہاس کی قبر پر بھی حاضری دی جاتی ہے اور پھول چڑھائے جاتے ہیں‘ راشد منہاس نے20 اگست 1971 کواپنے انسٹریکٹر کی پاک فوج کا طیارہ دشمن سرزمین پرلے جانے کی سازش کو ناکام بناتے ہوئے طیارہ پاکستان کے حدود میں گراکر دشمن کا خواب خاک میں ملا دیا تھا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیگر اقوام سے منفرد اورممتاز کرنے کے لئے عیدالفطر اورعید الاضحیٰ جیسے دو خوشی کے مواقع سے نوازا ہے، عید الاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل کی لازوال قربانی کی یادگارہے۔
ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین روز لگاتار خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے فرزند جنابِ اسماعیل کو اللہ کی راہ میں ذبح کررہے ہیں نبی کا خواب سچا ہوتا ہے لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا خواب اپنے بیٹے کوسنایا اوروفا شعاربیٹے نے مشیت الہٰی کے آگے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے حضرت ابراہیم سے کہا کہ ’’آپ کو جو حکم دیا گیا ہے آپ اس کی تکمیل کریں اور بے شک آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر اسماعیل علیہ السلام کو لے کر خانہ کعبہ کی جانب روانہ ہوئے کہ اللہ کے حکم کو پورا کیا جاسکےاس موقع پرجنابِ اسماعیل نے اپنے عظیم والد سے فرمائش کی کہ ذبح سے قبل دو امور انجام دے لیجئے اولاً یہ کہ میرے ہاتھ پیرباندھ دیجئے کہ مبادا میرا تڑپنا کہیں صبرکے درجات کو کم نہ کردے دوئم یہ کہ آپ اپنی آنکھوں پرپٹی باندھ لیجئے کہ کہیں وقت ِذبح شفقتِ پدری کے سبب آپ امرِ الہٰی کی تکمیل میں کمزور نہ پڑجائیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی طریق کے مطابق اپنے فرزند کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنے کی نیت سے چھری چلائی ہی تھی کہ رحمتِ پروردگار جوش میں آئی اور جنت سے ایک مخصوص مینڈھا بھیجا گیا جوکہ فی الفور حضرت اسماعیل کی جگہ قربان ہوگیا، کہتے ہیں حلقوم جنابِ اسماعیل علیہ السلام پر تیز چھری رواں ہوچکی تھی جس کے سبب ان کے گلے پر نشان آگیا تھا۔
فَدَیْناهُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ (سورہ صافات: 107)۔
ہم نے ذبح عظیم کو قربانی کا فدیہ اورعوض قراردیا
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کو بارگاہ ایزدی میں اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ اللہ نے اسے دینِ اسلام کی سب سے بڑی عبادت یعنی حج کا لازمی رکن قراردیا اور نہ صرف حاجیوں پربلکہ تمام صاحب اسطاعت مسلمانوں پر فرض کیا ہے۔
اللہ کی راہ میں حلال جانور کی قربانی محض ایک رسم نہیں بلکہ احکام الہیٰ کی پاسداری میں اپنی عزیزترین شے قربان کردینے کے جذبے کااعادہ ہے اوراسی سبب قربانی کرنے والا اس گوشت کا واحد حقدار نہیں ہوتا بلکہ اس کے دوست واحباب اور معاشرےکے ضرورت مند طبقے بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔
عید الاضحیٰ کے دن جو امر ہمارے لئے سب سے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم قربانی کرتےوقت اپنےاعزاء اقربا اور ہمسایوں میں ان تمام لوگوں کو یاد رکھیں جو کہ قربانی کے گوشت کے صحیح حقدارہیں۔
قربانی کو نمود ونمائش کا ذریعہ قراردینے کی علماء نے سختی سے ممانعت کی ہے اور ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کے رحجان کو ناپسندیدہ قراردیا ہے لہذاقربانی کرتے وقت ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اس عظیم ایثار کی یاد مناتے وقت ہم سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہوکہ بارگاہ الہٰی میں تقرب کے بجائے اس کی ناراضگی کا سبب بن جائے۔
اسلام آباد: اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعر فرازاحمد فرازؔ کی آج نویں برسی ہے آپ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔
اردو ادب کے اس بے مثل و بے بدل شاعر کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ءکو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔
احمد فراز کے مشاعرے کی ویڈیو دیکھنے کے لئے نیچے اسکرول کیجیے
احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔
ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں
ان کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔
اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
فراز احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔
لاکھوں دلوں کی آواز احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
شکوہ ٔظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
لاہور: قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 سے پاکستان تحریکِ انصاف کی امید وار ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل دھاندلی کا نوٹس نہیں لیا گیا تو دھرنا دوں گی۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر یاسمین راشد نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے اعلان کےبعدضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کانوٹس لیاجاسکتاہے
تحریکِ انصاف کی امید وار کا کہنا تھا کہہم اپنی انتخابی مہم میں کسی کوپریشان نہیں کررہے‘ اگر پری پول دھاندلی کانوٹس نہیں لیاگیاتو الیکشن کمیشن پردھرنادوں گی ۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے مسلم لیگ ن کی امید وار اور سابق نا اہل وزیراعظم کی اہلیہ کی بیماری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کلثوم نواز کی بیماری ان کی انتخابی مہم پر اثرپڑے گا لیکن مریم نواز مریم نوازاپنی والدہ کی مہم اچھی طرح چلاسکتی ہیں۔
انہوں نے پرویزملک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ان سےدرخواست ہےقوم کوبےوقوف نہ بنائیں‘ ان کوجتنی دعوتیں کھانی ہیں وہ17ستمبرکےبعدکھائیں۔
یاسمین راشد نے الزام عائد کیا کہ این اے 120 کے انتخابات میں پری پول دھاندلی کی جارہی ہے اور اس کے لئے پنجاب حکومت کے ذرائع کا استعمال کیا جارہا ہے ‘ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ادارے ہمارے تشہیری پینا فلیکس اتار رہے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے لگے رہتے ہیں۔
یاد ر ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر نے وفاقی وزیرِ تجارت پرویز ملک اور دیگر ن لیگی ارکان اسمبلی کے خلاف این اے 120 لاہور کے ضمنی الیکشن میں ایک امیدوار کو فائدہ پہنچانے کے لیے سرکاری مشینری کے استعمال کی شکایت کی تھی جس کے بعد ان سے تحریری جواب طلب کرلیا گیا۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں
کراچی: معروف صحافی ’خرم سہیل ‘ کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’ ان کنورسیشن ود ھ لیجنڈز‘‘ کی تقریبِ رونمائی ‘ کراچی کے فرانسیسی ثقافتی مرکز میں منعقد کی گئی ‘ انٹرویوز کو انگریزی قالب میں افراح جمال نے ڈھالا ہے ۔
یہ کتاب پاکستانی فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی 50 نامور شخصیات کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے، جن کا انگریزی ترجمہ افراح جمال نے کیا ہے۔ ان دونوں صحافیوں نے، اس کتاب کو بین الاقوامی دنیا کے سامنے، پاکستان کے ثقافتی تعارف کو پیش کرنے کی غرض سے، مشترکہ منصوبے پر ایک ساتھ کام کیا۔
ان کنورسیشن ودھ لیجنڈز
یہ تقریب فرانسیسی ثقافتی مرکز کے تعاون سے منعقد کی گئی۔ اس موقع پر پاکستان کے معروف ستارنواز استاد رئیس خان اور گٹارسٹ عامر ذکی کو تراب علی ہاشمی (ستارنواز) اور آصف سنین(گٹارسٹ) نے، اپنے فن کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا۔
In conversation with legends
خرم سہیل اور افراح جمال نے اس مشترکہ منصوبے پر کام کرنے کے دوران آنے والی دشواریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے تجربات بیان کیے۔ اس کتاب کے مصنف اورصحافی خرم سہیل کی 10سالہ صحافتی جدوجہد مکمل ہونے پر ایک دستاویز ی فلم بھی حاضرین کو دکھائی گئی۔
اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خرم سہیل کا کہنا تھا کہ یہ کتاب ان کے دس سالہ صحافتی سفر کا احاطہ کرتی ہے اوربالخصوص بین الاقوامی قارئین یعنی غیر ملکیوں کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ ہم پاکستان کی ثقافت کو مختصر اورجامع انداز میں دنیا کے سامنے مثبت انداز میں پیش کرسکیں۔
خرم سہیل کتاب پر دستخط کرتے ہوئے
افراح جمالاپنی ایک فیس بک پوسٹ میں کہتی ہیں کہ اس کتاب کو مرتب کرنے کا مقصد بین الاقوامی دنیا کو بتانا ہے کہ پاکستان بھی اپنی مضبوط ثقافت اور فن کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہے‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کتاب کے پیچھے ان کی چار سال کی محنت ہے۔
تقریب کے حاضرین میں فرانسیسی ثقافتی مرکز کے ڈائریکٹر”جے فرانسیز شینا“، جاپان کے نائب قونصل جنرل”کازوسکادا“، جمیل دہلوی(فلم ساز) جاوید جبار(دانشور)، علی ٹم(موسیقار) ، آئلہ رضا(ڈائریکٹرکل پاکستان موسیقی کانفرنس) ، عمرفرید(مصور) اکبرسبحانی(اداکار) ، عاطف بدر(تھیٹر) سبوحہ خان(قلم کار)، اقبال صالح محمد(چیئر مین پیرا ماؤنٹ بکس) ، شمیم باذل اور شاہد رسام(مصور) کے علاوہ بھی، ثقافت اور صحافت سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے شرکت کی۔
خرم سہیل اور افراح جمال بین الا قوامی فلم ساز جمیل دہلوی کو اپنی کتاب پیش کر رہے ہیں، وہ اس کتاب میں اور سرورق پر بھی موجود ہیں
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
آج پاکستان کے سابق فوجی آمراورچھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق کی انتیسویں ویں برسی ہے، انہوں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے 1977ء میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں ، وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کے لیے ایک معمہ ہے۔ وہ تادمِ مرگ، سپاہ سالار اورصدارت، دونوں عہدوں پر فائزرہے ہیں۔
سابق صدرمملکت اورسابق چیف آف آرمی سٹاف، اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سن 1945ء میں فوج میں کمیشن ملا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں اور آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹرمقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولری رجمنٹ کی قیادت کی۔
انہوں نے اردن کی شاہی افواج میں بھی خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں انہیں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اورپھربریگیڈیر بنادیا گیا۔ 1973 میں میجرجنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرترقی دے کرکورکمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پرترقی پاکرپاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔
سنہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اورذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابترہوگئی۔ پیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا،تاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اورمارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے5 جولائی 1977 کو منتخب حکومت پر’آپریشن فیئر پلے‘کے نام سے شب خون مارکراقتدارپرقبضہ کرلیا۔
ضیا الحق اور سابق وزیراعظم نواز شریف
انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف اور صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ 90 دن بھی طوالت پا کر11سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شدید مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو گرفتارکرلیاگیا اوران پرنواب احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائیکورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اورباربارالیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں انہوں نے اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔
فروری 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پرآٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پرنااہلی اوربدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پرپانی پھرگیا ہے۔
جنرل ضیا کے دورمیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے‘ جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاِسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیارکرکے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج ان کی موت کے ستائیس سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اورمنشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑرہے ہیں۔
اسلام آباد میں واقع ضیا الحق کا مزار
جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اورامریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے اور ان کی گیارہ سالہ آمریت کا باب بند ہوگیا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
کراچی: آج بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی 56 ویں برسی ہے، آپ برِ صغیر پاک ہند کے عظیم اردو مفکر، محقق، ماہر لسانیات، معلم، بانی انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کے بانی تھے۔
مولوی عبدالحق 20 اپریل،1870ء کوبرطانوی ہندوستان کے ضلع میرٹھ کے ہاپوڑ نامی قصبے میں پیدا ہوئے، مولوی عبدالحق کے بزرگ ہاپوڑ کے ہندو کائستھ تھے، جنہوں نے عہدِ مغلیہ میں اسلام کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اور ان کے سپرد محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں (مولوی عبدالحق کے خاندان کو) وہ مراعات و معافیاں حاصل رہیں جو سلطنت مغلیہ کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئیں تھیں۔ ان مراعات کو انگریز حکومت نے بھی بحال رکھا۔
مولوی عبدالحق نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر میرٹھ میں پڑھتے رہے۔ 1894ء میں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی صحبت میسر رہی۔ جن کی آزاد خیالی اور روشن دماغی کا مولوی عبدالحق کے مزاج پر گہرا اثر پڑا۔ 1895ء میں حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد منتقل ہوگئے۔ ملازمت ترک کرکے عثمانیہ اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
انجمن ترقی اردو کا پرانا دفتر
جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ مولوی عبدالحق اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے ،وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔
انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔
یاد میں جاری کردہ ٹکٹ
انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ اس انجمن کے تحت لسانیات، لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعدانہوں نے اسی انجمن کے زیرِاہتمام کراچی، پاکستان اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لاء کالج جیسے ادارے قائم کیے۔ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔
سنہ 1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انہیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ، 1959ء کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
مولوی عبدالحق کی ویسے تو بے شمار تصانیف ہیں تاہم ان میں مخزنِ شعرا،اردو صرف ونحو، افکارِ حالی، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ،سرسیداحمد خان، اور دیگر مقبولِ عالم ہیں۔
بابائے اردو کی آخری آرام گاہ
بابائے اردو مولوی عبداحق 16 اگست، 1961ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ آپ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبدالحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں، حکومتِ پاکستان نے ان کی یاد میں یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
یومِ آزادی کے موقع پر تو پاکستان کی ہر گلی ، ہر سڑک اور گاڑی قومی پرچم سے مزین ہوتی ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ قومی پرچم کو لہرانے کے کچھ آداب بھی ہیں جنہیں ہر صورت ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے بالخصوص رنگ کےمعاملے میں تو کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیئے۔
پاکستان کے قومی پرچم کا سرکاری نام ’پرچم ِ ستارہ و ہلال‘ ہے اوراس کا ڈیزائن امیر الدین قدوائی نے قائد اعظم کی ہدایت پر مرتب کیا تھا اورپاکستان کا پہلا پرچم ماسٹر الطاف حسین اورافضال حسین نے سیا تھا۔
یہ گہرے سبز اور سفید رنگ پر مشتمل ہے جس میں تین حصے گہراسبز اور ایک حصہ سفید رنگ کا ہوتا ہے۔سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے جبکہ سبز حصے کے بالکل درمیان میں چاند(ہلال) اور پانچ کونوں والا ستارہ ہوتاہے، سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی اور ستارے کا مطلب روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے۔
کسی سرکاری تدفین کے موقع پر’ 21′+14′, 18′+12′, 10′+6-2/3′, 9′+6-1/4سائز کا قومی پرچم استعمال کیا جاتا ہے اور عمارتوں پر لگائے جانے کے لئے 6′+4′ یا3′+2′کا سائز مقرر ہے۔
سرکاری گاڑیوں اور کاروں پر12″+8″کے سائز کا پرچم لگایا جاتا ہے جبکہ میزوں پر رکھنے کے لئے پرچم کا سائز 6-1/4″+4-1.4″ مقرر ہے۔
پاکستان کے قومی پرچم کے لہرانے کی تقاریب پاکستان ڈے(23مارچ)،یوم آزادی(14اگست)،یوم قائد اعظم(25دسمبر) منائی جاتی ہیں یا پھر حکومت اگر چاہے تو کسی اورخاص موقع پر پرچم لہرانے کا اعلان کرسکتی ہے۔
پاکستان کا پہلا قومی پرچم
اسی طرح قائد اعظم کے یوم وفات(11ستمبر) ،علامہ اقبال کے یوم وفات(21اپریل) اور لیاقت علی خان کے یوم وفات(16اکتوبر) پر قومی پرچم سرنگوں رہتاہے یا پھر کسی اور موقع پر کہ جس کا حکومت اعلان کریں، پرچم کے سرنگوں ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں پرچم ڈنڈے کی بلندی سے قدرے نیچے باندھا جاتاہے ۔اس سلسلے میں بعض افراد ایک فٹ اور بعض دو فٹ نیچے بتاتے ہیں۔
سرکاری دفاتر کے علاوہ قومی پرچم جن رہائشی مکانات پر لگایا جا سکتاہے ان میں صدر پاکستان ، وزیراعظم پاکستان ،چیئرمین سینٹ ، سپیکر قومی اسمبلی، صوبوں کے گورنر ،وفاقی وزراء اور وہ لوگ جنہیں وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہو، صوبوں کے وزارائے اعلیٰ اور صوبائی وزیر ، چیف الیکشن کمشنر ،ڈپٹی چیئرمین آف سینٹ ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اور دوسرے ممالک میں پاکستانی سفیروں کی رہائش گاہیں شامل ہے ۔
قومی پرچم کی سرکاری ساخت اور رنگ
پہلے ڈویژن کے کمشنر اور ضلع کے ڈپٹی کمشنرکو بھی اپنی رہائش گاہوں پر قومی پرچم لگانے کی اجازت تھی ۔ قبائلی علاقوں کے پولیٹیکل ایجنٹ بھی اپنے گھر پر قومی پرچم لگا سکتے ہے۔جبکہ اس ہوائی جہاز ، بحری جہاز اور موٹر کار پر بھی قومی پرچم لہرایا جاتا ہے کہ جس میں صدر پاکستان ،وزیر اعظم پاکستان ،چیئرمین سینٹ ، سپیکر قومی اسمبلی ،چیف جسٹس آف پاکستان ،صوبوں کے گورنر ، صوبوں کے وزارءاعلیٰ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سفر کر رہے ہوں۔
بحیثیت شہری ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جشن آزادی کے موقع پر لگائے گئے پرچموں کی حفاظت کریں اور یومِ آزادی گزرجانے کے بعد ان پرچموں کو احتیاط کے ساتھ مناسب جگہ پر رکھنے کا اہتمام کریں، یاد رکھیں زندہ قومیں کبھی بھی اپنے قومی پرچم کی بے حرمتی نہیں ہونے دیتیں چاہے وہ ایک جھنڈی یا چھوٹا سے بیج ہی کیوں نا ہو۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
ٹوکیو: جاپان کے شہر ناگا ساکی پر امریکی ایٹمی حملے کو 72 برس بیت گئے، امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا تھا۔
ناگاساکی پربم گرانے کی ویڈیو خبر کے آخر میں
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان پر دو تاریخ ساز ایٹمی حملے کیے تھے جن کی زد میں آکردو لاکھ سے زائد افراد اپنی جان گنوا بیٹھے تھے اور اس سے دوگنی تعداد تابکاری سے متاثر ہوئی تھی۔
امریکہ نے ناگا ساکی پر حملہ 9 اگست 1945 کو بی 29 طیارے کے ذریعے ایٹمی بم گرایا جس کا کوڈ نام ’فیٹ مین‘ رکھا گیا تھا، اس بم نے ناگاساکی میں قیامت برپا کردی اور جاپانی اعداد وشمار کے مطابق لگ بھگ 70 ہزار افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے جن میں سے 23سے 28 ہزار افراد جاپانی امدادی کارکن تھے جبکہ ایک بڑی تعداد جبری مشقت کرنے والے کورین نژاد افراد کی بھی تھی۔
ناگاساکی میں ایٹمی حملے کی تباہ کاری کا ایک منظر
اس حملے سے تین دن قبل جاپان ہی کے شہر ہیروشیما پر امریکہ نے ’لٹل بوائے‘ نامی ایٹم بم گرایا تھا جس سے پھیلنے والی تباہی کے نتیجے میں ایک لاکھ40 ہزار کے لگ بھگ افراد مارے گئے تھے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں جاپابی شہری ان دونوں حملوں میں تابکاری اور مہلک حملوں کا شکار ہوئے۔
بم گرنے کا فضائی منظر
اس واقعے کے ٹھیک چھ دن بعد یعنی پندرہ اگست 2015 کو جاپانی افواج نے ہتھیار ڈالدیے اور دنیا کی تاریخ کی ہولناک ترین جنگ یعنی جنگِ عظیم دوئم اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔
حملے میں تباہ ہونے والا مہاتما بدھا کا مجسمہ
ناگاساکی شہر کے مئیر ’تومی ہی سا تاؤ‘نے اس موقع پر جاپانی حکومت سے نیوکلیائی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے میں شامل ہونے پر زور دیا ہے‘ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے 122 ممبر ممالک نے نیوکلائی ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ کیا ہے۔
جاپان میں وہ افراد جن کے پاس ایٹمی حملوں میں بچ جانے کا سرٹیفیکٹ تھا انہیں’ ہباکشا‘ کہا جاتا ہے ،صرف ناگا ساکی میں ان کی تعداد 174،080بتائی جاتی ہے اور ان کی اوسط عمر 80 برس ہے۔
ایٹمی حملوں کی یادگار پر ایک خاتون دکھ کا اظہار کرتے ہوئے
ناگاساکی کی حکومت نے اگست 2016 میں 3،487 ہباکشا افراد کے مرنے کی تصدیق کی ہے جس کے بعد ان بعد میں مرنے والوں کی تعداد 172،230ہوگئی ہے ۔
ہیروشیما میں 303,195افراد کو ہباکشا کا درجہ حاصل تھا اور ان کی تعداد بھی انتہائی تیزی سے کم ہورہی ہے‘ یعنی اب اس دنیا میں اس واقعے کے عینی شاہد انتہائی قلیل تعداد میں بچے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔