Author: فواد رضا

  • آج ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یومِ وصال ہے

    آج ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یومِ وصال ہے

    آج ام المومنین، صدیقہٗ عالم جنابِ عائشہ کا یوم وفات ہے، آپ نے 17 رمضان 58 ہجری، بروز منگل 66 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے پردہ فرمایا تھا۔

    حضرت عائشہ پیغمبر اسلام ﷺ کی صغیر سن زوجہ تھیں اور آپ ﷺ نے انہیں شرفِ زوج اپنے دوست اورصحابی حضرت ابوبکرؓ کے احترام میں عطا کیا تھا۔

    ولادت

    حضرت ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا تھا، عبداللہ کے انتقال کے بعد وہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عقد میں آئیں حضرت ابوبکر کے دو بچے تھے، عبدالرحمنؓ اور عائشہؓ۔ حضرت عائشہؓ کی تاریخ ولادت کے متعلق تاریخ وسیرت کی تمام کتابیں خاموش ہیں۔ ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے۔ ان کا لقب صدیقہ تھا، ام المومنین ان کا خطاب تھا، نبی مکرم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی خطاب فرمایا ہے اور کبھی کبھار حمیرا کے لقب سے بھی پکارتے تھے۔


    حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا یومِ وصال


     کنیت

    عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہےچونکہ حضرت عائشہؓ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اورعورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ فرمایا اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو، چنانچہ اسی دن سے ام عبداللہ کنیت قرارپائی۔

    نکاح

    حضرت عائشہؓ ایک روایت کے مطابق ہجرت سے ٣ برس قبل سید المرسلین ﷺ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور9برس کی عمرمیں رخصتی ہوئی۔ ان کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا۔

    وفات

    سن ٥٨ ہجری کے ماہ رمضان میں حضرت عائشہؓ بیمار ہوئیں اور انہوں نے وصیت کی کہ انہیں امہات المومنینؓ اور رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔ ماہ رمضان کی 17تاریخ منگل کی رات ام المومنین عائشہؓ نے وفات پائی۔ آپ 18سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں اور وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔

    حضرت عائشہؓ اور احادیث نبوی

    ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت وامانت میں امتیاز حاصل تھا۔ ان کا حافظہ بہت قوی تھا جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں۔

    حضرت عائشہ حدیث حفظ کرنے اورفتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کرتھیں۔ جنابِ عائشہ صدیقہؓ نے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی۔

    دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے ام المومنین عائشہؓ سے زیادہ رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو۔ صدیقہؓ سے ایک سو چوہتر (174) احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں۔

  • پاکستانی نوجوانوں نے ’امریکن چوپر‘مقامی ورکشاپ میں بنالی

    پاکستانی نوجوانوں نے ’امریکن چوپر‘مقامی ورکشاپ میں بنالی

    کراچی: شہرقائد کے نوجوانوں نے امریکن چوپر نامی موٹرسائیکل کو ایک درمیانے درجے کے گیراج میں تیار کرکے دیکھنے والوں کی عقل کو دنگ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے نوجوان راشد حسین نے امریکن چوپر نامی اس بائیک کو خود ڈیزائن کرکے کراچی کے ایک مقامی ورکشاپ سے تیار کرایا ہے۔

    راشد حسین کے مطابق انہوں اس موٹر سائیکل کو مکمل طور پر ڈیزائن کیا اور برہان الدین نامی مکینک نے اسے اپنی ورکشاپ ‘کسٹم کرافٹ چوپر‘ میں تیار کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس موٹر سائیکل کو ڈیزائن سے تکمیل تک دو سال سے زائد کا عرصہ لگا ہے اور اس کے لیے انہوں نے انجن‘ چیسز اور وہیل رموں کے علاوہ کوئی بھی چیز خریدی نہیں گئی ہے بلکہ اسے مکمل طور پر ورکشاپ میں تیار کیا گیا ہے ۔

    موٹرسائیکل تیار کرنے والے مکینک برہان الدین کے مطابق یہ حسین امریکن چوپر ہونڈا 175 سی سی کے چیسز پر تیار کی گئی ہے اور اس سلسلے میں تمام تر آلٹریشن خود سے کی گئی ہیں۔

    راشد حسین نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہ اس موٹر سائیکل کی تکمیل ایک لمبی کہانی ہے‘ یہ ان کا بچپن کا خواب تھا اورشاید زندگی کی واحد اور آخری خواہش بھی یہی تھی۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس پر بائیک کی تیاری میں دو سال چار ماہ کا عرصہ لگا اوراللہ کی مدد شاملِ حال رہی جس کے سبب بالاخر ان کا یہ خواب تکمیل کو پہنچا۔

    جب یہ موٹر سائیکل اور اس کا سوار سڑک پر نکلتے ہیں تو اس کی سج دھج اور شان وشوکت دیکھ کردیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں اور ایک نظردیکھنے والے اسے اس وقت تک نظر بھر کردیکھتے رہتے ہیں جب تک یہ امریکن چوپر ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوجاتی۔


    پہلے اوربعد کی تصاویر



    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • بجٹ 18-2017: سندھ حکومت کا 10.04 کھرب کا بجٹ پیش

    بجٹ 18-2017: سندھ حکومت کا 10.04 کھرب کا بجٹ پیش

    کراچی: سندھ حکومت نے نئے مالی سال کے لیے 10 کھرب 4 ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کردیا، ترقیاتی اخراجات کی مد میں 254 ارب اور تعلیم کے لیے 202 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آج بروز پیر صوبے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ‘ بجٹ میں وسائل کا سب سے زیادہ حصہ تعلیم کے لیے رکھا گیا ہے‘ تعلیمی بجٹ میں رواں سال 24 فیصد اضافہ کیا گیا ہے‘ تعلیم کا کل بجٹ 202 ارب روپے ہیں۔

    تعلیم

    یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کے لئے 5ارب روپے کی گرانٹ مختص جبکہ تعلیم کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 17ارب 23 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کیڈٹ کالج گڈاپ کو ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔

    آئندہ مالی سال کے دوران 50اسکولز کی اسکیمیں مکمل کی جائیں گی۔ طلبا کو 2ارب روپے کی لاگت سے درسی کتابیں بلا معاوضہ دی جائیں گی۔ خواتین کی حوصلہ افزائی کے لئے ڈیڑھ روپے کے وظائف دے گئے ہیں۔

    اسکول انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لئے 2ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں، سندھ یونیورسٹی جام شورو کےانفرااسٹرکچر کیلئے 15کروڑ 10لاکھ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے انفرااسٹرکچر فیز1 کیلئے 12 کروڑ 90 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز ہے جبکہ 13کروڑ 10 لاکھ روپے داؤد یونیورسٹی کیلئے رکھنے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

    اسکالر شپ کی مد میں75کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں اور 8ارب 8 کروڑ روپے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔

    توانائی بحران

    توانائی بحران کے حوالے سے مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ بجلی نہ دے کرصوبے کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے‘ سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والے صوبے میں آج بجلی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ 70 فیصد توانائی پیدا کرتا ہے‘ وفاق بجلی کی پیداوار بڑھانے پر غلط بیانی نہ کرے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حیسکو کو 27 ارب روپے بل کی مد میں ادا کیے تاہم ادائیگیوں کے بعد بھی بجلی فراہم نہیں کی جارہی ہے جس سے صوبے میں عذاب کی سی صورتحال ہے۔

    صحت

    صوبے میں صحت سے متعلق صورتحال کو بہت بنانے کے لیے صحت کا بجٹ 100 ارب 32 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے‘ رواں مالی سال کی مختص رقم 80ارب روپے تھی۔

    صحت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے15ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ ایمونائزیشن سپورٹ پروگرام کی مجموعی لاگت 8ارب9 کروڑ روپے مختص ہیں جبکہ لیڈی ہیلتھ ورکر ز پروگرام کے لئے 2ارب 40 کروڑ روپے اضافی رقم مختص کی گئی ہے۔2100لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دور دراز علاقوں میں تعینات کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

    صحت مند سندھ پروگرام کے لئے 2ارب 40 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جبکہ صحت کے شعبے میں 25ہزارنئی اسامیاں تخلیق کی جائیں گی۔

    ایس آئی یو ٹی کی گرانٹ 4ارب سے بڑھا کر ساڑھے 4ارب روپے کرنے اور انڈس اسپتال کراچی کی گرانٹ کو دگنا کرکے ایک ارب روپے کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

    ویکسی نیٹرز کی2118اضافی اسامیاں تخلیق کی گئی ہیں، تمام بڑے اسپتالوں میں میمو گرافک مشینیں فراہم کی جائیں گی، اسپتالوں میں 400ملین روپے سے ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔

    وزیراعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریر میں اعلان کیا کہ سندھ میں اس سال پولیو کاکوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

    کراچی میں امن امان کا بجٹ

    امن وامان کے لئے 92ارب 91کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ شہدااور زخمیوں کے خاندانوں میں 1ارب روپے تقسیم کئے ۔

    پاک فوج نے نئے بھرتی ہونے والے 3000پولیس اہلکاروں کو تربیت دی اور سندھ پولیس میں 10ہزار مزید نئی اسامیاں تخلیق کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔

    سندھ پولیس کو ٹرانسپورٹ کی خریداری کے لئے 2ارب روپے دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ سندھ پولیس کی فرانزک لیب کی تعمیر کے لئے 2ارب 60 کروڑ روپے کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

    سندھ پولیس کے لئے انٹیلی جنس اورڈیٹا سینٹر کے قیام کے لئے 28 کروڑ روپے مختص اورسی پیک سے متعلق منصوبوں کی سیکیورٹی کے لئے3000اسامیوں کی تجویز دی گئی ہے۔

    اعلیٰ معیارکےہتھیاروں کی خریداری کیلئے 2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی‘ بڑے شہروں میں سیکیورٹی کیمروں کی تنصیب کے لئے 20کروڑ روپے مختص دی گئی ہے۔

    کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے رقم مختص

    کراچی والوں کیلئے پانی، سیوریج اور سڑکوں کے لئے بھی بجٹ میں کچھ رقم رکھ دی گئی ہے۔ بجٹ میں کراچی کیلئے اسپیشل پیکج دیتے ہوئے دس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، شاہراہ فیصل کی توسیع، اسٹارگیٹ اور پنجاب چورنگی پر انڈر پاس کی تعمیر اور شاہین کمپلیکس کے قریب فلائی اوور بنائے جائیں گے۔

    اس کے علاوہ کراچی میں سڑکوں کی تعمیر کیلئے تین ارب روپے رکھ دیئے گئے۔ سندھ بجٹ میں کے فور واٹر سپلائی پروجیکٹ کے لئے سولہ ارب مختص کر دیئے گئے۔

    کراچی میں تیرہ نئے اسپتال بنائے جائیں گے۔ بجٹ میں یلیو، ریڈ اور بلیو بس ٹرانزٹ سسٹم کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ کراچی آپریشن کیلئے جدید ہتھیار اور بکتر بند گاڑیاں خریدنے کیلئے سوا پانچ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

     علاوہ ازیں دریائے سندھ سے کینجھر جھیل کو پانی فراہم کرنے والی نہر کیلئے بیس ارب روپے کی تجویز دی گئی ہے۔ منچھر جھیل کی بحالی بھی بجٹ میں شامل ہے۔

    تنخواہ

    سندھ حکومت کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

  • آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    کراچی: آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے، یہ دن ہرسال 5جون کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 1974 سے منایا جارہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ماحولیات کے زیراہتمام اس سال اس دن کے لیے عنوان ’’ لوگوں کو قدرت سے جوڑو‘‘ رکھا گیا ہے۔ اور اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’ آپ کے گھر کے پائیں باغ سے لے کر آپ کے پسندیدہ ترین نیشنل پارک تک‘ قدرت آپ کی سوچ سے زیادہ آپ کے نزدیک ہے۔ وقت آگیا ہے کہ باہر نکلیں اور اس کا مزہ لیں‘‘۔

    ماحولیات کاعالمی دن منانے کا مقصد دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کرنا ہے عالمی حدت میں روز بروزخطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے لوگوں میں مہلک وبائی امراض پیدا ہورہے ہیں۔


    ڈونلڈ ٹرمپ کا پیرس ماحولیاتی معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان


    ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پرقابو پانے کےلئے ماحولیاتی تنظیمیں برسرپیکار ہیں جبکہ سائنسدان بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ماحولیاتی تنظیموں اورسائنسدانوں کی مشترکہ کاوشوں سے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پرقابو پانے کےلئے قانون سازی کرنے پرمجبور ہوگئی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گرین ہاؤسزگیسوں کے اخراج کی وجہ سے درجہ حرارت میں بتدریج اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے زراعت کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے، جس سے خوراک کی طلب پوری نہ ہونے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بالخصوص غریب ممالک کے عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

    ماحولیاتی آلودگی کے باعث قطب شمالی وجنوبی میں موجود متعدد گلیشیئرتیزی پگھل رہے ہیں جس سے سمندری طوفان کے شدید خطرات لاحق ہیں، جبکہ گرین ہاس گیسز سے ماحول کو مسلسل پہنچنے والے نقصانات کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھرمیں زلزلے، طوفان اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہوا ہے، جس سے موجودہ دنیا اورآنے والی نسلوں کو بھی خطرہ ہے۔

    پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی


    دوسری جانب پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب پانی کی آلودگی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ ماہرین کے مطابق 80 فیصد بیماریوں کا تعلق آلودہ پانی کے استعمال سے ہوتا ہے، لہٰذا خوشگوار اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے ماحولیاتی مسائل پر قابوپانا انتہائی ضروری ہے۔

    پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے جہاں گزشتہ ایک سوسال کے دوران درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافے کی ایک بڑی وجہ یہاں کے جنگلات کی مسلسل کٹائی بھی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا کہ نئی نسلوں کو بہترماحول اورصحت مند زندگی دینے کے لیے تمام ممالک کا فرض ہے کہ وہ کرہ ارض میں فطری ماحول میں تبدیلی جو انسانی اعمال کی وجہ سے آرہی ہے اس کو روکنے میں اپنا کردارادا کریں۔

  • رومی سلطنت کا مرکزقسطنطنیہ آج سے 564 سال قبل فتح ہوا

    رومی سلطنت کا مرکزقسطنطنیہ آج سے 564 سال قبل فتح ہوا

    آج سے 564 سال قسطنطنیہ 29 مئی 1453ء کو سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ صدیوں تک مسلم حکمرانوں کی کوشش کے باوجود دنیا کے اس عظیم الشان شہر کی فتح عثمانی سلطان محمد ثانی کے حصے میں آئی جو فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کہلائے۔

    سلطان محمد فاتح نے اجلاس کے دوران اپنے درباریوں پر جوکہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا متفقہ فیصلہ کرچکے تھے یہ واضح کیا کہ رومی سلطنت ، عثمانی تخت و تاج کے دعویداروں کو پناہ دیتی رہی تھی اور اس طرح مسلسل خانہ جنگیوں کا باعث بنی اس امر کو بھی زیر بحث لایاگیا کہ یہ رومی سلطنت ہی تھی جوجنگیں چھیڑنے میں پیش پیش تھی۔

    قسطنطنیہ کو سلونیکا کی طرح مغربی کیتھولکس کے حوالے کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ عثمانی سلطنت کبھی بھی مکمل طور پر خودمختار نہ ہوسکے گی۔ لہذا قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا گیا جو 6 اپریل سے 29 مئی 1453ء تک کل 54 دن جاری رہا۔

    رومی شہنشاہ Palaeologus XI کی مدد کیلئے ہنگری کی تیاریوں اور وینس کی بحریہ کی روانگی کی خبریں آچکی تھیں۔ سلطان محمد فاتح نے حملے کا حکم دیا۔ عثمانی بحری بیڑے کی مداخلت روکنے کے لئے دشمن نے قسطنطنیہ کے ساحل پر بھاری زنجیر لگادی جس سے عثمانی جہاز بندرگاہ میں داخل ہونے سے قاصر ہوگئے۔

    فتح قسطنطنیہ 


    سلطان محمد نے اپنے جہازوں کو شہر کی دوسری جانب لے جانے کا حکم دیا اوران کی افواج صحرا کے ذریعے جوکہ اب تک ناقابل رسائی تصور کیا جاتا تھا اپنے جہازوں سمیت قسطنطنیہ کے پچھلے دروازوں پر پہنچ گئیں۔

    یوں بالاخر قسطنطنیہ فتح ہوگیا یونانیوں کو قسطنطنیہ واپس آنے کی اجازت دی گئی جو فتح کے بعد ہرجانہ اداکرنے لگے اور انھیں ایک خاص مدت کیلئے محاصل سے چھوٹ دی گئی۔

    فتح کے اگلے روز قسطنطنیہ کے بڑے وزیر چینڈرلے کو برطرف کرکے گرفتار کرلیاگیا اور اس کی جگہ اسکے حریف زاگانوز کو تعینات کردیا گیا قسطنطنیہ کی فتح نے سلطان محمد فاتح کو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنادیا۔

    یہاں یہ بات بھی خاص طور ملحوضِ خاطررہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے بادشاہ کے لیے حدیثِ رسول ﷺ بھی ہے کہ فتح قسطنطنیہ کی خوشخبری کچھ یوں بیان کی گئی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘‘۔

    یاد رہے کہ بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ کے کم از کم 24 محاصرے ہوئے ہیں۔ ان محاصروں میں دو مرتبہ قسطنطنیہ بیرونی افواج کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ایک مرتبہ 1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران یورپ کے عیسائیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔

    مسلمانوں کے محاصرے


    مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ 674ء میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں کیا۔

    دوسرا محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں 717ء میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو عیسائی مشہور جنگ بلاط الشہداء کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔ محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبدالملک وفات پا گئے اور عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں کا زبردست جانی نقصان ہوا۔

    عثمانیوں نے اس شہر کے تین محاصرے کئے جن میں پہلا محاصرہ 1396ء میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور بیگ گورکانی، صاحب قرن کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر حملوں کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ تیمور اور بایزید کا ٹکراؤ انقرہ کے قریب ہوا جس میں بایزید کو شکست ہوئی۔

    دوسرا محاصرہ 1422ء میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔

    سنہ 1453ءمیں شہر کا آخری محاصرہ سلطان محمد فاتح نے کیا جس میں مسلمانوں نے محیر العقل کارنامہ انجام دیتے ہوئے شہرکو فتح کرلیا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • ویڈیو: قدیم کراچی کی جدید ٹرام سروس

    ویڈیو: قدیم کراچی کی جدید ٹرام سروس

    کیا آپ نے کبھی اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ کراچی کی صاف ستھری سڑکوں پر کبھی ٹرام بھی چلا کرتی تھی‘ آئیے آج ہم آپ کو ملواتے قدیم کراچی کی اس جدید سواری سے جو اب ناپید ہوچکی ہے۔

    کراچی میں سب سے پہلی ٹرام سنہ 1885 میں چلنا شروع ہوئی جو کہ بھاپ سے چلتی تھی تاہم ایک سال بعد ہی اس کی جگہ ہارس ٹرام نے لے لی جسے گھوڑے کھینچا کرتے تھے۔

    سنہ 1905 میں پہلی بار برطانوی حکومت نے ایسٹ انڈیا ٹرام ویز کمپنی میں سرمایہ کرتے ہوئے پیٹرول سے چلنے والی ٹرام متعارف کرائی جس میں پہلی ٹرام کا نمبر ’94‘ تھا جبکہ 1909 تک گھوڑوں والی ٹرام کو مکمل طور پر پیٹرو ٹرام سے تبدیل کردیا گیا اور اس مقصد کے لیے نئے ٹریک بھی تعمیر کیے گئے۔

    یہ ٹرام ڈاکس سے چلا کرتی اور کراچی کے اس وقت کے وسط میں واقع ایمپریس مارکٹ تک آیا کرتی تھی وقت گزرنے کے ساتھ اس میں مزید روٹس شامل کیے گئے اور ٹریک کی لمبائی کل 10 میل تک چلی گئی تھی تاہم اپنے آخری دنوں میں یہ محض بولٹن مارکیٹ سے ایمپریس مارکیٹ تک آپریٹ کررہی تھی۔

    سنہ 1945 میں ٹرام میں ڈیزل انجن متعارف کرایا گیا اور تقسیم کے بعد جب سنہ 1949 میں محمد علی کمپنی نے اس سروس کو خریدا تو تمام تر انجن ڈیزل کردیے گئے‘ کمپنی کے مالک شیخ محمد علی تھے۔

    امریکی نیوی سے تعلق رکھنے والے کیپٹن رحیم اللہ جب کراچی آئے تو ڈاکس پر جہاز سے اترنے کے بعد جس پہلی شے سے ان کا واستہ پڑا وہ ٹرام تھی اور انہوں نے ٹرام کی کئی ویڈیوز بنائی جن کی مدد سے یہ ڈاکیومنٹری بنائی گئی ہے۔

    اس ٹرام سروس کی ہر بس 28 فیٹ لمبی اور آٹھد فٹ چوڑی تھی اوراس میں 48 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی جبکہ ڈرائیور کے بالکل پیچھے والی نشستیں خواتین کے لیے مخصوص تھیں۔

    کراچی کا موسم عموماً ہوادار رہتا ہے اس لیے آپ کو زیادہ تر پرانی تصاویر میں ٹرام کی کھڑکیاں کھلی نظر آئیں گی تاہم جب موسم خراب ہوتا تھا تو کنڈیکٹر ان کھڑکیوں کے شٹر بند کردیا کرتا تھا۔

    ٹرام کی ٹاپ اسپیڈ 25 میل فی گھنٹہ تھی اور یہی اس کے خاتمے کا سبب بھی بنی کہ سنہ 1969 میں حکومت نے 14 ٹرینوں پر مشتمل کراچی سرکلر ریلوے متعارف کرادی جو کہ پرانی ٹرام سے کہیں زیادہ تیز رفتارتھی اوراس کی سروس کی دائرہ بے حد وسیع تھا حالانکہ اب وہ سرکلر ریلوے بھی ماضی کا حصہ بن چکی ہے تاہم سندھ حکومت ایک بار پھر اس کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ ٹرام کو دوسرا سب سے شدید نقصان پرائیوٹ بس کمپنیوں نے پہنچایا جن کے روٹ اور رفتارزیادہ تھی۔

    سنہ 1985 میں اسٹیم کے چُھک چُھک کرتے انجنوں سے شروع ہونے والا ٹرام ویز کمپنی کا یہ سفر بالاخر سنہ 1972 میں اختتام پذیر ہوا اور آج کراچی کے شاندار ماضی میں اپنا حصہ ڈالنے والی ٹرامیں اب محض تاریخ بن کررہ گئیں ہیں اور کراچی کی ٹرانسپورٹ رکشوں اور چنگ چی کے رحم و کرم پر ہے۔ امید ہے کہ وفاقی حکومت کے گرین لائن میٹرو منصوبے کی تکمیل ‘ اور سندھ حکومت کے سرکلر ریلوے کے احیا سے کراچی ایک بار پھر جدید ترین ٹرانسپورٹ رکھنے والے شہروں میں شمار ہوسکتا ہے۔


    ویڈیو دیکھئے



    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • صدائے علم – حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

    صدائے علم – حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

    ناقدینِ ادب کا ماننا ہے کہ جدید دور میں اردو ادب زوال کا شکار ہے اور نئے لکھنے والے اس طرح سے نہیں لکھ پارہے جیسا کہ ان کے پیشرو لکھ گئے تاہم سمیع اللہ خاں کی کتاب’ صدائے علم‘ ان تاثرات کی نفی کرتی نظر آتی ہے۔

    سمیع اللہ خان لسانیات کے شعبے سے وابستہ ہیں اور انہوں نے پاکستان کے نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے صدائے علم کے عنوان سے متفرق مضامین منتخب کیے ہیں تاکہ ان کی وساطت سے نئے لکھاریوں کا کام عوام تک پہنچ سکے۔

    اس کتاب کے ناثر’اردوسخن ڈاٹ کام ہیں اور196 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کہ کتاب میں موجود مواد کے لحاظ سے مناسب ہے‘ کتاب میں معیاری کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔ کتاب کا سرورق ناصرملک نے تیار کیا ہے جو انتہائی دیدہ زیب اوردل پذیر ہے۔

    صدائے علم کے بارے میں


    سمیع اللہ خان کی ترتیب کردہ کتاب صدائے علم متفرق موضوعات پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہے اورزیادہ تر ان لکھاریوں کا کام اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے جو کہ ابھی اس دشت میں نووارد ہیں اور صحرا میں جینے کا قرینہ سیکھ رہے ہیں۔

    کتاب سیاست‘ مذہب‘ ریاست‘ سماج‘ تعلیم اور عوامی شعور جیسے سنجیدہ موضوعات پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے جن کا انتخاب سمیع اللہ خان نے انتہائی باریک بینی سے کیا ہے۔

    سرورق پر صرف کتاب اورترتیب کنندہ کا نام موجود ہے جس سے یہ اندازہ نہیں ہوپاتا کہ یہ تصنیف ہے یا تالیف ‘ یا ادب کی کس صنف کے بارے میں ہے۔

    مضامین کی فہرست کا جائزہ لینے پر کتاب میں ایک اور خامی سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ کتاب ترتیب دینے میں خواتین کو مناسب نمائندگی نہیں دی گئی اور کتاب میں موجود مضامین میں سے محض دو مضامیں خواتین کے تحریر کردہ ہیں جو کہ تناسب کے اعتبار سے انتہائی کم ہے۔

    جب آپ کتاب پڑھنا شروع کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سمیع اللہ خان نےمضامین کے انتخاب میں انتہائی عرق ریزی کی ہے اور ایک ایک مضمون بے پناہ سوچ بچار کے بعد شامل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اک مضمون اپنی جگہ شہہ پارہ ہے۔

    کتاب سے چنیدہ جملے


    برائے فروخت نامی مضمون میں افتخار خان لکھتے ہیں کہ ’’ یہ اس قوم کےپیسے ہیں جس کے بانیوں کی بنیانیں شیروانی کےاندرپھٹی ہوئی تھیں۔ وہ ایک پیالی چائے کے بھی روادارنہیں تھے جو عوام کی جیب سے پی جائے‘‘۔

    عورت آج بھی ونی کی جاتی ہے نامی مضمون میں مقدس فاروق اعوان لکھتی ہیں کہ ’’یا پھر عورت وہ ہے جسے اپنے گھر کے کسی فرد کے کیے گئے جرم کے بدلے میں ونی کردیا جاتا ہے۔ اللہ ! تونے تو عورت کا یہ مقام نہیں رکھا پھر یہ دنیا کے ظالم لوگ کیوں عورت کو قربانی کا دوسرا نام سمجھتے ہیں‘‘۔

    فاصلاتی تعلیم سے متعلق لکھے گئے اپنے مضمون میں سمیع اللہ خان یوں رقم طراز ہیں کہ’’زوال کی تلخ داستان خونِ دل سے لکھتی ہے کہ یورپ میں چودویں صدی عیسویں میں ایجاد ہونے والا چھاپہ خانہ اسلامی دنیا(استنبول)میں 1739ء کو پہنچا اور اس شرط پر لگانے کی اجازت دی گئی کہ اس شیطانی مشین پر قرآنِ حدیث کو نہیں چھاپا جائے گا‘‘۔

    نہ صرف یہ بلکہ کتاب میں موجود زیادہ تر مضمون پڑھنے سے تعلیم رکھتے ہیں جو کہ ناقدین کے اس اعتراض کا جواب ہیں کہ نئی نسل ادب تحریر کرنے کے اس مقام پر نہیں جہاں ان کے پیشرو تھے بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ نئی نسل اپنے پیشرؤں سے کئی قدم آگے ہے اور ادب کے نئے امکانات تلاش رہی ہے۔ یقیناً اس جستجو میں ان سے غلطیاں بھی ہوں گی لیکن اگر صدائے علم کی طرح ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تو یقیناً نئی نسل ہمیں کئی اچھے مصنفین عطا کرے گی جو اپنے پیشروؤں کی میراث کو بہم آگے منتقل کریں گے۔

    مصنف کے بارے میں


    صدائے علم کے مرتب کنندہ سمیع اللہ خان نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز کے شعبہ اردو سے بحیثت استاد وابستہ ہیں۔

    اس کے علاوہ آپ پاکستان ادب پبلشرز سے بحیثیت ڈائریکٹر بھی منسلک ہیں۔ آپ نے سنہ 2010 میں اپنے صحافتی سفرکا آغاز کیا اور مختلف رسائل و جرائد سے وابستہ رہے۔

    ان کے اپنے تصنیف کردہ کالموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جس میں آپ ان کے قلم کی جولانیوں کا مظاہرہ کرسکیں گے۔

  • کلبھوشن عالمی عدالت کیس:  بھارت مطمئن نہیں کرپایا‘ پاکستان قونصلر رسائی دے‘ مکمل فیصلے تک پھانسی نہ دے

    کلبھوشن عالمی عدالت کیس: بھارت مطمئن نہیں کرپایا‘ پاکستان قونصلر رسائی دے‘ مکمل فیصلے تک پھانسی نہ دے

    ہیگ: عالمی عدالتِ انصاف نے کلبھوشن کیس میں اپنا فیصلہ سنا دیا‘ فیصلے میں کہا گیا کہ بھارت عالمی عدالت کو کیس کے میرٹ پر مطمئن نہیں کرپایا‘ پاکستان بھارت کو کلبھوشن تک قونصلر رسائی دے‘ اور امید ہے کہ پاکستان عالمی عدالت کا مکمل فیصلہ آنے تک سزا نہیں دی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی عدالتِ انصاف کے گیارہ ججز پر مشتمل جیوری نے یہ فیصلہ سنایا جس کی قیادت عالمی عدالت انصاف کے صدر رونی ابراہم کررہے تھے جن کا تعلق فرانس سے ہے۔


    عالمی عدالت کے فیصلے کے مندرجات


     جج رونی ابراہم نے فیصلہ سناتے ہوئے  کہا کہ پاکستان اور28 ستمبر 1977 سے ویانا کنونشن کا حصہ ہیں اور عدالت میں ثابت ہوا کہ دونوں کا موقف بالکل الگ ہے۔

    آرٹیکل ون کے تحت عالمی عدالت کو اس مقدمے کی سماعت کا اختیار ہے۔

    پاکستانی قانون کےمطابق کلبھوشن کو 40 دن میں اپیل دائرکرنی ہوگی‘ معلوم نہیں ہوسکاکہ کلبھوشن نےاپیل دائرکی یانہیں۔

    امید ہےعالمی عدالت کامکمل فیصلہ آنےتک کلبھوشن کوسزانہیں دی جائےگی۔

     پاکستان اور بھارت دونوں ویانا کنونشن کو مانتے ہیں کہ دہشت گردی میں ملوث افراد پر ’ویاناکنونشن‘ کااطلاق نہیں ہوتا۔

    پاکستان کلبھوشن سےمتعلق تمام اقدامات سےعدالت کوآگاہ کرے۔

    جج رونی نے کہا کہ عدالت صرف تب ہی ریلیف دے سکتی ہے جب بھارت ک طرف سے شواہد مکمل ہوں بھارت ہمیں مقدمے کے میرٹ پر مطمئن نہیں کرپایا۔


    فیصلے سے پہلے عدالت نےکلبھوشن یادو کیس پر پاکستان اور بھارت دونوں کا موقف سنایا جس میں کہا گیا کہ پاکستان نے بھارت کو آگاہ کیا تھا کہ قونصلر رسائی کے بارے میں بھارت کا ردعمل دیکھ کرفیصلہ کیا جائے گا۔

    بھارت نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ہمارا شہری ہے جسے پاکستان نے اغوا کیا اور اس پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرکے، یک طرفہ ٹرائل کے بعد بغیر قونصلر رسائی کے اسے سزائے موت دینا چاہتا ہے، عالمی عدالت اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد رکوائے۔

    جواب میں عالمی عدالت نے پاکستانی حکام کو طلب کیا، درخواست کی سماعت ہوئی جہاں بھارتی اور پاکستانی وکلا نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے، پاکستانی وکلا نے کہا کہ مذکورہ کیس عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا، عدالت درخواست مسترد کرے۔

    فیصلے کی مکمل ویڈیو: 

  • ڈکیتی میں مزاحمت‘ اے آروائی کے نمائندے عبدالرزاق جاں بحق‘ مقدر حسین زخمی

    ڈکیتی میں مزاحمت‘ اے آروائی کے نمائندے عبدالرزاق جاں بحق‘ مقدر حسین زخمی

    پتوکی: ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت کے نتیجے میں اے آروائی نیوز کے ایک نمائندے جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگئے ہیں جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق یہ افسوس ناک واقعہ پتوکی کے علاقے کھڈیاں اڈے کے نزدیک پیش آیا جہاں ڈکیتی کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں اے آروائی نیوز چونیاں کے نمائندے عبدالرزاق جاں بحق جبکہ نمائندہ پتوکی مقدر حسین شدید زخمی ہوئے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ڈکیتی کی وارداتیں معمول کی بات ہیں اورکوئی بار واقعات رپورٹ کرنے کے باوجود انتظامیہ اور پولیس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

    اس افسوس ناک واقعے پر اے آروائی فیملی نے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے مقتول کے اہلخانہ سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے جبکہ زخمی ہونےوالے نمائندے کو ہر ممکن سہولیات بہم فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    اس موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب پنجاب میں صحافیوں کی جان محفوظ نہیں ہے تو عام آدمی کے لیے صورتحال کتنی خراب ہوگی۔

    پی ایف یو جے نے آئندہ روز یومِ سوگ منانے اور علاقے میں بڑھتی ہوئی ڈکیتی کی وارداتوں کے خلاف احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے۔

  • ماؤں کا عالمی دن‘ ماں کی یاد میں لکھی خوں رلاتی نظم

    ماؤں کا عالمی دن‘ ماں کی یاد میں لکھی خوں رلاتی نظم

    کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ماں سے اپنی محبت کے اظہار کا دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد ماؤں کی عظمت کا اعتراف اورانہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

    اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں ماؤں سے محبت اوران کے احترام کوفروغ دینا ہے مگربہت سی مائیں ایسی بھی ہیں جوناخلف اولاد کی نافرمانی کی وجہ سے زندگی اولڈ ہاوس میں گزارنے پر مجبور ہیں۔

    یاد رہے کہ ماؤں کے عالمی دن منانے کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کا سب سے پہلے یونانی تہذیب میں سراغ ملتا ہے جہاں تمام دیوتاؤں کی ماں ”گرہیا دیوی“ کے اعزاز میں یہ دن منایا جاتا تھا۔ سولہویں صدی میں ایسٹر سے 40 روز پہلے انگلستان میں ایک دن ”مدرنگ سنڈے“ کے نام سے موسوم تھا۔ امریکہ میں مدرز ڈے کا آغاز 1872ءمیں ہوا۔

    سن 1907ءمیں فلاڈیفیا کی اینا جاروس نے اسے قومی دن کے طور پر منانے کی تحریک چلائی جو بالآخر کامیاب ہوئی اور 1911ءمیں امریکہ کی ایک ریاست میں یہ دن منایا گیا، اور اب دنیا کے اکثرممالک میں ہرسال مئی کے دوسرے اتوار کو یہ دن منایا جاتا ہے۔

    آج کے دن کی مناسبت سے آپ کے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کے لیے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے شاعرعلی زریون کی نظم ’’مائے ‘‘ آپ کے پیشِ خدمت ہے۔


    مائے


    سُنو ماں
    جی نہیں لگتا
    قسم سے
    اب تمھارے بِن یہاں پر جی نہیں لگتا
    تم اچھی تھیں بہت مائے
    بتایا تک نہیں مجھ کو
    بِنا سسکی بھرے، اک خواب میں سوئیں
    تو جاگیں دوسری جانب
    اور اتنی دور جا نکلیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی
    ہمیشہ ڈانٹتی تھیں تم
    ” بتائے بن کبھی بھی دیر تک باہر نہ بیٹھا کر”
    مگر خود کَیا کِیا مائے
    کوئی ایسے بھی کرتا ہے ؟؟
    عدم آباد کی دیوار کے اُس پار ایسے جا کے بیٹھی ہو
    جہاں سے یاد آ سکتی ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ تم نہیں مائے
    جہاں تم ہو
    وہاں سب خیر ہے، پیارا ہے اور سر سبز ہے سب کچھ
    وہاں دھڑکا نہیں کوئی
    یہاں خطرہ ہی خطرہ ہے
    یہاں تنبیہ پر تکفیر لاگو ہے
    ہوس زادوں کے ہاتھوں عشق کی تحقیر لاگو ہے
    میں اب تک اُس خدا کے ساتھ ہوں
    جس کا تعارف تم نے بچپن میں کرایا تھا
    بتایا تھا
    خدا ظلمت نہیں ہوتا
    خدا خود آگہی کا اسمِ اعظم ہے
    خدا کے نام لیوا، نام لیوائی کا خدشہ بھی نہیں رکھتے
    تمھی نے تو سکھایا تھا
    علی اپنا، حسین اپنا، عُمر اپنا ، ہر اک صدّیق ہے اپنا
    کوئی جھگڑا نہیں تھا
    ہم سبیلیں خود لگاتے تھے
    محرّم کے دنوں میں کوئی گھر میں بھی اگر ہنستا تو تم کچھ بولتی کب تھیں
    نگاہوں ہی نگاہوں میں کوئی تنبیہ تھی جو جاری ہوتی تھی
    وہ کیسی سرزنش تھی
    جو نہایت پیار سے تعلیم دیتی تھی
    تو سب بچوں کی آنکھوں میں محرّم جاگ اٹھتا تھا
    بھلا ہم ایسے لا علموں کو کب معلوم ہوتا تھا
    کہاں ہنستا کہاں ہنسنا نہیں ہے
    تم بتاتی تھیں
    مجھے سب یاد ہے مائے
    تمھارا مجھ سے یہ کہنا
    علی پتّر تُو پنجابی اچ نئیں لکھدا؟
    جے نئیں لکھدا تے لکھیا کر
    فقیراں عاشقاں سُچیاں دی دھرتی دی بڑی انمول بولی اے”
    میں لکھدا سی مِری مائے
    ترے پیراں دی مٹی دی قسم مائے
    میں پنجابی بھی لکھتا تھا
    مگر تم کو سنانے کی کبھی ہمت نہ پڑتی تھی
    تمھاری قبر کی مٹی کی خوشبو سے لپٹتا ہوں
    تو پھر یہ سوچتا ہوں
    کس جگہ ہوں میں
    میں جب تکفیر کے تیروں سے چھلنی لوگ تکتا ہوں
    تو کہتا ہوں
    خدا کے نام لیواؤں کو اک ’’ماں‘‘ کی ضرورت ہے
    جو ان کو نرم کر پائے
    جو ان کو یہ بتا پائے
    خدا ظالم نہیں ہوتا
    سنو مائے
    میں تم کو یاد کرتا ہوں
    خدا بھی یاد آتا ہے
    خدا کو یاد کرنا بھی تمھی نے تو سکھایا تھا

    علی زریون