کراچی: بانی ِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی اکلوتی بیٹی دینا جناح گزشتہ روز انتقال کرگئیں، دینا جناح 15 اگست 1919 کو بمبئی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی زندگی سے جڑے کچھ خاص واقعات آپ کے لیے پیشِ خدمت ہیں۔
قائد اعظم نے ایک پارسی خاتون رتن بائی عرف رتی کے ساتھ شادی کی تھی۔ رتن بائی نے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا اور ان کا نام مریم رکھا گیا۔ شادی کے ایک سال کے بعد ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام دینا جناح رکھا گیا۔
قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ اپنی مصروفیات کے باعث بیوی اور بیٹی کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے۔ مریم جناح ء1929 میں صرف 29 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اس وقت قائد اعظم کی بیٹی دینا جناح کی عمر صرف دس سال تھی۔
دینا واڈیا کی ایک خوبصورت تصویر
اب ایک طرف قائد اعظم کی اکلوتی بیٹی تھی جسے باپ کے پیار اور توجہ کی ضرورت تھی دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ تھی جس کے پلیٹ فارم سے قائد اعظم تحریکِ پاکستان کو آگے بڑھا رہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے لگیں لہذا دینا جناح اپنے پارسی ننھیال کے قریب ہوگئیں۔
دینا جناح نے ایک پارسی نوجوان نیول واڈیا سے شادی کی ، ان کی اس شادی پر قائد اعظم نے ناخوشی کا اظہارکیا اور شادی میں شریک نہیں ہوئے جس کے بعد باپ اور بیٹی کے تعلقات میں سرد مہری رہی۔
قائداعظم کے کچھ مخالفین نے کوشش کی کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ جس شخص کی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے شادی کر لی وہ مسلمانوں کا لیڈر کیسے ہو سکتا ہے لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت قائداعظم کے ساتھ کھڑی رہی۔
دینا واڈیا دورہ پاکستان کے موقع پر
سن 1948 میں قائداعظم کا انتقال ہوا تو دینا واڈیا افسوس کے لئے کراچی آئیں۔ پھر وہ ممبئی سے نیویارک منتقل ہو گئیں ، 2004 میں دینا واڈیا ایک مرتبہ پھر پاکستان تشریف لائیں۔
اس موقع پر دینا واڈیا کا کہنا تھا کہ کہ’’میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی بیٹی ہوں اور اپنے باپ سے آج بھی محبت کرتی ہوں اسی لئے اپنے بیٹے اور پوتوں کے ساتھ اپنے باپ کے خواب پاکستان کو دیکھنے آئی ہوں لیکن میں اپنے باپ کے نام سے شہرت نہیں کمانا چاہتی‘‘۔
دینا واڈیا جب مزار قائد کے اندر گئیں تو ان کی خواہش کے مطابق کسی فوٹوگرافر یا میڈیا کو اندر نہیں جانے دیا گیا، وہ تنہا باپ کی قبر پر کچھ لمحات گذارنا چاہتہ تھیں، شاید وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی جذباتی کیفیت کوئی دیکھے اور اس کی تشہیر ہو۔ مزار قائد پر موجود مہمانوں کی کتاب میں انہوں نے اپنے جذبات ظاہر کئے، انہوں نے وزیٹر بک پر ایک جملہ یوں لکھا ۔۔
‘‘یہ میرے لئے ایک دکھ بھرا شاندار دن تھا‘ ان کے خواب کو پورا کیجئے’’
دینا واڈیا نے قائداعظم کی تین تصاویر اپنے لیے پسند کیں۔ یہ تصاویر انہیں اپنے والد کی یاد دلاتی رہیں گی کہ یہ ان کے خواب پاکستان سے انہیں ملی ہیں۔
دینا واڈیا نے قائدکی شیروانی بھی دیکھی اور کہا کہ وہ اس کے درزی کو جانتی تھیں۔ واقفیت کا یہ اظہار گزرے، بیتے دنوں کی یاد کا عکس ہے جو ہمیشہ دینا کے ساتھ رہا ہوگا، رہتا ہوگا۔
قائد اعظم، فاطمہ جناح اور دینا
وہ باپ کی زندگی میں ان سے الگ ہوئیں اور تقریباً ساٹھ سال بعد ان کے مزار پر حاضر ہوئیں۔ ان کی جذباتی کیفیت کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے اسے محسوس ہی کیا جاسکتا ہے دیکھا نہیں جاسکا۔
باپ کی محبت انہیں فلیگ اسٹاف ہاؤس لئے گئی جہاں انہوں نے قائداعظم کے نوادرات دیکھے، وہ موہٹا پیلس گئیں جہاں کبھی ان کی پھوپھی محترمہ فاطمہ جناح رہتی تھیں اور وہ وزیر مینشن بھی گئیں جہاں ان کے والد پیدا ہوئے تھے۔
دینا واڈیا ںے کچھ عرصہ قبل ممبئی کے جناح ہاؤس کی ملکیت کے لئے ممبئی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور کہا کہ جس گھر میں وہ پیدا ہوئیں اس گھر میں زندگی کے آخری دن گزارنا چاہتی ہیں۔ تاہم جناح ہائوس ممبئی کی ملکیت نہیں ملی۔ وہ چاہتیں تو حکومت پاکستان سے کچھ بھی لے سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کراچی: تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف بھی شہیدِ ملت لیاقت علی خاں کا پاکستان میں سب سے طویل عرصہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے کا ریکارڈ توڑنے میں ناکام رہے۔
معروف محقق اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفریکا کہناہے کہ شہید ملت لیاقت علی خان کا چار سال دو ماہ اور ایک دن وزیر اعظم رہنے کا ریکارڈ آج بھی برقرار ہے اور دو تہائی اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں محمد نواز شریف بھی اس ریکارڈ کو نہیں توڑسکے۔
اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری
دل چسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی 26 مئی 2012 کو لیاقت علی خان کا یہ ریکارڈ توڑنے میں کامیاب ہوگئے تھے اورپیپلز پارٹی کی حکومت نے اس سلسلے میں قومی اخبارات میں اشتہارات بھی چھپوادئیے تھے۔
لیکن 20 جون 2012 کو جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں 26 اپریل 2012 کی پرانی تاریخ سے معزول قرار دیا تو ان کا یہ ریکارڈ خود بہ خود ختم ہوگیا اور لیاقت علی خان کا سب سے زیادہ مدت تک وزیراعظم رہنے کا ریکارڈ بحال ہوگیا۔
مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف جو 5 جون 2013 کوحلف اٹھا کر وزیر اعظم بنے تھے‘ لیاقت علی خاں کا یہ ریکارڈ توڑنے کے انتہائی قریب پہنچ گئے تھے کہ آج 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔
نواز شریف اپنی اس مدت میں چار سال ایک ماہ اور 23 دن تک وزیر اعظم رہے اور یوں محض آٹھ دن کے فرق سے وہ بھی یہ ریکارڈ توڑنے میں ناکام ہوگئے ۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ نے آج وزیراعظم نواز شریف کو پاناما کیس میں نا اہل قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو فی الفور نا اہلی کا نوٹس جاری کرنے کا حکم صادر کیا ہے جس کے بعد نواز شریف ایک بار پھر سابق وزیراعظم ہوگئے ہیں۔
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں کا کہنا ہے کہ سیاست مذاق بن کررہ گئی ہے‘ پاناما کیس کا فیصلہ آتے ہی وہ وزارت اور قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیں گے۔
تفصیلات کے مطابق چودھری نثارعلی خان نے وفاقی دارالحکومت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پریس کانفرنس کی کسی کو اطلاع نہیں دی تھی۔ شاید یہ میری زندگی کی مشکل ترین پریس کانفرنس ہے‘ یہ پریس کانفرنس میرے لیے وبال بن گئی تھی۔
وفاقی وزیرِ داخلہ کا کہنا تھاکہ میں ناراض نہیں ہوں‘ نوازشریف اورمسلم لیگ ن کےساتھ پوری زندگی داؤپرلگائی۔کسی نہ کسی امورپروزیراعظم ہاؤس کی ہرمیٹنگ میں موجود ہوتا ہوں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ وہ سیاست سے تنگ آچکے ہیں اور استعفیٰ دینے جارہے تھے لیکن لوگوں نے کہا کہ الزام آئے گا کہ مشکل ترین وقت میں چھوڑ کر چلا گیا‘ انہوں نے اعلان کیا کہ جس دن پاناما کا فیصلہ آئے گا اس دن میں استعفیٰ دے دوں گا چاہے وہ میاں نواز شریف کے حق میں ہوں یا ان کے خلاف ہو۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو مرتبہ جب پریس کانفرنس طلب کی تو اس وقت آپ کے تجزیے بالکل درست تھے۔ چودھری نثار نے اپنے حلقے کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سیاست مذاق بن گئی ہے ‘ آئندہ الیکنش میں حصہ نہیں لوں گا۔
انہوں نے پریس کانفرنس میں شکوہ کیا کہ 45دن میں صرف3مرتبہ وزیراعظم ہاؤس میں نیشنل سیکیورٹی کونسل،کیبنٹ میٹنگ اور پارلیمنٹ سےمتعلق میٹنگ میں بلایاگیا‘ بن بلائے میں کہیں نہیں جاتا ہوں۔
انہوں نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نئی ٹرینیں آپ کو مبار ک ہوں ‘میں اسی ٹرین کامسافرہوں جس میں شروع سےسفرکیا۔
چودھری نثار نے میڈیا کی وساطت سے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ ا گر آپ کامیاب ہوں تو لوگ آپ کو مخالفین کے سر کاٹنے کے مشورے دیں گے‘ لیکن میں جانتا ہوں یہ آپ کی فطرت نہیں ہے‘ معاف کیجئے گا اور بھول کر آگے بڑھنے کی پالیسی پر عمل کریئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ میں اندر سے مشکلات یا سازشوں کا شکار رہا‘ پارٹی کے اندرمخالفین 1985سے ایک ہی الزام لگاتے آئے ہیں‘ یہ پارٹیوں کے اندرونی معاملات ہوتے ہیں لیکن میرے لیے فخر کی بات یہ ہے کہ مخالفین نے بھی اعتراف کیا کہ یہ پارٹی چھوڑ کرنہیں جائے گا۔
چودھری نثار کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کونوازشریف نے اپنی محنت سے قائم کیا‘ نوازشریف کےساتھ اوربھی دوست تھے جس میں بھی شامل تھا۔ میرے لئے ایک بڑی مشکل تھی مجھےاس پارٹی سے پیارہے ‘ اسے ہم نے ایک ایک اینٹ رکھ کرقائم کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے پوری عمر نوا زشریف کے سامنے سچ کہا چاہے کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو‘ کبھی بھی ان کی جھوٹی تعریف نہیں کی بلکہ ہمیشہ غلطیوں کی نشاندہی کی۔ کچھ لوگ چاہتے تھے کہ ایک سیٹ خالی ہوجائے تو ان کے لیے جگہ بن جائے۔
وفاقی وزیرداخلہ نے اپنے خاندان کے فوجی پسِ منظر کے حوالے سے کہا کہ مجھے اس پر فخر ہے لیکن میں سیاستداں ہوں اور سویلین سپریمیسی پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ مجھ پر فوجی پس منظر اور ڈان لیکس کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
صحرا میں رہنے والے افراد ‘ یا وہ لوگ جنہوں نے صحرا کا مشاہدہ کیا ہو‘ جانتے ہیں کہ صحرا کا آسماں دن میں خوبصورت نیلا اور رات میں روشن اور چمک دار ہوتا ہے۔ ریت کے سنہرے ذروں کی طرح یہ آسمان بھی اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے لیکن کوئلے سے بجلی بنانے والے پلانٹ کے سبب صحرائے تھر کے رہنے والے بہت جلد اپنے اس حسین آسمان سے محروم ہونے والے ہیں۔
سندھ حکومت‘ اینگرو انرجی ‘ اورچین کے اشتراک سے صحرائے تھر میں موجود کوئلے کے عظیم ذخائرکو زمین کی تہہ سے باہر نکال لانے کے منصوبے پرگزشتہ سال اپریل سے زورو شور سے کام جاری ہے اور ساتھ ہی ساتھ 330 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹ کی تعمیر بھی اپنے عروج پر ہے جہاں سے2019 کے وسط تک کل 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کا کہنا ہے کہ 2025 تک یہ پراجیکٹ چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد کا حامل ہوجائے گا۔
سائٹ پر جاری کام کے مناظر
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جانب تھر کاخوبصورت آسمان کوئلے کے دھویں سے گہنا کر بہت جلد سرمئی رنگت اختیار کرنے والا ہے تو دوسری جانب کوئلے کی کانوں سے خارج ہونے والی میتھین گیس بھی اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کو پر تول رہی ہے جس میں سب سے پہلےتھر کی پہلے سے تباہ شدہ زراعت سرفہرست ہے۔
تھرکول انرجی اورماحولیاتی آلودگی کا خطرہ
گزشتہ دنوں پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں تھر کول فیلڈ کا دورہ کیا اور کمپنی کےترجمان سے ملاقات کی جس کے دوران کئی اہم امور زیرِگفتگو آئے جنہیں تلخیص کے ساتھ آپ کی خدمت میں گوش گذار کیا جارہا ہے۔
سندھ اینگرو کول انرجی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس پلانٹ کی تعمیر میں نہ صرف یہ کہ حکومتِ پاکستان کے بنائے ہوئے تمام تر معیارات کی پاسداری کی ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔
کوئلے کی کان کا فضائی منظرکوئلے کی اسی نوعیت کی ایک اور کان – فائل فوٹو
کمپنی کے ترجمان کے مطابق ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے جارہے ہیں ‘ سب سے پہلے تو ملین ٹری پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت سائٹ کی زد میں آنے والے ایک درخت کے بدلے 10 مقامی درخت لگائیں جائیں گے ۔
گیس کے اخراج کے لیے 180 میٹر بلند ایک اسٹیک تعمیر کی جارہی ہے جو کہ ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات سندھ کے طے کردہ معیار یعنی 120 میٹر سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا یہ زہریلا دھواں بہت اوپر جا کر خارج ہوگا تاہم تب بھی یہ فضا میں موجود رہے گا۔
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ گیس کو خارج کرنے سے پہلے پانی کے ذریعے ٹھنڈا کیا جائے گا اور میتھین گیس جو کہ ماحول کے لیے سخت تباہ کن گیس ہے، کے خطرات کو چونے کے استعمال سے کم سے کم کیا جائے گا۔
اقدامات اوران پرخدشات
اوپر بیان کیے گئے اقدامات سن کر ایک جانب تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئلے کا یہ پلانٹ ماحول کو زیادہ متاثر نہیں کرے گا جیسا کہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ہوا میں میتھین کی مقدار ایک فیصد کے اندر ہی رہے گی جو کہ عالمی معیار کے مطابق ہے تاہم جب ان سارے معاملات کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ویسے ہی ممکن نہیں ہو پائے گا جیسا کہ بتایا جارہا ہے۔
دھیں کے اخراج کے لیے بنایا گیا اسٹیک
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا آسیب
سب سے خطرناک بات فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہے جس کے حوالے سے تاحال کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔ یاد رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جاچکا ہے اور دنیا کے کئی ممالک اسے یونہی ہوا میں کھلا چھوڑ دینے کے بجائے اسے محفوظ طریقے سے تلف کرنے کے طریقے ڈھونڈر ہے ہیں۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا میں شامل ہورہا ہے – فائل فوٹو
اس سلسلے میں ایک تجربہ امریکا کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس یعنی یو سی ایل اے میں کیا گیا جہاں کاربن سے کنکریٹ تیار کر کے اسے تعمیراتی کاموں میں استعمال کرنے کے تجربے کیے جارہے ہیں۔ اس کو ’سی او ٹو کریٹ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سی او ٹو کریٹ سے تیار کردہ ٹھوس جسم
دوسری جانب آئس لینڈ کے ہیل شیڈی پلانٹ میں کچھ سال قبل ’کارب فکس‘ نامی پراجیکٹ شروع کیا گیاجس کے تحت کاربن کو سفید ٹھوس پتھر میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ یہ پلانٹ آئس لینڈ کےدارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کرتا ہےاورسالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ 2012 میں یہاں 250 ٹن کاربن کو پانی کے ساتھ زیر زمین پمپ کرنے کا عمل شروع کیاگیا اور اب وہ سالانہ 10 ہزار ٹن کاربن زیر زمین پمپ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کے لیے نقصان دہ مائع کو ٹھوس بنانے میں کئی سو یا کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں تاہم اب تک جو بھی مائع زیر زمین پمپ کیا جاچکا ہے اس کا 95 فیصد حصہ 2 سال میں سفید پتھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ملین ٹری پراجیکٹ
اب ایک نظر ڈالتے ہیں ملین ٹری پراجیکٹ پر۔ تھر کول منصوبے پر گزشتہ 16 ماہ سے کام جاری ہے لیکن شجر کاری کے لیے درخت محض چند دن قبل ہی لگائیں گئے ہیں یعنی کہ جس وقت پلانٹ دھواں اگلنا شروع کرے گا اس وقت تک یہ درخت اس قابل نہیں ہوں گے کہ ہوا میں بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرسکیں۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اس بات کی یقین دہانی کون کروائے گا کہ ایک کے بدلے جو 10 درخت لگائیں جارہے ان کی بھرپور نگہداشت کی جائے گی اور وہ صحرا کی موسمی سختیوں اور خشک سالی کا شکار ہوکر محض کاغذوں کا حصہ بن کر نہیں رہ جائیں گے۔
چینی تھر کے ملین ٹری منصوبے میں شجر کاری کرتے ہوئے
میتھین گیس: ہوا میں موجود بم
کوئلے کے بند کان میں اگر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تاحدِ نظر وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی کوئلے کی کان جو کہ 86 میٹر گہرائی تک کھودی جاچکی ہے اور اسے 140 میٹر گہرائی تک جانا ہے، اس وسیع و عریض رقبے پر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ اس کا جواب فی الحال کمپنی کے ترجمان اور سائٹ پر کام کرنے والے مقامی انجینئر کے پاس نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم اسے لائم اسٹون (چونے ) سے ٹریٹ کرکے ہوا میں چھوڑیں گے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پلانٹ کی کولنگ اور گرین ہاؤس گیسز کی ٹریٹمنٹ کے لیے پانی کا استعمال کیا جائے گا جس کے لیے ایک نہر بھی تھر تک لائی جارہی ہے اور اس پر تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق میتھین گیس پانی پر اس صورت اثرانداز نہیں ہوتی کہ وہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بنے یا اس کے استعمال سے انسانی جسم کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔
لیکن امریکی ریاست مینی سوٹا کے محکمہ صحت کی جانب سےشائع کردہ معلوماتی مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’ اب تک کی تحقیق کے مطابق میتھین انسانی جسم کو کسی قسم کا فوری یا دور رس نقصان نہیں پہنچاتی تاہم اس سلسلےمیں بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استعمال شدہ پانی کے بعد کے استعمال پر نظرررکھی جائے اور اگر اس سے مقامی آبادی یا ماحول کو کسی بھی صورت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کا فی الفور سدِ باب کیا جائے۔
زیرِ تعمیر پاور پلانٹ کی عمارت
ماہرانہ رائے
اس حوالے سے وفاقی اردو یونی ورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے سابق سربراہ ڈاکٹر معین احمد صدیقی سے رائے لی گئی۔ ڈاکٹر معین کولمبیا یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کلائمٹولوجی اور پاکستانی جنگلات پر بے شمار تحقیقاتی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔
ڈاکٹر معین کے مطابق جدید دنیا میں ایسے طریقے موجود ہیں جن میں میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسز سے درپیش خدشات کا سدِ باب کیا جاتا ہے تاہم اس حوالے نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان اقدامات پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اٹلی میں جب کوئلے سے بجلی بنانے کا عمل شروع کیا تو وہاں زلزلے بھی آئے تھے جن کا سبب بھی زیرِ زمین گرین ہاؤ س گیسز کا اخراج تھا۔ ڈاکٹر معین احمد نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئلے سے پیدا ہونے والی آلودگی کا سدباب نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے گیس کی ہیئت تبدیل کردی جاتی ہے جس کے بعد وہ ماحول اور اوزون کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی۔
پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے درپیش مسائل
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی ماحولیاتی آلودگی کی شرح میں پاکستان کا حصہ محض 0.43 فیصد ہے لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ یہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی گرمی‘ حد سے زیادہ بارشیں‘ کچھ علاقوں میں بارش کا بالکل نہ ہونا‘ سیلاب اور سمندروں کی حدود تبدیل ہونا یہ وہ سب عوامل ہیں جو مشترکہ طور پر پاکستان کو شدید ترین نقصان پہنچا رہے ہیں جن میں ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو پہنچے والا سالانہ 3 فیصد کا نقصان بھی شامل ہے جو کہ دہشت گردی سے پہنچنے والے نقصان یعنی سالانہ 2 فیصد سے زیادہ ہے۔
لہذا تاریخ کے اس مشکل ترین موڑپرپاکستان کسی بھی صورت اپنے ماحول کو نقصان پہنچانے کا رسک نہیں لے سکتا۔ اسی سبب پاکستان پائیدار ترقیاتی اہداف برائے 2030 کا حصہ بھی ہے جس کے طے کردہ کل 17 اہداف میں سے 6 براہ راست ماحولیات سے متعلق ہیں جبکہ باقی بھی کسی نہ کسی صورت ماحولیات تبدیلیوں کو پیشِ نظر رکھ کر مرتب کیے گئے ہیں۔
پائیدار ترقیاتی اہداف برائے 2030
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
کراچی: تھر کول انرجی منصوبے پر چالیس فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے‘ 4000 میگاواٹ کے اس منصوبے سے ابتدائی طور پر 660 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی‘ کام کی رفتار مقررہ وقت سے چار مہینے آگے چل رہی ہے۔
پراجیکٹ کے دورے کے موقع پر سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے ترجمان محسن ببر کا کہنا تھا کہ کوئلے سے بننے یہ بجلی نہ صرف ملک کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ اس منصوبے سے تھر کے عوام کو روزگار بھی میسر آئے گا جس سے علاقے میں غربت اور پسماندگی کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔
تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر کو 13 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس وقت بلاک ٹو میں کوئلے کے حصول کے لیے کھدائی کا کام جاری ہے‘ اب تک چھیاسی میٹر گہرائی میں کھدائی کی جاچکی ہے جبکہ کوئلے کے حصول کے لیے کمپنی کو کل 160 میٹر کی گہرائی تک کھدائی کرنی ہے۔
کوئلے کے ذخائر سے قبل کھارے پانی کا ایک بڑا ذخیرہ بھی زمین میں موجود ہے جسے اسی مقصد کے لیے تعمیرشدہ ’گھرانوڈیم‘ میں اکھٹا کیا جائے گا اور آر او پلانٹ کے ذریعے تھر کے عوام کے لیے قابلِ استعمال بنایا جائے گا‘ تاہم مقامی آبادی کی جانب سے ڈیم کی تعمیر پرخدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
کوئلے کی کان کا فضائی منظر
بلاک ٹو میں موجو د 1.57 ارب ٹن قابل استعمال کوئلہ تھر کے کل ذخیرے کا ایک فیصد ہے اور صرف اسی بلاک کے کوئلے سے آئندہ پچاس سال تک 5000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
کان کنی کے اس منصوبے میں 900 تھری باشندوں کو روزگار فراہم کیا گیا ہے جن میں 30 انجینئرز بھی شامل ہیں‘ اس کے علاوہ 400 چینی ورکرز بھی اس منصوبے پر کام کررہے ہیں۔
کوئلے کی کان پر جاری کام کے مناظر
تعمیراتی کام کی رفتار
تھر کول پراجیکٹ دراصل کئی مختلف پراجیکٹس کا مجموعہ ہے جو کہ کسی بھی توانائی کےمنصوبے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ پاور پلانٹ کے لیے8 ہزار ٹن کا اسٹیل اسٹرکچر تیار ہوچکا ہے اور اس پر مزید کام جاری ہے۔
بوائلر کے لیے واٹر پلانٹ کے دو ٹینک مکمل کیے جاچکے ہیں جبکہ ایڈمن بلاک کے دو فلور مکمل کرلیے گئے ہیں۔ پراجیکٹ پر مختلف اقسام کے استعمال کے لیے پانی کے لیے تالاب بنالیے گئے ہیں اور اس کے علاوہ کولنگ ٹاورز کی تعمیر کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔
پاور پلانٹ پر تعمیراتی کام جاری ہے
اس کے علاوہ بھی متعدد تکنیکی منصوبوں پر دن رات کام جاری ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر ان کے کام کی رفتار مقررہ وقت سے چار ماہ آگے ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ اکتوبر 2019 کے بجائے جون 2019 تک 660 میگا واٹ بجلی شروع کرسکیں گے۔
پاور پلانٹ سے ملحقہ دیگر پراجیکٹس
پاور پلانٹ منصوبے میں کام کرنے والے تھر کے مقامی باشندوں کی تعداد 381 ہے جبکہ875 چینی کارکن اس پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔
ماحولیات کا تحفظ
ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 180 میٹربلند ایک چمنی بھی تعمیر کی جارہی ہے جو 115 میٹر کی بلندی تک پہنچ چکی ہے‘ پاکستان کے ماحولیاتی قوانین کے مطابق اس نوعیت کی چمنی کی بلندی 120 میٹر طے کی گئی ہے تاہم عالمی قوانین کی روشنی اور ماحولیات کے تحفظ کی ضرور پیشِ نظراس منصوبے میں چمنی کی بلندی کو 180 میٹر رکھا گیا ہے۔
دھویں کے نکاس کے لیے بنائی گئی چمنی
اس کے علاوہ پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک انجینئر فرقان کا کہنا تھا کہ کوئلے کے پلانٹ سے پیدا ہونے والے دھویں میں سلفر کے زہریلے اثرات کو ختم کرنے کے لیے اس میں چونا ملایا جائے گا جبکہ 1 ملین درخت اگانے کا منصوبہ بھی جاری ہے تاکہ اس منصوبے کے ماحول پر اثرات کو کم سے کم رکھا جاسکے۔
مقامی آبادی کی بہبود
تھر کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے اور یہاں تعلیم‘ صحت اور روزگار کی صورتحال انتہائی مخدو ش ہے‘ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے تھر میں عوامی فلاح کے کئی منصوبے شروع کیے جارہے ہیں جن سے عوام کو ریلیف ملے گا۔
شاہد آفریدی فاؤنڈیشن او ر ’انڈس اسپتال- کراچی‘ کے تعاون سے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی اسلام کوٹ میں 100 بستروں پر مشتمل اسپتال کی تعمیر کا کام شروع کرچکی ہے۔
بلاک ٹو کے عوام کے لیے ماروی کلینک کے نام سے ایک زچہ بچہ ہیلتھ سنٹر بھی قائم کیا گیا ہے اور 80 فیصد آبادی کو یرقان سے بچاؤ کی ویکسین لگائی گئی ہے اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ دسمبر 2017 تک بلاک ٹو کو یرقان فری کردیا جائے گا۔
تھر میں تعلیم عام کرنے کے لیے ٹی سی ایف کے اشتراک سے اسکول قائم کیے جارہے ہیں جبکہ بلاک ٹو کے علاقے میں موجود سرکاری اسکولوں گود لے کر ان کی حالت بھی سنواری جارہی ہے۔
باہر سے عملہ بلانے کے بجائے مقامی لوگوں کو تربیت دے کر پراجیکٹ میں شامل کیا گیا ہے‘ جن میں ڈمپر ڈرائیور‘ کرین آپریٹر‘ ویلڈنگ اسٹاف‘ مکینکل ورکرز‘ الیکٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔
کان سے نکلنے والے پانی کو استعمال کرنے کے لیے کھارے پانی سے کاشت کا ابتدائی تجربہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں زرعی یونی ورسٹی کو تحقیق کی دعوت دی دی گئی ہے کہ وہ اس کام کو آگے بڑھائے تاکہ تھر میں قحط کے مسئلے کا سدِباب کیا جاسکے۔
تعمیراتی کام کی ویڈیو دیکھئے
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
لاہور: اردو ادب کے عظیم فقیر منش شاعر ساغر صدیقی کو دنیا سے رخصت ہوئے تینتالیس برس بیت گئے لیکن ان کا کلام آج بھی زندہ ہے‘ ساغر 19 جولائی 1974 کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔
بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
اردوزبان کو لطافت بخشنے والے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو اہل ذوق آج ان کی رحلت کے چالیس سال بعد بھی یاد کررہے ہیں ۔ ساغر صدیقی سنہ 1928میں بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔
ان کا اصل نام محمد اختر تھا اورآپ چودہ برس کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے، ابتدا میں ’ناصر حجازی‘کے تخلص سے غزلیں کہیں بعد ازاں ’ساغر صدیقی‘ کے نام سے خود کو منوایا۔
ساغر بقدرِ ظرف لٹاتا ہوں نقد ِ ہوش ساقی سے میں ادھار کا قائل نہیں ہوں دوست
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ ’’لڑکا‘‘ (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔
مجھ کو خزاں کی ایک لٹی رات سے ہے پیار میں موسمِ بہار کا قائل نہیں ہوں دوست
اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں ساغرکی مانگ بڑھ گئی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ انہیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔
یہ جو دیوانے سے دوچار نظر آتے ہیں ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں
سنہ 1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ فلم بنانے والوں نے ان سے گیتوں کی فرمائش کی اور اس میں انہیں بے مثال کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔
اس زمانے میں ان کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغرسے لکھوائے جو بہت مقبول ہوئے۔
وہ ایک درویش صفت شاعر تھے۔عشق مجازی عشق حقیقی ،جدوجہد، لگن اور آوارگی ساغر صدیقی کی شاعری کا موضوع بنے‘ ساغر کی آواز میں سوز اور کلام میں آفاقی پیغام تھا‘ دنیا سے متعدد بار دھوکے اٹھانے کے بعد ساگر نے نشے میں چھپنا چاہا ‘ جس کے سبب وہ ہر شے سے بے خبر ہوکر سڑکوں پر آبیٹھے۔
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
غربت اور نشے کی لت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور وہ شراب کے بعد بھنگ اور مارفین جیسے گھٹیا اقسام کے نشے بھی استعمال کرنے لگے جس کے سبب ان کی صحت دن بدن جواب دیتی چلی گئی‘ اس دور میں بھی ان کی شاعری کمال کی تھی۔ ساغر کوا ن کے اپنے دوستوں نے لوٹا اور ایک چرس کی سگریٹ کے عوض ان سے فلمی گیت اور غزلیں لکھوائیں اور اپنے نام سے شائع کرائیں۔
کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے‘ کچھ ماضی کے عیار سجن احباب کی چاہت کیا کہیے ‘ کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ساغر نشے کی آغوش میں جانے سے قبل ایک نامور شاعر تھے اسی سبب ان کا کلام ناشروں نے ان کے نام سے چھاپا اور یہ گوہرِ نایاب ضائع ہونے سے بچ گیا‘ وفات تک ان کے کل چھ مجموعے غم بہار‘ زہر آرزو (1946ء)‘ لوح جنوں (1971ء)‘ سبز گنبد اور شبِ آگہی منظرِ عام پر آچکے تھے۔ ساغر نے غزل ‘ نظم‘ قطعہ‘ رباعی ‘ نعت ‘ گیت الغرض ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
انیس جولائی انیس سو چوہتر کی صبح جب لوگ بیدار ہوئے تودیکھا کہ سڑک کنارے ایک سیاہ گٹھری سی پڑی ہے ‘ قریب آئے تو معلوم ہوا کہ اپنے وقت کا نابغہ ٔ روزگار شاعر’ساغر صدیقی ‘ اس جہان فانی سے رخصت ہوچکا ہے ، آپ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں‘ ہر سال آپ کے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔
محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
چلو تم بھی سفر اچھا رہے گا ذرااجڑے دیاروں تک چلیں گے
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
کسی بھی جرم کی سماعت کے بعد فیصلہ صادر کرنے کے لیے جیوری کو انتہائی باریک بینی سے عدالتی کارروائی کا جائزہ لینا ہوتا ہے ‘ خصوصاً جب مقدمہ قتل کا ہو‘ کوئی شخص مارا جاچکا ہے اور کسی کی زندگی داؤ پر لگی ہو تو ایسے میں جیوری کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے‘ اسی صورتحال پر مشتمل اسٹیج ڈرامہ ’ملزم یامجرم‘ آرٹس کونسل میں پیش کیا جارہا ہے۔
گزشتہ رات کراچی کے آرٹس کونسل آف پاکستان میں گولڈن بیئر ایوار ڈ یافتہ امریکی فلم’’ ٹویلو اینگری مین‘‘ پر مبنی اسٹیج ڈرامہ ’ملزم یامجرم پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ ’اسٹیج نوماد‘ کی پیشکش ہے اور اس کی ہدایت کاری کے فرائض میثم نظر نقوی نے انجام دیے ہیں۔ ڈرامے کو انگلش فلم سے اردو قالب میں ڈھالنے کا مشکل کام وسعت اللہ خاں نے انجام دیا ہے۔
ڈرامے کی کاسٹ میں کلثوم فاطمی‘ عثمان شیخ‘ یوگیشور کاریرا‘ شاہ حسن‘ علی حیدر‘ مجتبیٰ رضوی‘ ابراہیم شاہ‘ راؤ جمال‘ منیب بیگ‘ ماہا رحمن‘ فراز علی اور جبران ملک شامل ہیں۔
ڈرامے کی کہانی‘ قتل کے مقدمے میں ملوث اٹھارہ سال عمر کے ایک نوجوان کے گرد گھومتی ہے‘ جسے اس کے باپ کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ عدالت میں ہونے والی جرح اور گواہوں کے بیان اسے مجرم قرار دیتے ہیں اور وکیلِ صفائی اس نوجوان کی حمایت میں عدالت کو قائل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد جج جیوری کے ارکان کو حکم دیتا ہے کہ وہ باریک بینی سے مقدمے کی کارروائی اور دیگر تمام نکات جائزہ لے کر طے کرلیں کہ آیا یہ لڑکا قصور وار ہے کہ نہیں۔
ڈرامے کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ۔ جیوری کے بارہ ارکان ایک کمرے میں براجمان ہیں اور پہلی ووٹنگ میں ۱۱ ارکان لڑکے کو قصوروار سمجھتے ہیں جبکہ ایک رکن کا خیال ہے کہ انہیں اس مقدمے پر مزید غور وفکر کرنا چاہئے۔
یہی سے ڈرامے کی بُنت شروع ہوتی ہے اور یکے بعد دیگرے اداکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر نے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیوری کے ارکان کی شکل میں مقامی سطح پر پائے جانے والے ہر قسم کے رویے کو یکجا کردیا ہے جس سے اس سنجیدہ موضوع پر بننے والے ڈرامے میں مزاح کا عنصر شامل ہوا اورناظرین ایک لحظے کو بھی بوریت کا شکار نہیں ہوئے۔
ڈرامے میں یہ اداکار ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں‘ پھبتیاں کستے ہیں ‘ ایک دوسرے پر ذاتی حملے بھی کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ مقامات پر اپنی رائے کے خلاف بات کرنے والے کو مارنے کے لیے چڑھ دوڑتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے‘ کوئی بھی شخص اپنے موقف کی مخالفت میں ایک لفظ سننا نہیں چاہتااور اگر کچھ لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کس قدر دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
قتل کے اس مقدمے کے ایک ایک نکتے کو ڈرامے میں زیرِ بحث لایا جاتا ہے یہاں تک کہ جیوری کے ارکان آپس میں تقسیم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اپنے اپنے موقف کی حمایت میں اداکاروں نے اس قدر عمدگی سے ڈائیلاگ ادا کیےہیں کہ ناظرین کا ذہن ان کے ساتھ بندھ کر رہ گیا‘ اور ارکان ہی کی طرح ناظرین بھی اس کشمکش میں مبتلا ہوگئے کہ آیا یہ لڑکا واقعی مجرم ہے؟ یا کچھ اور ہےجس کی پردہ داری کی جارہی ہے۔
ایک ڈائیلاگ ڈرامے میں ایسا ہے جہاں وسعت اللہ خاں جیسے ماہر بھی غلطی کرگئے‘ جیوری کا ایک رکن ملزم کی پرورش پر نکتۂ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اسے تو انگریزی بھی ٹھیک سے نہیں آتی‘‘۔ حالانکہ ڈرامے کا پسِ منظر پاکستانی رکھا گیا ہے۔ اسٹیج پر قائد اعظم کی تصویر موجود ہے اور وہ لڑکا جس نے ساری عمر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم علاقے میں گزاری‘ وہاں انگریزی جاننے یا بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سیٹ کا ڈیزائن بہت زیادہ متاثر کن نہیں تھا اور اس میں بہت حد تک بہتری کی گنجائش تھی۔ بعض مقامات پر پسِ پردہ موسیقی کی بے پناہ ضرورت محسوس ہوئی تاہم اداکاروں کے لہجے کے اتارچڑھاؤ نے اس کمی پر کسی حد تک پردہ ڈالے رکھا۔
ڈرامے کے اختتام پر جیوری کے ارکان کس نتیجے پر پہنچے اس کے لیے تو آپ کو آرٹس کونسل کا رخ کرنا پڑے گا جہاں یہ شو 30 جولائی تک جاری ہے‘ تاہم میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ سنجیدہ موضوعات پر بننے والے ایسے اسٹیج شو شہر قائد میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں اور انہیں دیکھنا یقیناً ایک سود مند تفریح ہے۔
مجموعی طور پر یہ ایک انتہائی عمدہ کاوش ہے اور اسٹیج ڈرامہ جو کہ ہمارے معاشرے میں متروک شدہ صنف سمجھاجانے لگا تھا‘ ایک بار پھر اپنے قدموں پر سنبھل رہا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اسی نوعیت کے ڈرامے اس کے قدموں کو توانا کرتے رہیں گے۔
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
کراچی: آج اردو زبان کے ممتاز شاعرو صداکاراورریڈیو براڈکاسٹر زیڈ اے بخاری کی 42 ویں برسی منائی جارہی ہے، آپ 12جولائی 1975 کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔
زیڈ اے بخاری کا پورا نام ذوالفقار علی بخاری تھا، وہ 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ بخاری صاحب کو بچپن ہی سے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا چنانچہ انہوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج‘ کے مشہور ڈرامے ’’انارکلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد تحسین حاصل کی۔ اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی وہ خود ہی تھے۔
ریڈیو اور زیڈ اے بخاری
سنہ 1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے پھران کا یہ ساتھ زندگی بھر جاری رہا اور بخاری صاحب اور ریڈیو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے۔
سنہ 1938ء میں بخاری صاحب نشریات کی تربیت حاصل کرنے لندن گئے۔ 1940ء میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں انہوں نے بی بی سی سے اردو سروس شروع کی۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد بخاری صاحب ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تووہ اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔
بخاری صاحب کو شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور ماہر تعلیم تھے۔ پھر بخاری صاحب کو ابتدا ہی سے اچھے شاعروں کی صحبت میسر آئی جن میں حسرت موہانی‘ علامہ اقبال‘ یاس یگانہ چنگیزی‘ نواب سائل دہلوی اور وحشت کلکتوی جیسے اساتذہ فن شامل تھے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔ ان تمام عوامل نے بخاری صاحب کی شخصیت کی جلا میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
زیڈ اے بخاری بحیثیت صدا کار
بخاری صاحب ایک اعلیٰ ماہرنشریات ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ صداکار بھی تھے۔ انہوں نے بمبئی میں بمبئے خان بن کر اور کراچی میں جمعہ خان جمعہ بن کر صدا کاری کے جوہردکھائے ‘ وہ سننے والوں کے دلوں میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔
انہوں نے ریڈیو کے متعدد ڈراموں میں بھی صداکاری کی جن میں سب سے زیادہ شہرت ’’لائٹ ہاؤس کے محافظ‘‘ نے حاصل کی۔ مرثیہ خوانی اور شعر خوانی میں بھی ان کا انداز یکتا تھا۔ خود بھی شعر کہتے تھے اور موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔ فارسی‘ اردو‘ پنجابی‘ پشتو‘ بنگالی‘ برمی اور انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے اور یوں ہفت زباں کہلاتے تھے۔
بخاری کی تصانیف
بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے جو اردو کے نثری ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی پطرس بخاری کی یاد میں ایک کتاب ’’بھائی بھائی‘‘ کے نام سے لکھنی شروع کی تھی مگر یہ کتاب مکمل نہ ہوسکی تاہم ان کا مجموعہ کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔
زیڈ اے بخاری کراچی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
ہزاروں یتیموں کے والد‘ بے سہاروں کا سہارا ‘ دنیا کی سب بڑی ایمبولینس سروس کے بانی اور فلاحی خدمات میں پاکستان کی شناخت دنیا بھر میں منوانے والے ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کی پہلی برسی 8 جولائی 2017 کو منائی جارہی ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے روح رواں عبدالستار ایدھی طویل عرصے تک گردوں کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد گزشتہ برس انتقال کرگئے تھے ‘ علاج کی ہر ممکن آفرز کے باوجود انہوں نے پاکستان سے باہر علاج کرانا گوارا نہیں کیا۔
ان کے انتقال سے جہاں ایدھی فاؤنڈیشن کے سرسے ان کے بے پناہ محبت کرنے والے بانی کا سایہ اٹھ گیا وہی دنیا بھی انسانیت کے ایک ایسے خادم سے محروم ہوگئی جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی خدمت کے لیے وقف تھا‘ ان کی وفات سارے پاکستان ا ور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے کروڑوں مداحوں کو سوگوار کرگئی تھی۔
ان کا مشن ان کی موت کے بعد بھی جاری و ساری ہے ‘ وہ خود بھی جاتے جاتے اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے تھے جنہوں ایس آئی یو ٹی میں مستحق مریضوں کو لگایا گیا۔
فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ انیس توپوں کی سلامی دی گئی‘ ان کی میت کو گن کیرج وہیکل کے ذریعے جنازہ گاہ لایا گیا۔
ملکی تاریخ میں اس سے پہلے صرف تین شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی، قومی پرچم میں لپٹے جسد خاکی کو پاک بحریہ کے سیکیورٹی حصار میں گن کیرج وہیکل پر میٹھا در سے نیشنل اسٹیڈیم پہنچایا گیا۔
سب سے پہلے بابائے قوم محمد علی جناح کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی، قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی وہ پہلی شخصیت تھے جن کی میت گن کیرج وہیکل پر لائی گئی تھی، بابائے قوم کاجسد خاکی لحد میں اتارتے وقت پاک فوج نےگارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔
دوسری مرتبہ یہ اعزاز پاک فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کونصیب ہوا، انہیں بھی فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا تھا۔
عبدالستارایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔
یادگاری سکہ
رواں سال مارچ میں اسٹیٹ بینک میں عبدالستار ایدھی کا یادگاری سکہ جاری کرنے کیلئے تقریب منعقد کی گئی، تقریب میں فیصل ایدھی نے بھی شرکت کی، گورنراسٹیٹ بینک نے یادگاری سکہ فیصل ایدھی کوپیش کیا، اس موقع فیصل ایدھی نے کہا کہ ایدھی صاحب کے مشن کو جاری رکھیں گے، حکومت اور اسٹیٹ بینک کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے 50روپے مالیت کے عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب 50روپے مالیت کے 50 ہزار سکے جاری کیے گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے یاد گاری سکوں کا سلسلہ 1976 کو شروع ہوا تھا ، ابتک پاکستان میں5شخصیات کےیادگاری سکےجاری کئے گئے ، بابائے قوم محمد علی جناح کے حوالے سے 3 یادگاری سکے جاری ہوچکے ہیں ، اسٹیٹ بینک مختلف مواقعوں کے اب تک 27 سکے جاری کرچکا ہے۔
ایدھی‘ انسانیت کی خدمت کیوں کرتے تھے؟
متحدہ ہندوستان کے علاقے گجرات (بانٹوا) میں 1928 کو پیدا ہونے والے عبدالستار ایدھی تقسیم ہند کے بعد 1947 میں ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی میں بسنے والے عبد الستار ایدھی نے بچپن سے ہی کڑے وقت کا سامنا کیا،اُن کی والدہ پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے وہ ذہنی و جسمانی معذروی کا شکار ہو کر بستر سے جا لگی تھیں، جس کے بعد اس ننھے بچے نے کراچی کی سڑکوں پر اپنی ماں کے علاج کی غرض سے در در کی ٹھوکریں کھائیں تا ہم ماں کی نگہداشت کے لیے ایک بھی ادارہ نہ پایا تو سخت مایوسی میں مبتلا ہو گئے اور اکیلے ہی اپنی کا ماں کی نگہداشت میں دن و رات ایک کر دیے۔
اسی ابتلاء اور پریشانی کے دور میں انہیں ایک ایسے ادارے کے قیام کا خیال آیا جو بے کسوں اور لاچار مریضوں کی دیکھ بھال کرے،اپنے اسی خواب کی تعبیر کے نوجوان عبد الستار ایدھی نے 1951 ء میں صرف پانچ ہزار روپے سے ایک کلینک کی بنیاد رکھی،یہ کلینک کراچی کے علاقے کھارادر میں کھولا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کئی رفاحی کلینک کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا۔
دوسری جانب ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینسس بد سے بد ترین حالت میں بھی زخمیوں اور لاشوں کو اُٹھانے سب سے پہلے پہنچ جاتی ہیں،میتوں کے سرد خانے اور غسل و تدفین کا ذمہ بھی اس محسن انسانیت نے اُٹھایا اور تعفن زدہ لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینا شروع کیا۔
یہی وجہ ہے انسانیت کے لئے بے لوث خدمات پر انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا، 1980 میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشان امتیاز دیا،1992 میں افواج پاکستان کی جانب سے انہیں شیلڈ آف آنر پیش کی جب کہ 1992 میں ہی حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز دیا۔ بین الاقوامی سطح پر 1986 میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے Ramon Magsaysay Award دیا جب کہ1993 میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا، یہی نہیں 1988 میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کے لئے خدمات کے صلے میں انہیں امن انعام برائے یو ایس ایس آر بھی دیا گیا۔
ایدھی صاحب کو 2006 میں کراچی کے معتبرو معروف تعلیمی ادارے آئی بی اے کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی تھی،یہ اعزازی ٍڈگری ایدھی صاحب کی انسانیت کی خدمت اور رفاحی کاموں کے اعتراف کے طور پر دیے گئے۔
پاکستان میں بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ عبدالستار ایدھی نوبل امن انعام کے بھی حق دار تھے۔ اس بارے میں کراچی میں ذرائع ابلاغ کے ماہر پروفیسر نثار زبیری نے کچھ برس قبل عبدالستار ایدھی کو نوبل امن انعام دیے جانے کی تحریری سفارش بھی کی تھی اور اس کے لیے باقاعدہ ایک مہم بھی چلائی گئی تھی۔ آج عبد الستار ایدھی اپنے سفر آخرت کی جانب کوچ کر چکے لیکن رہتی دنیا تک اس سادہ منش انسان کی انسانوں سے لگاؤ اور محبت کی داستانیں سنائی جاتی رہیں گی۔
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
کراچی: سلطنتِ مغلیہ کے آخری تاجداربہادر شاہ کے پڑپوتے اورخاندانِ مغلیہ کے آخری چشم و چراغ استاد محبوب نرالے عالم کی آج بارہویں برسی ہے۔
استاد محبوب نرالے سن 1914 میں پیدا ہوئے ‘ آپ عالم انگریزوں کے ہاتھوں جلا وطن ہونے والے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے تھے اور تقسیم کے بعد کراچی آگئے تھے‘ عظیم مغل سلطنت کے اس آخری چشم و چراغ نے اپنی زندگی انتہائی غربت میں بسر کی۔
مغل خاندان کے اس آخری وارث کا دعویٰ تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں سلطنتِ مغلیہ کی جتنی بھی یادگاریں ہیں ‘ وہ سب ان کی قانونی ملکیت ہیں لہذا انہیں واپس کی جانی چاہیے۔
انہوں نے ساری زندگی بھارتی سرکار سے یہ مطالبہ کیا کہ دہلی کا لال قلعہ اور محلات ‘ آگرہ کے محلات اور جتنی بھی مغل یادگاریں ہیں ‘ وہ سب ان کی تحویل میں دی جائیں۔
ان کی شخصیت ہمہ جہت خصوصیات کی حامل تھی ‘ شہرِ قائد کے بہت سے ادیب‘ شاعر اور صحافی ان کے دوست تھے اور ان کی صحبت سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔
اردو میں جدید جاسوسی ادب کی بنیاد رکھنے والے ابنِ صفی استاد نرالے عالم کی پر مزاح شخصیت سے بے حد متاثر تھے اور انہوں نے اپنی شہرہ آفاق ’عمران سیریز ‘ میں انہیں ایک کردار کے طور پر تراش رکھا تھا ‘ جو کہ عربا اور فارسا ( عربی اور فارسی) کا شاعر تھا اور علی عمران ان کا بہترین دوست تھا۔
کہا جاتا ہے کہ عمران سیریز میں استاد محبوب نرالے عالم کے حوالے سے رقم کیے گئے زیادہ تر مکالمے ان کے اپنے تھے اور وہ ان کا حقیقی زندگی میں جابجا استعمال کیا کرتے تھے۔
غربت اور بے چارگی کے اس عالم میں ان کے ارد گرد کے لوگوں نے کبھی انہیں سنجیدگی سے نہ لیا جس کا انہیں ساری زندگی قلق رہا اور اکثر اوقات وہ چراغ پاہو کر مذاق اڑانے والوں کو مارنے کے لئے دوڑتے تھے۔
کراچی کی ادبی شخصیات کی ہر دل عزیز شخصیت اور مغل سلطنت کے زوال کی آخری نشانی استاد نرالے عالم 6 جولائی2005 کو کراچی میں کسمپرسی کی عالم میں انتقال کرگئے اور ان کی تدفین اورنگی ٹاؤن کے ایک غیر معروف قبرستان میں کی گئی‘ یوں سلطنتِ مغلیہ کا باب دنیا سے تمام ہوا۔
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔