Author: فواد رضا

  • مولوی عبد الحق سے بابائے اردو تک

    مولوی عبد الحق سے بابائے اردو تک

    اردو زبان کے محسن اور پاکستان کے نامور ماہر لسانیات ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی کو گزرے 58 برس بیت گئے ہیں، آپ برِ صغیر پاک ہند کے عظیم اردو مفکر، محقق، ماہر لسانیات، معلم، بانی انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کے بانی تھے، آپ کو بابائے اردو کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

    مولوی عبدالحق 20 اپریل،1870ء کوبرطانوی ہندوستان کے ضلع میرٹھ کے ہاپوڑ نامی قصبے میں پیدا ہوئے، مولوی عبدالحق کے بزرگ ہاپوڑ کے ہندو کائستھ تھے، جنہوں نے عہدِ مغلیہ میں اسلام کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اور ان کے سپرد محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں (مولوی عبدالحق کے خاندان کو) وہ مراعات و معافیاں حاصل رہیں جو سلطنت مغلیہ کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئیں تھیں۔ ان مراعات کو انگریز حکومت نے بھی بحال رکھا۔

    مولوی عبدالحق نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر میرٹھ میں پڑھتے رہے۔ 1894ء میں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی صحبت میسر رہی۔ جن کی آزاد خیالی اور روشن دماغی کا مولوی عبدالحق کے مزاج پر گہرا اثر پڑا۔ 1895ء میں حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد منتقل ہوگئے۔ ملازمت ترک کرکے عثمانیہ اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

    بابائے اُردومولوی عبدالحقؒ کو ابتدا ءہی میں ریاضی سے گہرا لگاؤ تھا جس نے اُنہیں غور و فکر اور مشاہدے کا عادی بنا دیا ۔اس کے علاوہ انہیں فارسی اور اُردو شاعری، نثرنگاری ،تاریخ ،فلسفہ اور مذہب کا مطالعہ کرنے کا بھی شوق تھا ان علوم اور ادب کے مطالعے نے مولوی عبدالحقؒ کے قلب و ذہن پر مثبت اثرات مرتب کئے انہیں اپنے اطراف سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی ۔

    غور و فکر ،مطالعے اور مشاہدے کا ذوق مزید گہرا ہوا ان کی فکر میں وسعت ،تخیل میں بلندی اور زبان و بیان کی باریکیاں واضح ہوئیں ۔بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کے بے شمار کارنامے ہیں طلبِ آگہی نے انہیں مزید متحرک اور مضطرب بنا دیا تھا۔ پہلی بار مولوی عبدالحقؒ کی کا وشوں سے دکنی زبان کے علمی اور ادبی شہ پارے سامنے آئے انہوں نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے اس گوشہ ادب کی علمی اور لسانی اہمیت کو اُجاگر کیا۔

    قدیم دہلی کالج کے حوالے سے بھی بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحقؒ نے اپنی انتھک محنت اور خلوص سے ”مرحوم دہلی کالج“ لکھ کر اس ادارے کی ادبی اور تعلیمی کاوشوں کو نمایاں کیا۔فورٹ ولیم کالج کی طرز سے ذرا ہٹ کر دوبارہ دہلی کالج قائم کیا جس سے بلاشبہ اُردو میں بیشتر مغربی ادب اور علوم سے آگہی کا موقع میسر آیا ۔

    دہلی کالج نے اس دور کے طلبہ کی شخصیت اور ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ نے نہ صرف اُردو میں تنقید نگاری، مقدمہ نگاری اور معنویت عطا کی بلکہ اُردو میں پہلی بار حقیقی تبصرہ، جائزہ اور لسانی اکتساب صرف بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ کی مقدمہ نگاری میں میسر آیا انہوں نے اُردو میں تبصرہ نگاری کو ایک نیا رنگ اور ڈھنگ عطا کیا۔جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ مولوی عبدالحق اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے ،وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔

    انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔

    انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ اس انجمن کے تحت لسانیات، لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعدانہوں نے اسی انجمن کے زیرِاہتمام کراچی، پاکستان اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لاء کالج جیسے ادارے قائم کیے۔ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔

    سنہ 1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انہیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ، 1959ء کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔

    مولوی عبدالحق کی ویسے تو بے شمار تصانیف ہیں تاہم ان میں مخزنِ شعرا،اردو صرف ونحو، افکارِ حالی، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ،سرسیداحمد خان، اور دیگر مقبولِ عالم ہیں۔

    بابائے اردو مولوی عبدالحق 16 اگست، 1961ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ آپ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبدالحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں، حکومتِ پاکستان نے ان کی یاد میں یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

  • جشن آزادی – لاہورمیں آزادی کی تاریخ بیان کرتے مقامات

    جشن آزادی – لاہورمیں آزادی کی تاریخ بیان کرتے مقامات

    یومِ آزادی کا جشن ہرپاکستانی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے‘ اوربات اگر زندہ دلانِ لاہورکی ہو تو اس جشن کا رنگ اور بھی گہرا ہوتا ہے‘ اسی لیے ہم بتارہے ہیں آپ کو لاہور کے وہ خاص مقامات جہاں 14 اگست کے دن جانا کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔

    آج ملک بھر میں فرزندانِ وطن جشن آزادی منا رہے ہیں، لیکن لاہور میں اس جشن کے رنگ کچھ اور ہی ہوتے ہیں، لاہور پاکستان کا ثقافتی دارالحکومت کہلاتا ہے اور یہاں کئی ایسے تاریخی مقامات ہیں جہاں شہر لاہور کے باشندے آزادی جیسی عظیم نعمت کومنانے کے لیے ذوق و شوق سے جاتے ہیں

    یوں تو لاہور کے متوالوں کے لیے مال روڈ‘ گریٹر اقبال پارک اور واہگہ کوئی نئی چیزیں نہیں ہیں لیکن یومِ آزادی کی مناسبت سے ان تاریخی جگہوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

    اگر آپ جشنِ آزادی منانے کے کے لیے گھر سے باہر نکل رہے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک جگہ تو یقیناً آپ کے ذوق کے عین مطابق ہوگی جہاں جاکر آپ اپنی خوشی سے آزادی کے اس حسین دن کا جشن مناسکیں گے۔

    سوچ کیا رہے ہیں جشن آزادی کا دن گھر میں بیٹھ کر گزارنے کے لیے نہیں ہے ‘ مندرجہ ذیل میں سے اپنی پسند کی جگہ منتخب کیجئے اور ہمیں بھی کمنٹ میں بتائیں کہ آپ آزادی کا جشن کہاں منارہے ہیں۔

    مزارِاقبال

    لاہور کے قلب میں بادشاہی مسجد اور قلعے کے درمیان واقع حضوری باغ میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اپنی آخری آرام گاہ میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ اس سادہ لیکن پروقار عمارت کاطرز ِتعمیر افغان اور مورش طرز تعمیر سے متاثر ہے اور اسے مکمل طور پر لال پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔

    یوم ِ آزادی پر یہاں گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد ہوتی ہے جس کے بعد ہزاروں لوگ شاعر اور فلسفی علامہ محمد اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔

    مینارِ پاکستان

    ماضی میں منٹو پارک کہلانے والاوسیع و عریض پارک کے عین وسط میں قراردادِ پاکستان کی یادگار کا درجہ رکھنے والا ’مینارپاکستان‘ ایوب دور میں تعمیر کیا گیا۔ اس وقت سے اسے اقبال پارک کہا جانے لگا‘ اب اسے اور بادشاہی مسجد اور قلعے کو ملا کر ’گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا ہے۔

    مینارِ پاکستان کا ڈیزائن ترک ماہر ِتعمیرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا اور 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔

    یہ 18 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے اور مینار کے اوپر جانے کے لیے 324 سیڑھیاں ہیں جبکہ اس کے علاوہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔

    مینار کا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشہابہت رکھتا ہے۔ اس کی سنگ ِمرمر کی دیواروں پر قرآن کی آیات، قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے اقوال اور پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ کندہ ہے۔ اس کے علاوہ قراردادِ پاکستان کا مکمل متن بھی اردو اور بنگالی دونوں زبانوں میں اس کی دیواروں پر کندہ کیا گیا ہے۔

    قلعہ لاہور

    قلعۂ لاہور شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ اس عظیم قلعے کی تاریخ زمانۂ قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ نوتعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605ء-1556ء) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی اس کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔

    یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل‘ عالمگیری دروازہ‘ نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔سنہ 1981 ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

    یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعۂ لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکی ہیں‘ شاید ہمیشہ کے لئے۔ تاہم محکمٔہ آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1025ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔

    مرقدِ حفیظ جالندھری

    پاکستان کے قومی ترانہ اور شاہنامہ اسلام کے خالق حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982ء کو لاہور پاکستان میں 82 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودہ خاک ہیں۔

    حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔

    واہگہ بارڈر

    لاہور سے 24 کلو میٹر اور بھارتی شہر امرتسر سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع واہگہ نامی گاؤں پر پاکستان اور ہندوستان کا مشہور واہگہ بارڈر قائم ہے‘ جی ٹی روڈ پر واقع یہ بارڈر اپنی مشہور ِ زمانہ پرچم کشائی کی تقریب کے سبب ایک ثقافتی مرکز کی اہمیت اختیا ر کرگیا ہے۔ خصوصاً قومی تہواروں کے موقع پر یہاں ہونے والی تقریب میں شریک عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔

    قائد اعظم لائبریری ( باغ جناح )۔

    باغ ِجناح لاہور کے خوشگوار ماحول میں قائم قائد اعظم لائبریری ہمارے شاندار ماضی، تاریخی ورثے اور درخشاں روایت کی عکاسی کرتا ہے۔ صوبہ پنجاب کے اعلیٰ ترین اداروں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی ذہنی نشوونما میں یہ کتب خانہ اہم کردار اداکر رہا ہے۔ وطن عزیز کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین اپنے تحقیقی و تکنیکی منصوبہ جات کی تکمیل کے لیے اس کتب خانے کے وسائل سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔

    کتب خانے کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر مختلف تعلیمی اداروں کے وفود بھی اکثر کتب خانے کا مطالعاتی دورہ کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ کتب خانہ ایک تعلیمی، تفریحی اور ثقافتی مرکز کا روپ دھار چکا ہے۔

    کتب خانے میں اس وقت انگریزی، اردو، فارسی اور عربی کی ایک لاکھ بیس ہزار معیاری کتب موجود ہیں اور تقریباً سالانہ اڑھائی ہزار نئی کتب کا اضافہ ہو رہا ہے۔ علم دوست شخصیات کے لیے یومِ آزادی قائد اعظم لائبریری میں گزارنے سے بہتر کوئی مصرف نہیں ہوسکتا۔

    جاوید منزل (اقبال میوزیم)۔

    شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اپنی ساری زندگی میں محض ایک گھر قائم کرپائے جس کا نام انہوں نے جاوید منزل رکھا‘ اور ا ن کی اہلیہ نے یہ گھر اپنے بیٹے جاوید اقبال کے نام حبہ کردیا تھا۔ علامہ اقبال نے یہ جگہ 25,025 روپے میں خریدی اور کل 16,000 ہزار روپے کی لاگت سے اس پر جاوید منزل نامی کوٹھی تیار کی۔

    علامہ اقبال کو اس گھر میں منتقل ہوتے ہی پہلا اور شدید صدمہ اپنی اہلیہ کی وفات کا لگا اور خود وہ بھی 1938ء میں اسی مکان میں انتقال کرگئے۔ ان کے وصال کے 38 سال بعد بھی ان کا خانوادہ اسی مکان میں رہائش پذیر رہا۔

    اگست 1961 ء میں آثارِ قدیمہ نے علامہ محمد اقبال کی سابقہ رہائش گاہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کو حاصل کر اس کی بھی تزئین و آرائش کی۔یہ دو کنال کے رقبے پر محیط عمارت جو کہ میکلوڈ روڈ پر رتن سینمے کے ساتھ ہی واقع ہے ۔اس یادگار کی بوسیدہ چھتوں کو نکال کر دوبارہ لگایا گیا ۔عمارت تو تیار ہو گئی لیکن میوزیم نہ بن سکا ۔یہاں ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کر دی ۔

    لاہور میوزیم

    لاہور میوزیم 1894ء میں تعمیر کیا گیا جو جنوبی ایشیاء کے چند اہم ترین تاریخ کے مراکز میں سے ایک ہے۔ لاہور میوزیم کو مرکزی میوزیم بھی کہا جاتا ہے اور یہ لاہور کی معروف شاہراہ مال روڈ لاہور پر واقع ہے۔

    یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس میوزیم میں مغل اور سکھوں کے دور کی نوادرات ہیں، جس میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے اور دوسرے نوادرات جو مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔

    اس میوزیم میں چند آلات موسیقی بھی رکھے گئے ہیں، اس کے علاوہ قدیم زیورات، کپڑا، برتن اور جنگ و جدل کا ساز و سامان شامل ہیں۔ یہاں قدیم ریاستوں کی یادگاریں بھی ہیں جو سندھ طاس تہذیب کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بدھا دور کی یادگاریں بھی ہیں۔

    سارا سال یہاں مختلف قسم کی تقریبات جاری رہتی ہیں لیکن یومِ آزادی کے موقع پر یہاں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں کثیر تعداد میں شہری شرکت کرتے ہیں۔

    ایوانِ اقبال

    وزارتِ اطلاعات و نشریات اور قومی ورثہ کے تحت ایوانِ اقبال کے نام سے تعمیر کردہ یہ عمارت ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے۔

    یہاں پر دیگر تقریبات کے ساتھ پاکستان کے ہر اہم قومی دن پرتحریکِ پاکستان اور علامہ اقبال کے کردار کے حوالے سے تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں عوام کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔

    لاہور کے ایجرٹن روڈ پر واقع یہ ایوان ایک وسیع و عریض کنونشن ہال‘ تین دیگر عمارات‘ میٹنگ رومز‘ بینکوئٹ ہال اور علامہ اقبال کی تصویروں سے مزین تین گیلریز پر مشتمل ہے ۔ اس کا افتتاح سن 1989ء میں کیا گیا تھا۔

  • جاپانی شہرہیروشیما پرایٹمی حملے کو 74 برس بیت گئے

    جاپانی شہرہیروشیما پرایٹمی حملے کو 74 برس بیت گئے

    ٹوکیو: جاپان کے شہرہیرو شیما پر امریکی ایٹمی حملے کو 74 برس بیت گئے، آج کے دن کو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے عالمی دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے، جاپان نے آج تک اقوام متحدہ کی ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی قرار داد پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

    آج سے4 برس قبل 6 اگست 1945 کی صبح امریکا نے ہیرو شیما پر ایٹم بم گرایا تھا جس کے نتیجے میں 1 لاکھ 40 ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے اور ہزاروں افراد معذور و زخمی ہوگئے تھے۔

    6 اگست کی صبح جاپان اور اس زندگی سے بھرپور شہر کے کسی باسی کو اس تباہی کا ادراک نہ تھا جو امریکی ہوائی جہاز کے ذریعے ایٹم بم کی صورت اس شہر پر منڈلا رہی تھی۔

    ہیروشیما پر قیامت ڈھانے والا لٹل بوائے

    جاپان کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 8 بج کر 16 منٹ پر امریکی بی 29 بمبار طیارے نے ’لٹل بوائے‘ کو ہیرو شیما پر گرا دیا۔ لٹل بوائے اس پہلے ایٹم بم کا کوڈ نام تھا۔

    بم گرائے جانے کے بعد لمحے بھر میں 80 ہزار انسان موت کی نیند سوگئے، 35 ہزار زخمی ہوئے اور سال کے اختتام تک مزید 80 ہزار لوگ تابکاری کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔

    اس واقعے کے ٹھیک چھ دن بعد یعنی پندرہ اگست1945 کو جاپانی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور دنیا کی تاریخ کی ہولناک ترین جنگ یعنی جنگِ عظیم دوئم اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔

    ہیروشیما کے واقعے کے تین دن بعد امریکہ نے ناگا ساکی پر حملہ 9 اگست 1945 کو بی 29 طیارے کے ذریعے ایٹمی بم گرایا جس کا کوڈ نام ’فیٹ مین‘ رکھا گیا تھا، اس بم نے ناگاساکی میں قیامت برپا کردی اور جاپانی اعداد وشمار کے مطابق لگ بھگ 70 ہزار افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے جن میں سے 23سے 28 ہزار افراد جاپانی امدادی کارکن تھے جبکہ ایک بڑی تعداد جبری مشقت کرنے والے کورین نژاد افراد کی بھی تھی۔


    جاپان میں وہ افراد جن کے پاس ایٹمی حملوں میں بچ جانے کا سرٹیفیکٹ تھا انہیں’ ہباکشا‘ کہا جاتا ہے ،صرف ناگا ساکی میں ان کی تعداد 174،080بتائی جاتی ہے اور ان کی اوسط عمر 80 برس ہے۔

    ہیروشیما میں 303,195افراد کو ہباکشا کا درجہ حاصل تھا اور ان کی تعداد بھی انتہائی تیزی سے کم ہورہی ہے‘ یعنی اب اس دنیا میں اس واقعے کے عینی شاہد انتہائی قلیل تعداد میں بچے ہیں۔

    ہیرو شیما کی تباہی کی یاد عالمی طور پر منائی جاتی ہے۔ اس روز خصوصی ریلی کے شرکا پیس میموریل تک جاتے ہیں اور مرحومین کی یاد میں پھول رکھے جاتے ہیں۔

    ہر سال کی طرح اس تقریب میں ہزاروں افراد نے شریک ہو کر خاص طور پر جوہری ہتھیار سازی کو مسترد کرنے کے حوالے سے نعرہ بازی کی ۔ہیروشیما شہر پر ایٹم بم سے بچ جانے والے بزرگ شہری خاص طور پر تقریب میں توجہ کا مرکز رہے۔

    ہیروشیما کے میئر کازومی متسوئی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں خود غرضی کی سیاست بڑھ رہی ہے ، انہوں نے عالمی سربراہوں سے اپیل کی کہ ایٹمی بمباری کے ان یادگار دنوں میں وہ ہیروشیما اور ناگاساکی کا دورہ کریں، اس سانحے سے سبق سیکھ کر دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔

    انہوں نے جاپان کی مرکزی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ایٹمی حملوں میں بچ جانے والے جاپانی شہریوں کی دیرینہ خواہش کی نمائندگی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کرے۔

  • آرٹیکل 370 کیا تھا؟ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو کیا نقصان ہوگا؟

    آرٹیکل 370 کیا تھا؟ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو کیا نقصان ہوگا؟

    بھارتی پارلیمنٹ میں آج وہاں کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے آئین میں خصوصی طور پر موجود آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بل پر دستخط کردیے، اس آرٹیکل ختم ہونے سےکشمیر کی ڈیمو گرافی کو شدید نقصان پہنچے گا۔

    آرٹیکل 370 ختم ہونے سے کشمیر کی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے اور اب غیر کشمیری افراد علاقے میں جائیدادیں خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کرسکیں گے۔

    بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ سے اس قانون کو ختم کرنا چاہتی تھی تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے کشمیر پر سے کشمیریوں کا دعویٰ ختم کیا جاسکے۔

    یاد رہے کہ سنہ 1949 میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے مقبوضی کشمیر سے تعلق رکھنے والے بھارت نوا ز رہنما شیخ عبد اللہ کو حکم دیا تھا کہ وہ کشمیر کے لیے ایک خصوصی آرٹیکل تشکیل دیں۔ اس وقت کے منسٹر گوپال سوامی اینگر نے اس وقت شیخ عبدا للہ کی مشاورت سے آرٹیکل 370 کا مسودہ تیار کیا تھا۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کیا تھا ؟ اس کے تحت مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو بھارت سے کیا تحفظات حاصل تھے ؟۔

    بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔

    اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔

    اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔

    مہاراجا ہری سنگھ کے 1927ء کے باشندگان ریاست قانون کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں و کشمیر کے اندر جائداد نہیں خرید سکتا، یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائداد حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔

    اس قانون کے مطابق ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے، ڈیم اور دیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی قسم کے تغیرات کے لیے ریاست کے نمائندگان کی مرضی حاصل کرنا ضروری ہے جو منتخب اسمبلی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔

    اس دفعہ کا مقصد جموں کشمیر کے ریاستی حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس دفعہ کا محرک جموں کشمیر کے مہاراجا کے ساتھ ہوا عہد و پیمان ہے جس میں یہ کہا گیا کہ ریاست کو کسی بھی طرح بھارت کے وفاقی آئین کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس کے اہم مقاصد حسب ذیل ہیں:

    ریاست پر بھارت کے مرکزی آئین کا صرف کچھ امور میں نفاذ ہوگا۔
    ریاست اپنا آئین وضع کرے گی جو ریاست میں سرکاری ڈھانچے کو تشکیل دے گا۔
    مرکزی حکومت کی کوئی بھی انتظامی تبدیلی صرف اس وقت ریاست میں کی جا سکے گی جب ریاستی اسمبلی اجازت دے گی۔
    اس دفعہ کو صرف اس وقت تبدیل کیا جاسکتا ہے جب دفعہ میں تبدیلی کے تقاضے پورے ہوں اور ریاست کی مرضی اس میں شامل ہو جس کی ترجمانی وہاں کی ریاستی اسمبلی کرتی ہے۔
    دفعہ میں تبدیلی صرف ریاستی اسمبلی کی سفارشوں پر کی جاسکتی ہے، مرکز اس کا مجاز نہیں ہے۔

    بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے پیش کردہ بل

    بھارتی سرکار کی جانب سے پیش کردہ بل میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں اور کشمیر کو جغرافیائی طور پر ایک با ر پھر ری آرگنائز کیا جائے گا۔

    جموں و کشمیر کو باقاعدہ یونین ٹیریٹری کا درجہ دیا جائے گا، جس کی اسمبلی بھی ہوگی اور لداخ کو بغیر کسی مقننہ کے یونین ٹیریٹری کے طور پر رکھا جائے گا۔

    دوسری جانب بھارتی اپوزیشن کا ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے حکومت کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔

    بھارتی وزیرداخلہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی سرکارنے آرٹیکل35 اے ختم کیا تو مخالفت کریں گے جبکہ کانگریسی رہنما کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق قانون پر مشورہ نہیں کیا۔

    مقبوضہ کشمیر کی صورتحال

    یاد رہے اس بل کو لانے سے قبل ہی بھارت نے بھاری تعداد میں اپنی تازہ دم فوجیں مقبوضہ کشمیرمیں اتاردی تھیں جس کے سبب وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے ، لوگ گھروں میں محصورہوکررہ گئے، کشمیری رہنما محبوبہ مفتی،عمرعبداللہ اورسجاد لون سمیت دیگر رہنماؤں کوبھی نظربند کردیاگیا ہے۔

    مقبوضہ وادی میں دفعہ ایک چوالیس نافدکر کےوادی میں تمام تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بنداور لوگو ں کی نقل وحرکت پربھی پابندی عائد کردی گئی ہے، سری نگر سمیت پوری وادی کشمیرمیں موبائل فون،انٹرنیٹ،ریڈیو، ٹی وی سمیت مواصلاتی نظام معطل کردیاگیا ہے جبکہ بھارتی فورسز کےاہلکاروں نےپولیس تھانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    غیر ملکی سیاحوں اور صحافیوں کو فوری طور پر علاقہ چھوڑدینے کا کہا گیا تھا جس کے بعد خطے میں سراسیمگی کی صورتحال تھی۔ کشمیری رہنماؤں نے اس معاملے پر مسلم امہ سے مدد کی اپیل بھی کی تھی۔

  • عمران سیریز کے خالق ’ابن صفی‘ کا یومِ پیدائش اور برسی

    عمران سیریز کے خالق ’ابن صفی‘ کا یومِ پیدائش اور برسی

    اردو زبان میں جاسوسی ادب کے بانی اور مشہور زمانہ جاسوسی کرداروں کے تخلیق کار، ناول نگار اور شاعر ابن صفی کا آج یوم پیدائش اور یوم وفات ہے، اردو میں جاسوسی ادب کی تاریخ ان کے بغیر نامکمل ہے۔

    ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ وہ 26 جولائی 1928 کو اتر پردیش کے ایک گاؤں نارا میں پیدا ہوئے۔اپنی پیدائش کا واقعہ وہ خود یوں بیان کرتے ہیں، ’جولائی 1928 کی کوئی تاریخ تھی اور جمعہ کی شام دھندلکوں میں تحلیل ہو رہی تھی کہ میں نے اپنے رونے کی آواز سنی۔ ویسے دوسروں سے سنا کہ میں اتنا نحیف تھا کہ رونے کے لیے منہ تو کھول لیتا تھا لیکن آواز نکالنے پر قادر نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں کو میری آواز اب بھی سنائی نہیں دیتی۔ کب سے حلق پھاڑ رہا ہوں۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں اور لا تعلقی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ خیر کبھی تو۔۔ افوہ پتا نہیں کیوں اپنی پیدائش کے تذکرے پر میں اتنا جذباتی ہو جاتا ہوں‘۔

    ابن صفی کے ماموں نوح ناروی بھی ایک شاعر تھے۔ ماموں سے متاثر ہو کر انہوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری شروع کی۔ بعد ازاں جب ناول نگاری شروع کی تو والد کی نسبت سے ابن صفی کا قلمی نام اختیار کیا۔

    ابن صفی کی تخلیقی صلاحیتوں کو دراصل انگریزی ترجموں نے مہمیز کیا۔ اس وقت انگریزی ادب سے ترجمے کیے ہوئے ناول و افسانے قارئین کو پڑھنے کے لیے دستیاب تھے جن کے بارے میں ابن صفی کا خیال تھا، ’ان ناولوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انگریز سرپر پھندنے والی ٹوپی لگائے چلا آ رہا ہے‘۔

    انہوں نے ابتدا میں طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ ان کہانیوں میں انہوں نے مختلف قلمی نام استعمال کیے جیسے طغرل فرغان اور سنکی سولجر۔ سنہ 1948 میں ماہنامہ ’نکہت‘ میں ان کی پہلی کہانی ’فرار‘ شائع ہوئی۔

    سنہ 1951 میں انہوں نے ’جاسوسى دنیا‘ کے نام سے رسالہ جاری کیا جس میں ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول دلیر مجرم مارچ 1952 میں شائع ہوا۔

    ان کے مزید شائع ہونے والے ناولوں میں ’خوفناک جنگل‘، ’عورت فروش کا قاتل‘ اور ’تجوری کا راز‘ شامل ہیں۔سنہ 1957 میں ابن صفی نے اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ’ٹھنڈی آگ‘ شائع ہوا۔

    اسی دوران انہوں نے ایک نئے کردار عمران کی بنیاد ڈالی اور ناول لکھنا شروع کیے۔ اس سیریز کا نام ’عمران سیریز‘ رکھا۔ عمران سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ تھا جو اکتوبر 1955 کو منظر عام پر آیا۔

    اس کے بعد آنے والے ناولوں میں ’چٹانوں میں فائر‘، ’پر اسرار چیخیں‘ اور ’بھیانک آدمی‘ شامل ہیں۔ چند ہی ناولوں کے بعد اس سیریز نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔

    ابن صفی نے بے تحاشہ لکھا اور معیاری لکھا۔ ابن صفی کے بقول ان کے صرف 8 ناولوں کے مرکزی خیال کسی اور سے مستعار لیے گئے ہیں باقی کے 245 ناول مکمل طور پر ان کے اپنے ہیں۔

    عربا اور فارسا ( عربی اور فارسی) کا شاعر تھا اور علی عمران ان کا بہترین دوست

    ان کے فن کا اعتراف کرنے والی مغربی شخصیات میں خاتون ناول نگار اگاتھا کرسٹی، اردو زبان کی جرمن اسکالر خاتون کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اور نارویئن پروفیسر فن تھیسن شامل ہیں۔

    کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے ابن صفی کے فن کے بارے میں کہا، ’ابن صفی کی جس بات سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کے کردار فریدی اور عمران کبھی کسی عورت کی جانب نگاہ بد پھیرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ابن صفی کے جاسوسی ناول کی جاسوسی ادب میں اس لحاظ سے انوکھی حیثیت ہے کہ اس میں ایک مشن یا مقصد موجود ہے۔ اس لیے اسے محض تفریحی ادب نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے جاسوسی ناولوں میں فکری و ذہنی تربیت بھی پوری طرح موجود ہوتی ہے‘۔

    کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ان کے ناول بہت پسند تھے اور اپنے جاننے والوں سے ابن صفی کے نئے ناول کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔ نیا ناول شائع ہوتا تو اسے مارکیٹ سے منگواتے اور پڑھنے کے بعد نہایت اہتمام سے ان ناولوں کو اپنی کتابوں کے شیلف میں جگہ دیتے تھے۔

    فیلڈ مارشل ایوب خان بھی ابن صفی کے مداح تھے۔ ان کے ناول ’پاگل کتے‘ پر پابندی لگنے والی تھی مگر صدر ایوب خان نے انتظامیہ کو منع کر دیا۔ سنہ 1960 میں ایک اخبار میں ان کی ایک تصویر بھی شائع ہوئی تھی جس میں وہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا مطالعہ کر رہے ہیں۔سنہ 1970 میں ابن صفی نے آئی ایس آئی کو بھی جاسوسی کے حوالے سے غیر رسمی مشاورت دی۔

    ابن صفی شیزوفرینیا کے مریض تھے تاہم وہ صحت یاب ہوگئے۔ بعد میں انہیں لبلبہ کا کینسر ہوگیا۔ اسی بیماری میں وہ 26 جولائی 1980 میں انتقال کر گئے۔ ان کی تدفین کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں کی گئی۔

    ابن صفی کے لازول کردار علی عمران اور عمران سیریز پر بعد میں بھی کئی مصنفین نے ناول لکھے اور شہرت کمائی لیکن کوئی ایک بھی ان کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکا۔ آج کی نئی نسل بھی پہلے کسی اور مصنف کی عمران سیریز پڑھتی ہے اور بعد میں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کردارو ں کا اصل خالق ابن صفی ہے تو وہ ان کے ناولوں پر منتقل ہوجاتے ہیں۔

    ابن صفی کے ناولوں کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ انہوں نےاپنے دور کی جدید ترین جاسوسی ایجادات پر توجہ مرکوز کی اور انہیں اپنے ناولوں میں جا بجا استعمال کیا جس سے قارئین کی دلچسپی سائنس کی جانب بھی بڑھی۔

  • قدرت اللہ شہاب کو گزرے 33 برس بیت گئے

    قدرت اللہ شہاب کو گزرے 33 برس بیت گئے

    اسلام آباد: پاکستان کے نامور بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب کا آج 33 واں یوم وفات ہے۔آپ 24 جولائی 1986 کو انتقال کر گئے تھے۔

    قدرت اللہ شہاب 26 فروری1917 کو متحدہ ہندوستان کے علاقے گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ریاست جموں و کشمیر اور موضع چمکور صاحب ضلع انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا اور 1941 میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔

    ابتدا میں قدرت اللہ شہاب نے بہار اور اڑیسہ میں خدمات سر انجام دیں۔ سنہ 1943 میں بنگال میں متعین ہوگئے۔قیام پاکستان کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں پہلے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد، پھراسکندر مرزا اور بعد ازاں صدر ایوب خان کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔

    پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔

    اس سے قبل پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل قدرت اللہ شہاب کی کاوشوں سے ہی عمل میں آئی۔ صدر یحییٰ خان کے دور میں وہ ابتلا کا شکار بھی ہوئے اور یہ عرصہ انہوں نے انگلستان کے نواحی علاقوں میں گزارا۔

    شہاب نامہ


    شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔

    اسے حقیقی طور پر پاکستان کے ابتدائی دنوں کی ایک تاریخ کہا جاسکتا ہے، تاہم اس کتاب کے آخری 2 ابواب نے قدرت اللہ کی شخصیت پر بے شمار سوالات کھڑے کردیے۔

    مذکورہ ابواب میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ انہیں زندگی کے کئی برس تک ایک خفیہ شخصیت کی جانب سے ہدایات موصول ہوتی رہیں۔ اس شخصیت کو انہوں نے ’نائنٹی‘ کے نام سے پکارا ہے۔

    ان کے مطابق ایوان صدر میں اہم فرائض کی انجام دہی کے دوران کوئی خفیہ روحانی قوت تھی جو ان سے ملک کے مفاد میں بہتر کام کرواتی، جبکہ ایسا کام جس سے ملک کے مفاد کو خطرہ ہوتا اور مستقبل میں اس کے بدترین اثرات رونما ہوسکتے تھے، وہ رکوانے کی ہدایت دیتی۔

    اس باب میں انہوں نے مختلف روحانی شخصیات سے اپنے خصوصی تعلق اور رابطوں کو بھی بیان کیا ہے۔بقول ممتاز مفتی، ’ساری کتاب ایک ذہین، عقل مند، متوازن شخص کی روئیداد تھی، جس نے آخری باب میں ایک دم درویش بن کر، مصلہ بچھا کر تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر اللہ اللہ کرنا شروع کردیا اور خلق خدا کو اللہ اللہ کرنے کی تلقین شروع کردی‘۔

    اس وقت مذکورہ ابواب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہوگیا کہ یہ باب قدرت اللہ شہاب نے نہیں لکھا بلکہ ان کے حواریوں نے لکھ کر اس کتاب میں شامل کردیا ہے۔

    بہرحال اس کے بعد ممتاز مفتی میدان میں آئے اور انہوں نے قدرت اللہ کی شخصیت کے اس پہلو کی وضاحت کرنے کے لیے الکھ نگری لکھ ڈالی۔ الکھ نگری ان کی خود نوشت سوانح حیات ’علی پور کا ایلی‘ کا دوسرا حصہ ہے تاہم یہ صرف قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کے گرد گھومتا ہے۔

    بقول خود ممتاز مفتی کے، اگر قدرت اللہ اپنی کتاب شہاب نامہ میں ’نائنٹی‘ کا باب شامل نہ کرتے تو وہ کبھی یہ کتاب نہ لکھتے۔

    ممتاز مفتی کا کہنا ہے کہ شہاب نے اس کتاب میں اپنی شخصیت کا راز کھول دیا اور اس کے لیے بھی اسے یقیناً حکم دیا گیا ہوگا۔ اپنی کتاب الکھ نگری میں وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ قدرت اللہ سے ملے بھی نہیں تھے اس وقت سے وہ ان کی زندگی پر اثر انداز ہورہے تھے۔اس کے بعد وہ قدرت اللہ کی شخصیت کے پراسرار اور روحانی پہلوؤں کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    بہرحال، شہاب نامہ ایک تاریخی دستاویز ہونے کے ساتھ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ کسی بھی پاکستانی بیورو کریٹ کی یاداشتوں پر مبنی یہ مشہورترین تصنیف ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986 کو اسلام آباد میں وفات پائی اوراسلام آباد کے سیکٹر ایچ 8 کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔

  • لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    اردو ادب کے عظیم فقیر منش شاعر ساغر صدیقی کو دنیا سے رخصت ہوئے 45 برس بیت گئے لیکن ان کا کلام آج بھی زندہ ہے‘ ساغر 19 جولائی 1974 کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
    منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
    منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

    اردوزبان کو لطافت بخشنے والے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو اہل ذوق آج ان کی رحلت کے چالیس سال بعد بھی یاد کررہے ہیں ۔ ساغر صدیقی سنہ 1928میں بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔

    ان کا اصل نام محمد اختر تھا اورآپ چودہ برس کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے، ابتدا میں ’ناصر حجازی‘کے تخلص سے غزلیں کہیں بعد ازاں ’ساغر صدیقی‘ کے نام سے خود کو منوایا۔

    ساغر بقدرِ ظرف لٹاتا ہوں نقد ِ ہوش
    ساقی سے میں ادھار کا قائل نہیں ہوں دوست

    Related image

    ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں بڑے پیمانے پر ایک مشاعرے کے انعقاد کا اعلان ہوا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ ’’لڑکا‘‘ (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔

    مجھ کو خزاں کی ایک لٹی رات سے ہے پیار
    میں موسمِ بہار کا قائل نہیں ہوں دوست

    اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں ساغرکی مانگ بڑھ‍ گئی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ انہیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔

    یہ جو دیوانے سے دوچار نظر آتے ہیں
    ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

    سنہ 1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ ‍ لیا۔ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ فلم بنانے والوں نے ان سے گیتوں کی فرمائش کی اور اس میں انہیں بے مثال کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔

    اس زمانے میں ان کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغرسے لکھوائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    وہ ایک درویش صفت شاعر تھے۔عشق مجازی عشق حقیقی ،جدوجہد، لگن اور آوارگی ساغر صدیقی کی شاعری کا موضوع بنے‘ ساغر کی آواز میں سوز اور کلام میں آفاقی پیغام تھا‘ دنیا سے متعدد بار دھوکے اٹھانے کے بعد ساغرنے نشے میں چھپنا چاہا ‘ جس کے سبب وہ ہر شے سے بے خبر ہوکر سڑکوں پر آبیٹھے۔

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    غربت اور نشے کی لت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور وہ شراب کے بعد بھنگ اور مارفین جیسے گھٹیا اقسام کے نشے بھی استعمال کرنے لگے جس کے سبب ان کی صحت دن بدن جواب دیتی چلی گئی‘ اس دور میں بھی ان کی شاعری کمال کی تھی۔ ساغر کوا ن کے اپنے دوستوں نے لوٹا اور ایک چرس کی سگریٹ کے عوض ان سے فلمی گیت اور غزلیں لکھوائیں اور اپنے نام سے شائع کرائیں۔

    کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے‘ کچھ ماضی کے عیار سجن
    احباب کی چاہت کیا کہیے ‘ کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

    جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
    اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

    ساغر نشے کی آغوش میں جانے سے قبل ایک نامور شاعر تھے اسی سبب ان کا کلام ناشروں نے ان کے نام سے چھاپا اور یہ گوہرِ نایاب ضائع ہونے سے بچ گیا‘ وفات تک ان کے کل چھ مجموعے غم بہار‘ زہر آرزو (1946ء)‘ لوح جنوں (1971ء)‘ سبز گنبد اور شبِ آگہی منظرِ عام پر آچکے تھے۔ ساغر نے غزل ‘ نظم‘ قطعہ‘ رباعی ‘ نعت ‘ گیت الغرض ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا مجموعہ کلام کلیاتِ ساغر کے نام سے شائع ہوچکا ہے

    آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    انیس جولائی انیس سو چوہتر کی صبح جب لوگ بیدار ہوئے تودیکھا کہ سڑک کنارے ایک سیاہ گٹھری سی پڑی ہے ‘ قریب آئے تو معلوم ہوا کہ اپنے وقت کا نابغہ ٔ روزگار شاعر’ساغر صدیقی ‘ اس جہان فانی سے رخصت ہوچکا ہے ، آپ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں‘ ہر سال آپ کے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے، انہیں درویش یا فقیر منش شاعر اور ولی تصور کیا جاتا ہے ، ان کی لوح مزار پر ان کا ایک لقب سراغ رسانِ اولیا ء بھی درج ہے۔

    محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
    ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

    چلو تم بھی سفر اچھا رہے گا
    ذرااجڑے دیاروں تک چلیں گے

  • سوات کی گل مکئی، دنیا آج ملالہ ڈے منا رہی ہے

    سوات کی گل مکئی، دنیا آج ملالہ ڈے منا رہی ہے

     قوم کی بیٹی، پاکستان کی پہچان اور دنیا کی سب سے کمسن نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسفزئی آج اپنی 22 ویں سالگرہ منا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نےصنفی تفریق کے خلاف جدو جہد کے دن کوملالہ ڈے کے عنوان سے منانے کا فیصلہ کیا تھا۔

    گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھ کر شہرت پانے والے ملالہ 12 جولائی 1997 کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات کے علاقے مینگورہ میں پیدا ہوئیں جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

    ملالہ کا نام ملال سے نکلا ہے، اور وجہ تسمیہ میوند کی ملالہ تھی جو جنوبی افغانستان کی ایک مشہور پشتون شاعرہ اور جنگجو خاتون تھی۔

    [bs-quote quote=”کل رات میں نے فوجی ہیلی کاپٹروں اور طالبان سے متعلق بھیانک خواب دیکھا۔ وادی سوات میں فوجی آپریشن کے آغاز سے ہی مجھے ایسے خواب آ رہے ہیں۔ امی نے ناشتہ بنایا اور میں کھا کر اسکول چلی گئی۔ اسکول جاتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ 27 میں سے صرف 11 لڑکیاں ہی اسکول آئی تھیں کیونکہ انہیں طالبان سے خطرہ تھا۔ میری کئی سہیلیاں اپنے خاندان والوں کے ساتھ پشاور منتقل ہو گئی ہیں۔

    ” style=”style-2″ align=”center” author_name=”ملالہ کے بی بی سی کے لیے لکھے گیے پہلے بلاگ سے اقتباس” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2019/07/image.jpg”][/bs-quote]

    سنہ 2010 میں 9 اکتوبر کو جب ملالہ گھر سے اسکول امتحان کو جانے کے لیے بس میں سوار ہوئی تو ایک مسلح طالبان نے اس پر حملہ کر دیا۔ نقاب پوش حملہ آور نے پہلے پوچھا کہ ’تم میں سے ملالہ کون ہے؟ جلدی بتاؤ ورنہ میں تم سب کو گولی مار دوں گا‘۔ جب ملالہ نے اپنا تعارف کروایا تو اس شخص نے گولی چلا دی۔ملالہ کو لگنے والی گولی کھوپڑی کی ہڈی سے ٹکرا کر گردن سے ہوتی ہوئی کندھے میں جا گھسی۔

    دیگر دو لڑکیاں بھی اس حملے میں زخمی ہوئیں جن کے نام کائنات ریاض اور شازیہ رمضان ہیں، تاہم دونوں کی حالت خطرے سے باہر تھی اور انہوں نے حملے کے بارے میں تفصیلات دیں۔

    ملالہ پر قاتلانہ حملے سے متعلق تفصیلات دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا پر ظاہر ہوئیں اور عوام کی ہمدردیاں ملالہ کے ساتھ ہو گئیں۔ پاکستان بھر میں ملالہ پر حملے کی مذمت میں مظاہرے ہوئے۔ تعلیم کے حق کی قرارداد پر 20 لاکھ افراد نے دستخط کیے جس کے بعد پاکستان میں تعلیم کے حق کا پہلا بل منظور ہوا۔

    ملالہ کے والد نے بیان دیا، ’چاہے ملالہ بچے یا نہ، ہم اپنا ملک نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا نظریہ امن کا ہے۔ طالبان ہر آواز کو گولی سے نہیں دبا سکتے‘۔

    چھ روز بعد 15 اکتوبر کو اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عالمی خواندگی اور سابقہ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اسپتال میں ملالہ کی عیادت کی اور ملالہ کے حق میں ایک قرارداد شروع کی جس کا عنوان تھا ’میں ملالہ ہوں‘۔ اہم مطالبہ یہ تھا کہ 2015 تک تمام بچوں کو اسکول کی سہولیات تک رسائی دی جائے۔

    اگلے برس 12 جولائی کو جب ملالہ کی 16ویں سالگرہ تھی تب ملالہ نے اقوام متحدہ سے عالمی خواندگی کے بارے میں خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو ملالہ ڈے یعنی یوم ملالہ قرار دے دیا۔ حملے کے بعد یہ ملالہ کی پہلی تقریر تھی۔

    دس اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور نوجوانوں کے حق تعلیم کے لیے جدوجہد پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ 17 سال کی عمر میں ملالہ یہ اعزاز پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت ہے۔

    اس اعزاز میں ان کے شریک بھارت سے کیلاش ستیارتھی تھے جو بھارت میں بچوں اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کررہے ہیں۔ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری جبکہ نوبل انعام برائے امن پانے والی پہلی پاکستانی بن گئی ہیں۔

    ملالہ یوسفزئی کو اب تک دنیا بھر سے 40 عالمی اعزازات مل چکے ہیں جو ان کی جرات و بہادری کا اعتراف ہیں۔انہیں اقوام متحدہ اپنا خیر سگالی سفیر برائے امن بھی مقرر کرچکی ہے۔

    اپنی اٹھارویں سالگرہ پر انہوں نے شامی بچیوں کی تعلیم کے لیے پہلا اسکول قائم کیا تھا اور اب ملالہ فاؤنڈیشن کئی اسکول چلا رہی ہے۔ سنہ 2015 میں ایک خلائی سیارچے کا نام بھی ان کے نام پر ’ملالہ ‘ رکھا گیا تھا۔

  • ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے 24 ممالک کے نوجوان متحد

    ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے 24 ممالک کے نوجوان متحد

    ماحولیاتی تبدیلیوں اوران کے سبب کرہ ارض کو پہنچنے والے نقصانات کے سدباب کے لیے 24 ممالک کے نوجوان متحد ہوکر ایک مشترکہ جدو جہد شروع کررہے ہیں جس کا عنوان ’’آل ان فار کلائمیٹ ایکشن‘‘ رکھا گیا ہے۔

    کرہ ارض کی بقا کے لیے کوشاں یہ نوجوان ایک بین الاقوامی آن لائن دستخطی مہم شروع کرچکے ہیں ۔ یہ مہم یکم جولائی کو شروع کی گئی تھی اور اب تک اس پر ڈھائی لاکھ سے زائد افراد دستخط کرچکے ہیں ، مختلف ممالک کے یہ نوجوان کوشاں ہیں کہ ستمبر سے قبل وہ اس مہم پر دس لاکھ دستخط دنیا بھر سے حاصل کرلیں ۔

    چینج ڈاٹ اوآرجی کے ذریعے دستخط کی جانے والی یہ مہم ستمبر میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر یو این کلائمیٹ چینج ایکشن سمٹ میں دنیا بھر کے رہنماؤں کے سامنے رکھی جائےگی۔

    اس موقع پر نوجوان اپنے تحفظات کو عالمی برادری کے سامنے پیش کریں گے اور ان پر زور دیں گے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے اب حتمی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اوریہعالمی ادارہ اس کے لیے کوششیں کرے۔ 24 ممالک میں پھیلے ہوئے یہ نوجوان جن میں پاکستان سے بھی کئی نوجوان شریک ہیں، کوشاں ہیں کہ ان کی اس مہم کا دائرہ کار کم از کم 50 ممالک تک پھیل جائے ۔

    پاکستان سے مہم میں شریک نوجوان

    یاد رہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جس کا عالمی ماحولیاتی آلودگی میں حصہ انتہائی کم ہے لیکن وہ ان تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار بن رہا ہے، ماحولیاتی آلودگی کے فروغ میں امریکا اور چین سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔

    نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے محض تقاریر سن سن کر عاجز آچکے ہیں اوراب وقت آگیا ہے کہ عالمی لیڈر اس مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے دنیا بھر میں کلائمیٹ ایمرجنسی نافذ کریں اور گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

    اس مہم کے اسپین سے تعلق رکھنے والے کوآرڈینیٹر فرنینڈو کوٹریراس کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی بحران اب ایک حقیقی خدشے کے طور پرسامنے آچکا ہے اور نوجوان اب انتظار نہیں کرسکتے کہ ہمارے بڑے اس معاملے کو کب حل کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں، لہذا ہم خود بین الاقوامی سطح پر متحد ہورہے ہیں اور عالمی رہنماؤں کے لیے ’’آٓخری موقع ‘‘کے نام سے ایک تحریک شروع کررہے ہیں جو کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات دنیا بھر کے سامنے رکھے گی۔

    جنوبی اوروسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے کوآرڈینیٹر درلبھ اشوک کے مطابق اس خطے کے دس میں سے پانچ ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے بدترین نقصانات کا سامنا کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر سنہ 2015 میں سائیکلون نرگس کے سبب میانمار میں 24 لاکھ افراد بدترین ہیٹ ویو سے متاثر ہوئے جبکہ پاکستان میں دو ہزار سے زائد افراد جان سے گئے تھے۔ اگر ہم نے اس کے سدباب کے لیے ابھی اقدامات نہیں کیے تو موسمیاتی تبدیلیاں مزید شدت اختیار کریں گی۔

    اس وقت 20 سے زائد ممالک کے ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے سرگرم کارکنان اس مہم میں شریک ہوچکے ہیں اور یہ لوگ اقوام متحدہ کے سامنے دس مطالبات رکھیں گے۔ آل ان فار کلائمیٹ ایکشن مہم میں شمولیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں بغیر کسی رنگ، نسل زبان ، جنس، عمر ثقافت اور مذہب کی تفریق کے سب کو یکساں نشانہ بنا رہی ہیں۔

    یہ مہم کسی بھی ملک کی حکومت یا سیاسی پارٹی کے زیر انتظام نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر نوجوانو ں کا اٹھایا ہوا قدم ہے جسے انتہائی سرعت کے ساتھ دنیا بھر میں پذیرائی مل رہی ہے۔

  • اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کو 71 سال مکمل

    اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کو 71 سال مکمل

    آج پاکستان کے مرکزی بینک ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کی سالگرہ ہے، یکم جولائی 1948 کو  قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا افتتاح کیا تھا۔

    بینک دولت پاکستان یا اسٹیٹ بینک آف پاکستان پاکستان کا مرکزی بینک ہے۔ اس کا قیام 1948ء میں عمل میں آیا اوراس کے صدر دفاتر کراچی اور اسلام آباد میں قائم ہیں۔

    اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں قائد اعظم اورفاطمہ جناح

    پاکستان کی آزادی سے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا اس علاقے کا مرکزی بینک تھا۔ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد یہی بینک ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کا مرکزی بینک تھا۔ یکم جولائی 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرکے ریزرو بینک آف انڈیا کی اجارہ داری ختم کردی تھی ۔

    قائد اعظم اسٹیٹ بنک کا تالا کھولتے ہوئے

     30 دسمبر 1948 کو برطانوی حکومت نے برصغیر کے ریزرو بینک آف انڈیا کے اثاثوں کا 70 فیصد ہندوستان کو دیا جبکہ پاکستان کو 30 فیصد ملا۔ اُس وقت ریزرو بینک آف انڈیا کی طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی ایک پرائیوٹ یا نجی بینک تھا۔

     یکم جنوری 1974ء کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قومی ملکیت میں لے لیا، ان کے اس اقدام سے پاکستانی معیشت کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔

    فروری 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فائننشیل سیکٹر ری فورم کے نام پر خود مختاری دے دی۔

    21جنوری 1997 میں ملک معراج خالد کی نگراں حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مزید آزادی دے کر مکمل خود مختار کر دیا۔ اب یہ  حکومت ِ پاکستان کے ماتحت نہیں رہا تھا بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ تھا ، تاہم ابھی بھی اس کے گورنر کی تعیناتی وفاقی حکومت کے حکم سے کی جاتی ہے۔

    سنہ  2005 میں اس وقت کی حکومت نے  ملک میں کام کرنے والےمنی ایکسچینجز  کو قانونی درجہ دے کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماتحت کردیا گیا تھا ، جس سے اسٹیٹ بینک کو مزید استحکام ملا۔

    اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ہر سال وزیر خزانہ کے ہمراہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سالانہ میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے جاتے ہیں۔

    اپنے قیام کے وقت اس کے پہلے  گورنر زاہد حسین تھے جو کہ  19 جولائی1953 تک اسٹیٹ بینک کے گورنر رہے۔ موجودہ گورنر ڈاکٹر رضا باقر ہیں جو کہ   05 مئی 2019 سے آئندہ تین سال کے لیے اس عہدے پر فائز ہیں۔

    قائداعظم پاکستانی کرنسی کا معائنہ کرتے ہوئے

    اپنے چارٹرکے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان مارکیٹ میں روپے کی ترسیل،  مضبوط معاشی نظام کی یقینی بنانے،  قواعد و ضوابط کی پاسداری کرانے اور دیگر بینکوں کے مالیاتی امور کی نگرانی کرنے ،  بین الاقوامی مارکیٹ سے ایکسچنج ریٹ طے کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔